اُمت مسلمہ کا بنیادی فریضہ اقامت دین ہے۔ یعنی اللہ کے دین اسلام کو کسی کمی زیادتی کے بغیر انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں میں اس طرح نافذ کرنا کہ فرد کا ارتقاء، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اسی دین کے مطابق ہو۔ ہندوستان میں اس نصب العین کے حصول کے لیے لازم ہے کہ قرآن و سنت کی بنیادوں پر، ملکی قوانین کی روشنی میں اخلاقی حدود کی پابندیاں کرتے ہوئے تمام تعمیری، پرامن اور جمہوری طریقے اختیار کیے جائیں۔ نیز ایسے تمام طریقوں سے اجتناب کیاجائے جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الارض رونما ہو۔ اسلام کامزاج ہر قسم کے پرتشدد اور خفیہ طریقوں کا سخت مخالف ہے۔ تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح صحیح طریق کار ہے اور اس طرح ملک کی اجتماعی زندگی میں مطلوبہ صالح انقلاب لانے کے لیے رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
بھارت میں دعوت و تبلیغ کا کام کیسے کیا جائے؟ یہ سوال داعیانِ حق کے سامنے ہمیشہ رہتا ہے جس کے مختلف جوابات دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے دعوت کا کام کرنے والوں میں ایک حد تک فکری اور بڑی حد تک عملی ہم آہنگی میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ’’راست دعوت‘‘ اور ’’حکمت عملی سے دعوت‘‘ کی بحثیں چلتی رہتی ہیں۔ ’’دعوتی طریقہ کار‘‘ کے متعلق کافی وسیع لٹریچر ہونے کے باوجود اس قسم کی بحثیں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ لٹریچر میں کچھ نہ کچھ تشنگی موجود ہے۔ اس اہم ضرورت کی تکمیل کی ایک ادنیٰ کوشش اس مقالے کے ذریعے کی گئی ہے۔
اس مقالے میں ’’دعوت‘‘ کے کام کے لیے مطلوبہ وہ تمام متفقہ شرائط، اوصاف، کردار، اور طریقہ کار زیر بحث نہیں لائے گئے ہیں۔ مثلاً: دعوت کی اساس قرآن اور حدیث ہوں گے۔ توحید، رسالت اور آخرت اور اسلام کے مکمل دین ہونے کی دعوت دی جائے گی۔ داعی میں مطلوبہ اوصاف اور کردار کا ہونا لازمی ہے۔ بلکہ اس مقالے میں دعوت کے ان اہم تقاضوں کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو عموماً نظروں سے اوجھل رہتے ہیں یا نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔
اس مقالے میں چند ذیلی عنوانات پر قرآن و سنت اور آثار کی مدد سے روشنی ڈالی گئی ہے
٭سماج کا مفہوم اور اس کے افراد کی ذمہ داریاں۔ ٭تکثیری سماج کا مفہوم ٭بھارت کے مسلمانوں کی ذمہ داریاں٭عہد رسالت اور موجودہ دور کا تقابل٭بھارت کے مخصوص حالات ٭بھارت کے تکثیری سماج میں دعوتی کام کی نزاکت٭انبیا ؑ کا قرآنی طریقہ دعوت ٭نبیؐ کا طریقہ دعوت قرآن اور حدیث کی روشنی میں٭خدمت خلق اور سماجی مسائل پر توجہ ٭حصول تعاون اور معاہداتی طریقہ کار٭طریقہ دعوت میں تبدیلی ٭موجودہ حالات پر انطباق٭ملک کے دیگر طبقات سے ربط و تعلق ٭مذہب بیزاری، سائنسی ترقی، نئے نظریات، جدیدیت، مادہ پرستی، گلوبلائزیشن ٭نئے لٹریچر کی تیاری۔
سماج
