تصور کے اعتبار سے یہ بات بالکل درست ہے کہ علوم وفنون میں اس طرح کی تفریق کہ کوئی مجرد طور پر دینی ہے اور کوئی دنیوی ،صحیح نہیں ہے ۔ہر وہ علم جو خدا کی معرفت کا ذریعہ ہو اور انسانوں کے لئے افادیت بخش ہو اور اللہ کی بخشی ہوئی دماغی قوتوں کا مظہر ہو ،اسے حاصل کرنا ،اس سے جائز طورپر منتفع ہونا اور اس کے ذریعہ دیگر انسانوں کو فائدہ پہنچانا عین منشاءدین ہے ۔ آس پاس کا جائزہ لینے سے معلوم ہو تاہے کہ اس تصور کے مطابق ابھی عملا کسی نصاب یا نظام تعلیم کا موجود ہونا تقریبا نا پید ہے ۔ تعلیم کی اس یکجائی کے بارے میں گفتگو اور مباحثہ کو سوسال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ۔کہنے کو تو دیوبند کا بھی یہ دعوی ہے کہ ہمارے یہاں ’معقولات اور منقولات ‘ دونوں کی تعلیم ہوتی ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ معقولات سے ان کی مراد فلسفہ ومنظق ہے نہ کہ کوئی جدید علم ۔حقیقت یہ ہے کہ فلسفہ مسترد شدہ قدیم یونانی علم ہے جو پیچیدہ لجہے ہوئے ذہنوں کی پیداوار ہے ۔اور منطق ایک فرسودہ طرز استدلال کا نام ہے ۔ منقولات سے مراد آثارکا مطالعہ فقہ حنفی کے منہج کے مطابق اور مشائخ کے ملفوظات کا مطالعہ متصوفانہ نہج پر ۔ندوۃ العلماء کا ’قدیم صالح اور جدید نافع ‘کا مقولہ اپنی عملی تعبیرمیں دیوبند سے کچھ زیادہ الگ نہیں ہے ۔ سوائے اسکے کہ قدیم غیرصالح یعنی فلسفہ ومنطق کا بوجھ کم کردیا ۔ عربی ادب کا اضافہ کردیا ،جس کی حیثیت آلہ اور وسیلہ کی ہے نہ کہ علم کی ۔یہاں کا فقہی منہج بھی حنفی ہے ۔ تصوف اور روحانیت کو یہاں بھی اعتبار حاصل ہے ۔ وسیع افادیت رکھنے والے جدید علوم میںسے کوئی چیز نصاب ونظام میں نہیں ہے ۔ البتہ شبلی اور ان کے تلامذہ کے اثر سے فکروخیال کا افق وسیع ہے،زبان وبیان میں ندرت ہے۔اسلامی تاریخ وثقافت سے واقفیت نسبۃ زیادہ ہے ۔اگر جدید نافع کا یہی مطلب ہے توبلا شبہ انتہائی ناقص ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ادارے دور جدید کے زمانی تقاضے پورے کرنے لئے قائم ہی نہیں ہوئے بلکہ اپنے روایتی علم ،تاریخ اور تہذیب کے تحفظ کے لئے قائم ہوئے ہیں ۔ ہندوستان کی تین سوسالہ دینیات اور شرعیات کی سر گرمیوں کے روح رواں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے یہاںقرآ ّن وحدیث اور تاریخ کے خالص اجلے مواد کے ساتھ تصوف اور روحانیت کے دھندلے اور وہم پسندانہ خیالات توہیں لیکن ان علوم جدیدہ کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دوراول سے یہ جدیدانسانی علوم اس طرح ہمارے نظام تعلیم کا حصہ نہیں بنے جس طرح شرعی ودینی علوم بنے ۔
عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں کا نظام تعلیم بڑا جامع تھا سارے علوم پڑھے پڑھائے جاتے تھے ۔ لیکن یہ بات محل نظر ہے ۔ ہماری تاریخ کے اعلی دماغ رکھنے والے محدثین ہوں یا فقہائے عظام ، ابن تیمیہ ہوں کہ ابن حزم ،یہ اصحاب ان انسانی افادیت سے بھرے علوم کے ناقد تھے ۔ عباسی خلفاء نے کثیر سرمایہ صرف کرکے ہرطرح کی علمی کتابیں ترجمہ کرائیں ۔حکومت کی دلچسپی ترجمہ کرانے اور علوم کی منتقلی تک تھی ۔نقدوجرح اور تحقیق ونظر کا عمل ابھی باقی تھا ۔ نصوص اسلامی کے ماہرین کی نظر اس پر تھی کہ عوام الناس اس سے متاثر ہوں گے ۔ تحفظ کی ذہنیت سے انہوں نے مخالفت کی ۔اس کو پرکھنے چھان پھٹک کرنے ،اس کے حسن وقبح کو معلوم کرنیکی کوئی ذمہ داری نہیں لی ۔جس زمانے میں یہ علوم ہمارے یہاں آرہے تھے وہ زمانہ اسلامی تہذیب وتمدن کے فروغ کا زمانہ تھا، جس کی بنیاد توحید پر تھی ۔اسلام کی آمد اور تصور توحید کے عام ہونے سے مظاہر پرستی اور اشیاء کی پرستش کا زمانہ لد گیا تھا ۔ اب جو علوم وفنون وجود میں آئے اس کی بنیاد تحقیق وتسخیر کائنات پر تھی ۔دور جدید کے برخلاف،کہ آج علوم وفنون کی کمان ملحدین کے ہاتھوں میں ہے،دور وسطی میں علوم وفنوں مؤحدین کے باجگزارتھے ۔یہ حقیقت ہے کہ ایک انسان اپنے غلط افکاروتصورات کی آمیزش سے افادیت بخش علوم وفنون میں بگاڑ اور فساد ڈال دیتا ہے ۔توحید پرست باحثین اور رسرچ اسکالرس نے ان علوم میں غیر حقیقی عناصر کو کھنگال کر الگ کیا ۔حقائق اور واقعیت پر مبنی اجزاء کو اعتباریت عطا کی ۔
