اس مطلقہ کی عدت، جس کی رخصتی نہ ہوئی ہو
سوال: ہمارے شہر میں ایک لڑکی کی طلاق ہوئی ہے۔ آٹھ ماہ قبل اس کا نکاح ہوا تھا، لیکن آج تک نہ رخصتی ہوئی نہ میاں بیوی کبھی تنہائی میں ملے۔ نکاح کے بعد سے لڑکی اپنے میکے میں ہے۔ کیا اس صورت میں بھی عدت گزارنی ہوگی؟
جواب: عدّت کے احکام قرآن مجید میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ حائضہ کی عدت تین ماہ واری (البقرہ:۲۲۸)، جن کو حیض نہ آتا ہو ان کی عدت تین ماہ (الطلاق:۴)، بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن (البقرہ: ۲۳۴) اور حاملہ کی عدت وضع حمل (الطلاق:۴) بیان کی گئی ہے۔
عدّت کا حکم استبراءِ رحم کی تحقیق کے لیے دیا گیا ہے، یعنی عورت حمل سے ہے یا نہیں۔ بیوہ کی عدت میں استبراءِ رحم کے ساتھ شوہر کی وفات پر سوگ کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔ اگر نکاح کے بعد لڑکی کی رخصتی نہ ہوئی ہو اور تنہائی میں شوہر سے اس کی ملاقات نہ ہوئی ہو تو استبراءِ رحم کی ضرورت نہیں رہتی، اس بنا پر اس کے لیے عدّت کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
یٰآیهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا (الاحزاب:۴۹)
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو،پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدّت لازم نہیں ہے، جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو۔‘‘
البتہ اس صورت میں لڑکی نصف مہر کی مستحق ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن یعْفُونَ أَوْ یعْفُوَ الَّذِی بِیدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ (البقرہ:۲۳۷)
’’ اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہے، لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد، جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دے دے) ۔‘‘
زندگی میں اولاد کو کتنا ہبہ کیا جا سکتا ہے؟
سوال: شوہر اور بیوی دونوں کی علاحدہ علاحدہ جائیدادیں ہیں۔ ان کی پانچ اولادیں ہیں: ایک لڑکا اور چار لڑکیاں۔ دونوں چاہتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں جائیدادیں اولاد کے درمیان تقسیم کر دی جائیں۔
اس صورت میں دونوں میاں بیوی اپنی اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے کتنا رکھ سکتے ہیں؟ اور اپنی اولاد کے درمیان کتنا تقسیم کر سکتے ہیں؟
جواب:کوئی مال ایک شخص سے دوسرے کو منتقل کرنے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
۱۔ ہبہ (gift)، ۲۔ وصیت (Will)، ۳۔ وراثت (Inheritance)۔ ماں باپ اپنی زندگی میں اولاد کو جتنا مال دینا چاہیں، اس کی اجازت ہے۔ اسے ہبہ قرار دیا جائے گا۔ البتہ عام حالات میں سب کو برابر دینا چاہیے، چاہے لڑکا ہو یا لڑکی۔ ان کے درمیان کچھ تفریق نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد مجھے لے کر اللہ کے رسول ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : “میں نے اپنے اس بیٹے کو فلاں چیز دی ہے۔ اس کی ماں کہتی ہے کہ میں اس پر آپ کو گواہ بنا لوں۔”آپؐ نے دریافت کیا : “کیا تم نے وہ چیز اپنی سب اولاد کو دی ہے؟ ” انہوں نے عرض کیا : نہیں۔ تب آپؐ نے فرمایا : فَاتَّقوا اللهَ واعْدِلوا بین أولادِكم (بخاری: ۲۵۸۷، مسلم ۱۶۲۳)
“اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل سے کام لو۔”
ماں باپ کو اختیار ہے، اپنی جائیداد اور مال میں سے جتنا چاہیں روک لیں اور باقی اولاد کے درمیان برابر تقسیم کر دیں۔
بیوہ عورت کا لباس
