میں کون ہوں؟
کیا مجھے کسی مافوق الفطرت طاقت نے پیدا کیا ہے یا میرا وجود محض کسی اتفاق کا نتیجہ ہے؟
میرا ان لوگوں سے کیا تعلق ہے جو میری طرح نظر آتے، برتاؤ کرتے، اور رہتے ہیں؟
میرا اپنے ارد گرد کی مخلوقات سے کیا تعلق ہے؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو انسانی شعور کی ابتدا ہی سے پوچھے جاتے رہے ہیں۔ اسی طرح یہ تصور بھی کہ ”کائنات ازخود وجود پذیر ہو سکتی ہے“بے حد قدیم ہے، ہر چند کہ دستاویزی شواہد اس کے ڈانڈے یونانی فلسفیوں جیسے ابیقور (Epicurus) اور بروتاغورث (Protagoras)سے ملاتے ہیں۔
بروتاغورث کا مشہور قول ہے کہ ”دیوتاؤں کے بارے میں، میرے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ موجود ہیں یا نہیں، اور نہ اس کا کوئی علم ہے کہ وہ کس طرح کے ہوسکتے ہیں۔ بہت سی چیزیں علم کو روکتی ہیں، بشمول موضوع کا ابہام اور انسانی زندگی کی ناپائیداری۔“ [1]
یہ اقتباس واضح طور پر اس تصور کی نمائندگی کرتا ہے جسے تصورِ الحاد (atheism) کے تحت رکھا جاتا، جس سے مراد ہے”خدا کے بغیر۔“
تاہم، یہ امر قابل ذکر ہے کہ الحاد کی تعریف زمانے کے ساتھ بہت حد تک تبدیل ہوئی ہے۔ ڈریپر نے اسے اپنے نفسیاتی، فلسفیانہ اور مقبول معنوں میں بہترین طور پر بیان کیا ہے: ”نفسیاتی معنوں میں، atheism وہ حالت ہے جس میں فرد خدا پر یقین نہیں رکھتا، جب کہ theism سے مراد وہ یقین ہے کہ خدا موجود ہے۔ چناں چہ theismکو اس یقین کی نفسیاتی کیفیت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’خدا موجود ہے‘۔ فلسفے میں، خاص طور پر مذہبی فلسفے میں، الحاد کو عام طور پر اس تصور کے اشارے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ خدا موجود نہیں ہے۔ اس تعریف کے مطابق ملحد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خدا کے وجود سے انکار کیا جائے، بجائے اس کے کہ اس معاملے پر فیصلہ معلق کر دیا جائے، اگرچہ اس کا مطلب خدا پر یقین کی کمی ہے۔“[2]
’الحادِ جدید‘ (New Atheism) کی اصطلاح صحافی گیری وولف نے 2006 میں وائرڈ میگزین میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں ایک ایسی تحریک کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی تھی جو مذہب پر سخت نکتہ چینی کرتی اور لادینیت/سیکولرازم کو فروغ دیتی ہے۔ [3]
یہ تحریک 21 ویں صدی کے اوائل میں، بنیادی طور پر 11 ستمبر، 2001 کے دہشت گرد حملوں کے رسپانس میں ابھری۔ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان حملوں نے مذہبی انتہا پسندی کے خطرات کو طشت از بام کردیا اور معاشرے میں مذہب کے کردار کی از سرِ نو تعیین کا موقع فراہم کیا۔
الحادِ قدیم اور الحادِ جدید کے درمیان اہم فرق
اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ الحادِ جدید میں کچھ نیا نہیں ہے۔ الحادِ جدید اور الحادِ قدیم خدا پر یقین، مذاہب کے رسوم اور تشریح، اور انسانی تہذیب کے کلیدی اداروں کے طور پر مذہب کے مقابلے میں ذاتی عقیدے کے نظام کی باریکیوں کے بارے میں اپنے اپروچ میں واضح طور پر مختلف ہیں۔
مندرجہ ذیل جدول میں ان امتیازات کو دکھایا گیا ہے جن پر الحادِ قدیم اور الحادِ جدید کی راہیں جدا جدا ہیں۔
پہلو | الحادِ قدیم | الحادِ جدید |
تاریخی پس منظر | قدیم یونان سے بیسویں صدی کے اوائل تک | اکیسویں صدی کے اوائل سے ابتدا ہوئی |
کلیدی حامی | دیمقراطیس (Democritus)، ابیقور، ڈیوڈ ہیوم، لڈوِگ فیورباخ، فریڈرک نطشے | رچرڈ ڈاکنز، سیم ہیرس، کرسٹوفر ہچنز، ڈینیئل ڈینیٹ |
فلسفیانہ بنیاد | عقلیت، تجربیت، مادیت، وجودیت | سائنسی فطرت پسندی، تجربیت، اخلاقی تنقید |
مذہب کے بارے میں نقطہ نظر | فلسفیانہ تنقید، شکوک و شبہات، سیکولر انسانیت پرستی | جارحانہ تنقید، ایک پختہ یقین کہ مذہب انسانیت کے مصائب کا واحد سبب ہیں، عوامی ایڈووکیسی، سیکولر انسانیت پرستی |
تنقید کے طریقے | فلسفیانہ استدلال، ابتدائی سائنسی تحقیق، ادبی کام | پاپولر سائنس، میڈیا کا استعمال، عوامی مباحثے |
سائنس پر توجہ | ابتدائی سائنسی سوچ، فطرت پرستانہ وضاحتیں | معاصر سائنسی نالج، خاص طور پر حیاتیات اور نیورو سائنس |
اخلاقی توجہ | مذہبی اخلاقیات پر تنقید، سیکولر اخلاقیات کا فروغ | مذہبی عقائد کے نقصانات کو اجاگر کرنا، سائنس پر مبنی اخلاقیات کی وکالت کرنا |
عوامی مشغولیت | علمی مباحث، ادبی تنقید | جارحانہ اور ترغیبی عوامی مشغولیت، کتابیں، میڈیا، آن لائن پلیٹ فارم، عوامی خطاب |