یونانی میتھالوجی اور فلسفہ عقلی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوئے ۔حادث وقدیم اورمادہ وروح کی بحث ، الجھے ہوئے پیچیدہ تصورات تھے ۔ ان تصورات کی روشنی میں جب عقائد پر بحث شروع ہوئی تو معاملہ الجھتا چلا گیا ۔غیبیات پر فلسفہ کی چھاپ نے سادہ عقیدہ کو پیچیدہ بنا دیا ۔علوم وفنون کے اس خلط ملط انبار میں وہ علماء جن کو رسوخ حاصل تھا ،وہ ناقد بن کر کنارے ہوگئے ۔دوسرا گروہ جو نسبۃ آزاد خیال تھا ،اس نے اس تہذیبی وتمدنی انبار علم میں سے کلیات وحقائق الگ کئے اور ان پر اپنے سائنسی علوم کی عمارت کھڑی کرتے چلے گئے ۔اس تحقیق وتفتیش کے دوران علماء اکتشاف وتحقیق نے،رسوخ علم کی کمی کی وجہ سے کچھ ایسی باتیں کہہ دیں جوالحاد وزندقہ کے کھاتے میں جاتی تھیں۔ اس وجہ سے علماء اور نصوص کے ماہرین نے ان باتوں کو دین سے ماوراء اور ان علوم کو دین سے خارج مان لیا، حالانکہ معاملہ خلط ملط تھا جس کو الگ کیا جاناتھا ۔علم نجوم اور فلکیات کا علم دو الگ چیزیں ہیں ۔طبابت میں اشیاء کی تاثیر، وہم کی بنیاد پر اور اشیاء کی تاثیر، تحقیق کی بنیاد پر،دوالگ الگ چیزیں ہیں ۔طبیعاتی دائرے کا سائنسی مطالعہ ، حقائق وتحقیق کی بنیاد پر اور قدرت کے ضابطوں کو سمجھنا اور استفادہ کی راہیں کشادہ کرنا کوئی نا مطلوب چیز نہیں ہے ، اور مظاہر فطرت اور اشیاء کی عظمت وتقدیس کے گن گاناشرکیہ نوعیت کی چیزہے ۔ تاریخ وتہذیب میں اصنام پرستی ،عیش پرستانہ اور فحش کلچروثقافت کا مطالعہ اور ان کے آثار ونشانات کی عظمت وتقدیس کا بیان الگ نوعیت رکھتاہے جب کہ ان قوموں کے فسادو بگاڑ اور تعذیب ونا کامیوں کی داستان کا بیان دوسری چیز ہے۔جب ہندویونان کا یہ خلط ملط خام مادہ اور مجموعہ اضداد رکام ان توحید پرستوں کے ہاتھ لگا جن کاذہن اشیاء کی تقدیس سے عاری ہوچکاتھا اور قرآن پاک نے ان کے اندر تحقیق وتسخیر کا پرجوش ولولہ وامنگ پیداکردیا تھا تو اہل علم میں دو طرح کا رد عمل سامنے آیا ۔ ایک گروہ نے اخذ و استفادہ اورچھان پھٹک کا انداز اختیار کیا کچھ دوسروں نے تحفظ کی ذہنیت سے کنارہ رہنا زیادہ مناسب سمجھا ۔ دور اول میں تو سب کچھ خام وخالص اپنی زبان میں منتقل کرلیا گیا ۔ دمشق وبغدادکا تاریخی زما نہ بحث وتمحیص ،نقدونظر اور ردوقْدح کا زمانہ ہے ۔مدرسہ نظامیہ بغدادیا اس نہج کے سنی الفکر مدارس علوم شرعیہ کے مدارس ومراکز تھے ۔اس طرح کے علوم کا وہاں غلغلہ نہیں تھا ۔ یہی حال فاطمیوںکے جامعہ ازہر کاتھا ۔ ازہر میں بہت بعد میں صرف اتنی تبدیلی توآگئی تھی کہ وہ شیعوں کا مرکز نہیں رہا ۔ اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے شرعی ودینی علوم کے دائرے میں کبھی بھی علوم جدیدہ کو نہیں شمار کیاگیا اور اس طور پر ان کے پڑھنے پڑھانے کی روایت نہیں بنی ۔ البتہ اکیڈمک ورک کے طور پر مہم جو افراد صدیوں اس میں لگے رہے ۔ جہاں جس مزاج اورطبیعت کے حکمراں رہے ،اس سے یہ علماء تحقیق واکتشاف فائدہ اٹھاتے رہے۔
زمانہ گذرتا رہا علماء شرع کا ایک گروہ کسی نئی چیز کو لینے کے لئے تیار نہیں ہوا بلکہ جو کچھ ان کے پاس تھا ، اس میں بھی زوال آگیا۔اب علوم شرعیہ پرنظر ڈالیں تو قرآن وحدیث کامنہج علمی بھی فقہاء و متکلمین کی کلامی موشگافیوں میں گم ہوگیا ۔کلامی جدال میں گم اور فقہی باریکیوں پر بحث کرنے والوں کی باڑھ سی آگئی تھی۔عربوں کوزبان وادب کاذوق تھا اس لئے شعراء کی اہمیت تو پہلے سے مسلم تھی اب عجمیوں کے اختلاط سے مد ح ومنقبت اوردادودہش کابازار گرم ہوا ۔ ماہرین کلام کی لفاظی اور فقہ و فتاوی کی گرم بازاری تصوف اور روحانیت کی ترویج کا باعث ہوئے۔حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ دمشق ، بغداد اور مصر جو مسلمانوں کی ابتدائی پانچ صدیوں کے اہم تہذیبی مراکز ہیں،وہاں علماء تحقیق واکتشاف کواہمیت ومرکزیت حاصل نہیں تھی ۔ان کی کاوشیں انفرادی نوعیت کی تھیں۔علمی وتصنیفی کوششیں اہم ہوتے ہوئے بھی معاشرے پر فوری اثر نہیںڈالتیں ۔اس وقت تو اور نہیں جب لوگوں کا ذوق شعروشاعری، مناظرہ بازی اور بحث وجدال کاہو ۔ اگر معاشرے کا بااثر طبقہ ایسے گروہ کامخالف ہوجائے تومعاملہ اور تنگ ہوجاتاہے ۔بس مہم جو اور حوصلہ منداور چیلنج قبول کرنے والے لوگ ہی اس کے لئے آگے بڑھتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ علوم منقح اور صاف ہونے کے بعد بھی ہمارے نظام تعلیم کا حصہ نہیں بنے، نہ نظامیہ بغداد میں ،نہ مدرسہ زیتونیہ میں اور نہ جامعہ ازہر میں ۔ایک ناقد ان مدارس کے قیام کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتاہے ’’ فاطمیوں کا مذہب کی زبان میں سیاسی استحقاق کا پروپیگنڈہ اتنا زیادہ ہوا کہ عباسی بغداد کو نظامیہ مدرسوں کی شکل میں اصحاب شرع کے ادارے قائم کرنے پڑے ۔خلافت کے عباسی دعویداروں نے نہ صرف یہ کہ فاطمیوں کیخلاف مخالفانہ پرو پیگنڈہ اور گمراہ کن فتاوی کا سلسلہ شروع کیا بلکہ کبار علمائے وقت کو باقاعدہ اس کام پر مامور کیا کہ وہ ان فاطمیوں کے حسب ونسب پر شبہات وارد کریں ‘‘۔ (کتاب العروج ۔تہذیب کے قرآنی سفر کا ایک چشم کشا تذکرہ ۔راشد شاز) ۔ جب مقاصد میں ہی کھوٹ ہو تو علمیت ، جدت اورتازگی کہاں سے آئے گی ۔ ناقد کا ایک تبصرہ اور ملاحظہ فرمائیں : ’’ …… صورتحال یہ ہوگئی کہ غزالی خود شکوہ کرتے ہیں کہ جو شخص جاہ ومنصب کا طالب ہے وہ علوم شرعیہ کی دانش گاہوں کی طرف رخ کرتاہے ۔ رہے طب اور اس جیسے دوسرے اکتشافی علوم کہ اس میں لوگوں کے لئے کوئی سیاسی وسماجی توقیر کا امکان نہیں ہے ۔ فاطمیوں کا مصر ہو یا نظام الملک کا بغداد ،دونوں کو ایسے علماء شرع کی ضرورت تھی جو مذہب کی زبان میں مؤثر سیاسی پروپیگنڈہ کا کام کر سکیں اور جو ان حکمرانوں کے سیاسی استحقاق پر بزبان شرع دلائل قائم کرسکیں ‘‘۔ (کتاب العروج )
