قرآن مجید او راحادیث نبویہﷺ میں جنت کی اتنی انواع واقسام کی نعمتوں کا ذکر ہے کہ سننے والے کے دل میں اس کے حصول کا اشتیاق پیدا ہوجانا فطری امر ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے جب جنت و جہنم کو تیار کیاتو حضرت جبریل علیہ السلام سے کہاکہ وہ ان کا معائنہ کرلیں۔ انھوںنے معائنہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے دریافت کیاکہ بتائو یہ دونوں جگہیں کیسی ہیں؟ حضرت جبریل نے جواب دیاکہ بارِالٰہا!جنت ایسی جگہ ہے، جو شخص اس کی نعمتوں کے بارے میں سنے گا وہ ضرور اس میں داخل ہونے کی تمنا کرے گا اور جہنم ایسی جگہ ہے کہ جو شخص بھی اس کے بارے میں سنے گا وہ اس سے دور رہنا پسند کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت کو مکارہ ﴿ناگواریوں﴾ سے گھیر دیا اور جہنم کو شہوات ﴿نفسانی خواہشوں﴾ سے۔ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ حضرت جبریل علیہ السلام کو معائنہ کرنے کے لیے کہا۔ حضرت جبرئیل ؑنے معائنہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے دریافت فرمایاکہ جبریل!اب ان کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہاکہ جنت میں اب مشکل ہی سے کوئی شخص داخل ہوپائے گا اور جہنم سے مشکل ہی سے کوئی شخص بچ سکے گا۔ ﴿فتح الباری۱۱/۰۲۳﴾ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
حجبت النار بالشہوات وحجبت الجنۃ بالمکارہ ﴿بخاری کتاب الرقاق باب حجبت الناربالشھوات﴾
قرآن و حدیث کے مطالعے سے پتاچلتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک اور محبوب بندوں کی ضیافت کے لیے جنت تیار کی ہے۔ جنت میں داخلہ کسی شخص کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی، جہاں وہ ہمیشہ کی زندگی گزارے گا، لیکن جنت میں داخلے کے لیے کچھ شرائط ہیں جن کا پورا ہونا ضروری ہے اسی صورت میں جنت کی ابدی زندگی حاصل ہوسکتی ہے ۔محض اس کی تمنا اور آرزو کرنے سے اس میں داخلہ ممکن نہیں ہے۔ صحابہ کرام ؓاس حقیقت سے واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اندر جنت، میں داخلے کا سخت اشتیاق پایاجاتاتھا مگر انھوںنے کبھی آرزو اور تمنا کی بنیاد پر داخلے کی خواہش نہیں کی۔ بل کہ جب بھی اس کے بارے میں اپنے اشتیاق کا اظہار کیا کچھ مخصوص اعمال کے پس منظر میں کیا۔یا انھیں بتایاگیاکہ ان اعمال کی بنیاد پر تم جنت میں داخل ہوسکتے ہو۔ صحابہ کرامؓ نے ایسے اعمال کو بجالانے میںایک دوسرے سے مسابقت کی۔
ذیل میں چند ایسی روایات نقل کی جاتی ہیں جن سے صحابہ کرامؓ کے جنت میں جانے کے اشتیاق پر بھی روشنی پڑتی ہے اور کچھ مخصوص اعمال کی طرف رہ نمائی بھی حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد ہے:
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، انھوں نے بتایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا اور عرض کیاکہ مجھے ایسے اعمال بتائیے کہ جن کی بجاآوری سے میں جنت میں داخل ہوجائوں۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، فرض نمازیں ادا کرو، زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو ۔ اس شخص نے کہا کہ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان اعمال میں نہ کمی کروںگا اور نہ زیادتی کروںگا۔ جب وہ شخص جانے لگا تو آپﷺ نے فرمایا :’’جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ وہ کسی جنتی کو دیکھے تو اس شخص کو دیکھ لے‘‘ ۔ ﴿بخاری ،کتاب الزکاۃ ۱﴾
