رسائل ومسائل

محمد رضی الاسلام ندوی

مخالف ماحول میں  ہم کیا کریں؟

سوال:

میں دینی مزاج رکھتی ہوں ، لیکن میری سسرال والے بالکل دین پسند نہیں ہیں۔ انہیں نماز روزے سےکوئی مطلب ہے نہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں تو وہ برا مانتے ہیں ۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کیسے ان کی اصلاح کروں؟ میں بہت پریشان ہوں۔ بہ راہ کرم میری رہ نمائی فرمائیں ۔

جواب:

۱۔ سب سے پہلے اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کو دین کا فہم اوراس پر عمل کاجذبہ عطا کیا، ورنہ اس دنیا میں کتنے انسان ہیں جو مسلمان خاندان میں پیدا ہوئے اورپلے بڑھے ہیں ، لیکن دین سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ انہیں اسلام کے بنیادی عقائد اور تعلیمات کی خبر نہیں ہے ، ان پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے ۔

۲۔ سب سے پہلے انسان اپنی ذات کا مکلف ہے ۔ روزِ قیامت کسی طرح کی نسبت کام نہیں آئے گی ۔ ہر شخص اللہ تعالیٰ کے روٗ ـبروٗ تنہا پیش ہوگا :وَکُلُّہُمْ آتِیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْداً ( مریم :۹۵)۔ ’’وہاں اس کا حساب وکتاب ہوگا اور دنیا میں کیے گئے اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق اسے جزا یا سزا ملے گی۔

۳۔ انسان دین پر عمل کررہا ہو، اللہ کی رضا کے مطابق کام کررہا ہواور اس کی معصیت سے بچ رہا ہو تو دوسروں کی گم راہی سے اسے روزِ قیامت کچھ نقصان نہ پہنچے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ اگر تم راہِ ہدایت پر قائم ہوتو دوسروں کی گم راہی تمہیں ضرر نہیں پہنچائے گی:  يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ۝۰ۚ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَيْتُمْ۝۰ۭ(المائدہ:۱۰۵) قرآن نے اس کی ایک بہت نمایاں مثال پیش کی ہے ۔ فرعون کافر ومشرک اوربہت ظالم وجابر بادشاہ تھا۔ اس کے جہنمی ہونے کی خبر دی گئی ہے ، لیکن اس کی بیوی کوایمان لانے کی توفیق ہوئی تو اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔ (التحریم : ۱۱) اور اس کے شوہر کے گم راہ اور جہنمی ہونے سے اسے کوئی ضرر نہیں پہنچا۔

۴۔ آدمی دین کی باتیں دوسروں تک پہنچانے کا مکلّف ہے ۔ وہ یہ کام کردے تو اس نے اپنی ذمے داری پوری کردی ، چاہے دوسرے اس کی بات مانیں یا نہ مانیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پیغمبر سے بھی کہہ دیا تھا کہ آپ کا کام صرف پہنچا دینا اوراس کی یاد دہانی کرادینا ہے ، آپ داروغہ نہیں ہیں کہ دوسروں کواسے قبول کرنے پر مجبو ر کردیں :فَذَكِّرْ۝۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۝۲۱ۭ لَسْتَ عَلَيْہِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ (الغاشیۃ :۲۱۔۲۲)

۵۔ دعوت میں حکمت ومصلحت کا لحاظ بہت ضروری ہے ، سمجھانے بجھانے کی کوشش ضرور کی جائے، لیکن موقع ومحل دیکھ کر۔ یہ ملحوظ رکھنا بہت ضر وری ہے کہ کون سی بات کہی جائے؟ کس سے کہی جائے اور کب کہی جائے؟

۶۔ دعا بھی بہت ضروری ہے ۔ آدمی اپنی طرف سے پوری کوشش کرلے، پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا ے کہ میرے بس میں جوکچھ تھا، میں نے کردیا ۔ اب لوگوں کے دلوں کوپھیرنا اوران میں قبول حق کے لیے آمادگی پیدا کرنا تیرا کام ہے۔

ان نکات پر عمل کریں ۔ ان شاء اللہ راہیں نکالیں گی اورآپ اپنی کوششوں میں کام یاب ہوں گی۔

 

زنا بالجبر کا شکار خاتون کے مسائل

سوال:

اسلام میں زنا بالجبر سے متاثرہ خاتون کی کیا حیثیت ہے؟ سماجی اعتبار سے اس عورت کا کیا مقام ہے ؟ کیا ایسی عورت شادی شدہ ہوتو اس کوحمل موجود ہونے یا نہ ہونے کا تیقن ملنے تک اپنے شوہر سے جنسی تعلق سے اعراض کرنا ہوگا؟ اگر ایسی عورت غیر شادی شدہ ہو تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ اگر ایسی عورت کوحمل ٹھہر جائے تو کیا اس کا اسقاط جائز ہوگا؟ اگر ایسی اولاد پیدا ہوجائے تو اس کی کفالت کی ذمہ داری کس کی ہوگی؟

جواب:

کسی عورت سے زنا بالجبر کیا جائے ، اس میں اس کی مرضی شامل نہ ہوتو اسے پاک دامن سمجھا جائے گا اوراسی حیثیت میں اس سے معاملات کیے جائیں گے۔ ظاہر ہے ، اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ، بلکہ وہ تو مظلوم ہے ، اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے، اس لیےو ہ ہمدردی اورتعاون کی مستحق ہے ۔ عموماً سماج میں ایسی عورت کوگری ہوئی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس سے رشتہ کرنے سے احتراز کیا جاتا ہے ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ درست رویہ نہیں ہے۔

