نماز ِ استسقاء
سوال: نماز استسقاء کیا کھلے میدان میں پڑھنا ـضروری ہے یا مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے ؟ میدان میں پڑھی جائےتوکیا جا نماز بچھا سکتے ہیں یا نہیں؟ کیا یہ نماز طلوع آفتاب کےفوراً بعد پڑھی جاسکتی ہے ؟ ا سے پڑھنے کا کیا طریقہ ہے؟ براہ کرم ان سوالات کے جوابات سے نوازیں ۔ نوازش ہوگی۔
جواب: استسقاء کا مطلب یہ ہے کہ بارش نہ ہورہی ہو، جس کی وجہ سے فصلیں تباہ ہورہی ہوں اورمویشی ہلاک ہورہے ہوںتومخصوص طریقے سے اس کی دعاکی جائے اور نماز پڑھی جائے۔
استسقاء کا ثبوت قرآن مجید سے بھی ملتا ہے اوراحادیث سے بھی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا:
اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفَّارًا۱۰ۙ يُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا۱۱ۙ
’’اپنے رب سے معافی مانگو۔ بےشک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا‘‘۔ (نوح:۱۱۔۱۰)
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کےدن مسجد میں خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اوراس نے عرض کیا:’’ اے اللہ کے رسول! مویشی ہلاک ہوگئے او ر ہمیں بھی اپنی ہلاکت کا اندیشہ ہے ۔ آپ بارش کی دعا کیجئے ۔ آپؐ نے دعا کی ۔ بارش ہوئی اور خوب ہوئی۔ پورے ہفتے ہوتی رہی ۔ اگلے جمعہ کوآپؐ خطبہ دے رہےتھے کہ وہ شخص پھر آیا اوراس نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! بہت سے گھر گرگئے اورراستوں میں پانی بھرگیا ۔ اب بارش رکنے کی دعا کردیجئے۔ آپ ؐ نے دعا کی اور بارش رک گئی‘‘۔(بخاری:۱۰۱۳)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے استسقاء کے لیےالگ سے نماز نہیں پڑھی ، بلکہ نمازجمعہ کے موقع پر بارش کے لیے دعا کی ۔ اس بنا پر امام ابوحنیفہؒکہتے ہیں کہ استسقاء کی دعا سنتِ موکدہ ہے ، البتہ اس کی نماز جائز ہے ۔ اس سے یہ بھی استنباط کیا جاسکتا ہے کہ نماز استسقا ء مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے۔
دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استسقاء کی نماز پڑھی ہے اوراس کی ادائیگی کھلے میدان میں کی ہے ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیںکہ لوگوں نے بارش نہ ہونے کی شکایت کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن متعین کرکے لوگوں کوآبادی سے باہر نکلنے کا حکم دیا ۔ جب سورج خوب نمایاں ہوگیا توآپ اپنے اصحاب کے ساتھ نکلے ۔ پہلے خطبہ دیا، پھر قبلہ روٗ ہوکر دیر تک دعا کی ۔ اس میں آپ نے اپنے ہاتھ اتنے بلند کیے کہ آپ کی بغل کی سفیدی دکھائی دینے لگی ۔ پھر دورکعت نماز پڑھائی ۔ ‘‘(ابوداؤد: ۱۱۷۳)
ظاہر ہے ، نماز کھلے میدان میں پڑھی جائے توجا نماز بچھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقاء سورج نکلنے کے کچھ دیر کے بعد اداکی۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ اسے چاشت کے بعد سے زوال آفتاب تک پڑھنا بہتر ہے ۔ اس میں بھی اس کی ادائیگی اس وقت اولیٰ ہے جب عید کی نماز پڑھی جاتی ہے ۔ ویسے نماز استسقاء اوقات مکروہہ کے علاوہ کسی بھی وقت پڑھی جاسکتی ہے۔
جمہور فقہاء کے نزدیک نماز استسقا ء کئی دن پڑھی جاسکتی ہے ۔ البتہ احناف کہتے ہیں کہ تین دن سے زیادہ یہ نماز پڑھنا درست نہیں۔
جس دن نماز استسقاء پڑھنی ہواس سے قبل روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ بعض فقہاء نے تین دن روزہ رکھنے کو کہا ہے۔ اس سے قبل صدقہ وخیرات کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ یہ اعمال قبولیتِ دعا میں معاون ہوتے ہیں۔ مستحب یہ ہے کہ نماز کے لیے نکلنے سے قبل غسل کیا جائے ، البتہ زیب وزینت سے احتراز کیا جائے اور عام کپڑے پہنے جائیں۔ حضرت ابن عباسؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عمل بتایا ہے ۔ (مسند احمد :۲۰۳۹)
خطبہ نماز استسقاء سے قبل دیا جائے یا اس کے بعد۔ کوئی بھی صورت اختیار کی جاسکتی ہے ۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طریقے ثابت ہیں۔ نماز استسقاء کی دو رکعتیں ہیں۔ انہیں نفل نماز کی طرح ادا کیا جائے گا۔ بعض فقہاء کے نزدیک اس کی ادائیگی نماز عید کی طرح ہوگی کہ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اوردوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہی جائیں گی۔ قراء ت جہری ہوگی ۔ خطبے دو ہوں گے ۔ بعض فقہا ء ایک خطبہ کے قائل ہیں۔
