جماعتِ اسلامی ہند کے مختلف اجتماعات کے بعد لوگوں کے تاثرات بھی سامنے آتے رہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ خاص و عام ہر طرح کے لوگوں نے ان اجتماعات کے حق میں گواہی دی اور ان اجتماعات کی خوبیوں اور اثرات کو سراہا۔
یہاں پر ان تاثرات کو بیان کیا جا رہا ہے جو مابعد اجتماع بہت سی اہم شخصیات کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں۔
گاندھی جی کا مشاہدہ
’’کل میں جماعتِ اسلامی کے جلسہ میں شریک ہوا۔ یہ فقیروں کا اجتماع تھا، ان فقیروں کا نہیں جو بھیک مانگتے ہیں۔ یہ ان فقیروں کا اجتماع تھا جو نیکی پھیلاتے ہیں، انسانیت کی خدمت کرتے ہیں، من و تو کے امتیاز کو مٹاتے ہیں، لوگوں سے کہتے ہیں کہ جب تم خدا کے بندے ہو تو خدا کے فرماں بردار بھی بنو۔ ان لوگوں کے اجتماع میں شریک ہونے پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے، خوشی ہے۔ یہ لوگ اگر مجھے پھر بلائیں گے تو میں پیدل چل کر ان کے اجتماع میں جاؤں گا۔‘‘
(The Collected Works of Mahatma Gandhi, Vol. 94:17 February, 1947–29 April 1947, pp. 400-401.Available at www.gandhiashramsevagram.org)
جناب گھنشیام داس صاحب
جناب ایڈیٹر صاحب سودیش ، تسلیمات
آپ کا روزنامہ سودیش مورخہ ۲۷ اپریل کو دوسرا نمبر میری نظر سے گزرا ۔ میری حیرت و افسوس کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے جماعتِ اسلامی کے کل ہند اجتماع کے بارے میں جو ۲۰، ۲۲٫۲۱ اور ۲۳ تاریخوں میں رامپور میں ہوا تھا۔ اس کا بیان پڑھا کیونکہ کسی وجہ سے میں بھی انھیں تاریخوں میں رامپور تھا اور اجتماع کی تقریباً تمام نشستوں میں شامل ہوتا رہا۔ آپ کے اخبار کا بیان اور میں نے وہاں جو کچھ دیکھا اور سنا، دونوں ایک دوسرے کی بالکل ضد ہیں ۔
جماعتِ اسلامی کے سیاسی نقطہ نظر کا جہاں تک تعلق ہے اور میں نے اجتماع کی کارروائیوں میں جو سمجھا ہے اور خصوصاً جناب حبیب اللہ صاحب کی تقریر سے جو دوسرے دن رات کے وقت ہوئی تھی ، یہ بات پوری طرح صاف ہوگئی تھی کہ موجودہ سیکولر اسٹیٹ جس کو وہ لادینی حکومت کہتے ہیں، میں نہ الیکشن میں حصہ لینے کا سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ مسلمانوں کے مفاد کو اس طرز حکومت میں محفوظ کرانے کا سوال ہی پیدا ہوتا ہے کیونکہ ان کا خیال یہ ہے کہ جو دستور خدائی دستور سے مختلف ہے وہ انسانیت کے لیے غلط ہی نہیں بلکہ مضر بھی ہے ۔ اس لیے کسی بھی ایسے دستور کے سلسلے میں جماعت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
