روزوں کی قضا کا مسئلہ
سوال: بہ راہِ کرم میرے درج ذیل سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں:
﴿۱﴾ولادت کے بعد ایّام نفاس میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ میرے کئی بچوں کی ولادت ماہ رمضان میں ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے کافی روزے قضا ہوگئے ہیں اور ان پر عرصہ بیت گیاہے۔ درمیان میں جب جب ہمت ہوئی ان میں سے کچھ روزے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ صحت وتن درستی کے لحاظ سے کم زور و ناتواں واقع ہوئی ہوں۔ گھریلو ذمے داریاں بھی بہت ہیں۔ جب جب روزہ رکھنے کی کوشش کرتی ہوں، نڈھال ہوجاتی ہوں۔ صحت اس میں تسلسل کی اجازت نہیں دیتی۔ مختلف عوارض کا علاج بھی جاری ہے۔ کیا ان حالات میں روزے رکھ کرہی قضا روزوں کا فرض ساقط ہوگا یا فدیہ دے کر بھی اس فرض سے سبک دوش ہواجاسکتاہے؟
﴿۲﴾اگر حج کاارادہ ہو اور بہت سے روزوں کی قضا بھی لازم ہوتو کیا سفر سے پہلے قضا روزوں کی ادائی ضروری ہے؟
﴿۳﴾فدیہ کے سلسلے میں بھی وضاحت فرمائیں کہ اس کاصحیح طریقہ اور مقدار کیا ہے؟
فاطمہ جلیل،دوہرّا، علی گڑھ
جواب: رمضان کے روزے اسلام کے ارکان میں سے ہیں۔ ان کا وجوب کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ ان کی فرضیت کا انکار کفر ہے اور بغیر کسی عذر کے ان کا ترک آدمی کے دین و ایمان کو مشتبہ بنادیتاہے۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے بہ خوبی لگایاجاسکتا ہے:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’جس شخص نے بغیر کسی رخصت ﴿عذر﴾ کے رمضان کا ایک روزہ نہیں رکھا وہ اگر زندگی بھر روزہ رکھے تو بھی اس چھوٹے ہوئے روزے کی تلافی نہیں ہوسکتی۔‘
﴿ابودائود: ۳۹۶، ترمذی:۷۳۳، ابن ماجہ:۱۲۷۲﴾
لیکن جو لوگ کسی عذر کی بنا پر روزہ نہیں رکھ سکتے، ان کے لیے رخصت ہے۔ اصحابِ ِاعذار کی دو قسمیں کی گئی ہیں۔ بعض لوگوں پر دوسرے دنوں میں ان کی قضا لازم ہے اور بعض کے لیے صرف فدیہ کفایت کرتاہے۔ قضا ضروری نہیں۔ اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ جن لوگوں سے اس بات کی امید ہو کہ وہ بعد میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں، ان پر قضا لازم ہے، لیکن جن کے بارے میں اس کی امید نہ ہو وہ فدیہ ادا کرسکتے ہیں۔
چنانچہ بوڑھے مرد و عورت ﴿جو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوں﴾ اور وہ مریض جن کی شفایابی کی امید نہ ہو، انھیں روزہ نہ رکھ کر اس کافدیہ ادا کرنے کی اجازت ہے۔ حضرت ابن عباسؓ آیت وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہ‘ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ﴿البقرۃ:۱۸۴﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔یہ بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے لیے ہے ، کہ اگر وہ روزہ نہ رکھ سکیں تو ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔‘ ﴿تفسیرابن کثیر، مؤسۃ الریان بیروت، ۲۰۰۷ء ۱/۲۴۸﴾
رہا وہ مریض جس کی شفایابی کی امید ہو اور مسافر تو انھیں چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی اجازت نہیں۔ ان پر ان روزوں کی دوسرے دنوں میں قضا کرنی لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَر﴿البقرہ:۱۸۵﴾
