رائے عامہ اوراس کی تبدیلی

جماعت اسلامی ہند نے اس دفعہ اپنے میقاتی منصوبے میں ’میقاتی مشن‘ کوان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

” اسلام کے حق میں رائے عامہ کی مثبت تبدیلی اوراس کے لیے مطلوب انفرادی و اجتماعی کردار سازی اس میقات کا مشن ہوگا“  [1]

اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اپنی تمام سرگرمیوں اورتگ و دو کو اس طرح منظم کرے گی کہ ان کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں رائے عامہ پر مثبت اثر پڑے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔خصوصاً موجودہ حالات میں جب کہ بہت سارے عوامل اور طاقتیں مل کراسلام کے متعلق رائے عامہ کو منفی بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، یہ ہدف نہ صرف غیر معمولی محنت اور جدوجہد چاہتا ہے بلکہ حد درجہ حکمت و دانش مندی، اعتدال و توازن، ہمت وجرأت اور صبرواستقامت کا بھی متقاضی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ہدف کی طرف ٹھوس پیش رفت کی توفیق و صلاحیت ہم سب کو بخشے اور ہماری راہوں کو آسان فرمائے۔ آمین۔

رائے عامہ اور اس کی تبدیلی کے موضوع کو ہم زندگی نو کے صفحات میں کئی بار زیر بحث لاچکے ہیں۔ دودفعہ [2] تو راست اسی عنوان پر مضامین شائع ہوچکے ہیں اوران کے علاوہ بھی متعدد مضامین میں بالواسطہ طور پر یہ موضوع زیر گفتگو آچکا ہے۔ لیکن ان مضامین کی اشاعت کے بعد پُلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔ رائے عامہ کس طرح تیزی سے بگڑتی ہے؟ اس دوران ہم سب نے اس کا راست مشاہدہ کیا ہے اور پھر کس طرح تیزی سے اس میں سدھار بھی آسکتا ہے ؟ یہ ڈائنامکس بھی حالیہ دنوں میں، خاص طور پر انتخابات کے دوران، ہمارے تجربے میں آچکے ہیں۔ ان سب مشاہدات و تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور خود اپنے مختلف رویوں کے اثرات کا ادراک کرتے ہوئے اس موضوع پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس تحریر میں رائے عامہ کی بحث کو نئے پس منظر میں آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ سابقہ مباحث کو ذہن میں تازہ کرلیں یا انھیں ایک بار اور دیکھ لیں۔

رائے عامہ پر توجہ کیوں ضروری ہے؟

اسلام کی دعوت اوراس کے پیغام کی اشاعت کے لیے رائے عامہ پر توجہ کی اہمیت واضح ہے اور سابقہ مضامین میں اس پرتفصیل سے گفتگو بھی ہوچکی ہے۔مسلمانانِ ہند کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی مسائل کے حل کے لیے بھی اور ان کے بقا و تحفظ کے لیے بھی یہ ناگزیر ہے کہ رائے عامہ پرتوجہ مرکوز کی جائے۔ جس طرح ملک کی رائے عامہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہم وار ہورہی ہے یہ بہت ہی خطرناک صورت حال ہے۔ عام طور پر مسلمان اپنے مسائل کے لیے سیاست کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اوریہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر سیاسی تبدیلی آجائے اور ہمدردی رکھنے والی طاقتیں سیاسی قوت حاصل کرلیں یا اقتدار پر فائز ہوجائیں تو ان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔جب ایسی سیاسی طاقتیں ان کے مسائل حل نہیں کرپاتیں تو پھران کے تئیں ناراضی، غم و غصے اور مایوسی کی کیفیت بھی عام ہوجاتی ہے۔ یہ بہت ہی سطحی خیال اورسطحی رویہ ہے۔ جمہوری معاشروں میں سیاسی طاقتیں بھی بلکہ عوامی زندگی کے دیگر شعبے بھی رائے عامہ کے تابع ہوتےہیں۔رائے عامہ کے خلاف کوئی موقف اختیار کرنا یا اقدام کرنا غیر معمولی ہمت و جرأت اور ضمیرکی بیداری و حساسیت چاہتا ہے جو عام طور پر سیاسی لیڈروں میں مفقود ہے۔

گذشتہ چند برسوں میں رائے عامہ کے دباؤ میں سیاسی جماعتوں اور قائدین کے بدلتے رویوں کو ہم سب نے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ تیزی سے افطار پارٹیاں اور عید ملن کے پروگرام سیاسی منظر نامے سے غائب ہوگئے۔سیاست دانوں کی ٹوپیاں اور مسجدوں و درگاہوں میں حاضری بند ہوگئی۔ اسٹیجوں سے مسلمان قائدین غائب ہو نے لگے اوراکثر لیڈروں کو مسلمانوں کا نام لینے میں بھی دشواری محسوس ہونے لگی۔ سیاسی طاقتیں ہی نہیں بلکہ کارپوریٹ ادارے اور کمپنیاں، سرکاری ایجنسیاں حتی کہ عدالتوں پربھی رائے عامہ کے اثرات صاف نظر آنے لگے۔ کئی کارپوریٹ اداروں کو رائے عامہ کے دباؤ میں اپنی پالیسیاں تبدیل کرنی پڑیں۔یہ واقعہ ہم سب کے علم میں ہے کہ ٹاٹا جیسے بااثر گروپ کی زیورات کی کمپنی تانشک (tanishq)نے اپنے ایک اشتہار میں بین مذہبی شادی کو مثبت طریقے سے دکھایا تھا۔کچھ عرصہ پہلے تک ملک میں اسے روشن خیالی کا ایک نمونہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب رائے عامہ کی بدلی ہوئی صورت حال میں اسے ’لو جہاد‘ کی تبلیغ قرار دیا گیا اورکمپنی کواپنا اشتہار واپس لینا پڑا۔[3] یہی معاملہ فیب انڈیا کے ‘جشن رواج’ اشتہار کے سلسلے میں بھی ہوا اور اس نے بھی اپنا اشتہار واپس لے لیا۔[4] بعض غذائی کمپنیاں اب اپنے پروڈکٹس پر‘حلال‘ کا لیبل نہیں لگاتیں۔ زنا بالجبر کے سیکڑوں واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن چند سال پہلے دلی میں نربھیاکے کیس میں رائے عامہ متحرک ہوئی تو عدالت کو اپنی روایتی سست رفتاری ترک کرنی پڑی اور تیز رفتار سنوائی کرکے فوری سزا سنانی پڑی۔[5] گذشتہ چند برسوں میں عدالتوں کے بدلتے رجحانات ہمارے سامنے ہیں۔[6] ان سب سے معلوم ہوتا ہے کہ رائے عامہ پر مثبت اثر اندازی مسلمانوں کی دعوتی اور نظریاتی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی سیاسی و ملی ضرورت اور ان کے تحفظ و سلامتی کا ایک اہم تقاضا بھی ہے۔

