گھر یلو نا انصافی سے خود کو بچائیں

(جو لوگ اپنے گھر والوں کے درمیان انصاف نہیں کرسکتے وہ دوسروں کے درمیان انصاف کیسے کرسکیں گے؟)

گھریلو تشدد کھلی ہوئی خرابی ہے۔ اس کی گونج دور تک سنائی دیتی ہے۔ اس کی قباحت پر سب متفق ہیں۔ اس کی اکثر صورتوں کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس میں ملوث لوگ عام طور سے دین واخلاق سے عاری اور بسا اوقات نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔

گھریلو نا انصافی پوشیدہ خرابی ہے۔ اس کی قباحت سے بہت سے لوگ آگاہ نہیں ہوتے۔ بسا اوقات اس کا ارتکاب کرنے والا بھی محسوس نہیں کرپاتا کہ اس سے کوئی برائی سرزد ہوئی ہے۔ کچھ نا انصافیوں کی تو بہت سے لوگ وکالت کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ دین دار، با اخلاق اور سمجھ دار لوگ بھی اس میں ملوث پائے جاسکتے ہیں۔

قرآن مجید نے رشتے داروں کے حقوق کے سلسلے میں بار بار تاکید کرکے گھریلو نا انصافی کا سدباب کیا ہے۔

وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ [الإسراء: 26]،  [الروم: 38]

(ہر رشتے دار کو اس کا حق ادا کرو)

وَلَا یأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ یؤْتُوا أُولِی الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِینَ وَالْمُهَاجِرِینَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَلْیعْفُوا وَلْیصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ یغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ [النور: 22]

(تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے۔ انھیں معافی اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے۔)

اللہ کے رسول ﷺ نے تفصیل کے ساتھ گھریلو نا انصافیوں کے سلسلے میں خبردار کیا۔

اللہ کے رسول ﷺ کے ایک صحابی نے اس سلسلے میں ایک زریں اصول پیش کیا اور آپ نے اس کی تحسین فرمائی۔ یہ اصول حضرت سلمان فارسیؓ نے اپنے دینی بھائی حضرت ابودرداء ؓ کو بتایا۔ انھوں نے کہا: أَعْطِ كُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّهُ (صحیح البخاری ) (ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرو۔)

یہ جامع اصول ہے۔ اگر انسان تمام لوگوں کے حقوق کے سلسلے میں جو اس پر عائد ہوتے ہیں، حسّاس ہوجائے تو نا انصافی کے بہت سے دروازے ہی نہیں بے شمار باریک رخنے بھی بند ہوسکتے ہیں۔

ہم نے اس مضمون میں کچھ حوالوں سے گھریلو نا انصافی کی کچھ مثالیں پیش کی ہیں۔ ان کی روشنی میں ہر فرد اپنے تجربے اور مشاہدے سے مزید بہت سی صورتوں کی تشخیص اور نشان دہی کرکے خود کو اور دوسروں کو نا انصافی کی برائی سے بچاسکتا ہے۔

چھوٹے بچوں کی حق تلفی

کس طرح انجانے میں نا انصافی ہوجاتی ہے، اس کی ایک صورت وہ ہے جس سے چھوٹے بچوں کو گزرنا پڑتا ہے۔ ایک بچے کی پیدائش کے بعد جب دوسرے بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو والدین کی ساری توجہ نومولود کی طرف ہوجاتی ہے۔ بڑا بچہ شدید صدمے سے دوچار ہوتا ہے۔ ابھی تک وہ مرکز توجہ تھا۔ اس کی ہر فرمائش کی فوری تکمیل ہوتی تھی۔ اس کی ہر ضد کو اہمیت دی جاتی تھی۔ اسے خوب پیار اور دلار ملا ہوا تھا۔ پھر وہ کیا دیکھتا ہے کہ اس سے سب کچھ چھن گیا اور دوسرے بچے کو مل گیا۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندرغصہ اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے اور بسا اوقات وہ تشدد پر اتر آتاہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ والدین اپنے ہی دونوں بچوں کے درمیان انصاف نہیں کرپاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے بچے کو اس کا حق مل گیا اب چھوٹے بچے کا حق ہے۔ حالاں کہ بڑے بچے کو ان کے پیار کی ضرورت ابھی بھی ہےاور سمجھ داری اور وسعت ظرفی سے کام لے کر دونوں کو شفقت و محبت سے فیض یاب کیا جاسکتا ہے۔

