قافلہ سخت جاں کے مسافر

محمد عبدالجلیل

” مولانا !

جماعت پیسنجر ٹرین کی طرح کیوں چلتی ہے، ایس آئئ او تو ایکسپریس کی رفتار سے دوڑتی ہے”

پتہ نہیں ایس آئی او کے نوجوانوں نے کسی وقت مرحوم مولانا عبدالقیوم صاحب کے سامنے اپنا یہ احساس واقعی رکھا تھا یا مولانا کے مخصوص رعب دار لہجہ اور ڈانٹ سے محظوظ ہونا چاہتے تھے!! مولانا بعض محفلوں میں یہ واقعہ خود سناتے تھے۔ اس سوال کو سناکر وہ تھوڑا رکتے اور مسکراکر مخصوص انداز میں کہتے تھے “ہم نے نوجوانوں سے پوچھا کہ میاں کیا پٹری تمھارے باپ نے بنائی ہے۔”

بات ہے تو تفنن طبع کی لیکن ہے بڑے پتے کی۔ اگلی نسلوں کے لیے پٹری بنانے اور پٹری بن جانے یا بلند وبالا عمارت کی بنیاد کا پتھر بن جانے والوں کے بغیر انقلابی قافلوں کی داستان مکمل نہیں ہوتی۔

جماعت اسلامی ہند کا پچہتر سالہ سفر ایک جانب نظریہ،  نصب العین، خطوط کار اور طریقہ کار اور جہد مسلسل کا بیش قیمت باب ہے تو دوسری جانب اس مبارک جدوجہد کے ایسے ہی مردانِ کار اور اس راہ کی گرد میں اٹ جانے والے بے شمار سعید و مبارک نفوس کی دلنشیں داستان ہے۔  ملک کے ہر خطہ میں ان مبارک نفوس کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں جو تحریک کی ریل گاڑی کے لیے پٹری بن کر بچھ گئے یا تحریک کی عمارت میں بنیاد کا پتھر بن کر چُھپ گئے۔ ان مبارک نفوس میں کئی معروف بھی ہیں اور بے شمار گمنام بھی۔ ان میں مرد بھی ہیں اور خواتین بھی، متمول بھی ہیں تنگ حال بھی۔ جماعت اسلامی  ہند کی تاریخ کا ہر باب ایسی ہستیوں کے اخلاص، للہیت،  اخلاقی بلندی، دیانت، عزیمت، قربانی اور جاں نثاری سے منور ہے۔

حلقہ مہاراشٹر میں بھی ابتدا ہی سے اسے تحریک کو ایسی مشعل راہ زندگیاں میسر آیئں۔ کئی ہستیاں اپنا عہد پورا کرکے اپنے رب کے حضور پہنچ چکی ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل محترم اسماعیل اخلاص صاحب اور تقسیم ہند کے بعد محترم  محی الدین ایوبیؒ، محمد یونسؒ ، پھر مہاراشٹر کی تشکیل کے بعد محمود احمد خان صاحبؒ اور شمس پیر زادہؒ ، شہاب بانکوٹیؒ جیسی انمول ہستیوں نے اپنے خونِ جگر سے تحریک کو سینچا۔ پھر مختلف امرائے حلقہ، مولانا رشید عثمانیؒ، مولانا عبد القیومؒ، مولانا حبیب الرحمنؒ کے علاوہ مولانا محمد اشفاق احمدؒ، مولانا نعیم اللہ قریشیؒ، غلام رسول دیشمکھؒ، حور جہاں صاحبہؒ، سلمی بیگ صاحبہؒ، منیرہ باجیؒ جیسی تحریک کی راہ میں جان ومال کا نذرانہ نچھاور کرنے والوں کی جگ مگ کرتی ایک پوری کہکشاں، ضلعوں اور مقامات اور قصبوں میں کئی معروف اور گمنام رہروانِ شوق کے نشان راہ ان پچہتر برسوں کے سفر میں جگہ جگہ نقش ہیں۔ ان میں سے بعض افراد کی کچھ یادیں اپنی یادداشت سے اور بعض کی راویوں کے حوالے سے پیش ہیں۔