سوال: کیا کوئی بیوہ عورت آٹھ مہینے کے بعد میرون کلر کا سوٹ پہن سکتی ہے؟
جواب: شوہر کا انتقال ہو جائے تو عورت کو چار ماہ دس دن عدّت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَالَّذِینَ یتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَیذَرُونَ أَزْوَاجًا یتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (البقرہ: ۲۳۴)
’’ تم میں سے جو لوگ مر جائیں، اُن کے پیچھے اگر اُن کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں۔ ‘‘
عدّت کے دوران میں جو احکام بیوہ عورت کے متعلق ہیں ان میں سے ایک حکم زیب و زینت ترک کرنے کا ہے۔ لہذا جن چیزوں کا شمار شرعاً یا عرفاً زینت میں ہوتا ہے ان سے بیوہ عورت کو اجتناب کرنا چاہیے، مثلاً زیورات پہننا، زرق برق لباس زیب تن کرنا، خوشبو، سرمہ یا مہندی لگانا، وغیرہ۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا یحِلّ لامرأةٍ تُؤمنُ باللهِ والیومِ الآخِرِ، أن تُحِدَّ على میتٍ فوقَ ثلاثٍ، إلّا على زوجٍ أربعةَ أشهرٍ و عشراً (بخاری:۱۲۸۰، مسلم:۱۴۸۶)
’’ کسی عورت کے لیے، جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں ہے کہ وہ کسی پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، سوائے شوہر کے کہ وہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ منائے گی۔‘‘
میت پر سوگ منانے کے لیے حدیث میں ‘اِحداد’کا لفظ آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے زیب و زینت ترک کر دینا، خوش بوٗ کا استعمال نہ کرنا اور رنگین اور جاذبِ نظر لباس استعمال نہ کرنا وغیرہ۔
البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ حکم صرف عدّتِ وفات (چار ماہ دس دن) تک کے لیے ہے۔ اس کے بعد عورت ہر طریقے کا لباس استعمال کر سکتی اور ہر طرح کی زیب و زینت اختیار کر سکتی ہے، چاہے اس کی عمر جتنی بھی ہو۔ بعض سماجوں میں بیوہ عورت کو زندگی بھر کے لیے صرف سفید کپڑے پہننے اور زیب و زینت اختیار نہ کرنے کا پابند کیا جاتا ہے۔ شرعی طور پر یہ درست نہیں ہے۔ وہ کسی بھی رنگ کا لباس استعمال کر سکتی ہے۔
کھیت سے عشر کیسے نکالا جائے؟
سوال : ہمارے ایک دوست ہیں، جنہوں نے چودہ ایکڑ زمین سالانہ معاہدے پر لی ہے۔ اب فصل تیار ہے۔ اسے بارش کے پانی سے سینچا گیا ہے۔ فصل کاٹنے اور دیگر اخراجات میں ان کے دو لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اب اِس فصل میں سے جو عشر نکالا جائے گا، کیا پہلے اس میں سے خرچ ہونے والی رقم کو منہا کیا جائے گا یا نہیں؟
جواب : اگر عُشری زمین کو بارش کے پانی سے سینچا گیا ہو تو اس سے عُشر یعنی پیداوار کا دسواں حصہ (۱۰٪) نکالا جائے گا اور اگر مصنوعی آب رسانی کے ذرائع مثلا ٹیوب ویل وغیرہ سے سینچا گیا ہو تو نصف عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ (۵٪) نکالنا واجب ہوگا۔
زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لے کر پیداوار حاصل ہونے تک جتنے مصارف ہوتے ہیں انہیں پہلے پیداوار میں سے منہا نہیں کیا جائے گا، بلکہ پوری پیداوار میں سے عُشر یا نصف عُشر نکالا جائے گا۔ فتاوی ہندیہ میں ہے:
و لا تحسب أجرة العُمّال و نفقة البقر، و كری الأنهار، و أجرة الحافظ وغیر ذلك، فیجب إخراج الواجب من جمیع ما أخرجته الأرض عُشراً أو نصفاً، کذا فی البحر الرائق۔ (۱\۱۸۷)
’’ پیداوار میں سے مزدوروں کی اجرت، جانوروں کا خرچ، سینچائی کے مصارف اور چوکیدار کی اجرت وغیرہ کم نہیں کی جائے گی۔ زمین کی کل پیداوار میں سے عُشر یا نصف عُشر نکالا جائے گا۔ البحر الرائق میں یہ بیان کیا گیا ہے۔‘‘
مشمولہ: شمارہ فروری 2025