ہمیشہ بلند و بالا عمارت کی بنیاد سخت اور پائدار زمین پر رکھی جاتی ہے، ڈھیلی، گیلی اور بھربھری مٹی پر کوئی اونچی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی ۔اس کے لیے زمین اور مٹی کی جانچ باریکی سے کی جاتی ہے، اس غرض سے زمین کو کوٹ کر اور پختہ تر کر کے ملٹی اسٹوری بلڈنگ کا وزن برداشت کرنے کے لائق بنایا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح کسی انسانی گروہ کو مصائب اور شدائد سے گزار کر امامت وقیادت کے منصب پر کھڑا کیا جاتا ہے، جو گروہ اس امتحان میں کام یاب ہوجاتا ہے اس کو امامت کا منصب عطا کیا جاتا ہے وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً یهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآیاتِنَا یوقِنُونَ (السجدہ: 24) ’’جب انھوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں بہت سے پیشوا بنادئیے جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔‘‘ انبیائے کرام نے ایک مدت دراز تک آزمائشیں جھیلیں اور جب وہ استقامت کے امتحان میں کام یاب ہوئے، تب اللہ تعالی نے ان کی نصرت فرمائی فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَهُمْ (سورہ احقاف : 35) ’’اے نبی صبرکرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیااور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔‘‘
صبر دراصل حق کی بنیاد ہے اور دین سراپا حق ہے۔ دین صبر اور شکر ہے۔ اس کی تصدیق مسلم شریف کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں اس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ ’’مومن کا معاملہ عجیب وغریب ہے، اس کا تو ہر معاملہ اس کے حق میں سراپا خیر ہوتا ہے اور یہ بات مومن کے سوا کسی کو بھی حاصل نہیں ہے، اگر اسے خوشی اور راحت پہنچے تو شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہوتا ہے۔ اور اگر اسے کوئی تکلیف و مصیبت پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے تو یہ اس کے لیے سر تا سر خیر ہوتا ہے۔‘‘(مسلم شریف)
صبر انبیائی وصف
قرآن نے تمام انبیا کی صفت یہ بتائی ہے کہ وہ صابرتھے’’ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِدْرِیسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِنَ الصَّابِرِینَ ‘‘( سورہ الانبیاء: 85) اور ہم نے اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو نوازا۔ یہ سب صابر لوگ تھے‘‘ قرآن میں ’’صبار اور شکور‘‘کی تعریف کی گئی ہے إِنَّ فِی ذَلِكَ لَآیاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ( لقمان : 31) ’’درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو بہت زیادہ صبر اور شکر کرنے والا ہے۔‘‘ قرآن نے ہر نبی کو صبر کی تعلیم دی ہے، موسی علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا واقعہ تو بہت دل چسپ ہے، اس میں حضرت خضر نے سب سے پہلے حضرت موسی سے صبر ہی کا مطالبہ کیا اور اسی چیز میں ان کا امتحان لیا، اس سفر میں انھیں صبر کی زبردست تربیت دی گئی۔قربانی کا حکم دے کر اللہ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام دونوں کے صبر کا ایک بڑا امتحان لیا، حضرت ابراہیم کے خواب کا لائق بیٹے حضرت اسماعیل نے جو جواب دیا اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صبر کا زبردست امتحان تھا۔یاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِینَ (سورہ صٰفّٰت : 102) ’’اے ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے کرگزریے، ان شاء اللہ آپ ہمیں صابر پائیں گے۔‘‘ جب صبر کی انبیائی تاریخ رقم کی جائے گی تو حضرت ایوب علیہ السلام کا تذکرہ ضرور ہوگا جن پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے لیکن آپ بھی صبرکے پہاڑ ثابت ہوئے، قرآن میں ان کی مدح میں ارشاد ہوا: إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ (سورہ ص: 44) ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اسے ہرحال میں صابر پایا۔ کیا ہی خوب بندہ تھا! کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔‘‘
صبر کا مفہوم
