(۴) قصص اور وعظ
بعض جگہوں اور بعض ادوار میں وعظ ونصیحت کی ذمے داری ایسے قصہ گوئوںنے لے لی جنہیں اللہ تعالیٰ کا ڈر نہیں تھا، بلکہ ان کو صرف یہ فکر ہوتی تھی کہ کیسے لوگوں کو اپنی مجلسوں میں رلائیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کی مجلسوں میں شریک ہوں اور ان کی باتوں کو سن کر مبہوت ہوں۔ اس کے لیے وہ جھوٹے قصے گھڑتے تھے اور انہیں نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کردیتے تھے۔ اور بعض قصہ گو بے حیائی کی حد تک جھوٹ گھڑنے پر جری تھے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ امام احمد بن جنبل ؒ اور یحییٰ بن معینؒ (یہ مشہور نقاد حدیث ہیں) نے مسجد ’’رصّافہ‘‘ (جگہ کانام ہے) میں نماز پڑھی۔ اور ان کی موجودگی میں ایک قصہ گو وعظ کے لیے کھڑا ہوا اور گو یا ہوا کہ ’’احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے ہم سے بیان کیا ہے کہ عبدالرزاق نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انسؓ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے لاالٰہ الا اللہ کہا تو اللہ تعالیٰ ہر کلمے کے عوض ایک پرندہ پیدا کرے گا جس کی چونچ سونے کی ہوگی اور اس کے پر موتی کے ہوں گے‘‘۔ اس نے اپنا وعظ جاری رکھتے ہوئے اتنی باتیں کیں کہ اگر انہیں قلم بند کیا جاتا تو بیس صفحات بھر جاتے۔ اس کی حدیث سن کر احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین ایک دوسرے کو تکتے رہ گئے۔ دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی سے کہا ، کیا تم نے یہ حدیث بیان کی ہے؟ دونوںنے کہا: ’’میں نے نہیں بیان کیا ہے‘‘۔ جب وہ قصہ گو اپنی بات ختم کرچکا تو یحییٰ بن معین نے اس سے پوچھا، کس نے تم سے یہ حدیث بیان کی؟ اس نے کہا: ’’یحییٰ بن معین نے بیان کیا ہے۔ اس پر انھوں نے کہا: میں یحییٰ ہوں اور میں نے یہ حدیث تم سے نہیں بیان کی۔ قصہ گو نے کہا: کیا دنیا میں تم دونوں کے علاوہ کوئی اور احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نہیں ہے۔ عوام کی جہالت اور حکام وقت کی غفلت کے باعث اس طرح کی بے بنیاد باتوں کو بڑھاوا ملا۔ عوام ان قصہ گوئوں سے بے حد متاثر ہوتے تھے اور اہل حق کے مقابلے میں ان کی بات زیادہ مانتے تھے۔ عام لوگ ان قصہ گوئوں کی جھوٹی روایتوں کو خوب نقل کرتے تھے، بلکہ بسااوقات ان کی حمایت میں اہل حق کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور انھیں سزا دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔
(۵) فقہی اور فلسفیانہ اختلافات
فقہی اور فلسفیانہ مسالک کے ماننے والوں میں سے جُہّال اور بددین لوگوں نے بھی اپنے مسلک کی تائید کے شوق میں جھوٹی حدیثیں وضع کی ہیں۔ اسی میں سے ان کا قول ہے: ’’جس نے نماز میں رفع یدین کیا تو اس کی نماز نہیں‘‘ اور اسی طرح ان کا قول ہے: ’’جبریل ؑ نے کعبے کے پاس مجھے نماز پڑھائی تو بآواز بلند ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہا‘‘۔ اسی طرح کی اور دوسری بہت سی بے بنیاد باتیں ہیں جو انھوں نے اپنے پسندیدہ مسلک کی تائید میں گھڑی ہیں۔ جتھا بندی کرنے والے لوگ ہمیشہ اپنی رائے کو غالب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں باطل ہی کا سہارا لینا پڑے۔
(۶) خیر میں رغبت کے ساتھ حقیقت دین سے ناواقفیت