لہجہ اور انداز | علمی، فلسفیانہ | قابل رسائی، جارح، وسیع تر |
مخاطبین | دانش ور، اہل علم | میڈیا کے وسیلے سے عامة الناس |
سماجی و سیاسی کردار | مذہبی مابعد الطبیعیات کی ردِتشکیل | مذہب کے سماجی و سیاسی اثر کو منفی عینک سے دیکھنا اور مذاہب کے مثبت کردار کو کم زور کرنا |
الحادِ جدید کے مختلف رنگ : ’چار شہ سواروں‘ کے درمیان اور ان سے آگے
یہاں الحادِ جدید کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈریپر کی الحاد کی تعریف کا آخری حصہ دوبارہ پڑھنا بے جا نہ ہوگا: الحادِ جدید کے لیے ”ضروری ہے کہ خدا کے وجود سے انکار کیا جائے ۔“وجودِ باری سے انکارپر زور اور خدا کے دیے گئے مذاہب کا انکار، یہی الحادِ جدید کا مرکزی نکتہ ہے۔ یہاں سے یہ ایک قدم آگے بھی جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس دنیا میں جو بھی برائیاں رونما ہو رہی ہیں ان کی واحد یا بہت بڑی وجہ مذاہب ہیں۔
الحادِ جدید کے مشہورِ زمانہ ’ چار شہ سوار ‘ (یعنی رچرڈ ڈاکنز، سیم ہیرس، ڈینیئل ڈینیٹ اور کرسٹوفر ہچنز) کھلم کھلا یہودیت، عیسائیت اور اسلام کو دہشت گردی سمیت دنیا کو درپیش تمام بڑے مسائل کا بنیادی سبب گردانتے ہیں۔
البتہ، الحادِ جدید کو ایک رنگ میں رنگنا یکسر گم راہ کن ہوگا۔ ہر پہلو، رنگ اور طیف میں کرداروں کا ایک منفرد سیٹ ہوتاہے۔ چناں چہ، اس طیف کے ایک انتہائی سرے پر، چار شہ سوار ہیں اور دوسری سرے پر، یوال نوح ہراری، نیل ڈی گریس، برائن کاکس اور دیگر ہیں، اور ان کے درمیان بھی بہت سے لوگ ہیں، جو ذاتی مذاہب اور ذاتی خداؤں کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں لیکن خود یا تو ملحد (atheist) ہیں یا محدود معنی میں خداکو مانتے ہیں (deist)۔
مندرجہ ذیل جدول میں چار شہ سواروں اور ان کے موقف کے تجزیے کے ساتھ ساتھ الحادِ جدید کی مختلف اہم شخصیات کی عکاسی کی گئی ہے۔
پہلو | کلیدی حامی | کتابیں | آرا /موقف | تجزیہ |
انتہا پسند الحاد | رچرڈ ڈاکنز، کرسٹوفر ہچنز | The God Delusion [فریبِ خدائی]، God is Not Great [خدا بڑا نہیں] | مذہب کی براہ راست، جارحانہ تنقید، سائنس / سائنس اور عقل کی ترویج | بنیادی طور پر اس تصور کی ترویج کہ آج دنیا کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کی جڑ میں مذہب ہے، مذہبی عقائد کو چیلنج |
سائنسی / سائنسی الحاد | سیم ہیرس، ڈینیئل ڈینیٹ، لارنس ایم کروس، جیری کوائن | The End of Faith [مذہب کا خاتمہ]، Breaking the Spell [طلسم شکنی]، A Universe from Nothing [لاشے سے کائنات]، Why Evolution Is True [ارتقا سچ کیوں ہے] | تجرباتی شواہد پر زور، قدرتی مظاہر کے لیے سائنسی وضاحتیں | سائنس اور الحاد کا اتحاد، مذہبی دعووں کا رد، سائنسی ترقی کی وکالت |
فلسفیانہ الحاد | ڈینیئل ڈینیٹ، اے سی گریلنگ | Breaking the Spell [طلسم شکنی]، The God Argument [دلیل خدائی] | فلسفے اور علمی سائنس کے ذریعے مذہب کی جانچ پڑتال، الحاد کے اخلاقی مضمرات کی جستجو | علمی تنقید، پیچیدہ فلسفیانہ دلائل |
سیکولر ہیومنزم | سیم ہیرس، اے سی گریلنگ، گریٹا کرسٹینا | Letter to a Christian Nation [مسیحی قوم کے نام مکتوب]، The Good Book [اچھی کتاب]، Why Are You Atheists So Angry[ تم ملحد اتنے غصے میں کیوں ہو] | مذہب سے آزاد انسانی اقدار اور اخلاقیات ؛ سائنس اخلاقیات اور اقدار کا منبع بن سکتی ہے | سیکولر اخلاقیات کا مثبت نقطہ نظر، اور ملحدوں کی خاطر کمیونٹی اور حمایت کو فروغ |
سائنسی تنقید | وکٹر جے سٹینگر | God: The Failed Hypothesis [خدا: ایک ناکام مفروضہ]، The New Atheism [الحادِ جدید] | مذہبی دعووں کی سائنسی جانچ پڑتال، مافوق الفطرت خالق کی ضرورت کے خلاف دلائل | مذہبی اساطیرکو ’مسترد ‘ کرنے میں سائنس کے کردار پر زور، (مسیحی سیاق میں) اور تعقل پر مبنی تحقیق کی ترویج |
مندرجہ بالا جدول میں دیکھا جا سکتا ہے کہ الحادِ جدید شاید ایک نظریے، تحریک اور ایجنڈے کا ملغوبہ ہے، یہ محض چار شہ سواروں کے نظریات پر مشتمل نہیں جنھیں عام طور پر الحادِ جدید کے اس پورے تصور کا سرخیل سمجھا جاتا ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ الحادِ جدید کی توسیعی تحلیل منطقی، سفاکانہ، وسیع تر، براہ راست اور دوٹوک انداز میں انسانی تہذیب کے سب سے گہرے اداروں میں سے ایک یعنی’مذہب‘کی بنیاد اور وجود پر حملہ آور ہے۔