صبر کے لغوی معنی روکنا، سہارنا، کسی بات پر قائم رہنا، تکلیفوں کی شکایت نہ کرنا ہے، یعنی اپنے نفس کو اضطراب اور گھبراہٹ سے روکنا اور اپنی جگہ ثابت قدم رکھنا ہے،گویا اس کے معنی میں دل کی مضبوطی اور اخلاقی جرأت و ثابت قدمی شامل ہے۔ امام لغت راغب اصفہانی کے نزدیک صبر کے معنی اپنے جی کو اس طرح روکے رکھنا ہے جس طرح عقل اور شرع کا تقاضا ہے۔
مولانا فراہیؒ نے کلام عرب کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’یاد رکھنا چاہیے کہ عربوں کے یہاں صبر عجز وتذلل کی قسم کی کوئی چیز نہیں ہے جو بے بسوں اور درماندوں کاشیوہ ہے بلکہ یہ قوت اور عزم کی بنیاد ہے‘‘ (تفسیر نظام القرآن ص245)
صبر کے معنی ظلم برداشت کرنا نہیں ہے، بلکہ دشمنوں کے مقابلے میں پامردی دکھانا ہے۔ یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورہ آل عمران: 200) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو،امید ہے کہ فلاح پاؤگے۔‘‘
قرآن میں صبر کے متعدد معنی بتائے گئے ہیں۔
۱۔ مناسب وقت کا انتظار
صبر کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ہر قسم کی تکلیف برداشت کرکے اپنے مقصد پرجمے رہنا اور کام یابی کا انتظار کرنا، نبی کریم ﷺ نے جب مکہ میں دعوت دین کا آغاز کیا تو ہر طرف سے عداوت اور دشمنی کے مظاہرے ہونے لگے، بظاہر کام یابی کی منزل دور دور تک نظر نہیں آتی تھی، اس وقت آپ کو تسلی دی گئی کہ آپ مضطرب نہ ہوں،گھبرائیں نہیں، بلکہ مستعدی اور استقلال سے اپنے کام میں لگے رہیے، خدا کا فیصلہ اپنے وقت پر آئے گا۔وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْینِنَا (سورہ طور48-) ’’اے نبی، اپنے رب کافیصلہ آنے تک صبرکرو، تم ہماری نگاہ میں ہو‘‘، ایک جگہ اور ارشاد ہوا وَطَائِفَةٌ لَمْ یؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّى یحْكُمَ اللَّهُ بَینَنَا وَهُوَ خَیرُ الْحَاكِمِینَ (اعراف 87) ’’اگر کوئی گروہ ایمان نہیں لاتا تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کردے، اوروہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘وَاصْبِرْ حَتَّى یحْكُمَ اللَّهُ وَهُوَ خَیرُ الْحَاكِمِینَ (یونس 109) ’’اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘آنحضرت ﷺؓ کو حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ سنایا گیا ہے کہ ان کو خیا ل ہوا کہ ان کی نافرمان قوم پر عذاب آنے میں تاخیر ہورہی ہے اس لیے وہ قبل ازوقت بھاگ کھڑے ہوئے، واقعہ یہ ہے کہ ان کی قوم اسلام سے قریب ہوچکی تھی، اس لیے اللہ نے اس پرعذاب بھیجنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کونصیحت کی جارہی ہے کہ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ (سورہ قلم 48) ’’اچھا اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو۔ اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جاؤ، جب اس نے پکارا تھا اوروہ غم سے بھرا ہوا تھا۔‘‘
۲۔ بے قرار ی کو طاری نہ ہونے دینا
صبرکا ایک اور قرآنی مفہوم ہے بے قرار نہ ہونا، یعنی مصیبتوں اور مشکلوں میں اضطراب اور بے قراری کو اپنے اوپر طاری نہ ہونے دینا بلکہ خدا کی مشیت اور مصلحت سمجھ کر بہ خوشی جھیلنا اور یقین رکھنا کہ جب وقت آئے گا تو اللہ اپنی رحمت سے خود ان کو دور فرما دے گا الَّذِینَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِینَ عَلَى مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِیمِی الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ینْفِقُونَ (سورہ حج35)، ’’جو لوگ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی ان پرآتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ حضرت یعقوب بیٹوں سے یہ جھوٹی خبر سن کر کہ بھیڑیے نے حضرت یوسف کو کھالیا، فرماتے ہیں فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ (یوسف 18)’’بلکہ تمھارے نفس نے تمھارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنادیا،اچھا صبرکروں گا اور بخوبی صبرکروں گا،جو بات تم بنا رہے ہواس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے۔‘‘اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام نے جسمانی اور مالی مصیبتوں کو جس تسلیم و رضا کے ساتھ پامردی سے برداشت کیا اس کی تعریف میں قرآن کہتا ہے إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ (ص 44) ’’ہم نے اسے (ایوب کو) صابر پایا،بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا۔‘‘
