رسائل و مسائل

عذر کی صورت میں روزوں کا فدیہ

سوال: دوبرس قبل میرے عوارض سن کر ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا کہ میں کثرت سے پانی پیوں۔ میں نے دیگر ڈاکٹروں سے رابطہ کیا۔ سب کا مشورہ تھا کہ بہ کثرت آب نوشی ہی میری بیماری کا علاج ہے۔ چناں چہ پچھلے سال میں روزہ نہ رکھ سکا۔ ہر روز پریشان رہا۔ میں نے روزوں کا فدیہ ادا کیا۔

اب ایک دوسری تکلیف نے مجھے اسیر کرلیا ہے۔ وہ ہے ہونٹ، منھ اور حلق میں خشکی۔ ہر تین چار منٹ کے بعد پانی کا گھونٹ لے کر تَر کرنا پڑتا ہے۔ یہ کیفیت مجھے برابر پریشان کرتی ہے۔ ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ میں پانی یا کسی دیگر مشروب کے استعمال میں کوتاہی نہ کروں۔ لگتا ہے کہ اِس سال بھی میں روزے نہیں رکھ سکوں گا۔

میں گذشتہ اٹھارہ (۱۸) برس سے دل کا مریض ہوں۔ برابر روزہ رکھتا رہا۔ لیکن موجودہ عوارض میں ڈاکٹر برابر پانی پیتے رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں گردے خطرناک مرض کی لپیٹ میں آجائیں گے۔

کیا میرے لیے گنجائش ہے کہ روزہ نہ رکھ کر فدیہ ادا کردوں؟ اللہ کی بارگاہ میں شرمندگی کا احساس ہے، لیکن اس کے سوا کوئی اور صورت سمجھ میں نہیں آرہی ہے؟

جواب: قرآن مجید میں رمضان کے روزوں کی فرضیت بیان کی گئی تو ساتھ ہی عذر والوں کو رخصت دی گئی۔ فرمایا گیا :

وَمَنْ كَانَ مَرِیضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیامٍ اُخَرَ(البقرة: 185)

’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے۔‘‘

اِس آیت میں اُس مریض کا بیان ہے جس کا مرض عارضی ہو اور اس سے شفا پانے کی امید ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص ایسے مُزمن مرض میں مبتلا ہو جس سے شفا پانے کی امید نہ ہو تو وہ فدیہ ادا کرے گا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَعَلَى الَّـذِینَ یطِیقُوْنَهٗ فِدْیةٌ طَعَامُ مِسْكِینٍ(البقرة: 184)

’’اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں تو )وہ فدیہ دیں گے۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔‘‘ (سید مودودیؒ)

اس آیت کی تفسیر میں علما نے لکھا ہے کہ روزہ کے سلسلے میں یہ ابتدائی حکم تھا، جو رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل دیا گیا تھا۔ لوگوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ چاہیں تو روزہ رکھیں، چاہیں تو اس کی جگہ فدیہ ادا کردیا کریں۔ لیکن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی رائے یہ ہے کہ اس میں بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کا حکم بیان کیا گیا ہے:

ھو الشیخ الکبیر والمرأۃ الکبیرۃ، لایستطیعان أن یصوما، فَیُطعِمان مکانَ کلِّ یومٍ مسکیناً  (بخاری: ۴۵۰۵)

’’ اس میں بڑی عمر کے مرد اور عورت کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ وہ روزہ نہ رکھ سکیں تو ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔‘‘

فقہا نے لکھا ہے کہ جس مریض کو شفا ملنے کی امید نہ ہو وہ بوڑھے کے حکم میں ہے۔ علامہ ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:

والمریضُ الذی لایُرجیٰ بَرؤہُ یُفطِرُ ویُطعِمُ لکلِّ یومٍ مِسکیناً، لأنّه فی معنى الشیخ (المغنی: ۴؍۳۹۶)

’’جس مریض کو شفا کی امید نہ ہو وہ روزہ نہیں رکھے گا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا۔ اس لیے کہ وہ بوڑھے شخص کے حکم میں ہے، جسے روزہ نہ رکھ کر اس کا فدیہ ادا کرنے کی اجازت ہے۔‘‘