رہا ہندو مسلمانوں کے تعلقات کے بارے میں تو جماعت کا نقطہ نظر بھی کچھ بُرا نہیں ہے۔ جماعت کا خیال ہے کہ تمام انسان ایک باوا کی اولاد ہیں مگر امتداد زمانہ کے سبب نوع انسانی قوموں اور گروہوں میں تقسیم ہو گئی ہے لیکن پھر بھی آپس میں بہت سی ایسی مشترک قدریں موجود ہیں جن پر ہم ساتھ ساتھ کام کر سکتے ہیں جن پر اٹھ بیٹھ سکتے ہیں۔ نیز اکٹھے ہو سکتے ہیں اور جن چیزوں میں بھی اختلاف رائے ہے ان پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ باقی میری سمجھ میں وہاں پر کوئی خفیہ یا اس سے ملتی جلتی کارروائی نہیں ہوئی ۔ تمام کارروائیاں کھلے اجلاس میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ ہوتی ہیں۔
میں نے اسے اپنا فرض سمجھتے ہوئے کہ کسی غلط اور گمراہ کن بات سے عوام اور حکومت میں مسموم فضا نہ پیدا ہو جائے۔ اس غلط فہمی کو جو اخبار کے بیان سے پیدا ہو سکتی ہے یہ لکھنے کی جرأت کی ہے ۔
نا چیز گھنشیام سنگھ کوشک، پر دھان آریہ سماج، گنگوہ
ضلع سہارنپور، ا مئی ۱۹۵۱ء
(روداد اجتماع رامپور، ص۲۶۶-۲۶۸)
روزنامہ آغاز
مقامی روزنامہ ”آغاز“نے جو اجتماع کا مخالف تھا،ختم اجتماع پر اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
”جماعتِ اسلامی ہند کا سالانہ اجتماع ۲۰ ۲۱ ۲۲ اپریل کو رامپور میں ہوا۔ اس کے متعلق عام طور سے مختلف و متضاد قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں بعض لوگ ممکن ہے اس اجتماع کے سرے سے بلاقید مقام خلاف ہوں ۔ لیکن اکثر لوگ اس اجتماع کو غلط نہیں جانتے تھے مگر ان کی مصلحت اندیشیاں اس کی حامی تھیں کہ یہ اجتماع را مپور میں نہ ہو بلکہ کسی بڑے شہر میں ہو۔ اب ان مصلحت اندیشیوں کے سلسلہ میں استدلال و براہین کی ضرورت باقی نہ رہی۔ بہر حال اجتماع ہوا اور بخیر و خوبی ختم ہو گیا۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے نہایت شان دار طریقے پر ہوا اور انتہائی پر سکون و منظم ہوا جس میں مسلم اور غیر مسلم سب ہی شریک ہوئے اس اجتماع میں جو تقریریں ہوئیں ان پر تبصرہ کے لیے وقت و گنجائش درکار ہے ۔ اس لیے ہم ان پر اظہار خیال نہ کرتے ہوئے اجتماع کے سکون و تنظیم کو سرا ہے بغیر نہیں رہ سکتے اور اس سلسلہ میں اجتماع کا اہتمام کرنے والوں کو مستحق مبارکباد سمجھتے ہیں کہ انھوں نے کوئی ایسا موقع نہ دیا جو قابل اعتراض ہوتا یا کسی فرقہ و طبقہ کو اس سے شکایت کی گنجائش ملتی۔ ہم اس اجتماع کو نظم وضبط کے لحاظ سے دوسری جماعتوں کے لیے مثالی اور قابل تقلید قرار دیتے ہوئے مشورہ دیں گے کہ ہر موقع پر اس کی تقلید ناگزیر تصور کی جائے۔ “ (روداد اجتماع رامپور، ص۲۶۸-۲۶۹)
مولانا سعید اکبرآبادی
جماعتِ اسلامی ہند کے پانچویں کل ہند اجتماع کے بارے میں ہندوستان کی معروف علمی شخصیت مولانا سعید اکبرآبادی نے اپنے موقر رسالے برہان کے اداریے میں اس طرح لکھا:
” اس مرتبہ جماعتِ اسلامی ہند کا پانچواں آل انڈیا اجتماع دہلی میں از ۸ تا ۱۰ نومبر اس قدر شاندار اور وسیع پیمانہ پر ہواکہ تقسیم کے بعدسے اب تک کسی اسلامی تنظیم کا اس طرح پر نہیں ہوا تھا ، گاندھی درشن کے نہایت وسیع مگر الگ تھلگ میدان میں جہاں یہ اجتماع منعقد ہوا ایک اچھا خاصا شہر آباد ہو گیا تھا۔ جس میں ہر قسم کی دکانیں، رستوران، ہوٹل، پندرہ ہزار کے لگ بھگ مردو زن مندوبین کی قیام گاہیں جماعتِ اسلامی کے دفاتر، نہایت وسیع پنڈال ، شفاخانہ، اور دار الطعام وغیرہ بر پاتھے ، دور دراز کے مندوبین اسپیشل ٹرین اور مستقل بسوں کے ذریعہ دہلی پہونچے، جو میدان میں قطار در قطار کھڑی ہوئی ہر شخص کے لیے جاذب توجہ تھیں، اور اس لحاظ سے یہ اجتماع بالکل منفرد تھا کہ مندوبین کی اس نہایت وسیع تعداد کے ساتھ ہی عرب ممالک، افریقہ ، امریکہ ، اور جنوب مشرقی ایشیا کی اسلامی جماعتوں اور تنظیموں کے نمائندہ حضرات کی ایک قابلِ ذکر تعداد نے بھی اس میں شرکت کی اور تقریریں کیں ، جماعتِ اسلامی کے امیر جناب مولانا محمد یوسف صاحب نے جو خطبہ صدارت پڑھا وہ بھی نہایت پُر مغز، مدلل معتدل و متوازن اور بصیرت افروز تھا، آج کل کے حالات میں اتنا بڑا اجتماع کرنا خصوصًا جب کہ حکومت کا کوئی تعاون نہ ہو، بہت صبر آزما اور دشوار کام ہے۔ لیکن جماعت جس خوبی،خوش سلیقگی اور نظم ترتیب سے اس اہم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوئی ہے وہ اُس کے کارکنوں کے اخلاص ، ولولہ و جوش اور عزم و ہمت کی روشن دلیل ہے ۔ جس پر وہ بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں ۔۔۔ ہندوستان میں جو اسلامی تنظیمات کام کر رہی ہیں جماعتِ اسلامی نسبتًا ان میں کم عمر ہے اور وہ شروع سے ہی اپنوں اور غیروں کا ہدف مطاعن اور نشانہ ملامت رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ دن دونی رات چوگنی رفتار سے ترقی کی منزلیں طے کرتی رہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک بامقصد جماعت ہے۔۔۔” (برہان دہلی، دسمبر ۱۹۷۴، ص۲)
۱۹۸۱ء میں حیدرآباد میں چھٹا کل ہند اجتماع ہوا، جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔اجتماع کی اس رونق کو ان تاثرات میں دیکھا جا سکتا ہے جسے راجستھان پتریکا کے ایڈیٹر نے اپنے تاثرات بیان کیے ہیں ۔
کرپور چندرا کولِش، ایڈیٹر، راجستھان پتریکا
“حیدرآباد شہر کے باہر چار مینار سے کوئی دس کلومیٹر دور پہاڑ شریف پر ۲۰ فروری کو ایک نیا ہی ماحول اور ایک نیا منظر تھا۔ جہاں جماعتِ اسلامی ہند کا چھٹا آل انڈیا اجتماع شروع ہوا، جماعت کے میرے جے پور والے کچھ خاص دوستوں کی دعوت پر میں وہاں پہنچا تو ایسا محسوس ہوا کہ میں وہاں نہ جاتا تو گھاٹے میں رہتا، جماعت کے جے پور میں کارکن ہیں اور میں پہلے بھی اس کے نمائندوں سے ملتا رہا ہوں مگر حیدرآباد کا ماحول دیکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچاکہ جماعتِ اسلامی ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک صحیح نمائندہ ہے اور بڑے پیمانے پر عظیم منصوبوں کو لے کر وہ کام کر رہی ہے۔