۳۔ مشکلات کو خاطرمیں نہ لانا
صبر کا ایک تیسرا مفہوم قرآن نے یہ بتایا ہے کہ منزل مقصود کی راہ میں جو مشکلات اور خطرات پیش آئیں، دشمن جو تکلیفیں دیں اور مخالفین جو طعن و تشنیع کریں، ان میں کسی چیز کو خاطر میں نہ لایا جائے اور ان سے بددل اور پست ہمت ہوکر اپنی منزل کھوٹی نہ کی جائے بلکہ مزید عزم و استقلال کے ساتھ سفر جاری رکھا جائے۔ بڑے کام کرنے والوں کی راہ میں لازماً مزاحمتیں آتی ہیں، حق کا راستہ روکنے کے لیے کید و مکر کی ہر چال چلنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ کو آغاز تبلیغ میں ہی یہ حکم دیا گیا وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (مدثر: 7) ’’اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔‘‘حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اس راہ کی مصیبتوں کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرنا یابُنَی أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (سورہ لقمان : 17)’’بیٹا نماز قائم کر،نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر،اور جومصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکیدکی گئی ہے۔‘‘
۴۔ عفو و در گزر
صبر کا ایک اور قرآنی مفہوم عفو و درگزرہے، جو بہت معروف اور رائج مفہوم ہے، یعنی برائی کرنے والوں اور تکلیف دینے والوں کو معاف کردیا جائے۔ قرآن مجید کی کئی آیتوں میں اس مفہوم کا استعمال ہوا ہے، جیسے وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیرٌ لِلصَّابِرِینَ. وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ. (سورہ نحل : 126.127) ’’اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدرتم پر زیادتی کی گئی ہو۔ اگر تم صبر کروتو یقیناً یہ صبرکرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔اے نبی صبر سے کام کیے جاؤ۔ اور تمھارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔‘‘بدلہ لینے کی طاقت رہنے کے باوجود جو لوگ بدلہ نہ لیں اور صبر کریں تو یہ صبر واقعی بہادری ہے اور اس سے دلوں کو فتح کیا جاتا ہے۔جو لوگ ملک میں زور آور ہوتے ہیں، فساد برپا کرتے ہیں اور انسانوں پر ظلم و جبر کرتے ہیں یقیناً ان پر اللہ کا عذاب ہوگا۔لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ بے صبری سے کام نہ لیں دوسرے لوگ ان پر ظلم کرتے ہیں تو اسے صبر و عزیمت کے ساتھ برداشت کریں اور عفو درگزر سے کام لیں، إِنَّمَا السَّبِیلُ عَلَى الَّذِینَ یظْلِمُونَ النَّاسَ وَیبْغُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ. وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ. (سورہ شوری: 42,43) ’’جو لوگ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ البتہ جوشخص صبر سے کام لے اور درگذر کرے، تو یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔‘‘
۵۔ ثابت قدم رہنا
صبر کا ایک اہم مفہوم میدان جنگ میں ہمت وبہادری اور استقامت دکھانا ہے۔ استقامت کے مفہوم میں قرآن نے صبر کا بار بار استعمال کیا ہے، اس صفت سے متصف لوگوں کو صادق اور راست باز بھی کہا گیا ہے وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِینَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (بقرہ 177) ’’اور تنگی ومصیبت کے وقت اور حق وباطل کی جنگ میں صبرکریں۔ یہ ہیں راست بازلوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔‘‘قرآن میں طالوت اور جالوت کی جنگ کی روداد قدرے تفصیل سے بیان ہوئی ہے، اس کی خاص بات یہ ہے کہ تعداد کی قلت کے باوجود صبر و ثبات کے ساتھ جنگ لڑنے والا گروہ کام یاب ہوا، قرآن نے اس نکتہ کو ان لفظوں میں ادا کیا قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالَ الَّذِینَ یظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِینَ. وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَینَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِینَ. (بقرہ: 249-250) ’’توان لوگوں نے طالوت سے کہا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انھوں نے کہا: ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔‘‘اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ پر نکلے تو انھوں نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جمادے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر۔‘‘
