زندگی نو مارچ ۲۰۱۶ء کے شمارہ میں پروفیسر مسعود عالم صاحب کا مضمون’’ غیر اسلامی ریاست میں شرکت‘‘پیش نظر ہے ۔ موصوف نے یہ مقالہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ہوئے ایک سمینار جو ۲۸؍۲۹؍ اپریل ۲۰۱۲ء میں یونیورسٹی کے آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں شعبۂ سیاسیات اور ’اسلامی فقہ اکیڈمی ‘ کے اشتراک سے منعقد ہوا تھا ۔ اس میں پیش کیا تھا، نہیں معلوم انہوںنے اتنا لمبا عرصہ انتظار کرنے کے بعد اب اسے زندگی میں کیوں شائع کرایا ہے ۔ راقم بھی اس سمینار میں ایک سامع کی حیثیت سے شریک ہوا تھا ۔
مقالہ کا مدعا اورمنشا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ کافی پہلے سے تحریک اسلامی کے اندر موضوع بحث بنی ہوئی ہیں اوراسی طرح کی باتیں کہیں جاتی ہیں ۔ ان باتوں کے مدلل جوابات بھی دئے جاتے ہیں ۔ مگر یہ عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ ان جوابات پر غور کرنے کے بجائے وہی پرانی باتیں مختلف انداز اورمختلف افراد کے حوالے سے بار بار دہرائی جاتی رہتی ہیں اوروہی پرانے دلائل جن کی تردید مضبوط بنیادوں پر کی جاچکی ہے ان کی کمزوری ثابت کرنے کے بجائے انہی فرسودہ باتوں کی تکرار کی جاتی ہے ۔ اب جناب مسعود فلاحی نے شیخ یوسف القرضاوی کے حوالے سے وہی باتیں انہیں دلائل کے ساتھ پیش کی ہیں جو موجودہ حالات کے تناظر میں عموماً پیش کی جاتی ہیں ۔ جس تفہیم القرآن سے انہوں نے آیات کے ترجمے پیش کئےہیں خاص طور پر سورۂ یوسف آیت ۵۵ کا ترجمہ (ملک کے خزانے میرے سپرد کیجے میں حفاظت کرنے والا ہوں اورعلم بھی رکھتا ہوں ۔ زندگی ص 69) یہی ایک دلیل سب کو ہاتھ آتی ہے ۔ اگر اس کے ساتھ وہ تفہیم ہی سے اس کی تفسیر بھی پیش کردیتے تواس دلیل کی کمزوری سب پر عیاں ہوجاتی ۔ مگر ایک صحیح تفسیر چونکہ ان کی رائے اور منشا ء کے خلاف تھی اس لیے انہوںنے اسے نظر انداز کرکے شیخ قرضاوی کی ایک کمزوربات کوترجیح دی ۔ بلاشبہ علامہ قرضاوی عالم اسلام اوراخوان کے ایک معروف رہنما ہیں اوربیشتر اسلامی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔ راقم نے بھی ان کی کتابیں پڑھی ہیں ۔ لیکن ان کی ہر بات سے اتفاق کرنا بڑا مشکل ہے۔
لوگوں کے دل ودماغ میں نہ جانے یہ بات کیسے سما گئی ہے جونکلنے کا نام ہی نہیں لیتی کہ جب تک غیر اسلامی نظام حکومت میں کسی طرح کی شرکت یا شمولیت نہ ہو اس وقت تک عملی سیاست ہوہی نہیں سکتی ۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جب تک نظامِ باطل میں حصہ داری نہ ہو آدمی کا عملی سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا ۔ حالانکہ لفظ ’سیاست‘ کے مفہوم پر اگر غور کرلیا جائے تومسلمان کا ہر عمل سیاسی کہلا سکتا ہے ۔ غالباً سیاست کے لفظ پر بغیر غور وفکر کیے ہی ساری باتیں کہی جاتی ہیں ۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ’’سیاست‘‘ کے مفہوم پر تھوڑی سی گفتگو کرلی جائے۔ مولانا گوہر رحمٰن (شیخ الحدیث دارالعلوم تفہیم القرآن ۔ مردان )عربی کی مستند معروف تین لغات (۱)لسان العرب (ابن منظور ) (۲) النہایہ (ابن الاثیر ) (۳) تاج العروس شرح قاموس کے حوالے سے لکھتے ہیں:۔