حیدآباد کے پہاڑی شریف علاقہ میں ایک بہت بڑے پتھریلے میدان کو ہموار کر کے نئی دنیا بسائی گئی تھی۔ بیچو بیچ ایک بہت بڑا آڈی ٹوریم (پنڈال) بانس کی چٹائیوں سے بنایا گیا تھا۔ اتنا بڑا کہ ہم کبھی کانگرس کے سالانہ جلسوں میں دیکھا کرتے تھے۔ ایک طرف ایک پختہ اسٹیج تعمیر کیا گیا تھا جس پر تقریبا سو آدمی بیٹھ سکتے تھے۔ آس پاس ہندوستان کی الگ الگ ریاستوں سے آئے ہوئے لوگوں کے لیے شامیانے لگائے گئے تھے۔اس میں تین دن قیام کرنے کا پختہ انتظام کیا گیا تھا۔۔۔
حیدرآباد کے جلسہ میں جو خاص بات مجھے نظر آئی وہ یہ کہ ساری ذمہ داری نوجوانوں نے اپنے اوپر لے رکھی تھی۔ مسلمان نوجوانوں کی اس موقع پر ایک خاص قسم کی سنجیدگی اور متانت دیکھنے کو ملی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ان کے کندھے ذمہ داری کے بوجھ سے دبے جا رہے ہوں۔ یہ بھی دیکھا کہ جلسہ کے انتظام میں کسی طرح کا خستہ پن نہیں تھا، ہر موقعہ پر، ہر مقام پر، ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ اور سب کچھ ایک قرینے اور ترتیب کے ساتھ ۔ پانی کی قلت ضرور دیکھنے میں آئی لیکن کسی قسم کی ہنگامہ آرائی اور شور و شغب نہیں۔
اس طرح کا ماحول کیسے بن گیا تھا، اس کا جواب اس جلسہ میں دو دن کی کارروائی میں مل گیا۔ جماعت کے اس جلسہ میں ایک بڑی تجویز پیش کی گئی اور وہ بہت بڑے ارادوں کے ساتھ ، وہ تجویز تھی اسلامی اصولوں کے ذریعہ زندگی اور سماج کو ڈھالنے کی کوشش، کوئی بھی پہلو ایسا نہیں تھا جس پر اس جلسہ میں پوری سنجیدگی کے ساتھ چرچا نہ کیا گیا ہو۔ “
(ہفتہ روزہ دعوت، اجتماع نمبر، چھٹا کل ہند اجتماع، ص۱۷۰)
زندگی کا انمول خزانہ
اجتماع گاہ کے چند والنٹیروں نے ناظمِ اجتماع جناب عبد العزیز صاحب کو ایک حیرت انگیز واقعہ سنایا:
ان والنٹیروں نے دیکھا ایک نوجوان جو چہرے بشرے اور لباس کی وضع قطع سے ایک تعلیم یافتہ اور مہذب انسان معلوم ہوتا تھا موز (کیلے) کے چھلکے جمع کر رہا ہے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ نوجوان ایک غیر مسلم ہے اور اخبارات کے ذریعہ اس اجتماع کی خبریں پاکر اسلام سے واقف ہونے کی خواہش کے تحت یہاں چلا آیا ہے۔ اس کے پاس بمشکل آنے جانے کا کرایہ اور چند وقت کا کھانا تھا جو وہ اپنے ساتھ لے کر گھر سے چلا تھا۔جب یہ کھانا ختم ہو گیا تو اس نے موز کے چھلکوں کے گودے کھاکر دو روز سے گزارا کیا ہے اور اب وہ اپنے گھر واپس جا رہا ہے۔ والنٹیروں نے اس سے کہا کہ اگر آپ ہم میں سے کسی ایک سے بھی ربط پیدا کرتے یا ناظمِ اجتماع کے دفتر میں جاکر ملتے تو آپ کو ہمیں اپنا مہمان بنانے کی عزت حاصل ہوتی اور آپ کو طعام و رہائش کی کوئی زحمت بھی نہ ہوتی۔ اس پر اس نوجوان نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آتماکی شانتی کے لیے جو روحانی غذا یہاں ملی ہے اور زندگی کی تاریکیوں سے نکلنے کے لیے جو اپدیش یہاں گزشتہ تین روز سے وہ سن رہا تھا وہ کھانے اور آرام کرنے سے زیادہ اہم تھے۔ مجھے یہاں زندگی کا انمول خزانہ ملا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہے اور جسے پانے کے بعد ساری تکالیف بھول چکا ہوں۔
یہ کہہ کر وہ نوجوان تیزی سے ایک بس کی طرف لپکا جو شہر جا رہی تھی اور ان والنٹیروں کے اصرار کے باوجود کہ دوپہر کا کھانا وہ ان کے ساتھ کھا کر جائے وہ بس میں سوار ہو کر چلا گیا۔ (چھٹا کل ہند اجتماع، اجتماع نمبر دعوت، اپریل ۱۹۸۲، ص۱۶۴)
راہی، صدائے سحر، بنگلور
تحریکِ اسلامی کا کام کرنے والے اللہ کے دین کی خاطر ہر کام کرنے کے لئے تیار ہیں:
“کرناٹک کے لیے چار کیمپ مخصوص تھے مگر ابھی تک ایک بھی کیمپ نہیں بنا تھا۔ تحقیق پر اس کی اصل وجہ معلوم ہوئی کہ عین موقع پر کام کرنے والے سیکڑوں مزدور دھوکہ دے کر بھاگ گئے تھے۔ ایک روایت یہ بھی تھی کہ چند کرم فرماؤں نے انہیں یہاں کام کرنے سے روک دیا تھا۔ اب تو حال یہ تھا کہ نہ شکایت کرنے کی گنجائش تھی اور نہ ہی کسی کے نام پر فاتحہ پڑھنے کی۔ کرناٹک کے تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا گیا اور ان کے سامنے ساری صورتحال رکھ کر کہا گیا کہ بھائیوں! کرناٹک کیمپ ابھی تک نہیں بن سکے ہیں، کیوں نہیں بن سکے یہ ایک لمبی داستان ہے جس پر سوچنے اور بحث کرنے کے لئے نہ وقت ہے نہ ہی فرصت۔ ہمیں شام تک اپنا گھر خود بنا لینا ہے۔ مزدور نہیں ہیں تو ہم مزدور بنیں گے، چھت ڈالنے کا تجربہ نہیں ہے تو تجربہ حاصل کریں گے۔ آگے بڑھیئے اور یہ ثابت کیجیئے کہ تحریکِ اسلامی کا کام کرنے والے اللہ کے دین کی خاطر ہر کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔
اس مختصر سی تقریر کا یہ اثر ہوا کہ بوڑھے، جوان، تعلیم یافتہ، مالدار، غریب، محنت پیشہ آرام طلب سب کے سب کرناٹک کیمپ کی طرف جیسے ذرا سی بھی دیر ان کو ایک بڑی سعادت سے محروم کر دے گی۔ بانس کی ٹٹیوں کی چھت ڈالی جا رہی تھی۔ کسی کے پھانس چبھ گئی، کسی کا ہاتھ کٹ گیا اور خون بہنے لگا کسی کے پیر پر بمبو پڑ گیا۔ چند نوجوان چھت پرچڑھے پتلے پتلے بانسوں پر بیٹھے ڈوریاں کس رہےتھے، ان کو نہ اپنی جان کا خوف تھا نہ ہی نیچے گرنے کا اندیشہ، بڑے بوڑھوں سے کوئی وزنی کام نہیں ہوتا تھا تو وہ اپنے نوجوان بچوں کو ڈوریاں پکڑاتے پھڑ رہے تھے۔ دیکھنے والے حیرت سے اس پورے منظر کو دیکھ رہے تھے یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے گھروں میں ہل کر پانی پینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے آج یہاں مزدور بنے ہوئے تھے بلکہ برسہا برس کے مزدوروں کو مات کئے دے رہے تھے یہ کونسا جذبہ ہے، یہ کون سا داعیہ ہےجو ان کو اس کام پر لگائے ہوئے ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھت پڑ گئی اطراف کی ٹٹیاں لگ گئیں اور کرناٹک کا ایک کیمپ تیار ہو گیا۔ کرناٹک کے سینکڑوں افراد اس کیمپ میں چلے آئے۔