’’سماج‘‘انسانوں کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جو کسی جگہ آپس میں مل کر رہتا ہو۔ یہ سماج کی آسان ترین تعریف ہے۔ ورنہ سماجی علوم کے ماہرین نے اس کی بڑی پیچیدہ تعریفیں لکھی ہیں۔ سماج کی روح ’’آپس میں مل کر رہنا‘‘ہے۔
انسانوں کی تخلیق خالق ارض و سمانے کی ہے۔ وہی رب العالمین ان کا پرورش کرنے والا بھی ہے۔ انسانوں کی پرورش و پرداخت کے لیے اللہ نے ایک نظام مقرر کردیا ہے۔ اس نے انسانوں کو کچھ ایسی صفات اور احتیاجات عطا کی ہیں جن کی وجہ سے وہ دوسروں کی مدد بھی کرتا ہے اور ان کی مدد کا محتاج بھی ہے۔ مثلاً والدین کو بچے کی محبت جس کی وجہ سے وہ بچے کی بلوغت کی عمر پہنچنے تک اس کی نگرانی اور تربیت کرتے ہیں اور بچوں میں فرمانبرداری کا جذبہ ڈالا کہ وہ بوڑھے والدین کو سنبھالتے ہیں۔ اُس سے آگے بڑھ کر انسان میں دوسرے انسانوں کے لیے ہمدردی اور مدد کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ کوئی بھی بچہ صرف اپنے والدین کی نگرانی میں پرورش نہیں پاتا بلکہ اس کے اعزہ و اقرباء ، پڑوسی اور سماج کے بہت سارے دیگر لوگ بھی اس کی پرورش و پرداخت میں معاون و مددگار ہوتے ہیں۔ کوئی اس کے لیے دودھ اور اناج فراہم کرتا ہے۔ کوئی اس کے لیے کپڑے بناتا ہے، کوئی دوا، کوئی مکان، سڑکیں، بجلی ، پانی وغیرہ فراہم کرتا ہے۔ انسان اپنی ساری ضروریات خود پوری نہیں کرسکتا بلکہ پورا سماج مل کر اس کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اسی لیے انسان کو سماجی جاندار کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ جس سماج میں پلا بڑھا ہے، جس کی خدمات سے جوان و توانا اور تعلیم یافتہ ہوا ہے، اس سماج کی ضروریات پوری کرنے میں اپنا رول ادا کرے۔ اس سماج کو ترقی و تحفظ دے۔ اس میں امن و امان قائم کرے۔ اسے انتشار اور فتنہ و فساد سے بچائے۔ اس کے دیگر ممبران کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے حسب حال کوئی ذمہ داری نبھائے وغیرہ۔
مل کر رہنے کے لیے ہر سماج اپنے افراد کے انفرادی اور اجتماعی حقوق اور فرائض کے کچھ ضابطے اور قانون بناتا ہے جن کی پابندی کرنا اس سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ کسی سماج میںاگر افراد اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہیاں کرنے لگیں تو اس سماج میں انتشار اور بدامنی پیدا ہوجاتی ہے۔ ان ذمہ داریوں میں کوتاہی کرنا قابل تعزیر جرم ہوتا ہے۔ سماج اپنے افراد کے لیے جو انفرادی و اجتماعی حقوق تسلیم کرتا ہے۔ ان کو بنیادی انسانی حقوق اور شہری حقوق کہا جاتا ہے۔ اسلام انہیں تسلیم کرتا ہے۔ UNO نے بھی ان کو تسلیم کیا ہے۔ مثلاً زندہ رہنے کا حق ، حق آزادی ، حق مساوات ، مذہبی آزادی ،تقریر و تحریر کی آزادی ، رہائش کی آزادی ، کاروباری و معاشی آزادی ، اجتماع کی آزادی ، سماجی آزادی ، سیاسی آزادی ، آزادی تعلیم و تربیت، نقل و حرکت/ سفر کی آزادی ، تخلیے کی آزادی وغیرہ۔ سماج کے ہر فرد کو یہ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ پورے سماج اور اس کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ ان حقوق کا تحفظ کرے۔