سیاست بروزن اِمارت سَاسَ، یسُوسُ بروزن قَال یقُولُ سے مصدر کا صیغہ ہے ۔ اس باب کا مصدر سَوسٌ بروزن قَولٌ بھی آتا ہے ۔ سیاست اورسوس کے اساسی معنی ہیں اصلاح کرنا اورسنوارنا اس لغوی مفہوم کی مناسبت سے یہ دونوں مصدر ریاست وحکومت اورتدبیر مملکت کے معنوں میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ (اسلامی سیاست ص 16، ناشر مکتبہ ذکریٰ ، مٹیا محل جامع مسجد دہلی طبع ۱۹۹۷ء)
آگے مزید لکھتے ہیں:۔
عربی زبان کا لفظ ’’سیاست‘‘ انگریزی زبان کے لفظ Politics(پالیٹکس) کا ہم معنی نہیں ہے ۔ عربی کے لفظ سیاست کا مفہوم عام ہے۔ اصلاح نفس ، خاندانی سیاست، تعزیری سیاست اورمطلق اصلا حی کا م سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں ۔ لیکن پالیٹکس کا انگریزی لفظ صرف ملکی ، قومی اورحکومتی سیاست کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اس لفظ کا عربی مرادف ’السیاسۃ المدنیۃ ‘ ہے ۔ پالیٹکس یونانی لفظ ’’پو لیس ‘ ‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں شہری حکومت ۔ یہ لفظ اپنے یونانی معنی میں تیرہویں صدی عیسوی کے اوائل میں فرانسیسی زبان میں استعمال ہونا شروع ہوا تھا ۔ (ایضاً 24) آج بیشتر لوگ اسی فرانسیسی مفہوم کو ہی سیاست سمجھتے اور کہتے ہیں ۔
مولانا گوہر رحمٰن سیاست شرعیہ کی مختلف قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان ہوچکی ہے کہ پالیٹکس کا تعلق صرف کاروبار حکومت سے ہوتا ہے ۔ مگر عربی کے لفظ سیاست میں ہر قسم کی اصلاحی اورتادیبی تدابیر شامل ہیں ۔ اس کی تقسیم اس طرح کی جاسکتی ہے :۔
۱۔ سیاسۃ النفس: اصلاح نفس کی تدابیر تاکہ کردار درست ہوجائے۔
۲۔ سیاسۃ البیت: اپنے گھر کا انتظام خوش اسلوبی سے چلانے کی تدابیر
۳۔ سیاسۃ المنزل: خاندانی نظام کی خوش اسلوبی سے چلانے کی تدابیر
۴۔ سیاسۃ الوعاظ : تعلیم وتربیت اور وعظ ونصیحت کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کا کام کرنا۔
۵۔ سیاسۃ المدنیۃ : باقاعدہ منظم حکومت کا نظم ونسق چلانا ۔
۶۔ سیاسۃ الدّواب : جانوروں سے کام لینے اوران کو تابع بنانے کی تدابیر۔
امام غزالیؒ فن سیاست کی اہمیت اوراس کی قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
سیاست کے چاردرجے ہیں:۔
(۱)السیاسۃ العلیا: یعنی اعلیٰ اور بلند ترین سیاست
یہ انبیا ء کرام کی سیاست ہے جس کے ذریعے سے لوگوں کے ظاہر وباطن دونوں کی اصلاح ہوتی ہے اورجس کا تعلق ہر خاص وعام سے ہوتا ہے ۔ ظاہر میں احکام وقوانین کا نفاذ اورحسن انتظام روبہ عمل آتا ہے اوران کی تعلیم وتربیت کی وجہ سے لوگوں کے قلوب میں ملکات حسنہ اوراخلاق فاضلہ پیدا ہوتے ہیں۔
