انسان کی سیرت کی تعمیر بہت مشکل کام ہے۔ اس کے خیال وفکر کو بدلنا، تصور و فلسفہ کو بدلنا، روایات و رواجوں کو بدلنا، برسوں سے قائم طرزِ زندگی کو بدلنا، برسوں سے باپ دادا کے پوجنے کے اطوار کو بدلنا، برسوں سے مناصب پر قائم ہوئے گدیوں کو چھوڑنا، نفع و نقصان کے پیمانوں کو بدلنا، غرض اپنے آپ کو بدل کر ایک نئے قالب میں ڈھلنا بہت مشکل ہے۔ مشکل و کٹھن تو ہے مگر ناممکن نہیں۔ انسان اپنے ارادے، عزم و حوصلے، صبر و استقامت سے ایک نئے قالب میں ڈھل سکتا ہے۔ انسان کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوںو مقاموں میں نبی و رسول مبعوث فرماکر صراط مستقیم پر گامزن رہنے کے لئے دنیا وآخرت میں فلاح پانے کے لئے کتابیں/ہدایت نامے نازل کیے۔ پھر آخر میں حضرت محمدؐ کو نبی آخر الزماں مبعوث فرماکر اور ہدایت کا آخری تاقیامت انسانوں کی رہنمائی کے لئے قرآن مجید نازل فرماکر انسانوں پر سب سے بڑا احسان کیا ہے۔ اب تمام انسانوں کے لئے قرآن وسنت رسولؐ حجت ہے جس پر چل کر دنیا و آخرت میں فلاح پاسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات میں بنیادی عقیدہ، حقوق اللہ و حقوق العباد، حقوق نفس اور مقصدزندگی کے اہم اصول بیان فرمایا ہے۔ ان ابتدائی آیات کی روشنی میں مطالعہ کریں کہ نبی کریمؐ کس طرح صحابہ اجمعین کی سیرت کی تعمیر فرمائی اور صحابہ اجمعین کس طرح ان آیات کو اپنی زندگیوں میں اپناکر فلاح و فوز سے ہمکنار ہوئے۔
فرمایا: ’’یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے‘‘ اس مختصر مگر جامع آیت سے ان تمام تصورات کو، پیمانوں کو، میعاروں کو کالعدم قرار دیا ہے، جو صرف دنیاوی مال و دولت کوحسب و نسب کو، خاندان و قبیلہ کی برتری کو، قوم و وطن کی محبت کو، منصب و سرداری کے حصول کو، عیش و عشرت کی زندگی کو اور عالیشان محلات کو اور آج کل بینک بیلنس کو، یہ سب دنیاوی چیزیں حقیقی فلاح کی ضامن نہیں۔ حقیقی فلاح کے لئے ان چیزوں کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس شرط پر کہ سب سے پہلے اپنے خالق و مالک و حاکم و رب پر ایمان لایا جائے۔ ایمان بھی زبانی اقرار نہیں بلکہ دل میں اس کی تصدیق ہو اور ایمان باللہ راسخ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، حقوق واختیارات میں کسی کو شریک نہ کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ صرف ہمارا خالق ہی نہیںجیساکہ مشرک بھی خالق مانتے تھے بلکہ ہمارا مالک بھی ہے۔ اس کائنات کی تمام چیزیں نبادات و جمادات، دریا وپہاڑ، ہوا و پانی، زمین میں پائے جانے والے خزانے چاند و سورج،آسمان و سمندر سب کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں۔ اشرف المخلوق ہونے کی حیثیت سے انسان کو ان چیزوں پر تصرف کا اختیارودیعت کیا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کا نائب ہے۔ نائب ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ان چیزوں کا استعمال کرنا ہے۔ انسان اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتا اگر کرتا ہے تو مالک کی ناراضی مول لے گا۔ اللہ تعالیٰ، حاکم، مقتدر عزیز ہے۔ انسان کو چاہیے کہ نوکر ومحکوم ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے احکام وتعلیمات کے مطابق زندگی گزارے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کو اپنی زندگی پر نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھی اللہ تعالیٰ کے قانون کو نافذ کرنے کی جدوجہد کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، حقوق واختیارات میں کسی کو شریک نہ کرے۔ شرک ظلمِ عظیم ہےجسے اللہ تعالیٰ کبھی نہ بخشے گا۔ اللہ تعالیٰ ہی جمال وکمال وعظیم ہستی ہے اور ہر نقص سے پاک ہے۔ اس کے ہاتھ میں موت وحیات، نفع و نقصان کا اختیار ہے۔ اللہ جو چاہے کرتاہے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ غرض توحید کا تصور ذہن و دل میں راسخ ہوجائے اور (مکمل) توکل اسی پر کرے تو ایمان پختہ ہوتاہے۔ اللہ کو ہی نہیں اللہ کی بھی مان کر زندگی گزاریں۔