حقیقت یہ ہے کہ ایک گروہ ان در آئے ہوئے علوم کی تلاش وتحقیق میں لگ گیا ۔یہ گروہ کوئی کم علم یا جہل کے حامل افراد کانہیں تھا ۔ ان علماء تحقیق واکتشاف نے ،جو ظاہر ہے فقہ وآثار کے علم سے بے بہرہ نہیں تھے ، انہوں نے وحی الٰہی کے قطعی علم کی روشنی میں ان تمدنی علوم پر تحلیل وتجزیہ اورتجربہ ومشاہدے کے استخراجی منہج (Deductive method ) کو استعمال کیا ۔ منہج دریافت کی اس تبدیلی نے ،جو ابھی تک محض استقرائی نوعیت ) Inductive method (رکھتی تھی ، غوروفکر کے سانچے میں فی نفسہ اتنی بڑی تبدیلی کی تھی جس نے انسانی تہذیب کی ہیئت ہی بدل کر رکھ دی ۔اس گروہ نے جدید علوم کی ہر شاخ میں بڑے پیمانے پر تحقیق ودریافت کے عمل کو جاری رکھا ۔ بعد میں اسپین میں یہ مکمل طور پر علم وتحقیق سے آگے عمومی نتائج اور فوائد کی شکل میں عام ہوگئے تھے ۔ایسا لگتاہے کہ اب یہ عمومی افادیت کی اس سطح پر آگئے تھے دیگر آفاق واقوام اس جام جم کے مشاہدے اور یہاں کے علم وفن کے ابلتے ینابیع وانہارسے فیض پانے کے لئے آنے لگے تھے ۔ابھی یہ سب ہو ہی رہاتھا کہ 1085 طلیطلہ عیسائیوں کے قبضہ میں چلا گیا ۔ الفانسو ششم نے عسکری فتح حاصل کرکے جامع مسجد کو چرچ میں بدل دیا ۔فاتح کی تمدن وعلوم کی چمک سے مسحور ومغلوب نگاہوں نے اس راز کا پتہ لگاہی لیا جو مسلم تہذیب کو غالب بنائے ہوئے تھی ۔ ڈیڑھ سوسال تک چرچ/ لائبریری کی یہ عمارت یورپ کے پہلے دار الترجمہ کے طور پر کام کرتی رہی ۔ یہ عجیب المیہ ہے کہ طلیطلہ کے اس غیر متوقع سقوط نے عرب تہذیب کا پھلتا پھولتا گہوارہ عیسائیوں کے حوالہ کردیا ۔ مسلمانوں کی آمد صقلیہ میں 652 ہوئی ،ریاستی غلبہ 827 میںہوا، سقوط ہوا 1091 میں ۔عیسائی لوگ حیران رہ گئے کہ جزیرے میں رصد گاہیں قائم ہیں ،تعلیم وتعلم کابازار گرم ہے بلکہ مسجد کے مناروں پر نصب آلات سے فلک پیمائی اور مشاہدہ کائنات کا کام لیا جارہاہے۔ صقلیہ ایک تجارتی بندرگاہ بھی تھی ،جس کی مرفہ الحالی میں مشرق ومغرب کے عرب ،یہودی اور عیسائی تاجروں کا مشترکہ حصہ تھا ۔ اسلامی تہذیب سے مرعوبیت اور جدید علم سے استفادہ کے شغف کی وجہ سے شاہ روجر ثانی( 1154-1130 ( نے ممتاز عالم اکتشاف شریف ادریسی کو تمام اکرام علمی کے ساتھ صقلیہ آنے کی دعوت دی ۔جغرافیہ پر اس کی معرکۃ الآرا کتاب نزہۃ المشتاق فی اختراق الآفاق اسی جگہ لکھی گئی اور اس کا بنایا ہوا خریطہ عالم صدیوں متداول رہا۔
اس تجزیہ سے اتنی بات تو روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلمانوں کے گہوارہ میں جو متنوع علوم پروان چڑھے وہ دراصل قرآن کے دئے ہوئے تصور توحید اور کون ومکاں کی تسخیر وتحقیق کے نتائج تھے ۔ عیسائئیوں نے مسلمانوں کے علوم وفنون اور نتائج فکرکے ایک جزوی حصے کو اپنے ہاں منتقل کیا۔حاصل کلام یہ ہے کہ جدید علوم وفنون ،جن کی آبیاری مسلم علماء اکتشاف وتحقیق نے کی ،یورپی تہذیب وتمدن اوران کے نظام تعلیم کا لاینفک حصہ بن گئے جن کو ہم ابھی تک اپنے نظام تعلیم کا حصہ نہیں بنا پارہے ہیں ۔ علماء شرع نے ان علوم کو دینی وشرعی علوم میں داخل ماننے سے انکارکیا ۔لیکن علماء تحقیق واکتشاف نے ان علوم کو شریعت کی روشنی میں منقح کیا اور شرعی ودینی ضرورت سے ان کو اہمیت دی ۔ بلکہ یہ بات مسلم ہے کہ یہ لوگ بھی فقہ وشریعت کے ویسے ہی رمز شناس تھے جیسے کہ خاص علماء شرع وفتاوی تھے۔البیرونی نے تعیین قبلہ کی دینی ضرورت سے شہرہ آفاق کتاب ’تحدید الاماکن لکھی ۔ماہر ریاضی داں الخوارزمی کے پیش نظر کتا ب الجبروالمقابلہ لکھتے وقت وراثت کے پیچیدہ مسائل تھے جن کی پیچیدگیوں کو حل کرنے کی تاب مروج ریاضی میں نہیں تھی۔الخوارزمی نے اور کتاب الزیج کے مصنف البتانی ،دونوں نے اپنی ان کاوشوں کے عوض اللہ رب العزت سے بہترین صلہ کی امید کی ہے۔ابن النفیس دنیائے طب کا مایہ ناز فرد ہے جس نے دنیائے طب کوانقلاب انگیزتبدیلی سے دوچارکیا ،وہ فقہ شافعی کے اساطین میں تھے ۔ نصیر الدین طوسی جنہوں نے ایک متبادل نظام کائنات کا تصور پیش کیا،ان کا شمار اپنے عہد کے کبار اسماعیلی فقہاء میں تھے ۔رشید الدین قطب شیرازی مراغمہ کی رصدگاہ سے وابستہ رہے ۔طوسی کے تذکرہ پر نہ صرف شرحیں لکھیں بلکہ اس فن پر طبع زاد کتابوں کااضافہ کیا ،اسی کے ساتھ شیراز کی مقامی عدالت میں قاضی کے منصب پر بھی فائز رہے ۔ان کے قلم سے جامع اصول الحدیث ،شرح السنۃ اور فتح المنان فی تفسیر القرآن جیسی وقیع کتابیں نکلیں ۔ نظام الدین نیشاپوری جو اپنی سائنسی تالیف شرح التذکرہ اور شرح المجسطی کے حوالہ سے شہرت رکھتے ہیں ،وہ بیک وقت غرائب القرآن ورغائب الفرقان کے مصنف بھی ہیں ۔ابن شاطر جن کی تحریروں سے مغرب میںنئے نظام کائنات کی بحث شروع ہوئی اور جن کے سرقہ سے کوپرنیکس کو مغرب میں جدید دنیا کابانی مبانی سمجھا گیا وہ دمشق کی مسجد اموی میں مؤقِّت کے عہدہ پرمامور تھے۔ ابن رشد بدایہ المجتھد کے مصنف ہیں ۔اشبیلیہ اور قرطبہ میں عہدہ قضا سے وابستہ تھے ۔
