معلومات کا انفجار، سائنسی ترقی اور کمیونکیشن ٹیکنالوجی کے حیرت انگیز انکشافات نے زندگی کی آسائشوں کو ارزاں اور خواہشوں کوآسان بنادیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے بہت سے پہلو مفید ہیں مگر ان کے سائیڈ افیکٹس بھی سنگین واقع ہوئے ہیں۔ آج کا انسان حقیقی دنیا سے دور اور قریب ترین رشتوں سے کٹا ہوا مجازی دنیا میں اپنے آپ کو مشغول پاتا ہے۔ دوسرا اثر یہ ہوا کہ مادیت کا اثر بڑھتا گیا جس کے نتیجے میں انسان کے اپنے اندرون میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔ خود اس کی حیثیت اس پر گم ہوگئی۔ وہ اپنی زندگی کے مرکز یعنی اپنی ذات کی حقیقت کی پہچان سے دور ہوتا چلا گیا اس کا نتیجہ ہوا کہ وہ کائنات کے مرکز سے یعنی ذات باری تعالیٰ سے بھی دور ہوتا چلا گیا۔ زندگی کی سہولتیں اور عیش و تنعم کے پر بہار سازوسامان کی کثرت کے باوجود زندگی کی معنویت کہیں گم ہوگئی۔ اب وہ سکون اور چین کی تلاش میں حیران و سرگرداں ہے۔ ایسے میں مغربی ماہر نفسیات مشرقی مذاہب میں سکون و اطمینان کے نسخے تلاش کر رہے ہیں۔ بدھ مت، کنفیوشنزم، تاؤزم اور ہندومت میں پائی جانے والی حکمت سے دل چسپی لی جارہی ہے۔ یہ مثبت نفسیات کے نسبتاً نئے میدان ہیں، ان مشرقی روایات میں سے بہت سے اصول اور طریقہ کار زندگیوں کو عام طور پر بہتر بنانے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ مگر اسلام کو مثبت نفسیات کے میدان میں تعارف کرانے کے سلسلے میں مسلم ماہرین نفسیات کو بڑا کام کرنا باقی ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن انسانی زندگی کے تمام موجود اور امکا نی مسائل میں حل کی طرف رہنمائی کرنے والی الہامی کتاب ہے۔ اس میں ان مسائل کے حل کی طرف بے شمار اشارے اور رہ نمائیاں پائی جاتی ہیں۔
’’ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انھیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے‘‘(سورۃ بنی اسرائیل آیت ۹)
’’ لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے ‘‘۔ (سورہ یونس آیت ۵۷)
’’ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل آیت ۸۲)
قرآن کے اندر زبردست روحانی قوت موجود ہے۔ انسان پر اس کی اثر انگیزی بہت طاقت ور ہے۔ وہ پورے وجود کو جھنجوڑ دیتا ہے، احساس اور وجدان میں زلزلہ پیدا کر دیتا ہے، روح کو شفاف بنا دیتا ہے، فکر و ادراک کو بیدار کر دیتا ہے اور بصیرت کو جلا بخش دیتا ہے۔ قرآن کی اثر انگیزی کے نتیجے میں ایک نیا انسان سامنے آتا ہے، گویا اس فرد کی ایک نئی تخلیق ہوئی ہو۔ شخصیت کی تخلیق نو کے سلسلے میں اسلام کی رہ نمائی کو ترتیب وار نکات میں یہاں بیان کیا جائے گا۔
۱۔ کائنات میں غوروفکر
جدید تحقیقات بتاتی ہیں کہ اضطراب اور بے چینی کو دور کرنے میں روحانیت کی بڑی اہمیت ہے۔ کائنات پر غور وفکر کرنا اور اس کے پیچھے چھپے راز کو دریافت کرنا، کائنات کی عظیم حقیقت یعنی خدا کے وجود کو تلاش کرنا روحانیت کا عنصر ہمیشہ سے مانا گیا ہے۔ دور قدیم میں بھی انسان اس کی تلاش کرتا رہا اور جنھوں نے کائنات میں غوروفکر کے بعد خدا کو پا لیا وہ اطمینان کی دولت سے مالا مال ہو گئے۔ خود قرآن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کرتا ہے اور آخرکار جس نتیجے پر وہ پہنچے اسے قرآن یوں بیان کرتا ہے:
