شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سیاست وحکومت کے حوالے سے اس کے ابتدائی اورارتقائی مراحل پرروشنی ڈالنےکے بجائے موجودہ حکومت کوکیسے ہونا چاہئے اس پر وہ زور دیتے ہیں البتہ انسانی اجتماعیت میں وہ انسانوں کو چار گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا گروہ ان لوگوں کوقرار دیتے ہیں جودوسروں پر غلبہ کے خواہاں ہوتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ یہ گروہ بادشاہوں اورروساء مفسرین کا ہے۔ اس گروہ کی نمائندہ مثال فرعون ہےجس نے حکومت وسیاست کے لئے خلق پر مظالم کی انتہا کردی۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جن کوکسی قسم کی فوقیت وبرتری، تو حاصل نہیں لیکن وہ فساد برپا کرنے کا منصوبہ بنائے رہتے ہیں اس گروہ میں چور اوردیگر جرائم پیشہ لوگ ہوتے ہیں۔ تیسرا گروہ ان لوگوںکا ہے جوعلواور برتری کے خواہاں ضرور ہوتے ہیں لیکن اس کے لئے و ہ فساد برپا کرنے کا قصد نہیں کرتے اس گروہ میں امام موصوف مذہبی رہ نماؤں کوشمار کرتے ہیں جودین کے ذریعہ برتری اورحکومت کے حصول کے متمنی ہیں۔ چوتھا گروہ ان لوگوں کا ہے جودوسروں سے افضل ہوتے ہوئے بھی زمین پر کسی قسم کی برتری کے خواہاں ہوتے ہیں نہ ہی فساد برپا کرنے کا قصد کرتے ہیں ۔ یہی گروہ خیر البریہ کے لقب سے ملقب ہے۔
امام موصوف دین اورسیاست دونوں کو لازم وملزوم قرار دیتےہیں ۔ ایک کےبغیر دوسرے کا تصور ہی ان کے نزدیک محال ہے۔ ان کی رائے کے مطابق سیاست کا مقصد ’ تقرب الی اللہ اوراقامت دین ہےاورجب لوگ تقرب الی اللہ کے قریب ہوتے ہیں اوراقامت دین ان کا مطلوب ومقصود بن جاتا ہے تو لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کیا جانے لگتا ہے جس کے باعث دین ودنیا کی فلاح وبہبود حاصل ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں:
’’ولایتِ وحکومت کا لازمی مقصد خلق خدا کی دین کی اصلاح ہے اگر لوگوں کا دین برباد ہوجائے تو یہ مہلک ہوگا اورمال کے اعتبار سے دنیاوی نعمتیں ان کوکچھ فائدہ نہ دے سکیں گی جن سے منعم حقیقی نے نوازا ہے‘‘۔ (السیاسۃ الشرعیۃ)
اسی ماخذ میں ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں:
’’اگر سلطنت دین سے محروم ہویا دین حکومت کی پشت پناہی سے عاری ہوتو لوگوں کے احوال فاسد ہوجاتے ہیں‘‘۔(حوالہ سابق)
امام موصوف اپنے زمانے کے خلفشار کی سب سے بڑی وجہ عمل حکومت کی حقیقت ایمان، کمال دین اوراحکام شریعت سے دوری کوقرار دیتے ہیںان کے نزدیک دین کی سیاست سے علاحدگی خواہ کسی صورت میں بھی ہو انسان کے لئے بے حد مضر ہے ان کی رائے ہے کہ جب کبھی بھی دین اور سیاست میں جدائی ہوتی ہے دوگروہ معرض وجود میں آجاتے ہیں ایک گروہ دین دار لوگوںکا ہوتا ہے لیکن ان کے پاس اقتدار ، مال اور قوت نہیں ہوتی جس سے وہ دین کی مدد کرسکے لہٰذا وہ دین کی تکمیل نہیں کرپاتے اوراس میں کمزوری اورانحراف آنے لگتا ہے ۔ دوسرا گرو ہ ان والیان حکومت کا ہے جن کے پاس اقتدار ، مال اور قوت ہوتی ہے مگران کا مقصد اقامتِ دین نہیں ہوتا۔ اس طور سے دین متروک ہوجاتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے مقدور بھر کوشش حصولِ ولدیت وقوت کے لئے بھی کرتے تا کہ دین قائم کرسکے اورحتی الامکان دین کا بول بالا ہواوراپنی ذاتی زندگی میں وہ دین پر عامل رہیں ۔ محرمات سے اجتناب کریں اور واجبات کی ادائیگی میں کوشاں ہوں۔