فقہا نے لکھا ہے کہ ایک روزے کا فدیہ دو وقت کا کھانا کھلانا ہے۔

اسقاطِ حمل کی صورت میں عدّت

سوال: میری بھابی کو جب ان کے شوہر نے طلاق دی تو حمل سے تھیں۔ لیکن ابھی ان کا حمل صرف تین ماہ کا تھا کہ اسقاط ہوگیا۔ حاملہ کی عدّت وضع حمل بیان کی گئی ہے۔ کیا اسقاط کی صورت میں یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کی عدّت پوری ہوگئی، یا اس کا دوسرا حکم ہے؟

براہِ کرم وضاحت فرمادیں۔

جواب: عدّت کے احکام قرآن مجید میں بیان کردیے گئے ہیں۔ جوان عورت کی عدّت تین ماہ واری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالْمُطَلَّقٰتُ یتَـرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوٓءٍ (البقرة: 228)

’’جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو وہ تین مرتبہ ماہ واری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔‘‘

اور حاملہ عورتوں کی عدّت وضع حمل بیان کیا گئی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

وَاُولَاتُ الْاَحْـمَالِ اَجَلُـهُنَّ اَنْ یضَعْنَ حَـمْلَـهُنَّ(الطلاق: ۴)

’’اور حاملہ عورتوں کی عدّت اُس وقت تک ہے جب ان کا وضعِ حمل ہوجائے۔‘‘

بعض فقہا کی رائے ہے کہ چاہے حمل کی مدّت پوری ہونے کے بعد بچے کی ولادت ہو، یا اس سے قبل ہی اسقاط ہوجائے، یا اسقاط کروادیا جائے، ہر صورت میں عدّت پوری مانی جائے گی۔ مغیرہ نے حضرت ابراہیم نخعیؒ سے اسقاط کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا: ’’اس سے عدّت پوری ہوجائے گی۔‘‘ قاضی شریحؒ کی رائے ہے: ’’مطلّقہ عورت کا اسقاط ہوجائے تو اس کی عدّت پوری ہوجاتی ہے۔‘‘ حسن بصریؒ کہا کرتے تھے: ’’اگر عورت کے حمل کا علم ہو، پھر علقہ یا مضغہ کی صورت میں اس کا اسقاط ہوجائے تو عدّت پوری ہوجائے گی۔ (یہ تینوں اقوال مصنف ابن ابی شیبہ میں مروی ہیں۔ ملاحظہ ہو: ۴؍۱۸۵، روایت نمبر: ۲۰۵۳)

فقہ حنفی میں اس کی کچھ تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ اگر حمل میں بچے کے اعضاء (ہاتھ، پیر، انگلی، ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو اس کا اسقاط ہوجانے کی صورت میں عدّت مکمل سمجھی جائے گی، لیکن اگر اعضاء کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور تین ماہ واری گزارنے کے بعد عدّت مکمل ہوگی۔

فقہا نے اس کی حد ایک سو بیس دن یعنی چار ماہ قرار دی ہے۔ اگر مطلقہ عورت کا حمل چار ماہ یا اس سے زیادہ کا ہے اور اس کا اسقاط ہوجائے تو سمجھا جائے گا کہ اس کی عدّت مکمل ہوگئی، ورنہ نہیں۔

البحر الرائق میں ہے:

واذا أسقطت سقطاً استبان بعض خلقه انقضت به العدّۃ، لأنه ولد، وان لم یستبن بعض خلقه لم تنقض ( کتاب الطلاق، باب العدة، ۴؍۱۴۷)

’’کسی مطلّقہ عورت کا اسقاط ہوجائے، اس وقت اگر حمل کے بعض اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو سمجھا جائے گا کہ اس کی عدّت پوری ہوگئی اور اگر بعض اعضاء کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو عدّت مکمل نہیں سمجھی جائے گی۔‘‘

فتاویٰ شامی میں ہے:

ولا یستبین خلقه الّا بعد مائة وعشرین یوماً (مطلب فی احوال السقط: ۱؍۳۰۲)