(۲) سیاسۃ الخلفاء والملوک: یعنی حکمرانوں کی سیاست (اس میں خلفاء سے مراد خلفاء راشدین نہیںہیں۔)ان کی سیاست عام وخاص کے لیے ہوتی ہے لیکن ان کا حکم صرف ظاہری زندگی میں چلتا ہے ۔ باطن اورقلوب پر حکومت کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔
(۳) سیاسۃ العلماء والفقہاء : علماء دین اورفقہاء اسلام کی سیاست
ان کی سیاست مادی قوت اور اقتدار کےبغیر تعلیم وتربیت کے ذریعے ہوتی ہے ۔ ولایۃ عامہ ان کو حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ جولوگ ذہین اور علم کے شائق ہوتے ہیں وہ ان سے استفادہ کرتے ہیں اوران کی درویشی کواپنے لیے سلطانی سمجھتے ہیں ۔ تاریخ اسلام میں ایسے علماء گزرے ہیں اورآج بھی موجود ہیں کہ لوگ ان کا احترام بادشاہوں سے زیادہ کرتے ہیں اوران کے حکم کوحکمرانوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔
(۴) سیاسۃ الوعاظ: خطیبوں اور واعظوں کی سیاست
یہ حضرات وعظ ونصیحت اور خطابت کے ذریعہ عوام کی اصلاح کرتے ہیں اورلوگوں کے دلوں کومسخر کرکے ان پر حکومت کرتے ہیں۔( ایضاً ص ۳۷،۳۸)
مذکورہ بالا سیاست کے اسلامی مفہوم کوسامنے رکھتے ہوئے یہ بات پورےوثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سیاست کا مفہوم قرآنی اصطلاح ’’تزکیہ ‘‘ کا ہم معنی ہے اور تزکیہ انفرادی طور سے لے کر اجتماعی سطح تک مطلوب ہے ۔ اس لیے مسلمان کا ہر عمل سیاسی کہا جاسکتا ہے ۔ یہاں تک کہ نما ز جیسی عبادت بھی ایک بہتر ین سیاسی عمل ہے جوتمام مسلمانوں کومکمل حکومت کی سیاسی تربیت دیتی ہے ۔
لیکن سیاست کے جمہوری مفہوم میں دجل وفریب اورمکرودروغ گوئی اس کی نمایاں صفات ہیں۔ اس لیے کہ جمہوری سیاست کا عمل آخرت میں کسی اچھے یا برے نتیجے سے بالکل بے نیاز ہوکر انجام دیا جاتا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک مسلمان تووہاں آخرت کی فکرو عقیدہ لےکر جائے گا اسے کیوں ان میں شمار کیا جائے؟ یہ خیال محض ایک خوش فہمی کے سوا اورکچھ نہیں اس لیے کہ ایک سچا مسلمان آخرت کی فکر لے کر وہاں جاہی نہیں سکتا جہاں ہر قدم پر بڑے بڑے طاغوتی مگر مچھ اپنا منہ کھولے اس کے دین وایمان کوہڑپ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوں ۔ جس کوہو دین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں۔ وہاں وہی جاسکتا ہے جواپنے دین وایمان کوخیر باد کہہ کر ان کے رنگ میں رنگ جائے اورانہی جیسا جھوٹا اورمکار بن جائے ۔ سیاست دانوں کا جھوٹے وعدے کرکے عوام کودھوکے دینا جمہوری سیاست کا مقبول ترین فیشن ہے اور مودی سرکار نے تو اس معاملے میں سارے سابقہ ریکارڈ توڑ کر انتہائی ’’فضیلت‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’تخصص‘‘ کا درجہ حاصل کرلیا ہے اورغضب بالائے غضب یہ بھی کہ اپنی دجالی خباثت پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپنی عارضی فتح پر پھولے نہیں سماتے بن رہا ہے ۔ مسرت کے شادیانے اس طرح سے بجا رہے ہیں گویا انہیں ہمیشہ کے لیے اقتدار مل گیا ہے ۔ حالانکہ ان کا انجام بہت قریب ہے ۔ اپنے اس ’’اسوہ حسنہ‘‘ سے ملک وقوم کے لیے جونمونے وہ چھوڑیں گے اوران کے لوگ ان کی پیروی میں دَجّالیت کے کیسے نئے نئے ہتھکنڈے ایجاد کریں گے یہ دیکھنے کی چیز ہوگی ۔