’’ابراہیم کو ہم اسی طرح زمین و آسمان کا نظام سلطنت دکھاتے تھے اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے‘‘(سورۃ الانعام آیت ۷۵)
’’(ابراہیم نے کہا)میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے اور میں ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے کہا کیا تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہ راست دکھا دی ہے اور میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو ضرور ہوسکتا ہے، میرے رب کا علم ہر چیز پرچھایا ہوا ہے ،پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟ اور آخر میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈروں جبکہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لیے اس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی؟ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی اور اطمینان کا مستحق ہے بتاؤ اگر تم علم رکھتے ہو۔ حقیقت میں تو امن انھیں کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا‘‘۔ (سورۃ الانعام آیت ۷۹ تا ۸۲)
کائنات میں غور و فکر کا حتمی نتیجہ یہ نکلتا ہے اور انسان اس حقیقت کو پالیتا ہے کہ کائنات میں موجود کوئی بھی شے بے مقصد نہیں بنائی گئی ہے تو پھر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ بھی تو بے مقصد نہیں پیدا ہوا ہوگا۔ اسے یہ بھی معلوم ہونے لگتا ہے کہ یہاں کی ہر چیز فانی ہے۔ آخرت ہی بس ایک باقی رہنے والی شے ہے۔
’’بیشک آسمانوں اور زمین کی خلقت اور رات دن کی آمد و شد میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ان کے لیے جو کھڑے، بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت پر غور کرتے رہتے ہیں۔ ان کی دعا یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے پر وردگار، تو نے یہ کارخانہ بے مقصد نہیں پیدا کیا ہے۔ تو اس بات سے پاک ہے کہ کوئی عبث کام کرے، سو تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے ہمارے رب، جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا بیشک اس کو تو نے رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوگا‘‘ (سورۃ آل عمران آیت ۱۹۰ تا ۱۹۲)
یہ بات اب اسے سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ دنیا میں جو کام بھی وہ کرتا ہے حقیقت میں وہ اضطراب اور بے چینی سے بھاگنے ہی کی ایک کوشش ہے جس میں وہ لگا ہوا ہے، وہ مشاغل جن میں وہ مسرت اور کامیابی کی جستجو میں لگا ہوا ہے، اس کے لیے سراب ہیں۔
اس نکتے کو یوں سمجھ سکتے ہیں، کہ جو دولت کا پیچھا کر رہا ہے وہ غربت کی تکلیف کو دور کرنے میں لگا ہوا ہے۔ جو شہرت کے حصول کے لیے سرگرداں ہے، وہ کسی کو اپنے سے آگے نکل جانے کی پریشانی کو دور کرنے میں لگا ہوا ہے۔ کوئی مسرتوں کے پیچھے دوڑ لگا رہا ہے،اور حقیقت میں اسے ان لذتوں کے چھوٹ جانے کی پریشانی لاحق ہے۔ کسی کو علم کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، اس لیے کہ لوگ اسے لاعلم اور بے صلاحیت سمجھیں گے تو یہ پریشان کن ہوگا۔ لوگ دوسرے لوگوں کی گفتگو اور گپ شپ سننے میں صرف اس وجہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں کہ اس سے تنہا اور الگ تھلگ رہنے کی بے چینی دور ہوجاتی ہے۔ لوگ کھاتے ہیں، پیتے ہیں، پیار کرتے ہیں، کپڑے پہنتے ہیں، کھیل کھیلتے ہیں، ایک پناہ گاہ بناتے ہیں، موٹربائک اور کار میں سوار ہوتے ہیں، سیر کے لیے جاتے ہیں،صرف اس لیے کہ ان سارے کاموں کے ذریعے کسی بے چینی سے بچا جاسکے۔
