حنفی کا عصر کی نماز شافعی وقت میں پڑھنا
سوال: حنفی مسلک پر عمل کرنے والے شخص کا عصر کی نماز شافعی مسلک کے مطابق وقت شروع ہونے کے بعد ادا کرنا کیسا ہے؟ میں نے فتاویٰ کی طرف رجوع کیا تو یہ جواب ملا کہ ایسا کرنا درست نہیں۔ صاحبین کا ایک قول اس کی اجازت دیتا ہے، لیکن فتویٰ امام ابو حنیفہؒ کے قول کے مطابق دیا جاتا ہے کہ جائز نہیں۔
میرے ایک دوست ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ ان کا سوال یہ ہے کہ بعض اوقات حنفی مسلک کے مطابق عصر کی نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، جب کہ شافعی مسلک کے مطابق عصر کا وقت شروع ہونے کے بعد وہ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ پھر کیا وہ نماز عصر قضا کریں یا شافعی مسلک کے مطابق پڑھ لیا کریں؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ وقت کی نماز فرض کرنے کے ساتھ ان کے اوقات بھی متعین کر دیے ہیں اور ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنے کی تاکید کی ہے۔ ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّلاة کانَت عَلَی المُؤمِنینَ کِتاباً مَوقوتًا (النساء:۱۰۳)
”درحقیقت نماز ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔“
نمازِ عصرکے وقت کی ابتدا کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ دو مثل ہو جائے، جب کہ امام شافعیؒ کے نزدیک اس کا آغاز سایۂ اصلی کے علاوہ ایک مثل ہونے پر ہو جاتا ہے۔
اس مسئلہ میں صاحبین (یعنی امام ابو حنیفہ کے دونوں شاگرد قاضی ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ) کی رائے امام شافعیؒ کے مثل ہے، لیکن فقہ حنفی میں فتویٰ امام صاحب کی رائے پر دیا جاتا ہے۔
میری رائے میں حنفی مسلک پر عمل کرنے والوں کو عصر کی نماز عام حالات میں مفتیٰ بہ قول (امام ابو حنیفہؒ کی رائے) کے مطابق ادا کرنی چاہیے، یعنی جب کسی چیز کا سایہ اس کے سایۂ اصلی کے علاوہ دو مثل ہو جائے، اس کے بعد ہی عصر کی نماز ادا کرنی چاہیے، البتہ کوئی عذر ہو تو امام شافعی کے مسلک کے مطابق (جو صاحبین کی بھی رائے ہے) عمل کیا جا سکتا ہے۔ نماز قضا کرنے سے بہتر ہے کہ دوسرے مسلک کے مطابق اس کے وقت میں ادا کر لی جائے۔
یہ چیز اس صورت میں ہے جب کوئی شخص تنہا نماز ادا کررہا ہو۔ لیکن اگر وہ ایسے علاقے میں ہو جہاں صرف شوافع کی آبادی ہو اور تمام مساجد میں عصر کی نماز شافعی مسلک کے مطابق ادا کی جاتی ہو تو اس کا عصر کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد نہ جانا اور نماز با جماعت مستقل ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ وہ شافعی امام کے پیچھے نمازِعصر اوّل وقت میں ادا کرے ، اس کی نماز ہوجائے گی۔ یہ حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب کسی علاقے میں حنفی اور شافعی دونوں مسالک کی مساجد ہوں، شافعی مسلک کی مسجد قریب اور حنفی مسلک کی مسجد دور ہو تو بھی اگر حنفی مسلک پر عمل کرنے والا شافعی مسلک والی مسجد میں عصر کی نماز اوّل وقت میں ادا کرلے تو اس کی نماز درست ہوگی۔ بعض فتاویٰ میں اسے نا درست قرار دیا گیا ہے اور حنفی مسلک والے کو کہا گیا ہے کہ وہ دور کی حنفی مسجد میں جاکر نماز ادا کرے۔ لیکن میری نظر میں یہ مسلکی شدّت پسندی کا مظہر ہے۔
یہی معاملہ حرمین شریفین کا ہے۔ اگر وہاں عصر کی نماز باجماعت اوّل وقت میں ادا کی جا رہی ہو ، جب کہ حنفی مسلک کے مطابق ابھی نماز کا وقت نہ ہوا ہو ، اور حنفی مسلک پر عمل کرنے والا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلے تو اس کی نماز ہوجائے گی۔
عورت مہر قبول کر لے یا معاف کر دے؟
سوال: عورت کو مہر مرد کی طرف سے اس کی حیثیت کے مطابق دیا جاتا ہے۔ بعض گھرانوں میں نکاح کے وقت مرد کی کوئی کمائی نہیں ہوتی تو دولہا کی طرف سے اس کے والد یا بھائی مہر ادا کر دیتے ہیں۔ کیا عورت اس صورت میں مہر قبول کر سکتی ہے؟ اور کیا عورت کو اختیار ہے کہ اگر اس کا ہونے والا شوہر ابھی کچھ نہیں کما رہا ہے تو وہ مہر معاف کر دے؟
