رمضان المبارک : فضائل واحکام

صحیح احادیث کی روشنی میں یہ بات مسلم ہے کہ جب ایک یا دو قابل اعتماد اور دین دار مسلمان ۲۹شعبان یا ۳۰شعبان کو سورج کے غروب ہونے کے بعد رمضان کا چاند دیکھ لیں تو ان کی رویت پر اعتماد کیا جائے گا۔ اس طرح ان کی رویت قابلِ قبول ہوگی اور سورج غروب ہونے کے بعد ۲۰منٹ یا اس سے کم یازیادہ دیر تک ہلال کا رکنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ ہمیں صرف یہ حکم دیاگیاہے کہ رمضان کا چاند دیکھ کر روزے شروع کرو۔اگر مطلع ابرآلود ہوتو شعبان کے تیس دن پورے کرو۔﴿بخاری ،مسلم﴾رویت ہلال میں جدید حسابات پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے ۔

رویت ہلال میں محدثین کرام کے پاس ایک اُصول یہ ہے کہ’ لکل بلد رویتھم‘﴿صحیح مسلم ﴾ہر شہر والوں کے لیے ان کی اپنی رویت معتبر ہے۔ اہل مکہ کی رویت ہمارے لیے اختلاف مطالع اور تفاوتِ وقت کی وجہ سے غیر معتبر ہے۔ لہٰذا راجح مسلک یہی ہے کہ اختلاف مطالع سے احکام بد ل جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

فَمَنْ شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ﴿البقرۃ :۱۸۵﴾

’ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اُسے روزہ رکھنا چاہیے ۔‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:

’ اذا رأیتموہ فصوموا واذا رأ یتموہ فأفطوروا ‘

’جب تم اس کو ﴿چاند﴾ دیکھوتوروزہ رکھواور جب تم اس کو دیکھ لوتو روزہ چھوڑ دو۔ ‘

حضرت ابن عباس ؓ  نے حضرت کریبؓ  کی شہادت کوقبول نہیں کیا، جب کہ انھوں نے شام میں چاند دیکھا تھا ۔ ﴿ مسلم ۳/۱۹۷﴾

روزہ ہر مسلمان ،عاقل ،بالغ ،مرد،عورت ،مقیم اورقدرت رکھنے والے پر فرض ہے اور وہ بچے جونابالغ ہیں انھیں بھی عادت ڈالنے کے لیے روزے رکھوانے چاہییں۔ درج ذیل لوگوں کو روزوں سے رخصت دی گئی ہے اور ان پر قضاء ضروری ہے:

﴿۱﴾مسافر ﴿۲﴾ایسا بیمار جسے شفایابی کی اُمید ہو ﴿البقرۃ :۱۸۵﴾﴿۳﴾ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت اگر مشقت محسوس کرے﴿ترمذی ﴾﴿۴﴾حائضہ اور نفاس والی عورت ﴿بخاری،مسلم﴾

درج ذیل لوگوں کورخصت دی گئی ہے ۔ ان پر قضانہیں فدیہ ضروری ہے:

﴿۱﴾ ضعیف مرد یا عورت جسے روزہ رکھنے کی قوت نہ ہو ﴿۲﴾ ایسا بیمار جسے شفایابی کی اُمید نہ ہو اس کا فدیہ روزانہ ایک مسکین کوکھاناکھلاناہے۔﴿بخاری ﴾

روزے کے فوائد

﴿۱﴾ روزہ تقرب الٰہی کاذریعہ ہے ۔ ﴿۲﴾تقویٰ حاصل کرنے کاایک زرین موقع ہے ﴿۳﴾ خوش حالی اورتنگ دستی میں امتیاز ی فرق محسوس کرنے کا ذریعہ ہے ۔خوش حال شخص اس کے ذریعے بھوک اور پیاس کا اندازہ کرسکتا ہے ﴿۴﴾ نفس انسانی پر کنڑول کرنے اوراسے نیک بخت بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ ﴿۵﴾انسانی معدے کو راحت پہنچانے اور اسے مُضراثرات سے روکنے کا ذریعہ ہے۔روزہ جسم کی زکوٰۃ اور اس کی پاکی وصفائی کا بہترین مظہر ہے ﴿۶﴾روزے سے اسلامی سوسائٹی میں مساوات کا سبق ملتاہے۔ اس معاملے میں شاہ وگدا اورامیر وغریب حکم میں برابر ہیں ﴿۷﴾اطباء کااتفاق ہے کہ روزہ دائمی مرض سے بچاتا ہے۔ بالخصوص سل﴿T.B﴾، سرطان ﴿Cancer﴾ ،جلدی امراض اور معدے کی تمام بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے ﴿۸﴾ روزہ دار اللہ کی نعمتوں سے صحیح طور پر واقف ہوتا ہے ۔