٭اسلامی سماج میں درج بالا تمام حقوق ہر ایک کو حاصل ہوں گے۔ ان کے علاوہ اسلام مزید حقوق بھی انسانوں کو دیتا ہے۔ مثلاً برائیوں سے بچنے کا حق، حق تک رسائی کا حق وغیرہ۔
٭اسلامی سماج دیگر سماجوں کے مقابلے میں یہ امتیاز رکھتا ہے کہ وہ اپنے افراد پر کچھ فرائض کی زائد ذمہ داری بھی ڈالتا ہے۔ مثلاً (1) برائیوں کو روکنے اور بھلائیوں کے پھیلانے کی ذمہ داری (2) تبلیغ کا فریضہ۔
تکثیری سماج
انسانی سماج کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ جو مذہب، نظریہ، تہذیب، رنگ، نسل، زبان، علاقہ وغیرہ کی بنیادوں پر بنتے ہیں۔ ان مختلف قسم کے سماجوں سے مل کر بنے ہوئے سماج بھی ہوتے ہیں جنہیں تکثیری سماج کہتے ہیں۔ نقل و حمل کے جدید ترین ذرائع نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج یا عالمی گائوں بنا دیا ہے۔ اب دنیا میں ایسے ممالک کی اکثریت ہے جہاں مِلا جُلا سماج ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان کا سماج سب سے زیادہ رنگارنگ ہے جس میں سینکڑوں نظریات، مذاہب ، تمدن ، زبانوں ، بولیوں، رنگ اور نسل کے لوگ بستے ہیں۔ اتنا عظیم تکثیری سماج دنیا میں کہیں اور موجود نہیں ہے۔ اس رنگارنگی اور تنوع سے پیچیدہ سماجی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ان مسائل کو فوری حل نہ کیے جانے کی وجہ سے انہوںنے انتہائی بھیانک اور تشویشناک صورت اختیار کرلی ہے۔ یہاں مذہب، زبان، نسل، رنگ اور علاقائی بنیادوں پر خوفناک خونیں فسادات ہوتے رہتے ہیں جن میں لاکھوں افراد ہلاک اور کھربوں روپے مالیت کی املاک تباہ و برباد ہوئی ہیں۔ ان فسادات کی وجہ سے یہاں کی سائنسی اور صنعتی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے اور دنیا بھر میں اس عظیم ملک کی رسوائی بھی ہوئی ہے۔ اس تکثیری سماج میں تقریباً 125 کروڑ افراد رہتے ہیں جن میں مسلمانوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 15 سے 20 فیصد یعنی تقریباً20 تا 25 کروڑ ہے۔ دنیا کے کسی مسلمان ملک میں بھی مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی شاید نہیں ہے۔
بھارت کے مسلمانوں کی ذمہ داریاں
یہاں رہنے والے 20 تا25کروڑ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ملک کو سماجی ارتقاء ، استحکام اور امن و امان سے مالامال کردیں۔ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ ملکی سماج میں ان کو جو حقوق حاصل ہیں وہ اس سماج کے دیے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اللہ کے عطا کردہ ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی ہمیں تسلیم کرنی چاہیے کہ ملکی سماج ان بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ بھی کرتا ہے اور اپنے افراد تک ان کی رسائی کو بھی یقینی بناتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سماج نے جو فرائض ہم پر عائد کیے ہیں وہ بھی دراصل اللہ کی طرف سے عائد کردہ فرائض ہیں۔ کیونکہ اسلام تمام معروف سماجی ذمہ داریوں کو سماجی عہد و پیمان کی حیثیت دیتا ہے اور عہد و پیمان کو پوراکرنا انسانیت اور ایمان کا تقاضہ ہے۔ وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُولَا O (بنی اسرائیل۔ آیت 34) ترجمہ: ’’اور اپنے عہد و پیمان پورے کرو، بے شک ان کے بارے میں بازپرس کی جائے گی‘‘۔ چنانچہ اس سماج میں رہ کر اپنا انسانی سماجی رول ادا کرنا ہم پر لازم ہے۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر جو فرائض عائد ہیں وہ بھی ہمیں اس سماج میں ادا کرنے ہوں گے۔ مثلاً سماج سے برائیاں، بدامنی، فواحشات وغیرہ ختم کرنا نیز اسلام کی تبلیغ کرنا۔ اپنے ملک میں امرونہی اور دعوت و تبلیغ کا کام ہم پر فرض ہے۔
مسلمان اپنے تمام کاموں میں قرآن اور سنت کی پابندی کا مکلف ہے۔ کار دعوت و تبلیغ تو قرآن اور سنت کی اصلی روح ہے۔ چنانچہ بھارت میں بھی دعوت و تبلیغ کا کام قرآن و سنت کی بنیادوں پر ہی کیا جانا چاہیے۔ تمام مسلمان، بشمول متوسلین جماعت ،قرآن و سنت کی پابندی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ٔ مبارک اور اسوۂ پاک کی مکمل اتباع اور پیروی کی جائے۔ چنانچہ دعوت و تبلیغ میں بھی ہم آپؐ کی پیروی ہی کو درست سمجھتے ہیں۔
عہد رسالت اور موجودہ دور کا تقابل
یہاں ہمیں تھوڑی دیر رُک کر چند حقائق پر غور کرکے کسی نتیجے تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً نبیؐ کے دور اور عرب کے حالات کا تقابل آج کے دور اور اس ملک کے حالات سے کیا جائے تو کیا نتیجہ سامنے آتا ہے؟ کیا آپ کے زمانے اور موجودہ زمانے میں مکمل یکسانیت ہے؟ نبیؐ اور ہمارے حالات پوری طرح یکساں ہیں؟ عرب کے حالات اور ہمارے ملک کے حالات مکمل یکسانیت رکھتے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات پر ہی دعوت و تبلیغ کے طریقہ کار کا انحصار ہے۔
زمانوں کا تقابل
(i) شرک و کفر میں یکسانیت
(ii) ظلم و استحصال میں یکسانیت
(iii) جہالت اور تعلیم کا اختلاف
(iv) شہنشاہیت / قبائلی زندگی اور جمہوریت کا اختلاف
(v) انسانی حقوق سے لاعلمی و پامالی اور واقفیت اور تحفظ کا فرق
(vi) تبدیلی ٔ اقتدار بذریعہ قوت و جنگ اور بذریعہ انتخابات/ رائے عامہ کی ہمواری کا فرق
(vii) نئے نظریات مثلاً: سرمایہ داری، اشتراکیت، قوم پرستی، عقل پرستی، الحاد، سیکولرزم، مذہب بیزاری،جدیدیت، جمہوریت، گلوبلائزیشن وغیرہ کی موجودگی۔
نبیؐ اور صحابہؓ نیز آج کے مسلمانوں کا تقابل
(i) بلا واسطہ خدا کی رہنمائی بذریعہ وحی کی موجودگی اور عدم موجودگیکا فرق
(ii) مقصد اور نصب العین کا پختہ شعور اور اس کے لیے جذبہ جاں سپاری اور اسلام سے بیزاری و دوری کا فرق
(iii) آپؐ کا مدعو قوم کا فرد ہونا اور ہمارا اپنی مدعو اقوام سے اجنبیت بلکہ بسااوقات دشمنی کا فرق
(iv) آپؐ اور آپ کے خاندان کا مدعو معاشرے میں باوقار و باوزن ہونااور ہمارا اپنے معاشرے میں کمزور و قلیل ہونے کا فرق
عرب اور بھارت کے حالات کا تقابل
(i) کفر و شرک اور اخلاقی بگاڑ میں یکسانیت
(ii) عربوں میں قومی کشمکش کا فقدان اور بھارت میں مسلمانوں کو قومی کشمکش درپیش ہونے کا فرق۔
(iii) عربوں کا ہم مذہب ، ہم قبیلہ، ہم زبان و ہم تہذیب ہونا اور مسلمانوں کا دیگر بھارتیوں سے ان سب امور میں اختلاف ہونے کا فرق۔