ہندوستانی مسلمان اور رائے عامہ

ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں رائے عامہ، بہت سے پیچیدہ عوامل کا نتیجہ ہے۔یہ عوامل تاریخی بھی ہیں، سیاسی، سماجی، معاشی اور نظریاتی بھی ہیں۔حالیہ دنوں میں عالمی منظر نامہ اور عالمی سیاست نے بھی ایک اہم عامل کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ان متعدد عوامل کے پیچیدہ تعامل نے اجتماعی نفسیات کا ایک خاص شاکلہ تشکیل دیا ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ منفی رائے عامہ اصلاً فرقہ پرست طاقتوں اور ان کی تحریکات کا نتیجہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تحریکوں نے رائے عامہ کو منفی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ان کی کام یابیوں کے لیے متعدد سازگار عوامل یہاں پہلے سے موجود رہے ہیں۔ فرقہ پرستوں نے ان عوامل سے فائدہ اٹھایا ہے۔مسئلہ صرف کسی خاص فرقہ پرست تحریک یاجماعت تک محدود نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ان عوامل کا ہے۔ ان عوامل پر توجہ دینا اور ان کو کم زور کرنا یہ اصلاً مسلمانوں کی ذمہ داری تھی جس پر بہت کم توجہ ہوسکی ہے۔ہمارے خیال میں ان عوامل کی وسیع تر درجہ بندی ذیل کے مطابق ہوسکتی ہے۔

۱۔ تاریخ اور تاریخی بیانیے،مسلم دورحکومت کی تاریخ اور اس کے مروجہ بیانیے، تقسیم ہند کی یادیں، فسادات کے سلسلے اور ان کی تاریخ۔[7]

۲۔ دہشت گردی (ملکی و عالمی سطح کی) اور مسلمانوں سے متعلق جرائم، ان کے مواقف وغیرہ سے متعلق میڈیا کی سنسنی خیزی، سچ اور جھوٹ کی آمیزش اور ایسے احوال و واقعات کی مخصوص فریمنگ۔

۳۔ مسلمانوں کی سماجی،معاشی، تعلیمی پس ماندگی، اس کے نتیجے میں انھیں بوجھ (liability)سمجھنے کا احساس اور غیریت وحقارت کی نظر، ان سب کے نتیجے میں ان کے بارے میں مخصوص تصورات (stereotype)کاقائم ہوجانا۔[8]

۴۔مسلمانوں کی ملک کے دیگر طبقات سے علیحدگی، جغرافیائی، تہذیبی، لسانی، اور جذباتی بُعد جس کے نتیجے میں بامعنی مذاکرات اور سنجیدہ تعاملات مشکل ہوجاتے ہیں۔ [9]

رائے عامہ کی تبدیلی کے لیے ان سب عوامل پر متوازن توجہ درکار ہے۔ ان میں سے ہرعامل کا تدارک گہری منصوبہ بندی اور اسٹریٹجی کا تقاضا کرتا ہے۔

بظاہر یہ ایک مشکل کام محسوس ہوتا ہے۔ جوکچھ کوششیں ہورہی ہیں ان کے اثرات کی رفتار بھی بہت سست محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ رائے عامہ کی تبدیلی در اصل نئی سوچ اور نئی فکر کے فروغ کی کوشش ہے۔ ” نظریہ سماجی نفوذ“ [10](Social diffusion theory)کے سماجیاتی ماڈلوں کے مطابق نئی سوچ ابتدا میں لمبے عرصے تک سماج کی بہت چھوٹی سی اقلیت کے لیے قابل قبول ہوتی ہے اور لوگوں کے اسے قبول کرنے کی رفتار بہت کم ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جب آبادی کے پندرہ بیس فی صد حصے کی رائے بدل جاتی ہے تو پھرا س خیال کی تیزرفتار اشاعت شروع ہوجاتی ہے اور اقلیتی رائے تیزی سے رائے عامہ میں بدلنے لگتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعوتی تاریخ کے علاوہ متعدد نظریاتی تحریکوں کی تاریخ اس نظریے کی تائید کرتی ہے۔ (چارٹ ملاحظہ ہو)اس لیے آغاز میں آنے والی سست رفتار تبدیلی سے پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ استقامت کے ساتھ کام کرتے رہنا چاہیے۔