روزے کی حالت میں درج ذیل باتوں کالحاظ رکھنا ضروری ہے:

روزہ دار غیبت، جھوٹ ،گالی گلوج ، لڑائی جھگڑے اور جہالت کے کاموں سے دوررہے ۔ حدیث میںہے کہ ’ جس نے غلط بیانی ،جھوٹ ،اور جہالت کاکام نہ چھوڑا تو ایسے شخص کا کھانے پینے کو ترک کرنا اللہ کو منظور نہیں ۔‘

سحری کھاتے وقت کسی مخصوص ومسنون دعا کا ثبوت کسی صحیح حدیث میں موجودنہیں ہے۔ البتہ بسم اللہ کے ساتھ سحری کرنا بہتر ہے۔’ سحری کھانے میں برکت ہے اور سحری دیر سے کھانا مستحب ہے۔ اگر سحری کھاتے ہوئے اذان ہوجائے تو کھانا فوراً ترک کرنے کی بجائے جلدی جلدی کھالینا چاہیے ﴿ابوداؤد ﴾حضرت زیدبن ثابت ؓ  سے سوال کیا گیا کہ سحری اور اذان ِفجر کے درمیان کتنا وقفہ ہوتاتھا؟ انھوں نے جواب دیا : پچاس آیات پڑھنے کی بہ قدر ﴿بخاری ، مسلم ﴾ اس کا مطلب ہے کہ سحری آخری وقت کھانا چاہیے۔ ﴿ریاض الصالحین۲/۱۴۱﴾ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’ ہمارے روزوں اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کاہے۔‘﴿مسلم ﴾

درج ذیل باتوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے:

﴿۱﴾جان بوجھ کر ہم بستری کرنا ﴿۲﴾ جان بوجھ کر کھانا پینا ﴿۳﴾ حیض ونفاس کا آجانا﴿۴﴾عمداً قے کرنا ﴿۵﴾منی کا مباشرت یابوس وکنار وغیرہ کی وجہ سے نکل جانا ﴿۶﴾غذا کے طورپر طاقت کے انجکشن لینا بھی عمداً کھانے پینے کے برابر ہے ﴿ احکام الصیام ص ۱۴﴾

حالت سفر میں سحری وافطاری کی سہولت ہواور مسافر پر شاق نہ گزرے تو ایسے مسافر کا روزہ رکھنا بہتر ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حالت سفر میں روزہ رکھتے تھے اور بعض رخصت پر عمل کرتے تھے اور بعد میں قضا کرلیتے تھے۔ کوئی کسی پر نکیر نہیں کرتاتھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں فرمایا: ’یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے، جو اس کو لے لے بہتر ہے اور جو کوئی روزہ رکھنا چاہے تورکھے کوئی حرج نہیں ہے۔ ‘

وہ غلطیاں جن کا ارتکاب روزے دارعموماً کرتے ہیں درج ذیل ہیں:

﴿۱﴾سحری طلو ع صبح صادق سے ایک گھنٹے یا دوگھنٹے پہلے کھالینا ﴿۲﴾کھانے میں بیجا اسراف ﴿۳﴾ نماز ِ باجماعت ترک کرنا ﴿۴﴾مسلسل سوتے رہنا ﴿۵﴾ زبان کی حفاظت نہ کرنا ﴿۶﴾لہوولعب میں مشغول رہنا ﴿۷﴾نماز تراویح میں کوتاہی کرنا﴿۸﴾عشرہ اخیر ہ میں صرف ستائیسویں رات کو شب ِ قدر تلاش کرنا ﴿۹﴾ قرآن کی تلاوت وتدبر میں کوتاہی کرنا۔

اگر حاملہ کمزور ہو یا کسی طبیب کا مشورہ روزہ نہ رکھنے کا ہو تو روزہ چھوڑ دے اور بعد میں قضا کرے۔ اُسی طرح دودھ پلانے والی کوبھی روزہ ترک کرکے بعد میں قضاء کرنے کی اجازت ہے :

لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساًاِلَّا وُسْعَھَا ﴿البقرۃ : ۲۸۶﴾

’ اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔‘

کیا کوئی ۳۱ دن روزے رکھ سکتا ہے ؟

کوئی ایسی جگہ سے پہنچاجہاں کے روزے میں ایک دن کافرق پایا گیا مثلاً کوئی سعودی عرب سے ۳۰روزے مکمل کرکے ہندستان آیا جہاں ۲۹روزے مکمل ہوئے تو اُس شخص پر ضروری ہے کہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ روزہ رکھے اورعید منائے۔ اگر چہ اُس کے ۳۱روزے ہوجائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :’ روزہ اُس دن ہے جس دن تم سب مل کر روزہ رکھتے ہو، اور افطار اُس دن ہے جس دن تم سب مل کر روزہ چھوڑ تے ہو ‘‘ ﴿ترمذی ﴾جیسا کہ ایک شخص فرض نماز ادا کرنے کے بعد مسجد میں حاضر ہواور وہاں فرض نماز ہورہی ہو تو وہ شخص جماعت کے ساتھ شریک ہوکر نفل کا ثواب پالیتا ہے ۔ اُسی طرح یہ روزے دار بھی نفل کا ثواب پالے گا۔ اس کے برعکس ۹۲سے کم ہونے کی صورت میں ایک روزہ قضاکرلے اس لیے کے مہینہ ۲۹یا۳۰دن کا ہوتاہے۔﴿فتاوی الصیام، ص: ۶۱﴾

 افطار کی سنتیں

﴿۱﴾ سورج غروب ہونے کے بعد افطارمیں جلدی کرنا ﴿۲﴾ بسم اللہ پڑھنا ﴿۳﴾ ترکھجوروں سے افطار کرنا ﴿۴﴾ اگر وہ میسرنہ ہو ں تو چھوارے سے افطار کرنا ﴿۵﴾ کھجور طاق کی شکل میں کھانا ﴿۶﴾اگر وہ بھی نہ ملے تو پانی کے چند گھونٹ پی لینا ۔﴿ ابوداؤد﴾

رمضان کی عظمت کی وجہ سے سب سے افضل صدقہ رمضان کا ہے۔ حضرت انس ؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’ رمضان میں صدقہ دینا ﴿ترمذی: ۶۶۳، ضعفہ الالبانی ﴾ ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ فیاض تھے ، اور پھر رمضان میں جب جبریل علیہ السلام آپﷺ سے ملتے تھے اورقرآن کریم کامذاکرہ کرتے تھے تو آپﷺ کی فیاضی اورتلاوت ِ قرآن دوسرے ایام کے مقابلے میں دوچند ہوجاتی تھی۔ ﴿بخاری ، مسلم ﴾

زکوٰ ۃ دین ِاسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون ہے، جس کی فرضیت قرآن کریم، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع ِاُمت سے ثابت ہے ارشاد ربانی ہے:

وَأَقِیْمُواْ الصَّلاَۃَ واٰتُواْ الزَّکوٰۃَ وَارْکَعُواْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴿البقرۃ :۴۳﴾

’ اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ اداکرو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکو ع کرو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : ’لاَاِ لٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ کی شہادت دینا ،نماز قائم کرنا زکوٰۃ اداکرنا ، حج کرنا ،اورماہِ رمضان کے روزے رکھنا ﴿بخاری ، مسلم ﴾

زکوٰۃ نہ دینے پر وعید

قال اللہ تعالی والذین یکنزون الذہب والفضۃ ولاینفقونہا فی سبیل اللہ فبشرہم بعذاب الیم ﴿ التوبۃ ۳۴﴾

’جولوگ سونا چاندی کا خزانہ جمع رکھتے ہیں او ر اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی بشارت پہنچادیجیے۔‘

حضرت ابوہریرۃ ؓ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اگر کسی کے پاس سونا یا چاندی ﴿بقدر نصاب زکوۃ جس پر سال گزر چکا ہو ﴾ ہو اور وہ ان کی زکوٰۃ ادانہ کرے تو قیامت کے دن اسی سونے اورچاندی سے آگ کی چادر بنائی جائے گی اورا س چادر کو جہنم کی آگ پر تپایا جائے گا ،پھر اس سے اس کے پہلو ، اس کی پیشانی اور اس کی پیٹھ کو داغاجائے گا ،اگر چادر ٹھنڈی ہونے لگے تواسے پھر گرمایا جائے گا اور اس شخص کو یہ عذاب ہمیشہ دیاجائے گا ، جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی۔‘﴿مسلم﴾