’’حمل کے اعضاء کی بناوٹ ایک سو بیس دن کے بعد ظاہر ہوتی ہے۔‘‘

ایسی صورت میں اسقاط کے بعد اگر کم از کم تین دن تک خون آیا تو اسے ایک حیض شمار کیا جائے گا۔ اس کے بعد دو حیض اور گزارنے ہوں گے، تب عدّت مکمل ہوگی۔

تقسیمِ وراثت کا ایک مسئلہ

سوال: ہمارے والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔ ہم دو بھائی چار بہنیں ہیں۔ آبائی مکان اور ایک کھیت ساڑھے چار بیگھے کا ہے۔ ایک کھیت میں باغ ہے۔

براہِ کرم واضح فرمائیں کہ ہم بھائی بہنوں کے درمیان وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟ ایک بہن کہہ رہی ہے کہ ہم کو نہیں چاہیے، جب کہ قرآن میں ہے کہ عورتوں کا بھی وراثت میں حصہ ہے۔ اس کے معاملے میں کیا کریں؟

جواب: قرآن مجید میں وراثت کی تقسیم کا صریح حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لِّلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَـرَكَ الْوَالِـدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَـرَكَ الْوَالِـدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ نَصِیبًا مَّفْرُوْضًا(النساء: ۷)

’’مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔‘‘

اس آیت میں ایک بات تو یہ کہی گئی ہے کہ مالِ وراثت میں صرف مرد ہی حق دار نہیں ہیں، بلکہ عورتوں کا بھی اس میں حصہ ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مالِ وراثت چاہے زیادہ ہو یا کم سے کم، اسے ہر حال میں مستحقین میں تقسیم ہونا ہے۔ مفسرین نے ایک اہم بات یہ کہی ہے کہ وراثت چاہے ایسے مال پر مشتمل ہو جو صرف مردوں کے کام آنے والا ہو، لیکن لازماً اس میں عورتوں کا بھی حصہ لگایا جائے گا، اگر وہ موجود اور مستحقِ وراثت ہوں۔ تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ تقسیم وراثت ایک لازمی حکم ہے، اس کی اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے اور اس پر عمل ضروری ہے۔

قرآن میں ورثہ کے حصے بھی بیان کردیے گئے ہیں۔ یہ بیان سورۂ نساء کی صرف تین آیات (۱۱۔۱۲۔ ۱۷۶) میں مذکور ہے۔ اگر مالِ وراثت کی تقسیم صرف اولاد کے درمیان ہونی ہو تو اس کے سلسلے میں قرآن کا یہ بیان ہے:

یوْصِیكُمُ اللّٰـهُ فِىٓ اَوْلَادِكُمْ لِلـذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیینِ(النساء: ۱۱)

’’اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔‘‘

اس اعتبار سے اگر کسی شخص کے دو لڑکے اور چار لڑکیاں ہوں تو اس کے مال کے آٹھ حصے کیے جائیں گے۔ دو دو حصے ہر لڑکے کو اور ایک ایک حصہ ہر لڑکی کو ملے گا۔ دوسرے الفاظ میں ہر لڑکے کو 25%اور ہر لڑکی کو 12.5%ملے گا۔ آبائی مکان، کھیت اور باغ کی قیمت نکال لی جائے، پھر یا تو اسے فروخت کرکے رقم تقسیم کرلی جائے، یا حصہ داروں میں کوئی ایک یا ایک سے زائد لوگ دوسروں کے حصے خرید لیں۔

تقسیم وراثت کے معاملے میں ایک اصول یہ ہے کہ کوئی مستحق وراثت، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اپنی آزاد مرضی سے اپنا حصہ کلّی یا جزئی طور پر چھوڑ سکتا ہے یا کسی اور کو دے سکتا ہے۔ چوں کہ عورتیں سماجی دباؤ کی وجہ سے اپنا حصہ چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں، اس لیے فقہا نے کہا ہے کہ پہلے مالِ وراثت تمام مستحقین کے درمیان تقسیم کردیا جائے، اس کے بعد ہر ایک کو آزادی رہے گی کہ وہ اپنا حصہ نہ لینا چاہے تو کسی دوسرے کو دے دے۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2025

مزید

حالیہ شمارے

فروری 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223