۲۔ خدا کی طرف رجوع
’’پریشانی دور کرنا ایک ایسا مقصد ہے جس پر تمام اقوام اس وقت سے متفق ہیں جب خداوند عالم نے کائنات کی تخلیق کی اور انسانوں کو پیدا کیا اوریہ اس دن تک رہے گا جب یہ دنیا ختم ہوجائے گی اور اس کے پیچھے قیامت آ موجود ہوگی۔ اس کے سوا ہر دوسرے مقصد کے معاملے میں ہمیشہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اس کی خواہش نہیں رکھتے ہوں یا اس معاملے میں اختلاف کرتے ہوں۔ جب میں حکمت کے اس عظیم حصے پر پہنچا، جب مجھے یہ حیرت انگیز راز معلوم ہوا، جب اللہ تعالی نے اس عظیم خوشنودی کو دیکھنے کے لیے میرے دماغ (روح) کی آنکھیں کھول دیں تو میں نے اس راہ کی تلاش شروع کردی جس سے واقعتاًمیں اس قابل ہوجاؤں کہ مجھے پریشانی دور کرنے کا نسخہ مل جائے، جو ہر انسان کا مطلوبہ قیمتی مقصد ہے، خواہ جاہل ہو یا عالم، اچھا یا برا۔ میں نے اسے ایک ہی جگہ پایا، خدائے قادر مطلق اور طاقتور کی طرف رجوع کرنے میں اور ان اعمالِ صالحہ کے انجام دینے میں جن سے انسان کو دوام عام حاصل ہوجائے ‘‘۔ ( ابن حزم کتاب الاخلاق والسیر)
خدائے واحد و مطلق کو انسان جیسے بھی دریافت کرے، مگر اس سے وابستگی ہی اس کے لیے آرام و سکون کا باعث ہے، یہ بات دلائل کے ساتھ اب سامنے آگئی ہے۔ ماہرین نفسیات وذات اور نفسیاتی محللین کے علاوہ عصر حاضر کے بیشمار مغربی مفکرین اس بات کا اعتراف و اعلان کر چکے ہیں کہ موجودہ انسان کا بحران دراصل بنیادی طور پر دین اور روحانی اقدار سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر’’میں نے سیکڑوں مریضوں کا علاج کیا ہے۔ زندگی کے دوسرے نصف حصے میں۔ یعنی یہ کہنا، 35 سے زیادہ۔ ایسا کوئی نہیں ہوا جس کی آخری زندگی میں کوئی مسئلہ زندگی پر مذہبی نقطہ نظر تلاش کرنے کا نہیں تھا۔ یہ کہنا بجا ہے کہ ان میں سے ہر ایک بیمار ہوا کیوں کہ وہ کھو گیا تھا جو ہر دور کے زندہ مذاہب نے اپنے پیروکاروں کو دیا ہے اور ان میں سے کسی کو بھی واقعتاً ٹھیک نہیں کیا گیا ہے جس نے اپنا مذہبی نقطۂ نظر دوبارہ حاصل نہیں کیا‘‘۔
(Carl Gustav Jung, Modern Man in Search of a Soul)
’’انسانیت کا مقصد یہ ہوناچاہیے کہ کائنات کی کرشمہ سازیوں کے پیچھے موجود ہستی کے ساتھ بات چیت کرنا ہو اور (خود) اس مطلق روحانی حقیقت کے مطابق اپنی ذات کے اندر ہم آہنگی لانا ہو‘‘۔
(Arnold Joseph Toynbee، A Historian’s Approach to Religion)
امریکی ماہر نفسیات ہنری لنک نے ڈپریشن پر کام کیا ہے۔ ملازمین کے انتخاب اور رہنمائی کے عمل میں مزدوروں پر نفسیاتی تحقیقات کے اپنے طویل تجربے کا نتیجہ اس کے سامنے یہ آیا کہ دیندار اور عبادت گاہوں میں حاضر ہونے والے اشخاص ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور اور اچھی شخصیت رکھتے تھے جو کوئی عبادت نہیں انجام دیتے تھے اور نہ دین سے وابستہ تھے۔
(Henry C
The Return To Religion: Developing Personality and Finding Happiness in Life)
