مشترکہ خاندان کا مسئلہ

حقائق کی روشنی میں

اخبار و رسائل اہل علم کا قیمتی سرمایہ ہوا کرتے ہیں۔ ان کے مضامین بظاہر قارئین کے مزاج اور استعداد کو سامنے رکھ کر لکھے جاتے ہیں۔ خصوصاً عنوانات کی اہمیت کو پیش نظر رکھے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ نئے قلم کاروں کی نگارشات کو قبول کرنے میں تردد ہوتا ہے ان کے مضامین کا بغائر مطالعہ کرنے کے لیے فرصت درکار ہوتی ہے کیونکہ کوئی ایسی ویسی بات شائع ہوجاتی ہے تو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اِس سے بچنے کے لیے معروف اہل قلم حضرات کے تعاون ہی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود تحریری صلاحیت اور جدید قسم کے عنوانات کی وجوہات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی طرف توجہ دینا ہی پڑتا ہے۔ ان سب کے باوجود تحریر کے نوک پلک درست کرکے نکھارنے کاکام بھی بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔ ان مرحلوں کے بعد مضامین شائع ہوتے ہیں اور قارئین استفادہ کرتے ہیں۔ دینی مضامین لکھنے والوں کا مسئلہ ایک علیحدہ نوعیت رکھتا ہے۔ ان کے اندر فہم دین اور عقل و بصیرت کا شعور تو لازماً ہونا ہی ہے پھر ایسی خصوصی مزاج کے ساتھ وسیع مطالعہ اور تحریر کی فنّی صلاحیت بھی بے حد ضروری ہوا کرتی ہے ان سب کے باوجود اخلاص اور دردمندی کی کمی ہوتو مضامین شائع ہونے میں کوئی امرمانع نہیں ہوتا لیکن یہ مضامین قارئین کو خاطر خواہ فائدہ پہنچانے کے بجائے فکری الجھائو کا سبب بن جاتے ہیں۔ علم و فہم اور دینی مزاج اپنی جگہ لیکن ملّت کی موجودہ حالت اور اس کی صحیح صورت حال کا حقیقت پسندانہ شعور بھی قلمکار کے لئے ضروری ہے۔ افراد سے قلبی لگائو کے علاوہ ان کے ساتھ دردمندی اور اخلاص کےجذبات بھی بدرجہ اتم پایا جانا ضروری ہیں ورنہ ملّت کی موجودہ حالت سے بے خبر ہوکر محض علمی موشگافیوں کے شوشے چھوڑنے والے ملّت کاکچھ بھلا تو کیا کرتے بلکہ اپنے قلم سے نئے نئے الجھائو پیدا کرتے جاتے ہیں۔ اس قسم کے مضامین بھی آئے دن ہمارے درمیان شائع ہوتے رہے ہیں۔

جدّت طرازی، ندرت اور تغیر کی افادیت سے انکار نہیں لیکن جب یہ وصف قلمکار کی نفسیاتی کمزوری بن جاتاہے تو بڑا پیچیدہ مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ اس کو آسانی سے نہیں سمجھاجاسکتا۔ ان اوصاف کےحاملین کو اگر سمجھ بھی لیاجائے تو ان کو راہ راست پر لانا محال ہوجاتا ہے۔ یوں بھی اپنے موقف پر نظرثانی کرنے والے آٹے میں نمک سے بھی کم ہوا کرتے ہیں۔ حالانکہ علمائے دین دوسرے قلم کاروں کی بہ نسبت زیادہ حسّاس ہوتے ہیں اس لئے ان کو مسئلے کی حقیقی نوعیت کا احساس ہونے میں دیر نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن موجودہ مشاہدات اس کے برعکس ہیں۔

