سوال: ماہِ رمضان میں ہوائی جہاز میں افطار کا وقت کیاہوگا۔
جواب:اگرکوئی روزہ دار ماہِ رمضان میں ہوائی جہاز میں سفر کررہاہے اور وہ روزے کو باقی رکھنا چاہتا ہے تو وہ غروبِ آفتاب کے بعد ہی افطار کرے گا۔ لیکن اس کے لیے وہ غروبِ آفتاب معتبر ہوگا، جو سب سے پہلے اس کے راستے میں واقع ہو۔
سوال: ایک ۵۸ سالہ سن رسیدہ خاتون صاحبِ فراش ﴿مریض﴾ ہیں۔ وہ بہ ذات خود قضاے حاجت کے لیے بھی نہیں اٹھ سکتیں۔ کیا ان پر نماز اور روزہ فرض ہے؟
جواب:اگر ان کے ہوش و حواس درست ہوں تو ان پر نماز فرض ہوگی۔ حسبِ استطاعت انھیں نمازادا کرنی ہوگی۔ خواہ وہ اشارے ہی سے کیوں نہ ادا کریں۔ ارشادِ باری ہے: فَاتَّقُواللّٰہ مَااسْتَطَعْتُمْ ﴿التغابن:۱۶﴾ ’’جہاںتک تمھارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔‘’ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً الَّا وُسْعَہَا ﴿البقرہ:۲۸۶﴾ ’’اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمے داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔‘’ اور آپﷺ کاارشاد ہے: اذا أمرتکم بأمر فأتوا منہ ما استطعتم ﴿صحیح بخاری، صحیح مسلم﴾ ’’جب میں تمھیں کسی بات کاحکم دوں تو اپنی استطاعت بھر اس پر عمل کرو۔‘’ آپﷺ نے حضرت عمران بن حصین ؒ سے فرمایا: ’’صل قائماً، ف
*ن تستطع فقاعداً، ف
*ن لم تستطع فعلی جنب‘’﴿صحیح بخاری﴾ ’’کھڑے ہوکر نماز پڑھو، اگر اس کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر پڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو پہلو کے بل پڑھو۔‘’ ایک دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: ف
*ن لم تستطع فمستلقیاً ﴿سنن نسائی﴾ ’’اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو لیٹ کر پڑھو۔‘’ لہٰذا روزہ رکھنے کی طاقت ہے تو وہ روزہ رکھیں۔ ورنہ ہر دن کے روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلادیں اور اِن روزوں کی قضا واجب نہیں ہوگی۔ کھانے کی کمیت و کیفیت کے سلسلے میں متداول عرف کا اعتبار کیاجائے گا۔ البتہ اگر انھیں ہوش نہ رہتا ہو تو ان سے نماز اور روزہ دونوں ساقط ہوجائیںگے۔
سوال: کتنے کلومیٹر کی دوری پر مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے، اور اگر حالتِ سفر میں روزہ رکھ لیاجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:جمہور علماے کرام کے نزدیک ۰۸ کلومیٹرکی مسافت پر مسافر کے لیے نماز قصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور اگر مسافر روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ درست ہوگا۔ البتہ اگر روزہ رکھنے میں مشقت ہوتو روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔ اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاہے: لیس من البر الصوم فی السفر ﴿صحیح بخاری، صحیح مسلم﴾ ’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی کا کام نہیں۔‘’
سوال: بیشتر ڈرائیور حضرات پورے سال گاڑی چلاتے ہیں اور سفر کی حالت میں رہتے ہیں۔ تو ان کے لیے رمضان میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ اس کی قضا کب یا کیسے کریں گے؟