بہت سے زاہدوں، عابدوں اور صالحین نے بھی وضع حدیث کا کام کیا ہے۔ اور وہ اپنے طور پر گمان کرتے تھے کہ وہ ’’ترغیب وترہیب‘‘ کےلیے وضع احادیث کا کام کر رہے ہیں۔ اور سمجھتے تھے کہ وہ اس کام کے ذریعے سے اللہ کا تقرب حاصل کر رہے ہیں اور اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔جب علما نے ان کے اس کام پر اظہار نکیر کیا اور انھیں نبی کریم ﷺکا قول ’’جس نے بالقصد میرے اوپر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے‘‘۔ یاد دلایا تو انھوں نے جواب دیا: ’’ہم نبیﷺ کے حق میں جھوٹ بول رہے ہیں، آپؐ کے خلاف جھوٹ نہیں بول رہے ہیں‘‘۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ ایک بے ہودہ فرار ہے اور یہ حقیقتِ دین سے عدم واقفیت ، خواہشِ نفس کے غلبہ اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ انہیں میں ایک غلام خلیل تھا، جو بغداد کا مشہور زاہد تھا۔ یہ عبادت کے لیے عُزلت گزیں ہوگیا تھا۔ عوام میں اس کی محبوبیت کا عالم یہ تھا کہ اس کی وفات کے دن بغداد کے سارے بازار بند کردیے گئے تھے۔ لیکن بایں ہمہ وجوہ اس نے لوگوں کے اندر رقت قلب پیدا کرنے کے لیے بے شمار احادیث وضع کیں۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے اس نے خود کہا: ’’میں نے عوام کے دلوں کو نرمانے کے لیے احادیث وضع کی ہیں‘‘۔ انھیں میں سے نوح ابن ابومریم تھا، جس نے قرآن کی سورتوں کے فضائل سے متعلق احادیث وضع کی ہیں او راس کا اعتراف اس نے خود کیا ہے۔
(۷) ملوک و امرا کے تقرب کےلیے
اس کی مثال غیاث بن ابراہیم کا وہ عمل ہے جو اس نے اس وقت کیا جب وہ مہدی (عباسی خلیفہ) کے پاس گیا۔ مہدی اس وقت کبوتر سے کھیل رہاتھا۔ اسے اس حال میں دیکھ کر غیاث نے مشہور حدیث بیان کی: ’’مقابلہ تو تیرا ندازی ، نیزہ بازی اور کھروالے جانوروں میں ہوتا ہے‘‘۔ اوراس میں اضافہ کردیا: ’’اورپروالے جانوروں میں ہوتا ہے‘‘۔ اس نے یہ بات مہدی کو خوش کرنے کے لیے کہی تھی اور ہوا بھی یہی کہ اس نے اس پر اس کو دس ہزار درہم انعام دیے۔ لیکن جب مہدی خلیفہ ہواتو اس نے غیاث سے کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ تیری گدی جھوٹے کی گدی دہے‘‘۔ اور کبوتر کو ذبح کروادیا۔
وضع احادیث کے مذکورہ اسباب کے علاوہ کچھ دوسرے اسباب ومحرکات بھی ہیں، مثلاً سند اور متن کے لحاظ سے نادر حدیث بیان کرنے کا شوق، کسی خاص فتویٰ کے غلبے وتائید کے لیے، کسی متعین گروہ سے انتقام کے لیے، کسی خاص نوعیت کے کھانوں ، خوشبو اور کپڑوں کی ترویج کے لیے احادیث وضع کی گئیں۔ علما عظام نے بڑی تفصیل سے انہیں بیان کیا ہے اور ان کا بھرپور احاطہ کیا ہے۔ وضع احادیث کے اسباب ومحرکات کے ذکر کے بعد اب ہم ذیل میں وضاعین احادیث کی چند مشہور اقسام کا ذکر کریں گے۔
(۱) دین اسلام سے بغاوت کرنے والے ملحدین (۲) اہوا پرست اور بدعت و خرافات کے دلدادہ لوگ (۳) قوم پرست اور ملک وقوم کی حمایت کرنے والے (۴) فقہی تعصب اور کسی خاص امام کی طرفداری (۵) پیشہ ور واعظین اور قصہ گو (۶) تارک دنیا اور غیر دانشمند صالحین (۷) بادشاہوں اور حکام کی خوشامد کرنےو الے (۸) منافقین اور علمی سرقہ کرنے والے۔