۶۔ ضبط نفس
قرآن نے ضبط نفس کے مفہوم میں بھی صبر کے لفظ کا استعمال کیا ہے کیوں کہ دنیا میں مسرت و غم دونوں لازم وملزوم ہیں، ان دونوں موقعوں پر ضبط نفس کی ضرورت پڑتی ہے یعنی نفس پر اتنا قابو ہونا چاہیے کہ مسرت و خوشی کے موقع پر اس میں کبر وغرور کانشہ پیدا نہ ہوجائے اور غم و تکلیف میں اس پر اتنی اداسی اور مایوسی نہ طاری ہوجائے کہ وہ کسی کام کا نہ رہے۔ ان دونوں کیفیتوں کا علاج ضبط نفس ہے لِكَیلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا یحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ(سورہ حدید : 23) ’’جو چیز تم سے فوت ہوجائے اس پر غم نہ کرواور نہ اس چیز پراتراؤ جو اس نے تمھیں بخشی ہے اور یاد رکھو اللہ اکڑنے والوں اورفخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘اس مضمون کو مزید وضاحت کے ساتھ قرآن نے سورہ ہود میں اس طرح بیان کیا ہے إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِیرٌ (سورہ ہود : 11) ’’اس عیب سے پاک اگر کوئی ہے تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکوکار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔‘‘گویا ضبط نفس کے حاملین ہی خوشی وغم ہر موقع پر اعتدال اور ایمان کی روش پر قائم رہتے ہیں۔
صبر کے ثمرات
صبر کے فوائد بے شمار ہیں، دنیوی زندگی میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی۔ قرآن نے ان فوائد سے اچھی طرح متعارف کرایا ہے۔ یہاں چند فوائد کا ذکر کیا جارہا ہے۔
۱۔ آخرت میں کام یابی کی ضمانت ہے: جو لوگ صبر کرتے ہوئے آخرت میں کام یابی کی امید رکھتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں واقعی بڑی کام یابی ہوگی، ارشاد باری تعالیٰ ہے فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْیوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا. وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِیرًا. (سورہ دہر: آیت11-12) ’’پس اللہ تعالی انھیں اُس دن کے شر سے بچا لے گا اور انھیں تازگی اور سرور بخشے گا اور ان کے صبر کے بدلے میں انھیں جنت اور ریشمی لباس عطاکرے گا۔‘‘
آخرت میں ملائکہ ہر طرف سے صابرین کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے سَلَامٌ عَلَیكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (سورہ رعد: 24)’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو۔‘‘۶سورہ زمر میں ارشاد ہوا ہے إِنَّمَا یوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَیرِ حِسَابٍ (سورہ زمر10)’’صابروں کو ان کا اجر بے شمار ملے گا۔ ‘‘
۲۔ گناہوں سے نجات کا باعث: اللہ تعالی صابروں کے گناہ معاف کردے گا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِیرٌ(سورہ ہود : 11) ’’مگر جن لوگو ں نے صبر کیا اور نیک اعمال کیے،انھی لوگوں کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔‘‘احادیث میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ پریشانیوں پر صبر کرنے کے نتیجے میں مومن بندوں کے گناہ جھڑتے ہیں۔ایک روایت میں ہے ’’مومن کو جو مصیبت پہنچتی ہے، تھکاوٹ، غم، بیماری اور ایسے تفکرات جو رنجیدہ کردیں،ان کے باعث گناہ جھڑتے ہیں‘‘(ترمذی) اور بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ’’جب مسلمان کوکوئی بھی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑجاتے ہیں۔‘‘(بخاری)
