حقیقت یہ ہے کہ’’ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطاکاری کے چکر میں پڑا رہے گا وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں ہمیشہ رہے گا‘‘۔ (بقرہ، آیت ۸۱) اپنی ذات کو گناہوں اور خطاکاریوں کے دلدل سے نکالنا اور بھلائیوں کو اپنانا مومنانہ زندگی کا وصف ہے۔ فطرت نے نسان کے اندر خیروشر کی تمیز ودیعت کی ۔ انسا ن کمزوریوں سے مبرّا نہیں ہوسکتا۔ غلطیاں و خطائیں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔ غلط و صحیح میں فرق کرنے کے لیے عقل اللہ نے عطا فرمائی ۔ بندوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ اپنی عقل کا استعمال کرتےہوئے جس راہ کاچاہیں، انتخاب کرےدنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی حاصل کریں یا دونوں جہاں کی ذلت و رسوائی۔
نیک طینت لوگ اپنی ذات میں موجود کمزوریوں کے خلاف نبرد آزما رہتے ہیںجبکہ شیطان صفت انسان نہ صرف غلطیوں پر اڑے رہتے ہیں بلکہ غلط کوہی صحیح گردانتے ہیں۔
انسانی شخصیت کے دو پہلو ہیں۔ ظاہری اور باطنی۔ ظاہرسے ابتدا میں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن باطنی خوبیاں ملاقات کے بعدیا معاملات کے وقت لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ظاہری خوبصورتی کا اثر عارضی ہوتا ہے جبکہ باطنی خوبیوں کا اثر پائیدار اور دیرپا ہوتا ہے باطنی خوبیاں کسی بھی فرد کو مثالی شخصیت کا رو پ دیتی ہیں۔
شخصیت کو مثالی بنانے کے لیے اپنی شخصیت کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہی وہ عمل ہے جس سے گزر کر انسان ارتقائی منازل طے کرسکتا ہے۔ انسانی فطرت کی کمزوری یہ ہے کہ اسے دوسروں کے عیب جلد نظر آجاتے ہیں اور اپنی ذات میں موجود خامیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ اگر آپ اپنے لیے مخلص ہیں تو انصاف کے ساتھ اپنی خامیوں کا شعور حاصل کریں ۔
انسانی شخصیت کی خوبیاں:
سچائی، محنت و مشقت، توجہ و یکسوئی، صفائی، چستی و مستعدی، مثبت رویہ، انصاف پسندی، اللہ کی فرمانبرداری، قناعت، حیا، خلوص ووفا، صبر و توکل، خوش مزاجی، خدمت و محبت، ہمدردی، اعتدال و میانہ روی، وقت کا صحیح استعمال، نرمی و رحمدلی ، چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کا احترام، کفایت شعاری، عفوودرگزر، ایمان داری، امید و یقین ۔
انسانی شخصیت کی کمزوریاں:
جھوٹ، سستی و کاہلی، لاپرواہی، جھگڑالوپن، بے انصافی، بے حیائی، بے صبری، عجلت پسندی، چڑچڑاپن، غیبت، بے مقصد گفتگو، وقت کا ضیاع، ہٹ دھرمی، ضد، خود پسندی، غرور و تکبر، حسد، بخل، بے وفائی، بے رحمی، تعصب و کینہ، خود غرضی، وعدہ خلافی، فضول خرچی، سہل پسندی ۔
مندرجہ بالا خصوصیات کو سامنے رکھ کر سنجیدگی سے غور کریں کہ کون سے خصائص آپ میں ہیں اور کون سے نہیں ۔ احتساب کرتے وقت انصاف کے ساتھ اپنی غلطیوں کو محسوس کریں ۔ خامیوں کا احساس ہوگا تب آپ ان کو دور کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ وہ خامی آپ سے چمٹی رہے گی۔
انسان جو نیکی کرے گا اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور کوئی بدی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا۔ اس لیے اخلاقی برائیاںاورخراب عادتیں مضر ہیں، گناہوں و کمزوریوں کا احساس وشعور حاصل کرنا اور تدارک کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہنا کامیاب زندگی کا زریں اصول ہے۔
انسانی عادتوں کے متعلق ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ’’عادت اگر کسی کے اندر مضبوطی سے جڑ پکڑلے تو اس کا دور ہونا دشوار ہوتا ہے۔‘‘ لیکن آپ اپنی نگاہ بُری عادت کے شدید نقصان پر رکھیں تو اس سے پیچھا چھڑاسکتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھیں تو تمام اخلاقی اچھائیاں ایمان کا تقاضا ہیں اور خرابیاں ایمانی کمزوری کی علامت ہیں۔ جس کا ایمان قوی ہوگا، وہ اپنے اندر اچھائیوں کو جمع کر نے کی فکر و تگ ودو میں لگا رہے گا جس کا ایمان کمزور ہوتووہ برائیوں کو دور کرنے کی فکر نہیں کرے گا۔
کمزوریوں کے تدارک کے لیے یہاںچند تدبیریں بتائی جارہی ہیں ۔