غیر اسلامی اورباطل حکومت میں شرکت کے لیے سب سے پہلے اسلام کے مفاد کو ختم کرنا پڑے گا اوروہ تمام غیر اسلامی طریقے اختیار کرنے پڑیں گے جن سے اسلام منع کرتا ۔ جب تک ان منکرات کو اختیار نہ کیا جائے اس وقت تک اس کے نظام میں شامل ہونا ممکن ہی نہیں اوراس میں قدم رکھنے سے پہلے ہی قرآن پاک سختی سے تنبیہ کرتے ہوئے کہتا ہے :
’’جو شخص اسلام( اللہ کی فرمانبرداری ) کے سوا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے گا اس کا وہ طریقہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اورآخرت میں وہ ناکام ونامراد رہے گا ۔‘ ‘ (آ ل عمران: ۸۵)
اس طرح اسلام کا مفاد تو پہلے ہی قدم پر ختم ہوجاتا ہے ۔ اب صرف قومی مفادات سامنے رہ جاتے ہیں ملی مفاد بھی نہیں اس لیے کہ ابھی تک مسلم قوم نے ’ملت‘ اور’امت‘ کی شکل ہی اختیار نہیں کی ہے ۔ حالانکہ زبانوں پر ’’ملی مفادات‘‘ کا ہی فقرہ رہتا ہے۔
آپ تمام اسلامی طریقوں کونظر انداز بھی کردیں اورشریعت سے بے نیاز ہوکر ایک باطل حکومت میں شامل ہونا چاہیں تب بھی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دوسرے آپ کو مسلمان ہی سمجھیں گے اورمسلمان سمجھ کر وہی نفرت انگیز رویہ اختیار کریں گے جوان کی سیاست ہے ان کے رویہ کوبدلنے کے لیے آپ کو اپنے ضمیر کے خلاف ان کی تائید بھی کرنی پڑے گی ۔ پھر بھی آپ کچھ نہیں کرپائیں گے ۔ آخر مولانا آزاد کے ساتھ کیا ہوا؟ تعلیمی وزارت کا قلم دان رکھ کر بھی وہ آپ کے حق میں کچھ نہیں کرسکے اور مولانا لفظ الرحمٰن جوبڑے ہی پر جوش ممبر پارلیمنٹ تھے لیکن سوائے تقریروں اور جوشیلے بیانات دینے کے علاوہ کیا کرسکے ۔ ان کی کتنی بات مانی گئی ؟ اس پر بھی گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آپ غیر اسلامی اور باطل حکومت کے نظام حکومت وسیاست میں شریک ہونے کے لیے آپ کی کامیابی کا کتنا امکان ہے؟ یہاں جدا گانہ انتخاب کا کوئی سسٹم نہیں بلکہ مخلوط انتخاب کے ذریعے اقتدار کی کرسی تک پہنچ جا تا ہے ۔ آپ تنہا اقتدار کیسے حاصل کرسکیں گے؟ جہاں پارٹی سسٹم ہووہاں حزب اقتدار اورحزب اختلاف دو مستقل گروپ ہوتے ہیں ۔ اگر برسر اقتدار پارٹی کوئی صحیح کام بھی کرنا چاہے تو اپوزیشن لازماً اس کی مخالفت کرتی ہے اوراس کے اقتدار کا پورا عرصہ اسی رسہ کشی میں گزرتا ہے کہ وہ اپنی کرسی کو کس طرح استحکام عطا کرے ۔ اپنے اقتدار کی مدت میں وہ کوئی تعمیری کام کرے یا نہ کرے لیکن ملک کی دولت کواپنی تجوریوں میں بھرنے اوراسے ملک سے باہر اپنے یا کسی قریبی عزیز کے نام بینکوں میں جمع کرنے کا کام بڑی مستعدی سے انجام پاتا ہے اس لیے کہ دوسرے انتخابی دور میں اس کا اقتدار پر رہنا یقینی نہیں ہوتا اس لیے پہلی ہی دفعہ وہ خود کو آسودہ حال بنا لینا چاہتا ہے تا کہ مستقبل محفوظ ہوجائے ۔ آپ کو اگر چند سیٹیں مل بھی گئیں توکیا اسے روک سکیں گے؟ حالانکہ خیانت کا یہ عمل سراسر ملک وقوم سے غداری ہے ایسا کرنے والوں پر دیش دروہی کا مقدمہ چلنا چاہیے مگر اس حمام میں توسبھی ننگے ہیں ۔ کون کس پر مقدمہ چلائے گا۔
بالغرض محال اگر آپ کسی کراماتی طریقے سے —( جس کا امکان بہر حال نہیں ہے ۔ اس لیے کہ آپ حضرت یوسفؑ کی طرح نبی معصوم نہیں اور نہ حفیظ علیم کے دعوے سے آئیں گے ۔ نبی کوتواللہ کی طرف سے علم دیا گیا تھا اورحفاظت کے طریقے بتائے گئے تھے جس کی بنیاد پر انہوںنے حفیظ علیم کہا تھا اورنہ وقت کے جمہوری بادشاہوں نے سارے ’’خزائن الارض‘‘ آپ کے حوالے کیے ہیں ۔ نہ فوج آپ کے ساتھ نہ عدلیہ آپ کے اصولوں کے تابع اور نہ انتظامیہ آپ کی اطاعت گزار)— مسند اقتدار تک وہ تمام غیر اسلامی جمہوری طریقے اختیار کرکے پہنچ بھی گئے توکیا کرسکیں گے؟ کوئی تعمیری کام کرنے کے لیے ایک لمبا عرصہ در کار ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے ہی آپ کی حکومت سے بے دخلی عمل میں آگئی تواس کا کیا علاج سوچا ہے ؟ الجزائر میں کیا ہوا ؟ مصر میں اخوان کے ساتھ کیا ہوا؟ پاکستان میں جماعت اسلامی کیا اورکتنا کر پارہی ہے ؟ بنگلہ دیش میں کیا ہورہاہے ؟ یہ ممالک تومسلم اکثریتی علاقے ہیں ۔ مگر آپ تویہاں اکثریت میں بھی نہیں ہیں اورجمہوریت میں اکثریت ہی کی حکومت بنتی ہے ۔ سوائے اس کے کہ اس میں ملوث ہوکر وقت ، صلاحیت اورپیسوں کوضائع کریں اور غیر اسلامی طریقوں کواختیار کرکے گناہوں کا انبار سمیٹ لیں اورکچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ جس چیز میں فائدہ کم اورنقصانات اورگناہ زیادہ ہوں اسے چھوڑدیا جائے۔
اس لیے خیر وعافیت — دنیا وآخرت دونوں جہاں کی — اسی میں ہےکہ نظام باطل میں حصہ داری یا شرکت کے خیال سے دل ودماغ کوفارغ کرکے اپنے اسلامی ادارے الگ بنائے جائیں ۔ سب سے پہلے کام عالمی سطح پر خلافت اور اولیٰ الامر کا قیام ہے ۔ جس سمینار میں جناب مسعود فلاحی نے اپنا مقالہ پڑھا تھا اسی میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانیؒ صاحب نے ’’اسلام کا سیاسی نظام ‘‘ کے عنوان سے اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا تھا جس میں انہوںنے عالمی سطح پر اب اتحاد ہونا نا گزیر ہے اوراس گلوبلائزیشن کے دور میں جب کہ جدید ٹکنالوجی نے سب کوباہم مربوط کردیا ہے اس فرض کی ادائیگی کے امکان روشن ہوگئے ہیں ۔ عالمی اتحاد کے لیے انہوںنے چھ عملی شکلیں بھی تجویز کی ہیں۔ (ملاحظہ ہواسلامی سیاست ص ۳۵۱) اگر یہ بڑا اور اصول کا م فی الحال انجام نہ دیا جاسکے تواس سے کم تربات یہ ہوگی کہ ملکی سطح پر ایک اولی الامر کا انتخاب اسلامی طریقوں اورمعیاد کے مطابق ہوجائے ۔ آخراس کے لیے کیوں کوششیں نہیں کی جاتیں؟ کیا یہ سیاسی کام نہیں ہے ؟ حالانکہ یہ صحیح ترین سیاسی انتخابی عمل ہوگا اورانشاء اللہ اس میں خدا کی رضا اوراس کی مدد بھی شامل ہوگی۔ اگر ایسا ہوجائے توایک بڑا کام ہوجائے گا ۔ پھر اس کے تحت نظام صلوٰۃ وزکوٰۃ اور اوقاف بھی آئیں گے ۔ آج نہ جانے کتنے مسلم اوقاف بکھرے اورمنتشر پڑے ہیں جن پر اغیار یا فساق وفجار قا بض ہیں نہ جانے کتنی تاریخی اورشاہی مسجدوں کے پاس بڑے بڑے اوقاف ہیں جن کی آمدنیوں سے غیرمستحق لوگ فائدے اُٹھا رہے ہیں ۔ یہ سب غریب مسلمانوں کی کفالت کریں گی ۔ مسلمانوںمیں بھکاریوں اور چندہ لینے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی غوروفکر کی طالب ہے۔ شرعی عدالتوں کا قیام مسلمانوں کی انتہائی ضرورت اور ایک دینی فریضہ بھی ہے ۔ کیا اس کا قیام سیاسی عمل نہیں ہے ؟ آخر ان پہلوؤں پر غور وفکر اورعمل کا وقت کب آئے گا ۔ غیر اسلامی طریقوں سے غیر اسلامی حکومت میں شرکت سے اللہ کی رضا تو حاصل نہ ہوگی البتہ اس کا غضب ضرور مول لے لیں گے۔
انسان جب تک بشریت کے جامے میں ہے حالات سے متاثر ہونا اس کی عین فطرت ہے ۔ خوشی ومسرت کے موقع پر اس کی ایک کیفیت ہوتی ہے اوررنج وغم کی حالت میں دوسری صورت سے دوچار ہوتا ہے ۔ اس کی نگاہوں کے سامنے یہ بھی آتا ہے کہ اس کی قوم پر سب سے زیادہ مظالم ہورہے ہیں ۔ کتنے بے قصور صرف اس جرم میں کہ وہ مسلمان ہیں انہیں ستایا جارہا ہے ۔ ان پر معاشیات کے دروازے بند کیے جارہے ہیں ۔ ان کو بغیر کسی جرم کے قید وبند اور پابند سلاسل کیا جارہا ہے ۔ ان پر جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ خواتین اور بچیوں تک کی عصمت دری اور انہیں بے عزت کیا جارہا ہے ۔ ان کی املاک تباہ وبرباد اورعبادت گاہوں کومسمار کیا جارہا ہے ۔ یہ تمام باتیں جذبات کو برانگیختہ اورمشتعل کرکے اسے کچھ کہنے اورکرنے پر آمادہ کرتی ہیں ۔ اس کیفیت میںآدمی حق وراستی پر قائم رہے یہ ایک مومن ومسلم کا شعائر ہونا چاہئے ۔ خوشی ومسرت کے مواقع پر آپے سے باہر ہوکر خدا کوبھول نہ جائے اورآلام ومصائب میں بے صبر اور تقدیر سے شاکی ہوکر کوئی غلط قدم نہ اُٹھائے ۔ اسی میں اس کے لیے اس کے مالک نے خیر وبھلائی کے خزانے رکھے ہیں ۔ یہ صرف اسلام کے نظام رحمت کی سوغات ہے ۔ دنیا کا کوئی دوسرا دین ودھرم اس طرح کی تعلیم وتربیت اپنے ماننے والوں کو نہیں دیتا کہ دونوں حالتوں میں اسے خیر وبھلائی کے لعل وگہر سے نوازے۔