۳۔ منصب امامت وقیادت کا مستحق بناتا ہے: تمہید میں یہ بات آچکی ہے کہ صبر کرنے والوں کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً یهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآیاتِنَا یوقِنُونَ (السجدہ: 24) ’’جب انھوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں بہت سے پیشوا بنادئیے جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے اوروہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔‘‘اس آیت کے ضمن میں ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ ’’دینی امامت وقیادت یقین اور صبر سے حاصل ہوسکتی ہے۔‘‘(افادات ابن قیم)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے مختلف امتحانات میں کام یابی کے بعد امامت و قیادت کے منصب پر فائز کیا وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ (سورہ بقرہ : 124) ’’یاد کرو کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چندباتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اترگیا، تو اس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔‘‘ فرد اور امت دونوں کو امامت و قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے صبرکے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جب کہ بے صبری امامت و قیادت سے فرد اور امت کو معزول کردیتی ہے۔
۴۔فرد و قوم کو باوزن اور باوقار بناتا ہے: جس شخص کے اندر صبر نہیں ہوتا اس کی شخصیت بے وزن اور بے وقار ہوتی ہے۔ وہ جذبات کا اسیر اور خواہشات نفس کا غلام ہوتا ہے۔ خواہشات اور جھوٹی تمنائیں جدھر چاہتی ہیں اس کا رخ پھیر دیتی ہیں۔ جیسے بے وزن، ہلکی، پھلکی چیزوں کو ہوائیں جدھر چاہتی ہیں اڑا کر لے جاتی ہیں اسی طرح قومیں بھی اپنا وزن کھو بیٹھتی ہیں، جس کے افراد کی اکثریت متانت و سنجیدگی اور تدبر و ہوشمندی سے محروم، عجلت پسند اور جذباتی ہوتی ہے۔ مومن صابر سنجیدہ اور باوقار ہوتا ہے، ایک مومن کا جس قدر شریعت پر یقین ہوتا ہے اسی قدر مصائب پر صبر کی قدرت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے۔فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَا یسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِینَ لَا یوقِنُونَ (سورہ روم : 60) ’’پس صبر کیجیے بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے اور آپ کو کافر بے وزن نہ کردیں۔‘‘
آج امت کا کوئی خاص وزن نہیں ہے اس کی بڑی وجہ یہی بے صبری اور بے یقینی ہے۔
حصول صبر کا ذریعہ
صبر کی قوت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خدا سے لولگائی جائے،کثرت سے اللہ کو یاد کیا جائے، عبادات وریاضت کی پابندی کی جائے اور اس کی طاقت پر بھروسا کیا جائے فَاصْبِرْ عَلَى مَا یقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاءِ اللَّیلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى (طہ : 130) ’’پس اے نبی، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، امید ہے کہ تم راضی ہوجاؤگے۔‘‘ہجرت کے بعد جب قریش نے مسلمانوں کے خلاف تلواریں اٹھائیں اور مسلمانوں کے ایمان کو اخلاص کے ترازو میں تولنے کا وقت آیا تو یہ آیتیں اتریں یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِینَ (سورہ بقرہ: 153) ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘یعنی مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر اللہ سے مدد چاہتے ہو تو اللہ کا سہارا لو، یعنی اللہ سے اپنا تعلق زیادہ سے زیادہ مضبوط کرو، اس کے لیے نماز اور صبر دو بنیادی ذرائع ہیں۔ نماز اور صبر کی یہ صفتیں حق سے محبت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ جس قدر شریعت پر یقین ہوتا ہے اسی قدر مصائب پر صبر کی قدرت ہوتی ہے۔لہذا صبر کرنے والوں کو مومن اور مسلم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے رب سے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہوگا، اپنے دین اورشریعت پر کامل یقین کے ساتھ اس کی جزئیات اور کلیات پر عمل پیرا ہونا ہوگا، تب ایک مومن صبر کی حقیقی لذت سے آشنا ہوگا۔
مطلوب وموثر صبر
