صلوٰۃ التسبیح کی حیثیت
سوال: تراویح کی نماز پڑھنے کے لیے جو خواتین جمع ہوتی ہیں ان میں سے بعض صلوٰۃ التسبیح باجماعت پڑھنے پر زور دے رہی ہیں۔ کہتی ہیں کہ یہ فضیلت والی نماز ہے، اس سے تمام گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے۔ براہِ کرم بتائیں، یہ کیسی نماز ہے؟ اور اسے پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
جواب: ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس ؓ سے فرمایا کہ وہ چار رکعت نفل پڑھیں، جس میں سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ تین سو (300)مرتبہ پڑھیں: پہلی رکعت میں قراءت کے بعد پندرہ مرتبہ، پھر رکوع میں دس مرتبہ، رکوع سے اٹھنے کے بعد دس مرتبہ، پھر سجدے میں دس مرتبہ، سجدے سے اٹھنے کے بعد دس مرتبہ، دوسرے سجدے میں دس مرتبہ، اس سے اٹھنے کے بعد دس مرتبہ۔ اس طرح ایک رکعت میں پچہتر (75) اور چار رکعتوں میں تین سو( 300) تسبیحات ہو جائیں گی۔ روایت میں ہے کہ اس نماز کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ شروع اور آخر کے، پرانے اور نئے، عمداً کیے ہوئے اور غلطی سے کیے ہوئے، علانیہ اور پوشیدہ، تمام گناہ بخش دے گا۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ اسے روزانہ پڑھنے کی کوشش کی جائے، نہ ہو سکے تو ہفتے میں ایک بار، یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں ایک بار اور یہ بھی نہ ہو سکے تو زندگی بھر میں ایک بار پڑھ لی جائے۔
یہ روایت سنن ابی داؤد(1297)، سنن ترمذی(482)، سنن ابن ماجہ(1387)، صحیح ابن خزیمہ(1216)، بیہقی فی شعب الایمان(611)، مستدرک حاکم(1196) اور دیگر کتابوں میں آئی ہے۔ زیادہ تر سندیں ضعیف ہیں، کچھ کو محدثین نے حسن کہا ہے۔ علامہ ابن جوزیؒ نے اس کا تذکرہ اپنی تصنیف ’کتاب الموضوعات‘ (2؍143)اور علامہ سیوطیؒ نے اپنی تصنیف ’اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ‘ (2؍33) میں کیا ہے، یعنی یہ حضرات اسے سراسر من گھڑت سمجھتے ہیں۔
صلوٰۃ التسبیح کے بارے میں فقہا کے تین گروہ ہیں: ایک گروہ اسے مستحب قرار دیتا ہے، دوسرا اس کے جواز کا قائل ہے اور تیسرا اسے غیر شرعی بتاتا ہے۔ ایک سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ صلوٰۃ التسبیح پڑھنے والا مرد یا عورت اگر ایک رکعت میں اپنی پوری توجہ پچہتر مرتبہ اور چار رکعتوں میں تین سو مرتبہ تسبیحات گننے میں لگائے تو وہ اپنی نماز میں خشوع و خضوع اور انابت الیٰ اللہ کو باقی رکھ سکیں گے؟ یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ کیا خود اللہ کے رسول ﷺ نے اس طریقے سے کبھی نماز پڑھی ہے؟ یا آپ کے اصحاب میں سے کسی نے اس طریقے سے نماز پڑھنے کا اہتمام کیا ہے؟ کتب حدیث میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔
ایسا لگتا ہے کہ انسانی طبیعتیں یکسانیت سے جلد سیر ہو جاتی ہیں، اس لیے نئے طریقے ڈھونڈنے لگتی ہیں۔ بنی اسرائیل من و سلوی کھاتے کھاتے اکتا گئے تو دال، چاول، کھیرا، ککڑی، لہسن، پیاز طلب کرنے لگے۔ معمول کے مطابق نماز پڑھتے پڑھتے طبیعت اکتا جاتی ہے تو غیر معمولی طریقے سے پڑھنے کی خواہش ہونے لگتی ہے۔ شاید اسی لیے کسی زمانے کے بعض صوفیا نے ’صلوٰۃ معکوس‘ ایجاد کی تھی، جس میں وہ کنویں میں الٹے لٹک کر نماز ادا کرتے تھے۔ پتہ نہیں، اس طریقے میں وہ قیام، رکوع اور سجدہ کیسے کرتے ہوں گے؟ صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ عام نماز سے ہٹ کر ہے، اس لیے لوگوں کی اس سے دل چسپی بھی بڑھ کر ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نماز میں یہ خاصیت بتائی گئی ہے کہ اسے پڑھنے سے اگلے پچھلے، چھوٹے بڑے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ گناہ گار بندے اپنے گناہ معاف کروانے کی خواہش میں اسے پڑھنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُموني أُصلِّي۔(بخاری: 6008، مسلم: 674) ’’اس طرح نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مخصوص طریقے سے نماز پڑھتے ہوئے اس کی تسبیحات کی گنتی کرنے کے بجائے جیسے عام دنوں میں سادہ طریقے سے نوافل پڑھتے ہیں، اسی طرح جتنے نوافل پڑھنے کی توفیق ہو، پڑھ لینے چاہیے اور رکوع و سجود میں نماز کے باہر جتنی تسبیحات چاہیں پڑھ لیں۔
زکوٰۃ مستحق تک نہ پہنچے تو وہ ادا نہیں مانی جائے گی