اوپر کے حوالوں سے یہ بات سامنے آگئی کہ آج وہ لوگ بھی اس بات کو ماننے پر مجبور ہیں جنھوں نے دین کا قلادہ اپنی گردنوں نے سے اتار پھینکا کہ انسان کے نفسیاتی سکون اور چین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مالک کو پہچانے، اس سے وابستہ ہو، اس پر یقین کرے اور اپنا اضطراب اور کرب سب اسی کے سامنے رکھے اور اسی سے توقع کی جائے کہ تکلیف وہی دور کرے گا۔
’’(کیا تمہارے یہ شرکا مستحق عبادت ہیں) یا وہ جو محتاج کی داد رسی کرتا ہے جب کہ وہ اس کو پکارتا ہے اور اس کے دکھ کو دور کرتا ہے اور تم کو زمین کی وراثت دیتا ہے؟ کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے! بہت ہی کم تم لوگ یاد دہانی حاصل کرتے ہو!‘‘ سورۃ النمل آیت ۶۲)
ابھی گجرات کے دورے میں ہمارے ایک کارکن سے ملاقات ہوئی۔ ان کی جوتوں کی دکان ہے۔ ساتھ ساتھ زبردست دعوت کا کام بھی کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بواسیر کے مایوس مریض روزانہ آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ہر دوا کرلی مگر بیماری سے مایوس ہیں۔ کسی دوا سے مرض اچھا نہیں ہوا۔ وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ تم دوا کیسے کھاتے ہو؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ یوں اور یوں۔ وہ انہیں یاد دلاتے ہیں کہ جس نے بیماری پیدا کی شفا وہی دیتا ہے اور اس کا نام لیے بغیر تم دوا کو شفا سمجھ کر لو گے بیماری دور نہیں ہوگی۔ پھر وہ ایک خاص جڑی بوٹی دیتے ہیں اور کھانے کی ترکیب بتاتے ہیں جس میں توحید کا پیغام بھی خصوصیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں مہینے میں 50 تا 60 مریضوں کو مفت دوا اور دعا دیتا ہوں، سواے ایک مریض کے سب کو اللہ تعالی نے شفا دی۔
ہندوستان میں دعوت کے پہلو سے بھی لوگوں کو خدا کی طرف رجوع ہونے کی ترغیب دینا ضروری ہے کیوں کہ اس سے وابستہ ہوئے بغیر انسانی روح سکون آشنا نہیں ہوتی۔
نفسیاتی سکون کے ختم ہوجانے کا ایک بنیادی سبب یہی کہ انسان اپنی حیثیت کو پہچان نہیں سکا۔ وہ جسم اور روح کا مرکب ہے مگر یا تو وہ اپنے روحانی وجود سے غافل ہوتا ہے یا اس کے تقاضوں کی تکمیل میں کوتاہی کرتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بدن اور روح کے تقاضوں میں شدید کشمکش پیدا ہوجاتی ہے اور یہی کشمکش اضطراب اور بے چینی کی وجہ بنتی ہے۔ مذہب پر ایمان اور خدا پر یقین کے ذریعہ سے انسان اپنی حیثیت کو پہچاننے لگتا ہے اور جسم و روح کے درمیان کشمکش کو ختم کرکے اس راستے کو اپناتا ہے جس میں وہ خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہے اور اپنی زندگی کے بہت سے معاملات اس کے حوالے کر دیتا ہے تب اسے سکون اور قرار نصیب ہوتا ہے۔
۳۔ ایمان
ایمان انسان کو سکون عطا کرتا ہے۔ اللہ پر سچا ایمان رکھنے والا ہر خوف سے آزاد ہوتا ہے ،اسے یقین ہوتا ہے کہ خیر و شر اللہ ہی کی طرف سے ہے، بلکہ شر میں بھی اسے خیر کا پہلو نظر آنے لگتا ہے۔ اس کی زندگی میں اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کا یقین ہے کہ سب کچھ اللہ تعالی کی مشیت ہی سے ہوتا ہے اور تکلیف دور ہو گی بھی تو اسی کی مدد سے۔ اللہ کی مشیت کے بغیر کائنات کی کوئی چیز اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ہر اچھے کام کی شروعات میں وہ خدا سے مدد مانگتا ہے اور کسی چیز سے پریشانی ہوتی ہو تو خدا ہی سے پناہ مانگتا ہے۔ ہر پہلو سے خدا ہی کی آغوش میں اسے سکون میسر آتا ہے۔