محض صبر مطلوب نہیں ہے، بلکہ وہ صبر مطلوب ہے جو ایمان واخلا ص کے ساتھ ہو، اللہ کا فرمان ہے إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِیرٌ (سورہ ہود: 11) ’’مگر جن لوگوں نے صبر کیا اور نیک اعمال کیے یہی لوگ ہیں کہ جن کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔‘‘(سورہ ہود۔ 11) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’میری بیٹی سے کہو کہ صبر کرے اور ثواب کی نیت رکھے۔‘‘(صحیح مسلم1224) ایک جگہ قرآن میں کہا گیا ہے بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا (آل عمران125) ’’کیوں نہیں، اگر تم صبر اور تقوی اختیار کرو۔‘‘معلوم ہوا کہ صبر بغیر ایمان اور تقوی کے اس جسم کی طرح ہے جو یقین اور توحید سے خالی ہو۔
فتح و غلبہ صابرین کے لیے ہے
صبر درحقیقت بہت ساری نیکیوں کا مجموعہ ہے، بلکہ تمام بھلائیوں میں معاون ہے اور بھلائیوں کے حصول کا ذریعہ بھی ہے۔ اللہ نے کم زور اور قلیل التعداد مسلمانوں کی کام یابی کے لیے یہی شرط رکھی ہے کہ وہ صبر اور استقامت سے کام لیں اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔دنیا کی سلطنت اور حکومت ملنے کے لیے بھی صبر و استقامت کا جو ہر مطلوب ہے، طالوت اور جالوت کے تفصیلی واقعہ میں بھی اس بات کا واضح اشارہ موجود ہے اور سورہ اعراف میں اس کی وضاحت کی گئی ہے قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِینُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ یورِثُهَا مَنْ یشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ (سورہ اعراف : 128) ’’موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے وہ جس کوچاہتا ہے اس کا وارث بنادیتا ہے۔‘‘
علامہ سید سلیمان ندویؒ نے تاریخی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ
’’بنی اسرائیل مصر و شام و کنعان کے آس پاس بسنے والی بت پرست قوموں سے تعداد میں بہت کم تھے لیکن جب انھوں نے ہمت دکھائی اور بہادرانہ استقامت اور صبر کا مظاہرہ کیا تو ان کی ساری مشکلیں حل ہوگئیں اور کثیر التعداد دشمنوں کے نرغے میں پھنسے رہنے کے باوجود ایک مدت تک خود مختار سلطنت پر قابض اور دوسری قوموں پر حکومت کرتے رہے، اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کی اس کام یابی کا راز اسی ایک لفظ صبر میں ظاہر کیا ہے‘‘
(سیرت النبیﷺ از سید سلیمان ندویؒ)
در اصل صبر قوموں کے روشن مستقبل کا ضامن ہے، قوموں کے معاملے میں اللہ تعالی کی یہ سنت رہی کہ پہلے ان کو مصائب اور شدائد سے آزمایا، جب وہ اس امتحان میں پکی ثابت ہوئیں تب ہی ان پر عظیم امانت کی گراں بار ذمہ داری ڈالی اور ان کو ایک ایک نئی امت کی صورت میں، نئی طاقتوں سے مسلح کرکے کھڑا کیا اور ان کے تمام دشمنوں کو نیست ونابود کردیا، قرآن میں اس کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ وَلِیمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَیمْحَقَ الْكَافِرِینَ. أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یعْلَمِ اللَّهُ الَّذِینَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَیعْلَمَ الصَّابِرِینَ. (سورہ آل عمران 141تا142) ’’اور وہ اس آزمائش کے ذریعے سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کردینا چاہتاتھا۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالاں کہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔‘‘ اکثریت پر اقلیت کو فتح اور غلبہ بھی اسی صبر و استقلال کے راستے حاصل ہوتا ہے۔فَإِنْ یكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ یغْلِبُوا مِائَتَینِ وَإِنْ یكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ یغْلِبُوا أَلْفَینِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِینَ (سورہ انفال: 66) ’’تمھارےسو ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمھارے ہزار ایسے ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر بھاری رہیں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
صبر کی اسی اہمیت کے پیش نظر رسالت مآب ﷺ نے اسے روشنی قرار دیا ہے، اس منبع نور سے افراد و اقوام روشنی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس روشنی سے محرومی فرد اور ملت دونوں کو بہت پیچھے کردے گی۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2022