تاریخ اسلام کے اس طرح کے واقعات پڑھ کر ہمیں حیرت زدہ نہ ہونا چاہیے ۔ کیونکہ یہ معاملہ انسانی طبائع کا خاصہ ہے اور کمزور نفوس کے حامل لوگ ہر دور میں اس طرح کی حرکتیں کرتے رہے ہیں۔ آج ہمارے اس دور میں یہی کام پریس اور ابلاغِ عامہ کے ذرائع کر رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ادارے آئے دن جھوٹی خبریں گھڑ کر عوام میں پھیلاتے رہتے ہیں اور لوگ ان جھوٹی خبروں کو سچ سمجھ کر قبول بھی کرلیتے ہیں۔ آج ذرائع ابلاغ کی پھیلائی ہوئی جھوٹی خبروں کے نتیجے میں مشرق ومغرب میں ہر طرف فساد برپا ہے۔
ایک عرصۂ دراز سے دنیا کے لوگ یہی کرتے آرہے ہیں۔ ہر دور کے انسانوں میں نیک لوگوں کے ساتھ ساتھ برے اور شرپسند لوگ بھی رہے ہیں۔
حفاظتِ حدیث کے لیے مسلمان علما کی کاوشیں
علمائے اسلام نے عہد صحابہ ؓ سے لے کر اتمام تدوین سنت (مجموعۂ احادیث) تک حفاظت حدیث کے سلسلے میں جو کاوشیں کی ہیں وہ انتہائی شانداور بے مثال ہیں۔ انھوں نے احادیث کی تحقیق وتدقیق اور تمحیص کا کوئی گوشہ خالی نہیں چھوڑا ہے۔
محدثین عظام نے احادیث کی نقد وتمحیص کا جو طریقہ اختیار کیا وہ انتہائی درست علمی طریقہ ہے۔ ہم پورے جزم و یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اِن محدثین کرام نے اخبار و روایات کے لیے دقیق علمی بحث کے اصول سب سے پہلے وضع کیے۔ اس امر میں انہیں بلاشک اقوام عالم پر سبقت حاصل ہے اور یقیناً یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے اسے نوازتا ہے۔
اب ہم ان اقدامات کا ذکرکریں گے جو محدثین نے دشمنوں کی سازشوں سے سنت کو محفوظ کرنے کے لیے اور ذخیرۂ احادیث کو غلاظتوں سے پاک کرنے کے لیےکیے ہیں۔
(۱) اِسناد الحدیث
صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپس میں ایک دوسرے سے حدیث رسولؐ کے قبول کرنے میں کسی شک اور تردد کااظہار نہیں کیا۔ اسی طرح تابعین نے کسی ایسی حدیث کے قبول کرنے میں توقف نہیں کیا جسے کوئی صحابی رسول ﷺ سے روایت کرے۔ یہاں تک کہ فتنہ برپا ہوا اور یہودی فتنہ گر عبداللہ بن سبا حضرت علیؓ کی الوہیت کی دعوت لے کر اٹھا۔ اس نے غالی شیعی فکر پر اس گمراہ کن دعوت کی بنیاد رکھی۔ اس کے ساتھ سنتِ رسولؐ اور احادیث کے خلاف دسیسہ کاری کی مہم کا آغاز ہوا اور عہد بہ عہد اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب جماعت صحابہ ؓ وتابعینؒ کے علما نے نقل احادیث کے تعلق سے تحقیق وتدقیق کا آغاز کیا۔ وہ لوگ کسی حدیث کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے تھے جب تک کہ اس کے واسطوں (ذرائع) اور راویوں کا علم نہ ہوجائے۔ مزید برآںراویوں کی ثقاہت اور عدالت سے متعلق اطمینان حاصل کرنا وہ ضروری سمجھتے تھے۔ ابن سیرین ؒ کا قول ہے جسے امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کے مقدمے میں نقل کیا ہے: ’’لوگ اِسناد کے بارے میں نہیں دریافت کرتے تھے، مگر جب فتنہ برپا ہوا تو کہنے لگے ہمیں راویوں کا نام بتائو، پھردیکھتے تھے کہ اگر وہ اہل سنت میں سے ہے تو اس کی روایت کی ہوئی حدیث قبول کرتے تھے۔ اور اگر راوی اہل بدعت میں سے ہوتا تو اس کی حدیث قبول نہیں کی جاتی‘‘۔
(۲) احادیث کے بارے میں وثوق و اعتماد کا حصول