الحادِ جدید کی ایک مختصر ٹائم لائن
الحادِ جدید کا یہ مظہر الحاد کے ارتقائی سفر کا ایک حصہ ہے اور اسے مندرجہ ذیل ٹائم لائن کے ذریعے اسکیل پر ظاہر کیا جاسکتا ہے۔
قدیم اور کلاسیکی ادوار
پانچویں صدی قبل مسیح: قدیم یونان میں دیوتاؤں کے بارے میں شکوک و شبہات کے ابتدائی اظہار ہوتے ہیں۔ بروتاغورث اور دیمقراطیس جیسے فلسفی دیوتاؤں کی نوعیت اور وجود پر سوال اٹھاتے ہیں۔
چوتھی صدی قبل مسیح: ایبیقور ایک جوہری نظریہ حیات وضع کرتا ہے، جس میں مذہبی صحیفوں کے شارحین اور دیوتاؤں کے بغیر کائنات کی فطری وضاحت پر زور دیا جاتا ہے۔
13 ویں صدی: تھامس ایکویناس جیسی شخصیات کی قیادت میں یورپ میں مدرسیت (scholasticism – قرون وسطی کی یورپی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا الہیات و فلسفہ کا نظام، جس کی بنیاد ارسطو کی منطق اور ابتدائی مسیحی پاپاؤں کی تحریریں تھیں اور جن میں روایت اور اعتقادی دینیات پر زور دیا گیا تھا) کی وکالت کی جاتی ہے۔ تفصیلی مذہبی مباحثے منعقد ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ اعتقادی دینیات پر مزید سوال اٹھاتے ہیں۔
نشاۃ ثانیہ اور روشن خیالی
15 ویں سے 16 ویں صدی: نشاة ثانیہ اور روشن خیالی کے دور میں کلاسیکی علم کا احیا اور مذہبی نظریات کی تنقیدی تحقیقات کی طرف ایک تبدیلی ہوتی ہے۔ جیوردانو برونو جیسے فلسفی کائنات کے بارے میں زیادہ سائنسی اور کم دقیانوسی تفہیم کی وکالت کرتے ہیں۔
17 ویں صدی: گلیلیو گلیلی اور آئزک نیوٹن جیسی شخصیات کی قیادت میں سائنسی انقلاب کا آغاز ہوتا ہے، جو تجربی مشاہدے اور استدلال کے ذریعے قدرتی مظاہر کی وضاحت کرتے ہیں، اس طرح مذہبی وضاحتوں پر انحصار کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
18 ویں صدی: روشن خیالی سیکولرازم اور عقلیت کو فروغ دیتی ہے۔ والٹیئر، ڈیوڈ ہیوم اور بیرن ڈی ہولباخ جیسے فلسفی کھلے عام مذہب پر تنقید کرتے اور ملحدانہ نظریات کی وکالت کرتے ہیں۔
انیسویں صدی
1841: لڈوِگ فیورباخ The Essence of Christianity [مسیحیت کا جوہر] شائع کرتا ہے، اس کی دلیل ہے کہ خدا انسانی آئیڈیلز کا ساختہ ہے۔
1859: چارلس ڈارون کی کتاب On the Origin of Species [اصل الانواع ] میں فطری انتخاب کے ذریعے ارتقا کے نظریے کو متعارف کرایا جاتاہے، روایتی تخلیقی نظریات کو چیلنج کیا جاتا اور زندگی کی طبیعی توضیحات کی وکالت کی جاتی ہے۔
انیسویں صدی کے اواخر میں فریڈرک نطشے جیسے فلسفی’خدا کی موت ‘ کا اعلان کرتے ہیں، عیسائی اخلاقیات کی بنیاد پر سوال اٹھاتے اور وجودی الحاد کو فروغ دیتے ہیں۔
بیسویں صدی
1927: برٹرینڈ رسل مذہبی عقائد کا تنقیدی جائزہ شائع کرتا ہے Why I Am Not a Christian [میں مسیحی کیوں نہیں ہوں]۔
1966: ٹائم میگزین کے سرورق میں پوچھا جاتا ہے کہ Is God Dead? [ کیا خدا مرچکا ہے؟] یہ واقعہ لادینیت اور ملحدانہ مسلک میں بڑھتی دل چسپی کا غمازہے۔
20 ویں صدی کے اواخر میں: سیکولر انسانیت پرستی کے عروج کے ساتھ ساتھ کاسمولوجی اور نیورو سائنس جیسے شعبوں میں مسلسل سائنسی ترقی دیکھنے میں آتی ہے، جو روایتی مذہبی عقائد کو مزید چیلنج کرتی ہے۔
اکیسویں صدی
2004: سیم ہیرس کی کتاب The End of Faith [مذہب کا خاتمہ] الحادِ جدید کی ایک نشاة ثانیہ کا باعث بنتی ہے۔
2006: رچرڈ ڈاکنزکی کتاب The God Delusion [فریبِ خدائی] الحاد کی وکالت اور مذہب پر نکتہ چینی کرنے کی وجہ سے بیسٹ سیلر بن جاتی ہے۔
2000 کی دہائی کے وسط میں: New Atheism [الحادِ جدید ] کی اصطلاح ابھرکر سامنے آتی ہے، جس کا تعلق ڈاکنز، ہیرس، کرسٹوفر ہچنز اور ڈینیئل ڈینیٹ سمیت بے باک ملحدوں کے ایک گروپ سے ہے۔ یہ تحریک مذہب پر سخت اور عوامی تنقید پر زور دیتی ہے اور سیکولر، سائنسی ورلڈ ویو کی وکالت کرتی ہے۔
تحریکِ الحادِ جدید
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، اس تحریک کو نائن الیون کے بعد کے واقعات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اچانک دہشت گردی کو بھڑکانے، اس کی کنڈیشننگ اور فروغ دینے میں مذہب کے کردار کے بارے میں انٹلکچوئل سرگرمی تیز تر ہوگئی۔ خاص طور پر جہاد کے تصور اور ’کافروں کے خلاف نفرت‘ کو فروغ دینے میں مذہب کے کردار پر۔