جواب: نکاح کی صورت میں شوہر پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ بیوی کو مہر دے۔ زوجین اور ان کے اہل خاندان کے مشورے سے مہر کی رقم کچھ بھی متعین کی جا سکتی ہے۔ مہر بیوی کا حق ہے، جو شوہر کے ذمے لازم ہوتا ہے۔ جب تک شوہر اسے ادا نہ کرے اس کی حیثیت شوہر کے ذمے قرض کی ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں مہر کی ادائی کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً (النساء:۴)
”اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے)ادا کرو۔“
مہر عورت کو ملنا چاہیے، چاہے اس کی ادائی شوہر کرے یا اس کی طرف سے کوئی دوسرا مثلاً اس کا باپ یا بھائی ادا کر دے۔ کوئی دوسرا ادا کر رہا ہو تو عورت کے لیے اسے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جو شخص کسی چیز کا مالک ہو اسے اس میں تصرّف کرنے کی پوری آزادی ہے۔ وہ اسے خود استعمال کر سکتا ہے، یا کسی کو تحفے میں دے سکتا ہے۔ ایک شخص نے دوسرے کو کچھ رقم قرض دی ہو تو وہ اس کا کچھ حصہ معاف کر سکتا ہے اور چاہے تو پورا قرض چھوڑ سکتا ہے۔ یہی معاملہ مہر کا بھی ہے۔ عورت اپنے مالِ مہر کی مالک ہے اور جب تک عورت کو مہر کی رقم مل نہیں جاتی شوہر پر قرض رہے گی۔ عورت اپنی آزاد مرضی سے کل مہر معاف کر سکتی ہے، یا اس میں سے کچھ لے کر باقی معاف کر سکتی ہے۔ اسی وجہ سے آیتِ بالا کا اگلا جز درج ذیل ہے:
فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَیءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِیئًا مَّرِیئًا (النساء:۴)
”البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمھیں معاف کر دیں تو تم اسے مزے سے کھا سکتے ہو۔“
البتہ مہر معاف کرنا اس وقت درست ہوگا جب عورت اپنی مکمل مرضی سے معاف کرے، مہر کی معافی کسی شخصی یا سماجی دباؤ میں نہیں ہونی چاہیے۔
خرید و فروخت کا ایک معاملہ
سوال: ایک شخص نے کسی چیز کی قیمت مثلاً ۴۵؍روپے طے کی۔ ایک خریدار اسے لینے پر تیار ہو گیا۔ اسی دوران میں ایک تیسرے شخص نے مداخلت کی۔ اس نے مالک/بیچنے والے کو بتائے بغیر اس چیز کا سودا خریدار سے ساٹھ روپے (۶۰) میں کر لیا، پھر بیچنے والے کو بتایا کہ خریدار سے سود ا۶۰؍ روپے میں طے ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ بیچنے والے کی رضامندی کے بعد کیا ۶۰؍ روپے میں سے زائد رقم یعنی ۱۵؍ روپے تیسرا شخص اپنے لیے رکھ سکتا ہے؟ یا بیچنے والا اپنی خوشی سے اسے کچھ رقم بہ طور تحفہ دے تو کیا اس کے لیے وہ رقم لینا جائز ہوگا؟
جواب: شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب دو شخص خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کر رہے ہوں تو تیسرا شخص اس میں مداخلت نہ کرے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:
لا یبِع بَعْضُكُمْ علَى بَیعِ بَعْضٍ (بخاری:۲۱۶۵، مسلم:۱۴۱۲)
”تم میں سے کوئی دوسرے کے خرید و فروخت کے معاملے میں دخل نہ دے۔“
لہٰذا سوال میں مذکور تیسرے شخص کا معاملہ کرنا شرعی اعتبار سے درست نہیں۔
البتہ چوں کہ خرید و فروخت کا پہلا معاملہ مکمل نہیں ہوا تھا، ابھی بیچنے والے اور خریدنے والے کے درمیان بات چیت چل رہی تھی، اس لیے اس معاملے کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔ تیسرے شخص کے شامل ہونے کے بعد خرید و فروخت کی بات مکمل ہوئی، بیچنے والے اور خریدنے والے نے رضامندی ظاہر کی، تو جتنی رقم (ساٹھ روپے) پر معاملہ طے ہوا وہ خریدار کو ادا کرنا ہوگا اور مالک اس کا مستحق ہوگا۔
اس معاملے میں تیسرے شخص کی کیا حیثیت ہے؟ فقہا کی اصطلاح میں اسے ‘فضولی’کہتے ہیں۔ یہ شخص نہ بیچنے والے کا ‘وکیل’ہے نہ اجیر (اجرت پر کام کرنے والا)، اس لیے ۱۵/روپے (۴۵/روپے سے زائد) رقم اس کے لیے لینا جائز نہیں، البتہ بیچنے والا اپنی مرضی سے کچھ رقم اسے دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2025