بظاہر کبھی کبھی حالات بڑے پیچیدہ ، دگر گوں اورپریشان کن معلوم ہوتےہیں ۔ ایسی حالت میں انسان کی فہم وفراست کی صلاحتیں پژمردہ ہونے لگتی ہیں اوروہ مضطرب وبیتاب ہوکر صبر کا دامن چھوڑبیٹھتا ہے ۔ اس کیفیت میں اس کی عقل وخرد پر وساوس کا غلبہ ہوجاتا ہے اوروہ اسی نہج پر سوچنے لگتا ہے ۔اس کی استقامت اورفراست مومنانہ کمزور پڑجاتی ہے اوروہ ’’اعلیٰ ‘‘ سے ’’ادنیٰ‘‘ کی طرف مرجعت کے پہلوؤں پر غور کرنے لگتا ہے ۔ فقہا ء نے بھی ایسے مواقع کے لیے بہت سی رخصتیں اور تاویلیں فراہم کردی ہیں ۔ ’’الضرورات تیج المحضورات‘‘ کا پورا فلسفہ اورباب مرتب کردیا ہے اس لیے وہ قرآن اور صاحب قرآن آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے کونظر انداز کرنے لگتا ہے اورفقہی رخصتیں اس کا مطمحہ نظر بن جاتی ہیں۔
غور کرنے اورسوچنےکی بات یہ بھی ہے کہ سخت ترین اورانتہائی پریشان کن مصائب وآلام میں اللہ کے آخری نبیؐ کا اسوہ ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے ؟ بیشک صرف چند صحابہ کی زندگی میں اضطرار اور مجبور ی کے پہلو ملتے ہیں لیکن ان صحابہ کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جن میں حضرت عمار ؓ بہت مشہور ہیں جن کے والدین حضرت یاسرؓ اوروالدہ سمیہؓ کوکفار نے اذیتیں دے دے کر انہیں شہید کردیا اور حضرت عمارؓ کو پانی میں اس قدر غوطے دئے کہ بد حواسی میں ان کی زبان سے کچھ ایسے کلمات نکل گئے جوکفار چاہتے تھے ۔ لیکن محض ایک یا ڈھونڈنے اورتلاش کرنے سے ممکن ایک دونام اور مل جائیں ان کے انفرادی عمل سے کسی جماعت یا اجتماعیت کے حق میں کیسے استدلال کیا جاسکتا ہے؟ جب کہ بقیہ دوسرے صحابہ اوراللہ کا آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم مستقل راہ عزیمت پر گامزن رہے تھے۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ غیراسلامی سیاست وحکومت میں شرکت کے ذریعے مفادات کے حصول کا نشہ کسی طرح بھی تصوف سے کم نہیں ہے ۔اس کی لت اور چسکا جسے پڑجائے وہ آسانی سے نہیں چھوٹتا۔ صحیح سمت میں ، صحیح رخ سے صحیح کام کرنے میں چونکہ محنت ومشقت زیادہ کرنی پڑتی ہے اوریہ بڑا صبر آزما اور پتہ ماری کا مرحلہ ہوتا ہے ۔ انسان چونکہ عجلت پسند واقع ہوا ہے اس لیے وہ جلد سے جلد اپنی مراد اور مدعا حاصل کرنے کے چکر میں الٹے سیدھے اقدام کرکے اسے پانا چاہتا ہے لیکن ایسے اقدام اس کے لیے زاد راہ بننے کے بجائے بعد نزل کا سبب بن جاتے ہیں۔
اللہ رب السمٰوات والارض جوتنہا اس پوری کائنات کا خالق ومالک، رازق، احکم الحاکمین اور ارحم الراحمین ہے ۔ سب کچھ دیکھ رہا ہے اورسب کی سننے والا ہے ۔ کیا اپنی اس چھوٹی سی دنیا جس میں انسان بستے ہیں ، اس سے بے خبر اورغافل ہے ؟ کیا اس کی نظر میں سارے انسانوں کی نیت اوراعمال نہیںہیں ۔ انسانوں پر جوبھی دکھ ، پریشانی اورمصیبت آتی ہے وہ بغیر اس کے حکم کے کبھی نہیں آتی اوریہ مصیبت کسی کے لیے سزا اور کسی کے لیے آزمائش ہوتی ہے ۔ اس بزرگ وبرتر اورعظیم خدا نے اپنی کتاب پاک میں اصحاب الکہف اوراصحاب الاخدود کی مثالیں محض زبانی تلاوت کے لیے نازل نہیں فرمائی ہیں۔ اہل بصیرت کے لیے ان میں بڑا سبق ہے ۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2016