امام ابن تیمیہ کہتے ہیں امت کے صالحین ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جوحتی المقدور حصولِ ولایت کے لیے جدوجہد کریں اور ان کی نیت محض یہ ہوکہ جب ان کو ولایتِ حاصل ہوگی تو اس کواللہ اوراس کے رسول کے احکام کے مطابق ہی چلائیں گے ، ممکنہ حد تک دین کی اقامت کی کوشش کریںگے، مسلمانوںکے ہمدرد بہی خواںرہیں گے اورواجبات کوادا کریں گے اورمحرمات سے دور رہیں گے۔ (السیاسۃ الشرعیۃ )
امام موصوف اس کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ ایک امام ، امیر یا حاکم کی ضرورت انسانی معاشرہ کو کیوں ہے وہ لکھتے ہیں چوں کہ انسانوں کواپنی ضروریات کی تکمیل میںایک دوسرے سے سابقہ پڑتا ہے اوراجتماع کے بغیر انسان اپنی حاجتیں اورمصلحتیں پوری نہیں کرسکتا اس لیے ضروری ہے کہ اجتماع کوچلانے کے لیے کوئی حاکم اور آمروناہی ہو، اس کے بغیر نہ دین کا قیام ممکن ہے اورنہ دنیا کی فلاح حاصل ہوسکتی ہے، امام موصوف لکھتے ہیں:
’’ضروری ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ امور رعایا کا والی ونگراں ہونا واجبات دین میں سب سے بڑا واجب ہے ۔ بلکہ اس کے بغیر دین کا قیام ممکن ہے اورنہ دنیا کا ۔ چونکہ انسانوں کواپنی ضروریات میں ایک دوسرے سے سابقہ پڑتا ہے اوراجتماع کے بغیر بنی آدم اپنی حاجتیں اورمصلحتیں پوری نہیں کرسکتا اس لئے ضروری ہے کہ اجتماع کی حالت میں ان پر کوئی حاکم وآمر ہو‘‘۔(السیاسۃ الشرعیۃ : ص ۱۲۹)
انہوںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ارشاد سے استدلال کیا ہے کہ ’’جب تین لوگ سفر کررہے ہوں تو چاہئے کہ ان میں سے ایک کواپنا امیر بنالیں ‘‘ گویا جب کم سے کم اجتماع پر امارت قائم کرنا ضروری ہے توپوری امت کے لئے یہ کیوں ضروری نہیں ہوگا۔ امام موصوف امام کے انتخاب کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے جانشینی حضرت ابوبکرؓ کے طریقے نامزدگی اورحضرت عمرؓ کے طریقے مشاورت تینوں طریقوں کو وہ موزوںاور برمحل قرار دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اصل مسئلہ امام کے منتخب ہونے کے طریقہ کار نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ منتخب امام کا قرآن وسنت کے زریں اصول پر کار فرما رہ کر رعایا کے دین ودنیا کی اصلاح ہے اگروہ اس پر کار بند ہے تو ٹھیک اوراگر اس کے برعکس ہے تو اس کووہ امت کے لیے ایک مصیبت قرار دیتے ہیں:
’’حضرت عمرؓ امام وقت ہیں ان پر واجب تھا کہ مسلمانوں میں سب سے اہل شخص کو اپنا جانشین بنا یا جائے ۔ چنانچہ انہوں نے انتہائی غور وخوض (اجتہاد) کیا اور چھ لوگوں کودوسرے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اہل سمجھا ۔ چنانچہ کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان چھ لوگوں کے علاوہ دوسرے لوگ ان سے زیادہ اہل ہیں۔ آپ نے فرد واحد کومتعین کرنا انہی چھ لوگوں پر چھوڑدیا تا کہ ان میں جوزیادہ اہل ہے ان کا انتخاب ہوسکے۔ آپ کا رجحان چھ لوگوں کی نامزدگی پر غالب ہوا بجائے ان میں سے کسی ایک کے نامزد کرنے پر ۔آپ نے فرمایا کہ یہ چھ لوگ خود مناسب فرد کومنتخب کرلیں گے‘‘۔
’’یہ حضرت عمرؓ کا بہترین اجتہاد ملے جو حاکم عالم ،منصف اورامت کے خیر خواہ کی حیثیت سے انہوں نے کیا جس میں ان کی کوئی ذاتی خواہش پنہاں نہیں تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ ان کے درمیان مشاورت سے معاملات طے ہوتے ہیں‘‘۔(الشوریٰ: ۳۸) یا جیسا کہ فرمایا :’’ معاملات میں مشورے کرلیا کرو‘‘۔