***

ریاست مہاراشٹر کی تشکیل سے قبل 1947 ہی سے حلقہ ممبئی وگجرات اور حلقہ گجرات کے نام سے تحریک کے کام کا آغاز ہوگیا تھا۔ لیکن ریاست مہاراشٹرکی تشکیل ( 1960) کے بعد حلقہ میں جماعت کے قافلہ کی راہبری کرنے والے پہلے امیر حلقہ شمس پیر زادہؒ تھے۔ محترم صدیق قریشی صاحب ممبئی نے اپنے مربی اور استاد شمس پیر زادہؒ کے ساتھ اپنی بیس سال سے زائد رفاقت کے حوالے سے کئی خوبیاں راقم کو فون پر بتائیں۔ گوناگوں تحریکی اور ملی مصروفیات، تفسیر اور علمی سرگرمیوں کے باوجود بیت المال کے امور پر نہایت کڑی نگاہ تھی۔ صدیق قریشی صاحب کا کہنا ہے کہ دفتر حلقہ پانچ سات افراد کی ٹیم پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ جب بھی بجٹ بنتا یا حسابات کے گوشوارے تیار ہوتے تو کئی بار ایسا ہوا کہ دس پیسے، آٹھ آنے کا فرق آنے پر شمس پیر زادہ صاحبؒ نے رات رات بھر جگا کر اسے درست کرکے دم لیا۔ ایک مرتبہ ان کے مکان میں کوئی مرمت کا کام آپڑا۔ صدیق قریشی صاحب پہنچے۔  چالی کا مکان تھا۔ مرمت کا کام ہوگیا۔ اس دوران صدیق صاحب نے دیکھا کہ باتھ روم پر پانی کی ایک سادہ  ٹنکی رکھی تھی اور اس میں بار بار پانی علیحدہ سے  بھرنا پڑتا ہے۔ صدیق صاحب نے کہا کہ بال کے ساتھ فٹ ہونے والی ٹنکی لگادیں گے تو پانی ضرورت کے مطابق خود بخود بھر جایا کرے گا۔ شمس صاحب نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ  اتنے آرام اور آسانی کی کیا ضرورت ہے، میں پندرہ بیس منٹ میں پانی بھر لیتا ہوں۔

شمس پیر زادہ صاحب کی دو بیٹیاں تھیں۔ بڑی بیٹی قانتہ اور دوسری بیٹی مسفرہ۔ بڑی بیٹی کی جب شادی ہوگئی تو شمس پیر زادہ صاحب نے  بیٹی پر خرچ ہونے والی رقم کا حساب لگا کر جماعت کے مشاہرے سے وہ رقم کم کردی اور کہا کہ میرا گزارا اب اتنی رقم میں ہوجائے گا۔