عجیب المیہ ہے کہ جب یہ علوم اپنی جڑ سے کٹ کر مغرب میں لگائے گئے تو اب یہ ان الحادی ہاتھوں کاکہلونابن گئے ۔یہ ضرور ہوا کہ یورپ نے ان علوم سے کلی فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے اعتقادی گورکھ دھندوں، مذہبیات اوروہمیات کو خانہ تاریک میں عزلت نشین کردیا ۔ یورپ میں سائنس واکتشاف کے ماہرین نے کشمکش اور انتھک محنت کرکے امراء،تاجروں اور سرمایہ سے گٹھ جوڑ کرکے تہذیب وتمدن کی تیز رفتا گاڑی پر سوار ہوگئے ۔اس بے مہار مرکب سواروں سے دنیا کیسی تعذیب اور اذیت کا شکارہے ۔کیا توحید پرستوں کے ہاتھوں جب اس مرکب کی مہارتھی ،اس وقت بھی معاملہ ایساہی تھا ؟ یقینا نہیں ۔یہ الگ موضوع ہے آج کی محفل اس کے لئے مناسب نہیں ہے ۔ البتہ ایک بات کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یورپ کا ایک گرو ہ تو مادہ اور ثروت کی تیز رو سواری پر سوار ہوکر ساری دنیا پر اپنی کمندیں ڈال رہاتھا اور دوسرا گروہ مشنریز کی شکل میں مقابلہ کے لئے نکلا ۔علماء کا ایک گروہ مناظروں میں الجھ کر ادائیگی فرض سے اپنے آپ کو سبکدوش سمجھنے لگا ۔
اب ہم اس موضوع پر آتے ہیں کہ جب ان علوم کو، گہوارہ غیریعنی یورپ میں ملحد وخدا بیزار ہاتھوں میں پرورش پاکر،گھر واپس لا یا گیا تو پھر عجیب وغریب صورتحال پیش آئی۔پھر علماء شرع نے اس آئے ہوئے آمییزہ کو ماننے اور پہچاننے سے انکار کردیا ۔پہلے سے علماء شرع اپنے پاس موجود علوم شرعیہ کے حصہ کو کل مانے ہوئے تھے۔ اور اس وجہ سے بھی کہ جو مسحور کن اور مرعوب ہاتھ اس کو لارہے تھے وہ امت کے زوال کے علاج کے لئے اسی کو سب کچھ سمجھ رہے تھے ۔ سر سید کو جلد بازی اتنی تھی کہ ان علوم کو اخذ کرنے کی شرط ہی اجنبی زبان سیکھنا قرار پاگئی ۔اب ان علوم کے سیکھنے کا بار براہ راست کچا ذہن رکھنے والے طلبہ پر ڈالدیاگیا ۔زبان اجنبی تو استاد بھی اجنبی ۔دور اول میں بھی مسلمانوں نے علوم کوپہلے اپنی زبان میں لیا ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کی تشکیل کے وقت اس بات کو درست کرنے کی کوشش کی گئی ۔
اس کا فائدہ یہ ہوا کہ علوم کی کتابیں ترجمہ ہوکر نصاب میں داخل ہوئیں ۔مطلوب علم کی یافت ،زبان اپنی ، استاد اپنا ، آسانی سے مطلوب چیز کاحصول ۔زمانہ نے مہلت نہ دی اور یہ سب کچھ معطل ہوگیا ۔عملا جزء کو کل بنالینے کا نتیجہ ہے کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو اپنی تعمیرات ،عمارتوں ،شعبوں اور دن بہ دن ترقیوں کے لئے معروف ہے وہیں شرعی علماء اور اساتذہ کو ایک گوشہ پکڑادیاگیاہے ۔ایک کوٹھری میں دیوبند سے آئے مولوی صاحب بیٹھتے ہیں ۔ آج بھی کوئی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کو دیکھے تو عبرت کے لئے کافی ہے ۔علوم وفنون کے شہر بہاراں میں ایک کنارے کی جگہ میں بیٹھے مولوی صاحب اور ان کی معمولی سی ٹیم ۔ اس نمونے پر بلکہ اس سے بھی بہت بری حالت پر ہیں ہمارے بعد کے جدید تعلیمی ادارے ۔ایسے بھی ہم لنگڑے اور ویسے بھی لنگڑے ۔ ترقی کے نعرے اور دعوے ،بلندیوں کی شیخیاں اور ڈینگییں باقی ہیں ۔خداکے دین نے ہم سے لنگڑا بنے رہنے کے لئے نہیں کہا تھا ۔ہم نے خود لنگڑوں کی دنیا آبادکی ہے ۔اس تجزیہ میں،میں نے یہ عذر نہیں چھوڑا کہ ہم ایک دوسرے کو کچھ کہہ سکیں ۔ تمثیلی پیرائے میں، میں نے یہ بات کہی صحیح سالم دھڑ میں جب تک دوتندرست وتوانا ٹانگیں نہیں لگیںگی آدمی چلنے اور دوڑنے اور کچھ کرنے کےلایق نہیں ہوگا ۔یہ رونا بہت ہوگیا کہ مدرسہ والے یہ نہیں کرتے اسکول والے یہ نہیں کرتے ۔ جب ہم فرد کے حصے بخرے نہیں کرتے تو ا س کی ضرورت کے بھی حصے بخرے نہیں کرسکتے ۔ جس کو توقیق ملے اور جوکر سکے اسے ایساہی کرنا ہے ۔ہماری موجودہ صوتحال کی داستان کوئی افسانہ بناکر لکھ دے توہنس ہنس کے لوگ دہرے ہوجائیں لیکن سمجھتا کون ہے ،بس شاید وہی جو حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں ۔ایک صاحب یوں فرماتے ہیں کہ ماشاء اللہ بڑی کوشش کے بعد Campion/ All Saints میں داخلہ ملا ہے ۔جی مولوی صاحب رات آدھا گھنٹہ سیپارا پڑھانے آتے ہیں ۔ بچہ ٹیوشن جانے لگا ہے ۔ اب مولوی صاحب ہفتہ میں صرف دو دن آتے ہیں ۔چھٹیوں میں محنت کروالیں گے ۔ دوسال ہوگئے ابھی سیپارہ شروع نہیں ہوا،نماز تو لوگوں کو دیکھکر آجائے گی ،ابھی فرض تو ہے نہیں ۔ارے امام صاحب کہہ رہے تھے فکر نہ کریں ذرابڑا ہوجائے گا جماعت میں بھیج دیجئے گا سب آجائے گا ۔ ایک دوست نما شخص کہنے لگے ارے مولویوں کوبھی کچھ نہیں آتا لٹریچر پڑھنے سے اردو بھی آجائے گی اور علم بھی آجائیگا ،ایک دو مثالیں بھی گنوادیں ۔آپ کو لگ رہاہوگا میں وقت ضایع کررہاہوں ۔یہ حقائق ہیں جو میں بتارہاہوں ۔