اس سلسلے میں صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ اور ائمہ فن کی طرف رجوع کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے نبی کی سنت کے حفاظت کے لیے یہ خاص عنایت تھی کہ اس نے متعدد جلیل القدر صحابہ اور بالخصوص فقہائے صحابہ ؓ کو درازیٔ عمر کی نعمت سے سرفراز فرمایا تاکہ لوگ ان کی طرف رجوع ہوں اور ان کی دینی فکر سے ہدایت پائیں۔ جب جھوٹی روایتوں کا دور شروع ہوا تو لوگ جو احادیث و آثار سنتے تھے تو ان صحابہ کرامؓ کی طرف اس سلسلے میں رجوع کرتے تھے اور ان سے ان کی رائے دریافت کرتے تھے۔
(۳) رواۃ پر نقد وتبصرہ اورجھوٹ وسچ کے پہلو سے ان کے احوال کا بیان
علوم حدیث کا یہ ایک عظیم باب ہے۔ اسی کے ذریعے سے علما نے موضوع احادیث کے ذخیرے سے صحیح احادیث کو اور ضعیف حدیثوں میں سے قوی کو چھانٹ کر الگ کیا ہے۔ علما کی اس باب میں بڑی عمدہ اور نمایاں کوششیں ہیں۔ انھوں نے بڑی جاں کا ہی و جانفشانی کے ساتھ ایک ایک راوی کا تتبع کیا ہے۔ ان کی حیات اور ان کی تاریخ وسیرت کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ ان کے ظاہری و باطنی امور سے متعلق عمیق معلومات فراہم کی ہیں۔ اور اس اللہ واسطے کے کام میں انھوں نے کسی لَومۃ لائم کی پروا نہیں کی ہے اور نہ کسی طرح کے خوف وحرج نے انہیں رواۃ کی جرح و تعدیل اور ان کی تشہیر سے باز رکھا۔ یحییٰ بن سعیدالقطان سے کہا گیا: ’’کیا آپ اس بات سے ڈرتے نہیں کہ جن کی حدیث آپ نے ترک کردی ہے ، کہیں یہ لوگ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے پاس آپ سے جھگڑا نہ کریں‘‘؟ انھوں نے جواب دیا: ’’ان لوگوں کا میرے خلاف فریق بننا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے بمقابلہ اس کے کہ رسول اللہ ﷺ میرے فریق بنیں اور کہیں : ’’تم نے میری حدیث کو جھوٹ سے کیوں نہ بچایا‘‘۔
محدثین نے اس کام کے لیے اخذ وترک کے قواعد و ضوابط متعین کیے اور اس پر خود بھی کاربند رہے۔ رواۃ متروکین جن کی حدیث ناقابل اخذ قرار دی گئی ہیں ، ان کی اہم اصناف درج ذیل ہیں:
(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑنے والے : اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑنے والوں کی حدیث ناقابل قبول ہوگی۔ اہل علم کا اس بات پر بھی کامل اتفاق ہے کہ ایسا کرنا سب سے بڑا گناہ کبیرہ ہے۔ (۲) اپنی عام گفتگو ئوں میں جھوٹ بولنے والے : اگرچہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہ باندھا ہو، لیکن اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس کسی کے بارے میں ایک بار بھی جھوٹ بولنے کا علم ہوجائے تو اس کی حدیث متروک ہوگی۔ امام مالک ؒ نے فرمایا: ’’چار طرح کے لوگوں سے علم اخذ نہیں کیا جائے گا: وہ شخص جو حماقت میں مشہور ہو، اگرچہ کثرت سے روایت کرتا ہو اور وہ شخص جو لوگوں سے گفتگو میں جھوٹ بولتا ہو۔ گرچہ میں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی تہمت نہیں لگاتا۔ خواہش نفس کا دلدادہ جو لوگوں کو اپنی ہوائے نفس کی طرف دعوت دیتا ہے۔ کسی ایسے شیخ سے جو صاحبِ فضل و عبادت تو ہوں ، لیکن جو کچھ وہ بیان کر رہے ہوں اس کی انھیں حقیقی معرفت نہ ہو‘‘۔
(۳) اصحابِ بدعت واہوا پرست: اسی طرح اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ صاحب بدعت سے حدیث قبول نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح اہوا پرست اگر جھوٹ کو جائز گردانتا ہے تو اس کی حدیث بھی ناقابل قبول ہوگی۔
