آٹھویں صد ی ہجری میں حکومت و معاشرت کا بگاڑ بہت بڑھ چکا تھا۔یہ شدید اتھل پتھل اور عدم استقرار کا زمانہ تھا۔ خلافت اسلامی کا شیرازہ بکھرنے کی راہ پر تھا۔اس زمانے میں بڑی جنگیں ہوئیں اور نئے نئے مسائل و افکار نے سر ابھارنا شروع کر دیا۔ خلافت عباسی کے دور کے معروف ادیب عبداللہ بن مقفع (م:۱۴۲ھ) کی تقسیمِ ادوار کے مطابق یہ وہ دور تھا جس میں حاکم و رعیت دونوں ہی فساد کا شکار ہو چکے تھے۔
اگرچہ بالعموم ہر دور میں علماء اور فقہاء نے حکومت اور سیاسی سرگرمیوں سے خود کوعملاً الگ ہی رکھا، لیکن جب فساد عام ہونے لگا تو انھوں نے اصلاح کی غرض سے اس میں مداخلت کو ضروری سمجھا اور حکومت و معاشرے کی بیک وقت اصلاح کے لیے کوشش کو اپنا فریضہ جانا۔ اس طرف ان کی توجہ کی وجہ یہ بھی تھی کہ بگاڑعوام اور حکمراں، دونوں ہی سطح پر آنے لگا تھا۔ اس صدی میں پیدا ہونے ولے جن علماء نے اصلاح کی جانب توجہ دی ، ان میں تین نام اہم ہیں:مذکورہ صدی کے آغاز میں علامہ تقی الدین ابن تیمیہ (م:۷۲۸ھ)،درمیان میں تاج الدین عبدالوہاب السبکی (م: ۷۷۱ھ) اور صدی کے اواخر میں علامہ ابن خلدون (م:۸۰۶ھ)۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپنی ان اصلاحی کوششوں کے لیے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ علامہ ابن تیمیہ نے ایک رسالہ ‘‘السیاسیۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی والرعیۃ’’ کے نام سے لکھا۔ یہ رسالہ علامہ ابن تیمیہ نے سلطان ناصر محمد بن قلاوون (م: ۷۴۱ھ) کے نام لکھا تھا اورمقصد یہ تھا کہ سلطان کو بہ حیثیت والیِ امر اس کے فرائض یاد دلائے جائیں اوراللہ و رسول کے حکم کے مطابق امور سلطنت کو انجام دینے کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اس کے مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے۔اس نے اپنے زمانے میں جو اصلاحات کیں وہ ان مشوروں اور تجاویز کے مطابق ہیں جن کا ذکر علامہ ابن تیمیہ نے اپنے رسالے میں کیا ہے۔چنانچہ علامہ ابن کثیر (م: ۷۷۶ھ) نے البدایہ و النہایہ میں ذکر کیا ہے کہ ابن تیمیہ کی اصلاحی کوششوں کی وجہ سے ابن قلاوون اصلاحات اور بعض اخلاقیات کو اختیار کرنے پر مجبور ہوا، مثلاً اب تک لوگ رشوت دے کر عہدے خریدتے تھے، لیکن علامہ ابن تیمیہ کی توجہ اور کوشش کے بعد ابن قلاوون نے اس کو ممنوع قرار دیا۔علامہ ابن خلدون نے المقدمہ میں جو اسلوب اس مقصد کے لیے اختیار کیا ہے وہ مختلف ہے۔ انھوں نے تاریخی اندازبیان اختیار کرتے ہوئے فلسفہ تاریخ کے حوالے سے حالات پر غور کرنے کی دعوت دی ہے، اور ان وجوہ واسباب کو بیان کیا ہے جن کی وجہ سے حکومتیں اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں۔
معید النعم ومبید النقم
ان دو علماء کے درمیانی زمانے میں علامہ تاج الدین السبکی نے ایک کتاب اسی مقصد سے تحریر کی۔ علامہ کی یہ کتاب عملی اصلاحات پر مبنی تھی، جس کا نام ‘‘معید النعم ومبید النقم’’ ہے۔ (نام کا ترجمہ ہے: نعمتوں کو لوٹانے والی اور سزاوں کو ہٹانے والی کتاب ) انھوں نے فرد، معاشرے، حکومت اور حکومتی شعبوں، تاجروں، عام کاروباریوںسب کو اپنا مخاطب بنایا تھا۔علامہ سُبکی نے یہ کتاب دمشق میں رہتے ہوئے لکھی تھی ۔ اس کتاب اور علامہ ابن تیمیہ کے مذکورہ رسالے کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے مصری صحافی عبداللہ الطحاوی نے اپنے ایک مضمون میں اس جانب اشارہ کیا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ نے صرف سیاسی اصلاحات کو رسالے کا موضوع بنایا ہے اور معاشرے کی اصلاح پراس رسالے میں زیادہ توجہ نہیں دی ہے، جب کہ علامہ سبکی کی کتاب ‘‘ایک عملی کتاب ہے جس میں پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں سطح پر جو اخلاقی انحطاط’’ آگیا تھا، اس کی اصلاح کا نقشہ پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ اس کتاب کے مطالعے سے عہدِ مملوکی میں مصر، شام اور حجاز کے معاشرے کی ایک عملی تصویر بھی سامنے آ جاتی ہے،جس سے مورخین و محققین کو اس وقت کے سیاسی و سماجی حالات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔علامہ سبکی نے کتاب میں مثال کا اسلوب اختیار کیاہے۔ یعنی ہر شعبے اور عہدے سے متعلق الگ الگ مثال کے ذریعے اصلاح کی تجویز دی ہے۔ اس طرح اس میں مجموعی طور پر ۱۱۳ مثالیں دی گئی ہیں۔
کتاب کا تعارف
علامہ سبکی نے مثالوں کے ذریعے سلطان، اس کے نائبین، علماء و ائمہ مساجد، صوفیاء، فوجی کمانڈروں، مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوںحتی کہ بھیک مانگنے والوں تک کو مخاطب کیا ہے۔کتاب کا مرکزی نقطہ ‘‘شکر’’ ہے۔ یعنی صاحب کتاب کے نزدیک سماج اور حکومت کے اندر بگاڑ اور فساد پیدا ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان کو جو نعمتیں بھی جس شکل میں ملی ہیں، اگر وہ ان نعمتوں سے نوازنے والے کا شکر ادا نہ کرے تو وہ نعمتیں اس سے چھین لی جاتی ہیں ۔ چنانچہ کتاب کا آغاز اسی ایک سوال سے کیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص سے دینی و دنیوی نعمتیں سلب کر لی گئی ہوں تو وہ کون سا راستہ ہے جس پر چل کر اسے وہ نعمتیں واپس مل سکتی ہیں؟’’مکمل کتاب اور اس کی تمام مثالیں دراصل اسی سوال کا تفصیلی جواب ہیں۔ جس کی تشریح یہ ہے کہ جسمانی اعضا سے لے کر دنیوی عہدوں اور آسائشوں تک انسان کو جو بھی نعمت حاصل ہے، اگر انسان ان پر اللہ کا شکر ادا نہ کرے تو وہ نعمتیں یا تو اس سے چھین لی جاتی ہیں یا ان کے استعمال میں بگاڑ آ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تین باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے: اول ‘‘یہ جاننے کی کوشش کرے کہ اسے یہ نعمت کہاں سے ملی تھی۔ پھر وہ سبب معلوم کرے جس کی وجہ سے نعمت اس سے چھِن گئی۔ اس لیے کہ آپ کو جو نعمت حاصل ہے، وہ بلاکسی وجہ کے یوں ہی نہیں لے لی جاتی۔ اللہ تعالی نعمتوںکی تقسیم کے سلسلے میں جو کچھ کر رہا ہے، اسے اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک لوگ خود اپنے آپ کو نہ بدل لیں۔’’
اس کے بعد لکھتے ہیں: ‘‘جان رکھو، نعمت تم سے صرف اس لیے زائل ہوئی کہ تم نے ان نعمتوں کا حق ادا نہیں کیا۔ان نعمتوں کا حق ہے یہ ہے کہ شکر کرو۔ اس لیے کہ جن نعمتوںپر شکر نہیں کیا جاتا وہ اس لائق ہیں کہ ان پر زوال آ جائے۔لوگ کہتے ہیں کہ نعمت پر شکر ادا کیا جائے تو وہ باقی رہتی ہے، ناشکری کی جائے تو رخصت ہو جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ‘‘نعمت پر شکر ادا کیا جائے تو اس پر کبھی زوا ل نہیں آتا اور ناشکری کی جائے تو اسے بقا نصیب نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ‘‘نعمت ایک وحشی جانور کی طرح ہے، اسے شکر گزاری کے ذریعے مانوس کر لو۔’’ اس حقیقت پر بہت سے دلائل موجود ہیں کہ نعمت کی ناشکری نعمت کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ ہم اس کی زیادہ تفصیل نہیں کرنا چاہتے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت دونوں یہ بتاتی ہیں کہ نعمت کی ناشکری اس کے زوال کو راستہ دیتی ہے اور نعمت پر شکر اس میں زیادتی کی وجہ بنتی ہے۔’’
شکر کیا ہے؟ اس کی تشریح کرتے ہوئے علامہ سبکی نے لکھا ہے کہ شکر کے تین ارکان ہیں۔ یعنی شکر ‘‘دل، زبان اور عمل’’ تینوں سے ادا ہونا چاہیے۔ دل سے شکر ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا یقین و اعتقاد ہو کہ صرف اللہ ہی ہے جس نے نعمت سے نوازا ہے۔ اگر کوئی نعمت تمھیں کسی امیر یا وزیر کے توسط سے حاصل ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعمت دینے والا امیر یا وزیر ہے، بلکہ اللہ نے اس کو ذریعہ بنا کر تم تک نعمت پہنچائی ہے۔ اس لیے ہر حال میں تمھیں یہ یقین و اعتقاد ہونا چاہیے کہ نعمت سے نوازنے والا اللہ ہے۔زبان سے شکر یہ ہے کہ جو نعمت حاصل ہوئی ہے اس کاذکر اپنے رب کی ثنا کے مقصد سے کیا جائے،نہ کہ اپنی بڑائی اور ریاکاری کے نقطہ نظر سے۔
عملاً شکر یہ ہے کہ اللہ نے جو نعمت جس کام کے لیے دی ہے، اس سے وہی کام لیا جائے اور غلط کام کے لیے اسے استعمال نہ کیا جائے۔ جو مثالیں کتاب میں پیش کی گئی ہیں، ان میں سے مثال اول میں اس کی تشریح کرتے ہوئے علامہ سبکی لکھتے ہیں: ‘‘آنکھوں کا شکر یہ ہے کہ کسی مسلم کا کوئی عیب تمھاری نظر میں آئے تو اسے پوشیدہ رکھو اور ہر برے کام سے نظر کو بچا کر رکھو وغیرہ۔ اگر تم آنکھوں کی نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے روزانہ دو رکعت پڑھتے ہو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی نظروں کو حرام کاموں میں استعمال کرتے ہو، تو تم اس نعمت کے شکر کا حق ادا نہیں کر رہے ہو۔’’اسی طرح کان کی نعمت کے سلسلے میں لکھا ہے کہ ‘‘اگر تم کان جیسی نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے روزانہ دو درہم خیرات کرتے ہو، لیکن جو بھی بری بات سنتے ہو، اس کی پردہ دری کرتے ہو، حرام کردہ باتوں کو کان لگا کر سنتے ہو اور انھیں یاد رکھتے ہو، تو تم شکر گزار لوگوں میں سے نہیں ہو۔’’
سلطان کی ذمہ داری
سلطان یا خلیفہ یا ارباب حکومت کے بارے میں شکر کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
‘‘جب اللہ تمھیں مخلوق کے معاملات کا ذمہ دار بنا دے تو تمھارا فریضہ ہے کہ ان کے مسائل معلوم کرو، ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرو، ان کے درمیان برابری قائم کرتے ہوئے حکومت کرو اور خواہش و رجحان کو ایک جانب رکھ دو۔ بعض کی باتیں سن کر بعض دوسروں کی باتوں کو سننے سے گریز نہ کرو، الا یہ کہ ان میں سے کوئی ایک فریق واضح دلیل لے آئے۔ پہلے جس کی بات سن چکے ہو ، اسی کی طرف نہ جھک جائو۔ اگر تم اپنے دل کو پہلے فریق کی جانب جھکتا ہوا پاتے ہو اور تمھارا دل اسی کو سچا مانتا ہے تو تم مخلوق کے حق میں ظالم ہو اور تمھارا دل غرض کے ساتھ ساتھ پلٹیاں مارتا ہے، اسے خواہش جس طرح چاہتی ہے جھکا دیتی ہے۔’’
‘‘تمھیں یہ معلوم رہے کہ رعیت اور تم برابر ہو۔ اپنے اور ان کے درمیان تمیز مت کرو۔۔۔ اگر تم نے لوگوں کو یوں ہی ایک دوسرے کا مال ہڑپتے ہوئے چھوڑ دیا اور خود اپنے گھر میں بیٹھ کر نمازیں پڑھتے رہے اور اپنے گناہوں پر روتے رہے تو تم اپنے رب پر عیب لگانے والے قرار پائو گے۔ کیوں کہ تمھار ے بادشاہ (اللہ) کا مطالبہ تم سے یہ نہیں ہے کہ تم راتوں کو جاگ کر عبادت کرو اور زندگی بھر روزے رکھو، بلکہ اس کا مطالبہ تم سے وہ ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔اس کے ساتھ اگر تم دوسرے نیک اعمال بھی جوڑ لو تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔اور اگر تم کسی عمل کا اضافہ (اپنی ذمہ داریوں ) پر نہ بھی کرو تو (ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہی) نعمتِ حکومت کا شکر ادا کرنا ہے۔’’
عہد مملوکی کے سماجی حالات ایسے ہوگئے تھے کہ اُس وقت کا معاشرہ شدید قسم کی دو رنگی سے دوچا ر تھا اور یہ دورنگی معاشرے کے ہر پہلو پر غالب آ گئی تھی۔ حکام اور ان کے نائبین عوام کی ضرورتوں سے غفلت برتنے لگے تھے۔ عیش و عشرت میں مبتلا تھے، لیکن انھیں اپنی انفرادی زندگی میں گناہوں اور غلطیوں کا احساس بھی رہتا تھا ۔اللہ کی بارگاہ میں روتے گڑگڑاتے بھی تھے۔اسی دورنگی کا اثر تھا کہ لوگوں کو ناحق خون بہانے، بیت المال کے خزانے کا بے دریغ استعمال کرنے اور اللہ کے بندوں پر ظلم کرنے کے جو گناہ انھوں نے کر رکھے تھے، ان گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ انھوں نے محض یہ سمجھ لیا تھا کہ مسجدیں تعمیر کر دی جائیں، مدارس کھول دیے جائیں، تصوف کی خانقاہیں قائم کر دی جائیں، غریبوں کو کھانا کھلا دیا جائے، اور پانی کی سبیلیں تعمیر کر دی جائیں۔ اسی دورنگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ سبکیؒ نے یہ بات کہی کہ حاکم اگر اپنے اصل فرائض سے غافل ہو کر محض عبادت و پرستش میں لگا رہے اور اللہ کے سامنے گڑگڑاتا رہے تو یہ شکر گزاری نہیں ہے، بلکہ حکومت کی جو نعمت اسے حاصل ہے، اس پر ناشکری کا اظہار ہے۔
جس شخص کو حاکم وقت کی قربت حاصل ہو اور حاکم وقت اس کی بات کو سنتا ہو، ایسے شخص کا فریضہ علامہ سبکی نے یہ قرار دیا ہے کہ وہ حاکم وقت کو عمدہ نصیحت کرے اور اس تک جو بھی بات پہنچائے وہ درست اور برحق ہو۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو حاکم وقت سے قربت و مقبولیت کی جو نعمت اسے حاصل ہے وہ اس سے چھین لی جائے گی۔ وہ لکھتے ہیں:
‘‘اگرولیِ امر تمھاری بات مانتا ہے تو تم سے مطلوب یہ ہے کہ تم اسے اس بات کی نصیحت کرو اور اس تک رعایا کے وہی حالات پہنچائو جو درست ہیں اور تمھارے نزدیک ثابت شدہ ہیں۔ حق کے معاملے میں ممکنہ حد تک اس کی مدد کرو اور ولیِ امر کی قربت سے تمھارا مقصد محض دولت جمع کرنا اور دنیا کمانا نہ ہو، کیوں کہ جو نعمت تمھیں حاصل ہے، یہ چیز اس کے زوال کا سبب بن جائے گی۔۔۔وہ شخص کتنا احمق ہے جس کی بات ولی ِ امر کے نزدیک قابل عمل ہو، کوئی مظلوم اس کے پاس مدد پانے آئے تو یہ شخص اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے نمازشکرانہ پڑھنے لگے کہ اللہ تعالی نے اس کی بات کو ولی ِ امر کے نزدیک قابل عمل بنایا ہے، لیکن مظلوم کو اس کے حال پر چھوڑ دے کہ ظلم اسے نقصان پہنچا رہا ہو اور کوئی اس کی مدد کرنے والا نہ ہو، حالانکہ وہ اس کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ ایسے شخص کی نمازاسی کے لیے وبال بن جائے گی۔’’
علامہ سبکی کہتے ہیں کہ یہ جو مثال دی گئی ہے یہ ہر شخص کے لیے ہے جسے کوئی بھی معمولی یا غیر معمولی ذمہ داری دے دی گئی ہو۔سلطان کے فرائض کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ اس کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ علماء، فقراء اور اس کی رعیت میں جو بھی مستحقین ہیں، ان کی فکر کرے، انھیں ان کے حسب حال مرتبہ دے، بیت المال سے ان کی کفایت کرے۔بیت ا لمال کا صحیح مصرف بھی اس کے فرائض میں سے ہے۔ اس کے متعلق لکھتے ہیں :
‘‘اگر اس میں اس نے زیادتی کی اور بیت المال کو اپنی خواہشات و لذات پر خرچ کیا اور یہ خیال کیا کہ بادشاہت اسی کا نام ہے، تو وہ اپنے علاوہ کسی کو ملامت زدہ نہیں کرے گا۔۔۔ اور اگر وہ (سرکاری)مال کواپنے خواص پر اور ان لوگوں پر خرچ کرنے لگا جن کو اپنی بادشاہت برقرار رکھنے کے لیے اپنی طرف مائل کرنا چاہتا ہے ، اور اس خرچ سے اس کا مقصد دین کو قوت و طاقت بخشنا نہ ہو ، اسے شعراء کے قصیدوں سے خوشی ہوتی ہو تو یہ حماقت کی بات ہے۔’’
علامہ سبکیؒ کی یہ کتاب ظاہر کرتی ہے کہ معاشرے اور حکومت کی خرابیوں کو واضح کرنے میں وہ کس قدر جری تھے۔جو چیز ان کے نزدیک قابل اصلاح تھی، اس کا ذکر کرنے میں انھوں نے کسی مصلحت کو مانع نہیں ہونے دیا۔عام مسلمانوں، تاجروں اور پیشہ وروں کی اخلاقی برائیاں ہی نہیں، بلکہ حکمرانوں کے اندر بھی جو اخلاقی خرابیاں آ گئی تھیں، ان کو بیان کرنے میں انھیں کوئی قباحت یا عار محسوس نہیں ہوا۔ اُس زمانے میں بادشاہوں کے سامنے فرشی سلام عام ہو چکا تھا۔ لوگ بادشاہوں کے آگے زمین کو بوسہ دیا کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
‘‘ایک قبیح ترین اور حرام بدعت باشاہوں کے سامنے زمین کو بوسہ دینا ہے۔۔۔ یہ عظیم ترین گناہوں میں سے ہے۔ ہمیں تو ڈر ہے کہ ایسا کرنا کفر نہ ہو۔ بعض کتبِ حنفیہ میں بعض حنفی علماء نے تو سے مطلق کفر کہا ہے۔’’
سلاطین کے نائب بھی ہوا کرتے تھے، جنھیں امور مملکت میں سلطان کے برابر ہی اختیار ا ت حاصل ہوتے تھے۔ اس لیے انھو ں نے نائبین سلاطین کو ان کے فرائض و واجبات یا د دلائے: ‘‘ان کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ فساد پھیلانے والوں، ڈاکوئوں اور فتنہ پھیلانے والے مثلاً قزاقوں وغیرہ کے معاملات پر نگاہ رکھیںاور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں۔’’ اس سلسلے میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایسے کسی مجرم کو سخت سزا دینے کی نوبت آ جائے تو اس میں ملک و ملت کی مصلحت کو پیش نظر رکھے نہ کہ اپنی خواہش نفس اور اپنی نام وری کو۔
وزیر کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
‘‘اس کا حق یہ ہے کہ وہ بادشاہ کو نصیحت کرے، اس کی اذیتوں سے رعایا کے مال کو محفوظ رکھے اور رعایا کے اوپر سے حتی الامکان دبائو کو کم کرے۔ یہ بات معلوم ہے کہ چنگی حرام ہے۔ اگر وزیر چنگی لینے کے ساتھ ساتھ ان پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہے اور اس میں سختی سے کام لیتاہے، اس پر سزا دیتا ہے تو وہ ایک حرام کام کے ساتھ دوسرا حرام کام جوڑتا ہے۔’’ یہ بھی نصیحت کی ہے کہ غلط طریقے سے جو مال بیت المال میں آتا ہے، اس کو بیت المال کی جائز و حلال آمدنی کے ساتھ خلط ملط نہ کرے۔
مختصر یہ کہ کوئی بھی صاحب عہدہ و منصب یا کسی بھی درجے کا ذمہ دار شخص اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میںکوتاہی کرتا ہے یا ان میں خیانت کرتا ہے تو یہ تمام کام اس کے فرائض کے خلاف ہیں اور اس کا یہ رویہ حاصل شدہ نعمت کے زوال کاسبب بن سکتی ہے :
‘‘(سلطان کے) فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ ان لوگوں کے کام آئے جو مسلمانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، جو حدو دِ اسلام کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو روکتے ہیں۔ اگر وہ جاگیریں چنیدہ مملوکوںکو ہی تقسیم کرتا ہے، انھیں قسم قسم کے لباسوں سے آراستہ کرتا ہے، ۔۔۔ اور ان لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے جنھوں نے اپنے گھروں کے اندر بھوکے رہ کر اسلام کو نفع پہنچایا ہے، تو اس کے بعد اگر اس سلطان سے اللہ نعمت (سلطنت) کو سلب کرلے تو رونے لگتا ہے اور کہتا ہے:ہائے میری نعمت کو کیا ہوا، وہ زائل ہو گئی۔ میرے دن مختصر ہو گئے۔ اس سے کہا جائے گا کہ احمق، کیا تجھے سبب معلوم نہیں! کیا تو خود اپنے اوپر ظلم کرنے والا نہیں ہے!’’
علامہ سبکیؒ نے یہ بھی محسوس کیا کہ شریعت سے زیادہ حکومت کے وضعی قوانین کو اہمیت دی جانے لگی ہے۔ مملوک سلاطین نے وضعی قوانین کو رائج کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے منگولی قوانین ‘‘یاسا’’ کو رائج کرلیا تھا۔ ‘‘یاسا’’ منگولی لفظ ہے۔ یعنی امیر یا حاکم کی زبان سے جو حکم صادر ہو جائے، وہ قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ ایسے قوانین کے مجموعے کو یاسا کہا جاتا تھا۔مقریزی سلاطینِ مملوک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے قاضی کی ذمہ داریوں کو دینی امور و مسائل سے متعلق فیصلوں تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن اپنے ذاتی معاملات سے متعلق چنگیز خان کی روایتوں کو برتنا شروع کر دیا تھا۔اسی پر اعتراض کرتے ہوئے علامہ سبکی لکھتے ہیں:
‘‘ان کی بری عادتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ کسی ایسے کام کو کرنے کا ارادہ کرتے ہیں جو ان کی قبیح عادتوں سے متعلق ہے تو کہتے ہیں: یہ دیوانِ شاہی کا قانون ہے، حالانکہ دیوانِ شاہی کا کوئی (الگ ) قانون نہیں ہوتا ہے، بلکہ قانون تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا ہوتا ہے۔ اس لیے اس طرح کی بات کفر تک لے جانے والی ہے۔ ’’ جو مالی فساد اور کرپشن خاص طور سے فوج میں آگیا تھا اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس سونے سے اپنے لباس اور تمغوں کو آراستہ کیا جا رہاہے، اگر اس سونے کو حکومت کے خزانہ عام میں رکھ دیا جائے ، اسے عام مسلمانوں کے استعمال میں لایا جائے تو لوگوں کا بھلا ہوگا اور سامان کی قیمتیں گریں گی۔دوسرے لفظوں میں انھوں نے فوج اور اہل اقتدار کو سادگی اور سادہ زندگی اختیار کرنے پر ابھارا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
‘‘صحابہ کرامؓ کی مملکت ترکوں کی مملکت سے بھی زیادہ وسیع و عظیم تھی۔ان کے ہاتھوں میں جو دولت تھی وہ ترکوں کی دولت سے اتنی زیادہ تھی کہ اس کا شمار اللہ کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔ (پھر بھی) وہ لوگ اوک سے پانی پیتے تھے۔’’
علامہ سبکیؒ نے علماء کو بھی تنقید سے بالاتر نہیں سمجھا اور انھیں بھی اس بات کی نصیحت کی کہ علم کی جو نعمت انھیں حاصل ہے ، اس کا صحیح استعمال کریں، بلکہ علماء کا جس مثال میں ذکرکیا ہے وہ غالباً کتاب کی سب سے طویل مثال ہے۔ انھوں نے علماء کے چار اہم فرائض گنائے ہیں:جو علم حاصل کرنا چاہتے ہیں انھیں تعلیم دیں، افتاء، یعنی کوئی دینی امور سے متعلق رہنمائی چاہے تو اس کی رہنمائی کریں، طالبینِ علم کے ساتھ نصح و خیرخواہی کا معاملہ کریں اور اپنا علم کسی سے بھی چھپا کر نہ رکھیں۔۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ علماء اپنے اوپر دنیا اور دنیوی اغراض کو غالب نہ آنے دیں۔انھوں نے علماء پر یہ بات واضح انداز میں پیش کی ہے کہ اپنے علم و فقہ کو عیش و مال دار ی کا ذریعہ نہ بنائیں۔ مال داری علم اور فہم سے نہیں آتی۔ اگر کسی کو مالداری اختیار کرنا ہی ہے، تو اس کے لیے آسان اور فوری راستہ جہالت کا ہے۔ اسی لیے انھوں نے ایسی خواہش رکھنے والوں کو مشورہ دیا ہے کہ علم و فقہ کی طرف آنے کے بجائے ان کے لیے بہتر ہے کہ فوج میں بھرتی ہو جائیں۔
مختصر اً کتاب کے اس تعارف میں بعض اہم شعبوں یا طبقوں کا ذکر ہی کیا گیا ہے۔ ورنہ صاحب کتاب نے شاید ہی کوئی ایسا شعبہ یا انسانوں کا کوئی طبقہ ایسا چھوڑا ہو جس کا ذکر نہ کر دیا ہو۔ اس اعتبار سے یہ ایک عظیم اور انتہائی مفید کتاب ہے، جس کا مطالعہ اور اس پر عمل آج بھی عام انسانوں، اہل اقتدار، عام کاروباریوں اور علماء و غیر علماء سب پر خیر کے راستے کھول سکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2020