اب میں اصل مدعے پر آتاہوں ہمیں یہ بات مان لینی ہے کہ سیٹ کی ہوئی جدید تعلیمی نظام کو ہمیں اختیار کرنا ہی ہے اس سے مفر نہیں ۔ ہم ذمہ داری سے بھاگ نہیں سکتے۔اسی طرح ہمیں اپنے مسلمان ہونے کی قیمت بھی اداکرنا ہے یہ ضرورت کے درجہ میں نہیں بلکہ اہمیت کے اس سے اونچے درجہ میں ہے ۔ اب ہم جدید تعلیم کے نشونما اور ارتقاء کی نسبت سے کچھ گفتگو کریں گے تاکہ ہمارے سامنے یہ بات آئے تو کس چیز سے بے نیازی کی بات چل نکلی ہے؟ کیا چیز ہے جو اجنبی معلوم ہورہی ہے اور جن سے ہم اب تک بھاگ رہے ہیں ؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپناہے جو کھو گیا تھا ۔کھوئی ہوئی چیز کے ملنے پر زیادہ قدر ہوتی ہے ۔اب ہم ایک ایک مسئلے کو لے کر محاکمہ کرتے ہیں ۔
(۱)زبان : زبان کا تو کوئی مسئلہ نہیں جیسی مادری زبان اردوویسی ہی عربی و انگریزی ۔ اس پہلو سے یقینا گفتگو ہوسکتی ہے کہ بچپن سے ذریعہ علم مادری زبان کے علاوہ کوئی اور زبان ہو۔علم جو مطلوب شيٗ ہے کیا اسے مادری زبان کو معطل بناکر کماحقہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔سائڈ سے ایک زبان کی حیثیت کوئی اجنبی زبان سیکھنا الگ ہے ۔ اس لئے زبان کاتعلق جدید وقدیم سے کچھ بھی نہیں ہے ۔بلکہ تدریج کے ساتھ زیادہ زبانیں سیکھنا استفادہ کے مواقع کو بڑھانا ہے ۔
(۲) منہج علمی یا تجربی علم : سائنس میں منہج علمی کی بنیاد مسلمانوں نے ڈالی ۔عربوںکا کارنامہ صرف اتنا نہیں ہے کہ انہوں نے یونانی علم کوبذیعہ ترجمہ یورپ کی طرف منتقل کیا ۔یونانی فلسفیوں سے جوکچھ عربوں کو ملاتھا وہ نظری بحثیں تھیں نہ کہ تجربی علم ۔انہوں نے یونانیوں سے سائنس نہیں پائی تھی ۔ سائنس یا تجربی علم مسلمانوں کی ایجادہے ۔وہ اس علم تک تاریخ میں پہلی بار پہنچے ۔اور دوسری اقوام کو(بشمول یورپ) اسے منتقل کیا ۔ مسلمانوں نے اپنے اس سائنسی یا علمی منہج کی بنیاد،قیاس مع الفارق سے استخراج یاتوہمات کے بجائے مشاہدے اور تصدیقی تجربے پر رکھی گئی ۔ظن وتخمین سے ہٹ کر تجربے اور مشاہدے کی یہ ڈگر آنے والے دنوں میں رصدگاہوں پر منتج ہوئی۔کیا یہ وہ علمی منہج نہیں جس کی ترغیب ہمیں قرآن نے دی ہے ۔اس منہج علمی کو اختیار کرکے علماء اکتشاف نے کیا حاصل کیا ۔میں اسکی چند مثالیں دیتا ہوںجس سے فائدہ اٹھاکر دنیا نے ترقی کے زینے چڑھے ۔ہم بھی غور کریں آخر ہم کس چیز کی سزا بھگت رہے ہیں؟
(۳)جدید علم میں ریاضی ام العلم ہے ۔مسلمانوں کے لئے دور اول سے یہ علم سادہ اور دین وشریعت کے مزاج سے میل کھاتاتھا ۔ الخوازمی (780-850 (نے ہندستانی پنڈت کی کتاب سدھانتا کا عربی ترجمہ پڑھ کرہندی ہندسہ کو اختیار کرنے کی اپیل کی ۔ الخوارزمی نے صفر سے ۹ تک کے ہندسوں میں بڑی سے بڑی گنتی لکھنے اور اس میں مختلف طرح کے حسابی تصرفات کے امکان کی ایک نئی دنیا آباد کردی ۔الخوارزمی کے لاتینی ترجمہ سے گنتی کا یہ فن یورپ پہنچا ۔یورپ میں اسے عربی گنتی کا نام دیا گیا ۔ولفرڈ بلنٹ نے لکھا ہے کہ مغرب میں سائنس کی ترقی کو اتنا کسی چیز نے نہیں روکا جتنا بے ڈھنگے رومی ہندسہ نے ۔ زیرو کے نظریہ کی مقبولیت انڈیا میں اسوقت بڑھی جب کہ اولا عربوں نے اور پہر یورپ نے اسکو اختیار کرلیا ۔(اسلام دور جدید کا خالق ) ریاضی کا علم الخوارزمی کی کتابوں کے ترجموںسے جیسے جیسے عام ہوتا گیا اہل مغرب کے لئے کائنات کی تفہیم آسان ہوگئی۔ الخوارزمی کی کتاب الجبروالمقابلہ کی اشاعت کے بعد امکان پیدا ہوگیا کہ حق کی تلاش کے عمل میں ہندسوں کے علاوہ حروف کی ایکویشن سے بہی مدد لی جاسکتی ہے ۔یہ منہج جس کے دم سے آج کمپیوٹر کی دنیا قائم ہے ،اہل حق کے لئے تلاش حق میں بڑی معاون ثابت ہوئی ۔ یہ ایک طرح کی نئی تجزیاتی زبان تھی ،جس کے مالہ وماعلیہ کو قطعیت کے ساتھ پرکھا جاسکتاتھا ۔ الخوارزمی کے سو سال بعد احمد الاقلیدس نے کتاب الفصول فی الحساب الھندی لکھکر کسر اعشاریہ Decimal fraction کے جوڑ گھٹاو کا طریقہ ایجاد کیا ۔تیسری صدی میں ریاضی کے علم نے اتنی وسعت اختیار کرلی کہ تفریقی مساوات Differential equation اور تکمیلی احصاء integeral calculation کا استعمال عام ہو گیا ۔ریاضی کے سائنسی زبان کے اظہار کی بنیادی زبان بن جانے کے سبب نہ صرف یہ کہ کوپرنیکس اور نیوٹن کائنات کو ایک میکانکی ماڈل کی حیثیت سے متصور کراسکے۔بلکہ سماجی علوم کو اعتبار بخشنے میں اعداد وشمار کے حصول اور اس کی تعبیرات نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ۔(کتاب العروج ّ۔تہذیب کے قرآنی سفرکا ایک چشم کشا تذکرہ )ایسا نفیس اور ضروری علم کس دلیل سے ہماری روایات سے خارج ہوگیا ۔
