’’مومن کا ہر معاملہ بہت خوب ہوتا ہے، اگر برائی پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اچھی چیز ملتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے اور یہ بھی اس کے حق میں اچھا ہوتا ہے۔‘‘ اس حدیث پاک میں سب کے لیے روشنی ہے، تاہم والدین کے لیے تو بہت زیادہ روشنی ہے، کیوں کہ انھیں بیک وقت اچھی اور بری کیفیات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے میں صبر و شکر کا دامن ہاتھ میں رہے تو آخری نتیجہ بہت اچھا ہوتا ہے۔
رحمِ مادر میں بچےکی آہٹ سنتے ہی والدین کے دلوں میں آرزوئیں مچلنے لگتی ہیں۔نام کیا ہوگا؟ سے لےکر آنے والے مہمان کی ضرورت کی ہر چیز اکٹھی کرنا اور پیدائش سے قبل ہی نو مولود کے لیے سازگار ماحول تیار کردینا، والدین کی خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے، والدین ہر مرحلے پر اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بے تابی دکھاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچے کو ہر وہ چیز فراہم کردیں جو گرد و پیش کے دوسرے بچوں کے پاس ہے تاکہ ان کا بچہ کسی احساسِ محرومی سے دو چار نہ ہو۔ والدین کی ایک کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بچے کو ویسا ماحول اور وہ چیزیں مہیا کریں جن سے وہ اپنے بچپن میں محروم رہے۔ غرض یہ کہ والدین کے دل میں اپنے بچے کے لیے محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ لیکن اپنی بے غرض مشقتوں اور بے پناہ محنتوں کے باوجود اس وقت وہ دل چھوٹا کربیٹھتے ہیں، خود اپنے آپ سے خفا ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو ملامت کرنے لگتے ہیں، جب انھیں لگتا ہے کہ وہ بچوں کی صحیح پرورش میں کام یاب نہیں ہورہے ہیں۔ وہ خود کو قصور وار مان کر شرمندہ اور مایوس ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ بچوں کے ساتھ ان کے رشتے میں تناؤ سا آنے لگتا ہے اور والدین کے اپنے خواب جنھیں parenting goals کہتے ہیں ٹوٹنے بکھرنے لگتے ہیں۔ والدین کی اسی دلی کیفیت یا ڈپریشن کو parenting guilt (والدین کا احساسِ جرم)کہتے ہیں۔
آج کتنے والدین اس مایوسی یا ڈپریشن سے گزر رہے ہیں، یہ جاننے کے لیے آپ اپنے طور پر ایک چھوٹا سا سروے کرسکتے ہیں۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کم از کم دس میں سے چھ والدین اپنے دل کے کسی کونے میں اس احساسِ جرم کو پال رہے ہیں۔ اس عنوان پر گفتگو اس لیے ضروری ہے کہ اس احساسِ جرم کو نظر انداز کرتے رہنے سے یا اس سے لاعلمی اور لاپروای برتنے سے اس کا علاج نہیں ہوتا بلکہ اس احساس کے بڑھنے کے ساتھ مزاج اور رویے کی پیچیدگی بڑھتی جاتی ہے اور والدین کے باہمی تعلقات نیز ان کے بچوں کے ساتھ تعلقات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
سب سے پہلےیہ جانناضروری ہے کہ والدین کب اور کیوں اس طرح کے احساسِ جرم کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے دو طرح کے عوامل ہیں، بیرونی عوامل اور اندرونی عوامل۔ ہم ان پر الگ الگ گفتگو کریں گے۔
بیرونی عوامل
گرد و پیش میں بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر والدین کا احتساب کرتے ہیں اور اہانت آمیز طریقے سے انھیں نصیحتیں کرتے ہیں۔ یہ خاندان اور پاس پڑوس کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں اور دوسرے ملنے جلنے والے بھی۔ یہ اپنے بے رحم تبصروں سے والدین کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور انھیں بار بار یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ بچے کی پرورش کے لیے نا اہل ہیں اور ناکامی کے راستے پر چل رہے ہیں۔ نیک دل افراد سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے والدین کی ہمت بڑھاتے، مدد کرتے اور ان کے کام کو آسان بناتے ہیں۔ جب کہ سماج کےیہ فضول افراد اپنے آپ کو قابل و کامل سمجھتے ہیں اور دوسرے والدین کے اندکیڑے نکالتے ہیں اور طنزیہ قصے کہانیوں کا انھیں نشانہ بناتے ہیں۔
ہر علاقے،سماج اور خاندان کا تربیت کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر والدین کا بھی اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے جو ان کی عمر، مصروفیات اور صحت پر منحصر ہوتا ہے۔ ہر بچہ اپنے لیے جداگانہ پرورش کتے تقاضے لے کر آتا ہے۔ والدین جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتے اس لیے انھیں اصلاح کا اور سیکھنے کا پورا حق ملنا چاہیے۔
بیرونی عوامل میں موسم، وبائی امراض، والدین کی مشغولیت اور منصوبہ بندی، سماج کی امیدیں، اسکولی و تعلیمی نظام وغیرہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔
اندرونی عوامل
ان عوامل کا براہ راست تعلق والدین کی ذات سے ہوتا ہے۔ والدین کے سوچنے کا طریقہ، مثبت و منفی خیالات، ان کی عادتیں، عمل اور رد عمل، ان کى اپنی ذات سے وابستہ کی ہوئی امیدیں، یہ سب اندرونی عوامل میں شامل ہیں۔
جو والدین اپنی چھوٹی بڑی غلطیوں کو شدید ناکامی کے زمرے میں ڈالتے ہیں، دوسرے والدین کے طریقہ کار سے مقابلہ آرائی کرتے ہیں، اپنے آپ کو کامل بنانے کے معاملے میں ذرا سی بھی چوک برداشت نہیں کرپاتے وہ اس احساسِ جرم اور پھر مایوسی میں آسانی سے مبتلا ہوجاتے ہیں۔
مندرجہ ذیل چند حالات یا رویے مثالوں کے روپ میں پیش ہیں جو اس موضوع کو سمجھنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔
نومولود بچوں کے رونے سے ان کی تمام ہی ضروریات اور تکلیفوں کا اندازہ لگانا کبھی کبھی مشکل ہوتا ہے اور والدین کی ساری کوششوں کے باوجود بچے کا رونا بند نہیں ہوتا اور وہ اس کے رونے کی اصل وجہ تک پہنچنے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تب والدین کو اپنی ناکامی پر شرمندگی ہوتی ہے۔ انھیں پرورش کے سفر کی ابتدا میں ہی یہ لگنے لگتا ہے کہ شاید وہ اچھے والدین نہیں بن سکتے۔
بڑھتے بچوں کی بڑھتی شرارتوں سے کبھی کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے اور والدین اسے اپنی لاپروای سمجھتے اور اپنے اوپر الزام لے لیتے ہیں۔
صحت و شفا تو رب کریم کی طرف سے ہے، لیکن کچھ والدین کا حال یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو ذرا سا زکام بھی ہوجائے تو اپنی ہی کوتاہی مانتے ہیں کہ ہم سے یہ غلطی ہوئی، جس کے نتیجے میں یہ ہوگیا۔ وہ اسے بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں۔
بچوں کو غصے میں مارنا، جسمانی سزا دینا، دوسروں کے سامنے انھیں ڈانٹ کر شرمندہ کرنا یا کسی بھی طریقے سے اپنی تھکن اور چڑچڑاپن بچوں پر اس طرح نکالنا کہ بچوں کو اذیت پہنچے۔ کچھ والدین کو یہ رویے فوری طور پر یا ایک عرصے کے بعد ہی سہی بہت بری طرح احساسِ جرم میں مبتلا کرتے ہے۔
ماہر نفسیات سبرینا رومانوف (نیو یارک) کہتی ہیں کہ ’’والدین کو اس وقت شرمندگی محسوس ہوتی ہے جب وہ بطور والدین اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ کسی اور کام میں بٹ جاتے ہیں۔ دوسرا کام کچھ بھی ہوسکتا ہے جیسے روزگار یا ذاتی مشغلہ جو والدین سے توجہ اور وقت لیتا ہے ۔‘‘ یہ ایک عام بات ہے کہ اکثر والدین بچوں کے ساتھ زیادہ وقت اور اچھا وقت نہیں بتا پانے کی وجہ سے پشیمان رہتے ہیں۔باپ کی روزگار کی مصروفیات اور ماں کے گھریلو کام جیسی وجوہات اب پرانی ہوئیں۔ اسٹیٹس کے لیے دونوں ہی والدین کا معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہنا، ٹی وی، ٹیب، موبائل فون جیسی چیزوں میں غیر ضروری وقت صرف کرنا، سوشل میڈیا پر غیر ضروری لوگوں کے ساتھ تعلقات کو بڑھاوا دینا، سوشل میڈیا پر فضول مباحثوں میں مشغول رہنا اور اپنی شہرت اور دکھاوے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہنا، غرض وقت کو ضائع کرنے کے لیے بہت سے جواز ہیں جو اس وقت کو کھاجاتے جس پر بچوں کا حق ہوتا ہے۔ مختلف مواقع پر اس کوتاہی کا احساس بری طرح ستاتا ہے۔
بعض والدین اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے بہت محنت کرتے ہیں مگر بیشتر مرتبہ ناکام ہوجاتے ہیں اور اس طرح احساسِ جرم ان کے دل میں پنپتا ہے۔
ایک نئی مصیبت یہ بھی ہے کہ شہروں میں رہنے والے بچوں کو malnutrition ہو رہا ہے یعنی بڑے بڑے شاپنگ مال اور بازار ان کی آنکھیں چکاچوند کردیتے ہیں۔ان بازاروں نے بچوں کے لیے رنگین و پرکشش سامان بھر رکھا ہے اور ان کے اشتہارات والدین اور بچوں کی نظروں میں غیر اہم چیزوں کو بھی بہت اہم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ خصوصاً بچے مالوں اور بازاروں کے سحر میں بری طرح گرفتار ہوجاتے ہیں اور اس سے نکل نہیں پاتے۔ بچپن سے ہی ان کے پاس خواہشات اور ارمانوں کی لمبی فہرست ہوتی ہے اور ان کی چاہ میں یہ ضدی بنتے جاتے ہیں۔ معاشی تنگی سے پریشان والدین مشکل سے بنیادی ضروریات کی تکمیل کرپاتے ہیں۔ جب وہ بچوں کی ختم نہ ہونے والی فرمائشیں پوری نہیں کرپاتے تو خود احساسِ جرم کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جب والدین میں سے کسی ایک کی صحت متاثر ہوتی ہے اور وہ بچوں کو وقت نہیں دے پاتے یا ان کے روزانے کے کام صحیح ڈھنگ سے نہیں کرپاتے تب بھی وہ خود کو قصور وار محسوس کرتے ہیں۔ خصوصاً ایک بچے کے بعد دوسرے حمل کے دوران یہ احساس شدت اختیار کرتا ہے کہ سامنے موجود بچے کے سلسلے میں کوتاہی ہورہی ہے اور پھر نئے مولود بچہ اور پہلے سے موجود بچے (یا بچوں) کی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے نبھانے میں وقت لگتا ہے اور اسی دوران قصور وار ہونے کا یہ احساس ڈپریشن میں بدل جاتا ہے۔ ماں کو ہونے والا یہ احساِ س جرم بہت عام ہے جسے ماہر نفسیات mommy guilt (ماں کا احساسِ جرم)کہتے ہیں۔ اس عنوان پر آپ کو کتابیں اور کیس اسٹڈی بھی ملیں گی۔ سالہاسال کی ان تحقیقات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ باپ اور ماں دونوں میں سے اس احساس میں مبتلا ہونے والوں میں ماؤں کی تعداد زیادہ ہے۔ دورانِ حمل ایک مکمل وجود کو اپنے جسم میں نو مہینے تک گھر دینا آسان نہیں ہے۔ یہ کسی بھی حاملہ عورت کو نفسیاتی کشمکش کے مختلف مراحل سے گزارتا ہے۔ منفی رجحانات بار بار ذہن پر حاوی ہونا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ایک حاملہ کے لیے ضروری ہوتاہے کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو خوشگوار رکھے اور ساتھ ہی آنے والے بچے کی صحت کے لیے غذائیت، ورزش اور مثبت توانائی پر فوکس کرے۔
جب بچہ مہمانوں کے سامنے یا گھر سے باہر دوسروں کے سامنے کوئی ایسی حرکت کرے، جو والدین کی شرمندگی کا باعث ہو تو والدین پر یہ احساس طاری ہوجاتا ہےکہ وہ اپنے بچے کی تربیت میں ناکام ہیں۔
جب بچوں کو گھر کے کھانے سے زیادہ باہر کا کھانا پسند آتا ہے یا وہ صحت بخش غذا پر غیر صحت بخش غذا کو ترجیح دیتے ہیں، والدین کو خود سے خفگی ہوتی ہے کہ کیوں وہ بچوں کو متوازن غذا کا شوق نہیں دلا پارہے ہیں، کیوں بچوں کو ان کے ہاتھ کا بنا کھانا پسند نہیں آتا؟ کیوں وہ بچوں کو غیرسود مند غذا سے دور نہیں کرپاتے؟
بچے جب والدین کے بجائے گیجٹ یا دوستوں میں وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں، تب بھی والدین کو خلش محسوس ہوتی ہے کہ وہ بچوں پر اپنی صحبت کا اچھا اثر نہیں قائم کرسکے۔
نو عمر بچوں کی سوچ اور رویوں میں ہونے والی تبدیلیاں والدین اور بچوں کے تعلقات کو نازک بناتی ہیں اور اکثر والدین کو بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی کیفیت کو سمجھنے میں دقت آتی ہے اور وہ اپنے آپ سے خفا رہنے لگتے ہیں۔
جب والدین بچپن میں بچوں کو مناسب توجہ اور تربیت نہیں دے پاتے وہ اپنے نوجوان بچوں کو دیکھ کر پشیمان ہوتے ہیں۔
جب میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کرتے ہیں، ایک دوسرے کی تحقیر یا دل شکنی کرتے ہیں تب بھی یہ مایوسی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزر کریں اور بچوں کے سامنے ان کا تذکرہ کرکے انھیں درمیان میں نہ گھسیٹیں۔ اس سے نہ صرف بچوں کےدل و دماغ پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ ان کا اور والدین کا رشتہ بھیکم زور ہونے لگتا ہے۔
غرض بچوں کی کوئی بھی عمر ہو، نگہداشت کا کوئی بھی پڑاؤ ہو، تربیت کا کوئی بھی مرحلہ ہو، والدین کو اپنی چھوٹی بڑی کسی بھی کوتاہی پر شدید یا ہلکی سی مایوسی ضرور ہوسکتی ہے جو والدین کو شرمندگی، خود ملامتی اور مایوسی سےدوچار کرتی ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے والدین اس کیفیت کا شکار تو ہوتے ہیں مگر وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ ایسے کسی ڈپریشن سے لاعلم ہوتے ہیں۔ دیگر وجوہ یہ بھی ہوسکتی ہیں کہ بعض والدین اس بارے میں کسی دوسرے شخص کو بتا کر مزید شرمندہ نہیں ہونا چاہتے جب کہ ایسے موضوع پر والدین کی آپس میں یا کسی دانش ور بزرگ یا تجربہ کار رشتہ دار یا نیک دل دوست سے بات ہونی چاہیے۔ بہرکیف، مندرجہ ذیل کچھ علامات ہیں جنھیں اگر والدین محسوس کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اس کیفیت کا شکار ہوگئے ہیں۔
لمبی تھکاوٹ اور تناؤ
بارہا یہ خیال آنا کہ ہم ’’اچھے والدین نہیں بن سکتے ‘‘ یا ’’اچھے والدین نہیں بن پائے ‘‘
مسلسل منفی سوچ میں مبتلا رہنا
بطور والدین خود اعتمادی کی کمی
بچوں کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ذہن کا ماضی کی غلطیوں میں الجھےرہنا
ذمہ داریاں کنٹرول نہیں کرپانا
بچوں سے اپنے تعلقات کے بارے میں اتنا سوچنا کہ نیند نہیں آئے یا کسی انجانے ڈر سے نیند کا ٹوٹنا یا برے خوابوں کا بار بار آنا
احساسِ جرم کی شدت کے برے نتائج
اگر احساسِ جرم اور مایوسی کی کیفیت عارضی نہ ہوکر دائمی صورت اختیار کرلے اور وہ شدت کے ساتھ اعصاب پر سوار ہوجائے تو اس کے خراب نتائج سامنے آتے ہیں، جیسے:
والدین بچوں کے سامنے شرمندہ ہونے کی وجہ سے ان سے دور ہونے لگتے ہیں اور ان کے رشتے میں کشش کم ہونے لگتی ہے۔ جسے بچے نہیں سمجھ پاتے اور وہ محرومیوں کے احساس میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ بچے کا پہلا رشتہ اپنے والدین کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور ایسی پیچیدگی میں جب اس کے پاس رشتے میں ہم آہنگی کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا تو وہ آگے چل کر دوسرے رشتے اور تعلقات کو کیسے سمجھ پائے گا اور کیسے نبھا سکے گا؟
والدین اپنی اس کیفیت سے فرار کے بعض ایسے راستے تلاش کرتے ہیں جن سے دوسرے نقصانات پیدا ہوتے ہیں۔ جیسےیہ کہ بچوں کو غیرضروری آزادی دے کر انھیں خوش کرنا، ان کی سنگین خطاؤں کو نظر انداز کرنا، انھیں ان کی پسند کے مطابق جنک فوڈ جیسی غیر صحت بخش چیزیں زیادہ مقدار میں دینا، ان کی خوشی کی خاطر گیجٹ کے استعمال کے اوقات پر سے پابندی ہٹانا، پڑھائی میں کوتاہی سے درگزر کرنا یا ان کے بگڑتے روٹین پر روک نہ لگانا۔ نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ بچوں کو اپنی من مانی کے بے شمار مواقع مل جاتے ہیں اور وہ مزید بگڑنے لگتے ہیں۔
میاں بیوی کےتعلقات کاخراب ہوجانا بھی اس کیفیت کا ایک نقصان ہے۔ والدین ایک دوسرے کے سامنے اپنی ناکامی محسوس کرتے ہیں اور صحتمند گفتگو کے بجائے بحث و تکرار سے اپنے قصور پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح میاں بیوی کے رشتے کو بچوں کی پیدائش مضبوط کرتی ہے، اسی طرح پرورش کے دوران ہونے والی اونچ نیچ رشتے میں رنجش کا سبب بن جاتی ہے۔
والدین صرف اپنی نگاہوں میں ہی شرمندہ نہیں رہتے بلکہ اکثر انھیں اطراف کے لوگوں کے سامنے بھی شرمندگی ہوتی ہے۔ انھیں گمان آتا ہے کہ لوگ ان کے بارے میں برے خیالات رکھتے ہیں۔ اس لیے اکثر اس احساسِ جرم کے شکار والدین رشتہ داروں سے یا آس پاس کے لوگوں سے میل ملاپ کم کردیتے ہیں۔
جب اس احساسِ جرم کو نظر انداز کرنے کی حد پار ہوجاتی ہے تب بسا اوقات ایک نیا احساس جنم لیتا ہے کہ جو ہوا وہ صحیح ہوا۔ اس طرح والدین اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے اور پھر سے ان رویوں کو دہراتے ہیں جو اس کیفیت کا سبب بنے۔ اور پھر دہراتے دہراتے ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ غلطیاں، خامیاں، کوتاہیاں ان کے کردار کا حصہ بن جاتی ہیں۔ جیسے بچوں کو جسمانی سزا دینے کا معاملہ ہے۔ اگر والدین کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ اس کی تلافی کریں اور اپنے غصے پر کنٹرول کرنا سیکھیں تو اس رویے کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اگر اصلاح کے بجائے وہ اپنے رویے پر اڑجائیں تو پھر وہ غلطی بار بار ہوتی ہے۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ والدین غصیلے، چڑچڑے اور رعب دار والدین بن جاتے ہیں۔
قصور وار ہونے کا یہ احساس والدین کے دل میں اس طرح کے مایوس کن خیالات پیدا کرتا ہے کہ وہ والدین ہی کیوں بنے،کیوں انھوں نے بچے کو جنم دیا۔ ان کی زندگی بچے کی وجہ سے برباد ہوگئی۔ ایسے خیالات اگر دل میں جم جائیں تو پھر بچے کا بچپن بڑا ہی قابل رحم ہوتا ہے۔
یہ کیفیت والدین پر اس طرح بھی اثر انداز ہوتی ہے کہ وہ نئے شادی شدہ جوڑوں کو بچوں کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیسا انمول تحفہ ہے، لیکن اسے ایسا پیچیدہ پروجیکٹ بنالیا گیا ہے کہ نعمت ایک بڑی زحمت معلوم ہونے لگی۔ اس لیے ایسے موضوعات پر گفتگو کرنے اور تربیت کو آسان تدبیریں اور ترکیبیں دینے کی ضرورت ہے۔
بچاؤ کی تدبیریں
اوپر ہم نے جانا کہ والدین کے احساسِ جرم (parenting guilt)کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں اس لیے ان سے بچاؤ کی کچھ ترکیبوں کا ذکر بھی مناسب ہوگا۔
نوزائیدہ بچوں کے ہوتے نیند پوری نہیں ہوتی اور کھانا کھانا یا بیت الخلا جانا یا غسل کرنا جیسےضروری کام صحیح ڈھنگ سے انجام نہیں پاتے، جس سے ذہن ماؤف ہونے کا احساس ہوتاہے۔ نئے بچے کی پرورش کرتے بہت سی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ زندگی کے سفر کا ایک حصہ ہے اور اس سے سبھی گزرتے ہیں۔ غلطیوں کا احساس اسی حد تک ہوناچاہیے کہ ان کی اصلاح کی کوشش ہو۔ غلطی کو ایک بڑے احساسِ جرم کے طور پر اپنے ذہن پر حاوی کرلینا درست نہیں ہے۔ مسئلے کو ذہن پر سوار کرنے کے بجائے اس کا حل ڈھونڈ یں۔
اپنے دل و دماغ میں اٹھنے والے وسوسوں سے نکلنے کا ایک پاکیزہ راستہ یہ ہے کہ اللہ کے ذکر کو بڑھائیں۔ اپنے لیے اور بچوں کے لیے دعائیں کریں۔ وسوسوں اور منفی خیالات کودیر تک ذہن میں نہ رہنے دیں۔ اپنے آپ کو مثبت دلاسا دیں کہ اللہ نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ دماغ انسانی جسم کا وہ قوی عضو ہے جس سے کوئی حکم صادر ہو جائے تو پورا جسم اس حکم کا تابعدار ہوجاتا ہے۔ کوشش کریں کہ اپنے ذہن میں قوت بخش خیالات کو زیادہ سے زیادہ جگہ دیں۔ اللہ بندے کے گمان کے مطابق ہے، اچھا گمان رکھیں زندگی اچھی گزرے گی۔
