رسائل و مسائل

پکنک کے دوران نمازِ جمعہ

سوال: ہم طلبہ کا ایک گروپ لے کر پکنک کے لیے نکلے۔ پکنک کا مقام شہر سے ساٹھ کلومیٹر دور تھا۔ جمعہ کا دن تھا۔ ہم نے طلبہ کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے کہا۔ ایک طالب علم نے خطبہ دیا اور جمعہ کی نماز پڑھا دی۔ کیا ہمارا یہ عمل درست تھا، یا ہمیں ظہر کی نماز پڑھنی چاہیے تھی؟

جواب: نمازِ جمعہ کی ادائیگی اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ اسے ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو جمعہ کے دن زوال سے قبل سفر نہ کیا جائے یا گھومنے پھرنے اور سیر و تفریح کا پروگرام نہ بنایا جائے۔ اور اگر نکلنا مجبوری ہو تو کہیں راستے میں نماز جمعہ پڑھ لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔

مسافر پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے۔ اس لیے اگر اتنی مسافت کا سفر ہو جس پر شرعی طور سے سفر کا اطلاق ہوتا ہے یعنی 48 میل/77 کلو میٹر تو نماز جمعہ واجب نہیں۔ ایسا شخص ظہر پڑھے گا۔ البتہ اگر کہیں نماز جمعہ ادا کی جا رہی ہو تو وہ اس میں شریک ہو سکتا ہے۔

اگر کچھ لوگ شہر سے باہر پکنک پر نکلے ہوں اور انھوں نے مسافتِ سفر نہ طے کی ہو تو اگر وہ ایسی جگہ پر ہوں جہاں سے مسجد اتنے فاصلے پر واقع ہو کہ اگر بغیر لاؤڈ اسپیکر کے اذان دی جاتے تو اس کی آواز ان تک نہ پہنچے (فقہا نے اس کا اندازہ پانچ کلومیٹر کا بتایا ہے) تو ان کے لیے مسجد میں حاضری ضروری نہیں۔ وہ نماز ظہر ادا کر لیں۔ لیکن اگر کہیں قریب میں مسجد ہو جہاں سے بغیر لاؤڈ اسپیکر کے دی جانے والی اذان کی آواز ان تک پہنچے تو مسجد جاکر نماز جمعہ ادا کرنی ضروری ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر موجود فتوی ملاحظہ کیجیے:

https: //islamqa.info/ar/answers/283792

اگر دورانِ عدت حیض بند ہو جائے

سوال: ہمارے یہاں ایک صاحب نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ تین مہینے گزر گئے تب انھوں نے بیوی سے کہا کہ تمھاری عدت پوری ہو گئی ہے، اب تم میرے گھر سے نکلو۔ بیوی نے کہا کہ طلاق کے بعد مجھے اب تک ایک بار بھی حیض نہیں آیا ہے۔ اس معاملے نے تنازع کی صورت اختیار کر لی ہے۔ شوہر بیوی کو زبردستی گھر سے نکال رہا ہے۔ جب کہ بیوی کا کہنا ہے کہ عدت پوری ہونے سے پہلے میں گھر سے نہیں نکلوں گی۔

بہ راہِ کرم شرعی طور پر رہ نمائی فرمائیں کہ ایسی عورت کی عدت کا حساب کیسے لگایا جائے گا؟

جواب: قرآن مجید میں عدت کے احکام صراحت سے بیان کیے گئے ہیں۔ جس عورت کو حیض آ رہا ہو اس کی عدت تین حیض ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَالْمُطَلَّقَاتُ یتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ [سورة البقرة: 228]

(جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں)

اور جن لڑکیوں کو ابھی حیض نہ آیا ہو یا زیادہ عمر کی وجہ سے حیض بند ہو گیا ہو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔

وَاللَّائِی یئِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِی لَمْ یحِضْنَ [سورة الطلاق: 4]

(اور تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمھیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے اور یہی حکم اُن کا ہے جنھیں ابھی حیض نہ آیا ہو)

جس عورت کو مستقل طور پر حیض آنا بند ہو گیا ہو اسے ‘آئسہ’ کہتے ہیں۔ فقہ حنفی میں آئسہ ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں: اول یہ کہ اس کی عمر پچپن (55)برس ہو چکی ہو، کیوں کہ اس عمر تک کسی بھی وقت حیض آ سکتا ہے۔ دوم یہ کہ ماہ واری بند ہوئے کم از کم چھ ماہ ہو چکے ہوں۔ اگر عورت کی عمر پچپن برس نہیں ہوئی ہے تو اس کا شمار ذوات الحیض (یعنی حیض کے اعتبار سے عدت گزارنے والی عورتیں) میں ہوگا اور اس کی عدّت تین حیض آنے کے بعد ہی پوری ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ عورت کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرے تاکہ اس کا حیض جاری ہو جائے اور تین حیض آکر اس کی عدت پوری ہو۔ (رد المحتار، کتاب الطلاق، باب العدة، 3/516)

مالکی فقہ میں جس عورت کو پہلے حیض آتا رہا ہو، بعد میں کسی سبب سے رک گیا ہو، اس کی عدت ایک برس قرار دی گئی ہے۔ نو مہینے مدتِ حمل کے اور تین مہینے آئسہ کی عدت کے۔ امام شافعی کا قدیم قول اور امام احمد بن حنبل کی ایک رائے بھی یہی ہے۔ صحابہ کرام میں سے حضرت عمر بن الخطابؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور تابعین میں سے حضرت حسن بصریؓ کی بھی یہی رائے تھی۔