 شرائط زکوۃ

﴿۱﴾ مال زکوۃ بقدر نصاب یا اُس سے زیادہ موجود ہو﴿۲﴾ اُس مال پر ایک ہجری سال گزرچکاہو ﴿۳﴾ مال پر مالکانہ قبضہ ہو۔

مستحقین زکوٰۃ

﴿۱﴾ فقراء ﴿۲﴾ مساکین ﴿۳﴾ زکوٰۃ کی وصول یابی کرنے والے ﴿۴﴾ تالیف قلب کے مستحقین ﴿۵﴾ غلام آزاد کرنے کے لیے﴿۶﴾ مقروض ﴿۷﴾ اللہ کی راہ میں ﴿۸﴾ مسافر ﴿توبہ:۶۰﴾

زکوٰۃ کا ماہ رمضان میںادا کرنا نہیں ہے۔ بلکہ وجوبِ زکوٰۃ کے لیے شرائط ہیں۔ یہ شرطیں مکمل ہوجائیں تو زکوٰۃ کی ادا ئی واجب ہوگی۔ چونکہ رمضان ایک مبارک مہینا ہے ، اس میں صدقہ وخیرات کا اجر دُگنا ہوتاہے، اس لیے لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کے لیے رمضان میں زکوۃ دینا بہتر ہے ۔

محب اللہ قاسمی*

 

رمضان المبارک کی تیاری کیوں اورکیسے؟

رمضان المبارک جلد ہی ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔یقینا ہمارے دل میں اس ماہ کی بڑی قدرہے لیکن کیاہم اس کے لیے تیاری کرتے ہیں؟ کیا ہم ا پنے اہل خانہ کو توجہ دلاتے ہیں کہ وہ بھی اس سلسلے میں تیاری کریں اورغفلت سے کام نہ لیں؟

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں صحابہ کرام کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں رمضان کی آمدکی خوش خبری سناتے تھے۔رمضان کی فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے ۔ایسے ہی خطبہ میں آپ نے ارشادفرمایا:

’’اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے ۔اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزارراتوں سے بہترہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے،اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا،توجس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کارخیرانجام دیااس نے دیگرماہ کے فرائض کے برابرنیکی حاصل کرلی،یہ صبراورہمدردی کا مہینا ہے۔ساتھ ہی یہ وہ ماہ مبارک ہے،جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتاہے۔اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دارکوافطارکرایا۔روزے دار کے روزے میں کمی کے بغیراس نے روزے دارکے برابرثواب حاصل کیا۔ اورخود کو جہنم سے بچالیا۔صحابہ کرامؓ  نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ ہم میں سے ہرشخص تو روزے دارکو افطارکرانے کی استطاعت نہیں رکھتاہے؟آپ نے فرمایا:جس نے روزے دارکوپانی کا گھونٹ پلایا،یا دودھ کا گھونٹ پلایا،یا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرایااس کا اجراسی کے برابرہے اوراس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے ۔اس سے روزے دار کے اجرمیں کمی نہیں ہوگی۔جس نے اپنے ماتحتوںسے ہلکاکام لیااس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔﴿مشکوۃ﴾

اگرہم استقبال رمضان کے لیے تیارہیں تو ہمیں چندباتوںکا لحاظ کرنا ہوگا۔سب سے پہلے یہ کہ ہم اپنے نفس کو آمادہ کریں اوراس ماہ مبارک میں امور خیر انجام دینے کے لیے عملی اقدام کریں۔اس ذیل میں چندچیزیں آتی ہیں جن کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے:

﴿الف﴾کوئی بھی کام بغیرمشیت الٰہی کے ممکن نہیں تو ہمیں اس کے لیے خدا سے توبہ واستغفار کے ساتھ دعاکا اہتمام کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعاؤں کا اہتمام کیاجائے۔

﴿ب﴾توبہ کا اہتمام کیاجائے توبہ میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتاہے ۔گناہوںکا جوفاصلہ انسان اوراس کے رب کے درمیان ہوتاہے وہ ختم ہوجاتاہے ۔نیک کاموںکی طرف رغبت بڑھتی ہے جورمضان کے دیگرعبادات میں بھی معین ثابت ہوگی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اے مؤمنوتم سب مل کراللہ سے توبہ کرو،توقع ہے کہ تم فلاح پا جاؤگے﴿النور:۳۱﴾توبہ سے متعلق نبی کریم کا ارشادہے : اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو،میں دن میں سو بار توبہ کرتاہوں﴿مسلم﴾آپ ﷺ دعاکا بھی اہتمام کرتے تھے۔آپ سے یہ دعامنقول ہے:

الھم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان

’اے اللہ ہمیں رجب وشعبان میں برکت دے اور رمضان تک صحیح سلامت پہنچا‘

﴿ج﴾گزشتہ رمضان کے روزے رہ گئے ہوں تواُنھیں فوراً شعبان کے مہینے میں ہی ادا کرلینا چاہیے۔ابوسلمی کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ ؓ  کو کہتے ہوئے سنا:میرے ذمہ رمضان کا کوئی روزہ ہوتاتھا تومیں اسے شعبان میں ہی پورا کرلیتی تھی۔﴿متفق علیہ﴾

﴿د﴾رمضان المبارک کی سب سے اہم عبادت روزہ رکھنا ہے ،اس لیے اس کی عادت ڈالنے کے لیے شعبان کے مہینے میں وقفے وقفے سے روزے رکھنے چاہییں۔ تاکہ پوری طرح نشاط رہے اوراس بات کا احساس رہے کہ آئندہ ماہ کے تمام روزے رکھنے ہیں ۔نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ شعبان کے مہینے میں بکثرت روزے رکھاکرتے تھے ۔مگرپورے ماہ کے روزے صرف رمضان کے ہی رکھتے تھے۔حضرت عائشہؓ  کہتی ہیں کہ رمضان ہی میں پورے ماہ کے روزے رکھتے اور ماہ شعبان میں زیادہ ترروزے رکھتے تھے۔﴿متفق علیہ﴾

﴿ھ﴾ایک مشہورحدیث ہے کہ اعمال کا دارومدارنیتوںپر ہے ۔جیسی نیت ہوتی ہے ، معاملہ اسی اعتبارسے ہوتاہے۔ اسی طرح ابوہریرہؓ  سے مروی ایک حدیث ہے کہ انسان کسی نیک کام کی نیت کرتاہے تواس کا عمل اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیاجاتاہے۔﴿مسلم ﴾

اس لیے ہم رمضان المبارک کے تئیں آغازہی میں اپنی نیت کو درست کریں اوربہت سے نیک اعمال کرنے کی نیت کرلیں۔مثلا ً تلاوت قرآن کی کثرت،گناہوںسے توبہ کا اہتمام،دعاواذکارکی پابندی،عبادات کا التزام،لوگوںسے معاملات درست کرنے کی نیت، شعبان کے کچھ روزے رکھنا تاکہ آئندہ ماہ کے لیے مشق ہوجائے،دینی وتربیتی کتابوںکا مطالعہ ،رمضان سے متعلق دینی بیانات جوسی ڈی وغیرہ کی شکل میں ہوںتوان کا سننا تاکہ رمضان کااحساس دل میں رہے اوراس کی تیاری پرتوجہ ہوسکے۔

﴿و﴾رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کہ اس ماہ مبارک میں نزول قرآن ہوا۔اس مناسبت سے عام دنوں کے مقابلے میں لوگ قرآن کو زیادہ پڑھتے ہیں تلاوت ایک عبادت ہے اس لیے بھی اس ماہ مبارک میں اس کا اہتمام کیاجاتاہے۔مگریہ عمل بھی تیاری چاہتاہے چنانچہ ہم شعبان کے مہینے سے ہی اپنی یومیہ مسلسل تلاوت شروع کردیں اوراس بات کی نیت کرلیں کہ رمضان میں ایک بار پورے قرآن کا ترجمے کے ساتھ اعادہ کرناہے۔اللہ کا فرمان ہے :

شہررمضان الذی انزل فیہ القرآن،ھدی للناس

’ماہ رمضان جس میںقرآن کریم کا نزول ہواجوتمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے‘

﴿ز﴾ایک کسان جب تک کھیت میں بیج نہیں ڈالے گا ، موقع بہ موقع سیراب نہیں کرے گا توکھیت کے لہلہانے کی توقع فضول ہے۔ٹھیک یہی حال رمضان اور اس کی تیاری کا ہے۔

شیخ ابوبکرالبلخیؒ  کہتے ہیں:

’ماہ رجب کا شتکاری کا مہینا ہے،ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینا ہے اورشہر رمضان کھیت کٹائی کا مہینا ہے۔اسی طرح ماہ رجب کو ہوا،شعبان کو غیم اوررمضان کو بارش سے تعبیرکرتے ہیں۔جس نے اعمال کی کھیتی کے موسم بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اورماہ رجب میں اس کا پودانہیں لگایا اورشعبان میں اسے سیراب نہیں کیاتو وہ ماہ رمضان اعمال میںکے کھیتی کی کٹائی کیسے کرسکتاہے۔اگرماہ رجب گزرگیاہے تو کم ازکم شعبان کے مہینے سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبی اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔‘

﴿ح﴾آج کل مسلمان دین کے معاملے میں غفلت کا شکارہیں اوراپنے کاموںمیں اس قدر محوہیں کہ اس کی تیاری کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا، حالانکہ گھرکے ذمہ دارفرد کو اتنا وقت نکالناچاہیے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے درمیان رمضان اوراس کے احکام کی تعلیم دے سکے۔اگروہ نہیں جانتاتوعلماسے معلوم کرے اورمساجد کے ائمہ کے خطبات سے فائدہ اٹھائے۔

ماہ رمضان کا یومیہ پروگرام

یہ ذہن بنائیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کرنا ہے ،فرض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی بکثرت اہتمام کرنا ہے۔اس کے لیے یومیہ پروگرام ترتیب دیں جس میں درج ذیل باتوںکا خیال رکھیں:

﴿الف﴾فجرسے پہلے کے کام : تہجدکا اہتمام:اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

امَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَائ اللَّیْْلِ سَاجِداً وَقَائِماً یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ   ﴿الزمر:۹﴾

’ یا وہ جومطیع وفرماں بردارہے رات کے پہرمیں سجدہ اورقیام کی حالت میں ہوتا ہے اوراپنے رب سے رحمت کی امید لگاتاہے۔‘

﴿ب﴾سحرگاہی کا اہتمام:نبی کریم کا ارشادہے:تسحروا فان السحور برکۃ ﴿متفق علیہ﴾ سحری کا اہتمام کیاکروکہ اس میں برکت ہے۔فجرکی سنت کا اہتمام : نبیﷺ نے فرمایا:

رکعتا الفجرخیرمن الدنیا ومافیہا

’ فجرکی دورکعت دنیا اوراس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ ‘﴿ مسلم ﴾

﴿ج﴾دعا اوراذکارمیں اپنا وقت لگائیں خاص طورسے اذان اورنماز کے درمیان ِ اوقات میں اس لیے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

الدعاءلایردبین الاذان والاقامۃ﴿متفق علیہ﴾

’اذان اور نماز کے درمیان کے وقت دعائیں ردنہیں کی جاتیں۔‘

﴿د﴾فجرکے بعد سے طلوع شمس تک ذکر اور تلاوت قرآن کے لیے مسجدمیں قیام کو لازم پکڑلیں :

کان النبی ِاذا صلی الفجرجلس فی مصلاہ حتی تطلع الشمس حسنا﴿مسلم﴾

نبی کریم ﷺ فجرکی نمازکے بعدطلوع شمس تک اپنے مصلے پر بیٹھے رہتے تھے۔ایک جگہ ارشادہے:

من صلی الفجرفی جماعۃ ثم قعد یذکراللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کاجرحجۃ وعمرۃ تامۃ تامۃ تامۃ ﴿ترمذی﴾

فجرکی نماز کے بعد طلوع شمس تک اللہ کا ذکرکرتارہا پھردورکعت نماز ادا کی اس کا اجرایک مکمل حج اورعمرے کے مانندہے۔

﴿ھ﴾اس دعاکا اہتمام کہ اللہ ہمارے دن میں برکت دے۔

﴿الہم انی اسالک خیرمافی ہذا الیوم فتحہ ونصرہ ونورہ وبرکتہ وہداہ واعوذبک من شرمافیہ وشرمابعدہ﴾ ابوداؤد

﴿و﴾ظہرکی نماز کی تیاری کرے ،فراغت کے بعد بدن کو تھوڑی راحت دے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :

استعینوا بطعام السحرعلی الصیام، وبالقیلولۃ علی قیام اللیل ﴿ابن ماجہ﴾

’سحری کھاکر روزے پر اورقیلولہ ﴿دوپہرکے وقت سونے﴾کے ذریعے رات کی نماز پر مدد حاصل کرو۔‘

﴿ز﴾اگرصاحب حیثیت ہیں اورخدانے مال ودولت سے نوازا ہے توغرباپر مال خرچ کریں اورانھیں افطارکرانے کا نظم کریں۔کیوں کہ یہ عمل اللہ کو بے حد پسندہے۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2012

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223