رچرڈ ڈاکنز اور دیگر جیسے لوگ کھلے عام اسلام پر دہشت گردی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں جس کے ذریعے نوجوان دماغوں کو ان لوگوں سے نفرت کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے جو اسلام پر ایمان نہیں رکھتے، لہذا اپنے عقیدے کی بالادستی قائم کرنے کے لیے پرتشدد اقدامات کے استعمال کا جواز پیش کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس مہم کے دوران کروڑوں انسانوں میں اسلام کے مثبت کردار کو نظر انداز کر دیا گیا۔
بعد کے مراحل میں کہا گیا کہ اسلامی تعلیمات فطری طور پر تشدد پسندی کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ بات مضحکہ خیز اور مغالطہ انگیزی پر مبنی ہے۔
ہم ڈاکنز کی فکر سے صرف دو مثالیں دیں گے، خاص طور پر اس کی مشہور کتاب The God Delusion [فریبِ خدائی]سے، جس میں اس نے طالبان، داعش اور القاعدہ جیسے بنیاد پرست گروہوں کے اعمال اور عقائد کو اجاگر کرکے بار بار اسلام پر تنقید کی ہے۔ اگرچہ یہ تنظیمیں اسلام کی سخت اور متشدد تشریح کی نمائندگی کرتی ہیں، لیکن یہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی اکثریت کے عقائد اور طرز عمل کی غماز ہر گز نہیں ہیں۔
اپنی کتابوں اور انٹرویو میں ڈاکنز اکثر ان تنظیموں کے ظالمانہ طرز عمل کا حوالہ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ خواتین کے ساتھ کس طرح برتاؤ کرتے ہیں، وہ کس طرح سخت شرعی قوانین کو تھوپتے ہیں، اور کس طرح دہشت گردی کی کارروائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مگر ڈاکنز یہ بات نظر انداز کر دیتا ہے کہ مرکزی دھارے کے مسلم علما و دانش وروں اور معاشرے نے ہمیشہ ان انتہا پسند گروہوں کی شدید مذمت کی ہے اور ان کے اعمال و افعال کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔[4]
متعدد مسلم رہ نماؤں اور تنظیموں نے عوامی طور پر ان انتہا پسند گروہوں کے اقدامات کی مذمت کی ہے اور ان کی اسلامی تشریحات کو غلط قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر مصر کے مفتی اعظم اور دیگر اہم اسلامی شخصیات نے داعش کو ’ غیر اسلامی ‘ قرار دیا ہے۔ [5]
ڈاکنز نے جہاد کے تصورات کو اپنے مخصوص حالات کے مطابق منتخب طور پر لاگو کیا اور ’ جہاد ‘ کی اصطلاح کی متنوع تشریحات کو نظر انداز کرتے ہوئے، وہ اکثر جہاد کو محض پرتشدد جدوجہد سے تعبیر کرتا ہے، لیکن یہ اس اصطلاح کی ایک تنگ تشریح یا محدود تفہیم ہے۔ اسلامی الہیات میں جہاد کا بنیادی مطلب ’ جدوجہد ‘ یا ’ انتہائی کوشش ‘ ہے اور اس میں داخلی و روحانی دونوں کوششیں اور بعض صورتوں میں اپنے دفاع یا جبر کے خلاف مسلح جدوجہد شامل ہے۔
دوسرا پہلو بین المذاہب مکالمے اور بقائے باہمی سے متعلق ہے۔ ڈاکنز کا دعویٰ ہے کہ اسلام فطری طور پر کثیر ثقافتی / کثیر مذہبی ماحول کا مخالف ہے۔ قرآن مجید نے سورۂ کافرون میں جو کچھ کہا ہے، اس پر اسلام کے حوالے سے اس سے زیادہ علمی طور پر نامناسب نکتہ چینی نہیں ہو سکتی۔
**تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔“ (الکافرون: 6)
یہ مختصر آیت مختلف مذاہب و اعتقادات کے حاملین کے لیے مذہبی آزادی اور رواداری کے اصول کا احاطہ کرتی ہے اور عقیدے میں اختلافات کے باوجود پرامن بقائے باہمی کی وکالت کرتی ہے۔
اس آیت کے علاوہ ایک اور آیت اس سے بھی زیادہ متاثر کن ہے،
**دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط خیالات سے ا لگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔“ (البقرة: 256)
یہ آیت عقیدے کی آزادی اور عقیدے کے معاملات میں جبر کو مسترد کرنے کی اہمیت کی نشان دہی کرتی ہے، جو بین المذاہب بقائے باہمی اور باہمی احترام کی بنیاد ہے۔
مذکورہ بالا دو آیات، عملی تہذیبی اظہار اور یقیناً ملیشیا، انڈونیشیا، ہندوستان اور دیگر بے شمار مقامات پر مسلمانوں کے پرامن بقائے باہمی کے ساتھ مل کر اس دائرے میں ڈاکنز کے مفروضے کو مسمار کر دیتی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ڈاکنز کا یہ الزام کہ اسلام دوسرے مذہبی عقائد اور رسوم کے بارے میں عدم رواداری رکھتا ہے، یہ محض اسلام کا ایک ناقص انتخابی مطالعہ ہے۔ عملی طور پر سیکڑوں تنظیمیں، گروہ اورایڈووکیسی تنظیمیں موجود ہیں جو مغرب میں مذاہب کے پرامن اور نتیجہ خیز بقائے باہمی کا پیغام عام کرتی ہیں۔ تاہم، یہ تمام حقائق بھی نو ملحدوں کو اسلام کے انتخابی مطالعہ کو فروغ دینے سے باز نہیں رکھتے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے الحادِ جدید کو مذہب کے خلاف خاص طور پر عیسائیت اور اسلام کے خلاف ایک تحریک کی شکل دے دی ہے۔ اس تحریک کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