***

حلقہ دکن تقسیم ہو کر جنوبی اور شمالی حیدرآباد بن گیا تھا۔ جنوبی دکن میں عادل آباد، ناندیڑ ، پربھنی، اورنگ آباد اور برار کے اضلاع شامل تھے۔ اس وقت امیر حلقہ کے بجائے قیم حلقہ کی اصطلاح ہوتی تھی۔ یہ متعلقہ حلقوں میں راست امیر جماعت کے قیم ہوا کرتے تھے۔ 1954 میں محمود احمد خان صاحبؒ حلقہ شمالی دکن کے قیم بنائے گئے۔ اس سے قبل وہ پولیس انسپکٹر تھے۔ جماعت کے دستور کی رو سے محکمہ پولیس کی ملازمت کے ساتھ رکنیت نہیں دی جاسکتی تھی۔ اب یا تو رکنیت سے محروم ہونا تھا یا پولیس انسپکٹر کی ملازمت سے۔ محمود احمد خان صاحبؒ نے پولیس محکمہ سے استعفی دے دیا۔ ان سطور کے لکھنے سے قبل راقم نے مولوی عبد الحمید خان صاحب سے گفتگو کی۔ انھوں نے اپنے فرزند حافظ جاوید صاحب کے توسط سے بتایا کہ اس زمانے میں جماعت کا کام سخت آزمائشوں سے عبارت تھا۔ جماعت کی ہر سرگرمی علانیہ، شفاف اور قانون کے دائرے میں ہوتی تھی۔ اس کے باوجود محمود احمد خان صاحبؒ کے تعاقب میں کئی بار انٹلی جنس کے تین تین لوگ  رہا کرتے تھے۔  ایک مقامی، ایک اسٹیٹ کا اور ایک سینٹر کا۔  کوئی کام خفیہ نہ ہونے کے باوجود انٹلی جنس کے اس سخت گیر رویے سے محمود احمد خان صاحبؒ کے حوصلے ذرا کم زور نہیں پڑتے۔ ملازمت ترک کر کے خان صاحب نے دودھ کا کاروبار شروع کیا تھا۔ ملازمت چھوڑنے کے سبب معاشی تنگی کے دور سے بھی گزرے۔ مولانا عبد القیوم صاحبؒ نے راقم کے ساتھ ایک طویل انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو میں مولانا نے بتایا تھا کہ ملازمت ترک کرنے کے بعد ایسے بھی حالات آئے کہ کھیت میں ہل جوتنے کے لیے ایک ہی بیل تھا۔ دوسرا خرید نہیں سکتے تھے تو بسا اوقات ہل کے جوے کا ایک سرا بیل کی گردن پر ہوتا تھا اور دوسرا محمود احمد خان صاحبؒ کے کاندھوں پر اور اہلیہ ہل کے پیچھے کھڑی ہوتی تھیں۔

***

حلقہ مہاراشٹر میں تحریکی جدوجہد کے البم میں ایک تصویر ایسے  مرد درویش کی بھی ہے جس کے خسروانہ انداز پر ملت کو ناز رہا۔ وہ سقوط حیدرآباد 1948 میں اس وقت گرفتار ہوا جب وہ محض آٹھویں جماعت کا طالب علم  تھا۔ پھر 1965 میں DIR کے تحت گرفتار ہوئے، پانچ ماہ قید رہے، پھر 1966 میں شہر میں فساد ہوا تو گرفتار ہو کر دو ماہ جیل میں گزارے۔ الزام بھی کتنا پیارا تھا “تم مسلمانوں سے کہتے ہو کہ ان کو مسلمان ہی رہنا چاہیے۔” اس مردِ حق نے تین ججوں کی بنچ کے سامنے اپنے روایتی رعب دار لہجے میں اعتراف کیا تھا کہ “ہاں میں کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اپنی آخری سانس تک مسلمان ہی رہنا چاہیے۔” پھر ایمرجنسی میں گرفتار ہوئے اور ناسک جیل میں قید کردیے گئے۔ 1986 میں بابری مسجد میں شیلا نیاس کا فتنہ پیدا کیا گیا۔ اورنگ آباد میں احتجاج ہوا تو دیگر ملّی قائدین کے ساتھ پھر گرفتاری عمل میں آئی۔  جہد مسلسل اور پیہم قربانی کا یہ پیکر تھے مولانا عبدالقیوم صاحبؒ۔