’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہوتو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔‘
حیض، حمل، نفاس ﴿بعد ولات کے چند ایّام اور رضاعت ﴿دودھ پلانا﴾کو فقہائ نے مرض کی حیثیت دی ہے اور انھیں مرض کی اس شق میں شمار کیاہے، جس میں شفایابی کی امید رہتی ہے۔ چنانچہ ان صورتوںمیں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا لازم ہے۔ احادیث میں اسی کا حکم دیاگیا ہے: حضرت انس بن مالک الکعبیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان اللّٰہ تعالی وضع عن المسافر الصوم وشطرالصلاۃ و عن الحامل اوالمرضع الصوم﴿ترمذی:۵۱۷،نسائی:۲۲۷۹﴾
’اللہ نے مسافر سے وزہ اور نصف نماز ساقط کردی ہے اور حاملہ اور مرضعہ ﴿دودھ پلانے والی عورت﴾ سے روزہ ساقط کردیا ہے۔‘
روزہ ساقط کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے، کہ اب ان کو ادا ہی نہیں کرنا ہے۔ بل کہ جس طرح مسافر پر قضا لازم ہے، اسی طرح حاملہ و مرضعہ کو بھی قضا کرنا ہوگا۔
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ عہدِ رسالت میں جب ہم حیض سے ہوتے تھے تو ہمیں روزہ نہ رکھنے اور بعد میں ان کی قضا کرنے کا حکم دیاجاتاتھا۔ اس دوران میں جو نمازیں ہم سے چھوٹتی تھیں، ان کی قضا کرنے کا حکم نہیں دیاجاتاتھا۔ ﴿ابودائود:۲۶۳، ترمذی:۷۸۷﴾
اگر کسی شخص پر کچھ روزوں کی قضا لازم ہو، مگر اس نے سستی میں قضا روزے نہ رکھے ہوں اور عرصہ بیت گیاہو، اب اس کے قویٰ مضمحل ہوگئے ہوں، روزے رکھنے کی اس میں سکت نہ ہو یا روزہ رکھنے کی صورت میں وہ بہت زیادہ نڈھال ہوجاتاہو تو وہ شیخ فانی ﴿بوڑھامرد﴾ عجوز ﴿بوڑھی عورت﴾ اور ناقابل شفا مریض کے حکم میں ہے۔ وہ موجودہ روزوں کے بدلے بھی فدیہ ادا کرے گا اور سابق میں چھوٹے ہوئے روزوں کابھی فدیہ دے گا۔ لیکن یہ صورت درست نہیں معلوم ہوتی کہ وہ حالیہ رمضان کے روزے تو رکھے لیکن پہلے چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ ادا کردے۔ اگر وہ حالیہ رمضان کے روزے رکھ سکتاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سابقہ متروکہ روزوں کی بھی قضا کرسکتا ہے۔ ہر شخص اپنے رب کی بارگاہ میں جواب دہ ہے۔ وہ اپنی صحت اور توانائی کا خوداندازہ لگائے اور اپنے بارے میں خود فیصلہ کرے کہ کیا واقعی اب اس میں روزہ رکھنے کی سکت نہیں رہی۔ یا وہ لازم قضا روزوں کا بار اپنے اوپر سے اتارنے سے حیلے بہانے تلاش کررہاہے۔
﴿۲﴾کوئی شخص سفرِ حج کا ارادہ رکھتاہو اور اس کے ذمّے کچھ روزوں کی قضا ہو تو سفر سے پہلے قضا روزوں کی ادائی ضروری نہیں۔ وہ واپس آکر بھی انھیں ادا کرسکتا ہے۔
﴿۳﴾روزہ کے فدیہ کی مقدار کیاہے؟ اس سلسلے میں احادیث میں کوئی صراحت نہیں ملتی۔ فقہا نے اسے صدقۂ فطر پر قیاس کیاہے۔ ﴿احناف کے نزدیک صدقۂ فطرکی مقدار گیہوں کا نصف صاع ہے، جو ایک کلو پانچ سو نوے گرام کے مساوی ہے﴾ اگر فدیہ مسکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں ادا کرنا ہے تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت کھانا کھلانا ہے ﴿ملاحظہ کیجیے فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، طبع دیوبند ۲۷۹۱ئ ۶/۸۴۴، قاموس الفقہ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند:۲۰۰۷ء،۴/۴۵۰﴾
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2010