تحریکِ الحادِ جدید کی خصوصیات
۱. ایک وسیع ایجنڈے کے ساتھ جارحیت اور بے باکی
الحادِ جدید مذہب کے تئیں بالعموم، اور یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے تئیں بالخصوص، اپنے جارحانہ موقف میں الحاد کی سابقہ شکلوں سے مختلف ہے۔ الحادِ جدید کے حامی نہ صرف خدا کا انکار کرتے ہیں بلکہ مذہبی عقائد اور اداروں کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ اس جارحیت کی جڑیں اس یقین میں پیوست ہیں کہ مذہب، خاص طور پر اپنی منظم شکل میں، نہ صرف غلط ہے بلکہ ضرر رساں ہے اور پوری انسانیت کے مصائب کی واحد وجہ ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ تحریک کی جارح فطرت اس کی سرکردہ شخصیات کے کاموں سے واضح ہے۔ مثال کے طور پر رچرڈ ڈاکنز مذہبی عقیدے پر اپنی مسلسل تنقید کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ’دی گاڈ ڈیلیوژن ‘ میں، ڈاکنز کا استدلال ہے کہ مذہب ایک واہمہ ہے – متعین طور پرایک جھوٹا عقیدہ – جس نے مختلف معاشرتی مسائل کو جنم دیا ہے۔
کرسٹوفر ہچنز کی کتاب God is Not Great[خدا عظیم نہیں] اس جارحانہ موقف کی مثال ہے۔ ہچنز کی تحریر اپنی شعلہ بیانی اور مذہب پر شدید تنقید کے لیے معروف ہے۔ خاص طور پر اسلام پر انھوں نے اپنے بہت سے انٹرویو میں کھلے عام دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام لگایا۔ اس کا استدلال ہے کہ مذہبی ادارے طویل عرصے سے جبر، تنازعات اور سائنسی و فکری ترقی سے انکار کے ذمہ دار رہے ہیں۔ الحاد نو کے اس مخاصمانہ لہجے کا مقصد عوامی زندگی میں مذہب کے کردار کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور کرنا ہے۔
۲. سائنس (بیمار سائنٹزم) اور عقل پر زور
تحریکِ الحادِ جدید کی ایک بنیاد یہ ہے کہ اس نے دنیا کو سمجھنے کے بنیادی اور واحد وسیلے کے طور پر سائنس اور عقل کی مضبوط وکالت کی ہے۔ یہ خصوصیت کائنات کے بارے میں سچائیوں کو ظاہر کرنے کے لیے تجرباتی شواہد اور عقلی تحقیقات کی طاقت پر یقین سے جنم لیتی ہے، جو مذہب کے مبینہ طور پر دقیانوسی اور ناقابل تصدیق دعووں کے برعکس ہے۔
رچرڈ ڈاکنز، جو تعلیم کے لحاظ سے بائیوکیمسٹ ہیں، خاص طور پر سائنس اور مذہب کے درمیان تصادم پر آواز بلند کرتا رہا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ سائنس مفروضے، تجربات اور شواہد پر مبنی عمل کے ذریعے علم تک ایک قابل اعتماد راستہ فراہم کرتی ہے، جب کہ مذہب ایمان اور وحی پر منحصر ہے، جو اس طرح کی جانچ پڑتال کے تابع نہیں ہیں۔ ’ دی گاڈ ڈیلیوژن ‘ میں، ڈاکنز کا کہنا ہے کہ سائنسی طریقہ قدرتی دنیا کو صحیح معنوں میں سمجھنے کا واحد طریقہ ہے (بالکل اسی طرح سائنٹزم کی تعریف کی جاتی ہے!) اور یہ کہ مذہبی وضاحتیں فرسودہ اور سطحی ہیں۔ جس بات پر بحث نہیں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی مذہب اپنی بنیادی متنی / کتابی سطح پر یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ کائنات کے سائنسی مظاہر کی حقیقت بیان کرتا ہے۔ البتہ مذاہب کے پرجوش پیروکار اس طرح کے مہابیانیوں کا دعوی کرتے ہیں۔ مذہبی متون کائنات کے سائنسی حقائق کی طرف بعض اشارے تو دیتے ہیں، لیکن ان کا مقصد اس سے سائنس کی تعمیر نہیں ہے۔
اسی طرح ایک اور فلسفی جو تحریکِ الحادِ جدید کے دانش ور مشعل بردار بن گئے وہ ڈینیئل ڈینیٹ ہے۔اس نے ارتقائی حیاتیات اور اکیڈمک سائنس کی عینک سے مذہب کا جائزہ لے کر اس نقطہ نظر کو آگے بڑھایاہے۔ اپنی مشہور کتاب’بریکنگ دی اسپیل ‘ میں، ڈینیٹ نے کہا ہے کہ انسانی ثقافتوں میں مذہبی عقائد کی ابتدا اور استقلال کو سمجھنے کے لیے ان کا سائنسی طور پر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، اس شعبے میں ہر فرد جانتا ہے کہ جب مذاہب کے ارتقا کی بات آتی ہے تو نظریہ ارتقا کیا کچھ پیش کرتاہے۔
۳. مذہبی انتہا پسندی پر تنقید
الحادِ جدید کے سب سے طاقتور محرکوں میں سے ایک مذہبی انتہا پسندی اور اس کے نتائج پر تنقید ہے، جس میں اس کے تمام رنگ، شکلیں اور طرز عمل شامل ہیں۔ اس تحریک نے 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد انہ حملوں کے بعد نمایاں رفتار حاصل کی، جو اس کے حامیوں کے نزدیک مذہب پر مبنی انتہاپسندی کے خطرات کو اجاگر کرتا ہے۔ نو ملحدین کا استدلال ہے کہ یہ انتہا پسندی کسی طرح کا انفرادی واقعہ نہیں، بلکہ مذہبی بنیاد پرستی کی فطری توسیع ہے جسے اس کی منطقی انتہا تک لے جایا گیا ہے۔