(۴) زَنادِقہ، فُساق اور ایسے کم عقل لوگ جنھیں معلوم نہ ہو کہ وہ کیا بیان کر رہے ہیں اور وہ سارے لوگ جن کے اندر ضبط وعدالت اور فہم وفراست کا فقدان ہو۔ حافظ ابن کثیرنے کہا: ’’اس کی روایت قابل قبول ہوگی جو ثقہ ہو اور اس کا حافظہ قوی ہو اور وہ مسلم،عاقل، بالغ اورفسق و فجورکے اسباب سے پاک ہو۔ مزید برآں بیدار مغز اور معاملہ فہم ہو۔ اگر اپنی یاد داشت سے روایت کرتا ہے تو اسے حافظ ہونا چاہیے اور اگر بالمعنی روایت کرتا ہے تو اسے صاحب فہم ہونا چاہیے۔ مذکورہ بالا شرائط میں سے اگر کوئی شرط مفقود ہوگی تو حدیث رد کردی جائے گی۔
وہ راوی جن کی روایت قبول کرنے کے سلسلے میں توقف سے کام لیاجاتا ہے، ان کی متعدد اقسام ہیں جن میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں:
(۱) جن کی تجریح وتعدیل کے سلسلے میں اختلاف رائے ہو۔ (۲) جن کی روایتوں میں خطا کا امکان زیادہ ہو اور ائمہ ثقات نے ان کی روایت کردہ احادیث کی مخالفت کی ہو۔ (۳)جو بہ کثرت نسیان کے عادی ہوں(۴) جنھیں عمر کے آخری حصے میں کوئی دماغی خلل لاحق ہوجائے (۵) جن کا حافظہ خراب ہو اور یادداشت کمزور ہو (۶) جوثقات اور ضُعفاء دونوں سے روایت کرتے ہوں اور ان میں کوئی فرق نہ کرتے ہوں۔
(۴) احادیث کی تقسیم وتمیز کے لیے قواعد وضوابط وضع کرنا
علمائے کرام نے احادیث کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے، صحیح، حسن اور ضعیف۔
سند میں وضع حدیث کی علامتیں: سند میں وضع حدیث کی علامتیں بہت زیادہ ہیں۔ ان میں کی بعض اہم درج ذیل ہیں:
(۱) حدیث کا راوی کذّاب ہو۔ وہ جھوٹ میں اس طرح مشہور ہو کہ اس کے علاوہ کوئی ثقہ اس حدیث کو روایت نہ کرے۔ محدثین کرام نے کذّابین اور ان کی تواریخ کی معرفت کے سلسلے میں بھرپور توجہ دی ہے۔ انھوں نے احادیث میں ان کے جھوٹ کا پتہ لگانے کے لیے خوب چھان بین سے کام لیا ہے۔ ان محدثین نے اس کام کو ایسی چابک دستی سے انجام دیا ہے کہ کوئی جھوٹا راوی ان کی دست رس سے بچ نہیں سکا ہے۔
(۲) واضع حدیث خود اس بات کا اعتراف کرے کہ اس نے احادیث وضع کی ہیں۔ جیسے کہ ابو عِصمہ نوح بن مریم نے قرآنی سورتوں کے فضائل کے سلسلے میں احادیث وضع کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
(۳) راوی کسی ایسے شیخ سے روایت کرے جن سے اس کی ملاقات ثابت نہ ہو یا ان کی وفات کے بعد پیدا ہوا ہو یا جس جگہ ان سے حدیث سننے کا دعویٰ کرتا ہے وہاں وہ کبھی گیا ہی نہ ہو۔ جیسا کہ مامون بن احمد سہروردی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ہشام بن عمار سے احادیث سنی ہیں ۔ اس پر حافظ ابن حبان نے دریافت کیا کہ تم شام میں کب داخل ہوئے؟ اس نے کہا ۲۵۰ ہجری میں۔ ابن حبان نے کہا: ’’جس ہشام سے تم روایت کرتے ہو وہ تو ۲۴۵ہجری میں وفات پاگئے۔
(۴)بسا اوقات راوی کے مخصوصی حالات اور اس کی نفسانی کیفیات بھی وضع حدیث کا محرک ہوتی ہیں۔ جیسا کہ امام حاکم نے عمر بن سیف تمیمی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے کہا: ’’میں سعد بن طریف کے یہاں تھا کہ اتنے میں ان کا لڑکا مکتب سے روتا ہوا آیا۔ انھوں نے لڑکے سے پوچھا: کیا ہوا؟ لڑنے کہا: ’’استاد نے مارا ہے‘‘۔ سعد نے کہا: ’’آج میں انھیں ضرور رسوا کروں گا، اتنے میں حدیث سنانا شروع کیا: مجھے عکرمہ نے عبداللہ بن عباس کے حوالے سے مرفوعاً حدیث سنائی ہے: ’’تمہارے بچوں کےاساتذہ تمہارے بدترین لوگ ہیں، وہ یتیم پر بہت کم رحم کرتے ہیں اور مسکینوں کے لیے انتہائی درشت خو ہیں‘‘۔ اسی طرح یہ حدیث بھی ہے: ’’ہریسۃ(آٹے کا حلوہ)پشت کو مضبوط کرتا ہے‘‘۔ اس حدیث کو وضع کرنے والا ’’محمد بن حجاج النخعی ‘‘ ہریسہ بیچتا تھا۔