امام موصوف خلافت کونسلی اور نسبی طور پر نہ ہونے کواسلام کی ایک امتیازی خصوصیت قرار دیتے ہیں کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کو آپ کے خاندان اور آپ کے نسب میں محدود کردیا جاتا تو یہ چیز نبوت ورسالت میں طعن کی وجہ بنتی اور کہنے والے کہتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نسب وخاندان کے لوگوں کو حکومت واقتدار دینے کے لیے نبوت ورسالت کا دعویٰ کیا تھا چنانچہ امام موصوف نے خانوادۂ رسول کے لیے زکوٰۃ حلال نہ ہونے کی یہی وجہ بیان کی ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اورآپؐ کے خاندان کے لئے زکوٰۃ حلا ل ہوتی تو کہنے والے یہ کہہ سکتے تھے کہ آپ نے اپنے خاندان اورنسب والوں کومال ودولت دینے کی غرض سے نبوت ورسالت کا دعویٰ کیا تھا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اورآپ کی اولاد کے لیے زکوٰۃ کوحرام قرار دیا ہے امام موصوف لکھتےہیں:
’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے بعد حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کو خلافت سونپنا آپؐ کے کمال میں سے ہے کیوںکہ اگرآپؐ اپنے خاندان یا اہل بیت میں سے کس کو نامزد فرماتے تو یہ شبہ ہوتا کہ آپؐ ایک بادشاہ تھے جیسا کہ اگر آپؐ نے مال کے وارث آپؐ کے خاندان کے لوگ ہوتے تو یہ بھی شبہ ہوتا کہ آپؐ نے ایسے وارثین کومالدار بنانے کی غرض سے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔ چنانچہ آپؐ نے اپنے اہلِ بیت میں کسی کواپنا خلیفہ متعین نہیں کیا کہ آپؐ کی ذات مال وریاست (اقتدار )کے قلب سے دور تھی اگر چہ ایسا کرنا آپؐ کے لئے جائز تھا ۔ چنانچہ آپ ؐ بادشاہ نبی نہیں تھے بلکہ رسول اور محض بندے تھے جیسا کہ ایک حدیث میں ارشاد ہے ۔آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا اختیار دیا تھا کہ میں بندہ رسول رسول یا بادشاہ رسول رہوں۔ میں نے بندہ اور رسول رہنا پسند کیا‘‘۔
(منہاج السنۃ النبویۃ:ج۷/ص ۴۶۸۔۴۶۷)
امام موصوف مزید وضاحت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا جانشین کے لئے حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کومنتخب فرمایا کمال نبوت میں سے ہے۔ موصوف رقم طرازہیں:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کا خلیفہ ہونا آپ ؐ کے کمال نبوت ورسالت میں سے ہے کیوںکہ اس سےثابت ہوتا ہے کہ آپؐ رسول برحق تھے بادشاہوں میں سے کوئی بادشاہ نہیں تھے کیوںکہ بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے بعدوہ اپنے اقارب کوبادشاہت سونپتے ہیں اس کی کئی و جوہ ہیں۔ اقارب سے محبت کی وجہ سے جوکہ دوسرے لوگوں سے وہ محبت نہیں ہوتی۔ آدمی کے اقارب اس کی بادشاہت کوقائم رکھنے میں معاون ہوتے ہیںجوکہ دوسرے لوگ نہیں ہوسکتے، آدمی کے اقارب کی عزت اوراقتدار کووہ اپنی عزت واقتدار سمجھتا ہے ۔ پس جس شخص کے اقارب اس کی جانشینی کے قابل نہیں ہوتے وہ اپنے غلاموں اور قریبی دوستوں کوقریبی بنالیتے ہیں اوران کو بادشاہت سپرد کردیتے ہیں ۔ یہ چیز مسلمان حکمرانوں اورکافر بادشاہوں کے درمیان مشترک ہے‘‘۔(منہاج السنۃ ،ج:۷/۴۶۶)
امام موصوف حاکم وقت کے فرائض کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں ان کےنزدیک اس کا سب سے بڑا فرض اس امانت کی نگہداشت ہے جو بطور حکومت اس کے سپرد ہوئی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ولایت اورحکومت اللہ تعالیٰ کی امانت ہے جس کا ادا کرنا اس کے موقع ومحل میں واجب ہے وہ لکھتےہیں:
’’حکومت ایک امانت ہے جس کو اس کے مواقع ومحل پر ادا کرنا واجب ہے‘‘۔ (السیاسۃ الشرعیۃ :۱۰)