آنے والوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کا اندازہ کرکے ہر کیمپ میں ڈیڑھ ہزار افراد کے رہنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ مگر جب سارے اندازے الٹ گئے اور لوگوں کا سیلاب امنڈ پڑا تو ڈیڑھ ہزار کی گنجائش رکھنے والے کیمپوں نے تین تین چار چار ہزار افراد کو اپنے سینہ میں بھر لیا۔ اور خدا کی قدرت کہ کسی کو بھی سونے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔۔۔۔
اس جدت طراز اہتمام نے اجتماع میں شریک ہونے والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ نشرو اشاعت کے جدید طریقوں کو اختیار کرنے اور ان کے جائز ذرائع سے اللہ کے دین کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں جماعتِ اسلامی کا شاید ہی ہندوستان میں کوئی ثانی ہو۔ ” (چھٹا کل ہند اجتماع، اجتماع نمبر دعوت، اپریل ۱۹۸۲، ص۹۶)
لکشمی نرائن مشرا
میں اپنے میرٹھ کے مسلم دوستوں کی دعوت پر دہلی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے دہلی پہونچا۔ مجھے اس کانفرنس کو دیکھ کر اور سن کر مسرت ہوئی۔ اور کچھ نئی واقفیت ہوئی۔ کانفرنس کا نظام اور انتظام ہر طرح سے اطمینان بخش تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ تعلیم یافتہ مستورات بھی کافی تعداد میں کانفرنس میں شریک ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی جماعت کی عورتوں میں بھی تعلیم اور بیداری بڑھ رہی ہے جو خوشی کا باعث ہے۔ بڑی مسرت اس بات سے ہوئی کہ میرے سامنے بہت سے اسلامی ملکوں کے نمائندوں کی تقریریں ہوئیں جنہوں نے اسلام کی خوبیاں تو بیان کیں لیکن کسی دوسرے مذہب کی مذمت یا برائی نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ ایسی کانفرنسوں سے ایک مذہب دوسرے مذہب کے نزدیک آتے ہیں۔ اور بڑے شاعر محمد اقبال صاحب کی یہ آواز بلند ہوتی ہے:
“مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
آخر میں میں اپنے دوستوں کو خوشی کے ساتھ مبارکباد دیتا ہوں کہ جن کی دعوت پر میں دہلی کانفرنس میں پہنچا۔ اور جنہوں نے مجھ جیسے ناچیز کو بھی ایسے موقع پر یاد رکھا۔
(سابق صدر سنٹرل آریہ کمیٹی، میرٹھ)
سوامی آنند پریم ،گجرات
غیر مسلموں کو اپنی مذہبی کانفرنس میں مدعو کرنے کے ساتھ ہی بھارت کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس لیے جماعتِ اسلامی ہند کو فرقہ وارانہ جماعت کے طور پر پیش کرنا قومی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
میں دیگر سماجوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ جماعت کے طرز عمل کی طرح کا رویہ اختیار کریں۔ یہ بلا شبہ ہمارے لوگوں کے درمیان اتحاد کی اعلیٰ سطح قائم کرے گا۔
میں آپ سب سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک جماعت اپنے نظریات پر برقرار رہے گی اور مجھے امید ہے کہ یہ ہمیشہ برقرار رہے گی۔ میں جماعتِ اسلامی ہند کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے میں کسی بھی مسلمان سے پیچھے نہیں رہوں گا۔ (ریڈئینس، ۵جنوری ، ۱۹۷۵)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024