ایک دوسری روایت میں ارکان اسلام کی ادائی کے بعد آپﷺ نے فرمایا’’اور صلۂ رحمی کرو‘‘
اسلام ایک عملی مذہب ہے۔ اس لیے اس میں بعض ایسے احکام دیے گئے ہیں، جن کامخاطب ہر شخص ہے۔ انھی میں ارکان اسلام ہیں۔ کلمۂ شہادت کے بعد نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی ادائی، یہ ارکان اسلام کہلاتے ہیں۔ یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں۔ ان پر عمل کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ گرچہ زکوٰۃ اور حج میں نصاب اور استطاعت کی قید لگی ہوئی ہے اور روزے میں بعض صورتوں میں تخفیف کی گئی ہے تاہم وہ تطبیقی مسائل ہیں۔ ان سے ان احکام کی اہمیت میں کوئی فرق نہیںپڑتا ہے۔ کلمۂ شہادت کے اقرار کے بعد نماز کی پابندی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کو کفرو ایمان میں فرق کرنے والی چیز بتایاگیاہے۔ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور مومن کی معراج ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ، حج اور روزے کی خصوصی اہمیت و فضیلت احادیث صحیحہ میں وارد ہے۔
ارکان اسلام کی ادائی کے ساتھ حقوق العباد کی بھی خصوصی اہمیت ہے۔ آدمی کے عقائد اچھے ہوںاور عبادات بھی وہ بجالاتاہو لیکن اپنے متعلقین کے حقوق ادا نہ کرتاہوتو اس کی دینی حالت قابل اطمینان نہیں کہی جاسکتی۔ اس لیے قرآن وحدیث میں متعدد جگہوں پر حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی تذکرہ ہواہے۔ مثال کے طورپر سابقہ حدیث ہی میں ایک روایت کے مطابق سوال پوچھنے والے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارکان دین کے بعد ’’صلۂ رحمی‘‘ کے بارے میں بتایا۔ اس طرح ایک دوسری روایت میں وارد ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے مروی ہے انھوں نے بتایاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ کون سے اعمال جنت سے قریب تر ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنا۔ میں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون سے اعمال جنت سے قریب تر کرنے والے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک۔ میں نے تیسری دفعہ پوچھا اس کے بعد کون سے اعمال جنت سے قریب تر ہیں آپﷺ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا‘‘۔ ﴿مسلم کتاب الایمان باب کون الایمان باللہ تعالیٰ افضل الاعمال﴾
اس حدیث میں نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنے اور جماعت کی پابندی کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بات کہی گئی ہے۔ حقوق العباد میں والدین کا مقام سرفہرست ہے قرآن و حدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک پر کافی زوردیاگیا ہے۔ آدمی کے حسن سلوک کے اولین مستحقین میں والدین ہی کو قرار دیاگیا ہے۔ ایک روایت میں وارد ہے، ایک شخص نے آپﷺ سے دریافت کیاکہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا :تمہاری ماں۔ آپﷺ نے یہ بات متعدد بار ارشاد فرمائی۔ اسی طرح ایک دوسری روایت میں آپﷺ نے فرمایاکہ جنت تمہاری ماں کے قدموں تلے ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ والدین کی نافرمانی اکبر الکبائر میں سے ہے۔ والدین کی بدسلوکی کی سزا آدمی کو دنیا میں بھی دیکھنی پڑسکتی ہے۔