امام موصوف نے امانات کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے ایک امانت فی الولایت دوسری امانت فی الاموال وہ دونوں قسموں کےامانتوں کوان کے مستحقین اوران کی اہلیت رکھنے والے ہی کو ادا کرنے کی حاکم وقت کی بنیادی ذمہ داری قرار دی ہے ، چنانچہ امانت فی الولایۃکے سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ ہر طرح سرکاری منصب صرف اس کی اہلیت رکھنے والے ہی کو دیا جائے گا ۔ اس سلسلے میں کسی طرح کی قرابت ، تعصب یالالچ یا خوف کی بنیاد پر کسی کو کوئی عہدہ نہیں دیا جائے گا ۔چنانچہ امام موصوف نے السیاسۃ الشرعیۃ میں اس کی پوری تفصیل بیان کی ہے ، زیر نظر کتاب میںچوں کہ مذکورہ کتاب کا تجزیاتی مطالعہ الگ سے شامل ہے اس پر اس کی تفصیل یہاں پیش نہیں کی جاتی ۔
امام موصوف نے امانت کی دوسری قسم امانت فی الاموال قراردیا ، اس سلسلے میں اسلامی مملکت کے بیت المال کے جوذرائع آمدنی ہیں اس کی تفصیل اور اس کے مصارف کا بھی تفصیل سے محولہ بالا کتاب ذکر کیا ہے اس لیے اس کوبھی یہاں پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔امام موصوف حاکم وقت کے فرائض میں دوسرا اہم فریضہ قیام عدل کوقرار دیتے ہیں۔
فالمقصود أن یکون الدین کلہ للہ ، وأن یکون کلمۃ اللہ ہی العلیا، وکلمۃ اللہ: اسم جامع لکلما تم التی تضمنہا کتابہ، وھکذا قال اللہ تعالی:لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ
’’ مقصد یہ ہے کہ پورا دین اللہ کے لئے ہوجائے اوراللہ کا کلمہ بلند ہو اورکلمۃ اللہ ایک جامع لفظ ہے جس میں پورا قرآن اوراس کی تعلیمات شامل ہیں اس بات کواللہ نے قرآن میں فرمایا ہے :’’ ہم نے رسولوں کوواضح ہدایات کے ساتھ توبھیجا ہے اوران کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تا کہ لوگ عدل وانصاف پر قائم ہوں‘‘۔ (سورۃ الحدید :۲۵)
فالمقصود من ارسال الرسل، وانزال الکتب ، أن یقوم الناس بالقسط فی حقوق اللہ، وحقوق خلقہ، ثم قال تعالیٰ:وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَيْبِ(سورۃ الحدید :۲۵)
’’پس رسالت اورانزال کتب کا بنیادی مقصد حقوق اللہ اورحقوق العباد میں عدل وانصاف قائم کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :ہم نے لوہا نازل کیا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں۔ یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اوراس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے‘‘۔
’’بس جو جادۂ اعتدال سے ہٹے گا اسے لوہے کے ذریعے سیدھا کیا جائے گا۔ چنانچہ دین کا قوام قرآن مجید اورسیف(تلوار) ہے۔حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جودین سے ہٹے گا اسے ہم اس سے یعنی تلوار سے سیدھا کریں‘‘۔ (الرسالۃ الشرعیۃ:۲۳۔۲۲)
امام موصوف عادل حکومت کے لیے سیاست عادلہ کی اصطلا ح استعمال کرتے ہیں اوراس کے دو بنیادی اصول بتلاتے ہیں ایک یہ کہ مقدمات کا عدل وانصاف کے مطابق فیصلے کرنا ۔ دوسرا یہ کہ اہل حقوق کا حق ادا کرنا اسی کے ساتھ ہی امام موصوف رعایا کے ساتھ احسان وحسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کرتے ہیں بلکہ نرمی اور ملاطنت سے کام لینے کی بھی تلقین کرتے ہیں۔امام موصوف حاکم وقت کی تیسری اہم ذمہ داری امر بالمعروف ونہی عن المنکر کوقرار دیتے ہیں انہوںنے اس فریضہ سے غفلت کے بھیانک اورسنگین نتائج سے آگا ہ کیا ہے ۔ چنانچہ وہ کسی بھی مصلحت کے تحت حدود اللہ کی معطلی کوناجائز قرار دیتے ہیں۔