مثال کے طور پر سیم ہیرس نے ’دی اینڈ آف فیتھ‘ میں مذہبی انتہا پسندی سے پیدا ہونے والے خطرات پر بڑے پیمانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ معتدل مذاہب عقیدے پر مبنی سوچ کی حمایت کرکے انتہا پسندی کے لیے زرخیز زمین مہیا کرتے ہیں، جسے تشدد کا جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہیرس کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر مذہبی عقائد کو چیلنج کرکے اور انھیں کم زور کرکے معاشرہ انتہا پسندی کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکتا ہے اور ایک زیادہ عقلی اور پرامن دنیا کو فروغ دے سکتا ہے۔
کرسٹوفرہچنز بھی مذہبی انتہا پسندی کے مسئلے پر روشنی ڈالتا ہے اور نہ صرف اسلامی بنیاد پرستی بلکہ مغربی معاشروں میں مذہبی قدامت پسندی کے اثر پر بھی تنقید کرتا ہے۔ اس کی دلیل ہے کہ مذہبی انتہا پسند، چاہے وہ کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں، انسانی حقوق، سائنسی ترقی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہیں۔ ان خطرات کو اجاگر کرکے نو ملحدین سیکولرازم اور عقلیت پر مبنی فکر کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
۴. سیکولرازم / سیکولر ہیومنزم کی ترویج
الحادِ جدید بنیادی طور پر سیکولرازم کے فروغ کے لیے پرعزم ہے – جیسا کہ ہم نے دوسری جگہوں پر بحث کی اور زور دیا کہ سیکولرازم کا منصوبہ جو مذہب کو سرکاری اور عوامی دائروں سے الگ کرنے کے اصول کی نسبتاً معصوم شکل سے شروع ہوتا ہے، صرف ایک ایسے معاشرے کے ساتھ منطقی طور پر اپنے عروج پر پہنچ سکتا ہے جو بنیادی طور پر خالص مادیت پسند – سیکولر – ملحدانہ ماڈل اور اداروں سے چلتا ہے۔
اس کے حامیوں کا استدلال ہے کہ مذہب کی آزادی کو یقینی بنانے اور تمام افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سیکولر ریاست ضروری ہے، چاہے ان کی مذہبی یا غیر مذہبی شناخت کچھ بھی ہو۔
رچرڈ ڈاکنز اور ان کے ساتھی نو ملحدانہ پالیسیوں کی وکالت کرتے ہیں جو عوامی زندگی میں مذہب کے اثر کو محدود کرتی ہیں، جیسے مذہب پر مبنی اسکولوں کی مخالفت، قانون میں مذہبی استثنا، اور سیاست میں مذہبی تنظیموں کی شمولیت۔ ان کا استدلال ہے کہ دوسروں پر مذہبی عقائد کو مسلط کرنے سے روکنے اور سیکولرازم کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عوامی پالیسی عقیدے کے بجائے عقل اور شواہد پر مبنی ہو۔
سیم ہیرس بڑی چالاکی سے اس بات پر زور دیتا ہے کہ سیکولرازم مذہب مخالف نہیں ہے بلکہ متنوع معاشرے میں مذاہب کی تکثیریت کے تحفظ کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ مذہب کو عوامی پالیسی سے باہر رکھ کر حکومتیں انصاف، مساوات اور معقول حکم رانی کے اصولوں کو بہتر طریقے سے برقرار رکھ سکتی ہیں۔ ہیرس نے بائیو ایتھکس، تعلیم اور بین الاقوامی تعلقات جیسے شعبوں میں مذہبی اثر کے خطرات کو بھی اجاگر کیااور مذہبی اور سیکولر شعبوں کے درمیان ایک واضح سرحد کی وکالت کی۔
تحریکِ الحادِ جدید کی توسیعی ترکیب کا تجزیہ
۱۔ برائن کاکس، نیل ڈی گریس ٹائسن اور یوال نوح ہراری کی تحریروں کی روشنی میں الحادِ جدید کا مخفی توسیعی نظریہ
اگرچہ برائن کاکس، نیل ڈی گریس ٹائسن اور یوال نوح ہراری کو عام طور پر تحریکِ الحادِ جدید کے ارکان کے طور پر اس طرح درجہ بند نہیں کیا جاتا جس طرح ڈاکنز، ہیرس، ہچنز اور ڈینیٹ کو کیا جاتا ہے، تاہم مذہب اور الحاد پر گفتگو میں ان کی نظریات جارح الحاد کے کچھ پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں اور تحریکِ الحادِ جدید کی دیگر خصوصیات کے حامل ہیں۔ ہم ان میں سے ہر ایک کی مخفی خصوصیات کا تجزیہ ان کی تحریروں میں تنقیدی لیکن غیر جانب دار عینک کے ذریعے کرنے کی کوشش کریں گے۔
برائن کاکس: طبیعیات دان اور سائنس کمیونیکیٹر برائن کاکس اکثر سائنسی تفہیم اور تعقل پسندی کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ وہ مذہبی دقیانوسی دینیات کی نکتہ چینی کرتا ہے جب یہ سائنسی شواہد سے متصادم ہوں۔ خاص طور پر زمین کی تخلیق پر یقین رکھنے والے نوجوانوں، زمین کی عمر اور دیگر عیسائی تخلیق کےنقطہ نظر کے حاملین پر تنقید کرتا ہے۔