والدین کے ساتھ دوسرے متعلقین اور عام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک بھی جنت میں جانے کا ذریعہ ہے۔ خاص طور سے کمزور طبقات، غربائ ومساکین کے ساتھ بھلائی کرنا، اللہ کو راضی کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بعض خوبیوں کا تذکرہ فرمایاتو ایک شخص نے دریافت کیاکہ اس میں کون شخص داخل ہوگا؟ اس کے جواب میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص لوگوں سے اچھی بات کرے گا ، کھانا کھلائے گا اور عبادتوں کی پابندی کرے گا۔ ارشاد ہے:
حضرت علیؓ سے مروی ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے کمرے ہیں جن کے اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظرآتا ہے۔ ایک دیہاتی شخص کھڑا ہوا اور سوال کیاکہ ان میں کون داخل ہوگا؟ آپﷺ نے فرمایا: جس نے اچھی بات کی ﴿اچھّے اخلاق کے ساتھ خوش گفتاری کی﴾ کھا ناکھلائے، نفل روزے رکھے اور راتوں میں جب لوگ سوچکے تو اٹھ کر نمازیں پڑھیں۔ وہ اس میں داخل ہوگا‘‘۔ ﴿ترمذی کتاب الجنۃ نمبر ۲۵۲۷﴾
عام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی بنیاد پر ان کی خیرخواہی کا جذبہ ہے۔ جہاں خیرخواہی ہو وہاں بغض ، کینہ اور حسدنہیں ہوتاہے۔ آدمی کا دل دوسروں کے تعلق سے کینہ و حسد اور عداوت سے پاک ہو یہ ایک قابل رشک اخلاقی صفت بھی ہے اور جنت میں جانے کا ذریعہ بھی۔ ایک روایت میں وارد ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو مسلسل تین روز تک جنت کی خوشخبری دی۔ صحابہؓکرام کو تعجب ہوا، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے ان کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اس شخص کے گھر تین روز قیام کیا اور جوبات معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ اس کا دل کینہ کپٹ سے خالی ہے اور وہ کسی شخص کے بارے میں بغض وحسد میں مبتلا نہیں ہوتا۔ ارشاد ہے:
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے انھوں نے بتایاکہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اسی دوران میں آپﷺ نے فرمایاکہ ابھی ایک شخص آئے گا، جو جنتی ہے۔ ایک انصاری شخص حاضر ہوا، اس کی ڈاڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہاتھا اور اس نے اپنے جوتے بائیں ہاتھ میں اٹھارکھے تھے۔ جب دوسرا دن آیاتو نبی کریمﷺ نے اسی طرح پھر ارشاد فرمایا۔ دوبارہ وہی شخص اسی حالت میں حاضر ہوا۔ تیسرے دن بھی نبی کریمﷺ نے وہی ارشاد فرمایا۔ تیسرے دن بھی وہ شخص اسی حالت میں حاضر ہوا۔ جب نبی کریمﷺ چلے گئے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص نے اس انصاری شخص کاپیچھا کیا اور اُس سے کہاکہ میرا میرے باپ سے جھگڑا ہوگیا ہے لہٰذا میں نے قسم کھارکھی ہے کہ تین دن تک گھر نہیں آئوںگا۔ اگر آپ مجھے ان تین دنوں میں اپنے یہاں ٹھہرنے کی اجازت دے دیں تو بڑی نوازش ہوگی۔ اس نے کہا ٹھیک ہے ﴿تم میرے گھر ٹھہرو﴾ حضرت انس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اس انصاری کے یہاں تین دن قیام کیا۔ انھوں نے ان کو رات میں بھی قیام کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے یہ کہ بستر پر جاتے وقت انھوں نے اللہ کا ذکر کیا اور اس کی بڑائی بیان کی۔ پھر وہ سورہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور فجر کی نماز کے لیے وہ جاگے۔ دوسری بات جو انھوں نے دیکھی وہ یہ تھی کہ اس شخص نے جب بھی زبان سے کوئی بات ادا کی تو وہ خیر پر مبنی تھی۔ جب تین دن گزرگئے اور قریب تھاکہ میں اس کے اعمال کو حقارت کی نگاہ سے دیکھوں، میں نے کہا کہ اے اللہ کے بندے! میرا میرے باپ سے کوئی جھگڑا نہیں تھا اور نہ کوئی ایسی بات تھی لیکن اصل بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے بارے میں تین بار ایسے فرماتے ہوئے سناتھا تو میری خواہش ہوئی کہ آپ کے یہاں آکر ٹھہروں اور دیکھوں کہ آپ کے کیا اعمال ہیں، جن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوش خبری سنائی ہے۔ میں بھی ان اعمال کو بجالائوں ﴿اور جنت کا مستحق بنوں﴾ لیکن میں نے آپ کو بہت زیادہ ایسا کوئی کام کرتے ہوئے نہیں پایاکہ جن کی وجہ سے میں سمجھوں کہ نبی کریمﷺ نے آپ کو جنت کی خوش خبری دی۔ اس انصاری صحابی نے جواب دیاکہ بے شک میں ایسے ہی ہوں جیسے آپ نے مجھے تین دنوں میں ملاحظہ کیا ہے۔ پھر عبداللہ بن عمرو بن العاص واپس جانے لگے۔ انھوں نے ان کو بلایا اور عرض کیا۔ بے شک بات ایسی ہے جیسی میں نے کہی اور آپ نے دیکھامگر بات یہ ہے کہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے بارے میں کوئی کینہ نہیں رکھتا اور نہ اس سے حسد کرتاہوں اس نعمت پر جو اللہ نے اس کو دیا ہے۔ عبداللہ نے کہا ۔ یہی بات ہے جس کی وجہ سے آپ کو خوش خبری دی گئی اور ہم اس سے قاصر ہیں‘‘۔ ﴿مسنداحمد: ۱۶۶/۳﴾
زندگی میں انسان مختلف مسائل کا شکار ہوتاہے بعض اوقات بعض مسائل لاینحل بھی ہوتے ہیں۔ وہ مسائل آدمی پوری زندگی ڈھونے پر مجبور ہوجاتاہے۔ ان کو حصول جنت کاذریعہ بنالیا جائے یہ ایک مومن کے عزم اورحوصلے کی بات ہے۔ بعض روایات میں مشکلات زندگی میں صبر وعزیمت کی تلقین کی گئی ہے اور ان کو گناہوں کا کفارہ یا بلندی درجات کاذریعہ قرار دیاگیا ہے۔ بعض مسائل سیدھے جنت میں جانے کے اسباب ہوتے ہیں۔ ایک روایت میں ارشاد ہے:
حضرت عطا بن ابی رباح سے مروی ہے انھوں نے بتایاکہ حضرت عبداللہ ابن عباس نے مجھ سے کہاکہ کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت کو نہ دکھادوں؟ میں نے عرض کیا:کیوں نہیں؟ ضرور دکھائیے۔ آپﷺ نے کہا اس کالی عورت کو دیکھو، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیاکہ مجھے مرگی ہوتی ہے اور بے پردگی ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کردیجیے کہ مجھے اس سے شفا مل جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو صبر کرو اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت مل جائے گی اور اگر تم کہو تو میں دعا کرتاہوں اللہ تمہیں اس سے شفا دے دے گا۔ اس نے کہاکہ میں صبرکروںگی ﴿اور جنت کو ترجیح دیتی ہوں﴾ اس نے مزید عرض کیاکہ میری بے پردگی ہوجاتی ہے۔ اس کے بارے میں آپﷺ دعا کردیجیے آپﷺ نے دعا فرمائی۔ ﴿بخاری کتاب المرضیٰ: ۵۶۵۲﴾
اللہ تعالیٰ پر توکل ایمان کاحصہ ہے اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا،جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو خوف ورجا کامرکز نہ بنالے۔ مومن سے یہ مطلوب ہے۔ مگر توکل کاایک درجہ یہ ہے کہ آدمی اپنے سارے معاملات کلی طورپر اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے۔ یہاں تک کہ جائز اور حلال ذرائع بھی اختیار نہ کرے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے بیماریاں بھی بنائی ہیں اور ان کا علاج بھی بتایاہے اور مسلمانوں کو علاج کا حکم دیاہے مگر کوئی شخص مرض میں دوائیں استعمال نہ کرے بلکہ کامل طورپر اللہ پربھروسا رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو شفا دے گا تو ایسے شخص کے بارے میں آیاہے کہ بلاحساب و کتاب جنت میں داحل ہوگا۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2010