حدیث کے متن میں وضع کی علامتیں
جہاں تک متن ِ حدیث میں وضع کی علامتوں کا تعلق ہے تو وہ بھی بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے بعض اہم علامتیں درج ذیل ہیں:
(۱) لفظ کی نا موزونیت:
کسی حدیث کے متن میں ایسا ناموزوں لفظ ہو جس کے بارے میں عربی زبان کے بیان و اسلوب کے اسرار ورموز سے واقف شخص فوراً بول اٹھے کہ ایسا رکیک لفظ کوئی ادنیٰ درجے کا فصیح وبلیغ شخص استعمال نہیں کرسکتا ہے، چہ جائیکہ سیدالفُصحاء صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے کسی رکیک اور لچر لفظ کا صدور ہو۔
(۲)معنی ومفہوم کا فساد:
بایں طور پر کہ حدیث، معقول بدیہی امور کے مخالف ہو اور اس کی تاویل بھی ممکن نہ ہو۔ مثلاً کشتیٔ نوح (علیہ السلام) نے خانۂ کعبہ کا سات طواف کیا اور مقام ِ ابراہیم (علیہ السلام) پر دو رکعت نماز ادا کی‘‘۔ اسی طرح وہ حدیث جو حکم میں عام قواعد اور اخلاق کے منافی ہو۔ مثلاً ’’ترکوں کا جو رعربوں کے عدل سے بہتر ہے‘‘۔ اسی طرح وہ حدیث جو شہوت پرستی اور اخلاقی بگاڑ کی داعی ہو۔ مثلاً ’’خوبصورت چہرے کو دیکھنا نظر کو جِلا بخشتا ہے‘‘۔ یا وہ جو شعور اور مشاہدے کے خلا ف ہو۔ مثلاً ’’سو کے بعد کوئی بچہ ایسا نہیں پیدا ہوگا جس کی اللہ تعالیٰ کو ضرورت ہو‘‘ ۔ یا طب کے متفق علیہ قواعد وضوابط کے برعکس ہو۔ مثلاً، ’’بیگن ہر مرض کی دوا ہے‘‘۔ یا اللہ کے لیے جن صفات ِ کمال وجلال کا عقل تقاضا کرتی ہے وہ حدیث اس کی ضد ہو، جیسے ’’اللہ تعالیٰ نے گھوڑے کو پیدا کیا اور اس کو دوڑایا، اور جب وہ عرق آلود ہوگیا تو اسی سے اپنے آپ کو پیدا کیا‘‘۔ یا وہ جو کم عقلی اور بے ہودگی پر مشتمل ہو۔ مثلاً ’’سفید مرغ میرا دوست اور میرے دوست جبریل ؑ کا دوست ہے۔ اور مثلاً ’’بڑے سینے والا کبوتر پالو، یہ تمہارے بچوں کو جنوں سے بچاتا ہے‘‘۔ اسی طرح کے بے شمار بے سر وپا قسم کے اقوال ہیں، جنہیں واضعین حدیث نے گھڑ رکھا ہے ۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلاکہ ہر وہ بات جسے عقل بداہتاً رد کردے، وہ حدیث مردود (قابلِ رد) اور باطل ہے۔ ابن الجوزی ؒ نے کہا، کہنے والے نے کتنی اچھی بات کہی ہے: ’’ہر وہ حدیث جسے میں نے دیکھا کہ عقل اس کےمخالف ہے اور اصول کے برعکس ہے اور نقل سے ثابت بھی نہیں ہے، اسے میں جان لیتا ہوں کہ وہ موضوع ہے‘‘۔ اور وہ محصول (کتاب کانام) میں ہے: ’’ہر وہ حدیث جس کے باطل ہونے کا گمان ہو اور اس کی تاویل ممکن نہ ہوتو وہ جھوٹ کاپلندا ہے یا اس میں کوئی ایسا نقص ہو جو گمان کو زائل نہ کرسکے‘‘۔
(۳) قرآن کے نصِ صریح کی مخالفت
اگر کوئی حدیث اللہ تعالیٰ کے قول کی مخالف ہو تو اس میں کسی طرح کی تاویل قابل قبول نہیں ہوگی۔ مثلاً ’’ولدالزنا کی سات نسلیں جنت میں داخل نہ ہوں گی‘‘۔ یہ حدیث قرآن حکیم کی نصِّ صریح ’’وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌوِّ زْرَأُخْرَیٰ— کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘ کی یکسر مخالف ہے، بلکہ یہ تورات سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی حدیث صریح سنت متواترہ کے مخالف ہوگی تو وہ بھی ناقابل قبول ہوگی۔ مثلاً، ’’اگر میرے حوالے سے تم لوگوں سے کوئی ایسی حدیث بیان کی جائے جو حق کے موافق ہو تو اسے لے لو، چاہے میںنے کہا ہو یا میں نے نہ کہاہو‘‘۔ یہ اس حدیثِ متواتر ’’جس نے بالقصد میری طرف جھوٹ منسوب کیا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے‘‘ کی صریح مخالف ہے۔ اسی طرح اگر کوئی حدیث قرآن وسنت سے ماخوذ عام قواعد وضوابط کی مخالف ہوگی توبھی قابل قبول نہ ہوگی۔ مثلاً جس نے اپنے پیدا ہونے والے بچے کانام محمد رکھا تو وہ اور اس کا بچہ دونوں جنت میں ہوں گے‘‘۔ اور جیسے ’’میں نے عہد کیاکہ جس کا نام محمد یا احمد ہوگا اس کو آگ میں داخل نہ کروں گا‘‘۔ یہ قرآن وسنت کے قطعی احکام کے بالکل منافی ہے۔ کیونکہ کتاب وسنت کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ اخروی نجات کا دارومدار اعمالِ صالحہ پر ہے ناکہ نام ونسب پر۔ اسی طرح وہ حدیث جو اجماعِ امت کے خلاف ہو۔ مثلاً ’’جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں کچھ فرض نمازیں قضا کیں تو وہ اس کی عمر کی ستر سال کی چھوٹی ہوئی نمازوں کے لیے کافی ہوں گی‘‘۔ یہ بات فقہا کے اجماع کے صریح مخالف ہے اور ان کا اس بات پر اجماع ہے کہ فوت شدہ نماز کے قائم مقام کوئی عبادت نہیں ہوسکتی ہے۔
(۴) معروف تاریخی حقائق کی مخالف ہو:
مثلاً عہد نبویؐ سے متعلق ایک حدیث ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذؓ اور معاویہ بن ابوسفیانؓ کی شہادت پر اہل خیبر پر جنگی خدمت اور بے گاری کے بدلے جزیہ عائدکردیا‘‘۔ حالانکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ غزوۂ خیبر کے سال میں جزیہ نہ تو معروف تھا اور نہ ہی مشروع تھا۔ اورآیتِ جزیہ تو غزوۂ تبوک کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اسی طرح سعد بن معاذؓ غزوۂ خیبر سے پہلے غزوۂ خندق کے موقع پر وفات پاچکے تھے اور معاویہ بن ابوسفیانؓ تو فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے۔ اس لیے تاریخ کے حقائق اس حدیث کی تردید کرتے ہیں اور اسے موضوع قرار دیتے ہیں اور اسی طرح کی حدیث حضرت انسؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : ’’میں حمام میں داخل ہوا تو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہیں اور آپؐ کے اوپر تہبند ہے، میں نے آپؐ سے بات کرنی چاہی تو آپؐ نے فرمایا: میں نے تہبند کے بغیرحمام میں داخل ہونے سے منع کردیا ہے‘‘۔ حالانکہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی حمام میں داخل ہی نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دورِ نبویؐ میں حجاز کے اندر حمام معروف نہیں تھے۔
(۵) راوی کے مسلک سے حدیث کی موافقت:
جب راوی غلو کی حد تک اپنے مسلک کی پچ کرتا ہو، مثلاً کوئی شیعہ اہل بیت کے فضائل سے متعلق حدیث بیان کرے یا کوئی مُرجی (حضرت علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کی جنگ میں فیصلۂ حق کو اللہ کی عدالت کے لیے مؤخر کرنے کا عقیدہ رکھنے والا) عقیدۂ ’’ارجاء‘‘ سے متعلق حدیث روایت کرے۔ جیسا کہ حَبَّۃ بن جُوین نے روایت کیا ہے۔ اس نے کہا: میں نے علیؓ کو سنا ہے، انھوںنے کہا: ’’میں نے اللہ کی عبادت اس کے رسولؐکے ساتھ پانچ یا سات سال کی ہے ۔ اس امت کے کسی آدمی سے پہلے‘‘۔ ابن حبان نے کہا، حبۃ غالی شیعہ تھا اور واھی تواھی حدیثیں بیان کرتا تھا۔