سوال: میں نے زکوٰۃ کا حساب کر کے اس کی رقم ایک بیگ میں رکھ لی تھی کہ مستحقین کو دیتا رہوں گا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ بیگ چوری ہو گیا۔ کیا میری زکوٰۃ ادا مانی جائے گی، یا مجھے دوبارہ زکوٰۃ نکالنی ہوگی؟
جواب: زکوٰۃ کی ادائیگی اس وقت مکمل سمجھی جائے گی جب وہ کسی مستحق تک پہنچا دی جائے۔ اگر اس سے قبل ہی وہ چوری ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی، خواہ یہ رقم اپنے مال میں سے نکالی ہوئی زکوٰۃ ہو یا کسی دوسرے صاحب مال نے دی ہو کہ اسے غریبوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ فقہا نے اس کی صراحت کی ہے۔ فقہ حنفی کی معروف کتاب ’الدرّ المختار ‘میں ہے:
ولا یخرج عن العھدۃ بالعزل، بل بالأداء للفقراء(2؍270)
’’زکوٰۃ کی رقم اصل مال میں سے الگ کر دینے سے ادا نہیں سمجھی جائے گی، بلکہ جب وہ
غریبوں تک پہنچ جائے تب اس کی ادائیگی مکمل ہوگی۔‘‘
اس بنا پر زکوٰۃ اگر مستحقین تک پہنچنے سے پہلے چوری ہو جائے تو دوبارہ نکالنی ہوگی۔
غریبوں کے تعلیمی مصارف میں زکوٰۃ کا استعمال
سوال: ایک پرائیویٹ غیر منافع بخش آن لائن معیاری تعلیمی ادارہ مدارسِ اسلامیہ، دینی مکاتب اور دانش گاہوں کے نادار بچوں، بچیوں، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بلا تفریق مسلک و مشرب، بلا امتیاز رنگ و زبان، ان کے تعلیمی نظام میں کسی قسم کی دخل اندازی کیے بغیر،تجربہ کار اور ماہر اساتذہ کی نگرانی میں عصری تعلیم فراہم کرتا ہے،نیز مدارس کے طلبہ کو NIOS کے امتحانات کی تیاری کراتا ہے، ان کے امتحانات کی فیس ادا کرتا ہے اور دیگر تعلیمی ضروریات کا بھی انتظام کرتا ہے۔ ادارہ ان تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زکوٰۃ کی رقم زکوٰۃ دینے والوں سے بہ حیثیت وکیل وصول کرتا ہے اور اسے طلبہ کی تعلیمی ضروریات پر خرچ کرتا ہے۔
کیا اس ادارے کا زکوٰۃ وصول کرنا اور مذکورہ طریقے سے خرچ کرنا ازروئے شرع جائز ہے؟
جواب: زکوٰۃ کی رقم غریبوں پر کسی بھی کام کے لیے خرچ کی جا سکتی ہے۔ اس کا استعمال ان کے تعلیمی مصارف میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
بعض فقہا’ تملیک ‘کی شرط عائد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ زکوٰۃ غریبوں کو دے دی جائے، وہ جس کام میں چاہیں، اس کا استعمال کریں۔ لیکن دوسرے فقہا کہتے ہیں کہ’تملیک‘ ضروری نہیں ہے۔ ضروری یہ ہے کہ وہ غریبوں کی منفعت میں خرچ کی جائے۔ میری بھی یہی رائے ہے۔
وراثت میں بیوہ کا حصہ
سوال: میرے والدین نے 1997 میں ایک گھر بنایا تھا۔ اس میں ہم سب رہتے تھے۔ اس میں والد صاحب کے پچاس ہزار روپے اور والدہ کے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے لگے تھے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد وہ گھر فروخت کر دیا گیا۔ جو رقم ملی اس کی تقسیم کیسے ہو؟ اس سلسلے میں دو رائیں ہیں: ایک یہ کہ والدہ کی لگائی ہوئی رقم ان کو واپس کر دی جائے، باقی رقم کی تقسیم شریعت کے مطابق ہو۔ اس میں والدہ کا جو حصہ ہے وہ ان کو مزید دے دیا جائے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ چوں کہ گھر والد صاحب کے نام سے تھا، اس لیے والدہ کو صرف وہی حصہ دیا جائے جو شریعت میں بیوی کا بتایا گیا ہے، یعنی بیٹے کا ایک حصہ اور بیوی یا بیٹی کا نصف حصہ۔ ان دونوں رایوں میں سے کون سی رائے شریعت کے مطابق ہے؟ برائے کرم رہ نمائی فرمائیں۔
جواب: یہ بات درست نہیں کہ وراثت میں بیوی کا حصہ بیٹے کا نصف ہوتا ہے۔ اگر اولاد ہے تو بیوی کا حصہ آٹھواں (12.5%) اور اگر اولاد نہیں ہے تو چوتھائی (25%) ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عورت نے اپنے شوہر کی زندگی میں اسے اپنا جو مال دیا تھا اگر اسے ہبہ (gift) کے ارادے سے دیا ہو تو شوہر کے انتقال کے بعد اسے واپس لینے کا حق نہیں ہے۔ اس صورت میں وہ شوہر کے کل مالِ وراثت میں سے صرف اپنے حصے یعنی موجودہ صورت میں آٹھویں حصے کی مستحق ہوگی، لیکن اگر اس نے ہبہ نہ کیا ہو تو وہ بعد میں اپنی دی ہوئی رقم واپس لے سکتی ہے۔ اس رقم کے علاوہ وہ وراثت میں اپنے حصے کی بھی مستحق ہوگی۔
بیوی کا حصہ نکالنے کے بعد باقی مالِ وراثت لڑکوں اور لڑکیوں میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ہر لڑکے کو ہر لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2025