جواب:اگر ان کے سفر کی دوری قصر کی مسافت کی بقدر یا زائد ہوتو ان کے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ لیکن اگلے رمضان کی آمد سے قبل ان کو اپنے روزوںکی قضا کرنی ہوگی۔ ارشاد باری ہے: وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّ ۃٔ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ﴿البقرہ:۱۸۵﴾ ’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہوتو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔‘’ اپنی سہولت کے مطابق وہ قضاکے ایام کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
سوال: اگر میں ماہِ رمضان میں اپنے شہر سے دوسرے کسی شہر کا سفر کروں اور وہاں تین دن قیام کا ارادہ ہوتو مجھ پر روزہ رکھنا واجب ہوگا یا نہیں، اور ایسی صورت میں، میںنمازیں قصر ادا کروں یا مکمل؟
جواب:اگر آپ قصر کی مسافت کی بقدر سفر کریں اور تین دن کے قیام کا ارادہ رکھتے ہوں تو ان ایام میں آپ کے لیے روزہ چھوڑنے اور نماز قصر کرنے کی گنجایش ہے۔ اس لیے کہ اتنے دنوں کے قیام سے سفر کا حکم ختم نہیں ہوتا۔ خواہ آپ نے آغازِ سفر سے ہی اتنے دنوں کے قیام کا ارادہ کرلیا ہو۔ اس لیے کہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقعے پر آپ نے مکے میں چار روز قیام کیا اور نمازیں قصر کرتے رہے۔ البتہ آپ روزہ رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں اور بہتر ہوگا کہ آپ تنہا نماز پڑھنے کی بجائے جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں۔
سوال: کیا ماہِ رمضان میں روزہ چھوڑنے کی رخصت کی شرط یہ ہے کہ سفر پیدل یا جانور پر کیاجائے؟ کیا پیدل یا جانور پر سفر اور گاڑی، ریل یا ہوائی جہازکے سفر میں کوئی فرق ہے؟ کیا ناقابل برداشت تھکن اور پریشانی کا پایاجانا بھی اس کی شرائط میں سے ہے؟ اور اگر مسافر روزہ رکھنے کی طاقت رکھتاہوتو اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب:قصر کی مسافت کی بہ قدر سفر میں ہر مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ خواہ وہ پیدل سفر کررہاہو یا کسی سواری ﴿جانور، گاڑی، ریل، ہوائی جہاز﴾ پر۔ اور خواہ اسے ناقابل برداشت پریشانی اور تھکن لاحق ہو یا نہیں اور چاہے اسے بھوک، پیاس محسوس ہورہی ہو یا نہیں۔ اس لیے کہ شریعت نے مطلقاً بغیر شرط کے قصر کی مسافت کی بہ قدر سفر پر روزہ چھوڑنے اور نماز قصر کرنے کی اجازت دی ہے۔ صحابہ کرامؒ آپﷺ کے ساتھ ماہِ رمضان میں سفر کرتے تھے۔ کچھ روزہ رکھتے اور کچھ نہیں رکھتے۔ لیکن کوئی دوسرے پر نکیر نہیں کرتاتھا۔ البتہ اگر گرمی کی شدت یا لمبی مسافت کی وجہ سے روز ہ رکھنا دشوار ہوتو اسے ترک کرنا ضروری ہے۔حضرت انسؒ فرماتے ہیں:
کنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر، فصام بعض وأفطر بعض، فتحزم المفطرون و عملوا، وضعف الصائمون عن بعض العمل، قال، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ذھب المفطرون الیوم بالأجر ﴿صحیح بخاری و مسلم﴾
’’ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر پر تھے، بعض لوگوں نے روزہ رکھا اور بعض نے نہیں، روزہ نہ رکھنے والوں نے کافی مستعدی کے ساتھ کاموں میں حصہ لیا، جب کہ روزہ رکھنے والے زیادہ کام نہ کرسکے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج روزہ نہ رکھنے والے ثواب میںبازی مارلے گئے۔‘’
البتہ اگر سفرمیں کوئی ناگہانی صورت حال پیش آجائے جس کی وجہ سے روزہ توڑنا ضروری ہوجائے تو روزہ توڑنا واجب ہوجاتاہے۔ حضرت ابوسعید خدریؒ فرماتے ہیں:
سافرنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی مکۃ و نحن صیام، قال: فنزلنا منزلاً،ڈ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :‘’انکم قد دنوتم من عدوکم و الفطرأقوی لکم‘’، و کانت عزمۃ فأفطرنا، ثم قال: لقد رأیتنا نصوم مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد ذلک فی السفر ﴿صحیح مسلم﴾
’’ہم لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے کے سفر پر نکلے، ہم روزے سے تھے، ایک جگہ قیام کیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم لوگ اپنے دشمن کے قریب پہنچ گئے ہو اور روزہ نہ رکھنا تمھارے لیے زیادہ قوتِ کار کا باعث ہوگا‘’، یہ آپ ﷺ کی جانب سے ایک رخصت تھی، چنانچہ بعض حضرات نے روزہ رکھا اور بعض نے نہیں، پھر ہم نے ایک جگہ اور قیام کیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم لوگ صبح تک اپنے دشمن کو جالوگے اور روزہ نہ رکھنا تمھارے لیے زیادہ قوت کا باعث ہوگا، لہٰذا روزہ توڑدو۔‘’ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا، چنانچہ ہم نے روزہ توڑدیا۔ اس واقعے کے بعد بھی ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزہ رکھا۔‘’
حضرت جابر بن عبداللہ ؒ فرماتے ہیں:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر فرأی رجلاً قد اجتمع الناس علیہ، و قد ظلل علیہ، فقال: ’’مالہ؟‘’ قالوا: رجل صائم، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’لیس من البر أن تصوموا فی السفر﴿صحیح بخاریؒ ، صحیح مسلمؒ ﴾
’’آپﷺ ایک سفر میں تھے، آپﷺ نے دیکھاکہ لوگ ایک شخص کے گرد جمع ہیں اور اس پر سایہ کررہے ہیں، آپﷺ نے دریافت فرمایا: ’’اسے کیا ہواہے؟‘’ لوگوں نے بتایاکہ یہ روزے سے ہے۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی کا کام نہیں ہے۔‘’
سوال: رمضان کے روزے کی نیت رات میںکرنی ضروری ہے یا دن میں بھی کی جاسکتی ہے۔ جیسے کوئی چاشت کے وقت بتائے کہ آج رمضان کا آغاز ہوگیاہے تو اس دن کا روزہ رکھنا چاہیے یا اس کی قضا کرنی ہوگی؟
جواب:رمضان کے روزے کی نیت فجر سے پہلے رات ہی میں کرنی ضروری ہے۔ دن چڑھے تک نیت نہ کرنا درست نہیں ہے۔ چنانچہ جسے چاشت کے وقت معلوم ہوا کہ آج رمضان کا آغاز ہوگیا ہے اور اس نے روزے کی نیت کرلی تو اس پر غروبِ آفتاب تک مفطراتِ صیام سے بچنا واجب ہوگا البتہ بعد میں وہ اس دن کی قضا بھی کرے گا۔ حضرت حفصہؒ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من لم یجمع الصیام قبل الفجر فلا صیام لہ ﴿مسند احمدؒ ، سنن ابودائودؒ ، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، صحیح ابن خزیمہ﴾ ’’ جس نے روزے کی نیت فجر سے پہلے نہیں کی تو اس کا روزہ نہیں ہوا۔‘’ یہ حکم فرض روزے کے بارے میں ہے۔ نفل روزے کی نیت دن میں کرنابھی جائز ہے۔بہ شرطے کہ فجر کے بعد مفطراتِ صیام سے بچا رہاہو۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہؒ بیان فرماتی ہی: ’’أنہ صلی اللہ علیہ وسلم دخل علیہا ذات یوم ضحی فقال: ’’ہل عندکم شیٔ؟‘’ فقالت: فقال: ’’انی اذا صائم‘’ ﴿صحیح مسلم﴾ ’’ایک دن آپﷺ چاشت کے وقت گھر تشریف لائے اور پوچھا: ’’کچھ کھانے کو ہے؟‘’ آپؒ نے فرمایا: نہیں، تو آپ ﷺ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تب میں روزے سے ہوں۔‘’
سوال: اگر کوئی شخص رمضان میں جان بوجھ کرکچھ کھالے، پھر توبہ کرے تو کیا اس کی توبہ قبول ہوگی؟