تدابیر:
(۱) اخلاص:
صبح سے شام تک جو کام بھی انجام دیں اخلاص نیت کے ساتھ انجام دیں۔ ریاکاری کا شائبہ تک نہ آنے دیں۔ خلوص نیت کے ساتھ ارادہ کرنے پر بندے کو اس نیکی کا بھی ثواب مل جاتا ہے جو ابھی اس نے انجام نہیں دی۔ اس کے برعکس ریاکاری کے ساتھ کیاگیا عمل بے کار ہے۔
(۲) اصلاح:
اپنی ذات کی اصلاح کے لیے اپنے قریبی لوگوں سے وقتاً فوقتاً پوچھا کریں کہ مجھ میں موجود خراب عادت کی نشاندہی کریں۔ اپنے آپ کو خود بھی جانچتے رہا کریں اور جن خامیوں کا ادراک ہو جائے ان کو دور کرنے کی شعوری کوشش کریں۔ اپنے آپ کو چند خوبیوں کے حصولی کا ہدف دیں۔ اس طرح کہ پندرہ دنوں تک مسلسل ان خوبیوں کو بطو ر خاص پروان چڑھانے کی کوشش کرنی ہے۔ جب خوبیاں جمع ہوںگی توخامیاں رخصت ہوتی جائیں گی۔
(۳) صبر:
کوئی آپ پر غصہ ہوتا ہو، برا بھلا کہتا ہو، اچھے کام میں نقص نکالتا ہو، اچھی عادتوں کا مذاق اڑاتا ہو، آپ صبر کرتے رہئے ۔
(۴) وقت کا صحیح استعمال:
آپ کی شعوری کوشش یہ ہوکہ ہر اس عادت ومصروفیت کو ترک کریں جو آپ کی شخصیت کو کمزورکرتی ہے ۔ اپنے اوقات کی منصوبہ بندی کیجیے۔ ترجیحات کا تعین ہو۔ روزانہ رات کو ذاتی احتساب کریں اگلے دن کی منصوبہ بندی کرلیں اور اس پر عمل بھی کریں۔ ہر کام وقت پر انجام دیں۔ نمازوقت پر ادا کریں۔ اس سے آپ کے ہر کام میں انضیاط پیدا ہوگا۔
(۵) مطالعہ :
قرآن، احادیث، سیرتؓ، تاریخ اسلام، اسلامی فقہ و اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کریں۔ مطالعہ کا شوق پیدا کریں۔ یہ روح کو تازگی عطا کرتا ہے۔ صحیح فکر اور رخ دیتا ہے۔ علم میں اضافہ کرتا ہے اور عمل پر ابھارتا ہے۔
(۶) سیکھنا سکھانا:
T.V. سیریل دیکھنے اور بے کار باتوں میں وقت ضائع کرنے سے بہتر یہ ہے کہ آپ مفید چیز کے سیکھنے اور سکھانے میں وقت لگائیں۔ مثلاً اذکارِ نماز کی صحت کے ساتھ ادائیگی ، ان کو ترجمہ کے ساتھ یاد کرنا۔ اگر قرآن کی 20سورتیں یاد ہیں تو 21ویں سورت یاد کرنا۔ گھر و محلہ کی خواتین کا ناظرہ قرآن صحیح کروانا، قرآن کا ترجمہ و تفسیر، احادیث، اسلامی واقعات پڑھ کر سنانا، کوئی ہنر سیکھنا، آپ کو جو آتا ہووہ دوسروں کو سکھانا۔
(۷) خوش اخلاقی:
آپ کوکوئی برابھلا کہہ کر تکلیف پہنچائے یا روکھے لہجہ میں بات کرے تب بھی آپ اس کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے رہیں۔ دل میں کدورت نہ رکھئے۔ چھوٹا سا سہی، کوئی تحفہ دیجیے۔ یہ محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ خواہ پیالہ بھر شوربہ ہویاچھوٹا سا رومال۔ آپ کی شعوری کوشش یہ کہ آپ کا رویہ کسی صورت میں منفی نہ ہو۔
(۸) حقوق کی ادائیگی:
آپ چاہے ماں ہوں، بہن ، بیوی، بیٹی ہوں، ہرروپ میں ذمہ دار ہیں۔ آپ سے وابستہ ہررشتہ آپ کی توجہ چاہتا ہے۔ ان سے متعلق تمام ذمہ داریوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ صحیح وقت پر ادا کریں۔ اس سلسلے میں کوتاہی و لاپرواہی نہ برتیں اوران کو بوجھ نہ سمجھیں۔
(۹) دعا:
خدا تعالیٰ سے ہمیشہ بھلائیوں کو اپنانے اور برائیوں کو ترک کرنے کی توفیق مانگا کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کووہ چیز ضرور عطا فرماتا ہے جو وہ خلوص و یقین کے ساتھ طلب کرتے ہیں
دل سے مانگے تو کیا نہیں ملتا
ہر دعا بے اثر نہیں ہوتی!!
دعا کے ساتھ عمل پر توجہ دیں محض دعاؤں سے شخصیت میں انقلاب برپا نہیں ہوگا۔ بندے کی محنت شامل ہوتو خدا کی مدد حاصل ہوتی ہے۔
یاد رکھئے! اگر آپ اپنی کمزوریوں و خامیوں پر محض جلتے کڑھتے رہے توان سے پیچھا نہیں چھڑا پائیں گے۔ ہر انسان اپنے اندر انفرادیت رکھتا ہے۔ اس کی انفرادیت کو چار چاند اس وقت لگ جاتے ہیں جب وہ اپنی خامیوں پر قابو پالیتا ہے اور خوبیوں کو جلا بخشتا ہے تب وہ ایک مثالی، جاذب نظر، منفرد ومؤثر شخصیت کے روپ میں ابھرتا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ربانی ہے کہ ہر ایک کے لیے ایک رخ ہے جس کی طرف وہ مڑتا ہے، پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔ جہاں بھی تم ہوگے، اللہ تمہیں پالے گا ۔ اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2018