توحید پر ایمان کالازمی جز رسالت وآخرت پر ایمان لانا بھی ہے۔ رسالت پر ایمان یہ کہ حضرت محمدؐ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسولؐ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر نبوت ختم کردی اور آپؐ پر قرآن مجید نازل فرمایا جو تاقیامت تمام انسانوں کے لئے راہ ہدایت و نجات ہے۔ آپؐ نے قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق بہترین و مکمل اسوۂ حسنہ ہم سب کے لئے چھوڑے ہیں۔ اب آپؐ کی پیروی سے ہی ہدایت پاسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔ آخرت پر ایمان یہ کہ انسان اس دنیا میں خلیفہ ہے اور اس کی زندگی امتحان والی زندگی ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے اور دارالعمل ہے۔ ہر انسان اس دنیاوی زندگی کا ذمہ دار ہے اور مرنے کے بعد آخرت میں اللہ کے حضور جوابدہ ہے۔ آخرت دارالجزا ہے اور وہاں ہمارے اعمال کے مطابق جزا و سزا، نیک اعمال، صالح اعمال کرنے والوں کو جنت اور ظلم وبرے اعمال کرنے والوں کو دوزخ۔ آخرت کا یہ تصور ذہنوں میں راسخ ہونا ہے۔
توحید، رسالت و آخرت پر دل و جان سے ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں فلاح سے ہمکنار ہوںگے۔ پھر ایمان لانے والوں کے خصوصیات کا ذکر ہے۔ سب سے پہلے اللہ کے حقوق کا ذکر ہے۔ ’’جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘ نماز اسلام کے ارکان میں سب سے پہلی بنیادہے ایمان لانے کے بعد۔ نماز کیاہے اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئےاس کے ذکر و تمحید کے لئے نماز بہترین ذریعہ ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ایمان و کفر کے درمیان نماز کا فرق ہے۔ ایمان لانے کے بعد اولین عملی تقاضا نماز ہے۔ مومنین نمازوں کااہتمام کرتے ہیں اور اپنی نمازوں میں خشوع اختیا رکرتے ہیں۔ خشوع جسمانی طور سے بھی اور باطنی طور سے بھی۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم ہستی کا استحضار، اللہ تعالیٰ کی کبریائی و بڑائی اور اپنی بے بسی و تذلیل کا اظہار، اپنی ناتوانی و بندگی کااقرار۔ انسان کسی کے آگے اپنی ناک نیچے کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا مگر بندۂ مومن اللہ کے حضور اپنی ناک رگڑ کر بندگی کا اظہار کرتا ہے۔یہ بندگی کا اظہار ہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ یعنی سجدہ کرو اور قریب ہوجائو۔ جب مومن بندہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتاہے اور ہم کلامی کرتاہے تو اللہ تعالیٰ بھی مومن بندے سے قریب ہوجاتا ہے۔ مومن بندہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کئے ہوئے اس سے قوت حاصل کرتا ہے۔ یہی قوت مومن بندے کے اندر اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے کے لئے ہر مصیبت کو برداشت کرنے کی صبر کی، استقامت کی اور اللہ پر توکل کی صفات پیدا کرتی ہیں اور پروان چڑھاتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے تھک جاتاہے تو اللہ کے حضور کھڑے ہوئے، اس کے ذکر سے، اس کی حمد سے پھر قوت حاصل کرتاہے اور تازہ دم ہوکر اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لئے جدوجہد کرتاہے۔ دن بھر جدوجہد کرتے ہوئے رات میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑتا ہے۔ اللہ ہی تمام قوتوں کاسرچشمہ ہے اور رات بھر اسی سرچشمہ سے سیراب ہوکر دوسرے دن اللہ کی راہ میں محنت کرتا ہے۔ یعنی دن میں شہسوار اور رات میںنمازی۔ نبی کریمؐ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے جب کبھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو فوراً اللہ تعالیٰ سے لولگاتے یعنی نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے۔ نمازمومن بندے کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھتی ہے اور یہی اصل مقصد ہے۔ دوسری طرف نماز مومن بندے کی زندگی کو پاکیزہ کرتی ہے۔ بے حیائی، فحش سے روک کر۔