Aug 24, Ishaarat

ما بعد حقیقت سیاست (Post-Truth Politics)اور رائے عامہ

اکیسویں صدی کی سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں رائے عامہ کی تشکیل میں سچائی کا رول کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ ٹھوس حقائق، شواہد، واقعات، اعداد و شمار،عقلی دلائل، ان سب کی اہمیت گھٹ گئی ہے اور ان کے مقابلے میں جذباتی اپیلیں، نعرے، جھوٹی خبریں (fake news)، مفروضے، بے بنیاد کہانیاں اور غلط سلط نریٹیو وغیرہ کی اساس پر رائے عامہ کی تشکیل ہونے لگی ہے۔اسے رائج اصطلاح میں مابعد حقیقت رجحان (post-truth phenomenon)كہا جاتا ہے۔ اس رجحان سے متاثر سیاست کو مابعد حقیقت سیاست (post-truth politics) اور اس دور کو مابعد حقیقت دور(post-truth age)بھی کہا جانے لگا ہے۔لوگوں کے سامنے سچائی پیش کرنے اور دلیل کے ذریعے ان پر بات واضح کرنے کے بجائے صرف ان کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں۔ خوف، امید، انتقام، نفرت وغیرہ جیسے عوامی جذبات کا مسحور کن ہتھکنڈوں سےاستحصال کرتے ہوئے انھیں حقائق سے لاتعلق اور بے پروا بنا دیا جاتا ہے۔ بہ تکرار جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ہر سطح پر یعنی علم و تحقیق کی اعلیٰ ترین سطح پر، میڈیا میں، سیاسی بیانیوں میں، ڈپلومیسی میں، عوامی مباحث میں، سوشل میڈیا پر، غرض ہر جگہ بار بار جھوٹ کی تکرار ہوتی ہے۔ جھوٹ کو بے نقاب کرنے یا اسے غلط ثابت کرنے کی کوششوں کو یا تو نظر اندازکرکے منظر نامے سے غائب کردیا جاتا ہے یا ایسی کوششوں کی برانڈنگ اور ٹرولنگ کرکے انھیں بے اعتبار کردیا جاتا ہے۔لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ انھیں جو بات بتائی جارہی ہے وہ سراسر جھوٹ ہے، اسے نہ صرف قبول کرلیتے ہیں بلکہ اس کی اساس پر اپنی رائے بھی بنالیتے ہیں۔اس کیفیت کو موجودہ دور میں عالمی میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں اور وہاٹس اپ گروپوں تک میں، ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ (خود مسلمانوں کے آپسی تنازعات میں بھی وہاٹس اپ گروپوں میں اس رجحان اور مکرو فریب کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے) قرآن مجید نے نبی کریم ﷺ کے دور کے اہل کتاب معاشروں کے بارے میں سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔[11] سَمَّاعُونَمبالغے کا صیغہ ہے، بہت زیادہ سننے والے۔ اس کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ جھوٹ کو جھوٹ جانتے ہوئے بھی اسے پورے شوق سے سن لیتے تھے اور اسے قبول کرلیتے تھے۔ فی ظلال القرآن میں اس کی تشریح میں کہا گیا ہے:

“ یہ جھوٹ سننے کے عادی ہیں ’ جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ اس کے عادی ہوگئے ہیں۔ جھوٹ اور باطل اور ناحق سننے کے لیے ان کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں، خوشی سے لپکتے ہیں اور سچائی اور حق سننے سے انھیں سخت انقباض ہوتا ہے۔ اس قسم کی گم راہ اور منحرف سوسائٹیوں میں ہمیشہ باطل اور جھوٹ کو خوب کان لگا کر سنا جاتا ہے۔ انسان کے دل و دماغ اگر فساد کا شکار ہوجائیں تو ان کی یہی حالت ہوتی ہے۔ روح جب بجھ جاتی ہے تو وہ باطل کی تلاش میں رہتی ہے اور سچائی اسے بہت ہی ناپسند ہوتی ہے۔ ایسے ادوار میں باطل کو خوب رواج نصیب ہوتا ہے، اس کا چرچا ہوتا ہے اور سچائی ان ملعون ادوار میں بدحال ہوتی ہے۔ ”  [12]

اکیسویں صدی کے اکثر جمہوری معاشروں کی صورت حال کی بھی یہ بہترین عکاسی ہے۔دنیامیں اہل علم اب صاف صاف کہنے لگے ہیں کہ سچائی کے علم برداروں کے لیے مابعد حقیقت رجحان ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ایک ایسا چیلنج جس کی نظیریں انسانی تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں۔[13] سوال یہ ہے کہ ان حالات میں اہل اسلام کیا کریں؟ مابعد حقیقت کی کیفیت کا مقابلہ ایک گہرا اور تفصیل طلب موضوع ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ کسی وقت ہم اس کو زیر بحث لانے کی کوشش کریں گے، سر دست بعض بہت ہی بنیادی اور عملی باتوں کے تذکرے پر اکتفا کرتے ہیں۔

کیا کیا جائے؟

رائے عامہ کے رہبروں (opinion leaders)پرتوجہ

رائے عامہ کے تعلق سے روایتی نقطہ نظر یہی ہے کہ پہلے خواص کی رائے بدلتی ہے اور اس کے نتیجے میں عوام کی رائے یا رائے عامہ میں تبدیلی آتی ہے۔ اس تبدیلی کی اعلیٰ ترین سطح فکر و تحقیق کی سطح ہے۔ علمی تحقیقات اور افکار و تصنیفات نئی رائے کے لیے دلائل اور بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔اصلاً رائے عامہ کی تبدیلی کا آغاز اسی سطح پر ہوتا ہے۔اگلی سطحیں اس تبدیلی کو مستحکم کرتی ہیں اور اسے عموم دیتی ہیں۔ دوسری سطح پر وہ رائے ماس میڈیا میں ظاہر ہونا شروع ہوتی ہے اور اخباری تجزیے، ٹی وی کے مباحث وغیرہ کے ذریعے وہ سماج کے عام پڑھے لکھے متوسط طبقات میں عام ہونے لگتی ہے۔ تیسری سطح عوامی سطح ہے یعنی عوامی تقریروں، ثقافتی ذرائع، سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے وہ سماج میں جگہ بنانے لگتی ہے اور پھر گلیوں، محلوں، نکّڑوں پر زیر بحث آکر عوامی رائے بننے لگتی ہے۔یہ تمام کوششیں آج اسلام کے سلسلے میں مطلوب ہیں۔ اسلام کی اصولی تعلیمات، مسلمانوں کی تاریخ، وغیرہ پر ٹھوس علمی کام بھی درکار ہے اور صحافت اور ثقافت کی سطحوں پر بھی مسلسل ٹھوس کوششیں مطلوب ہیں۔ ان موضوعات پران صفحات میں متعدد بار لکھا جاچکا ہے[14] اس لیے اس وقت صرف اس کام کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہم دوسرے پہلوؤں پرتوجہ دیتے ہیں۔