کاکس کا نقطہ نظر، اگرچہ ڈاکنز کے مقابلے میں کم جارح ہے، یہ سائنسی ترقی میں رکاوٹ بننے والے مذہبی عقائد کو چیلنج کرتا ہے۔ تاہم الحادِ جدید کے دیگر مبلغین کی طرح، وہ دیگر مذاہب مثلاً اسلام سے یہ ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے کہ کس طرح اسلام سائنسی ترقی میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ حالاں کہ اسلام سے متاثر سائنس اور ٹیکنالوجی کا ایک پورا دور تھا جسے اسلام کا سنہری دور کہا جاتا تھا۔ اس عہد میں فلکیات سے لے کر طب کے میدان تک غیرمعمولی سائنسی دریافتیں ہوئیں۔
مثال کے طور پر، بی بی سی پر اپنی سیریز ’ونڈرز آف سائنس‘ میں، کاکس اکثر سائنس کی وضاحتی طاقت کا مذہبی توضیحات کی حدود کے ساتھ موازنہ کرتا ہے۔
یہی بات فلکی طبیعیات داں اور سائنس کمیونیکیٹر نیل ڈی گریس ٹائسن پر چسپاں ہوتی ہے، جو سیکولر اور سائنسی ورلڈ ویو کی اہمیت کے بارے میں آواز بلند کرتا رہے ہے۔ وہ اکثر سائنسی تعلیم اور پالیسی میں مذہبی عقیدے کی دخل اندازی پر تنقید کرتا ہے۔
ٹائسن کا انداز عام طور پر نو ملحدوں کے مرکزی کرداروں کے مقابلے میں کم جارحانہ ہے، لیکن وہ قدرتی مظاہر کی مذہبی وضاحتوں کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مذہبی ماہرین کی اکثریت خاص طور پر اسلامی الہیات کے علما اس خیال سے متفق ہیں کہ مذہبی متن کو قدرتی مظاہر کو سمجھنے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم، کچھ مسیحی مذہبی روایات موجود ہیں جو بائبل کی طرح مذہبی متون کی زیادہ لفظی تشریح کے لیے دلیل دیتی ہیں تاکہ اس سوال کا جواب دیا جا سکے کہ انسان کیسے وجود میں آیا اور ’خدا کی شبیہ‘ (imago dei)کا تصور کیا ہے۔
اس پس منظر میں ٹائسن، مثال کے طور پر’کاسموس: اے اسپیس ٹائم اوڈیسی‘ میں گفتگو کرتا ہے اور پوری تاریخ میں مذہبی توہم پرستی پر سائنسی تحقیقات کی فتح پر زور دیتے ہوئے، جیوردانو برونو جیسی شخصیات کو سائنسی ترقی کی راہ میں شہید قرار دیتا ہے۔
اسی طرح معروف مورخ اور مصنف یوال نوح ہراری اکثر تاریخی اور انسانی نقطہ نظر سے انسانی معاشروں پر مذہب کے اثرات پر بحث کرتا ہے۔ اگرچہ وہ دوسرے نو ملحدوں کی طرح بلند آواز نہیں، لیکن وہ انسانی تاریخ کی تشکیل میں مذہب کے کردار پر نکتہ چینی کرتا اور مذہبی بیانیوں کی فرضی نوعیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس کی ایک مثال اس کی مشہور کتاب ’ سیپیئنز: اے بریف ہسٹری آف ہیومن کائنڈ ‘ سے لی جا سکتی ہے، جس میں ہراری نے مذاہب کو مشترکہ مفروضوں کا حامل قرار دیا ہے جنھوں نے معاشرتی ہم آہنگی میں تو اہم کردار ادا کیا لیکن ساتھ ہی انسانوں میں باہمی تنازعات اور تفریق کو بھی ہوا دی۔
۲۔ سائنس اور عقل پر زور
دنیا کو سمجھنے کی بنیاد کے طور پر سائنس، عقل اور سائنٹزم بھی، کاکس، ٹائسن اور ہراری کے مشترکہ موضوعات ہیں جن میں وہ تجربی شواہد اور عقل پر الحادِ جدید کی وکلات کرنے میں ہم آواز ہیں۔ تاہم، اس علاقے میں ان کے انفرادی نقطہ ہائے نظر مختصراً اس طرح ہیں۔
برائن کاکس:
کاکس سائنسی ورلڈ ویو کی وکالت کرتا ہے اور اکثر اس بات پر زور دیتا ہے کہ کائنات کی پیچیدگی اور حسن کو سائنس کے ذریعے مافوق الفطرت توضیحات کے بغیر سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی کتابیں قدرتی مظاہر کے اسرار کی پردہ کشائی کرتی ہیں، سائنسی علم کو قابل رسائی اور دل چسپ بناتی ہیں۔
مثال کے طور پر: ’دی کوانٹم یونیورس‘ میں کاکس پیچیدہ سائنسی تصورات کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے انسانی عقل اور تجربی تحقیق کی طاقت اجاگر ہوجاتی ہے۔
نیل ڈی گریس ٹائسن:
ٹائسن سائنسی خواندگی (لٹریسی) اور تنقیدی سوچ کا حامی ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں باخبر فیصلہ سازی کے لیے سائنسی تعلیم بہت ضروری ہے۔ ٹائسن کی عوامی گفتگو اور تحریریں اکثر اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ معاشرے کو مذہب / مذہبی توہم پرستی کے مقابلے سائنس کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر، ٹائسن نے اپنی کتاب ’ایسٹرو فزکس فار پیپل ان ہری‘ میں سائنسی تصورات اور دریافتوں کو پیش کیا ہے، قارئین پر زور دیا ہے کہ وہ کائنات کو سائنس کے عینک کے ذریعے سمجھیں نہ کہ اسے کسی قادر مطلق اور خبیر و علیم خدا کی تخلیق مان لیں!!
