ہبہ کےعلاوہ وراثت کی تقسیم
سوال:ہم پانچ بھائی اور پانچ بہنیں ہیں۔ کل پراپرٹی دو کروڑ 70 لاکھ روپے ہے۔ والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے۔ انھوں نے انتقال سے دو برس پہلے سبھی بچوں کو ہبہ کے طور پر کچھ پلاٹ دیے تھے اور باقی کچھ حصہ اپنے اور والدہ کے لیے رکھ لیا تھا۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ ایک برس میں سبھی کوان کے پلاٹوں کے پیپر تیار کروا کے دے دیں گے اور رقم چاہنے والوں کو پلاٹ فروخت کرکے رقم دے دی جائے گی۔ ہم بہنوں میں سے ہر ایک کے حصے میں گیارہ (۱۱) لاکھ روپے نقد یا اس مالیت کا پلاٹ آیا تھا۔ کچھ بہنوں نے رقم لینے کا فیصلہ کیا تھا اور کچھ بہنوں نے پلاٹ۔ بھائیوں کے پلاٹوں کی تو رجسٹری ہوگئی اور وہ ان کو منتقل ہوگئے،لیکن کچھ مسائل کی وجہ سے ہم بہنوں کے پلاٹ ہمارے نام منتقل نہ ہوسکے۔ والد صاحب نے یہ کام ہمارے بھائیوں کے ذمے سونپ دیا تھا۔
والد صاحب کے انتقال کے بعد جب جائیداد کی تقسیم کی بات آئی تو بھائیوں نے ہم بہنوں سے کہا کہ والد صاحب نے اپنی حیات میں جو پلاٹ آپ لوگوںبہ طور ہبہ دیے تھے، بس وہی آپ لوگوں کو ملیں گے۔ والد صاحب کے انتقال کے وقت ان کی جو پراپرٹی تھی وہ بھائیوں نے اپنے نام کر لی اور گھر کا کچھ حصہ بھی، جو والد صاحب کے نام تھا، انھوں نے لے لیا۔ اس طرح والد صاحب کی باقی پراپرٹی تمام بھائیوں کے درمیان تقسیم ہو گئی،اس میں ماں اور بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں لگا۔ ماں اس تقسیم پر دل سے راضی نہیں تھی۔ اسے کورٹ یہ کہہ کر لے جایا گیا کہ اس کی دستخط سے بیٹیوں کی جائیداد ان کے نام کی جائے گی۔ اسے سمجھایا گیا کہ جب وکیل پوچھے کہ آپ کو کیا چاہیے تو کہہ دینا کہ میں بیٹوں کے پاس رہنا چاہتی ہوں، مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ والدہ نے اسی طرح کہا۔ آج والدہ اس بات کا شکوہ کر رہی ہیں کہ میرا ارادہ بیٹیوں کو محروم کرنے اور صرف بیٹوں کو دینے کا نہیں تھا، بیٹوں نے دھوکے سے مجھے بہکا کر پوری پراپرٹی اپنے نام کر لی۔
کیا بیٹوں کا یہ عمل درست تھا؟ کیا اس پراپرٹی میں بیٹیوں اور ماں کا حصہ نہیں تھا ؟
جواب:آپ کے دریافت کردہ سوال کا جواب درج ذیل ہے:
اگر باپ نے اپنی کچھ پراپرٹی اپنی اولاد کو ہبہ کر دی اور باقی پراپرٹی اپنے پاس رکھی تو اس کا انتقال ہونے پر باقی پراپرٹی تمام ورثہ کے درمیان تقسیم ہوگی۔ بیٹوں کا اسے صرف اپنے درمیان تقسیم کر لینا اور بیٹیوں کو محروم رکھنا درست نہ ہوگا۔
باپ نے اپنے پاس جو پراپرٹی رکھی تھی اگر اس کی مالیت دو کروڑ 70 لاکھ روپے ہے اور ورثہ میں بیوہ، پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں تو اس کی تقسیم ان کے درمیان حسب ذیل ہوگی:
بیوہ 33,75,000 روپے
ہر بیٹے کو 31,50,000 روپے پانچ بیٹوں کو 1,57,50,000 روپے
ہر بیٹی کو 15,75,000 روپے پانچ بیٹیوں کو 78,75,000روپے
2,70,00,000 روپے