(iv) عرب کا سادہ بدویانہ زندگی کا حامل ہونا اور بھارت کا ایک قدیم تہذیب و ثقافت کے ساتھ جدید تہذیب کا دعویدار ہونے کا فرق۔
درج بالا تقابلی مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے اور آج کے زمانے اور حالات میں بہت فرق واقع ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلے گا کہ ضرورت کے پیش نظر دعوت کے تفصیلی طریقہ کار میں بھی فرق و تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ بعض انبیاء کرام نے اپنے حالات کے مطابق نئے طریقے اختیار کیے ہیں۔ ان کا ذکر آگے آرہاہے۔
بھارت کے مخصوص حالات
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور ہمارے زمانے اور حالات میں بہت فرق ہے۔ یہ تو درج بالا تقابل سے ظاہر ہوگیا لیکن اس فرق کے علاوہ کچھ اور بھی اہم پہلو ہیں جن کی تفصیل ہر داعی کو جاننا ضروری ہے تاکہ طریقہ دعوت و تبلیغ متعین کرنا آسان ہو اور اس میں کم سے کم غلطی کا امکان ہو۔
٭مسلمانوں نے ہندوستان پر تقریباً 800 سالوں تک حکمرانی کی ہے جسے اسلام اور مسلم دشمن طاقتیں دور غلامی سے تعبیر کررہی ہیں۔ اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے اہلیان وطن مسلمانوں کو بیرونی حملہ آور سمجھتے ہیں اور ان سے ایک قسم کی دوری رکھتے ہیں۔
٭بعض مسلمان بادشاہوں نے اپنی حکومتوں کے قیام و استحکام کے لیے یہاں کی غیر مسلم رعایا کے ساتھ یقینا ظلم و زیادتیاں کی ہیں جنہیں اسلام اور مسلمان دشمن طاقتیں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں جو دوری کا سبب بنا ہوا ہے۔
٭انگریزوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے ملک کی باگ ڈور چھین کر حکومت قائم کی تھی۔ انہو ںنے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی حکمت عملی اپنائی اور مسلمانوں اور دیگر اہلیان وطن کے درمیان نفرت کے بیج بوکر فرقہ وارانہ تنائو پیدا کیا اور فسادات کروائے جن کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔
٭انگریزوں نے جاتے جاتے ملک کو تقسیم کرادیا جس کے نتیجے میں پاکستان، ایک نیا ملک، مسلمانوں کے لیے وجود میں آیا۔ تقسیم کے وقت ہوئے جانی و مالی نقصانات نے مسلمانوں اور اہلیان ملک کے درمیان نفرت اور دشمنی کی خلیج مزید چوڑی کردی۔
٭تقسیم کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ سیاست پنپنے لگی۔ انگریزوں کی سیاست، لڑائو اور حکومت کرو، کی تقلید کے نتیجے میں ملک میں آزادی کے بعد سے اب تک ہزاروں چھوٹے بڑے فسادات ہوچکے ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں افراد ہلاک ، کروڑوں زخمی ہوئے اور کھربوں کی مالیت کی ملکیت تباہ و برباد ہوئی۔
٭آزادی کے بعد فسادات کے ذریعے مسلمانوں کو تباہ کیا گیا اور دوسری طرف قومی ذرائع وسائل میں ان کی حق تلفیاں کی گئیں۔ چنانچہ مسلمان اب اس ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ گروہ ہے جو زندہ رہنے کی دوڑ میں سب سے پیچھے ہوگیا ہے۔
٭ گزشتہ بیس سالوں سے اسلام اور مسلمانوں کو ایک سازش کے تحت دہشت گردی سے جوڑ کر نئے مظالم کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کے بے انتہا خراب اثرات مسلمانوں کی قومی نفسیات پر پڑ رہے ہیں۔
٭محرومیوں اور تباہیوں نے بعض مسلمانوں میں ملک اور یہاں کے عوام کے تئیں بیزاری اور دشمنی کے جذبات پیدا کر دیے جس کی وجہ سے حالات میں مزید خرابیاں پیداہوئی ہیں۔
٭مسلمانوں میں اسلام سے دوری، مسلکی اختلافات اور جہالت نے مزید کئی مہلک خرابیاں پیداکی ہیں جو کارِ دعوت کے لیے سخت مضر ہیں۔
بھارت کے تکثیری سماج میں دعوتی کام کی نزاکت
ان حالات میں بھارت میں دعوت و تبلیغ کا کام انتہائی حکمت اور فراستِ مومنانہ کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ بات سُننے میں تو بہت بھلی لگتی ہے کہ دعوت راست انداز میں دی جانی چاہیے لیکن بھارت کے حالات دعوت کے اس طریقہ کار کا نہیں بلکہ کسی اور طریقہ کار کا تقاضہ کرتے ہیں۔ موجودہ قومی کشمکش کے پس منظرمیں ہم ابتدائی مرحلے میں ہی اگر مخاطبین کے عقائد اور دیوی دیوتائوں کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے بلکہ (نظریاتی)’’بت شکنی‘‘ کریں گے تو نہ صرف یہ کہ وہ اسلام کے پیغام سے اور زیادہ متنفر اور بیزار ہوجائیں گے بلکہ اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اس سے مزید فسادات رونما ہوں گے اور پہلے ہی سے تباہ حال مسلمانوں پر مزید سختیاں اور مظالم توڑے جائیں گے۔ جس طرح نبیؐ نے مکی دور میں تصادم اور کشمکش سے گریز کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے جان و مال کا تحفظ کیا تھا، ہمیں بھی دعوت دینے والے گروہ کا تحفظ ویسے ہی کرنا چاہیے۔ ہمارا کوئی پرجوش ساتھی یہاں ہمیں مصلحت پسندی کا طعنہ دے سکتا ہے لیکن جذباتیت سے پرے ہوکر سوچا جائے تو دعوتی حکمت عملی کا تقاضہ یہی ہے۔
انبیاء کرام ؑ کا قرآنی طریقہ ٔ دعوت
قرآن کے مطالعے سے یہ بات بہت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ مدعوئین کو راہِ ہدایت تک پہنچانے کے لیے انبیاء کرام نے انتہائی اپنائیت ، دلسوزی اور نصیحت آمیز طریقے سے دعوت پیش کی ہے۔ مثلاً : وہ مدعوئین کو اپنی قوم سمجھتے اور پکارتے تھے۔ قرآن میں انبیاء علیہم السلام کو ان کی قوموں کا بھائی ’اخ‘ بھی کہا گیا ہے۔
قرآن کے مندرجہ ذیل مقامات پر اس کا ذکر موجود ہے:
قوم موسیٰ (سورۃ اعراف : 148، 159 ، سورۃ القصص: 76)
قوم نوح، عاد، ثمود (سورۃ التوبہ : 70 ، سورۃ ابراہیم : 9 ، سورۃ الحج: 42، سورۃ غافر: 31)
قوم ابراہیم اصحاب مدین الموتفکات (سورۃ التوبہ : 70 ) قوم یونس (سورۃ یونس: 98) قوم ہود (سورۃ ہود: 60)
قوم لوط (سورۃ ہود:70 ، 74 ، 89 ، سورۃ الحج:43 ، الشعراء: 160 ، سورۃ القمر:33)
قوم نوح (سورۃ ہود: 89، سورۃ الفرقان:37، سورۃ الشعراء: 105، سورۃ غافر: 5 ، سورۃ ق:12، سورۃ الذاریٰت:46، سورۃ النجم:52 ، سورۃ القمر:9)
قوم ہود(سورۃ ہود: 89) قوم صالح(سورۃ ہود: 89) قوم ابراہیم( سورۃ الحج: 43) قوم نوح و عاد (سورۃ ص: 12)
قوم لوط، اصحاب الایکہ (سورۃ ص: 13)
قومی (سورۃ الاعراف: 42، سورۃ الفرقان: 30 ، سورۃ الشعراء: 117، سورۃ یٰسین: 26 ، سورۃ نوح: 5)
یا قومِ ] قومی[ (سورۃ البقرہ:54، سورۃ المائدہ:20،21، سورۃ الانعام:78، 135، سورۃ الاعراف:59،61، 65، 67، 73، 79، 85، 93، سورۃ یونس:71،84، سورۃ ہود:28،29،30،50،51،52، 61، 63،64 ، 78،84، 85،88، 89، 92، 93 ، سورۃ طٰہٰ: 86، 90، سورۃ المومنون: 23، سورۃ النمل: 46، سورۃ العنکبوت:36، سورۃ یٰسین: 20، سورۃ الزمر:39، سورۃ غافر:29، 30، 32، 38، 39، 41 ، سورۃ الزخرف:51 ، سورۃ الصف:5، سورۃ نوح: 2)
اخا (’’اخا عاد‘‘ سورۃ الاحقاف:21، ’’اخاہ ُ ‘‘ سورۃ الاعراف: 111 اور سورۃ الشعراء: 36 ، ’’اخاہم‘‘ سورۃ الاعراف: 65،73،85، سورۃ ہود: 50، 61،84 ، سورۃ النمل:45، سورۃ العنکبوت:36 ، ’’اخوہم‘‘ سورۃ الشعراء: 106، 124،142،161، ’’واخوان لوط‘‘ سورۃ ق:13)
انبیاء کرام اپنی قوموں کو ہدایت پہنچانے کے لیے شدید تڑپ رکھتے تھے۔ قرآن کی درج ذیل آیات سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
٭(سورۃ نوح آیات 5 تا 10 )
ترجمہ: اس نے عرض کیا : ’’اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا۔ مگر میری پکار نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ اور جب بھی میں نے اُن کو بلایا تاکہ تو اُنہیں معاف کردے، انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منھ ڈھانک لیے۔ اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا۔ میں نے کہا ’’اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ ‘‘
٭فَلَعَلَّکَ بَا خِعٌ نَفْسَکَ عَلیٰٓ آثَارِہِم اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا O ترجمہ: تو اے نبیؐ، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس حقپر ایمان نہ لائے۔ (سورۃ الکہف: آیت )
٭مکی زندگی کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپؐ بخار کی حالت میں بستر پردراز تھے کہ ایک قافلہ کی آمد کی آوازیں آپؐ کے کانوں میں پڑیں تو آپؐ بستر سے اُٹھ گئے تاکہ قافلے کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اس وقت حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو بخار کی حالت میں باہر جانے سے روکنا چاہا تو آپؐ نے فرمایا کہ خدا جانے یہ لوگ مجھ سے دوبارہ ملیں یا نہ ملیں، اگر ان تک دعوت نہ پہنچی تو آخرت میں یہ لوگ میرے خلاف شکایت کریں گے۔
مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا جو کام کیا وہ تمام باشندگان مدینہ کو ایک معاہدے میں باندھنا تھا۔ جسے میثاق النبی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور اور آئین بھی کہلاتا ہے۔ یہ تحریری معاہدہ مدینہ کے مندرجہ ذیل طبقوں کے درمیان ہے: (1) محمد نبی رسول اللہ (2)مسلمانان قریش مکہ (3) مدینہ کے مسلمان (4) مدینہ کے یہودی (5)مدینہ کے نصرانی (6) مدینہ کے مشرک۔ اس میثاق کی دفعہ اول : متذکرۃ الصدور ہرشش گروہ سیاسی طور پر ایک ’’جماعت‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دفعہ دوم : ان میں سے ہرگروہ فرداً فرداً مندرجہ ذیل امور کا ذمہ دار ہے اور اس دفعہ میں مدینہ کے مندرجہ ذیل گروہ بھی شامل ہیں: (1) بنی عوف (2) بنو حارث از قبیلہ خزرج (3) بنو ساعدہ (4) بنو جشم (5) بنو نجار (6) بنو عمر و بن عوف (7) بنو نبیت (8) بنی اوس۔