(۶) حدیث کسی ایسے معاملے سے متعلق ہو جس کی شان یہ ہو کہ وہ متعدد طریق سے مروی ہو، اس لیے کہ وہ ایک بڑے گروہ کی موجودگی میں واقع ہوا ہو۔ اس کے باوجود وہ مشہور نہ ہو اور اس کی روایت صرف ایک راوی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت نے حدیث ’’غدیرخم‘‘ پر وضع (من گھڑت) اور کذب (جھوٹ) کا حکم لگایا ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں وضع کی علامت یہ ہے کہ اس کے سلسلے میں بیان کیاجاتا ہے کہ یہ سب کچھ تمام صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں ہوا۔ پھر اس کے بعد ابوبکرؓ کے خلیفہ بنائے جانے کے وقت سب نے اُس واقعے کو متفقہ طور پر مخفی رکھا۔ حالانکہ عام طور سے ایسا ہونا مستحیل اور بعید ازقیاس ہے۔ اور عام مسلمانوںکے بجائے صرف روافض (شیعوں کو روافض بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ انھوں نے حضرت علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان تحکیم ’’حَکم بنانا‘‘ کا انکار کیا تھا۔) کا اس حدیث کو نقل کرنا، ان کے جھوٹے ہونے کی واضح دلیل ہے۔ امام ابن تیمیہؓ نے کہا: ’’اس باب سے حضرت علیؓ کی خلافت کے تعلق سے نص نقل کرنا میرے علم میں کذب ہے متعدد طُرق سے،کیونکہ یہ حدیث صحیح سند سے کسی کو نہیں ملی ہے، چہ جائیکہ متواتر ہو۔ اور خلافت کے معاملے میں تنازع اور سقیفہ بنی ساعدہ میں باہمی مشورے کے وقت کا کوئی ایسا واقعہ منقول نہیں ہے کہ کسی نے خفیہ طور ہی سے اس حدیث کو ذکر کیا ہو‘‘۔
(۷) حدیث کا کسی چھوٹے کام کے کرنے پر بہت بڑے ثواب عظیم اور کسی معمولی گناہ کے ارتکاب پر مبالغے کی حد تک وعید پر مشتمل ہونا۔ قصہ گو واعظین اکثروبیشتر لوگوں کے دلوں کو نرمانے اور ان کے جذبۂ عمل کو گرمانے کیلیے اس نوع کی احادیث بیان کرتے ہیں۔ مثلاً ’’جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تو اللہ تعالیٰ اس کیلیے ایک ایسا پرندہ پیدا فرمائے گا جس کے ستر ہزار زبانیں ہوں گی اور ہر زبان کے لیے ستر ہزار لغت (بولنے والی زبان) ہوگی، وہ سب اس کے لیے مغفرت کی دعا کریں گی‘‘۔
یہ وہ اہم قواعد وضوابط ہیں جو علمائے کرام نے نقد حدیث اور صحیح وموضوع کی معرفت کے لیے وضع کیے ہیں ۔ ہم نے گزشتہ صفحات میں دیکھ لیا ہے کہ علمائے عظام نے اس سلسلے میں اپنی جدوجہد کو صرف نقدِحدیث تک محدو د نہیں کیا ہے اور انھوںنے مَتن کو چھوڑ کر اپنی پوری توجہ محض سند پر مرکوز نہیں کی ہے، جیسا کہ بعض مستشرقین اور ان کے ہم نواؤں کا دعویٰ ہے۔ بلکہ انھوں نے سند اور مَتن دونوں پر یکساں نقد کیا ہے۔ اور ہم نے دیکھا ہے کہ انھوں نے سند کے اعتبار سے وضع حدیث کی چار علامتیں متعین کی ہیں اور متن میں وضع کی سات علامتیں طے کی ہیں۔ انھوں نے صرف ان علامتوں پر اکتفا نہیں کیا ہے، بلکہ احادیث کے نقد اور ان کے ردوقبول کے تعلق سے فنی ذوق کو بھی ایک اہم معیار قرار دیا ہے۔ اور بہت ایسا ہوا ہے کہ انھوں نے صرف سن کر احادیث کو رد کردیا ہے۔ اس لیے کہ ان کی فنی مہارت نے انہیں حلق سے نیچے نہیں اترنے دیا اور نہ انہیں قبول کیا۔ اس قبیل کی احادیث کے بارے میںمحدثین اکثر کہتے ہیں کہ اس حدیث پر تاریک پردہ پڑا ہوا ہے یا اس کا متن تاریک ہے اور دل اسے قبول نہیں کر رہا ہے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2014