بعض حنفی علما نے یہ رائے دی ہے کہ اگر سن یاس سے قبل عدّت کی نوبت آ جائے تو عورت بہ ذریعہ علاج حیض جاری کروانے کی کوشش کرے۔ اگر حیض جاری نہ ہو پائے تو مالکی فقہ پر عمل کرتے ہوئے ایک برس کی عدت کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے۔ (احسن الفتاویٰ، مفتی رشید احمد لدھیانوی، 4/436)

آج کل جب کہ علاج معالجہ کے میدان میں غیر معمولی ترقیات ہو گئی ہیں اور طبی جانچ کے بہت ایڈوانس آلات اور ذرائع حاصل ہیں، عدت کو ایک برس تک لمبا کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ اگر طبی تحقیقات سے معلوم ہو جائے کہ حیض کا جاری ہونا اب ممکن نہیں اور عورت کا رحم حمل سے خالی ہے تو اس کی عدت تین مہینے مان لینی چاہیے۔ شیخ ابن عثیمینؒ سے ایسی عورت کی عدّت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا “اگر طبی تحقیقات سے معلوم ہو جائے کہ عورت کا رحم خالی ہے، حمل نہیں ہے تو وہ مہینے کے حساب سے عدّت گزار سکتی ہے، اگرچہ بہتر ہے کہ اس معاملے میں سلف کی پیروی کی جائے، یعنی بہ طور احتیاط وہ ایک برس عدت گزارے۔”(الشرح الممتع علی زاد المستقنع، محمد بن صالح العثیمین، 13/346)

وراثت کے بعض مسائل

سوال: ایک صاحب کا ان کی بیوی سے کافی دنوں سے مقدمہ چل رہا تھا۔ بالآخر عدالت نے بیوی کو کچھ رقم دلواکر علاحدگی کروادی اور طے پایا کہ دونوں میں سے کوئی آئندہ نہ دوسرے کے خلاف مقدمہ کرے گا نہ کوئی دعوی کرے گا۔

اب ان صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ ان کے بینک اکاؤنٹ میں کچھ رقم ہے۔ اس کا کیا کیا جائے؟ ان کی اُس بیوی سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ یہ دونوں اپنی ماں کے پاس رہتے ہیں۔ مرحوم کے ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ تین بہنوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ ایک غیر شادی شدہ ہے۔ ان کی والدہ بھی زندہ ہیں۔ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ ان کا مال وراثت کیسے تقسیم ہوگا؟

جواب: طلاق کے بعد بیوی سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا، اس لیے سابق شوہر کی وراثت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ البتہ اولاد اس کی اپنی ہے۔ اس لیے وہ باپ کی وراثت میں حصہ پائے گی۔ اولاد کی موجودگی میں بھائیوں اور بہنوں کا وراثت میں حصہ نہیں ہوتا۔

مرحوم کی وراثت میں والدہ کو چھٹا حصہ (16.7%)ملے گا۔ باقی کے تین حصے کیے جائیں گے: ایک حصہ لڑکی اور دو حصے لڑکے کو ملیں گے۔ بہ الفاظِ دیگر لڑکی کو 27.8% اور لڑکے کو 55.6%ملے گا۔

سوال: میرے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ میری کل جائیداد ایک عدد رہائشی مکان ہے۔ یہ مکان پہلے کچّا تھا۔ بعد میں کچھ میری کمائی سے اور کچھ تین بیٹوں کے مالی تعاون سے نیا بنایا گیا۔ چوتھے بیٹے نے اس کی تعمیر میں حصہ نہیں لیا، کیوں کہ وہ ہم سے الگ رہ رہا تھا اور اس نے اپنا ذاتی مکان بنا لیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ میرا یہ بیٹا جس نے نئے مکان کی تعمیر میں کچھ بھی حصہ نہیں لیا، کیا میری وفات کے بعد، میرے دیگر بیٹوں کی طرح وراثت کا حق دار ہوگا اور اس مکان میں سے حصہ پائے گا؟

جواب: باپ کی زندگی میں اولاد جو کچھ اسے دیتی ہے یا اس کا مالی تعاون کرتی ہے شریعت کی نگاہ میں وہ باپ کا ہی سمجھا جاتا ہے، الا یہ کہ بیٹا کوئی چیز دیتے وقت صراحت کرے کہ اسے میں صرف استعمال کے لیے دے رہا ہوں، اس کی ملکیت میری ہی ہے۔

اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے انیسویں فقہی سیمنار منعقدہ ہانسوٹ گجرات 12 تا 15 فروری 2010ء میں جن موضوعات پر اجتماعی غور و فکر کیا گیا تھا ان میں سے ایک موضوع تھا: کاروبار میں والد کے ساتھ اولاد کی شرکت۔ اس میں منظور کی جانے والی تجاویز میں ایک شق یہ بھی تھی:

“باپ کی موجودگی میں اگر بیٹوں نے اپنے طور پر مختلف ذرائع کسب اختیار کیے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ والد کے حوالے کرتے رہے تو اس صورت میں باپ کو ادا کردہ سرمایہ باپ کی ملکیت شمار کی جائے گی۔”(نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا)، طبع 2017،ص256)

اس بنا پر نیا مکان بھی باپ کی ملکیت سمجھا جائے گا اور اس کے انتقال کے بعد تمام بیٹوں میں تقسیم ہوگا۔ ورثا میں صرف چار بیٹے ہونے کی صورت میں ہر ایک چوتھائی (25%)کا مستحق ہوگا۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2025

مزید

حالیہ شمارے

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223