نوح ہراری:
ہراری انسانی تاریخ اور مستقبل کی تشکیل میں سائنسی پیش رفت کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ وہ اکثر سائنس کی تجربی نوعیت کو مذاہب کی اساطیری بنیادوں سے موازنہ کرتا ہےاور معاصر چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سائنسی علم پر انحصار کرنے کی وکالت کرتا ہے۔
مثال کے طور پر، ’ہومو ڈیوس: آئندہ کل کی ایک مختصر تاریخ‘ میں، ہراری نے سائنسی اور تکنیکی ترقی سے حرکت پذیر انسانیت کے مستقبل کے امکانات کی جستجو کی ہے، جن سے پتہ چلتا ہے کہ سائنس مذہب کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد جوابات فراہم کرتی ہے۔
۳۔ مذہبی انتہا پسندی پر تنقید
کاکس، ٹائسن اور ہراری سبھی مذہبی انتہا پسندی اور معاشرے پر اس کے اثرات کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں، اگرچہ مختلف سیاق و سباق اور لہجے میں۔
برائن کاکس:
اگرچہ کاکس اکثر مذہبی انتہا پسندی پر براہ راست بحث نہیں کرتے، تاہم سائنس کے لیے ان کی ایڈووکیسی تمام دیگر ورلڈ ویوز پر تنقید کرتی ہے، بشمول انتہا پسند مذہبی نظریات کے، جو سائنسی ثبوتوں سے منکر ہیں۔ ان کے عوامی بیانات میں اکثر ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل پر سائنسی اتفاق رائے کو رد کرنے پر تشویش پائی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر، ماحولیاتی تبدیلی پر کاکس کی گفتگو، خاص طور پر عوامی فورموں پر، سائنسی شواہد کو نظر انداز کرنے کے خطرے کو اجاگر کرتی ہے، ایک ایسا موقف جو بالواسطہ طور پر مذہبی یا نظریاتی انتہا پسندی پر تنقید کرتا ہے جو ان شواہد سے منکر ہیں۔ لیکن یہ موقف ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں صرف مسیحی نقطہ نظر میں پایا جاتا ہے۔
نیل ڈی گریس ٹائسن:
ٹائسن نے مذہبی انتہا پسندی کے اثر کے خلاف بات کی ہے، خاص طور پر جب یہ سائنسی تعلیم اور پالیسی میں مداخلت کرے۔ وہ ایک ایسے معاشرے کی وکالت کرتا ہے جس میں فیصلے مذہبی اصولوں کے بجائے سائنسی تفہیم پر مبنی ہوں۔
مثال کے طور پر، اپنے انٹرویو اور عوامی تقاریر میں ٹائسن نے اسکولوں میں تخلیقیت کی تعلیم اور نام نہاد مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے سائنسی حقائق کے انکار پر نکتہ چینی کی ہے۔
نوح ہراری:
ہراری تاریخی اور معاصر تنازعات میں مذہبی انتہا پسندی کے کردار کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جہاں مذہب متحد کرنے میں دقت پیدا کرتا ہے، وہیں اس میں تقسیم کرنے اور تشدد بھڑکانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
مثال: ’اکیسویں صدی کے لیے 21 اسباق‘ میں، ہراری نے جدید دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کے خطرے پر گفتگو کی ہے، اور عالمی مسائل کے لیے زیادہ سیکولر اور منطقی نقطہ نظر کی وکالت کی ہے۔
۴۔ سیکولرازم کا فروغ
سیکولرازم کا فروغ ان مفکرین کے درمیان ایک مشترکہ ہدف ہے۔ یہ مذہب کو عوامی پالیسی اور تعلیم سے الگ رکھنے کی وکالت کرتے ہیں۔
برائن کاکس:
کاکس حکم رانی اور تعلیم کے لیے سیکولر نقطہ نظر کی حمایت کرتا ہے۔ وہ ایسی پالیسیوں کی وکالت کرتا ہے جن کی بنیاد مذہبی عقائد کے بجائے سائنس پر ہو۔ اس کا استدلال ہے کہ ایک سیکولر معاشرہ پیچیدہ عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر لیس ہے۔
مثال کے طور پر، سائنسی تعلیم میں اصلاحات کے لیے کاکس کی عوامی ایڈووکیسی اسکولوں میں مبنی برثبوت، سیکولر نصاب کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
نیل ڈی گریس ٹائسن:
ٹائسن سیکولرازم کا مضبوط حامی ہے، خاص طور پر تعلیم اور عوامی پالیسی کے تناظر میں۔ اس کا کہنا ہے کہ ترقی اور جدت طرازی کے لیے سیکولر فریم ورک ضروری ہے۔
مثال کے طور پر، اپنی عوامی گفتگوؤں میں ٹائسن اکثر سائنس اور مذہب کے درمیان تاریخی تنازعات پر روشنی ڈالتا ہے۔ وہ مثالوں کا استعمال کرکے چرچ اور ریاست کے درمیان واضح علیحدگی کے لیے دلائل دیتا ہے۔
نوح ہراری:
ہراری نے زیادہ شمولیت پسند اور عقل دوست معاشرے کو فروغ دینے میں سیکولرازم کے فوائد پر گفتگو کی ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ سیکولرازم متنوع مذاہب کی بقائے باہمی کی اجازت دیتا ہے اور دوسری جانب اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ عوامی پالیسی عقلی اور تجربی غور و فکر پر مبنی ہو۔
مثال کے طور پر، ’ہومو ڈیوس‘ میں، ہراری نے سیکولر نظریات کے عروج اور جدید معاشروں کی تشکیل پر ان کے اثرات پر بحث کی ہے۔ اس نے دلیل دی ہے کہ سیکولرازم مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک ضروری بنیاد ہے۔
مندرجہ بالا تجزیے سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ الحادکی نسبتاً نرم، غیر جارح اور صلح جو نظر آنے والی شخصیات میں بھی کم و بیش تحریکِ الحادِ جدید کی تمام تر اہم خصوصیات مشترک ہیں۔
یہاں یوال نوح ہراری، ٹائسن اور کاکس جیسی نئی شخصیات کے اکثر بیان کیے جانے والے دلائل پر قلم روکا جاتا ہے، جو ایک تحریک الحادِ جدید میں ابھر رہی ہیں اور جنھیں مذاہب کے بارے میں اعتدال پسندانہ اور روادار نقطہ نظر کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ وہ روادار ہوں گے، لیکن ان کی رواداری مذہب کی تعلیمات میں پیش کردہ رواداری کی برابری نہیں کرسکتی۔ یہ حضرات اب بھی یہی مانتے ہیں کہ مذاہب انسان ساختہ، عقل و منطق کے مخالف، نفرت انگیز اور تشدد کے ذمہ دار ہیں، جب کہ انھیں اپنا وہ تعصب اور جانب داری نظر نہیں آتی جس سے وہ مذہبی متون اور رسومات کی تشریح و تفہیم کے معاملے میں کام لیتے ہیں۔
حوالے:
[1] Dorandi, Tiziano, ed. Diogenes Laertius: Lives of Eminent Philosophers. Vol. 50. Cambridge: Cambridge University Press, 2013.
[2] Draper, Paul. “Atheism and Agnosticism.” In Stanford Encyclopedia of Philosophy, edited by Edward N. Zalta. Stanford University, 2017. https://plato.stanford.edu/entries/atheism-agnosticism/.
[3] Wolf, Gary. “The Church of the Non-Believers.” Wired, November 1, 2006. https://www.wired.com/2006/11/atheism/.
[4] Dawkins, Richard, and Lalla Ward. The God Delusion. Boston: Houghton Mifflin Company, 2006.
[5] Gerges, Fawaz A. ISIS: A History. Princeton: Princeton University Press, 2016.
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2024