پھرفرمایا: ’’لغویات سے دور رہتے ہیں۔‘‘ مومن بندے کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ ہر وہ کام جوبے کار ہو، بے فائدہ ہو، لاحاصل ہو، فضول ہو ، میں ملوث نہیں ہوتے۔ وہ فحش گوئی، بے حیائی، بے شرمی، بیہودہ باتیں کرتے ہیں اور نہ ان میںدوسروں کے ساتھ ملوت ہوتے ہیں۔ انہیں مقصد زندگی کا شعور ہوتاہے اور اسی مقصد زندگی یعنی اقامت دین کی جدوجہد میں زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں اپنے نصب العین کا شعور ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی، اس کی رضا و فلاح آخرت سے کوئی چیز غافل نہیں کرتی۔ مولانا مودودیؒ اس کی تشریح اس طرح کرتے ہیں: ’’یہ چیز جسے اس مختصر فقرے میں بیان کیاگیاہے، دراصل مومن کی اہم ترین صفات میں سے ہے۔ مومن وہ شخص ہوتاہے جسے ہر وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور جس چیز کو زندگی اور عمر اور عمر کے مختلف ناموں سے یاد کیاجاتاہے وہ درحقیقت ایک نپی تلی مدت ہے جو اسے امتحان کےلئے دی گئی ہے۔ یہ احساس اس کو بالکل اس طالب علم کی طرح سنجیدہ مشغول اور منہمک بنادیتاہے جو امتحان کے کمرے میں بیٹھا اپنا پرچہ حل کررہا ہو۔ جس طرح اس طالب کو یہ احساس ہوتاہے کہ امتحان کے یہ چند گھنٹے اس کی آئندہ زندگی کے لئے فیصلہ کن ہیں، اور اس احساس کی وجہ سے وہ ان گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اپنے پرچے کو صحیح طریقےسے حل کرنے کی کوشش میں صرف کرڈالنا چاہتاہے اور ان کا کوئی سیکنڈ فضول ضائع کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔ ٹھیک اسی طرح مومن بھی دنیا کی اس زندگی کو انہی کاموں میں صرف کرتاہے جو انجام کار کے لحاظ سے مفید ہوں۔ حتیٰ کہ وہ تفریحات اور کھیلوں میں سے بھی ان چیزوں کا انتخاب کرتاہے جو محض تضیع وقت نہ ہوں۔ بلکہ کسی بہتر مقصد کے لئے اسے تیار کرنے والی ہوں۔اس کے نزدیک وقت کاٹنے کی چیز نہیں ہوتی بلکہ استعمال کرنے کی چیز ہوتی ہے۔‘‘ (حاشیہ۶) وسیع معنوں میں بندۂ مومن ہر کام، ہر مشغلہ، ہر مصروفیت اپنے مقصد کے حصول اور نگاہیں نصب العین پر ٹکی ہوئی ہوتی ہیں۔
پھر فرمایا: ’’زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔‘‘ اسلام ہی واحد دین ہے جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس آیت میں اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے پر زور دیاگیا ہے۔ قرآن مجید کےمطالعے سے، سیرت رسولؐ و سیرت صحابہؓ اجمعین کےمطالعہ سے ہمیں صاف طور سے عیاں ہوجاتا ہے کہ اسلامی شریعت کے دو بنیادیں ہیں۔ ایک نماز اور دوسرا زکوٰۃ۔ یعنی حقوق اللہ وحقوق العباد۔ پرندے کے دو بازو ہیں اور دونوں بازو پرندہ اوپر اڑنے کے لئےاستعمال کرتاہے۔ اسی طرح مومن بندہ بھی نماز و زکوٰۃ پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی رضا حاصل کرتا ہے۔ پرواز کرنے کے لئے پرندہ دونوں بازو نیچے زور سے دباتا ہے۔ اسی طرح مومن بندہ بھی عجزو انکساری و اخلاص کے ساتھ عمل کرتاہے تو اس کی نیکیاں آسمان کی طرف پرواز کرتی ہیں۔ دوسری طرف ہم جائزہ لیں تو اگر ایک بازو زخمی ہوجائے یا ناکارہ ہوجائے تو پرندہ پرواز نہیں کرتا۔ اس سے نماز و زکوٰۃ کی اہمیت دین میں بڑھ جاتی ہے۔ دونوں کی یکساں اہمیت ہے اور دونوں پر عمل پیراہونا ہے۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ مئی 2014