رائے عامہ بدلنے کے لیے برادران وطن کو آگے بڑھانا

برادران وطن میں موجود انصاف پسند اور حق پسند افرادکو اس بات کے لیے آمادہ کرنا کہ وہ مختلف امور پر کھل کربولیں اور رائے عامہ کو صحیح رخ پر بدلنے میں کردار ادا کریں۔ موجودہ فضامیں ایک غیر مسلم اگر اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بولتا ہےتو فطری طور پر رائے عامہ پراس کااثر زیادہ پڑتا ہے۔ ماضی میں بشمپر ناتھ پانڈے[15] جیسے مورخین نے تاریخ کے بارے میں بہت سی مروج غلط آرا کو قابلِ رد بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ایسے افرادکو ہر سطح پر سامنے لانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ سنجیدہ محققین، صحافی وکالم نگار، سول سوسائٹی جہدکار، سماجی میڈیا اثر گزار (social media influencers) ، مقررین،ادبا، شعرا، نیز چھوٹے شہروں اور محلوں کی سطح پر ایسے سنجیدہ اور قابل اعتماد افراد جو متنازعہ موضوعات پر سچی بات کہنے کی جرأت رکھتے ہوں، وہ رائے عامہ کی تبدیلی کے لیے ضروری ہیں۔ ایسے افراد کی تلاش اور ان کی آوازوں کی تقویت ایک اہم ترجیح ہونی چاہیے۔

 عوامی دائرے (Public Sphere) میں سرگرم شمولیت

مابعد حقیقت رجحان کے پیش نظر اس بات کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ راست عوام سے تعلق قائم کیا جائے اور عوامی جذبات کو متاثر کیا جائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی ’عوامی دائرے‘ (public sphere) میں فعال شرکت ہو۔عوامی دائرہ جرمن ماہر سماجیات جرگن ہابرماس (Jurgen Habermas b. 1929)کا رائے عامہ کے تعلق سے ایک خاص تصور ہے۔[16] عوامی دائرے سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں افراد جمع ہوتے ہیں اور ہر طرح کے بیرونی دباؤ سے آزاد ہوکر مشترک مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ ہابرماس کے نظریے کے مطابق عوامی رائے ہمیشہ اوپر سے نیچے (top-down) اور اوپینین لیڈرس کے ذریعے ہی نہیں بدلتی بلکہ بسا اوقات تبدیلی کا عمل عوامی دائرے کے ذریعے نیچے سے اوپر (bottom-up)کی طرف جاتا ہے۔[17] حالیہ دنوں میں عرب بہاریہ، آکیوپائی وال اسٹریٹ مومنٹ وغیرہ نیز ہمارے ملک میں سی اے اے مخالف مومنٹ اسی قسم کی تبدیلیاں تھیں۔ عوامی دائرے کے لیے تین شرطیں ہیں، پہلی یہ کہ وہ ہر ایک کے لیے کھلا ہو یعنی کسی کے بھی شریک ہونے اور بحث میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہ ہو، دوسری یہ کہ اس میں کھلے عقلی مباحث ہوں اور تیسری یہ کہ ان مباحث پر کسی قسم کا بیرونی دباؤ نہ ہو[18]۔ گذشتہ صدی کے یورپ میں کافی ہاؤسوں کا کلچر اس دائرے کی عملی مثال تھا۔ ہمارے زمانے میں، پبلک فورم، کلب ہاؤس، یونیورسٹیوں کے کینٹین، سول سوسائٹی تنظیمیں اور فورم، پبلک لائبریریاں، پارک، کمیونٹی سینٹر، چائے خانے، خانہ دار خواتین کی مشغلوں کی مجالس hobby forum، نوجوانوں کی انجمنیں، ورزش گاہیں، اسپورٹس کلب وغیرہ عوامی دائروں کی مثالیں ہیں۔شہروں میں میٹرو اور لوکل ٹرانسپورٹ کوجس میں لوگوں کے مختلف گروپ روزانہ ساتھ سفر کرتے ہیں، عوامی دائرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں نےموجودہ دور میں سوشل میڈیا اور وہاٹس اپ گروپوں کو بھی عوامی دائرے کا حصہ قرار دیا ہے[19]۔ ہمارے خیال میں اس طرح کے ورچول پلیٹ فارم محدود پیمانے پر تو عوامی دائرے کا حصہ قرار پاسکتے ہیں لیکن اصلاً عوامی دائرہ راست عوامی تعلقات ہی کا دائرہ ہےاس لیے کہ انسانوں کے درمیان جذباتی تعلق حقیقی ملاقات کے بغیر ادھورا ہوتا ہے۔ لوگوں کے تصورات اوران کےجذبات پر بھرپور اثر اندازی صرف الفاظ اور ٹیکسٹ کے تبادلے سے ممکن نہیں ہے۔ مکمل انسانی وجودکا راست رابطہ بھی درکار ہے۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے سماجی دائرے کاملک کے عام سماجی دائرے سے جدا ہوجانا،رائے عامہ کی درست رخ پر تبدیلی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ رائے عامہ کی تبدیلی کے لیے اس صورت حال کو بدلنے کی شعوری کوشش ضروری ہے۔اس بات کی ضرورت ہے کہ عوامی دائرے کےتمام پلیٹ فارموں پر (جن میں سے کچھ کی مثالیں اوپر درج کی گئی ہیں) مسلمانوں اور ملک کے عوام کے درمیان دوری کو کم سے کم کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ یہ عوامی دائرے زیادہ سے زیادہ مشترک ہوتے جائیں اور بامقصد اور تعمیری تبادلہ افکار اور گفتگو و تعامل کی فضا عام ہو۔

