وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ ہَوْنًا ……….(الفرقان: ۶۳)
’’رحمٰن کے خاص بندے وہ ہیں جوزمین پر وقار اور متانت کی چال سے چلتے ہیں۔‘‘
الفرقان مکی سورۃ ہے ۔ اس کی آخری آیات( ۶۳۔۷۷) میں اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی صفات بیان کی گئی ہیں ۔ مطلوب یہ ہے کہ ہم انہیں اختیار کریں ۔ خطاب ’عبادالرحمٰن ‘سے کیا گیا ہے۔ ’’عباد‘‘ عبد کی جمع ہے ۔ عبادالرحمن کاترجمہ ہے ’’رحمٰن کے بندے‘‘۔ یہاں مراد اللہ کے محبوب بندے ہیں ۔ جس طرح ایک ماں اپنے فرماں بردار بچہ کو ’میرا بیٹا کہتی ہے ، جبکہ دوسرے بچے بھی اسی کے ہوتے ہیں ۔ اس سے جہاں فرماں برداری کی توصیف کی جاتی ہے ۔ وہیں دوسروں کواس کے اختیار کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔
لغوی تحقیق
ہَوْنًا= تسکین،وقار کے ساتھ شریفانہ چال چلنا ہے نہ کہ ضعیفانہ اورمریضانہ چال (ابن کثیر)
ہَوْنًا=بسکینا ۔وتواضع (جلالین)
ہَوْنًا=فیہا وقار وسکینہ وفیہا جد وقوۃ ( فی ظلال القرآن)
الہون = مصدر الہین وہو من السکینہ والوقار (قرطبی)
الہون= سکون ووقار
امشی علی ہونک ۔ اپنی روش پر چلو
أحبب حبیبک ہونا =اپنے دوست سے درمیانی دوستی کرو (افراط سے کام نہ لو (المنجد) بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ آہستہ آہستہ (نذر احمد) وبے پاؤں (معارف القرآن)نرم چال (تفہیم القرآن) یا فروتنی (احسن البیان ) کیا ہے ، لیکن تفسیری حاشیہ میں مراد ’’وقار‘‘ ہی لیا ہے لفظ ھون کا مفہوم اس جگہ سکینت ووقار اورتواضع ہے یعنی اکڑ کرنہ چلے، قدم متکبرانہ انداز سے نہ رکھے۔ آہستہ آہستہ چلنا مراد نہیں ہے ، کیوں کہ وہ بلا ضر ورت ہوتو خلاف سنت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلنے کی جو صفت شمائل نبویہ میں منقول ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا چلنا کسی قدر تیزی کے ساتھ ہوتا تھا ۔ (معارف القرآن)
اسی مضمون کوبنی اسرائیل ۳۷ اور لقمٰن ۱۸ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا زمین میں اکڑ کر نہ چلو
’’حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ایک شخص کوسر جھکاتے ہوئے چلتے دیکھا تو پکار کرفرمایا ۔‘‘ سر اُٹھا کر چل اسلام مریض نہیں ہے ۔
ایک اور شخص کوانہوں نے مریل چال چلتے دیکھا تو فرمایا : ’’ ظالم ، ہمارے دین کو کیوں مارے ڈالتا ہے ۔‘‘ کسی مسلمان کوایسی چال چلتے دیکھ کر انہیں خطرہ ہوتاتھا کہ یہ چال دوسروں کےسامنے اسلام کی غلط نمائندگی کرےگی اورخود مسلمانوں کے اندر افسردگی پیدا کردے گی ۔ ایسا ہی واقعہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ کوپیش آیا ۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب بہت مضمحل سے بنے چل رہے ہیں ۔ پوچھا انہیں کیا ہوگیا ؟ عرض کیا گیا کہ یہ قرّاء میں سے ہیں ۔ (یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے )۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا : عمر سید القراء تھے مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب چلتے توزور سے چلتے تھے ۔‘‘ (تفہیم القرآن)
اسلام در اصل ایک دعوت ہے ، ایک پیغام ہے، ایک تحریک ہے ، ایک قوت ہے ۔