جو والدین اس احساسِ جرم میں ایک عرصے سے مبتلا ہیں انھیں اپنی ایک ڈائری بنانی چاہیے۔ اس ڈائری میں نوٹ کریں کہ وہ کن رویوں پر شرمندہ ہیں، کہاں ان سے غلطیا ں ہوئی ہیں، انھوں نے بچوں پر کیسے اثرات نوٹ کیے۔ انھیں اپنی اصلاح کے لیے کن رویوں کو چھوڑنے اور کن عادتوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح اس کیفیت سے نکلنے کے لیے ان کے پاس اپنا ہی تیار کردہ لائحہ عمل ہوگا جس پر عمل ان کے لیے آسان ہوگا۔
کن حالات، واقعات، رویوں اور عادتوں کی وجہ سے آپ کوقصور وار ہونے کا احساس ہوتا ہے انھیں نوٹ کریں۔ والدین کو اپنے ٹریگرپر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ یعنی کن باتوں کی وجہ سے وہ فوراً مایوس ہوجاتے ہیں،خود سے بہت زیادہ خفا اور ناراض ہوتے ہیں۔ ایسے ٹریگر سے بچاؤ کی فکر کریں۔
والدین جب ایسی کسی خفگی کا شکار ہوں تو آپس میں بات کرلیں۔ تربیت و نگہداشت کے معاملے میں شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا دوست بننا چاہیے کیوں کہ جتنی خیرخواہی والدین کی طرف سے بچوں کو ملتی ہے، کہیں اور سے نہیں ملتی۔ تربیت کے حوالے سے دونوں کو اپنا محاسبہ اور تزکیہ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ گھر یا خاندان میں اگر کوئی تجربہ کار فرد ہے، کوئی نیک دوست اور نیک مشیر ہے، تو بلا جھجک اس سے گفتگو کریں اور مشورہ مانگیں۔
اس کیفیت سے پیدا ہونے والے کچھ ایسے پیچیدہ مسائل بھی ہوتے ہیں جن سے والدین اور بچے نکلنے کا راستہ نہیں پاتے۔ ایسے میں کونسلنگ کے ماہرین کی مددلینی چاہیے۔
اس کیفیت سے نکلنے کا عمدہ طریقہ یہ بھی ہے کہ والدین بچوں کو تحائف دیں، ان کے ساتھ پہلے سے زیادہ وقت گزاریں، سیر و تفریح کا انتظام کریں۔اس طرح بچوں سے قریب آنے کی راہیں تلاش کریں۔ بچوں کے لیے مثبت طریقے سے سرگرمیوں میں شریک ہوکر والدین کے دل کو کسی حد تک سکون ملے گا۔
والدین کو بالخصوص والدہ کو ٹائم آؤٹ،یعنی وقفے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حمل اور پیدائش کے دورانیہ میں ہونے والی تکلیفیں، پھر بچے کے لیے دن رات مسلسل کام اور اس میں غلطیوں کا بوجھ والدہ میں ڈپریشن کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اسے کم کرنے کی کارگر تدبیر یہ ہوسکتی ہے کہ ماں کو کچھ آرام کا موقع دیا جائے۔ کچن کے کاموں سے ہفتہ میں ایک دن ہی سہی بریک دیا جائے۔ صحت بخش نیند کی فرصت فراہم کی جائے۔ ماں کی بنیادی ضروریات ( کھانا پینا، رفع حاجت، غسل وغیرہ) کے معاملات میں ممکنہ سہولیات دی جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ ماں سے ہونے والی غلطیوں سے درگزر کیا جائے اور ان کےساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے۔ نہ بھولیں کہ نبی کریم ﷺ کی آخری وصیت عورتوں سے حسن سلوک کی تھی۔ بچے کے باپ، بچے کے بڑے بھائی بہن اور دیگر رشتے دار خواتین اس میں بڑا رول ادا کرسکتی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ بچے کے باپ کو اس طرح کا احساسِ جرم لاحق نہیں ہوتا ہے۔ ان کی بھی ایک تعداد اس کا شکارہوتی ہے۔ بے جا فرمائشوں اور مطالبوں سے باپ کے معاشی دباؤ کو بڑھانے کے بجائے جہاں تک ہوسکے،کم کیا جائے۔ باپ اور بچے کے درمیان محبت و انسیت کو بڑھانے میں اور باپ کے بوجھ کو کم کرنے میں ماں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔
دوسرے والدین سے اپنا اور دوسرے بچوں سے اپنے بچوں کا ہر چیز میں مقابلہ نہ کریں۔ سوشل میڈیا پر نظر آنے والے ’’پرفیکٹ پیرنٹ‘‘ کو اپنے اوپر اتنا سوار مت کریں کہ آپ اپنی نظر میں چھوٹے ہوجائیں۔ اگر آپ کو کسی کی تربیت کا کوئی انداز پسند آئےتو ضرور اپنائیں، کسی دوسرے بچے میں کوئی خوبی یا قابلیت پسند آئے اور آپ اپنے بچوں میں بھی وہی صلاحیت ابھارنا چاہیں تو ضرور ابھاریں، لیکن مقابلہ آرائی اور احساس کمتری کے ساتھ نہیں بلکہ سیکھنے اور اپنانے کی مثبت روی کے ساتھ۔
والدین بننے کے بعد یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آپ کے طریقہ تربیت پر تنقید کرنے والوں اور تربیت پر مفت کا گیان بانٹنے والوں سے آپ کا قدم قدم پر سامنا ہونا ہے۔ والدین بننے کے بعد کردار میں ایسی مضبوطی لائیں کہ ہر طرح کے منفی رجحان سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی بات کام کی ملے تو توجہ دیں،لیکن اپنے دل پر یہ احساس سوار نہ ہونے دیں کہ آپ نا اہل اور ناکام ہیں۔
بحیثیت والدین یہ بات یاد رکھیں کہ آپ کو یہ ذمہ دارانہ رول بچے کی پیدائش کے بعد ہی ملا ہے۔ آپ کی گود میں ماضی میں کتنے بچے کھیل چکے، دوسروں کے بچوں کے ساتھ آپ کا کتنا تجربہ ہے، یہ آپ کے کام یاب والدین ہونے کی کوئی سند نہیں ہے۔ جس دن آپ کا بچہ آپ کی گود میں آتا ہے بالکل اسی وقت آپ کو بطور والدین بالکل نیا اور انوکھا رول ملتا ہے۔ آپ کے اپنے بچے سے معاملات اور تجربات بالکل مختلف ہوں گے۔ بچے کی عمر کے ساتھ ساتھ آپ کے شعور میں اور آپ کی ذمہ داری نبھانے کی قابلیت میں ترقی ہوگی۔ اپنے اندر موجود خامیوں کو جانیں، اپنی خامیوں کو قبول کریں اور اپنے آپ میں ہر بار نئی تبدیلی کا اسکوپ تیار رکھیں۔ ہر دن آپ کو نیا سبق پڑھائے گا۔ مایوس ہوکر راستے میں ہی بیٹھ جانے کے بجائے اپنے بچے کے ساتھ خود اپنی شخصیت کی تعمیرمیں مصروف رہیں۔
یاد رکھیں کہ اللہ تعالی نے والدین کو بچوں کی پرورش کا مشکل کام تفویض کیا ہے تو ساتھ ہی اس کی طاقت بھی دی ہے اور اس کے صلے میں اونچا مقام بھی دیا ہے۔والدین کے سلسلے میں قرآ ن کی آیتوں پر غور کرنے سے حوصلوں کو جلا ملتی ہے اور یہ مشکل کام آسان اور پرلطف ہوجاتا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ والدین ایک دوسرے کے لیے اور اپنے بچوں کے لیے بھی آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کی کوشش کریں اور دعا بھی کرتے رہیں کہ اے ہمارے رب ہمارے شریکِ حیات کو اور ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے۔
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیاتِنَا قُرَّةَ أَعْینٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ إِمَامًا
مشمولہ: شمارہ نومبر 2023