(۴)علم فلکیات : ابو بکر زکریا رازی اور البیرونی نے ارسطو کے فرسودہ تصور تخلیق کو رد کیا ۔ عبد الرحمٰن الخازینی نے پہلی بار دنیا کے سامنے مرکز کشش ثقل کا وہ نظریہ پیش کیا جس نے آنے والی نسلوں کے لئے سائنسی فتوحات کے دروازے کھول دئے ۔ابن الہیثم بطلیموس کے فلکیاتی نظریہ کو بے اصل مانتا تھا۔بقول بطروجی بطلیموس کا قائم کردہ ماڈل رصدی وحسی مشاہدے سے مطابقت نہیں رکھتا ۔اور یہ کہ اس نے جو کچھ بھی لکھاہے اسکی بنیاد توہم ہیں۔ابن الہیثم کا اجتہادی بصیرت لئے ہوئے یہ بیان کیا انمول قیمت رکھتاہے ۔’’ حقائق شبہات میں ڈوبے ہوئے ہیں لہٰذا طالب حق وہ نہیں ہے جو متقدمین کی کتابوں کا محض قاری ہو اور ان پر حسن ظن میں اپنے طبعی رجحانات کے ساتھ بہہ جائے بلکہ طالب حق وہ ہے جو ان کے بارے میں اپنے ظن پر بھی شک کرے ۔ اگر وہ اس روش کو اختیار کرسکے تو حقائق اس پر منکشف ہوسکیں گے اور متقدمین کے یہاں جو امکان کوتاہی یا اشتباہ رہ گیا ہوگا،اسے نظرآجائے گا ‘‘۔ اس منہج علمی کا پہلا ثمر جو مسلمانوں کی جھولی میں گرا وہ خط استوا کے طول کی پیمائش تھی ۔ اس پیمائش سے خط استوا کا طول 40,253 کلو میٹر دریافت کرلیا جو غیر معمولی طور پر محتاط پیمائش کی ایک کامیاب مثال تھی ۔پھر کیا تھا جلد ہی الزیج الممتحن کے نام سے فلکیات کی جدولیں تیار ہونے لگیں اور یہ کوشش ہونے لگی کہ دنیا جیسی کہ وہ ہے اسے ٹھوس علمی بنیادوں پر ایک نقشہ کی شکل میں مرتب کردیا جائے ۔البیرونی کی شہرہ آفاق کتاب تحدید الاماکن ، جس کاحوالہ اوپر آچکاہے ،اس نے محیط ارضی کی پیمائش کا یک اور طریقہ دریافت کرلیا ۔ یہ بات بھی اوپردرج ہو چکی کہ عیسائی شہنشاہ روجر کی فرمائش پر خریطہ عالم کی ترتیب کے ساتھ نزہۃ المشتاق فی اختراق الآفاق تالیف کی عمرخیام نے برہا برس کی محنت شاقہ کے بعد1079 ایک سال کی طوالت 365,242198 دنوں پر محمول کی جو جدید تحقیق سے حیرت انگیزطور پر قریب ہے ۔
(۵) علم الکیمیا : جابربن حیان نے اس خیال کا اظہار کیا کہ خواص اشیاء کی عددی تاویل اگر مہیا کی جاسکے تو اشیاء عالم کے لئے ریاضیاتی حتمیت کی میزان کا حصول قائم کرنا ممکن ہو سکے گا ۔ اس نے یہ دعوی کیا کہ یہ اصول اشیاء اور اس کے داخلی ہم آھنگی کے نظام کی وضاحت کرتاہے ۔ اس اصول کی دریافت سے الکیمی جیسا محبوب مشغلہ بھی شک کے دائرے میں آگیا ۔ الکیمی کے بجائے علم کیمیاء کی بنیاد پڑی ۔جابرنے تمام کیمائی مظاہر کو قانون الاسباب کا تابع بنایا اور اس خیال کا اظہار کیا کہ انسانوں کے لئے ان اسباب کا پتہ لگانا عین ممکن ہے ۔ بقول جابر اشیاء کے خواص اس کے اندر پائے جانے والے مختلف اجزاء کے تناسب پر منحصر ہیں ۔آگے چل کر جابر کا یہ کلیہ Law of Proportion کے نام سے مشہور ہوا ۔یہ کلیہ ’المیزان‘ نظام کائنات کے ایک ایسے مجرد اساسی اصول کی حیثیت سے سامنے آیا جس کی بنیاد پر پوری کائنات کی ریاضیاتی توجیہ کے امکانات روشن ہوگئے ۔جابر، جسے آج بھی بابائے کیمیا کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے ،اس نے تجربات کو علم کیمیا کی بنیاد قرار دیا ۔اس نے پہلی بار معدنیات سے تیزاب تیار کئے ۔تیزاب کے اثر کو زائل کرنے کے لئے الکلی ایجاد کی ۔علم کیمیا کی ان ایجادات نے آگے چل کر مصنوعی کھاد ،پلاستک کے سامان بلکہ سینتھٹک اشیاء کی دنیا بنانے میں کلیدی رول انجام دیا ۔
(۶)علم بصریات : بصریات کے بارے میں سمجھا جاتاتھا کہ اشیاء کے دکھائی دینے کا عمل بینائی کا آنکھ سے نکلکر اشیاء کی طرف جانے کا سبب ہے ۔رازی نے اس خیل کا اظہار کیا کہ صورت حال اس کے بر عکس ہے ۔غالبا وہ پہلا طبیب ہے جس نے یہ رائے قائم کی کہ آنکھ کی پتلی اس میں داخل ہونے والی روشنی کی مناسبت سے پھیلتی یا سکڑتی ہے ۔ابن الہیثم، جسے قانون انعطاف Law of retrection اور قانون انعکاس Law of reflection کی دریافت کا اعزاز حاصل ہے ، نے اس بات کے تجرباتی شواہدفراہم کئے کہ کسی شیء کو دیکھنے کے لئے روشنی آنکھوں سے نہیں نکلتی بلکہ باہر سے آنکھوں کے اندر داخل ہوتی ہے جس سے آنکھ کے اندر اس کی تصویر مرتب ہوتی ہے اور اس طرح دیکھنے پر قادر ہوتے ہیں ۔یہ دریافت آگے چل کر بصریات کے قوانین مرتب کرنے اور دور بین کی ایجاد میں ممدومعاون ہوئے ۔البیرونی نے روشنی کی رفتار کو آواز سے تیز تر ثابت کردکھایا اور خود ابن الہیثم نے دنیاکو پہلی بار اس حقیقت سے باخبر کیا کہ روشنی کی رفتار بھی محدود ہے ۔اسے بے زماں قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ابن الہیثم کو آج بھی بابائے بصریات یا با با ئے طبیعیات کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ۔