دفعہ چہارم : یہود شرکاء معاہدہ کے لیے (1) مسلمانوں کی جنگوں میں ان کی مالی اعانت کرنا ہر یہودی پر واجب ہوگا۔ (2) قبیلہ بنی عوف کے تمام یہود کو مسلمانوں کے ساتھ ایک فریق کی حیثیت سے مل کر رہنا ہوگا۔ مسلمان اور یہودی دونوں اپنے اپنے مذہب کے پابند رہیں گے۔ (3) یہ ذمہ داری بنو عوف کے غلاموں پر بھی ان کے آقائوں کی مانند عاید ہوگی اور عدم پابندی کی صورت میں ان کے آقا ان کی طرف سے جوابدہ ہوں گے۔ سرکشی کی صورت میں نہ صرف بنو عوف کے مرد بلکہ ان کے بال بچوں پر بھی مواخذہ کیا جاسکتا ہے۔ (4) اس دفعہ میں مدینہ کے مندرجہ ذیل یہود بھی شامل ہیں : (i) بنو نجار (ii) بنو حارث (iii) بنو ساعدہ (iv) بنو جشم (v) بنو ثعلبہ اور ان کے حلیف (vi) بنو ثعلبہ کی شاخ جُفنہ (vii) بنو شطبیہ۔ الغرض یہ دفعہ ہر یہودی قبیلہ کے حلیفوں پر لاگو ہے۔
دفعہ 23 : قبیلہ اوس کے یہود اور ان کے حلیف بھی اس قرارداد کے اسی طرح پابند ہیں جس طرح وہ قبائل جن کا نام بنام ذکر اوپر آچکا۔ ( ماہنامہ’’ نقوش‘‘ : رسول نمبر جلد2، صفحہ 575،576۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ از : ڈاکٹر حمید اللہ)
قرآن و حدیث کی جو مثالیں اوپر درج ہوئیں اُن کی روشنی میںمولانا مودودیؒ کی تصنیف ’’مسئلہ قومیت‘‘ میں پیش کردہ خیالات پر تنقیدی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا کی اس تصنیف کے منفی اثرات پڑے۔ قارئین نے غیر مسلموں کو الگ قوم سمجھا اور نتیجۃً ان سے دور رہے۔ یہ دوری بالآخر دعوتی کام میں رکاوٹ بن گئی جو آج تک برقرار ہے۔
مولانا مودودیؒ کے بعض معاصر علماء نے اس سلسلے میں مثبت رہنمائی فرمائی ہے۔ جلیل القدر عالم مولانا مناظر احسن گیلانیؒ رقمطراز ہیں ’’یہ امت مجتبیٰ ومبعوثہ ہر قوم میں ہے۔ ہر ملک میں ہے، پس جو جہاں ہے وہ وہیں مبعوث ہے۔ ان کی قوم اسی ملک کے باشندے ہیں۔ مصیبت کی گھڑی وہی تھی جب اپنی قوم کو ہم نے اپنی قومیت سے نکالا، اسی کے ساتھ ان کا درد بھی دل سے نکلا، حالانکہ حضرت نوحؑ کے منکر ان کی قوم تھی، حضرت ہودؑ کے کافر، ان کی قوم تھی، قریش رسول خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگ تھے۔ تو کس نے کہا کہ ہندوستان کے ہندو، ہندوستان کے مسلمانوں کی قوم نہیں، مصریوں کی قوم مصر کے قبط نہیں، یورپ کے عیسائی یورپ میں رہنے والے ترکوں کی قوم نہیں ہیں۔ ‘‘
(نقوش۔ رسول نمبر۔ جلد2، صفحہ511۔ مدنی زندگی۔ از: سید مناظر احسن گیلانی)
مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ’’قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ کا اصول پیش کیا اور قرآن و حدیث سے ہی اس کے حق میں استدلال کیا۔ تکثیری سماج میں دعوتی کام کرنے والوں کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ مدعو کو اپنا سمجھیں اور اس کے دل میں اپنائیت کے احساس کو اجاگر کریں۔ چنانچہ ہمیں بھی مدعوئین کو اپنی قوم کہنا چاہیے کیونکہ ہم میں سے اکثر افراد کے آباواجداد بھارت کے قدیم باشندے تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ (باقی آئندہ شمارے میں)
مشمولہ: شمارہ جون 2015