ان کی داستان میں نے ان ہی سے سنی ہے۔ مولانا کے انتقال سے چھ سات سال قبل بہت اصرار کرکے اورنگ آباد پہنچا۔ وہ اپنے بیٹے جناب عبدالحی صاحب کے ہاں قیام پذیر تھے۔ دوپہر سے شام اور پھر رات قیام کر کے دوسرے دن دوپہر تک وقفہ وقفہ سے بہت تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ حلقہ مہاراشٹر کے تیسرے امیر، مرکز میں مختلف ذمہ داریاں  اور برسوں تحریکی اور ملی اداروں میں جہد مسلسل کے پیکر مولانا عبدالقیوم کی داستان حیات بڑی دل سوز ہے۔  بعد کےعرصہ میں مولانا کو نظم جماعت سے جیپ کا انتظام ہوا لیکن اس سے قبل اکثر اپنے گھر سے کھانے پینے کا سامان باندھ لیتے۔ کبھی ٹرین کبھی بس، کبھی سائیکل اور کبھی تو پیدل ہی مختلف علاقوں کا سفر کرتے۔  اس کے بعد اللہ تعالی نے درجات کی بلندی کا ایک اور معاملہ ساتھ کردیا تھا کہ مولانا کی اہلیہ محترمہ مستقل بیمار رہتیں۔ دوروں سے واپسی پر مولانا اپنی اہلیہ کی تیمار داری کرتے۔ ان دنوں عسرت اور تنگی کا یہ عالم تھا کہ اپنے شیر خوار فرزند کو خرید کر دودھ پلانے کے لیے پیسے نہ ہوتے تو پانی میں روٹی بھگوکر ننھے بچے کو کھلاتے۔

***

ملازمت فاریسٹ ڈپارٹمنٹ میں تھی لیکن  ابتدا میں مولانا عبدالکریم پاریکھ صاحب سے وابستگی کے نتیجہ میں اللہ کے کلام کو سینہ میں زیادہ زیادہ محفوظ کرنے کا انھیں شوق پیدا ہوا۔ پھر شہر میں لوگوں نے متعدد بار دیکھا کہ ناگپور کے فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے دفتر جاتے وقت سائکل کے ہینڈل پر لگے کیریئر میں زیر حفظ آیات لگی ہیں اور یاد ہو رہی ہے۔ یہ تھے مولانا حبیب الرحمن خان  صاحبؒ۔ تنظیمی طور پر مختصر عرصہ کے لیے امیر حلقہ مہاراشٹر بھی رہے لیکن اصل شناخت اللہ کے کلام کے شیدائی ہی کی تھی. 1995  تا 1996 ایک سال کی امارت حلقہ کے بعد دور امارت ہی میں اللہ تعالٰی کے حضور پہنچ گئے۔

مولانا  حبیب الرحمن خانؒ کے قرآن سے شغف اور تعلق خاطر کا اظہار اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ مرض الموت  کے وقت بالکل اخیر وقت میں جب انھیں محسوس ہوا کہ رب کا بلاوا آلگا ہے تو اپنے بیٹے رضوان الرحمن خان سے کہا کہ مجھے سورہ یاسین سناؤ۔ شدت جذبات کے باوجود رضوان الرحمن صاحب نے قرآن لے کر سنانا شروع کیا۔ قرآن سامنے ہونے کے باوجود اسے سناتے ہوئے دو تین غلطیوں کو مولانا نے ان آخری لمحات  میں بھی درست کیا۔ سورہ یاسین کی تلاوت مکمل ہونے کے دس بارہ منٹ بعد مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ وہ بھی اس شان کے ساتھ کہ پہلے معلوم کیا کہ “میرےکپڑے پاک تو ہیں؟ ” اپنے کپڑوں کو خود درست کیا۔ خاندان کے موجود افراد بڑے بیٹے عرفان الرحمن خان صاحب،  بڑی بیٹی ہاجرہ مسعود خانم، سب سے چھوٹے بیٹے اشفاق الرحمن خان اور رضوان الرحمن صاحب کو سلام کیا اور مولانا نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔

***

یہ-86 1985 کی بات ہے۔ اس زمانے  میں مالیگاؤں کا جامعة الھدی اقامتی ادارہ تھا۔ یہ محض تعلیمی ادارہ نہیں تھا، بلکہ عظیم مشن کی تکمیل میں کمک کی فراہمی اس کے پیش نظر تھی۔ مشن کی عظمت کے شایان شان  ایک عظیم مربی شخصیت کو صدر مدرس کی ذمہ داری سونپی گئی۔ طلبہ اس مربی اور پیکر اخلاص کے گرویدہ اور وہ طلبہ کو اپنی دھڑکنوں میں ہر دم بسائے رکھنے والا۔ یہ مربی  وصدرمدرس تھے مرحوم  مولانا اشفاق احمد صاحب،  جنھیں اورنگ آباد اور ملک کے نہ صرف تحریکی حلقے  بلکہ ملت کے خاص وعام بھی بجا طور پر زندہ پیر اور زندہ ولی کہا کرتے تھے اور جنھوں نے مسلم ملت کی تعلیم وتدریس اور اسلامی درسیات کے کام کے لیے پوری زندگی نچھاور کردی تھی۔

اس اقامتی مدرسہ میں بیت الخلا کا قدیم نظام تھا جس میں بھنگی سے روزانہ صفائی کی ضرورت پیش آتی۔ کسی سبب بھنگی کی غیر حاضری کچھ لمبی ہوگئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ  بیت الخلا استعمال کے قابل نہ رہے۔ کم عمر طلبہ کو اس کا کیا علاج سوجھتا۔ تکلیف،  شکایت، بے چینی کا بڑھنا واجبی تھا۔ اسی پریشانی کے عالم میں ایک روز صبح فجر سے قبل طلبہ نے  نیم اندھیرے میں دیکھا کہ کوئی شخص چہرے پر کپڑا باندھے بیت الخلا کی صفائی کر رہا ہے۔ طلبہ سمجھے کہ بھنگی آگیا ہے۔ لیکن بے وقت اس کے آنے کے سبب ان کے اندر تجسس بھی تھا۔ آگے بڑھ کر دیکھا تو ہوش اُڑ گئے کہ یہ صفائی بھنگی نہیں مولانا اشفاق احمد صاحب کر رہے تھے۔ اس واقعہ کے راوی اور عینی شاہد محترم مولانا عبد القوی فلاحی صاحب ہیں جو اس وقت جامعة الھدی میں زیر تعلیم تھے۔ مولانا اشفاق احمد صاحب نے جامعة  الھدی کا چارج ایک اسکول سے برطرف کیے جانے کے بعد سنبھالا تھا۔ اس سے قبل وہ اورنگ آباد کے ایک اسکول کے صدرمدرس تھے۔ اسکول کی انتظامیہ نے انھیں فرنیچر کے فرضی بلوں پر دستخط کرنے کے لیے کہا تھا۔ مولانا نے دستخط کرنے سے انکار کیا۔ اسی انکار پر وہ برطرف کردیے گئے۔ مشن کو حرز جاں بنا کر نونہالوں کی تربیت میں جان گھلاتے ہوئے  اور ضرورت پڑنے پر بیت الخلا کی صفائی کردینے میں عار نہ سمجھنے والے اشفاق صاحب دیانت داری اور تحریکی کردار سے انحراف کی طرف لے جانے والی گندگی کی کوئی چھینٹ بھلا کیسے برداشت کرسکتے تھے۔