مسلم سماج میں تقسیم وراثت کے معاملے میں بیداری نہیں ہے۔ کسی شخص کے انتقال کے بعد عموماً اس کے بیٹے مال وراثت پر قبضہ کر کے آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں اور اپنی بہنوں کو بالکلیہ محروم کر دیتے ہیں،یا بغیر شرعی حساب کے کچھ دے دلا کر خاموش کر دیتے ہیں۔ انھیں اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ قرآن مجید میں صراحت ہے کہ جو لوگ وراثت کی درست تقسیم نہیں کریں گے وہ روز قیامت بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور انھیں رسواکن سزا دی جائے گی۔
واپس ملنے والا قرض بھی وارثوں میں تقسیم ہوگا
سوال:میرے والد محترم کا انتقال ہو چکا ہے۔ انتقال سے پہلے انھوں نے میری بہن کو کچھ رقم بہ طور قرض دی تھی، لیکن اس کا طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ ان کا نام ظاہر نہ ہونے پائے۔ انھوں نے یہ رقم میرے ہاتھ سے میری بہن کو دلوائی تھی۔ اب میری بہن وہ رقم واپس کر رہی ہے۔ میں اس کا کیا کروں؟ ابھی میری والدہ محترمہ حیات ہیں۔ کیا وہ رقم انھیں دی جا سکتی ہے؟ کچھ رقم والد صاحب نے مجھے بھی بہ طور قرض دی تھی۔ اب میں اسے کس کو واپس کروں؟ اسے والدہ محترمہ کو دے دوں؟ یا والد صاحب کے نام سے صدقہ کر دوں؟ یا اسے اپنے بھائیوں بہنوں میں تقسیم کر دوں؟
جواب:کسی شخص کا انتقال ہو تو اس کی ملکیت کی تمام چیزیں اس کے ورثہ کے درمیان تقسیم ہوں گی۔ اسی طرح اگر اس نے کسی کو کچھ رقم بہ طور قرض دے رکھی ہو اور وہ اس کے انتقال کے بعد واپس ملے تو اسے بھی تمام ورثہ کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔
آپ کے والد صاحب کی جو رقم آپ کے پاس اور آپ کی بہن کے پاس بہ طور قرض تھی، اسے والدہ کو دے دینا یا صدقہ کر دینا درست نہ ہوگا, بلکہ اس میں تمام ورثہ کا حق ہے۔ اس میں آپ کی والدہ کا حصہ آٹھواں (12.5%)ہے۔ باقی رقم آپ بھائیوں بہنوں میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر بھائی کو ہر بہن کے مقابلے میں دو گنا ملے گا۔ مثال کے طور پر اگر 100 روپے تقسیم ہونے ہیں اورورثہ میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں تو بیوی کا حصہ 12.5% ہے، ہر بیٹے کا حصہ29.2%(دو بیٹوں کا58.3%) اور ہر بیٹی کا حصہ14.6% (دو بیٹیوں کا حصہ 29.2%)ہوگا۔
بچوں کے نام وصیت
سوال:میری اہلیہ اور چار بچے ہیں: تین بیٹیاں ہیں، جو شادی شدہ ہیں اور اپنی اپنی فیملی کے ساتھ رہتی ہیں اور ایک بیٹا ہے، جس کی عمر چھتیس (۳۶) برس ہے، لیکن وہ ذہن کا کم زور ہے، روز مرّہ کے کام تو خود کر لیتا ہے، لیکن زندگی گزارنے کے لیے دوسروں پر منحصر ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میں اپنی زندگی میں ہی کسی وکیل کے ذریعے وصیت تیار کراؤں کہ میرے پاس جو چار مکانات اور دو زمینیں ہیں وہ ان چاروں کے نام لکھوا دوں، تاکہ بعد میں وراثت کی تقسیم کے معاملے میں ان کے درمیان کوئی تنازع نہ ابھرے، البتہ وہ ان کے مالک میری موت کے بعد ہی بنیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ شریعت کے مطابق بیٹوں کو دو حصے اور بیٹیوں کو ایک حصہ دیا جاتا ہے، کیوں کہ بیٹا والد ین کے انتقال کے بعد اپنی بہنوں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا بیٹا خود دوسروں کا محتاج ہے۔ کیا ایسی حالت میں ہم وراثت چاروں کے نام برابر تقسیم کر سکتے ہیں؟ یعنی ہر ایک کو چوتھائی حصہ ملے اور یہ جائیداد ان کو والدین کی موت کے بعد ملے۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا وصیت میں یہ لکھ سکتے ہیں کہ جو بہن اپنے بھائی کی دیکھ بھال کرے گی وہ اس کے حصے کو اپنے قبضے میں رکھے گی اور حسب ضرورت اس کے روز مرّہ خرچ کے لیے استعمال کرے گی۔
جواب:شریعت میں کسی کے مال و جائیداد کی دوسروں تک منتقلی کی تین صورتیں بتائی گئی ہیں:
۱۔ ہبہ(Gift)
۲۔ وصیت(Will)
۳۔ وراثت (Inheritance)
کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے مال میں سے کسی کو، جتنا چاہے، ہبہ کر سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی اولاد کو ہبہ کر رہا ہے تو حکم دیا گیا ہے کہ عام حالات میں سب کو برابر ہبہ کرے،ان کے درمیان کچھ فرق نہ کرے۔ ،یہاں تک کہ جتنا لڑکے کو دے اتنا ہی لڑکی کو بھی دے۔ وراثت کے ضوابط اور مستحقین کے حصے متعین ہیں۔ کسی شخص کی بیوی، ایک لڑکا اور تین لڑکیاں ہوں تو اس کے انتقال کے بعد بیوی کا حصہ آٹھواں(12.5%) ہوگا، باقی اس طرح تقسیم ہوگا کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا، دوسرے الفاظ میں لڑکے کو 35% اور ہر لڑکی کو% 17.5 ملے گا۔
وصیت کے بارے میں دو احکام دیے گئے ہیں: اول یہ کہ ورثہ کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ دوم یہ کہ ورثہ کے علاوہ کسی اور کے حق میں ایک تہائی سے زیادہ وصیت نہیں کی جا سکتی۔ فقہا نے ورثہ کے حق میں وصیت کے جواز کی ایک صورت یہ بتائی ہے کہ اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے ورثہ بعد میں وراثت کی صحیح تقسیم نہیں کریں گے تو ہر ایک کے حق میں اتنی وصیت کر سکتا ہے جتنا وراثت میں اس کا حصہ ہو۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ آپ اپنے ورثہ( بیوی، ایک لڑکا، تین لڑکیاں )کے نام وصیت وراثت میں ان کے حصوں کے بہ قدر کر سکتے ہیں، برابر نہیں۔ اگر سب کو برابر دینا چاہتے ہیں تو وصیت کے بجائے انھیں ہبہ کرنا ہوگا، یعنی اپنی زندگی ہی میں ان کے حصے ان کے نام بہ طور ہبہ رجسٹرڈ کروادیں۔
آپ کی یہ بات درست نہیں ہے کہ شریعت نے بیٹے کا حصہ بیٹی کے مقابلے میں دوگنا اس لیے رکھا ہے کہ بیٹا والدین کے انتقال کے بعد اپنی بہنوں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ شریعت نے عورت پر خرچ کی ذمہ داری عائد نہیں کی ہے، وہ جو کچھ پاتی ہے اس کے پاس بچا رہتا ہے، جب کہ مرد اپنے خاندان اور متعلقین کی کفالت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسے اپنی بیوی، بچوں اور دوسرے زیر کفالت لوگوں پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر بھائی بڑا ہے اور بہنیں چھوٹی ہیں تو ان کی دیکھ بھال کرنا اس کی ذمہ داری ہے، لیکن اگر وہ بڑی ہیں تو ان کی کفالت اس کے ذمے نہیں ہے۔
معذور بیٹے کا جو بھی حصہ متعین ہو، اس کی جو بہن بھی اسے اپنے ساتھ رکھے اور اس کی دیکھ بھال کرے، وہ اس حصے کو اپنے قبضے میں رکھے گی اور حسب ضرورت اس میں سے اس پر خرچ کرے گی۔
وصیت کا ایک مسئلہ
سوال: عبداللہ کے دو لڑکے (علی اور احمد) اور ایک لڑکی (حو ا) تھی۔ عبد اللہ کی وراثت اس کی اولاد کے درمیان شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگئی۔
علی کا ایک لڑکا (عبد الصمد) اور پانچ لڑکیاں تھیں۔ (ایک لڑکی کا نام حلیمہ تھا۔ )احمد کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی۔
عبد الصمد کے انتقال کے وقت اس کی بیوی، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں زندہ تھیں۔
احمد نے وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد میری کل پراپرٹی میرے بھتیجے عبد الصمد کی بیوی اور بچوں کو دے دی جائے۔ احمد کی اولاد کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
٭ حلیمہ (عبد الصمد کی ایک بہن) کے بچوں کا کہنا ہے کہ احمد کی پراپرٹی میں، جس کی وصیت انھوں نے اپنے بھتیجے عبد الصمد کے بیوی بچوں کو کی ہے، ہمارابھی حصہ ہے۔
اس تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
کیا احمد کی وصیت درست ہے؟
کیا حلیمہ کے بچوں کا مطالبہ صحیح ہے؟
عبد الصمد کے بیوی بچوں کو احمد سے جو کچھ ملا ہے اس کی تقسیم کیسے ہو؟ کیا وہ برابر تقسیم کرلیں، یاوراثت میں ملنے والے حصوں کے بہ قدر ان کا حصہ ہوگا؟ یہ لوگ کرایے کے مکان میں رہتے ہیں۔ عبد الصمد کی بیوی کا سوال یہ ہے کہ کیا ان کے لیے جائز ہے کہ ابھی اس رقم سے ایک مکان خریدکر اس میں رہنے لگیں، اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد اسے آپس میں تقسیم کرلیں گے؟
براہ کرم ان سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں۔
جواب: (1) کسی شخص کے لیے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اپنے کل مال کی وصیت کرنی چاہی تو اللہ کے رسولﷺ نے انھیں منع کردیااور فرمایا : الثُّلْثُ وَالثُّلثُ کَثِیرٌ (بخاری: ۱۲۹۵، مسلم: ۱۶۲۸) ‘‘ایک تہائی کی وصیت کرو، ایک تہائی بہت ہے۔ ’’
اس بنا پر احمد کے مال میں اس کے بھتیجے عبد الصمد کی بیوہ اور اولاد کا حصہ ایک تہائی بنتا ہے۔ باقی دو تہائی احمد کے بچوں کا ہے۔ البتہ وہ لوگ اپنی مرضی سے اپنا حصہ عبد الصمد کی بیوہ اور بچوں کو دے سکتے ہیں۔
(2) حلیمہ احمد کی بھتیجی ہے۔ کسی شخص کے بیٹے /بیٹی کی موجودگی میں اس کی وراثت میں بھتیجی کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس بنا پر احمد کے مال میں حلیمہ کا کچھ حصہ نہیں بنتاہے۔ چناں چہ حلیمہ کے بچوں کا مطالبہ صحیح نہیں ہے۔
(3) عبد الصمد کی بیوہ اور اس کے بچے،اس مال میں جو انھیں احمد سے ملا ہے،برابر کے مستحق ہیں۔ وہ حسب سہولت چاہیں تو ابھی تقسیم کرلیں، یا ابھی مکان خرید کر ساتھ میں رہیں اور بعد میں جب ضرورت محسوس کریں، آپس میں اسے تقسیم کرلیں۔ عبد الصمد کی بیوہ کے انتقال پر مکان یا اس کی رقم اس کے تمام بچوں کے درمیان تقسیم ہوگی۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2024