جواب:ہاں، اس کی توبہ قبول ہوگی جب کہ توبہ کی شرائط پائی جائیں۔تووبہ کی شرائط یہ ہیں: گناہ پر ندامت کااحساس، ترک گناہ، دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم اور اگر کسی انسان کاحق واجب ہوتو اس سے معاف کرالیاجائے یا وہ حق ادا کردیاجائے۔ ارشادِ باری ہے: ﴿طہٰ:۲۸﴾ ’’اور جو توہ کرلے اور ایمان اور نیک عمل کرے، پھر سیدھاچلتارہے، اس کے لیے بہت درگزرکرنے والا ہوں۔‘’
سوال: اگر کوئی شخص ماہِ رمضان میں فجر کے بعد غلبۂ شہوت کی وجہ سے اپنی بیوی سے ہم بستری کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:ایسی صورت کا کفارہ یہ ہے کہ اس پر ایک غلام آزاد کرنا واجب ہوگا۔ عدمِ استطاعت کی صورت میں مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے گا۔ اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو ساٹھ ﴿۶۰﴾ مسکینوں کا کھانا کھلائے گا اور اس دن کے روزے کی قضا کے طورپر ایک دن روزہ رکھے گا۔ اگر اس کی بیوی اس کے عمل سے رضامند تھی تو اس پر بھی یہی کفارہ ہوگا۔ لیکن اگر وہ مجبور کی گئی تھی تو اس پر صرف ایک دن کی قضا واجب ہوگی۔
حضرت ابوہریرہؒ کی حدیث ہے، آپؒ فرماتے ہیں: بینما نحن جلوس عند النبی اذ جائ رجل فقال: یا رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہلکت، قال: ’’مالک؟‘’ قال: وقعت علی امرأتی وأنا صائم، فقال: ’’ہل تجد رقبۃ تعتقہا؟‘’ قال: ’’فہل تستطیع أن تصوم شہرین متتابعین؟‘’ قال: لا، قال: فہل تجد اطعام ستین مسکیناً؟‘’ قال: لا، قال: فمکث النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، قال: فبینما نحن علی ذلک أتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعرق فیہا تمر، فقال: ’’أین السائل؟‘’ فقال: خذہ فتصدق بہ‘’ ﴿صحیح بخاری، صحیح مسلم﴾ ’’ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول (ص)! میں ہلاک ہوگیا۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’کیا بات ہے؟‘’ تو اس نے کہا: میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستری کرلی۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’تم ایک غلام آزاد کرسکتے ہو؟‘’ اس نے کہا: نہیں، آپﷺ نے پوچھا: ’’مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟‘’ اس نے کہا: نہیں۔ تو آپﷺ نے پوچھا: ’’ساٹھ ﴿۰۶﴾ مسکینوں کو کھانا کھلاسکتے ہو؟‘’ اس نے کہا:نہیں۔ حضرت ابوہریرہؒ فرماتے ہیں کہ پھر آپﷺ خاموش ہوگئے۔ اسی دوران آپﷺ کے پاس ایک ٹوکری بھرکر کھجور آئی۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’وہ سوال کرنے والا کہاں ہے؟‘’ اور پھر اس سے کہا: ’’اے لے جاکر صدقہ کردو۔‘’
اُس دن کے روزے کی قضا کی دلیل ابودائود اور ابن ماجہ کی بیان کردہ روایت ہے جس میں اس حکم کااضافہ ہے: ’’وصم یوماً مکانہ‘’ ’’اور اس دن کے بدلے ایک دن روزہ رکھو۔‘’
رضامندی کی صورت میں بیوی پر کفارے اور قضا کے وجوب کی دلیل یہ ہے کہ وہ بھی مرد کی طرح ہے اور مجبوری کی صورت میں کفارے کے عدم وجوب کی دلیل آپﷺ کا عمومی فرمان ہے: ’’ان اللہ تجاوز عن أمتی الخطأ والنسیان و مااستکرھوا علیہ‘’ ﴿سنن ابن ماجہ، صحیح ابن حبان﴾ ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت سے وہ عمل معاف کردیا ہے، جو غلطی یا بھول چوک سے ہو یا جس پر انھیں مجبور کردیاجائے۔‘’
مشمولہ: شمارہ اگست 2011