حضرت عباس جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے اس وقت آپ نے انہیں جو نصیحتیں فرمائیں ان میں سے چند یہ ہیں ’’جب تمہیں کچھ مانگنا ہو تو اللہ سے مانگو اور اگر مدد چاہنی ہو تو اللہ سے مدد چاہو، یاد رکھو اگر سارے لوگ مل کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہیں تو اس کے سوا کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے جو پہلے سے تمہارے لیے اللہ نے لکھ دیا ہے۔ اور اگر سارے لوگ مل کر تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو اس کے سوا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے‘‘۔
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہیں کیا وہی لوگ ہیں جن کے لیے امن اور چین ہے اور وہی راہ یاب ہیں ‘‘۔(سورۃ الانعام آیت ۸۲)
’’ہاں بلا شبہ جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیا اور وہ ٹھیک طرح سے عمل کرنے والا ہے تو اس کے لیے اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ نہ ان کو کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ‘‘ (سورۃ البقرۃ آیت ۱۱۲)
ایمان والا اندر سے مضبوط ہوتا ہے اور وہ اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔ نفس امارہ اپنی پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے سامنے خواہشات کا ایک جال بچھادے اور اپنے دام میں پھانس لے۔ مگر ایمان لانے کے بعد انسان نفس لوامہ کی آواز کو بہت واضح طور پر سن لیتا ہے۔ اسے معلوم ہوتاہے کہ نفس لوامہ درحقیقت انسان کے اندر خدا ہی کی آواز ہے جو اسے راہ راست بھی دکھاتی ہے اور غلطی کرنے پر متنبہ بھی کرتی ہے۔ اس لیے مومن وہ کام نہیں کرتا جس سے اس کی روح بیمار ہوجائے۔ اگر کبھی غلطی سے گناہ کا صدور ہوجائے تو وہ فوراً خدا کی طرف پلٹتا ہے۔ اسے معلوم ہوتاہے اس کا رب بہت ہی بخشنے والا ہے۔ احساس جرم کو وہ اپنے اندر نہیں پالتا بلکہ جیسے ہی اسے احساس ہوتا ہے فوراً وہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے:
’’ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے ، وہ تو غفور رحیم ہے‘‘ (سورۃ الزمر آیت ۵۳)
انسان دو چیزوں کے خوف میں عموماً مبتلا ہوتا ہے۔ یہی دو چیزوں کا ڈر اسے بے اصول بھی بناتا ہے اور دنیا پرست بھی۔ اس میں پہلی چیز ہے غربت اور رزق کی کمی۔ مومن کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ہر پیدا ہونے والے کے ساتھ اللہ تعالی اس کا رزق بھی متعین کرتا ہے۔ ساری کائنات کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اگر دینا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا اور اگر وہ روک لے تو کوئی اسے دے نہیں سکتا۔ رزق کی تقسیم خدا کی مشیت پر مبنی ہے۔ مگر بندہ اپنی سی کوشش کرنے کا مکلف ہے۔ اس کے بعد وہ اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی ہوتا ہے۔ خدا کی نعمتوں کا شکر گزار ہوتا ہے، اس کی زبان سے کبھی ناشکری کے کلمات نہیں نکلتے۔ جو کچھ دیا اس پر اس کا دل مطمئن ہوتا ہے ،اس معاملے میں کسی قسم کا خوف اسے لاحق نہیں ہوتا۔
’’اور زمین کے ہر جان دار کا رزق اللہ ہی کے ذمہ ہے۔ اور وہ جانتا ہے اس کے مستقر اور مدفن کو۔ ہر چیز ایک واضح رجسٹر میں درج ہے‘‘ (سورۃ ہود آیت ۶)
دوسری چیز ہے موت کا خوف جوا نسان کو بزدل بنا دیتا ہے۔ مگر ایمان انسان کو اس خوف سے بھی آزاد کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ موت اور حیات کا پیدا کرنے والا خدا ہے۔ موت کا ایک وقت معین ہے، ایک گھڑی نہ پہلے اور نہ ایک پل بعد میں واقع ہوگی۔ انسان جہاں بھی ہو موت آئے گی اور اسے دبوچ لے گی خواہ وہ لوہے کے مضبوط قلعوں میں ہی بند کیوں نہ ہو۔
’’اور موت تم کو پا لے گی تم جہاں کہیں بھی ہوگے، اگرچہ مضبوط قلعوں کے اندر ہی ہو۔ اور اگر ان کو کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچ جائے تو کہتے ہیں یہ تمہارے سبب سے ہے۔ کہہ دو ان میں سے ہر ایک اللہ کی طرف سے ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کا نام ہی نہیں لیتے‘‘ (سورۃ النساء آیت ۷۸)
’’ان کو بتا دو کہ جس موت سے تم بھاگ رہے ہو وہ تم سے دو چار ہو کر رہے گی پھر تم غائب و حاضر کے جاننے والے کے سامنے حاضر کیے جائو گے پس وہ تم کو ان سارے اعمال سے آگاہ کرے گا جو تم کرتے رہے ہو ‘‘۔ (سورۃ الجمعۃ آیت ۸)
سچا مومن مشکلات ایام سے بھی نہیں ڈرتا۔ زندگی میں نفع نقصان ہر دو کا استقبال کرتا ہے۔ نفع اور کامیابی پر وہ خوشی سے بے قابو نہیں ہوتا ہے۔ مصیبتیں اور نقصانات پر وہ دل شکستہ ہو کر واویلا نہیں مچاتا۔
’’ کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے ، اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے‘‘۔ (سورۃ التغابن آیت ۱۱)
مومن جانتا ہے کہ رب تعالی سے جھگڑا نہیں کرسکتا، اس کا حکم نافذ اور فیصلہ عادلانہ ہوتا ہے۔ شکوہ تقدیر سے کوئی فائدہ نہیں ہے اور رضا بالقضا میں سلامتی ہے اور رضا کا ثمرہ شکر ہے شکوہ کا ثمرہ کفر ہے۔
ایک مشہور امریکی مصنف بودلی ہے جس نے صحرا کی آندھی وغیرہ کتابیں لکھی ہیں۔ 1918 میں اس نے مغربی شمالی افریقہ کو وطن بنا لیا جہاں مسلمان بادیہ نشینوں کے ساتھ رہنا سہنا تھا۔ یہ لوگ روزہ نماز اور ذکر و اذکار کے پابند تھے۔ ان کے ساتھ گزارے بعض مشاہدات اس نے لکھے ہیں۔
’’ ایک دن تیز آندھی آئی جس نے صحرا کی ریت اٹھاکر بحر ابیض متوسط پارکرکے فرانس کی وادی الروبی میں جا ڈالی۔ آندھی نہایت شدید گرم تھی۔ گرمی کی شدت سے مجھے لگا کہ میرے سر کے بال اکھڑ جائیں گے اور اس کی شدت میں پاگل ہو جاؤں گا۔ لیکن عربوں کو کوئی پروا ہی نہ ہوئی انہوں نے کندھے اچکائے اور کہا یہ مقدر کی بات ہے۔ پھر اپنے کام میں لگ گئے۔ قبیلے کا سردار بولا کہ ہماری ہر چیز برباد ہو سکتی تھی لیکن الحمدللہ بہت زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ اب بھی ہمارے مویشیوں میں 40 فیصد باقی ہیں۔ اور ہم ان سے دوبارہ کام کی شروعات کر سکتے ہیں۔
ایک حادثہ اور ہے۔ ایک دن ہم صحرا میں کار سے جا رہے تھے۔ ایک پہیہ خراب ہوگیا۔ ڈرائیور احتیاطی پہیہ رکھنا بھول گیا تھا۔ اب مجھے غصہ بھی آیا اور فکر بھی لاحق ہوئی۔ قبائلیوں نے کہا کہ غصے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ طیش میں آکر انسان حماقتیں کر بیٹھتا ہے۔ اس کے بعد گاڑی تین پہیوںپر چلتی رہی،تھوڑا سا ہی چلے تھے کہ معلوم ہوا تیل ختم ہو گیا۔ اب بھی اعرابی ساتھی بھڑکے نہیں بلکہ پرسکون رہے اور راستہ پیدل چل کر طے کیا۔ راستے بھر نغمے گنگناتے رہے۔ اعرابیوں کے ساتھ صحرا میں سات سال جو گزارے ان سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ امریکہ و یورپ میں اضطراب سے دوچار نفسیاتی بیماریوں کے مریض اور نشہ باز جو منشیات پر پیسہ خرچ کرتے ہیں وہ موجودہ تمدن کا شکار ہیں جس کی اساس بھاگ دوڑ اور سرعت ہے۔ صحرا میں رہتے ہوئے مجھے کوئی بے چینی نہیں ہوئی ،وہ اللہ کی جنت ہے وہاں سکینت رضا اور قناعت ہے اگرچہ بہت سے لوگ اعرابیوں کے عقیدہ جبر و قدر کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن کون جانتا ہے کہ یہ اعرا بی حقیقت کو پا گئے ہوں کیونکہ جب میں زندگی کی یادیں حافظہ میں تازہ کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ مختلف حادثوں اور واقعات سے پر ہے جو وہم و گمان میں بھی نہیں آتے تھے۔ اعرا بی اس کو قضا و قدر یا قسمت کہتے ہیں۔ آپ ان کو کچھ بھی نام دے سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ صحرا کے چھوڑے 17سال ہوگئے لیکن میرا اب تک تقدیر کے بارے میں وہی موقف ہے جو عربوں کا تھا چنانچہ حوادث کا سامنا کرنے میں عربوں سے جو عادات سیکھیں وہ اعصاب کو سکون دینے میں مسکن دواؤں اور جڑی بوٹیوں سے بھی زیادہ کامیاب ہیں۔
(R.V.C Bodely، غم نہ کریں، ڈاکٹر عائض القرنی )
یہ بات یاد رہے کہ کسی انسان کی شخصیت میں اگر نفسیاتی مرض رونما ہو گیا ہو تو اس کی بنیادی وجہ افکار و خیالات ہیں۔ انسانی جسم پر افکار و خیالات کی حکم رانی ہوتی ہے اور جیسے افکاروخیالات ہوتے ہیں ویسے جذبات رونما ہوتے ہیں اور جیسے جذبات شخصیت کے اندرون میں پیدا ہوتے ہیں اسی کے مناسب کیمیکل کا بہاؤ جسم کے اندر ہونے لگتا ہے۔ یہی وہ کیمیائی عناصر ہوتے ہیں جو انسان کو مرض میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ہر ایک نفسیاتی تاثر (emotion) کے لیے ایک خاص قسم کا کیمیکل جسم میں پھیلتا ہے اور اس کے اثرات سے خوف غصہ غم ڈپریشن وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔ اسلام ان تمام امراض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے کیونکہ وہ افکار و خیالات میں ایک زبردست انقلاب بر پا کر دیتا ہے، جہاں اسے ایک بڑے سہارے سے وابستگی ہو جاتی ہے جو بڑا ہی شفیق اور مہربان خدا ہے۔
۴۔ عبادات
جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ مرض کا علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افکار و خیالات میں تبدیلی آئے مگر صرف اتنا کافی نہیں ہے ،بلکہ افکار کے بدلنے کے ساتھ کردار اور اخلاق میں بھی ایک زبردست تبدیلی آنی چاہیے۔ ورنہ جن منفی تاثرات و جذبات میں انسان پھنسا ہوا ہو ان سے نکلنا ممکن نہیں۔ اسلام کے نزدیک افکارونظریات کی تبدیلی کے بعد اس پر قائم رہنے اور متواتر اسے برتنے کے لیے عبادات کا پورا ایک نظام دیا گیا ہے اور یہ عبادات وقفے وقفے سے انسان کو ایک ہی عمل کی تکرار اورمشق کراتے ہیں۔ نفسیات میں کی بڑی اہمیت ہے کہ کوئی بھی علاج تجویز کیا جائے، جب تک مریض مسلسل اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا اس وقت تک اس کے اندرکیمیکل کے بہاؤ میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ بار بار عمل کرنے سے بار بار فکر کو مضبوطی ملتی ہے اور جو فکر وخیالات مثبت رخ اختیار کر لیتے ہیں تو پھر انسان کے اندر مثبت جذبات رونما ہونے لگتے ہیں۔
عبادات کے ذریعے سے فکر کی تبدیلی کے مطابق مشق کرائی جاتی ہے۔ مثلانماز انسان کو خدا سے بار بار ملاتی ہے، خدا سے بندہ ہم کلام ہوتا ہے اور اس سے دعائیں کرتا ہے۔ زندگی کی بھاری ذمہ داریوں اور مشکلات کا پیداکردہ اعصابی تناؤ اور اضطراب ختم ہوجاتا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی غم آگیں مشکل پیش آتی آپ نماز کی پناہ لیتے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو نماز پڑھتے۔ جب نمازوں کے اوقات شروع ہوتے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال سے فرماتے ’’ اے بلال نماز کے ذریعے ہمیں راحت پہنچاؤ‘‘۔ نماز کے ذریعے وہ سماج سے جڑتا ہے اور سب انسانوں کو اپنا بھائی اور اپنے برابر سمجھتا ہے۔
روزہ انسان کو عادت کی غلامی سے چھڑاتا ہے، نفس پر کنٹرول سکھاتا ہے، حد درجہ بڑھی ہوئی شہوانی قوت کو اعتدال پر لاتا ہے۔ روزہ میں محرومی برداشت کرنے اور محرومی پر صبر کرنے کی ٹریننگ ہوتی ہے۔ اس طرح انسان کواس قابل بنایا جاتا ہے کہ زندگی میں مختلف قسم کی پیش آنے والی محرومیوں کو برداشت کرے۔ روزہ دار کا احساس محرومی اس قابل بناتا ہے کہ وہ فقراء و مساکین پر شفقت کرنے اور محتاجوں کی خوش دلی سے امدادکرے۔
حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے، سواے روزےکے،کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ ڈھال ہے۔ کسی کے روزے کا دن ہو تو جماع کی بات نہ کرے، شوروشغب نہ کرے اگر کوئی اس وقت لڑائی کرے تو کہہ دے کہ میں روزدار ہوں‘‘۔ روزہ بندوں کے سلسلے میں مواساۃ کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور روزہ رکھنے سے ایک درجے میں فرشتوں سے مشابہت ہونے لگتی ہے۔
قرآن کی تلاوت سے خوشی کے جذبات امنڈ آتے ہیں۔ خوبصورت آواز اور خوش الحان قرأت سے خوشی کے کیمیکل انسان کے جسم میں بہنے لگتے ہیں، جس سے بہت سے امراض کا کا علاج ہوتا ہے اور قوت مدافعت بڑھنے لگتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جب کچھ بندے اللہ کے کسی گھر میں اکٹھا ہوکر قرآن کی تلاوت کرتے اور قرآن کا درس و مذاکرہ کرتے ہیں تو ان لوگوں پر سکینت کا نزول ہوتا ہے، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اوراللہ تعالیٰ اپنی مجلس میں ان لوگوں کا ذکر فرماتا ہے‘‘
اللہ کے ذکر سے دل کی وحشت ختم ہوتی ہے، اندرون کا سکون اور قلب کا اطمینان میسر آتا ہے۔
’’ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے اس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت کو مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔ (سورۃ الرعد آیت ۲۸)
غرض نفسیاتی الجھنوں اور مسائل سے چھٹکارا پانے کے بعد ایک بندہ مومن اس دنیا میں بھی پاک صاف اور خوش و خرم زندگی بسر کرتا ہے، مرنے کے بعد بھی اس کے لیے لامتناہی خوشیوں کا سازوسامان انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
’’ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطےکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اورآخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔ (سورۃ النحل آیت ۹۷)
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2019