***

غالبا ً 2008 کا سال ہوگا۔ افضل خان صاحب مرحوم ناندیڑ کے تحریکی بزرگ تھے۔ عمر کوئی ستر سال رہی ہوگی۔ پہلے ٹیکسٹائل مل میں کام کرتے تھے۔ پھر کتب فروش بن گئے تھے۔ کسی زمانے میں رکن رہے لیکن برسوں قبل بوجوہ رکنیت باقی نہیں رہی تھی۔ مختلف مساجد کے سامنے اور اجتماعات میں فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر چھوٹی سی کتابوں کی دکان لگایا کرتے تھے۔ ظاہری حلیے ہی سے کسمپرسی اور تنگ حالی ظاہر ہوتی تھی۔ راقم پر امیر مقامی کی ذمہ داری تھی۔ ایک روز دفتر جماعت کے قریب کی مسجد سے باہر نکلتے ہوئے مجھے روک لیا۔ دفتر جماعت کے فرسٹ فلور کے اوپر بغیر چھت کے برسوں سے کھڑے ستونوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ان پر چھت لادنے کے لیے ایک لاکھ روپے دینا چاہتا ہوں۔ میں نے ان کے احوال دیکھ کر تھوڑا تردد کیا اور کہا کہ ابھی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت دوسری منزل کی تعمیر طے بھی نہیں ہوپائی تھی اور چار پانچ لاکھ روپے سے زائد کا صرفہ تھا۔ افضل خان صاحب نے پھر ایک بار مجھے متوجہ کیا لیکن میں پھر ٹال گیا۔ تب میرے والد مرحوم عبدالحق صاحب سے جو ان کے دوست تھے، شکایت کی کہ آپ کے فرزند رقم قبول نہیں کر رہے ہیں۔ میں نے کچھ ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد ان کے گھر جاکر کے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ مکان کا اندازہ تو تھا۔ ٹیکسٹائل مل کی زمین پر مزدوروں کے لیے دی گئی زمین پر چھوٹا سا کچا مکان تھا۔ باہری کمرےمیں بٹھایا۔  بارش کے اثر سے زمینی فرش گیلا تھا۔  پرانا خستہ کمبل لپیٹے ہوئے تھے۔ جماعت کے دفتر کی چھت کے لیے ایک لاکھ روپے قبول کرنے کے لیے کہا۔ میں نے وضاحت کی کہ فی الحال ایسا کوئئ منصوبہ نہیں اور رقم آپ کو اپنی صحت اور گھر پر خرچ کرنی چاہیے۔ وہ مصر رہے۔ میں نے ان کے دونوں فرزندوں کو بلایا اور افضل خان صاحب کا ارادہ بتایا۔ بیٹوں نے بتایا کہ کچھ کھیت تھا جو فروخت ہوا۔ اب ابا نے طے کیا ہے یہ رقم وہ کہیں خرچ نہیں کریں گے،ہر حال میں جماعت ہی کو دیں گے، بالآخر وہ رقم جماعت کو ملی اور دفتر کے آئندہ ترقیاتی کاموں کی بنیاد بنی۔

***

افضل خان صاحب مرحوم کی رقم وہ بابرکت بالی بن گئی جس میں دانے بڑھتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ہی جب مرحوم حامد حسین صاحب ناندیڑ کے امیر مقامی ہوئے۔ ایک کارکن بہن نے انھیں فون کیا اور کہا کہ میں نے ایک لاکھ  روپے پس انداز کیے ہیں۔ ان میں سے نوّے ہزار جماعت کو دینا چاہتی ہوں۔ حامد حسین صاحب اس کارکن بہن کے گھریلو حالات سے واقف تھے۔گھر میں پانچ بیٹیاں تھیں۔ سب پڑھ رہی تھیں۔ کچھ اعلی تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ شادیاں سب کی باقی تھیں۔ کوئی بیٹا نہ تھا۔ شوہر کا کاروبار گزر بسر کے لحاظ سے ضرورت پوری کرنے والا تھا، لیکن ایسی کوئی فراوانی بھی نہ تھی۔ حامد حسین صاحب نے اس بہن کو سمجھایا کہ اس رقم کی وہ خود ضرورت مند ہیں، اسے اپنی ضرورتوں پر خرچ کریں اور جماعت کو نہ دیں۔ لیکن ہماری اس بہن نے کہا کہ میں یہ رقم اسی نیت سے جمع کرتی رہی کہ دس ہزار روہے ایک داعی دین کو دوں گی اور نوّے ہزار جماعت اسلامی کو، ہماری یہ کارکن بہن حیات ہیں۔ اللہ تعالٰی انھیں اجر جزیل سے نوازے۔ آمین

مشمولہ: شمارہ اگست 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223