اگر زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورت شادی شدہ ہے تو اس  سے اس کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ وہ اپنے شوہر سے معمول کے تعلقات رکھے گی ۔ حمل ہونے یا ہونے کا تیقن ہونے تک اس کے  لیے شوہر سے دور رہنے کی ضرورت نہیں۔ اگر استقرار حمل ہوجائے تو اولاد  شوہر ہی کی سمجھی جائے گی۔ (بخاری :۲۰۵۳)

اگر زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورت غیر شادی شدہ ہےاوراسے استقرار حمل ہوجائے تو کیا اس کا اسقاط جائز ہوگا ؟ اس سلسلے میں فقہا ء نے جائز حمل او رناجائز حمل کے درمیان کچھ فرق نہیں کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک سو بیس دن ( جوروح پھونکے جانے کی مدت ہے) کے بعد اسقاط عام حالات میں جائز نہیں ۔ اس سے قبل اسقاط کو احناف، شوافع اور بعض حنابلہ جائز قرار دیتے ہیں ۔مالکیہ کسی صورت میں اسقاط کی اجازت نہیں دیتے۔

زنا بالجبر سے ہونے والی اولاد کی کفالت کی ذمہ داری ماں پر ہے ۔ بعض فقہا ء کہتے ہیں کہ ایسا بچہ یتیم کے حکم میں ہے اور اس پر یتیم کے احکام نافذ ہوں گے۔ جو صورتیں یتیم کی کفالت کے لیے اختیار کی جاتی ہیں وہی اس کے معاملے میں بھی کی جائیںگی۔       (محمد رضی الاسلام ندوی)

 

وراثت کے دو مسئلے

سوال:

(۱) ہمارے جاننے والے ایک صاحب کا حال میں انتقال ہوا ہے ۔ ان کے کئی لڑکے اورلڑکیاں ہیں۔ ایک لڑکے کا کہنا ہے کہ میں نے ابّا کی زندگی میں جتنی چیزیں انہیں دی ہیں، مثلاً پلنگ، اے سی ، سوٹ کیس وغیرہ وہ سب میری ہیں ۔ وہ ترکہ میں تمام بھائیوں بہنوں میں تقسیم نہ ہوںگی۔ابّاکی صرف  وہ چیزیںترکہ میں شمار ہوںگی جوانہوں نے اپنی کمائی سے خریدی ہوں۔ کیا یہ بات درست ہے؟

(۲) ایک پلاٹ خریدا گیا، جس میں ماں نے چالیس فی صد اور ایک بیٹے نے ساٹھ فی صد رقم لگائی۔ پلاٹ کی رجسٹر ی ماں کے نام سے ہوئی۔ ماں کے انتقال کے بعد جب ان کاترکہ تقسیم ہونے کی بات آئی تو رقم لگانے والے بیٹے کہہ رہے ہیں کہ اس پلاٹ کا ساٹھ فی صد حصہ میرا ہے ، اس لیے کہ اتنی رقم میں سے لگائی تھی۔ ماں کی محبت میں میں نے ان کےنام رجسٹری کرادی تھی ۔ دوسرے بھائیوں بہنوں کا حصہ اس پلاٹ کے صرف چالیس فی صد حصہ میں ہوگا۔ کیا ان کا یہ کہنا درست ہے؟

جواب:

(۱) تقسیم میراث کا تعلق ان تمام چیزو ں سے ہے جومیت کی مملوکہ ہوں اور آدمی کی ملکیت شریعت کی نظر میں ان تمام چیزوں پر ثابت ہےجواسے وراثت میں ملی ہو، یا اس نے خود کمایا ہو یا اسے دوسروں سے بہ طور تحفہ ملی ہوں ۔ پس باپ کی زندگی میں اس کے بیٹے گھر میں جوسامان لائے ہوں وہ باپ کی ملکیت سمجھے جائیں گے ، سوائے اس سامان کے  جس کولانے والے بیٹے نے صراحت کردی ہو کہ اس کا مالک وہ خود ہے ، اس نے باپ کو صرف اس کے استعمال کا حق دیا ہے ۔ اس بنا پر گھر کی تمام چیزوں پر مالِ وراثت کا اطلاق ہوگا اور وہ تمام ورثہ کے درمیان تقسیم کی جائیںگی۔

(۲) والدہ کی زندگی میں جوپلاٹ ان کے نام رجسٹر ڈ کرایا گیا وہ ان کی ملکیت سمجھا جائےگا اوران کے مرنے کے بعد تمام ورثہ میں تقسیم ہوگا، چاہے اس کی خریداری کے وقت ان کے کسی ایک یا ایک سے زاید بیٹوں نے کچھ فی صد رقم لگائی ہو۔ رجسٹرڈ کرانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کا انہیں مالک بنادیا گیا ۔ الّا یہ کہ رقم لگانے والے بیٹے نے خریداری کے وقت صراحت کردی ہو کہ محض قانونی مجبوریوں سے بچنے کے لیے پلاٹ کووالدہ کے نام رجسٹرڈ کرایا جارہا ہے ، جتنی رقم میں لگارہا ہوں اتنا قطعۂ اراضی میرا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ دونوں صورتوں میں مرحومین کے ایک بیٹے کا دعویٰ صحیح نہیں ہے ۔ دونوں کے مالِ وراثت میں ان کے تمام بیٹوں او ر بیٹیوں کا حصہ ہوگا۔

 

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2017

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau