وطن میں تدفین کی وصیت کی شرعی حیثیت
سوال: بعض حضرات وصیت کرتے ہیں کہ میرے انتقال کے بعد مجھے میرے آبائی گاؤں میں دفن کیا جائے، جب کہ وہاں کوئی قریبی رشتے دار نہیں ہوتا۔وصیت پوری کرنے کی صورت میں غریب طبقے کے لوگوں کو آمد و رفت کی زحمت اور خاصے مصارف برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اہم مسئلہ وہاں بیوہ کا عدّت گزارنا ہوتا ہے۔ اگر وہ وہاں عدّت نہ بھی گزارے تو آمد و رفت میں ایک دو راتیں راستے میں گزر جاتی ہیں۔
اگر کوئی شخص ایسی وصیت کرے تو کیا متعلقین کے لیے اسے پورا کرنا ضروری ہے؟ کیا وصیت پوری نہ کرنے کی صورت میں گناہ لازم ہوگا؟
جواب: اسلامی شریعت میں وصیت سے مراد کسی شخص کا اپنے مرنے کے بعد کسی کو بہ طور تبرّع (فضل و احسان) اپنے مال یا منفعت کا مالک بنانا ہے۔ اس کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں: ایک یہ کہ ورثا میں سے کسی کے حق میں وصیت نہ کی جائے، دوسرے یہ کہ وصیت ایک تہائی مال سے زیادہ کی نہ ہو۔
مال کے علاوہ کسی اور چیز کی بھی وصیت کی جا سکتی ہے۔ اگر وصیت پوری کرنے میں متعلقین کو کوئی دشواری نہ ہو تو انھیں اس کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن اگر انھیں زحمت ہو، یا اس میں خطیر رقم صرف ہو، جسے برداشت کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہو، یا وہ بہت زحمت طلب ہو تو اس پر عمل آوری ضروری نہیں۔
کسی شخص کا انتقال اگر پردیس میں ہو اور وہاں سے اس کا وطن قریب ہو، یا اس نے وطن میں تدفین کی وصیت کی ہو تو اس کی نعش کو اس کے وطن میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ روایات میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا انتقال مدینہ منورہ سے چار فرسخ کے فاصلے پر ایک گاؤں میں ہوا تھا۔ وہاں سے انھیں لوگوں کے کندھوں پر مدینہ منورہ لایا گیا تھا۔
لیکن اگر وطن دور ہو اور نعش کا وہاں منتقل کیا جانا زحمت طلب ہو، تو چاہےمرنے والے شخص نے اس کی وصیت کر رکھی ہو، متعلقین کے لیے اس کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔ فقہانے اس کی صراحت کی ہے:
أوصی بأن یصلّی علیہ فلان أو یحمل بعد موتہ الی بلدٍ آخر۔۔۔۔۔فھی باطلۃ (الدر المختار و حاشیہ ابن عابدین رد المختار، طبع مکتبہ زکریا،دیوبند،۱۰؍۳۶۱)
’’کسی نے وصیت کی کہ اس کی نمازِ جنازہ فلاں شخص پڑھائے ،یا اس کے انتقال کے بعد اس کی تدفین دوسرے شہر میں کی جائے تو یہ وصیت باطل ہے۔ ’’(یعنی اس پر عمل در آمد ضروری نہیں۔)
جہاں تک بیوہ عورت کی عدّت کا سوال ہے تو اسے عام حالات میں عدّت وہیں گزارنی چاہیے جہاں و ہ شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ البتہ اگر اس میں کوئی دشواری ہو، مثلاً وہ مکان کرایے پر ہو اور مالک ِمکان اسے خالی کروا رہا ہو، یا عورت تنہا ہو اور اس کے ساتھ رہنے والا کوئی نہ ہو، وغیرہ، تو وہ دوسری محفوظ جگہ منتقل ہو سکتی ہے۔ اگر عورت شوہر کی نعش کے ساتھ اس کے وطن گئی ہو تو تدفین سے فراغت کے بعد اسے جلد از جلد وہیں لوٹ جانا چاہیے جہاں وہ شوہر کے ساتھ رہتی تھی اور وہیں عدّت گزارنی چاہیے۔
مشترکہ خاندان میں ترکہ کے مسائل
سوال: ایک شخص کے چار(۴) بیٹے اور دو (۲)بیٹیاں ہیں۔بڑا بیٹا اپنی پوری تنخواہ باپ کو دیتا ہے۔ باپ کچھ بھی نہیں کماتا، یہاں تک کہ اس کے پاس رہنے کے لیے گھر بھی نہیں ہے۔ بیٹوں کی کمائی سے پیسے جمع کرکے باپ نے گھر بنایا ہے۔ اب اگر گھر باپ کے نام ہو تو کیا باپ کے انتقال کے بعد وہ ترکہ کہلائے گا اور اس میں سب بھائیوں اور بہنوں کے حصے ہوں گے؟
جواب: مشترکہ خاندان میں سب مل جل کر رہتے ہیں۔ بیٹے نکاح کے بعد بھی اپنی فیملیوں کے ساتھ مشترکہ طور پر رہائش اختیار کرتے ہیں۔سب کا کھانا ساتھ بنتا ہے۔ روز مرّہ کے مصارف بھی یکجا پورے کیے جاتے ہیں۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں اسے باپ کو لاکر دیتے ہیں اور وہ گھر کا خرچ چلاتا ہے۔
اگر مشترکہ خاندان کی یہ صورت ہو تو بیٹے جو کچھ کماکر اپنے باپ کودیں گے ، اس سب کا اسے مالک سمجھا جائے گا اور اس میں تصرّف کااسے حق حاصل ہوگا۔ اگر بیٹوں کی کمائی سے پیسے بچا کر باپ نے گھر بنایا ہو تو اس کا بھی اسے مالک سمجھا جائے گا اور اس کے انتقال کے بعد بہ طور ترکہ وہ تمام ورثہ میں تقسیم ہوگا۔
اگر بیٹے اپنی کمائی کا کچھ حصہ باپ کو دیں اور کچھ اپنے پاس رکھیں۔ کوئی بیٹا اپنے یا اپنی بیوی کے نام سے کوئی پلاٹ یا مکان یا کوئی اور چیز خریدے تو وہ اس کا مالک سمجھا جائے گا اور باپ کے مرنے کے بعد بہ طور ترکہ اس کی تقسیم نہیں ہوگی۔
قرض پر لیے گئے زیور کی زکوٰة
سوال: میں نے ایک زیور خریدا ہے، جس کی قیمت ابھی ادا نہیں ہوئی ہے، قرض پر ہے۔ کیا اس زیور پر مجھے زکوٰة ادا کرنی ہوگی؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ کرنسی کے ذریعے سونا چاندی کی خریدو فروخت کے وقت نقد معاملہ کرنا ضروری ہے۔ ادھار معاملہ کرنا (خواہ کل رقم ادھار ہو یا اس کا کچھ حصہ) شرعاً جائز نہیں۔ایسی صورت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بہرحال اب عورت کو چاہیے کہ اس کے پاس جتنے زیور ہوں، سب کی مالیت نکالے، کچھ اور چیزیں مثلاً شیئرز، بانڈز وغیرہ ملکیت میں ہوں تو ان کا بھی حساب لگالے۔پھر ان میں سے نئے خریدے گئے زیور کی جتنی قیمت ابھی ادا نہیں ہوئی ہے اس کو منہا کردے۔ باقی پر ڈھائی فی صد (2.5%) زکوٰة نکالے۔
چاندی کی انگوٹھی میں پتھر لگوا کر پہننا
سوال: کیا مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی میں مختلف پتھر، مثلاً یاقوت، نیلم، عقیق وغیرہ جڑوا کر پہننا جائز ہے؟بعض حضرات کہتے ہیں کہ انگوٹھی میں مذکورہ پتھروں کو لگوا کر پہننے سے جسم پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب: عورتوں کے لیے سونے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے اور اس کے لیے کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔ مردوں کے لیے سونے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے، البتہ ان کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے، لیکن ضروری ہے کہ اس کا وزن ایک مثقال (یعنی ساڑھے چار ماشہ/4.374gm) سے زیادہ نہ ہو۔
حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں کس دھات کی انگوٹھی پہنوں؟ آپؐ نے فرمایا:
اِتَّخِذہُ مِن وَرَقٍ، وَلَا تُتِمَّہُ مِثقَالاً (الجامع الصغیر للسیوطی:۱۰۵)
’’چاندی کی انگوٹھی پہنو، مگر اس کا وزن ایک مثقال سے زیادہ نہ ہو۔‘‘
خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے چاندی کی انگوٹھی بنوائی تھی، جو بعد میں اولین تین خلفائے راشدین: حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے پاس رہی۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر حضرت عثمانؓ کے ہاتھ سے ایک کنویں میںگرگئی۔ انگوٹھی سے مراد اس کا حلقہ ہے کہ وہ چاندی کا ہو سکتا ہے۔ اس میں نگینہ کسی پتھر، مثلاً یاقوت، نیلم وغیرہ کا لگوانا جائز ہے۔ انگوٹھی میں بطور نگینہ مختلف پتھروں کے استعمال کے فوائد بیان کیے جاتے ہیں۔ بعض روایات میں بھی ان کا تذکرہ ملتا ہے، لیکن وہ ثابت شدہ نہیں ہیں۔اس کے بارے میں جاننے کے لیے ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے۔ بہر حال شرعی طور پر چاندی کی انگوٹھی میں کسی بھی پتھر کا نگینہ لگوایا جا سکتا ہے۔
کیا جمع شدہ زکوٰة ایک سال کے اندر خرچ کرنی ضروری ہے؟
سوال: ہم اجتماعی طور سے زکوٰة جمع کرکے سال بھر مستحق افراد تک پہنچانے کا نظم کرتے ہیں۔ ہماری تنظیم کے بعض افراد کا اصرار ہے کہ گذشتہ برس ماہِ رمضان میں جمع کی گئی زکوٰة کی رقم آئندہ رمضان شروع ہونے سے قبل مستحق افراد میں تقسیم کر دینی ضروری ہے، کچھ بچا کر نہیں رکھنی چاہیے، جب کہ بعض دیگر حضرات کہتے ہیں کہ شریعت میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے۔ اگر کچھ رقم سال بھر کے اندر خرچ نہ ہو سکے تو اسے آئندہ جمع ہونے والی رقم میں شامل کر دیا جائے اور مستحقین تک پہنچانے کی کوشش کی جائے۔
جواب: زکوٰة کے جمع و صرف کا اجتماعی نظم کرنا ایک مستحسن عمل ہے۔ زکوٰة کی انفرادی تقسیم کے مقابلے میں اسے اجتماعی طور سے جمع کرکے منصوبہ بندی کے ساتھ تقسیم کرنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ ہر بستی میں اس کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس سے فقراکی عزّت ِ نفس مجروح نہیں ہوتی، انھیں بہ قدر ضرورت مال مل جاتا ہے اور ان کی معاشی کفالت اور خود اختیاری میں مدد ملتی ہے۔
زکوٰة جمع کرنے والی تنظیم زکوٰة دینے والوں اور زکوٰة وصول کرنے والوں، دونوں کی نمائندہ ہوتی ہے۔ زکوٰة دینے والوں نے اپنی زکوٰة تنظیم کے حوالے کر دی تو ان کی زکوٰة ادا ہوگئی اور ان کا فرض ساقط ہوگیا۔ اب تنظیم والوں کی ذمے داری ہے کہ وہ مستحقین کو تلاش کرکے ان تک ز کوٰة پہنچائیں اور ان کی ضروریات پوری کریں۔
جمع شدہ اموالِ زکوٰة کو جلد از جلد مستحقین تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بلا سبب تقسیم ِ زکوٰة میں ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہیے، لیکن انھیں ایک سال کے اندر خرچ کرنا ضروری نہیں ہے۔ اگر کچھ رقم سال بھر کے اندر خرچ نہ ہوسکے تو اسے آئندہ سال جمع ہونے والی رقوم میں شامل کر دینا چاہیے اور منصوبہ بندی کے ساتھ انھیں خرچ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تقسیم وراثت کا ایک مسئلہ
سوال: ایک شخص کا انتقال ہوا۔ اس کے وارثین میں اس کی بیوہ اور دو بہنیں ہیں۔ ان کے علاوہ تین (۳) خالہ زاد بھائی اور چھ (۶)چچا زاد بھائی ہیں۔
اس کے شرعی وارث کون بنیں گے؟ اور کس کو کتنا حصہ ملے گا؟
جواب: قرآن مجید میں تقسیم ِ وراثت کی تفصیلات مذکور ہیں اور مستحقین ِ وراثت کے حصے بھی بیان کر دیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ یكُن لَّكُمْ وَلَدٌ (النساء: ۱۲)
’’اور عورتوں کو ایک چوتھائی ملے گا، اگر تمھاری کوئی اولاد نہ ہو۔‘‘
فَإِن كَانَتَا اثْنَتَینِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ (النساء: ۱۷۶)
’’اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حق دار ہوں گی۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِی فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ (بخاری: ۶۷۳۷، مسلم: ۱۶۱۵)
’’وراثت اصحاب الفرائض کو دو۔ اس کے بعد جو بچے وہ قریب ترین مرد رشتے دار کا ہے۔‘‘
صورتِ مسئولہ میں بیوی کا حصہ چوتھائی(25%)اور دو بہنوں کا حصہ دو تہائی (66.7%)ہے۔ باقی (8.3%) چچا زاد بھائیوں کو ملے گا۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2022