 سوشل میڈیا ایکو چیمبروں میں نفوذ

سوشل میڈیا کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ رائے عامہ کو درست رخ دینے اور سچائی کو لوگوں کے سامنے لا نے کا یہ ایک اہم ذریعہ ہے۔ لیکن گذشتہ چندسالوں میں سوشل میڈیا میں وہ رجحان بہت تیزی سے عام ہوا جسے ایکو چیمبرز(echo chambers)کہتے ہیں۔[20] یعنی صارفین بتدریج اپنے ہم خیال حلقوں میں قید ہوتے چلے گئے۔سوشل میڈیا پلیٹ فارموں نے اپنے تجارتی مفادات کے پیش نظر الگورتھم کےذریعے بھی اسی رجحان کو فروغ دینا شروع کیااس کے لیے کچھ خاص تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں جنھیں (algorithmic curation)کہا جاتا ہے[21]۔ چناں چہ آپ جس خیال یا مکتب فکر کے حامی ہیں آپ کو زیادہ تر اسی مکتب فکر کی پوسٹیں ملا کریں گی یہاں تک کہ آپ کی ساری سوشل میڈیا سرگرمی اپنے ہم خیال لوگوں کے دائرے میں محدود ہوجائے گی۔ دوسرا نقطہ نظر آپ کے سامنے آہی نہیں پائے گا۔ ہم خیال لوگوں کے درمیان پیش ہونے والی جھوٹی سچی باتوں اور ایک ہی نقطہ نظر کی مسلسل تکرار سے آپ کی سوچ ایک خاص رخ پر تشکیل پاتی رہے گی۔ ٹکنالوجی کی مخصوص اصطلاح میں یہ صورت حال فلٹر ببل (filter bubble)کہلاتی ہے اور اسے صحت مند تبادلہ خیال کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جارہا ہے۔مابعد حقیقت رجحان (post-truth phenomenon)کے فروغ میں ایکو چیمبروں کابڑا کلیدی کردار ہے۔[22] بدقسمتی سے مسلم نوجوان بلکہ تحریکی نوجوان بھی بالعموم اپنے اپنے ایکو چیمبروں میں محدود رہتے ہیں۔ ہم خیال لوگوں کے درمیان رات دن سرگرم رہ کر وہ اس خام خیالی میں رہتے ہیں کہ وہ عوامی مباحثے میں شریک ہورہے ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین کی اس سلسلے میں خصوصی تربیت ضروری ہے۔ اپنے ایکو چیمبروں سے نکلنا اور دوسروں کے ایکو چیمبروں میں نفوذ کرنا یہ رائے عامہ پر اثر اندازی کے لیے ضروری ہے۔ یہ کام مشکل اور چیلنجنگ ضرور ہے لیکن معمولی ٹریننگ سے اس کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کی سیٹنگ میں بعض تبدیلیوں کے ذریعے بھی اس سمت کچھ نہ کچھ پیش رفت کی جاسکتی ہے۔

فرقہ وارانہ رجحان کے حاملین تک رسائی (outreach)

رابطہ، تعلق،گفتگو، تبادلہ افکار اور اثر اندازی کی یہ کوششیں صرف سیکولر سمجھے جانے والے افرادتک محدود نہیں ہونی چاہئیں۔ فرقہ وارانہ رجحان کے حامل افراد تک پہنچنا اور ان سے بات چیت کرنابھی ضروری ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ سماجی تعلق ان کی رائے بدل سکتا ہے یا ان کی رائے کی شدت میں کمی لاسکتا ہے یا تیسرے درجے میں کم سے کم جس تیزی سے وہ عام لوگوں کی رائے کو بگاڑ رہے ہیں، اُس رفتا ر کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کے موجودہ ماحول میں صرف مسلمانوں کے ایکوچیمبر جس طرح رائے عامہ پر اثرا ندازی میں مفید نہیں ہیں بلکہ مضر ہیں اسی طرح مسلمانوں اور بائیں بازو کے رجحان کے حامل یا ’مسلمانوں کے طرف دار‘ مانے جانے والے سیکولر افراد کے ایکو چیمبر بھی اس معاملے میں زیادہ معاون نہیں بن سکتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان سب ایکو چیمبروں سے نکل کر ملک کے عوام کو راست مخاطب بنایا جائے اور عوام کے مین اسٹریم سے بات کی جائے۔

 عملی نمونے

مابعد حقیقت صورت حال میں رائے عامہ کی تبدیلی کے لیے عملی نمونوں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سوشل لرننگ تھیوری [social learning theory) [23) کے مطابق رائے عامہ پرلوگوں کے اچھے رویوں اور کام یاب عملی نمونوں کا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ عملی نمونے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ان کے سارے حواس ان نمونوں کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ عملی نمونوں میں یک گونا جذباتی اپیل بھی ہوتی ہے۔ اس لیے جھوٹ کی فریب کاریاں یہاں حقیقت تک پہنچنے میں زیادہ حائل نہیں ہوپاتیں۔اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو اسلام کی برکتوں کا زیادہ سے زیادہ مشاہدہ کرنے کا موقع ملے اوروہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر مثبت رائے بناسکیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل تجاویز قابل توجہ ہیں:

مسلمان زیادہ سے زیادہ عام لوگوں سے تعلقات قائم کریں۔ ان کی دوستیاں اور رفاقتیں صرف مسلمانوں کے دائرے میں محدود نہ رہیں۔ عام لوگوں پر وہ اپنے اخلاق و کردار کے اثرات چھوڑیں۔

عام لوگوں کو مسلمان خاندانوں کے قریبی مشاہدے کے مواقع ملیں۔ کھانے پینے، رہن سہن، شادی بیاہ،تجہیز و تکفین و آخری رسومات، مختلف عبادات، تیوہاروں اورمراسم کو راست دیکھنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔مساجد میں مدعو کیاجائے۔مدارس عربیہ کو قریب سے دکھا یاجائے۔ جمعہ کے خطبے، تراویح اور رمضان کی راتوں کی سرگرمیاں، حج کے تربیتی پروگرام، فطرہ و زکوة کی تقسیم، اجتماعات وغیرہ کے موقعوں پر ساتھ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ تجارت اور تجارتی تعلقات بھی مسلمانوں کو قریب سے دیکھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ بعض جگہوں پراس خطرناک رجحان کو محسوس کیا جارہا ہے کہ تجارتی تعلقات بھی مذہبی خطوط پر تقسیم ہونے لگے ہیں۔ اس رجحان کی شدت سے حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