(۷) علم طب :فنی التباسات اور مذہبی توہمات کے اس ماحول میں مسلم علمائے اکتشافات نے دنیائے طب میں بھی تجربات ومشاہدات کی قندیلیں روشن کیں ۔رازی (پ۔۸۶۵) نے اپنی کتاب ’مشکوک ‘ لکھ کر جالینوس کو ہمیشہ کے لئے پاش پاش کردیا ۔رازی نے پہلی بار چیچک اور خسرہ کے فرق کو واضح کیااور اس فن پر چند کتابیں لکھیں ۔ اس کے علاوہ اس نے جملہ امراض اور اس کے علاج پر مشتمل الحاوی کے نام سے تیئس جلدوں میں دنیائے طب کا ایسا خزینہ مرتب کر ڈالا جس کی مثال اس سے پہلے انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ ابو الحسن الطبری نے خارش کے سبب اواس کے جرثومے سے پہلی بار دنیا کو باخبر کیا ۔ ابن سینا نے تپ دق کے متعدی ہونے کی بات کہی اور اسی صدی میں ابو القاسم الزھراوی نے دموی امراض کا پتہ لگایا ۔پانچویں صدی میں عبد الملک بن زہر نے دنیاکو غلاف قلب کے اورام سے آگاہ کیا ۔الحاوی کی اشاعت کو ابھی ڈیڑھ صدی گزری ہوگی کہ ابن سیناء نے اپنا نیا شہرہ آفاق مخزن طبی ،القانون فی الطب شائع کردیا ۔اس نے صدیوں مشر ق ومغرب میں اہل فن کی رہنمائی کی اور مغرب کی دانش گاہوں میں کوئی پانچ چھ سوسال تک اسے طب کی ام الکتب کی حیثیت حاصل رہی ۔ ابن سینا کے معاصر ابو القاسم الزھراوی( م۔۱۰۱۳ ) نے کتاب التصریف لمن عجز عن التالیف کے نام سے تیس جلدوں میں ایک ایسے مخزن طبی کی تالیف کی جس میں دنیائے طب کا عطر کشید کر لیا گیاتھا ۔اس کتاب کی چھبیس جلدیں علم الادویہ سے متعلق تھیں جب کہ آخری جلد صرف سرجری کے لئے مختص کی گئی تھی ۔
مندرجہ بالا سائنسی علوم کی مختلف شاخوں ،فلکیات، ریاضیات،کیمیا،بصریات اور طب کے بارے میں مسلم علمائے اکتشافات کے کارناموں کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے ۔کیا یہی وہ علوم ہیں جنہیں جدید کہہ کر علوم شرع کا حریف سمجھا جانے لگا ۔سماجیاتی علوم پر ابھی گفتگو باقی ہے وہ کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتاہوں ۔
پھر سوال کیا جا سکتاہے کہ’ معقولات ‘ کے نام پر فلسفہ ومنطق کی اصطلاحات سے متعارف کرانا محض خود فریبی ہے یا اپنی تاریخ وتہذیب سے اور زمانے کی ضرورت سے جہل ہے یا اپنی ذمہ داری سے فرار ہے ۔ایسی معقولات کو پڑھانا انتہائی نامعقولیت ہے ۔علم جدید کے علم بردار اور ثروت سے مالاما ل یورپ نے مبشرین ومبلغین کو مسترد کئے ہوئے مذہب کی تبلیغ وتبشیر کے لئے مغلوب قوموں کی طرف روانہ کیاعلماء کو ایک بساط، میدان مناظرہ کی اورمل گئی خاصا وقت اس میں گذر گیا ۔پھر سوال کیا جاسکتا ہے کہ’ جدید نافع‘ میں وہ کون سے علوم ہیں جومعقولات کے فرسودہ بوجھ کو کم کرکے رائج کئے گئے ہیں ۔ یہ بات بہرحال کہی جاسکتی ہے کہ سرسید نے اپنے تخیل کی دنیا بنا لی اور اس کے وہ نتائج بھی ظاہر ہوئے جو ان کے تصور میں تھے ۔ انیسویں صدی کے خاتمہ اور بیسویں صدی کے شروع میںشبلی وفراہی کے جسد میں دو بے چین روحیںتڑپتی نظر آتی ہیں ۔یہی تڑپ انہیں سرسید کا معاون بنا دیتی ہے ۔سر سید سے پورے طور پر متفق نہ ہوتے ہوئے بھی بلا مخالفت اس مشن میں شامل رہے ۔دونوں نئے نصاب ونظام تعلیم کے لئے مسلسل سرگرداں نظر آتے ہیں ،علی گڑھ کا لنگڑا پن انہیں بے چین کئے ہوئے تھا ۔شبلی نے ندوۃ العلماء کو اپنے تخیل کا عملی میدان بنانا چاہا۔ فراہی کو حیدرآباد میں اپنے تخیل کے مطابق عثمانیہ یونیوسٹی میں تجاویز کی شکل میں دخل دینے کا موقع ملاکہ تعلیم جدید کا ذریعہ تعلیم اردو ہو لیکن دینی تعلیم کے لئے وہاں بھی کوئی جگہ نہیں تھی۔آخر میں شبلی وفراہی نے اپنی دنیا بنانا چاہی ۔آخری زمانے کے ایک مکتوب میںشبلی فراہی لکھتے ہیں ۔
’مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اور نشنل اسکول ،کم ازکم دونوں کی جداگانہ پوزیشن قائم ہونی چاہئے اوران کا باہمی تعلق ہو ‘‘ ۔ شبلی نے آخر میں اپنا ا حساس اور تجربے کا نچوڑ بتادیا ۔ فراہی صاحب پرجدید تعلیم کا ضرورت سے زیادہ غلبہ نہیں تھا۔ انہیں زیادہ احساس دینی وشرعی علوم کی اصلاح اور ان کی از سر نو تدوین کا تھا اس کے لئے انہیں ٹیم چاہئے تھی ۔مدارس کا حال یہ تھا کہ ان پر تاویلات ،تعبیرات اور کلامیات کا اتنا بوجھ تھا کہ مزیدتعلیم جدید کا بوجھ کیسے سنبھال سکتاہے ۔ممکن ہے یہی احساس ان کارہا ہوکہ انکے اندر اتنے بار کوسنبھال پانے کی نہ سکت ہے اور نہ ٹیم ہے ۔اقرب یہی معلوم ہوتاہے ۔کیونکہ ان سے زیادہ جدید تعلیم کا واقف کار کوئی نہیں تھا۔ لیکن وہ ایک مدرسہ میں بیٹھ کر اپنا کام کرکے چلے گئے۔