بڑی چیزوں میں نا انصافی

بعض لوگ اپنی اولاد کو قیمتی عطیات دیتے ہوئے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھ پاتے۔ جس بچے سے وہ زیادہ خوش ہوتے ہیں اسے بہت زیادہ نواز دیتے ہیں اور باقی کو محرومی کے احساس میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ایک تو کسی بچے سے زیادہ محبت کا اظہار کرنا اور کسی سے کم محبت کا اظہار کرنا اپنے آپ میں درست نہیں ہے۔ اس سے بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات واقع ہوتے ہیں۔ مزید اس محبت کا اظہار اس طرح کرنا کہ اسے زیادہ قیمتی عطیات دیے جائیں اور دوسروں کو نظر انداز کیا جائے، صریح ظلم و نا انصافی ہے۔ اگر بچے احترام کی وجہ سے اپنی ناراضی کا اظہار نہ کریں تو بھی ان کے ساتھ کی گئی حق تلفی اور نا انصافی کے اثرات ان کے دل پر نقش ہوں گے اور کبھی نہ کبھی اس کا اظہار بھی ہوسکتا ہے۔

اگر بچے مختلف ماؤں سے ہوں تو اس طرح کی بڑی ناانصافی کا اندیشہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں ایک واقعہ پیش آیا جو زندگی کے مختلف امور میں رہ نمائی کا سامان رکھتا ہے۔

حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ نے ان کے والد بشیر سے کہا کہ اپنے مال میں سے ایک قیمتی عطیہ مجھے دے دیں۔ شروع میں انھیں تردد ہوا، پھر وہ آمادہ ہوئے اور مجھے ایک عطیہ دے دیا۔ لیکن اس وقت تک والدہ کی سوچ میں تبدیلی آگئی تھی، انھوں نے کہا کہ میں اس پر راضی نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ اسے اللہ کے رسول ﷺ کے علم میں لایا جائے اور انھیں گواہ بنایا جائے۔ میں اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھا۔ میرے والد میرا ہاتھ پکڑ کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اس کی ماں نے مجھ سے فرمائش کی ہے کہ میں اسے اپنے مال میں سے قیمتی عطیہ دوں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمھارے پاس اس کے سوا بھی اولاد ہے۔ میں نے کہا ہاں۔ آپ نے کہا کیا دوسرے بچوں کو بھی اس کے مثل عطیات دیے ہیں، میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: تب مجھے ظلم پر گواہ نہ بناؤ۔ آپ نے یہ بھی کہا: اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اپنے بچوں کے درمیان انصاف کرو۔ آپ نے یہ بھی کہا : کیا تم نہیں چاہتے کہ وہ بچے تمھارے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔(صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث)

ایسا بہت سننے میں آتا ہے کہ پہلی بیوی کی وفات کے بعد آدمی نے دوسری شادی کی اور پھر پہلی بیوی کے بچوں کو یک سر نظر انداز کرکے تمام جائیداد اپنی اس بیوی اور اس کے بچوں کے نام کردی۔ اس کے نتیجے میں وہ بچے اپنے باپ سے، اس کی بیوی سے اور اس سے ہونے والے بچوں سے سخت نفرت کرنے لگتے ہیں۔

چھوٹی چیزوں میں بھی انصاف ضروری ہے

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچوں کے درمیان بڑی چیزوں میں تو انصاف کیا جاتا ہے مگر چھوٹی چیزوں میں فرق کو روا سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالاں کہ جس طرح بڑی چیزوں میں نا انصافی سے دل کو تکلیف پہنچتی ہے، چھوٹی چیزوں میں نا انصافی سے بھی دل کو ٹھیس لگتی ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ سب بچوں کو مہنگے مہنگے کھلونے خرید کر دیے اور پھر انھی میں سے ایک بچے کو ٹافی دی اور باقی کو نہیں دی، تو باقی بچے مہنگے کھلونے کی خوشی بھول کر ٹافی نہ ملنے کے غم میں مبتلا ہوجائیں۔ یہ اصول بڑوں کے معاملے میں بھی کئی موقعوں پر برتنا ضروری ہوتاہے ورنہ دلوں میں میل آتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے۔ ایک موقع پر آپ صحابہ کی مجلس میں گفتگو فرمارہے تھے۔ ایک چھوٹا بچہ چلتے ہوئے آیا اور ایک صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ وہ ان کا بچہ تھا۔ انھوں نے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے اپنے زانو پر بٹھالیا۔ تھوڑی دیر میں ان کی بچی آئی، انھوں نے اس کے سر پر بھی ہاتھ پھیرا اور اسے اپنے پہلو میں زمین پر بٹھالیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے گفتگو روکی اور ان صاحب سے کہا کہ آپ نے بچی کودوسرے زانوپر کیوں نہ بٹھایا۔ انھوں نے بچی کو اٹھایا اور اسے دوسرے زانو پر بٹھالیا۔ آپ نے فرمایا: ہاں اب تم نے انصاف کیا۔ (النفقۃ علی العیال، ابن ابی الدنیا)

اللہ کے رسول ﷺ کی تربیت کا اثر تھا کہ صحابہ کرام اپنے بچوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی چیزوں میں انصاف کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم نخعیؒ بیان کرتے ہیں کہ وہ لوگ تو بوسہ لینے میں بھی اپنے بچوں کے درمیان عدل کرتے تھے۔

لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان نا انصافی

لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان تفریق بلکہ لڑکیوں کی حد درجہ تحقیر ہمیشہ سے انسانی سماج کا سنگین مسئلہ رہا ہے۔ اسلام نے اس برائی کا ازالہ کیا اور دونوں کو یکساں تکریم سے نوازا۔ لیکن مسلم معاشرے میں اسلامی تعلیمات کا عکس جس طرح نظر آنا چاہیے، نظر نہیں آتا۔ مختلف پہلوؤں سے دونوں کے درمیان تفریق ہوجاتی ہے۔ ہم یہاں کچھ مثالیں پیش کریں گے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ سب گھروں کا معاملہ نہیں ہے۔ لیکن بہت سے گھروں میں کچھ نہ کچھ مظاہر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔

گھر کے کاموں کے حوالے سے لڑکیوں پر لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔

تعلیم اور شخصی ارتقا کے مواقع لڑکوں کو زیادہ فراہم کیے جاتے ہیں اور لڑکیوں کو کم دیے جاتے ہیں۔

جائز ارمانوں کی تکمیل کے مواقع لڑکوں کو زیادہ ملتے ہیں اور لڑکیوں کو کم ملتے ہیں۔

گھر کے چھوٹے بڑے فیصلوں میں لڑکوں کی رائے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور لڑکیوں کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔

شریک حیات کے سلسلے میں لڑکے کو اپنی پسند کے اظہار کے زیادہ مواقع رہتے ہیں اور لڑکی کو کم رہتے ہیں۔

لڑکوں کو کھلی چھوٹ ملی رہتی ہے اور لڑکیوں پر بعض بے جا پابندیاں بھی عائد کردی جاتی ہیں۔ شریعت میں جو پابندیاں ضروری ہیں، وہ تو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں پر عائد ہونی چاہئیں، مگر بے جا پابندیاں کسی پر عائد کرنا ظلم و نا انصافی تک پہنچا سکتا ہے۔ جیسے بعض معاشروں میں لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ممنوع رہا ہے۔

قدیم اور جدید رشتوں میں نا انصافی

شادی ہوتے ہی شوہر اور بیوی دونوں کے رشتے داروں میں ایک ایک نئے زمرے کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ماں باپ، بھائی بہنوں وغیرہ کے علاوہ اب شادی کے ساتھ ہی شریک حیات اور شریک حیات کے تمام رشتے داروں سے نیا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ یہ سسرالی رشتہ کہلاتا ہے۔ یہیں سے شوہر اور بیوی دونوں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ قدیم و جدید دونوں رشتوں کو کس طرح انصاف کے ساتھ نباہتے اور دونوں میں توازن رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی لڑکے کے سلسلے میں یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنے قدیم رشتوں کو فراموش کرکے پورے طور سے سسرالی رشتے داروں کا ہوگیا۔ لڑکی کے سلسلے میں یہ شکایت بہت زیادہ ہوتی ہے کہ شادی ہونے کے بعدبھی وہ سسرال کو اپنا گھر نہیں سمجھتی، اپنے سسرالی رشتے داروں کورشتے دار نہیں سمجھتی اور اپنا رشتہ ناطہ پورے طور سے اپنے میکے تک ہی سمیٹ کر رکھتی ہے۔

رشتے اللہ کی نعمت ہیں۔ یہ انسان کی شخصیت کو سنوارنے کا کام کرتے ہیں۔ انسان کی اخلاقی کم زوری ہے کہ وہ کچھ رشتوں کا حق ادا کرے اور کچھ رشتوں کی حق تلفی کرے۔ اللہ تعالی نے انسان کو رشتوں سے جوڑا ہے اور اللہ تعالی نے انسان کے اندر تمام رشتوں کو نباہنے کی صلاحیت بھی رکھی ہے۔ کچھ رشتوں کا خیال رکھنا اور کچھ رشتوں کو نظر انداز کرنا دراصل رشتوں کی بھی ناقدری ہے اور اپنی صلاحیت کی بھی ناقدری ہے۔

نانیہال اور دادیہال دونوں کا بچے پر حق ہے

اللہ تعالی کا انسان کے لیے یہ انعام و اکرام ہے کہ جب وہ اس دنیا میں آتا ہے تودو بڑے خاندان اس کے استقبال کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اتنے شان دار طریقے سے اس دنیا میں صرف حضرت انسان کا استقبال ہوتا ہے، کسی اور مخلوق کا نہیں۔ بچے کا حق ہے کہ اسے دونوں خاندانوں کی محبت و شفقت اور سرپرستی نصیب ہو۔ اسی طرح دونوں خاندانوں کا حق ہے کہ بچے کی خوشی اور بچے سے تعلق میں وہ شریک رہیں۔

کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ باپ کے تعلقات اپنی سسرال سے اچھے نہیں ہوتے ہیں اور وہ بچے کونانیہال کی محبتوں سے فیض یاب نہیں ہونے دیتا۔ جب کہ ایسا تو بہت ہوتا ہے کہ ماں کے تعلقات سسرال سے مستحکم نہیں ہوتے ہیں وہ تو بچے کو دادیہال سے بالکل کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ بچہ صرف اپنے نانیہالی رشتے داروں ہی کو اپنا سمجھتا ہے۔ ماں کے زیر اثر وہ اپنے دادیہال والوں سے یا تو لاتعلق یا پھر کبھی متنفر بھی رہتا ہے۔

یہ رویہ ناانصافی کا ہے۔ بچے کی شخصیت پر اس کا بہت خراب اثر پڑتا ہے۔ وہ رشتوں کی ایک بڑی قوت اور قیمتی سرمایے سے محروم ہوجاتا ہے۔

اس طرح کے ماں باپ اپنے رویے کو جواز دینے کے لیے اس خاندان کی برائیاں گناتے ہیں جس سے وہ اپنے بچے کو کاٹنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ اشارہ دیتے ہیں کہ ان کا پورا خاندان اچھے لوگوں پر مشتمل ہے جب کہ دوسرا پورا خاندان خراب لوگوں پر مشتمل ہے۔حالاں کہ یہ بدگمانی اور غلط بیانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ہر خاندان میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن ماں باپ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے اپنے بچوں کو بہت سی محبتوں اور بہت سے تعلقات سے محروم کردیتے ہیں۔

رشتے سب محبت کے لیے ہوتے ہیں

اللہ تعالی نے سب رشتے بنائے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر رشتے کی پاس داری کی جائے اور اس کا حق ادا کیا جائے۔ ہر رشتے کو محبت کے رنگ سے مزین ہونا چاہیے۔ نسبی رشتے بھی اور سسرالی رشتے بھی، نانیہالی رشتے بھی اور دادیہالی رشتے بھی، یہاں تک کہ رضاعی رشتے بھی اور وہ رشتے بھی جنھیں سوتیلے کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے۔

انسانوں نے رشتوں کے ساتھ حق تلفی اور نا انصافی کا رویہ اس طرح اختیار کیا کہ ان کی تقسیم کردی۔ کچھ رشتے محبت کے، کچھ رشتے اجنبیت کے اور کچھ رشتے نفرت کے بنادیے۔

ماں باپ بھائی بہنوں سے محبت اور ان کی ہر خطا معاف۔

سسرال والوں سے قدرے لاتعلقی، مسلسل بدگمانی اور رائی کو پہاڑ بنانے کی روش۔

سوتیلے رشتوں سے نفرت اور حد درجے کی لاتعلقی۔

رشتوں کی یہ تقسیم غلط ہے ،اللہ کے قانون کے خلاف ہے اور جب یہ تقسیم ذہنوں میں راسخ ہوجاتی ہے تو مسلسل نا انصافی اور حق تلفی کا سبب بنتی ہے۔ اس تقسیم کے مطابق جب انسان کی پرورش اور ذہن سازی ہوتی ہے تو وہ رشتوں کے تعلق سے بہت زیادہ نا انصافی اور حق تلفی کا مرتکب ہوتا ہے اور اسے کسی برائی کا ذرا احساس نہیں ہوتا۔ اسے لگتا ہے کہ وہ صحیح روش پر ہے جب کہ وہ بہت غلط روش پر ہوتا ہے۔ وہ بچپن میں اپنے بڑوں کو، جو دیندار اور پرہیزگار ہوتے ہیں، اس روش پر دیکھتا ہے، پھر بڑے ہوکر خود بھی اسی کو اختیار کرلیتا ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ کا اپنے تمام رشتے داروں سے محبت والفت والا تعلق تھا۔ آپ نے اپنی تمام بیویوں سے بہت محبت کی، اپنے تمام بچوں سے بہت محبت کی اور اپنے رضاعی رشتے داروں سے بھی بہت محبت کی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کی اس طرح تربیت کی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ محبت کرتی تھیں۔ سوتیلے پن کا کہیں شائبہ نظر نہیں آتا تھا۔

گھر کے کام سب کریں، گھر میں آرام سب کریں

گھروں میں آرام بھی بہت ہوتا ہے اور کام بھی بہت ہوتا ہے۔ آرام تو سب کرنا چاہتے ہیں مگر کام میں شریک ہونے سے بہت سے لوگ کتراتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھر کے کاموں کا بوجھ کچھ لوگوں پر اور کبھی تو کسی ایک ہی فرد پر آجاتا ہے۔ یہ انصاف کے خلاف ہے۔ جتنے لوگ گھر میں رہتے ہیں، گھر کی سہولتوں اور راحتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان سب کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ گھر کے کاموں میں برابر کے شریک ہوں۔

اس حوالے سے کچھ مثالیں یہاں پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، ان کے علاوہ بھی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں۔

لڑکوں اور لڑکیوں کے حوالے سے

بہت سے گھروں میں یہ مان لیا گیا ہے کہ گھر کے سارے کام لڑکیوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، لڑکوں پر گھر کے کسی کام کی ذمے داری نہیں ہے۔ برتن لڑکیاں دھوئیں، جھاڑو پوچھا لڑکیاں کریں، کپڑے لڑکیاں دھوئیں، کھانا لڑکیاں پکائیں اور جب مہمان آئیں وہ مردانے کے ہوں یا زنانے کے تو چائے ناشتہ لڑکیاں تیار کریں۔ لڑکوں کو دھلے ہوئے کپڑے ملیں اور ہر تھوڑی دیر میں چائے ملے، یہ سب لڑکیوں کی ذمے داری ہے۔

یہ رویہ غلط اور غیر منصفانہ ہے۔ گھر کے کام لڑکوں اور لڑکیوں میں تقسیم ہونے چاہئیں۔ کسی کے اوپر کام کا زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ شوہر بیوی کا ہاتھ بٹائے۔ بچے اور بچیاں کاموں کو اس طرح آپس میں بانٹ لیں کہ والدین پر کام کا بوجھ کم سے کم ہوجائے۔ بڑوں کی ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کو گھر کے کام کاج کی تربیت دیں اور ان کی استعداد کے لحاظ سے مختلف کام ان کے حوالے کرتے رہیں۔ گھر کے کاموں کی تربیت اور فعال شرکت بچوں کی شخصیت کو بہتر بنانے میں معاون ہوگی۔ کچھ مائیں چاہتی ہیں کہ بچے گھر کا کوئی کام نہ کریں، وہ اکیلے ہی سب کام کرلیں۔ یہ بچوں کی بہتر تربیت کے لیے مناسب نہیں ہے۔

بہو ؤں اور بیٹیوں کے حوالے سے

انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک گھر میں اور ایک وقت میں جتنے لوگ موجود ہوں وہ سب گھر کے کاموں میں شامل ہوں۔ لیکن بعض گھروں میں عجیب قسم کے تصورات رائج ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ لڑکی سسرال میں کام کرے اور میکے میں آرام کرے۔ اس کے نتیجے میں گھر کے کاموں کا سارا بوجھ بہوؤں کے سر آجاتا ہے۔ پھر یا تو گھر میں تناؤ کی کیفیت رہتی ہے اور علاحدگی کی تحریک شروع ہوجاتی ہے۔ یا پھر نا انصافی کا دور دورہ رہتا ہے۔

جب کہ بعض گھروں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہوسسرال کے کاموں میں شریک نہیں ہوتی، ساس اور نندوں کو تمام کام کرنے پڑتے ہیں۔ یہ بھی انصاف کے خلاف ہے۔

انصاف کی بات یہ ہے کہ لڑکی سسرال میں ہو یا میکے میں ہو، وہ کام بھی کرے اور آرام بھی کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب گھر کے سب لوگ کاموں کو بہتر انداز سے تقسیم کریں اور اپنے اپنے حصے کا کام انجام دے کرکےگھر کی سہولتوں اور راحتوں سے لطف اندوز ہوں۔

چھوٹوں سے کام لینے کا وتیرہ

بعض گھروں میں بڑے بھائی چھوٹے بھائیوں سے کام لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہر کام کے لیے چھوٹوں کو دوڑانا ان کا وطیرہ ہوتا ہے۔ حکم نہیں بجالانے پر وہ انھیں سزا بھی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بعض بچے اپنے بچپن کے لطف سے محروم رہتے ہیں اور بہت سی نا خوش گوار یادوں کے ساتھ بچپن کو خیرباد کہتے ہیں۔ یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ چھوٹے بچوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ بڑے بھائی ان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے لیے دوڑ دھوپ اور محنت کرتے ہیں۔ بڑے بھائی خدمت کا عملی نمونہ پیش کریں اور چھوٹے بھائی اس نمونے کو دل کے شوق سے اختیار کریں۔ غرض خدمت کی ابتدا بڑوں سے ہونی چاہیے اور چھوٹے بچوں تک وہ ایک اچھا نمونہ بن کر منتقل ہو۔

بیویوں کے درمیان نا انصافی

اللہ تعالی نے ایک سے زیادہ شادیوں کو اپنی شریعت میں جائز و مستحسن قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں انسانی سماج کے بہت سے مسائل حل کرتی ہیں اور بہت سے دکھوں کا مداوا کرتی ہیں۔ شریعت کے اس باب کا حسن اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ ناانصافی اس عمل کو انتہائی قبیح عمل بنادیتی ہے۔ نا انصافی والی شادیوں کے نمونے سماج کو اس تصور سے متنفر کرنے کا کام کرتے ہیں۔

مسلمانوں کی ذمے داری تھی کہ وہ عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرکے تعدد ازواج کی صحیح تصویر پیش کرتے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا اور دین دار گھروں میں بھی تعدد ازواج کے سلسلے میں کراہیت عام ہوگئی۔ اس تصویر کو درست کرنا مسلمانوں کی ذمے داری ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے تو عدل وانصاف کی بہترین مثالیں قائم کی تھیں۔

ان ساری چیزوں میں جو انسان کے دائرہ اختیار میں ہوں، اسے انصاف کرنا چاہیے۔ بعض اہل علم نے یہاں تک کہا ہے کہ مسکراہٹ میں بھی بیویوں کے درمیان انصاف ہونا چاہیے۔

والدین کے درمیان نانصافی

بعض گھروں میں بچپن سے ہی کچھ بے تکے سوالوں سے بچوں کو گزارا جاتا ہے، جیسے ابو اچھے یا امی؟ تمھیں ابو زیادہ پسند ہیں کہ امی؟ یہیں سے ماں باپ کے درمیان موازنے والا ذہن بنتا ہے۔ آگے چل کر اگر ماں باپ کے درمیان کسی بات پر کشیدگی ہوتی ہے تو بچہ بلا تردد کسی ایک طرف ہوجاتا ہے۔ بعض صورتیں ایسی بھی دیکھنے میں آئیں کہ ماں باپ میں سے کسی ایک کے لیے اولاد نے دوسرے سے اپنا رشتہ بالکل ہی منقطع کردیا۔ زیادہ تر واقعات میں بچے ماں کا ساتھ اختیار کرتے ہیں اور باپ سے مکمل قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچے جو والدین کے درمیان مفاہمت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، خود فریق بن جاتے ہیں۔

بچوں کی تربیت اور ذہن سازی اس طرح ہونی چاہیے کہ وہ والدین میں سے ہر ایک کو اپنے لیے ناگزیر سمجھیں، دونوں سے گہری محبت کا تعلق رکھیں اور دونوں سے تاحیات وابستہ رہیں۔ جب بچے والدین سے یکساں محبت کرتے ہیں تو گھر کے بہت سے مسائل بڑے ہونے سے پہلے ہی بڑی آسانی سے حل ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے خصوصی وقت نکالیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے سلسلے میں بچوں کے ذہن کو مثبت بنائیں۔ بچوں کے سامنے ایک دوسرے کی برائی بیان نہ کریں۔ آپس کے اختلافی موضوعات پر بھی بچوں سے الگ بیٹھ کر گفتگو کریں۔

رشتے کا حق کیا ہے؟

اللہ تعالی نے صراحت کے ساتھ بار بار یہ حکم دیا ہے کہ رشتے دار کا حق ادا کرو۔ بلاشبہ رشتے دار کی مالی اعانت کرنا اس میں شامل ہے اور اس کی بہت زیادہ اہمیت اور ثواب بھی ہے۔ لیکن رشتے کا اصل حق یہ ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے۔رشتوں کی حرارت باقی رہے۔ رشتوں سے محبت کی خوش پھوٹتی رہے۔آپ کو رشتوں کی اہمیت کا احساس رہے اور آپ کے رشتے داروں کو بھی یہ محسوس ہو کہ آپ ان کے رشتے کی قدر کرتے ہیں۔ یہ رشتوں کے ساتھ انصاف کا تقاضا ہے۔

امام نوویؒ رشتوں کی پاس داری کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: (رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا رشتوں کی پاس داری ہے۔ اس میں رشتہ نباہنے والے اور جس سے رشتہ نباہنا ہے، دونوں کے احوال کا لحاظ ہوگا۔ کبھی رشتوں کی پاس داری مال و دولت کے ذریعے ہوگی، تو کبھی خدمت اور کام آنے کے راستے اور کبھی زیارت اور سلام وغیرہ سے ہوجائے گی۔ )

وَأَمَّا صِلَةُ الرَّحِمِ فَهِی الْإِحْسَانُ إِلَى الْأَقَارِبِ عَلَى حَسَبِ حَالِ الْوَاصِلِ وَالْمَوْصُولِ فَتَارَةً تَكُونُ بِالْمَالِ وَتَارَةً بِالْخِدْمَةِ وَتَارَةً بِالزِّیارَةِ وَالسَّلَامِ وَغَیرِ ذَلِكَ (شرح صحیح مسلم)

انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ رشتوں میں مساوات کا رنگ حاوی رہے۔ تعلیم، دولت، منصب اور سماجی اسٹیٹس کی وجہ سے رشتوں میں اونچ نیچ اور نا ہمواری کی کیفیت ہرگز پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ آپ کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کی وجہ سے آپ کا احترام کریں گے لیکن خود آپ کے اندر غرور کا شائبہ نہیں آنا چاہیے۔ رشتے داروں کے درمیان اپنی برتری کا اظہار کرنا بڑی بداخلاقی ہے۔ تواضع اور انکسار ہی بہتر رویہ ہے۔

یہ صحیح ہے کہ دور و نزدیک کے تمام رشتوں کے ساتھ یکساں معاملہ ممکن نہیں ہوتا ہے، البتہ رشتے داری کے ضروری بنیادی تقاضے سبھی کے ساتھ پورے کیے جاسکتے ہیں۔

عام حالات میں آپ کی والدہ کو والد کے مقابلے میں زیادہ توجہ کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ بھائیوں سے زیادہ بہنوں کا زیادہ خیال رکھنا ضروری ہوسکتا ہے۔ خود کفیل بڑے بھائیوں سے زیادہ چھوٹے بھائی جو ابھی اپنے پاؤں پر نہیں کھڑے ہوئے ہیں، آپ کی توجہ کے زیادہ مستحق ہوسکتے ہیں۔

البتہ بعض رشتوں میں آخری حد تک یکساں معاملہ مطلوب ہوتا ہے، جیسے بچوں کے درمیان اور بیویوں کے درمیان جتنی زیادہ مساوات برتی جاسکتی ہوضرور برتنا چاہیے۔

یہ بھی درست ہے کہ ضروریات کا فرق ہوتا ہے، ہر بچے کی ضرورت الگ ہوسکتی ہے اور اس کی تکمیل کے لیے درکار رقم مختلف ہوسکتی ہے، ان سب باتوں کا اعتبار ضروری ہے، تاہم یہ سب کچھ انصاف اور معقولیت کے دائرے میں ہونا چاہیے اور اس طرح ہونا چاہیے کہ کسی کو شکایت نہ ہو، سب کا اعتماد برقرار رہے۔ آخری نتیجہ حق تلفی اور نا انصافی کی صورت میں نہیں بلکہ عدل وانصاف کی صورت میں سامنے آئے۔

گھریلو نا انصافی پر مطلوبہ ردّ عمل

مشکل سوال یہ ہے کہ جب اپنے گھر کے لوگ اور اپنے ہی رشتے دار بلکہ بہت سی صورتوں میں اپنے ہی والدین نا انصافی اور حق تلفی کا رویہ اختیار کریں تو اس پر نا انصافی کا شکار ہونے والا کیا ردّعمل پیش کرے۔ بہت سے گھروں میں دیکھا جاتا ہے کہ حق تلفی اور نا انصافی کا حوالہ دے کر بہت ہی قریبی رشتے ہمیشہ کے لیے قطع تعلقی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

قرآن و سنت کی تعلیمات اس سلسلے میں رہ نمائی کرتی ہیں کہ انسان اپنی طرف سے رشتوں کی پوری پاس داری کرے۔ اگر اس کے رشتے دار اس کے ساتھ نا انصافی کا برتاؤ کرتے ہیں تو بھی وہ احسان کا رویہ اختیار کرے۔

نا انصافی کے ردّعمل میں رشتے توڑ لینا بہت آسان کام ہے۔ لیکن نتائج کے اعتبار سے یہ قابل تعریف کام نہیں ہے۔ نا انصافی کے باوجود رشتوں کی پاس داری بے شک بہت مشکل کام ہے۔ ناراض دل کو اس کے لیے آمادہ کرنا بڑا مجاہدہ چاہتا ہے۔ لیکن اللہ کی نظر میں یہ بڑی سعادت کا مقام ہے اور بڑے نصیب والوں کو حاصل ہوتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انصاف کرنے والے کا مقام بلند ہوتا ہے۔ تاہم نا انصافی کے مقابلے میں احسان کا رویہ اختیار کرنے والا کا مقام تو بہت زیادہ بلند ہوتا ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے کتنی عظیم تعلیم دی، فرمایا:

لَیسَ الوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنِ الوَاصِلُ الَّذِی إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا۔

(رشتوں کو جوڑنے والا وہ نہیں ہے جو جیسے کو تیسے کا معاملہ کرے، رشتوں کو جوڑنے والا تو وہ ہے کہ جب اس کے رشتے کو کاٹا جائے تو وہ رشتے کو جوڑ دے۔)

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایک مقام پر عدل، احسان اور رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ یأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِی الْقُرْبَى [النحل: 90]

(بے شک اللہ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور رشتے داروں کو دینے کا)

اس سے اشارہ ملتا ہے کہ رشتے داروں کے معاملے میں حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ عدل اور احسان دونوں کی خاص اہمیت ہے۔

یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ذاتی معاملے میں تو گھریلو نا انصافی کا جواب احسان سے دینا مطلوب ہے، تاہم ایک بندہ مومن کی یہ ذمے داری بھی ہے کہ وہ لوگوں کے اندر انصاف کے سلسلے میں بیداری لانے اور گھر کے ماحول کو بہتر اور انصاف پر مبنی بنانے کی کوشش کرے۔ کسی اور کے ساتھ نا انصافی ہوتے دیکھے تو اس نا انصافی کو دور کرنے کی پوری کوشش کرے۔ غرض یہ کہ نا انصافی پر صبر تو کرے، ساتھ ہی نا انصافی والی سوچ کو ختم کرنے کی کوشش بھی جاری رکھے۔

گھاٹے کا سودا کیوں کریں؟

دنیا میں کسی بھی وجہ سے کسی کے ساتھ نا انصافی اور حق تلفی کرنا گھاٹے کا سودا ہے۔ اپنے رشتے داروں کے ساتھ نا انصافی اور حق تلفی تو ہر طرح سے بڑے گھاٹے کا سودا ہے۔ دنیا کی حقیر متاع کی خاطر ایک تو دنیا میں اس کے کڑوے پھل بہتوں کو چکھنے پڑتے ہیں۔ گھر کے اندر شدید نفرت پھیل جاتی ہے اور خاندان کا شیرازہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین اور اولاد میں اور بھائی بہنوں میں دشمنی ہوجاتی ہے۔ دنیا کے نقصانات ہی بہت بڑے ہیں، پھر آخرت میں عدل کرنے والوں کو جو مقامِ بلند ملنے والا ہے، اس سے محرومی تو بہت بڑی محرومی ہوگی۔

گھر اور خاندان میں عدل وانصاف کرنے والوں کے بارے میں دربار رسالت کی یہ خوش خبری ہر گھر کی دیوار پر آویزاں ہونی چاہیے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ الْمُقْسِطِینَ عِنْدَ اللهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، عَنْ یمِینِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَكِلْتَا یدَیهِ یمِینٌ، الَّذِینَ یعْدِلُونَ فِی حُكْمِهِمْ وَأَهْلِیهِمْ وَمَا وَلُوا۔ (صحیح مسلم)

(انصاف کرنے والے اللہ کے یہاں نور کے منبروں پر رحمان کے دائیں طرف ہوں گے۔ اس کے تو دونوں ہاتھ بابرکت ہیں۔ یہ وہ ہیں جو اپنے فیصلوں میں اپنے گھر والوں میں اور اپنے زیر انتظام لوگوں میں عدل وانصاف کرتے ہیں۔ )

عدل و انصاف کو رسولوں کی بعثت کا مقصد قرار دیا گیا۔ اہل اسلام کو حکم دیا گیا کہ وہ عدل وانصاف کی گواہی دینے والے اور عدل وانصاف کو قائم کرنے والے بنیں۔

ریاست کی سطح پر عدل وانصاف کا قیام طویل جدوجہد چاہتا ہے، تاہم گھر اور خاندان کی سطح پر عدل وانصاف کا قیام مضبوط فیصلہ اور ارادہ درکار ہوتا ہے۔ کوشش کے باوجود ریاست میں نظامِ عدل قائم نہ ہوسکے تو انسان معذور قرار دیا جائے گا اور اپنی کوششوں کا ثواب پائے گا۔ لیکن گھر اور خاندان کی سطح پر عدل وانصاف نہ کرنے والے کے پاس کوئی عذر نہیں ہوتا ہے۔ گھر اور خاندان تو انسان کا اپنا دائرہ اختیار ہے، اس میں تو اسے لازمًا عدل کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔

عدل کے سلسلے میں حساسیت ضروری ہے

اس مضمون میں گھریلو ناانصافیوں کی کچھ مثالیں دی گئی ہیں، نا انصافیوں کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کے اندر عدل و انصاف کے سلسلے میں شدید قسم کی حساسیت پیدا ہونی چاہیے۔ جو لوگ صفائی کے سلسلے میں حساس ہوتے ہیں ان کی دیکھنے اور سونگھنے کی قوتیں ہر قسم کی گندگی سے انھیں آگاہ کرتی رہتی ہیں اور وہ ذرا سی گندگی سے بھی دور رہتے ہیں۔ اسی طرح عدل و انصاف کے سلسلے میں ایسی حساسیت پیدا ہوجائے کہ ذرا سی بھی نا انصافی شعور کومتوجہ کردے اور ضمیر کو جھنجھوڑ دے۔

بعض نا انصافیاں باریک ہوتی ہیں ان کی طرف توجہ نہیں ہوپاتی۔ بعض نا انصافیاں سماجی معمول بن جاتی ہیں اور نا انصافی نہیں سمجھی جاتیں، بعض نا انصافیوں کو خوب صورت توجیہ میں ملبوس کردیا جاتا ہے۔ عدل و انصاف کے سلسلے میں شدید حساسیت ایسی سبھی نا انصافیوں کو نشانہ بنانے کا کام کرے گی۔

 

مشمولہ: شمارہ فروری 2025

مزید

حالیہ شمارے

فروری 2025

شمارہ پڑھیں

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223