امام موصوف حاکم وقت کے لیے اخلاق وکردار میں دوسروں سے ممتاز ہونے کوبھی ضروری قرار دیتے ہیں بالخصوص تکلیف ومشکلات کے مواقعے پر صبر سے کام لینا ،غصہ پی جانا ، عفو ودر گذر کرنے کی صفت ، ہوا ہوس کی مخالفت اور کہروغرار سے اجتناب کوضروری قراردیا ہے ، وہ حاکم وقت کے لیے جرأت وسخاوت کوضرو ری قراردیتے ہیں اور بخل کو تباہ کن بتاتے ہیں۔ امام موصوف مملکت کے مختلف شعبوں کے سربراہان کے لیے الگ الگ صفات بیان کرتے ہیں چنانچہ اعمال حکومت لشکر کے سپہ سالا ر ، عدالتوں کے قضاہ ، مالیات کے ذمہ داران شعبوں اور پیشوںکے لیے لازمی صفات واوصاف کوضروری قرار دیتے ہیں ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیںکہ سربراہ مملکت کو اپنے اعما ل میں متضاد ومتفاوت صفات کاحامل ہونا چاہئے وہ لکھتے ہیں:’’چنانچہ جب حضرت ابوبکرؓ وعمر ؓ خلیفہ ہوئے تو گویا یہ دونوں مل کر ولایت میں کامل ہوگئے اورعہد نبوی میں ان میں سے ایک کی طرف نرمی اور دوسرے کی طرف سختی کا انتساب ہوتا تھا ۔ اعتدا ل پر آگیا ۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ’’ میرے بعد ان دونوں کی اقتداء کرو‘‘۔ واقعۂ مردہ (مرتدین) کے مسئلے میں حضرت ابوبکرؓکی وہ شجاعت قلبی ظاہر ہوتی جو حضرت عمر سمیت دیگر صحابہؓ میں ظاہر نہیں ہوئی تھی‘‘۔
’’جب سرکاری منصب میں امانت داری کی زیادہ ضرور ت ہوتو امانت دار کو مقدم اُٹھایا جائے گا جیسے اموال کی حفاظت ، اس کے مصارف کی نگرانی وغیرہ کے لئے قوت وامانت کی ضرورت ہوئی ہے چنانچہ اس پرمضبوط اورقوی کویہ منصب عطا کیا جائے گا جواپنی قوت سے اس کوتصرف میں لائیں گے۔ اوراس کے لئے امانت دار کاتب کومقرر کیا جائے گا جواپنی باخبری اورامانت داری سے اس کی حفاظت کریں گے اسی طرح جنگ کے مناصب کواس کے اصل کے حوالےکیا جائے گاجب حاکم وقت اہلِ علم وارباب دین کے مشورے کی بنیاد پر ایسا کریں گے تو دونوں مصلحتیں (امانت اور قوت ) حاصل ہوجائیں گے ۔ یہی معاملہ تمام سرکاری مناصب کے لیے ہے ۔ اگر یہ مصلحتیں ایک شخص کے ذریعے حاصل نہ ہوں تو متعدد اشخاص سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور سب سے زیادہ اہل کو ترجیح دی جائے گی یا متعدد لوگوں کوذمہ دار یاں سونپیں جائیں گی اگر ایک شخص سےمقصد کی تکمیل نہ ہو‘‘۔(السیاسۃ الشرعیۃ:ص۱۷)
امام موصوف نے خلیفہ امیر الحاکم کے انتخاب کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ کہ اگر اہلِ شوکت ، اصحاب اثرورسوخ کی ایک متعد بہ تعداد خلفیہ کے ہاتھ پر بیعت کرے تو اس کی خلافت ؍امامت واقع ہوجائے گی امامت وخلافت کی اصل قدرت اور اقتدار ہے اگر یہ حاصل ہوجائے تو امامت واقع ہوجائے گی ۔ ملک کے ہر ہرفردکی بیعت ضروری نہیں ہے لکھتے ہیں:
’’اہل سنت والجماعت کے نزدیک اہل شوکت کی موافقت سےامامت ثابت ہوجاتی ہے اورآدمی اسی وقت امام ہوگا جب اہل شوکت موافقت کریں۔ جن کی اطاعت کا مقصد قدرت اوراقتدار ہے ۔ جب ایسی بیعت ہوجائے کہ جس سے قدرت اور اقتدار حاصل ہوتووہ امام ہوگااسی وجہ سے ائمہ سلف نے کہا ہے کہ جس کو قدرت واقتدار حاصل ہواور حکومت جس سے فائدہ اُٹھائے تووہ اولی الامر ہےجس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے جب تک کہ وہ معصیت کا حکم نہ دیں‘‘۔ ( محقق ایڈیشن منہاج السنۃ النبویۃ ج۱ص ۵۲۷)