جب معاملہ اتناواضح ہوتو کوئی متعین پلان بنانااور اس کو رائج و نافذ کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔تصور وپلان کا واضح ہونا اول ہے ۔الحمد للہ ہمیں یہ نعمت حاصل ہے ۔وسائل کی قلت و کثرت اضافی ہے ۔ہم نے یہ طے کیا ہے کہ اسکول کے سیٹ نظام کو نہیں چھڑناہے ۔حتی کہ اگر انگلش میڈیم اسکول ہے تو بھی مطلوب ہے کیونکہ بنیادی سبجیکتس سب کے سب لازمی اور ضروری ہیں اب صرف معیاری دینی تعلیم کی شمولیت کا مسئلہ رہ جاتا ہے ۔ہم نے یہ طے کیاتھا ایک مرتبہ اسکو ہم تناسب اورفارمولوں کی روشنی عمل میں لے آئیں گے پھر دکھانے کا، مشورے کا اور ترمیم وتنسیخ کے عمل کے لئے کھولیں گے ۔ اوپر کی گفتگو اور حالات کا تجزیہ محض اپنے حوصلے اور ہمت کو بڑھانے کے لئے ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم معمولی درجہ کے مدرسین کا ایک گروہ ہیں جو کچھ تجربے کر رہے ہیں۔میں نے پچھلے سال مجلس شوری کے اجلاس میں ہمارے پلان کا خلاصہ پیش کیاتھا ۔اسی لکھی روداد کو میں یہاں پیش کرتاہوں ۔ہماری تعلیمی اسکیم میں اس وقت جدید تعلیم اور دینی تعلیم کوضم کرنے کے تین فار مولوں پر عمل ہو رہاہے ۔ انشاء اللہ مستقبل میں مزید دو فارمولوں پر عمل کا ارادہ ہے ۔یہ فارمولے اصلا مرکبات(Compound ( بنانے کے فارمولے ہیں ۔
فارمولا نمبر 1اس میں تناسب یہ ہے کہ 2/3 حصہ وقت کا عصری تعلیم کے لئے ہوگا ،میڈیم انگلش زبان ہوگی اور 1/3 حصہ وقت کا دینی تعلیم کے لئے ہے۔ وسیلہ تعلیم ۔اردووعربی ۔اس اصول پر الحکمہ پبلک اسکول میں عمل ہورہاہے ۔ان شاء اللہ یہ تجربہ اگلے سال 10th کلاس تک مکمل ہو جائے گا ۔ ( یہ بیان گذشتہ سال کا ہے ۔یعنی اس سال یہ تجربہ مکمل ہوگیا ۔ الحمد للہ )۔
فارمولہ نمبر 2 اس تجربے کی نوعیت یہ ہے کہ عصری ودینی تعلیم کے اوقات کا تناسب 1/2 + 1/2 اس پر عمل مدرسۃالحکمہ میں ہو رہاہے ۔ اس میں کچھ زیادہ عمر کے بچے آجاتے ایک مستقل اعدادیہ کلاس ہے جو کسی بھی کمزور سبجیکٹ کی اضافی تیاری کا کلاس ہے ۔ پرائمری میں تین کلاس انگلش زبان اور میتھس ،انگلش میڈیم اسکول کی سطح سے ۔دیگر علوم پرائمری میں اردو میڈیم سے ، مڈل کے کلاسیز دوسال میں انگلش میڈیم سے ۔9th اور10th الحکمہ پبلک اسکول کے ساتھ شامل ہو ۔مدرسہ کا نصاب سیٹ ہے ۔
فارمولہ نمبر 3 اس فارمولہ پر ’کریسنٹ پبلک اسکول‘ میں عمل ہو رہاہے ۔اس میں تناسب 1/4 + 3/4 کاہے ۔ یعنی 1/4 دینی تعلیم وعربی زبان اور3/4 حصہ وقت کا عصری تعلیم ۔ فارمولہ نمبر 1 اور 2 دینی تعلیم کا نصاب ایک ہے لیکن اس میں تجربے میں دینی تعلیم کے لئے وقت کم ہے ، معاملہ براہ راست نہیں ہے ۔ نظام الاوقات کی تقسیم اور نصاب کی تعیین۔تحدیداتوتعیینات
فارمولہ نمبر 4 ہمارا چوتھا تجربہ یہ ہوگا کہ الحکمہ پبلک اسکول اور مدرسہ الحکمہ کے طلبہ کو 10th تک تعلیم دینے کے بعد ملایا جائے گا اور انہیں 50 + 50 کے اصول پر دینی وعصری تعلیم دی جائے ۔ یہ نصاب دو سالہ مدت میں پڑھایا جائے گا ۔بیک وقت 10+2 M.P. Boardسے او ر عالمیت کی با قاعدہ سند ۔یہ بیان پچھلے سال کا ہے ۔ اس سال الحمد للہ یہ پلان اسی شکل میں عمل میں آرہاہے ۔ لہ الفضل والمن
فارمولہ نمبر 5 اس فارمولہ کا تجربہ کیا جانا ابھی باقی ہے ۔ یہ ایک اردو میڈیم اسکول کا فارمولہ ہے ۔ جس میں انگلش اور میتھ (انگریزی زبان میں ) پری اہمیت کے ساتھ اور باقی علوم اردو زبان میں ۔اسلامیات اورعربی زبان وادب کی تعلیم کے ساتھ ۔الحکمہ پبلک اسکول کے 9th اور 10th کے عربی واسلامی علوم کی ایک جھلک دیکھئے۔
تفسیر القرآن الکریم سورہ از ق تا سورہ تحریم ۔ مختصر اصول تفسیر کی ایک کتاب عربی میں۔
الحدیث ۔اللؤ لؤ والمرجان مااتفق علیہ الشیخان ۔ مختصر اصول حدیث عربی میں ۔
الفقہ ۔ الفقہ المیسرالجزء الاول والثانی ۔مختصر اصول فقہ عربی میں
ادب العرب۔ منثورات ۔ مختارات الجز ء الاول۔مجموعۃ من النظم والنثر
النحو ۔ النحو الواضح للثانویۃ
اردو ادب اور ابتدائی فارسی
عام طور پر کوئی متعین ماڈل نہ ہو تو صوتحال کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے ۔ مجھے الحمد للہ اس کا بہت احساس رہاہے ۔اپنے ساتھ جو لوگ ہیں ،ان کو احساس دلاتا رہا۔تحدیدات اور تعیینات اتنی کردیں کہ معاملہ آس پاس ہی رہے ۔تجربات میں بھی تنوع کردیاکہ تازگی بھی رہے اور مایوسی نہ ہو۔ادھر کچھ نقص توادھرکچھ اضافہ اور اصلا تو اللہ کا فضل اور کچھ تنوع پسند طبیعت کی تلافی ہمارے اس نظام میں بڑی باریکی سے نظام الاوقات کی تقسیم کی ہے اورجس طرح اسکول کے عصری تعلیم کا نصاب متعین اور محدود ہے اسی طرح اس میں اسلامی تعلیم نصاب بھی محدود اور متعین ہے ۔ایکویشن کچھ ایسے بن گئی ہے کہ جھولنا جھلانا تو ہوگاکہیں سے کہیں پہنچ جانے کا احتمال کم ہو جائیگا ۔ یہ محفل ہی کچھ ایسی تھی میں نے جو جی میں آیاکہہ دیا، نہ چھوٹے کا خیال رکھا نہ بڑے کا ۔رسما نہیں حقیقۃ معذرت خواہ ہوں ۔
نوٹ: یہ تحریر جامعۃ الحکمہ کے سالانہ پروگرام میں پیش کی گئی۔اس میں مہمان خصوصی جناب رضی الاسلام ندوی اور جناب عبد البر اثری تھے ۔جناب آفاق ندیم صاحب مقرر تھے ۔صدارت جناب احسن علی صاحب نے کی۔۲۳ اپریل ۲۰۱۶ تاریخ ۔مقام کریسینت اسکول کی نئی بلڈنگ میں پروگرام کا انعقاد ہوا ۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2016