قریبی عرصے میں حیدرآباد کے ایک مشہور روزنامہ میں ایک معروف ماہر نفسیات جو بہت بڑے ڈاکٹر ہیں اور منٹل ہاسپٹل کے مالک بھی ہیں، ان کے مضامین ہر ہفتہ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انھوںنے اپنے ایک مضمون میں ’’قریبی رشتہ میں شادیاں کرنے سے بچّے معذور پیدا ہوتے ہیں‘‘کے نظریے پر اظہار خیال کیاتھا اور شدّومد سے اس کے دلائل بھی پیش فرمائے تھے۔ اس کے بعد جواب میں کچھ قلمکاروں نے تردید کرتے ہوئے مضامین لکھے تھے۔ عاجز نے محسوس کیاکہ اس سےمعاملہ سلجھ نہ سکے گا چنانچہ ایک مدلل مضمون مذکورہ روزنامے کے سپرد کیا اور سائنٹفک انداز کے علاوہ دینی نظائر بھی پیش کیا۔ اس کے بعد مسئلہ ختم ہوگیا اورایک موقع پر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو آپ نے جس انداز سے عاجزکی پذیرائی کی تھی وہ اعلیٰ کردار کی مثال ہے۔ دین کی رہنمائی جس قدر معقولیت پر مبنی ہوا کرتی ہے وہ کہیں نہیں ہوتی۔ اِسی زمانے کے ماہ نامہ ’’زندگی نو‘‘ میں ’’مشترکہ خاندان کا تصّور غیراسلامی ہے‘‘ جیسے عنوان پر قسطوں میں مضامین شائع ہورہے تھے۔ شمالی حیدرآباد کے ارکان کےایک اجتماع میں ایک خاتون نے سوال کیاکہ کیا آپ لوگ زندگی کایہ مضمون پڑھ رہے ہیں؟ اُس کے لکھنے والے صاحب نے آیتوں کے غلط ترجمے اور احادیث کے غلط استعمال کے ذریعہ بے موقع ایک غیرضروری مسئلہ کھڑا کیا ہوا ہے۔ وغیرہ۔ اُس وقت کے سامعین نے ان کاکوئی جواب نہیں دیا میں نے سوچا تھا کہ ہمارے ارکان کو ’’زندگی نو‘‘ کے ان پُرمغز مضامین پڑھنے کی فرصت ہی کب ملتی ہے؟ البتہ امیر مقامی نے یہ کہہ کر خاتون کاجواب دیاتھا اور چپ کروایاتھا کہ آپ بھی اس کے جواب میں مضمون لکھئے ہم پہنچادیںگے۔ اُس رکن خاتون نے دو صفحوں پر مشتمل مضمون لکھ کر ڈی ٹی پی بھی کروایا اور عنوان تھا ’’مجھے کچھ کہنا ہے‘‘، ’’زندگی نو‘‘ کے پتے پرروانہ کردیا۔اس میں ترجموں اور احادیث کی بے محل استعمال گرفت کی گئی تھی اور آخر میں سخت الفاظ کے ذریعہ سرزنش بھی کی گئی تھی، لیکن وہ مضمون شائع نہیں ہوا۔ عاجز کو اس کی اطلاع دی گئی میں نے مزید ضروری نوٹ کے ساتھ اسی ورق کو دوبارہ ماہنامہ زندگی نو کے لئے ارسال کردیا اور شائع کردیاگیا۔ اس کے متصل زمانے میں سہ روزہ دعوت میں بھی مشترکہ خاندان کو خلاف دین بتاتے ہوئے دو مضامین شائع ہوئے تھے۔ چونکہ یہ درمیانی وقفے کے ساتھ علیحدہ علیحدہ موقعوں پر دو نئے قلم کاروں کے کارنامے تھے، اس لئے میں نے دونوں کا بھی تفصیلی جائزہ لے کر سیر حاصل مضمون لکھ ڈالے تھے وہ تو شکر ہے کہ دونوں بھی جوں کے توں شائع ہوگئے۔ اس کے بعد اس توقع کے ساتھ سکھ کی سانس لیاکہ چلو ہماری بات معقول ثابت ہوئی ہے اس لئے پھر کبھی یہ مسئلہ سر نہ اٹھاسکے گا۔ اس کے باوجود بھی کسی نہ کسی رخ سے اس مسئلے پر چاند ماری ہوتی ہی رہتی ہے۔ وہ ہمارے بزرگ اپنی جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے دلائل کی کثرت کے ذریعہ کتابچے کی ضخامت میںاضافہ کیے ہیں۔مشترکہ خاندان کا مسئلہ ہو یا حالیہ مضمون ’’کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی دعوت خفیہ تھی؟