امام موصوف لکھتے ہیں کہ امام /حاکم وہی ہے جس کی امامت واقع ہوئی نہ یہ کہ جوامامت کا مستحق ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ، امامِ نماز کی مثال دیتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ جس نے نماز پڑھائی وہی امام ہوا۔اس بات میں کہ ایک آدمی امامت کا زیادہ اہل تھا اور اس بات میں کہ عملاً دوسرے شخص نے نماز پڑھائی بڑا فرق حقیقت میں وہی امام ہوگا ۔ جس نے نماز پڑھائی ۔ اس طرح امامت کبریٰ یعنی حکومت کی باگ ڈور جس شخص کے ہاتھ میں ہے وہی حاکم ہوگا۔ (حوالہ سابق ص ۵۵۶)
امام موصوف اس کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ اہلِ سنت کے نزدیک فاسق وجاہل امام کی اطاعت کی جائے گی کہ نہیں کی جائے گی یاصرف ان چیزوں میں اطاعت کی جائے گی جوشریعت اورعدل وانصاف کے مطابق ہویا مطلق اطاعت نہیں کی جائے گی تو اس سلسلے میں اہل سنت کے تین اقوال ہیں ، محدثین اورفقہاء کے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ اس کی اطاعت اللہ کی اطاعت میں کی جائے گی اورعدل وانصاف کے معاملے میں اس کے احکام کونافذ کیا جائے گا ، چنانچہ اس وجہ سے ائمہ اہل جور یعنی (ظالم حکمرانوں) کے خلاف وخروج کواہل سنت نے جائز نہیں قرار دیاہے اس لیے کہ ایسی شکل میں اس سے کہیں زیادہ فساد رونما ہوگا جوظالم حکمرانوں کے ظلم کی وجہ سے رونما ہوتا ہے ، چنانچہ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث سے استدلال کرتے ہوئے جمہور اہل سنت کا موقف بیان کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’اہلِ سنت کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وہ حکمرانِ وقت کے خلاف خروج اورقتال کوجائز نہیں سمجھتے اگرچہ وہ ظالم ہی کیوںنہ ہوں۔ جیسا کہ صحیح احادیث اس پر دلیل ہیں کیوںکہ ان کے خلاف قتال اورفتنہ سے زیادہ فساد رونما ہوگاجتنا فساد کہ حکمرانوں کے ظلم سے رونما ہوا ہے ۔ ادنیٰ فساد پرتوجہ کرکے بڑے فساد کو چھوڑا نہیں جاسکتا۔ چنانچہ یہ بات تاریخ سے معلوم ہے کہ جب بھی کسی گروہ نے کسی حکمراں کے خلاف خروج کیا تو اس سے زیادہ فساد رونما ہوااس کے مقابلے میں کہ جس فساد کو زائل کرنے کے لئے خروج کیا گیا تھا‘‘۔(منہاج السنۃ :ج۳؍ص ۳۹۱)
خلیفہ کا مفہوم
امام موصوف نے خلیفہ کے سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خلیفہ وہ ہے جواپنے پہلے کی جانشینی کرے چاہے پہلےکی عدم موجودگی کی وجہ سے یااس کی موت کی وجہ سے جیسا کہ حضر ت ابوبکرؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدآپ ؐکی جانشینی کی اور حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکرؓکی وفات کے بعد ان کی جانشینی کی علی ہذا القیاس یکے بعد دیگر ے حکومت کےباگ ڈور کے سنبھالنے والے کو خلیفہ کہا جاتا ہے ۔ اس طور سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’علیکم بسنتی وسنۃ خلفاء الراشدین المہدیین من بعدی (ابوداؤد ، کتاب العلم:باب الأخذ بالسنۃ) سنن ابن ماجہ المقدمۃ باب فی اتباع سنۃ خلفاء الراشدین’’اس مفہوم میں حاکم وقت کو خلیفہ کہنا جائز ہے کہ وہ اپنے سے پہلے حاکم کی جانشینی کرتا ہے لیکن خلیفہ کو اس مفہوم میں لینا جیسا کہ بعضـ وحدۃ الوجودی صوفیا ء نے لیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جانشینی میں جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ خلافت اصل کی عدم موجودگی یا اس کی موت کے بعدہی ہوسکتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ حیّ قیوم ہے مدبر الامر ہے موت ،نیند اورغیوبیت سے منزہ اوربروقت اورہر جگہ حاضر وناظر ہے اس لیے اس مفہوم میں خلیفہ کوخلیفۃ اللہ کہنا درست نہیں ہے، امام ابن تیمیہ کا موقف یہی ہے ۔ (منہاج السنۃ النبویۃ: ج، ۷ ص:۳۵۲، ج ۵، ص ۵۲۳)
’’او ر خلیفہ (جانشینی) اس وقت ہوسکتا ہے جب اصل (خلیفہ بنانے والا )نہ ہو۔ چاہے موت کی وجہ سے یاعدم موجودگی کی وجہ سے چنانچہ نبی کریم ؐ جب مدینے میں حاضر ہوئے تووہاں آپؐ کا کوئی جانشینی (خلیفہ) نہیں ہوتا،اسی طرح آپؐ سفر سے واپس تشریف لے آئے تو اس کی خلافت (جانشینی) ختم ہوجاتی جس کوآپ نے اپنا جانشین بنایا تھا ۔ اس طرح جملہ حکمرانوں کا معاملہ ہے جب وہ اپنی غیر حاضری میں کسی کواپنا جانشین بنائیں تو ان کی واپسی کے بعد ان کی جانشینی ختم ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس کواپنا جانشین بنایا ہے کیوںکہ وہ زندہ جاوید حاضر وموجودہے۔ اپنے بندوں کے معاملات کا مدبر ہے موت ،نیند اورغیوبیت سے پاک ہے ۔ چنانچہ جب لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اے اللہ کا خلیفہ ! توآپ نے فرمایا میں اللہ کا خلیفہ نہیںہوں بلکہ اللہ کے رسول کا خلیفہ ہوں اوریہی میرے لئے کافی ہے‘‘۔(منہاج السنۃ :ج،۷/ص :۳۵۲)
امام موصوف نے حاکم وقت کے لیے مشاورت کوبھی ضروری قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تھی اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کواپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کا حکم دیا چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ(آل عمران :۱۵۹)
حدیث میں وارد ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے جتنا مشورہ کرتے تھے کسی کو اتنا مشورہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ’’ چنانچہ آپ نے مختلف اہم اورنازک اورپیچیدہ مسائل میں صحابہ کرامؓ سے نہ صرف مشورے کئے بلکہ ان مشوروں پر عمل بھی کیا ۔چنانچہ بعض غزوات میں میدان جنگ کے انتخاب ، جنگی حکمت عملی کے تعین ،جنگ میں پکڑے گئے قیدیوںکے تعلق سے ، اوراس طرح کے بعض دیگر امور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے مشوروں پرعمل کیا ‘‘ ۔ (السیاسۃ الشرعیۃ : ص ۱۲۶) (منہاج السنۃ النبویۃ : ج ۶/ص : ۱۲۷۔۱۲۸)
امام موصوف نے حاکم وقت کے لیے اجتہاد کوبھی ایک ضروری صفت قرار دیا ہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیںکہ حاکم وقت ان مسائل میں جن کے بارے میں قرآن وحدیث میں نص موجود ہے ، علماء فقہا ء نے جن میں اجماع یا اجتہاد نہیں کیا ہے ۔ ان میں حتی الامکان اجتہاد کرنے کو ضروری قرار دیا ہے۔ جیسا کہ شریعت کے مختلف مسائل میں اگروہ واضح نہ ہوں تو ان میں علماء وفقہاء کو اجتہاد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی حکومت کے معاملات میںحاکم وقت کو اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے۔امام موصوف نے صحابۂ کرام کی مختلف اجتہاد ات کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کیا ہے مجتہد جب اجتہاد کرے گا تو دو دوحال سے خالی نہیں ہوگا یاتو اس کا اجتہاد صحیح ہوگا یا پھر اس کا اجتہاد غلط ہوگا ، اگراس نے حسن نیت کے ساتھ اجتہاد کیا ہے اگرچہ وہ غلط ہے تب بھی وہ عنداللہ ماجور ہوگااوراگروہ صحیح ہے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے ، امام موصوف رقمطراز ہیں :
’’ایسے ہی جملہ مجتہد صحابۂ کرامؓ کا معاملہ ہے ۔ انہوںنے اجتہاد کیا اوراس کے مطابق فتویٰ جاری کیا اورفیصلے کیے حالانکہ بعض اوقات سنت اس کے برخلاف تھی کیونکہ وہ ان کو معلوم نہیں تھی تواس کے باوجود وہ عنداللہ ماجور ہوںگےکیوںکہ انہوںنے حسب استطاعت اپنے اجتہاد میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اورجنہوںنے اجتہاد کیا اور صحیح اجتہاد کیا ان کے لیے دوہرا اجر ہے‘‘۔ (منہاج السنۃ النبویۃ :ج ۶/ص ۲۷)