مسلمانوں کی خد مات اور ان کے کنٹری بیوشن کو نمایاں کیا جائے۔ عام طور پر مسلمان اہل علم کی زیادہ توجہ یا تو اسلام کی اصولی تعلیمات کی ترویج و اشاعت پر رہی ہے یا صدر اول اور اسلامی تاریخ کے اچھے نمونوں کو نمایاں کرنے پر۔ عملی نمونوں کی ضرورت کا تقاضا ہے کہ عصر حاضر میں اور ہمارے ملک میں مختلف شعبہ ہائے حیات میں مسلمانوں کے اچھے کاموں کو نمایاں کیا جائے اور خاص طور ان کارناموں کے وہ پہلو جن کا تعلق اسلام کی امتیازی تعلیمات سے ہے اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے سامنے لایا جائے۔ (مثلاً باحجاب خواتین کے علمی و سماجی کارنامے، اسلامی اصولوں کے مطابق انجام دی جارہی کام یاب تجارتوں کے نمونے وغیرہ) مسلمانوں کے بارے میں مثبت مخصوص تصورات (positive stereotypes)منفی مخصوص تصورات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے سلسلے میں ملک عزیز میں جہاں بہت سے منفی تصورات رائج ہیں وہاں کچھ مثبت تصورات بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ مسلمان شراب سے گریز کرتے ہیں۔ان کی عورتیں زیادہ باحیا اور عفت مآب ہوتی ہیں۔ان کے خاندان زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔ ان کے پکائے ہوئے کھانے زیادہ لذیذ ہوتے ہیں۔ وہ اچھے فن کار ہوتے ہیں۔نفسیاتی اور روحانی لحاظ سے زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔ ان تصورات کو اورنمایاں کرتے ہوئے ذہنوں میں مستحکم کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح جہاں تک ممکن ہو،مزید مثبت مخصوص تصورات (positive stereotypes) کی بھی تلاش ہونی چاہیے۔ ملک کے الگ الگ علاقوں میں الگ الگ شبیہیں اور ان سے وابستہ مثبت تصورات بھی موجود ہیں۔ ان کی تلاش اور ان کو نمایاں کرنے کی کوشش رائے عامہ کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

اسلامی اصولوں کی بنیاد پراور اسلامی نظام حیات کی امتیازی خصوصیات کے ساتھ ادارے قائم کیے جائیں اور ملک کے تمام لوگوں کو ان سے مستفید ہونے کے موقعے دیے جائیں۔ مثلاً اسلامی نظام تعلیم کی نمائندگی کرنے والے تعلیمی ادارے، صحت کے سلسلے میں اسلام کے کُلی تصور کی شہادت دینے والے ہسپتال، بلاسودی مائکرو فینانس کے ادارے، اسلامی اصولوں کی مکمل پاسداری کرنے والے اخبارات اور میڈیا وغیرہ۔ یہ ادارے اگر صحیح اسلامی اسپرٹ کے ساتھ کام کریں اور ان کے ذمہ داروں اور کارکنوں کو اسلامی نظام زندگی کے متعلق تصورات کی اچھی طرح ٹریننگ دی جائے تو ایسے ادارے اسلام کی عملی شہادت میں بہت اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔

خدمت خلق کے میدان میں کی جارہی کوششوں کو صرف مسلمانوں تک محدود رہنے نہ دیا جائے۔برادران وطن کو بھی ان سے مستفید ہونے اورمسلمانوں کے جذبہ رحمت کا مشاہدہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس کا بہت کام یاب نمونہ کووڈ کے دوران مسلمانوں کی خدمات کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔

خاموشی، اعراض اور نظر انداز کرنے کی پالیسی (جہاں ضرورت ہو)

ایجنڈا وضع کرنے کا نظریہ(Agenda Setting Theory)کمیونکیشن سائنس کی ایک اہم تھیوری ہے۔ اس کے مطابق رائے عامہ کی تشکیل میں سب سے پہلا رول اُن طاقتوں کا ہوتا ہے جو سماجی ڈسکورس کا ایجنڈا متعین کرتے ہیں۔[24] میڈیا، سیاست داں اور سرمایہ دار وغیرہ سماج کی بااثر قوتیں عوامی مباحث کے ایجنڈے کو کنٹرول کرتی ہیں۔ جدید جمہوری سماجوں میں وہ یہ تو طے نہیں کرسکتے کہ لوگ کیا سوچیں؟( ?what to think) لیکن وہ یہ ضرور طے کرتے ہیں کہ لوگ کس مسئلے پر سوچیں؟(?what to think about)۔ مابعد حقیقت زمانے میں اس عمل کی اہمیت اور اثر پذیری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں سےمتعلق ایسے مسائل کوجو رائے عامہ کو منفی بناسکیں، بار بار سامنے لایا جاتا ہے اور جو مباحث رائے عامہ کو مثبت بناسکتے ہیں انھیں عوامی بحث میں آنے ہی نہیں دیا جاتا۔کام یاب مذاکرے کی صلاحیت یہ ہے کہ آپ ایجنڈے کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کریں۔ یعنی آپ کی نظر صرف اس پر نہ ہو کہ کیا اور کیسے کہنا ہے بلکہ اس پر بھی ہو کہ کس موضوع پر بولنا ہے اورکس موضوع پراعراض اور خاموشی کےہتھیاروں سے بحث کو بے اثر کردینا ہےاور اُس مسئلے کوگفتگو کا موضوع ہی بننے نہیں دینا ہے۔ بعض گرما گرم مباحثوں کے دوران اسٹریٹجک خاموشی، اعراض اور میڈیا شمولیت یا عدم شمولیت کا دانش مندانہ انتخاب (selective media engagement)، ان تکنیکوں کو رائے عامہ کی تشکیل و تعمیر کےلیے بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستانی مسلمانوںمیں اس کا شعور بہت ناقص ہے۔ وہ میڈیا کے بچھائے ہوئے ہر جال میں جاکر پھنس جاتے ہیں۔ جو ایشو بھی ان کی طرف اچھالا جاتا ہے، پورے مبلغانہ جوش کے ساتھ اس میں شمولیت اور ردّعمل کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔اپنے ذمہ داروں سے بھی ان کی یہی توقع ہوتی ہے کہ وہ ہر مسئلے پر بولیں، ہر اعتراض کا جواب دیں، ہر نظریاتی حملے کا فوری دفاع کریں۔وہ یہ نہیں دیکھتے کہ بار بار ایک ہی طرح کے مسئلے کو کیوں اچھا لا جارہا ہے؟ کیوں طلاق، حلالہ اور نفقہ مطلقہ ہی پر لوگ آپ سے بائٹ لینے پہنچ جاتے ہیں اور مسلم خواتین کی تعلیمی حالت، معاشی صورت حال اور تحفظ و سلامتی سے متعلق ان کے مسائل پر کبھی کوئی سوال آپ سے نہیں کیا جاتا ؟

اسلام کی ہر تعلیم پر عوام کو عقلی دلائل کے ذریعے فوراً مطمئن کرنا آسان نہیں ہوتا۔ بعض احکام کی حکمت و علت کے فہم کے لیے اسلام کے پورے نظام زندگی کا فہم درکار ہوتا ہے۔ بعض تعلیمات کا فہم گہرا علم اور بہت زیادہ معروضی ذہنی سانچہ چاہتا ہے۔بعض احکام ایمان و عقیدے کے بغیر سمجھ میں نہیں آتے۔ عوام تک اسلامی تعلیمات کی ترجمانی مرحلہ بہ مرحلہ ہی ممکن ہے۔ اس کا لحاظ خود خالق کائنات نے اپنے رسولﷺ کے دعوتی مراحل میں رکھا ہے۔ یہ لحاظ ہم کو بھی رکھنا ضروری ہے کہ اسلام کی کن باتوں پر اس وقت زور دینے کی ضرورت ہے،ان کے حق میں رائے عامہ کو ہم وار کرنا ممکن ہےاور کن باتوں پر بحث کو فی الحال ملتوی کرنے اوراس کے لیے مناسب موقعے کے انتظار کی ضرورت ہے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو ایک بڑی اہم دعوتی حکمت سکھائی ہے۔ وَإِذَا رَأَیتَ الَّذِینَ یخُوضُونَ فِی آیاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ یخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیرِهِ ۚ وَإِمَّا ینسِینَّكَ الشَّیطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ (اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات کے بارے میں فضول بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہوجائیں یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں مشغول ہوجائیں۔الانعام68) یخُوضُونَ فِی آیاتِنَا کی تشریح میں امام قرطبیؒ نے لکھا ہے: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان آیات پر نکتہ چینیاں کرتے ہیں اور الٹے سیدھے معنی پہناکر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔[25]ایسی صورت میں قرآن کے اس حکم کا مطلب کیا ہے؟اس کی تشریح کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

“ خوض کےمعنی ہیں بات میں سے بات نکالنا، بال کی کھال ادھیڑنا، کسی بات میں اعتراض، نکتہ چینی اور کٹھ حجتی کے نت نئے پہلو پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ قرآن میں یہ لفظ کئی جگہ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ اسی طرح کی سخن گستری کے لیے استعمال ہوا ہے جس کا مقصد کسی بات کو ہنسی دل لگی اور مذاق میں اڑا دینا ہو۔جس وقت کسی گروہ پر کسی چیز کی مخالفت، اس کی تضحیک اور اس کی تردید کا بخار چڑھا ہوا ہو اور بخار کی شدت سے مریض کی کیفیت ہذیانی ہو رہی ہو عین اسی حالت میں اس کے سامنے اس چیز کو پیش کرنا گویا اس کے بخار اور ہذیان دونوں کو مزید بڑھا دینا ہے۔ اگر کوئی معالج مریض کی بیماری ہی میں اضافہ چاہتا ہو تو وہ تو آزاد ہے جو چاہے کرے لیکن کوئی مہربان طبیب جو مریض کی صحت کا خواہاں ہے وہ کبھی ایسی غلطی نہیں کرے گا۔ اسی رعایت احوال کے پیش نظر یہاں مسلمانوں کو ہدایت ہوئی کہ جب تم دیکھو کہ یہ اسلام کے مخالفین قرآن کا مذاق اڑانے پر تلے ہوئے، طنز و تضحیک کے ترکش سنبھالے ہوئے اور مخالفت کے لیے آستین چڑھائے ہوئے ہیں تو اس وقت طرح دے جاؤ اور کسی ایسے وقت کا انتظار کرو جب یہ بحرانی کیفیت ذرا دور ہو جائے تو اس وقت ان کو سنانے اور سمجھانے کی کوشش کرو۔”  [26]

مقامی سطح پررائے عامہ کی تبدیلی

مابعد حقیقت رجحان (post-truth phenomenon)کے پس منظر میں ملک گیر سطح پراوروسیع تر جغرافیہ میں رائے عامہ کی تبدیلی قدرے مشکل ہے کیوں کہ اس سطح پر گروہی عصبیتوں اور ان پرمبنی جذبات کی کارفرمائی زیادہ ہوتی ہےاور جھوٹ اور فریب کاریوں کے دبیز پردے زیادہ موثر طریقے سے سچائی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے جغرافیہ چھوٹا ہوتا جاتا ہے یہ رکاوٹ کم زور سے کم زور ترہوتی جاتی ہے۔ایک دیہات، ایک ٹاؤن، بڑے شہر کی ایک کالونی،ایک بڑا اپارٹمنٹ، رائے عامہ پراثر اندازی کےآسان میدان ہوتے ہیں۔ اس سطح پر حقائق زیادہ واضح اورنمایاں ہوتے ہیں اور ان کو چھپانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لوگوں کے باہمی تعلقات میں صرف گروہی عصبیت کارفرما نہیں ہوتی بلکہ عام انسانی جذبات کا عنصر بھی متحرک ہوتا ہے۔مذہبی عصبیت کے پہلو بہ پہلو ’ پڑوس کی عصبیت‘(neighborhood bias)بھی کارفرما ہوتی ہے جو اعتماد کا تعلق قائم کرنے اور رائے کو متاثر کرنے میں مدد گار ہوتی ہے۔ اس لیے ایسے چھوٹے علاقے رائے عامہ کی بتدریج تبدیلی کے لیے ایک اکائی (microcosm)کے طور پرکام کرتے ہیں۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ عام مسلمانوں کو اس بات کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ صرف قومی اور ریاستی سطح کے مسائل میں الجھے رہنے کے بجائے مقام اور چھوٹی آبادیوں کو بنیاد بناکر محنت کریں۔ ان چھوٹی آبادیوں میں وہ سار ے امور انجام دیے جاسکتے ہیں جن کا اوپر کی سطروں میں تذکرہ کیا گیا ہے اور ایک ایک مسئلے کو بنیاد بناکر چھوٹی آبادی کی رائے عامہ بدلنے کی نتیجہ خیز کوشش کی جاسکتی ہے اور اس کام میں سماج کا ہر فرد بڑی آسانی سے بڑا اہم رول ادا کرسکتا ہے۔

حواشی و حوالہ جات

[1]    جماعت اسلامی ہند(2023)میقاتی منصوبہ ۲۰۲۳ تا ۲۰۲۷؛شعبہ تنظیم جماعت اسلامی ہند؛ نئی دہلی ص11

[2]   ملاحظہ ہو:

سید سعادت اللہ حسینی؛رائے عامہ کی تشکیل؛ زندگی نو (ستمبر 2019)

سید سعادت اللہ حسینی؛رائے عامہ کی تشکیل اور ذرائع ابلاغ؛ زندگی نو (مارچ 2020)

[3]      Tanishq withdraws advertisement; The Hindu; October 13, 2020

[4]      https://www.bbc.com/news/world-asia-india-58964034

[5]     Adrija Dey(2018). Nirbhaya, New Media and Digital Gender Activism. United Kingdom: Emerald Publishing Limited.

[6]   ملاحظہ ہو دو اہم مضامین

https://thewire.in/law/indian-jurisprudence-seems-to-be-bending-to-the-will-of-hindutva-forces

https://www.economist.com/asia/2024/02/22/how-independent-is-indias-supreme-court

[7]      Audrey Truschke, ” Hindutva‘s Dangerous Rewriting of History”  , South Asia Multidisciplinary Academic Journal [Online], 24/25 | 2020, Online since 23 October 2020, connection on 17 July 2024. URL: http://journals.openedition.org/samaj/6636;

[8]     Sachar Committee Report. (2006). Social, Economic and Educational Status of the Muslim Community of India. Government of India.

[9]   تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

سید سعادت اللہ حسینی؛تعلقاتی قوت اور نافعیت؛ زندگی نو (اکتوبر 2023)

[10]    Rogers, E. M. (2010). Diffusion of Innovations, 4th Edition. United Kingdom: Free Press.

[11]   سورہ مائدہ آیت 42

[12]  سید قطب (1997) فی ظلال القرآن (ترجمہ معروف شاہ شیرازی) جلد 2؛ دین محمد پرنٹرز؛ لاہور، ص521-522

[13]     C. G. Prado Edited (2018) America‘s Post-Truth Phenomenon: When Feelings and Opinions Trump Facts and Evidence; United Kingdom: Praeger.

[14]  ملاحظہ ہو

سید سعادت اللہ حسینی؛رائے عامہ کی تشکیل؛ زندگی نو (ستمبر 2019)

سید سعادت اللہ حسینی؛رتمکین و ترقی اور نظریاتی قوت؛ زندگی نو (ستمبر 2023)سید سعادت اللہ حسینی(2022)ہندتو انتہاپسندی ، نظریاتی کشمکش اور مسلمان؛ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی: اس میں خاص طور پر یہ مضامین :پیغام توحید،بہتر تعلیمی پالیسی، تاریخ کا متوازن بیانیہ، ہندتو کا ہندوستان اور مسلمان

[15]  بشمبر ناتھ پانڈے (1906-1998) ممتاز دانشور سیاست دان تھے۔اورنگ زیب، ٹیپو سلطان اور ہندوستان پر مسلمانوں کے مثبت اثرات کے سلسلے میں ان کی گہری تحقیقی تصنیفات بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔

[16]    Jurgen Habermas(1989), The Structural Transformation of the Public Sphere: An Inquiry into a Category of Bourgeois Society,Massachusetts: The MIT Press

[17]     Jurgen Habermas(1989) pp 27

[18]     Jurgen Habermas(1989) pp 36

[19]    L.M. Kruse et. al (2017). Social Media as a Public Sphere? Politics on Social Media. The Sociological Quarterly, 59(1), 62–84.

[20]  ایکو چیمبرز کے پورے عمل کو سمجھنے کے لیے ایک اہم کتاب

Anthony Gribin, A. (2018). I Am an Echo Chamber: The Basis of Tribalism; TrtPress.

[21]
Cass Sunstein (2018). ’Republic: Divided Democracy in the Age of Social Media. United Kingdom: Princeton University Press

[22] اس موضوع کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے مضامین کا ایک مفید مجموعہ

Joshua Tucker et. Al. Edited (2020) Social Media and Democracy; Cambridge University Press; Cambridge UK

[23]    Albert Bandura (1977) ” Social Learning Theory”  Prentice-Hall; London

[24]    MAXWELL E. McCOMBS, DONALD L. SHAW (1972) THE AGENDA-SETTING FUNCTION OF MASS MEDIA, Public Opinion Quarterly, Volume 36, Issue 2, SUMMER 1972, Pages 176–187

[25]  ابی عبد اللہ محمد القرطبی (2006)الجامع لاحکام القرآن؛ الجزء الثامن؛ موسسۃ الرسالۃ؛ بیروت؛ ص418-419

[26] مولانا امین احسن اصلاحی (2009)تدبر قرآن؛ جلد سوم؛ فاران فاونڈیشن، لاہور؛ ص 76-77

مشمولہ: شمارہ اگست 2024

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223