‘‘ جیسے مضامین کو جدّت پسندی کی نفسیات کی تکمیل کا ایک ذریعہ سمجھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کیونکہ مشترکہ خاندان کا جو تصور ذہن میں رکھ کر بات کہی جارہی ہے اُس قسم کا مشترکہ خاندان کبھی قبائل اور غیرمہذب قوموں میں رہا ہوتو، رہا ہو ورنہ ضرورۃً ہی مختصر عرصہ دلہا دلہن ساس اور خسر کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ دور جدید میں بتدریج اس کو بھی ازکار رفتہ خیال کرکے علیحدہ گھر بسانے کا تصور عام ہونے لگا ہے۔ مغرب کی نقالی میں خاندانی نظام بکھرائو پر مائل ہے۔ عموماً لڑکوں کو شادی کرنے کے بعد ان کو علیحدہ کمرہ سونپ دیاجاتاہے اس میں ان کو پوری آزادی ہوتی ہے۔ جتنا عرصہ بھی مل کر رہنا ہوتاہے وہ قطعی مجبوری اور خاندان کی ضروریات کے پیش نظر ہوتاہے اِن کو دین کے احکام کے ذریعہ فوری الگ گھر بسانے کی ترغیب دینا سراسر کم عقلی اور ناسمجھی پر مبنی ہدایات کے زمرے میں آتا ہے۔ سلف صالحین سے اس مسئلے کو لچک دار ہی رکھا گیا ہے۔ تھوڑا وسیع النظری اور بے لاگ غوروفکر سے کام لیاجائے تو موجودہ خاندانی نظام کو مشترکہ خیالی خاندان سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا ہے۔ ناگزیر حالات کی وجہ سے جو مل کر رہا جاتا ہے، وہ اضطرار کے درجہ میں آتا ہے۔ جوں ہی فراغت نصیب ہوتی ہے مجبوریاں ختم ہوجاتی ہیں تو علیحدگی اختیار کرنے میں دیر نہیں کی جاتی۔ اس کے لئے شرعی احکام کی ضرورت نہیں ہے۔ معاشرے کی فطری طلب ہے تبھی تو یہ چھوٹ رکھی گئی ہے۔ موجودہ نفسانفسی کی فضا میں والدین کی مرضی کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیاجاتا۔ اطاعت اور فرمانبرداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ بیٹا اور بہو کچھ اور مدّت تک ساتھ رہیں تاکہ اِن کے دوسرے چھوٹے بہن بھائیوں کے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکے لیکن اگر مالی فراغت نصیب ہوتو بزرگ والدین علیحدہ ہونے والے بیٹے اور بہو سے کوئی غرض نہیں رکھتے اِن مسائل پر گہرائی سے جائزہ لیاجائے اور عملی دنیا میں اُترکر مشاہدوں اور تجربوں کے ذریعہ جانچ کی جائے تو خاندانی نظام کی حقیقی خامیاں سامنے آسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرتی مسائل پر قلم اٹھانے والے بزرگوںنے کبھی بھی مشترکہ خاندان کے مسئلے کو نہیں اٹھایا ہے۔ حالیہ عرصہ میں اپنی کتاب میں مولانا جلال الدین عمری صاحب نے بھی خاندانی نظام پر سیرحاصل معلومات فراہم کی ہیں اور دوسرے بے شمار دانشوروں نے بھی خاندانی نظام کی ہیئت ترکیبی پر تفصیل سے بحث کی ہے لیکن مشترکہ خاندان کی قباحت کا کہیں ذکر تک نہیں کیا ہے۔ اور پھر موجود حالات میں یہ مسئلہ بے وقت کی راگنی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اسی طرح دوسرے بزرگ نے حضور ؐ کی ابتدائی دور کی خفیہ دعوت کو ’’انڈر ورلڈ‘‘ قسم کے تصوّر کو سامنے رکھ کر وہ مضمون قلمبند کیا ہے۔ اس طرح کی جدّت طرازیوں میں وقت صرف کرنے کے بجائے ملّت کی زبوں حالی کا تصوّر کرکے غوروفکر کیاجائے تو بے شمار مسائل کا احاطہ کیاجاسکتا ہے۔ خدا ہماری مدد فرمائے۔

مشمولہ: شمارہ مئی 2014

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau