اس ہفتے، ڈیموکریٹک سوشلسٹ زہران ممدانی نے نیویارک شہر کے پہلے مسلمان میئر بن کر تاریخ رقم کر دی۔ ان کی جیت کا راستہ آسان نہیں تھا۔ میئر پرائمری میں تاریخی جیت حاصل کرنے کے بعد، انھیں سیاسی میدان میں تابڑ توڑ حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد کے مہینوں میں، دائیں بازو کی اشتعال انگیزیوں، سوشل میڈیا شخصیات اور یہاں تک کہ ان کے تینوں مخالفین کی نفرت انگیز بیان بازیاں یکایک تیز ہو گئیں۔
ریپبلکن امیدوار کرٹس سلیوا نے دعویٰ کیا کہ ممدانی ”المی جہاد“کی حمایت کرتا ہے، آزاد امیدوار اور نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کومو نے اس تبصرے سے اتفاق کیا کہ ممدانی ”ایک اور 9/11″ کا جشن منائیں گے؛ اور سبکدوش ہونے والے نیویارک کے میئر، ایرک ایڈمز نے، جنہوں نے الیکشن سے دست بردار ہوکر کوومو کی حمایت کی، کہا کہ ممدانی کی میئر شپ نیویارک کو یورپ میں تبدیل کردے گی، جہاں “اسلامی انتہا پسند … کمیونٹیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔“
افسوس کہ مسلم مخالف تعصب پر تحقیق کرنے والوں کی حیثیت سےاور ان مسلمان افراد کی حیثیت سے جو نائن الیون کے بعد کے امریکہ میں پلے بڑھے، ہم جانتے ہیں کہ اس نوعیت کے حملے، کسی کے کردار پر یا ان کے مذہبی پس منظر یا قومی اصل کی بنا پر کسی عہدے کے موزوں ہونے کے سلسلے میں، پوری طرح غیر متوقع نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلامو فوبیا کسی پرتشدد کارروائی کے بعد نہیں بلکہ انتخابی مہموں اور سیاسی واقعات کے دوران پنپتا ہے، جب مسلم مخالف بیان بازی کو کسی مخصوص امیدوار یا پالیسی کی حمایت پانے کے لیے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ حملے اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بھی عکاسی کرتے ہیں، جسے ہماری تحقیق نے حال ہی میں بے نقاب کیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ (ISPU) کے امریکن مسلم پول کا تازہ ترین ایڈیشن، جس میں ہمارا اسلاموفوبیا اشاریہ شامل ہے، 21 اکتوبر کو جاری کیا گیا۔ یہ دکھاتا ہے کہ گذشتہ تین برسوں میں امریکہ کے تقریباً تمام ہی آبادیاتی گروہوں میں اسلاموفوبیا میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ کی عام آبادی میں، ہمارے 1 سے 100 کے پیمانے پر، اشاریہ 2022 میں 25 سے بڑھ کر 2025 میں 33 ہو گیا۔ یہ اضافہ سب سے زیادہ سفید فام ایونجیلیکل (Evangelicals) میں نمایاں ہوا، جن کا اسکور 2022 سے 2025 کے درمیان 30 سے بڑھ کر 45 ہو گیا، اور کیتھولک میں، جن کا اسکور اسی عرصے میں 28 سے بڑھ کر 40 ہو گیا۔ پروٹسٹنٹ میں بھی 7 پوائنٹ کا اضافہ ہوا، جو 2022 میں 23 سے 2025 میں 30 ہو گیا۔ یہودیوں کا اسلاموفوبیا اسکور 2022 میں 17 تھا، جو اس سال کسی بھی گروپ میں سب سے کم رہا، اور 2025 میں صرف تھوڑا سا بڑھ کر 19 ہو گیا، جو 2025 میں مسلمانوں کےاسکور کے برابر ہے۔ واحد گروپ جو 2022 کے بعد تبدیل نہیں ہوا وہ غیر وابستہ ہے۔
بلاشبہ ہائی پروفائل افراد کی جانب سے اسلاموفوبیا کو ہتھیار بنانا اس تشویش ناک رجحان کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اور یہ مسلمانوں کے لیے حوصلہ شکن اور تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے، جیسے ملازمت سے محرومی اور عبادت کرنے کی آازادی سے محرومی، مسلم بچوں کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں مذہبی بنیاد پر بدسلوکی اور عوامی مقامات پر امتیازی رویہ، حتیٰ کہ جسمانی تشدد بھی۔ سادہ الفاظ میں خطرناک بیان بازیوں کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔
اس اسلاموفوبیائی بیانیے کا بڑا حصہ مسلمانوں کے بارے میں پانچ عام دقیانوسی تصورات پر مبنی ہے، جنھیں ہم نے اپنےاشاریے میں استعمال کیا ہے: ’’وہ تشدد کی حمایت کرتے ہیں، خواتین کے ساتھ امتیاز برتتے ہیں، امریکہ کے خلاف ہیں، کم مہذب ہیں، اور مسلمانوں کے ذریعے دیگر جگہوں پر کیے گئے تشدد کے واقعات میں شریک ہیں۔‘‘ پھر ہم نے ایک قومی نمائندہ نمونے کا سروے کیا، جس میں 2,486 امریکی شامل تھے، تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ ان کلیشوں پر کس حد تک یقین رکھتے ہیں۔
مسلمانوں کے بارے میں ان اسٹیریوٹائپ تصورات کو قبول کرنے والے امریکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، حالاں کہ انھیں آسانی سے غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر، اگرچہ مقبول میڈیا میں مسلمانوں کو زیادہ تشدد کا شکار یا دنیا کے دیگر حصوں میں مسلمانوں کے تشدد میں شریک قرار دیا جاتا ہے، آئی ایس پی یو کی تحقیق سےمعلوم ہوتا ہے کہ امریکی مسلمان تشدد کی بے پناہ مخالفت کرتے ہیں۔ وہ عام عوام کے مقابلے میں فوج کی جانب سے شہریوں کے خلاف کیے گئے تشدد کو مسترد کرنے کے زیادہ امکانات رکھتے ہیں اور اتنا ہی عام شہریوں کو نشانہ بنانے والے انفرادی عناصر کو بھی مسترد کرتے ہیں۔
اس مشہور اسٹیریو ٹائپ کہ ’’مسلم برادریاں اپنی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتی ہیں‘‘، میں بھی کوئی جان نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم خواتین کو صنفی امتیازی سلوک کے مقابلے میں زیادہ نسلی اور مذہبی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جسے امریکہ میں تمام خواتین، خواہ وہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں، برابر کی سطح پر رپورٹ کرتی ہیں۔ حجاب پہننے والی مسلم خواتین کی اکثریت (99 فی صد) کا کہنا ہے کہ وہ حجاب کو ذاتی عقیدت اور پسند کی وجہ سےاپناتی ہیں نہ کہ جبر سے۔ مسلم خواتین بتاتی ہیں کہ ان کا مذہب ان کے لیے فخر اورمسرت کا ذریعہ ہے۔
ہماری تحقیق اس دعوے کو بھی غلط ثابت کرتی ہے کہ امریکہ میں رہنے والے زیادہ تر مسلمان ملک دشمن ہیں۔ ہم نے پایا ہے کہ مضبوط مذہبی شناخت رکھنے والے مسلمان کم زور عقیدے کے حامل افراد کے مقابلے میں بہتر امریکی شناخت رکھنے کا امکان زیادہ رکھتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان مقامی سطح سے لے کر قومی سطح تک عوامی زندگی میں شہری مشغولیت (civic engagement) کے ذریعے حصہ لیتے ہیں، معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ہم سایوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، اور کوویڈ 19 کی وبا اور فلنٹ واٹر کرائسس جیسے قومی بحرانوں کے دوران اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
اس دعوے کہ امریکہ میں رہنے والے زیادہ تر مسلمان دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ’کم مہذب‘ ہیں، کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ’مہذب / غیر مہذب‘ کی ثنویت کا استعمال افراد کو ان کے انسانی وقار سے محروم کرتا ہے اور لوگوں کو نسل یا مذہب کی بنیاد پر ایک جھوٹی، نسلی درجہ بندی میں بانٹتا ہے۔ کسی گروہ پر دوسرے گروہ کے مقابلے میں کم مہذب ہونے کا الزام لگانا اکثر استعمال کیا جانے والا غیر انسانی حربہ ہے۔ جینوسائڈ واچ کے ذریعے ’ ڈی ہیومینائزیشن‘ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ جب ایک گروہ دوسرے گروہ کی انسانیت سے انکار کرتا ہے، تو یہ قدم نسل کشی کی راہ پر ہے۔
ہم نے گذشتہ چند ہفتوں میں ممدانی پر اسلامو فوبیا کی یلغار کے لیے ان تمام چالوں کوکارفرما ہوتے دیکھا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہمارے بہت سے سیاست دانوں اور عوامی شخصیات نے اپنی عوامی تقریروں میں ان کابے روک ٹوک استعمال کیا، جس سے پوری مذہبی برادری کو نقصان پہنچا۔ جیسا کہ ممدانی نے اپنے ساتھی امیدواروں کے ذریعے اسلامو فوبیائی حملوں کا جواب دیتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں کہا، ’’دوپارٹیوں [ڈیموکریٹ اور ری پبلکن] کی مسلسل قربتوں کے دور میں، ایسا لگتا ہے کہ اسلاموفوبیا اتفاق کے چند میدانوں میں سے ایک کے طور پر ابھرا ہے۔‘‘
لیکن اسلامو فوبیا صرف مسلمانوں کے لیے ہی برا نہیں ہے، بلکہ یہ جمہوریت اور آئینی آزادیوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ تحقیق نے اِن مسلم مخالف دعووں پر یقین کے سر رشتے جمہوریت مخالف پالیسیوں کے لیے زیادہ گنجائش میں پائے ہیں۔ جو لوگ اسلاموفوبیا کو قبول کرتے ہیں جب ملک خطرے میں ہوتا ہے تو وہی جمہوری آزادیوں کو محدود کرنے (چیک اینڈ بیلنس کو معطل کرنا، پریس کی آزادی کو محدود کرنا)، شہریوں پر فوجی اور انفرادی حملوں کوروا رکھنے (جنیوا کنونشن کے تحت جنگی جرائم) اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی امتیازی پالیسیوں کی منظوری دینے (مسلمانوں پر پابندی، مساجد کی نگرانی کرنا، اور یہاں تک کہ ووٹ ڈالنے کی صلاحیت کو محدود کرنا) پر آمادہ ہوتے ہیں۔
سیاسی تقریر میں اسلاموفوبیائی فریب جیتنے کی کارآمد حکمت عملی تو ہو سکتے ہیں، لیکن جن برادریوں میں انھیں استعمال کیا جاتا ہے، وہ ہارجاتی ہیں۔ اسی لیے ضروری ہے کہ اس طرح کی چالوں کو چیلنج کیاجائے۔ نفرت کا مقابلہ کرنے اور اس کی مذمت کرنے کا مطلب جمہوریت اور انسانی وقار کا تحفظ ہے۔ شاید ممدانی کا انتخاب اس سیاسی حکمت عملی سے ہٹ جانے کا اشارہ دے۔ جیسا کہ منتخب میئر نے اپنی جیت کی تقریر میں کہا تھا، ’’اب نیویارک ایسا شہر نہیں رہے گا جہاں آپ اسلاموفوبیا کے حربے استعمال کریں اور انتخاب جیت جائیں۔‘‘ (بشکریہ الجزیرہ)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2025