کیا ایک بار دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے؟
سوال: ایک بچہ چھ ماہ کا ہے ۔ اس کی ماں کسی کام سے باہر گئی تواسے اپنی ایک رشتہ دار خاتون کے پاس چھوڑدیا ۔وہ کافی دیر تک واپس نہیں لوٹی ۔ اس دوران بچہ بھوک کی شدت سے رونے لگا ۔ کچھ انتظار کے بعد رشتہ دار خاتون نے اس بچے کو اپنا دودھ پلادیا۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مجبوری میںایک بار دودھ پلانے سے اس خاتون کورضاعی ماں کی حیثیت حاصل ہوجائے گی؟
جواب: رشتوں کی حرمت میں’رضاعت‘(دودھ پلانا) کوبھی شامل کیا گیا ہے ۔ چنانچہ جن عورتوں سے کسی شخص کا نکاح کرنا حرام ہے جن میں رضاعی ماں اوررضاعی بہن بھی ہیں۔ سورۂ نساء میں ہے:
وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ(النساء:۲۳)
’’تم پر حرام کی گئیں——- اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہواور تمہاری دودھ شریک بہنیں‘‘۔
اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ (بخاری : ۱۴۴۵، مسلم :۱۴۴۴)
’’جورشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں‘‘۔
اس بنا پر بہت سے صحابہ وتابعین اورفقہاء میںسے احناف، مالکیہ اورامام احمد (ایک قول کے مطابق) کہتے ہیں کہ کوئی بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو اس سے رضاعت ثابت ہوجائے گی ، خواہ اس نے ایک بار پیا ہو یا کئی بار ، اورچاہے جتنی مقدار میں پیا ہو ۔ بس بچے کے پیٹ میں اس عورت کا دودھ پہنچ جانا شرط ہے ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی عمر دو سال سے کم ہو ۔ اس لیے کہ قرآن میں عورتوں کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ دو سال تک دودھ پلائیں ۔ (البقرۃ : ۲۳۳، لقمان: ۱۴، الاحقاف:۱۵)
ایک دوسری رائے یہ ہے کہ پانچ مرتبہ سے کم دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ یہ رائے صحابۂ کرام میں سے حضرت عائشہؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اورحضرت عبداللہ بن زبیرؓ اورتابعین میں سے عطاؒ اورطاؤس کی ہے ۔ فقہا ء میں سے شوافع اور امام احمد (دوسرے قول کے مطابق) کی بھی یہی رائے ہے ۔
تنہا نماز پڑھنے کی صور ت میں اقامت
سوال: کوئی شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو کیا اس صورت میں بھی وہ اقامت کہے گا ؟ اس کی کیا حیثیت ہے ؟ مسنون ہے یا مستحب یا مباح؟ اسی طرح اگر عورتوں کی جماعت ہورہی ہو یا کوئی عورت تنہا نماز پڑھ رہی ہوتو کیا اس صورت میں بھی یہی حکم ہے ؟براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب: کوئی شخص تنہا ہوتو وہ بغیراذان اور اقامت کے نماز پڑھ سکتا ہے اوراذان واقامت بھی کہہ سکتا ہے۔ بلکہ فقہاء نے ایسے شخص کے لیے اقامت کو مستحب قرار دیا ہے ۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
یَعْجَبُ رَبُّکَ مِنْ رَاعِی غَنَمٍ فِی رَأسِ شَظِیَّۃِ الْجِبَلِ یُؤَذِّنُ بالصَّلاَۃِ وَیُصَلِّی، فَیَقُولُ اللہَ عَزَّوَجَلَّ : اُنْظُرُوْا اِلٰی عَبْدِیْ ہٰذَا یُؤَذِّنُ وَیُقِیْمُ الصَّلاٰۃَ ، یَخَافُ مِنِّیْ اُشْہِدُکُمْ قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ وَاَدْخَلْتُہُ الْجَّنَۃَ (نسائی : ۶۶۶)
’’ تیرا رب اس چرواہے سے بہت خوش ہوتا ہے جوتنہا پہاڑ کی چوٹی پر اپنی بکریوں کوچراتا ہے ۔وہ نماز کا وقت ہونے پر اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے اس بندے کودیکھو وہ مجھ سے خوف کی وجہ سے اذان کہتا ہے اورنماز ادا کرتا ہے ۔ گوا ہ رہو۔ میںنے اپنے اس بندے کو بخش دیا اوراسے جنت میں داخل کردیا‘‘۔
عورتوں کی جماعت ہورہی ہو یا کوئی عورت تنہا نماز پڑھ رہی ہو تو اس صورت میں اقامت کا کیا حکم ہے ؟ اس سلسلے میں کئی آراء ہیں:
مالکیہ اورشوافع اس صورت میں بھی اقامت کہنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ امام احمد کا ایک قول استحباب کا اوردوسرا باحت کا ہے ۔ احناف اسے مکروہ کہتے ہیں۔ (تبیین الحقائق ، ۱/۹۴، الفتاویٰ الہندیۃ ، ۱/۵۴، المغنی ، ۱/۴۲۲، المہذب ، ۱/۶۴، حاشیہ الدسوقی،۱/۲۰۰، مواہب الجلیل ، ۱/۴۶۳ ۔۴۶۴) تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے الموسوعۃ الفقہیۃ ، کویت ۶/۹
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2018