امام موصوف لکھتے ہیں:
’’ اگرلوگوں پرقبلہ کی سمت مشتبہ ہوجائے تو اس پر اجتہاد کریںگے اورقرائن (دلائل) کے ذریعہ اس کو معلوم کرنے کی کوشش کریںگے اگر اس کے باوجود واضح نہ ہوسکے تو جس سمت چاہیںگے نماز ادا کرلیں گے ۔ جیسا کہ مروی ہے کہ عہد نبوی میں ایسا کیا گیا تھا۔ یہی معاملہ جہاد اورتمام سرکاری مناصب اور سارے دینی امور کا ہےاوریہی بات آیت میں کہی گئی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کرو جتنی کہ طاقت ہو‘‘۔ (التغابن: ۱۶) (السیاسۃ الشرعیۃ: ۱۲۸)
امام موصوف خلفاء راشدین کے مختلف اجتہاد کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں:
’’ اسی طرح حاکمِ وقت کا اجتہاد ہےاس چیز کے بارے میں کہ وہ کس کوکیا منصب عطا کرتا ہے ۔ اس پر واجب ہے کہ سب سے مناسب اوراہل کو منصب عطا کرے۔ مگر اس کے باوجود اجتہاد میں اختلاف ہوسکتا ہے اوراپنے اپنے طورپر سبھی حق اورصواب پرہوسکتے ہیں جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت خالد بن الولید کوجنگ کے سپہ سالار بنائے رکھنے کی رائے رکھتے تھے جب کہ حضرت عمرؓ ان کو اس منصب سے برطرف کردینے کا اشارہ کرتے رہتے تھے لیکن حضرت ابوبکرؓ نے ان کوبر طرف نہیں کیا وہ کہا کرتے تھے کہ حضرت خالد اللہ کی تلوار ہیں جس کو مشرکین کے خلاف اس نے سونت رکھا ہے پھر جب حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے توحضرت خالد کو برطر ف کردیا اور ابوعبیدہ بن الجراح کوسپہ سالار بنایا بہرحال دونوںنے جوکیا وہ اپنےاپنے وقت میں مناسب تر تھا۔ کیوںکہ حضرت ابوبکرؓ کے اندر نرمی تھی اورحضرت عمرؓ کے اندرسختی تھی عہد نبوی ؐ میںحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں اصحاب سے مشورے کرتے رہتے تھے‘‘۔ (منہاج السنۃ النبویۃ :ج ۶/ص ۲۹)
امام موصوف اطاعت اولی الامر کےحوالے سے لکھتے ہیں کہ حاکمِ وقت کی انہیں امورمیں اطاعت کی جائے گی جوشریعت کے مطابق ہوںگے اورجو شریعت کے مطابق نہ ہوں ان میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی ۔اگرچہ بذات خود وہ عادل ومنصف ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح کسی فاسق وفاجر حاکم وقت کی ان امور کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی جوشریعت کے مطابق ہوں چاہے وہ بذات خود فاسق کیوں نہ ہوں۔
’’یہ لوگ حاکمِ وقت کی مطلق اطاعت کوواجب قرار نہیں دیتے بلکہ ان امور میں اطاعت کوواجب قرار دیتے ہیں جو شریعت کے مطابق ہیں ، چنانچہ اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی چاہے وہ بذات خود عادل کیوںنہ ہوں اگروہ اللہ کی اطاعت کے امور میں کوئی حکم دیتا ہے تو اس کی اطاعت کی جائے گی جیسے نماز کوئی سچائی ، عدل، حج اور جہاد وغیرہ یہ سارے معاملات ۔ اولاً اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے میں آتےہیںاورکافرفاسق حاکم جب شریعت کے مطابق حکم دیںتو ان کی نافرمانی نہیں کی جائے اوراس کے فسق کی وجہ سے شریعت کے امور کی اطاعت ساقط نہیں ہوسکتی جیسے کہ اگروہ سچ کہے تو اس کی تکذیب نہیں کی جائے گی اور حق کے اتباع کا وجوب فاسق قائل کی وجہ سے ساقط نہیں ہوگا ۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ اہل سنت حکمرانوں کی مطلق اطاعت کودرست نہیں سمجھتے بلکہ وہ اطاعت رسول (تشریعت) کے تابع قرار دیتے ہیں‘‘۔(منہاج السنۃ النبویۃ:ج ۳/ص : ۳۸۷)
مشمولہ: شمارہ جون 2018