قرآن عباد الرحمن سے قوّت کے ساتھ چلنے کوپسند کرتا ہے ۔ اسلام اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی و انکساری اختیار کرنے کا نام ہے ۔ جب عبادالرحمن اللہ کے سامنے جھکتے ہیں (رکوع وسجود میں ) تو اس سے زیادہ جھکنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ بندوں کے سامنے جھکنا تو کسی صورت میں درست نہیں اور اپنی چال میں ضعیفانہ اورمریضانہ چال اختیار کرنا تصنّع اوربناوٹ ہے ۔ عبادالرحٰمن جب صنوف الرحمن (حج یا عمرہ ادا کرنے کے لیے ) بن کر مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں اور احرام میں طواف کرتے ہیں تو رمل (تیز قدم) اوراضطباع (داہنا کندھا کھلا رکھنا ) کرتے ہیں ۔ طواف عین عبادت ہے اوراس عبادت میں اظہارِ قوّت کوپسند کیا گیا ہے ۔ جب عین حالت عبادت میں اظہارِ قوت کو پسند کیا گیا ہے تو عام چال میں مریل اورمریضانہ چال کو کیوں کر پسند کیا جائے گا ۔ رسول اللہ ﷺ کے تعلق سے حدیث میں ہے کہ’’ آپ ایسا چلتےتھے کہ گویا زمین آپ کے لیے سمٹتی جارہی ہے ۔‘‘ (معارف القرآن)
’’رسول اللہ ﷺ کے چلنے کا تذکرہ حدیث میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ ’’ جیسے آپ بلندی سے ڈھلوان کی طرف جارہے ہیں۔‘‘ (دعوۃ القرآن)
تجربہ کرکے دیکھئے ، کسی پہاڑی پر چڑھ جائیے اورڈھلوان کی طرف سے آتے ہوئے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ آپ کواترتے ہوئے سینہ سیدھا رکھ کر ، بلکہ تان کر اترنا ہوگا ورنہ گرنے کا امکان ہے ۔ گویا عبادالرحمن قوت کے ساتھ نسبتاً تیز قدم رکھتے ہوئےسینہ سیدھا رکھ کر چلتے ہیں ۔ اس طرح کا چلنا دل کے لیے مفید ہے ۔ دل کی صحت کے لیےسیدھا چلنا مفید ہے جھک کر چلنے کے مقابلہ میں ۔نسبتاً تیز چلنا مفید ہے آہستہ چلنے کے مقابلہ میں۔عبادالرحمٰن کی خصوصیات کے تذکرہ میں چا ل کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے ۔ انسان کی چال در اصل اس کے ذہن کی عکاسی کرتی ہے ۔ جب آدمی چلتا ہے تو اپنی پوری شخصیت کو لے کر چلتا ہے جس کے ساتھ اس کا جسم اور کپڑوں کے علاوہ اس کی سوچیں ، اس کے جرائم ، ا س کا نصب العین اس کےساتھ چلتے ہیں ۔ اس کی چال سے اس کی شخصیت کا تعارف ہوتا ہے ۔ اسی لیے صاحب تفہیم القرآن لکھتے ہیں : ’’ایک عیار آدمی کی چال، ایک غنڈے بدمعاش کی چال، ایک ظالم وجابر کی چال، ایک خود پسند، متکبر کی چال، ایک باوقا ر مہذب آدمی کی چال ، ایک غریب ومسکین کی چال اوراسی طرح مختلف اقسام کے دوسرے انسانوں کی چالیں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہوتی ہیں کہ ہر ایک کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے ۔‘‘ (تفہیم القرآن)
’’ھونا‘‘ کے تحت راستے اورلباس کے سارے آداب سمٹ کر آجاتے ہیں ۔ آپ پُر وقار اسی وقت چل سکتےہیں جب آپ کا لباس پُر وقار ہے اورآپ راستے کے آداب ملحوظ خاطر ہیں۔ ’’حضرت ابوا لا حو ص ؓ کے والد اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس وقت میرے جسم پر نہایت ہی گٹھیا اورمعمولی کپڑے تھے آپ ؓ نے پوچھا : کیا تمہارے پاس مال و دولت ہے؟ میں نے کہا ۔ جی ہاں! دریافت فرمایا ، کس طرح کا مال ہے ؟ میں نے کہا : اللہ نے مجھے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے ۔ اونٹ بھی ہیں ، گائیں بھی ہیں ، بکریاں بھی ہیں ، گھوڑے بھی ہیں اورغلام بھی ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ جب اللہ نے تمہیں مال ودولت سے نوازا ہے تو اس کے فضل واحسان کا اثر تمہارے جسم پر ظاہر ہونا چاہئے ۔ (مشکوٰۃ ) (آداب زندگی)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جس کے دل میں ذرہ بھر بھی غرور ہوگا وہ جنت میں نہ جائے گا ۔ ایک شخص نے کہا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے عمدہ ہوں ، اسکے جوتے عمدہ ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ خود صاحب جمال ہے اورجمال کو پسند کرتا ہے (یعنی عمدہ نفیس پہنا وا غرور نہیں ہے ۔( غرور تو در اصل یہ ہے کہ آدمی حق سے بے نیازی برتے اور لوگوں کو حقیر وذلیل سمجھے (مسلم )
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ ایک جوتا پہن کر کوئی نہ چلے یا دونوں پہن کر چلو یا دونوں اتار کر چلو (ترمذی اسی طرح ایسے عجیب وغریب اورمضحکہ خیز کپڑے بھی نہ پہنئے جس کے پہننے سے آپ خواہ مخواہ عجوبہ بن جائیں اورلوگ آپ کو ہنسی اور دل لگی کا موضوع بنالیں۔(آدابِ زندگی)لباس ہماری شخصیت کا حصہ ہے ۔ چال اسی وقت پُر وقار ہوگی جب لباس پُر وقار ہو۔ صاف ستھرا عمدہ اورعرف کے مطابق ہو۔عبادالرحمن جب چلتے ہیں توان کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی ہوتی ہے ۔ جواب دہی کے احساس سے بھری چال دوسروں کی خوشی اورمدد کا سامان کرتی ہے ۔ راستہ کا حق ادا کرتے ہوئے چلنے والے عبادالرحمن اللہ کے پسندیدہ ہونے کے ساتھ انسانوں کے بھی پسندیدہ ہوجاتےہیں۔عبادالرحمن جب چلتے ہیں توپیر گھسیٹ کر نہیں چلتے، دھواں نہیں اڑاتے۔ پانی جمع ہوتو پانی نہیں اچھالتے ۔ سیٹیاں نہیں بجاتے ۔ لوگوں کو دھکے نہیں دیتے۔ پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ سگریٹ نہیں پیتے کہ خود کی تباہی کے ساتھ دوسروں کودھوئیں سے تکلیف دیں۔
جب مرضی آئے جہاں چاہیں نہیں تھوکتے ۔ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کوہٹانے والے راستہ میں کوئی چیز نہیں پھینکتے ۔ کوڑا کچرا حتی کہ ٹشو بھی نہیں پھینکتے ۔ مصروف راستوں سے سواریوں کا لحاظ کرتے ہوئے گزرتے ہیں ۔ سگنل پر باری کا انتظار کرتے ہیں، جس رُخ سے چلنا چاہئے اس کی رعایت کرتے ہیں، الٹے رُخ چل کر نہ خود تکلیف اُٹھاتے ہیں نہ دوسروں کو دیتے ہیں ۔ داخل ہونے کے گیٹ سے خارج ہونا یا خارج ہونے کے گیٹ سے داخل ہونا عبادالرحمٰن کونہیں زیب دیتا ۔ یہ ھونا کی صفت نہیں ہے۔
فی زمانہ سواریوں (سائیکل ، اسکوٹر، آٹورکشہ ، موٹر گاڑی وغیرہ) کااستعمال زیادہ ہونے لگا ہے سواری چلانے والا اپنی چال سواری کے حوالے کرتا ہے ۔ عبادالرحمٰن کی سواری کی چال عبادالرحمٰن کی چال ہوگی۔ جوکچھ ’’ھونا‘‘ کے مطابق عبادالرحمٰن سے درکار ہے وہی اس کی سواری سے مطلوب ہوگی عبادالرحمٰن کی سواری صاف ستھری ہوگی۔دھواں پھینکتے ہوئے دوسروں کو تکلیف نہیں دے گی۔ رفتار نہ اتنی سست ہوگی کہ پیچھے والوں کو الجھن ہواورنہ اتنی تیز کہ دوسرے گھبرا جائیں۔ اس کی رفتار ٹریفک اصولوں کےمطابق ہوگی ۔ غیر ضروری ہارن اور تیز روشنی کے اشارے دینے سے بچی رہے گی ۔ ریڈ سگنل پر پُروقار انداز سے رک جائے گی ۔ اپنی باری کا انتظارکرے گی ۔ مڑنے سے پہلے اشارہ دے گی۔ عبادالرحمٰن کی گاڑی صحیح طریقے سے صحیح جگہ پارک ہوگی ۔ دوسروں کوبلاک نہیں کرے گی۔
’’ھونا‘‘ کی صفات کوہم اپنے اندر جذب کرکے عمل کا مستقل حصہ بنالیں توفساد وحادثات کم ہوں گے اورخوشگواری کا ماحول پیدا ہوگا اورہمارا شمار عبادالرحمٰن میں ہوگا۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2016