رسائل و مسائل

خودنمائی اور خودستائی کا مظاہرہ

برادرم مکرم!              السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے ’خطباتِ پاکستان‘ برائے مطالعہ عنایت فرمائی اور اس خواہش کا اظہا رفرمایاکہ مطالعے کے بعد میں اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔ چنانچہ اس کتاب کا مطالعہ کرلیا اور آپ کی عنایت کردہ کتاب ’انبیاء  کرام کی دعوت‘ کا مطالعہ بھی کیا۔

میں اس سے قبل مختلف مواقع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرچکاہوں کہ تحریکی حلقے میں اس وقت جو حضرات اپنی زبان اور اپنے قلم سے دینی و تحریکی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان میں ایک آپ بھی ہیں۔ یہ سراسر اللہ کی تائید وتوفیق کی بات ہے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔ البتہ میرے لیے جو بات انتہائی تشویش ناک اور ناقابل فہم ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دنیا پرست مصنفین کی اتباع میں ہمارے تحریکی مصنفین نے بھی اپنی ذاتی شہرت کو لازم قرار دے رکھا ہے اور تو اور نوبت بایں جارسید کہ انھیں توجہ دلائیے اور کل آخرت میں خداوند قدوس کے حضور جواب دہی کی بات کیجیے تو ارشاد ہوتاہے کہ ’آپ ہی کو خدا کا خوف اور آخرت کا احساس ہے، کیا ہمیں نہیں ہے؟‘ بے شک آپ حضرات کو بھی ہے اور بدرجۂ اتم ہے، مگر یہ بات سمجھادیجیے کہ خود آپ اپنی کتاب پر جلی حروف میں لکھتے ہیں:

’مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نام ور مصنف و محقق ہیں۔ موضوع کی وسعت، لہجے کا وقار اور اسلوب کی سنجیدگی و متانت ان کی تحریروں کی اہم خصوصیات ہیں۔‘ وغیرہ

ایک اور جلیل القدر عالمِ دین کے پسندیدہ جملے، جو ان کی کتاب کی زینت ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

’عالم اسلام کے جید عالمِ دین، بہترین خطیب، ممتاز محقق اور صاحبِ طرزمصنف کی حیثیت سے معروف ہیں، موضوع کا تنوع، اسلوب کی انفرادیت، طرزِ استدلال کی ندرت اور زبان وبیان کی شگفتگی ان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔‘ وغیرہ۔

ایک اورتحریکی عالمِ دین کے پسندیدہ جملے ان کی کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہی اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں:

’ان کی تقریر نہایت مربوط اورمدلّل ہوتی ہے۔ انگلینڈ، امریکا اور عرب ممالک میں یکساں متعارف اور انتہائی مقبول مصنف ہیں۔ سال میں چند ماہ امریکا میں قیام رہتا ہے اوربہت سے اداروں اور سینٹروں میں کام یاب پروگراموں اور لیکچروں سے مسلمانانِ امریکا مستفید ہوتے ہیں۔‘ وغیرہ۔

یہ قابلِ احترام عالمِ دین اور بزرگ شخضیت وہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے واقعی بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اس کی تحریر و تقریر میں بلاکی کشش ہوتی ہے۔ مگر بُرا ہو ’انا‘ اور ’میں‘ کے زعمِ باطل کا کہ خودنمائی اور خودستائی میں اس حد تک آگے نکلے کہ اپنی کتاب کے ٹائٹل پر خود اپنا فوٹو بھی شائع کیا۔

جماعت اسلامی ہند کے بانی اور امیرِ اول سے کسی نے دریافت کیاکہ آپ کہاں سے فارغ ہیں؟ آپ کے پاس سند کہاں کی ہے؟ جواب ملا:

’سند تو آپ اس سے معلوم کیجیے جس نے کوئی کام نہ انجام دیا ہو۔ میں نے کام کیاہے، میرا کام چھُپا ہوا نہیں چھَپا ہوا موجود ہے، ہرکوئی دیکھ سکتا ہے۔‘

آپ فرماسکتے ہیں کہ خودستائی اور خودنمائی کی یہ تحریریں، جن کا تم حوالہ دے رہے ہو، مصنف کے علم میں لائے بغیر شائع کردی گئی ہیں۔ یہ کام ناشر کا ہوسکتا ہے، وہی مبالغہ آمیز طورپر اس طرح کی تحریریں شائع کرسکتا ہے۔ فوٹو شائع کرنے کا بھی ناشر ہی مجرم ہے۔ مصنف تو بے قصور اور لاعلم رہتا ہے۔‘ میں تھوڑی دیر کے لیے فرض کیے لیتاہوں کہ مصنف خوداپنے منہ میاں مٹھو نہیں بنا۔ یہ کیا دھرا ’ناشر‘ کا ہے۔ یہاں اصل سوال یہ ہے کہ کیا واقعی آپ پسند نہیں کرتے کہ آپ کا کوئی رفیق آپ کی تعریف وتحسین اور قصیدہ خوانی میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔ اگر پسند کرتے ہیں تو معلوم یہی کرنا ہے کہ کیا قرآن وسنت میں اس کی گنجائش نکلتی ہے؟ اور دوسری اہم بات یہ کہ آپ کے نزدیک اس کی افادیت کیا ہے؟ کیا آپ کی کسی تحریر، کتاب اور تقریر کی اہمیت آپ کی اسناد اور بایوڈاٹا کی وجہ سے ہے؟ اور اگر آپ اس رجحان اور بدعت کو غلط اور آخرت فراموشی کی علامت تصور کرتے ہیں تو کیا کسی ’ناشر‘ کی یہ جسارت اور جرأت ہوسکتی ہے کہ آپ کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھاسکے؟

برادرمکرم! میرے اس مراسلے کا جواب تو ان شاء اللہ آپ ضرور عنایت فرمائیں گے۔ میں یہ بھی چاہتاہوں کہ آپ میرا یہ مراسلہ اور اپنا جواب ’زندگی نو‘ میں شائع فرمادیں، تاکہ استفادے کا دائرہ مزید وسیع ہوجائے۔ رہا کتاب ’خطباتِ پاکستان‘ پر اپنے تاثرات کا اظہار تو اس پر برادرم تابش مہدی صاحب کے تبصرے کے بعد بھی کیا کسی تاثر کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟

احسن مستقیمی

[email protected]

جواب:

مکرمی!      وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘

آں جناب کا ارسال کردہ مراسلہ محترم مدیر زندگی نو کی معرفت موصول ہوا۔ یہ جس موضوع سے متعلق ہے، اس پر آپ سے زبانی گفتگو ہوچکی تھی،لیکن اب آپ نے وہی باتیں تحریری شکل میں اور وہ بھی باقاعدہ کمپوزکرواکے بھیجی ہیں اور ان کا جواب چاہاہے۔ کسی چیز کی طرف توجہ دلائی جائے تو اس کا جواب عمل سے دینا چاہیے نہ کہ تحریر سے، اس لیے اس کا تحریری جواب دینے کی میں کوئی ضرورت نہیں محسوس کرتاتھا، لیکن چوں کہ آپ نے تحریری جواب کا تقاضا کیاہے، اس لیے چند سطریں زیب قرطاس کیے دے رہاہوں۔ ماہ نامہ زندگی نو پر میرا کوئی زور نہیں ہے۔ اس جواب کی ایک نقل اس کے مدیر کو بھی دے دوں گا۔ اسے شائع کرنا یا نہ کرنا ان کا کام ہے۔

محترم! مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہونے والی جن کتابوں پر میرا تعارف شائع ہوا ہے وہ نہ میرا لکھاہوا ہے نہ اس میں میری مرضی شامل ہے۔ مکتبہ سے میری اٹھارہ طبع زاد، ترجمہ کردہ یا ترتیب دی ہوئی کتابیں یا کتابچے شائع ہوئے ہیں۔ ان میں صرف چار پر میرا تعارف ہے۔ جن کتابوں پر تعارف شائع نہیں ہوا، ان کے بارے میں کبھی میں نے مکتبہ کے ذمے دار سے دریافت نہیں کیا کہ ان پر تعارف کیوں نہیں شائع ہوا۔ جیساکہ میں نے زبانی بھی بتایاتھا، مکتبہ کا شعبۂ ادارت مصنفین کا تعارف خود تیار کرتا ہے اور مصنفین کودکھائے بغیر ان کی کتابوں پر شائع کردیتا ہے۔ یہ موجودہ اشاعی دنیا کا ٹرینڈ ہے۔ اس میں سیکولر، دینی اور تحریکی تمام حلقے شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی تحریکِ اسلامی سے وابستہ اشاعتی اداروں سے جو کتابیں شائع ہورہی ہیں ان پر ان کے مصنفین کا تعارف شائع ہوتاہے۔ بہ ہرحال اس معاملے میں تعارف اور تعریف کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ البتّہ اگر کوئی شخض اپنی تعریف و توصیف خود اپنی زبان یا قلم سے کرے اور اپنے منہ میاں مٹھو بنے اور اس سے اس کا مقصد دوسروں پر اپنی بڑائی جتانا ہو ، یا وہ خواہش رکھے کہ دوسرے اس کے سامنے یا اس کے پیٹھ پیچھے اس کی خوب تعریف اور قصیدہ خوانی کریں تو یہ شریعت اسلامی میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ احادیث میں سخت وعید سنائی گئی ہے۔

ایک صحیح حدیث مروی ہے۔ مدینے سے باہر رہنے والے ایک تابعی- شُضَیّ اصبحی- بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ آیا اور مسجد نبویﷺ  میں نماز پڑھنے گیا تو دیکھاکہ لوگ بڑی تعداد میں ایک بزرگ کو گھیرے ہوئے ہیں اور ان سے استفادہ کررہے ہیں۔ دریافت کرنے پر پتا چلاکہ وہ صحابٔی رسولﷺ  حضرت ابوہریرہؓ  ہیں۔ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا۔ جب تمام لوگ چلے گئے اور وہ تنہا رہ گئے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: مجھے کوئی ایک حدیث سنادیجیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو اور وہ آپ کو اچھی طرح یاد ہو۔ حضرت ابوہریرہؓ  نے فرمایا: ٹھیک ہے، سناتاہوں، لیکن قبل اس کے کہ وہ حدیث بیان کرتے، اچانک بے ہوش ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد انھیں ہوش آیا تو بولے: میں اس وقت ایک ایسی حدیث سناؤںگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بیان کی تھی جب آپﷺ  کی خدمت میں میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ حدیث سنانا شروع کرتے پھر غش کھاکر گرپڑے۔تھوڑی دیر کے بعد ہوش میں آئے تو بولے: اس حدیث کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مسجد میں سنا ہے۔اتنا ہی بول پائے تھے کہ پھر ان پر غشی طاری ہوگئی۔ راوی کہتے ہیں کہ اسی طرح وہ چار مرتبہ بے ہوش ہوئے۔ چوتھی مرتبہ ان کی بے ہوشی شدید تھی۔ وہ اوندھے منہ گرگئے تھے۔ میں نے انھیں اٹھایا اور دیر تک سہارا دیے رہا۔ جب انھیں ہوش آیا اور ان کے حواس بحال ہوئے تب انھوں نے حدیث بیان کی۔ یہ وہی مشہور حدیث ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تین طرح سے لوگوں کو حاضر کیاجائے گا: عالم، مال دار اور شہید۔ اللہ تعالیٰ عالم سے پوچھے گا: کیا میں نے تجھے علم ِ دین سے نہیں نوازا تھا؟ وہ جواب دے گا: ہاں کیوں نہیں، اے میرے رب۔ وہ کہے گا: پھر تو نے کیاکیا؟ وہ جواب دے گا: میں نے دن رات اس کی اشاعت کی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتاہے۔ تیری خواہش تھی کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور لوگوں نے کہا۔ حدیث میں تفصیل ہے کہ اسی طرح مال دار اور شہید سے بھی پوچھاجائے گا۔ آخر میں حضرت ابوہریرہؓ  نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھٹنے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اے ابوہریرہؓ  قیامت کے دن جہنم میں سب سے پہلے انہی تین طرح کے لوگوں کو ڈالاجائے گا۔ اسی روایت میں آگے ایک دوسرے راوی بیان کرتے ہیں کہ یہی صاحب حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ  کی خدمت میں پہنچے اور ان کے سامنے پوری تفصیل بیان کی کہ کس طرح وہ مدینہ گئے اور مسجدنبویﷺ  میں حضرت ابوہریرہؓ  سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے حدیث سنانے کی خواہش کی اور کس طرح حضرت ابوہریرہؓ  حدیث سنانے سے پہلے چارمرتبہ بے ہوش ہوئے اور وہ کیاحدیث تھی؟ حدیث سن کر حضرت معاویہؓ  پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔ انھوں نے فرمایا: جب ایسے ایسے لوگوں کے ساتھ قیامت میں یہ معاملہ ہوگا تو دیگر لوگوں کا کیا حال ہوگا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر حضرت معاویہؓ  اتنا روئے، اتنا روئے کہ ہم گمان کرنے لگے کہ اسی حالت میں ان کی جان نکل جائے گی۔ ہم اس آدمی کو ملامت کرنے لگے جس نے وہ حدیث سنائی تھی اور جسے سن کر ان کی یہ حالت ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ان کی طبیعت سنبھلی تو انھوں نے چہرہ صاف کیا اور فرمایا: ’اللہ اور اس کے رسولﷺ  نے سچ کہاہے۔‘ پھر انھوں نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:

مَن كَانَ يُرِ‌يدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴿١٥﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَ‌ةِ إِلَّا النَّارُ‌ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٦﴾ ﴿ھود:۵۱،۶۱﴾

’جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ﴿وہاں معلوم ہوجائے گا کہ﴾ جو کچھ انھوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔‘ (امع ترمذی:۲۸۳۲۔ حضرت ابوہریرہؓ  سے مروی یہ حدیث صحیح مسلم:۵۰۹۱ میں بھی ہے، لیکن بغیر پس منظر کے)

محترم! یہ حدیث میں پڑھتاہوں تو میری حالت بھی غیرہونے لگتی ہے۔ میرا تعارف بھی عالم کی حیثیت سے ہے۔ دیگرحضرات اس قسم کے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں اور آپ نے بھی اپنے مراسلہ میں یہ تاثر ظاہر کیاہے کہ تحریکی حلقے میں اس وقت جو حضرات اپنی زبان اور قلم سے دینی و تحریکی خدمات انجام دے رہے ہیں ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میری ان خدمات کو میرے منہ پر ماردے کہ تجھے ان کا صلہ دنیا ہی میں مل چکا، اب تیرے لیے جہنم کی آگ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تصور ذہن میں آتے ہی جی چاہتاہے کہ قلم توڑدوں اورلکھنا بند کردوں، لیکن پھر خیال آتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے تھوڑا بہت علم دین سے نوازا ہے اور کچھ لکھنے کی صلاحیت دی ہے۔ اگر اس صلاحیت کو کام میں نہ لاؤں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی بازپرس کرے اور اس میں کوتاہی کا قصوروار ٹھہروں۔

مراسلے کے آخر میں آپ نے جاننا چاہاہے کہ کیا تعریف وتحسین کی قرآن و سنت میں کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ اس موضوع پر دینی لٹریچرمیں بہت مواد موجود ہے، لیکن اس وقت تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس موقع پر صرف مشہور محدث، صحیح مسلم کے شارح اور منتخب احادیث کی مشہور کتاب ریاض الصالحین کے مرتب امام نوویؒ  ﴿م۶۷۶ھ﴾ کی کتاب الاذکار کا ایک اقتباس نقل کردوں کہ وہ اس موضوع پر کافی و شافی ہے۔ انھوں نے لکھاہے:

’کسی انسان کے اچھے اوصاف پر اس کی مدح و ثنا اس کے منہ پر بھی کی جاتی ہے اور اس کے غائبانہ میں بھی۔ جہاں تک غائبانہ میں مدح و ثنا کامعاملہ ہے تو اس کی ممانعت نہیں ہے، الّا یہ کہ مدح کرنے والا اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگے اور غلط باتیں اپنے منہ سے نکالنے لگے۔ اس وقت ایسا کرنا حرام ہوگا۔ مدح کی وجہ سے نہیں، بلکہ جھوٹ کی وجہ سے۔ یہ مدح، جس میں کوئی جھوٹ نہ ہو، اس وقت مستحب ہے، جب اس میں کوئی مصلحت ہو یا اس سے کوئی فسادلازم نہ آئے کہ تعریف کرنے والے کی باتیں اس شخص تک پہنچ جائیں جس کی وہ تعریف کررہاہے اور وہ فتنے میں پڑجائے اور جہاں تک کسی شخص کے منہ پر اس کی تعریف کرنے کا سوال ہے تو اس سلسلے میں ایسی احادیث بھی مروی ہیں جن سے اس کی اباحت یا استحباب کا حکم معلوم ہوتاہے اور ایسی احادیث بھی ہیں جن سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ علماء کہتے ہیں: ان بہ ظاہر متضاد احادیث کے درمیان جمع و تطبیق یوں دی جاسکتی ہے کہ کہاجائے: اگر ممدوح کمالِ ایمان، حسنِ یقین، ریاضتِ نفس اور معرفتِ تام سے اس حد تک بہرہ ور ہو کہ اپنی تعریف کی باتیں سن کر وہ کسی فتنے میں مبتلا نہ ہو، اپنے بارے میں دھوکے کاشکار نہ ہو اور اس کا نفس اسے کھلونا نہ بنالے تو اس کے منہ پراس کی تعریف کرنا حرام ہے نہ مکروہ، لیکن اگر اس کے سلسلے میں ان میں سے کسی بات کا خوف ہوتو اس کی مدح کرنا شدید مکروہ ہے۔

کسی کے منہ پر اس کی تعریف کی ممانعت کے سلسلے میں جو احادیث مروی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

۱-روایت میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفانؓ  کے سامنے ایک شخص ان کی تعریف کرنے لگا۔ وہاں حضرت مقدادؓ  بھی موجود تھے۔ انھوں نے جھک کر زمین سے ایک مٹھی ریت اٹھائی اور اس کے منہ پر دے ماری۔ حضرت عثمانؓ  نے فرمایا: ارے، یہ کیا کررہے ہو؟ انھوں نے جواب دیاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:

اِذَا رَاَیتُمْ المَدَّاحِیْنَ فَاحْثُوا فِی وُجُوھِھِمِ التُّرَابَ ﴿مسلم:۸۹۶۷﴾

’جب تم دیکھو کہ لوگ مبالغہ آمیز تعریف کررہے ہیں تو ان کے منہ پر مٹی ڈال دو۔‘

۲-حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ  بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک شخص دوسرے شخص کی خوب مبالغہ آمیز مدح و ستائش کرنے لگا۔ آپﷺ  نے اس کی باتیں سنیں تو فرمایا:

اَہْلَکْتُمْ اَوْقَطَعْتُمْ ظَہْرَ الرَّجُلِ ﴿بخاری:۳۶۶۲، مسلم:۶۹۶۷﴾

’تم لوگوں نے اس شخص کو ہلاک کردیا ﴿یا فرمایا﴾ تم لوگوں نے اس شخص کی کمر توڑدی۔‘

۳-حضرت ابوبکرۃؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک شخض کا تذکرہ آیا تو ایک شخص نے اس کی خوب تعریف کی۔ اس پر آپﷺ  نے فرمایا:

وَیَحْکَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبَکَ ’تمھارا بُرا ہو تم نے اپنے ساتھی کا سرقلم کردیا۔‘

یہ جملہ آپﷺ  نے کئی بار دہرایا۔ پھر فرمایا:

مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَادِحاً اَخَاہُ فَلْیَقُلْ اَحْسِبُ فُلَاناً وَاللّٰہُ حَسِیْبُہُ وَلَا اُزَکیِّ عَلیَ اللّٰہِ اَحَداً، اَحْسِبُہُ کَذَا وَکَذَا اِنْ کَانَ یَعْلَمُ ذٰلِکَ مِنْہُ   ﴿بخاری: ۰۶۶۲، ۱۶۶۲، ۲۶۶۲، مسلم:۳۹۶۷، ۴۹۶۷﴾

’تم میں سے جو شخض اپنے بھائی کے اندر کوئی خوبی پاتاہو اور وہ اس کی تعریف کرنا چاہے تو یوں کہے: میں فلاں شخص کو ایسا سمجھتاہوں ، حقیقت حال سے تو اللہ باخبر ہے۔ میںاللہ کے سامنے کسی کو بے عیب نہیں کہہ سکتا۔ اگر اسے واقعی معلوم ہوتو کہے کہ میرا خیال ہے کہ اس کے اندر فلاں فلاں خوبیاں ہیں۔‘

جن احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ کسی شخض کی تعریف اس کے منہ پر کرنا جائز ہے وہ بے شمار ہیں۔ ان میں سے چند کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۱-            غارِ ثور میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ  کو مخاطب کرکے فرمایا: ان دو کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیرااللہ ہے۔ ﴿بخاری: ۳۵۶۳، مسلم: ۳۶۶۴﴾

۲-           ایک موقع پر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو وعید سنائی جو گھمنڈ کی وجہ سے اپنا ازار ٹخنوں سے نیچارکھتے ہیں تو حضرت ابوبکرؓ  نے عرض کی: میرا ازار بھی نیچے کھسک جاتاہے۔ اس پر آپﷺ  نے فرمایا: تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو۔ ﴿بخاری: ۴۸۷۵، مسلم:۴۷۵۵﴾

۳-          ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ  کے سامنے فرمایا: ’اپنی رفاقت اور مال کے ذریعے میرے اوپر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر ہیں۔‘‘ ﴿بخاری: ۴۵۶۳، مسلم:۰۲۳۶﴾

۴-          ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’قیامت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں جنت میں داخلے کے لیے اس کے تمام دروازوں سے پکارا جائے گا۔‘ حضرت ابوبکرؓ  نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا: مجھے امید ہے کہ ان میں سے تم بھی ہوگے۔‘‘﴿ترمذی:۹۳۴۲﴾

۵-           ایک مرتبہ حضرت ابوبکرؓ  آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے کے لیے گئے اور اجازت طلب کی۔ آپﷺ  نے فرمایا: ’انھیں آنے دو اور انھیں جنت کی بشارت دے دو۔‘ ﴿بخاری:۴۷۶۳، مسلم:۷۶۳۶﴾

۶-           ایک مرتبہ احد پہاڑ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ  اور حضرت عثمانؓ  موجود تھے۔ زلزلے کے ہلکے جھٹکوں کا احساس ہوا تو آپﷺ  نے فرمایا: ’احد ٹھہرجا، اس وقت تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔‘ ﴿بخاری:۵۷۶۳﴾

۷-          ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ  کو مخاطب کرکے فرمایا: ’میں نے جنت کی سیر کی تو اس میں ایک محل دیکھا۔ میں نے دریافت کیا: یہ کس کاہے؟ مجھے بتایا گیاکہ عمر کاہے۔ میں نے اسے اندر سے دیکھنے کا ارادہ کیا، لیکن مجھے تمھاری غیرت کا خیال آگیا، اس لیے نہیں گیا۔‘ حضرت عمرؓ  نے جواب دیا: ’اے اللہ رسولﷺ  کیا میں آپ کے مقابلے میں غیرت کامظاہرہ کروںگا۔‘ ﴿بخاری:۲۴۲۳، مسلم:۳۵۳۶﴾

۸-          ایک مرتبہ آپﷺ  نے فرمایا: ’اے عمر! تم جس راستے پر چلتے ہو، اگر اُدھرسے شیطان گزرے تو وہ اپناراستہ بدل دیتا ہے۔‘ ﴿بخاری:۴۹۲۳، مسلم:۵۵۳۶﴾

۹-           ایک بار حضرت عثمانؓ  نے خدمت نبویﷺ  میں بازیابی چاہی تو آپﷺ  نے فرمایا: ’عثمان کے لیے دروازہ کھولو اور انھیں جنت کی بشارت دے دو۔‘ ﴿بخاری:۳۷۶۳، مسلم:۵۶۳۶﴾

۰۱-         ایک موقع پر آپﷺ  نے حضرت علیؓ  سے فرمایا: ’تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔‘ ﴿بخاری:۹۹۶۲﴾

۱۱-          ایک مرتبہ آپﷺ  نے حضرت علیؓ  سے ارشاد فرمایا: ’کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ مجھ سے تمھارا ویسا ہی تعلق ہے جیساکہ ہارونؑ  کا موسیٰؑ  سے تھا۔‘ ﴿بخاری:۶۰۷۳، مسلم:۱۷۳۶﴾

۲۱-         ایک موقع پر آپﷺ  نے حضرت بلالؓ  سے فرمایا: ’میں نے جنت میں تھارے جوتوں کی آواز اپنے آگے آگے سنی ہے۔‘ ﴿بخاری: ۰۵۱۱، ۴۵۷۳﴾

۳۱-         ایک مرتبہ آپﷺ  نے حضرت ابی بن کعبؓ  سے فرمایا: ’اے ابومنذر، تمھیں علم مبارک ہو۔‘ ﴿مسلم: ۰۲۹۱، ابودائود:۰۶۴۱﴾

۴۱-         ایک بار آپﷺ  نے حضرت عبداللہ بن سلامؓ  سے فرمایا: ’تم زندگی کی آخری سانس تک اسلام پر قائم رہوگے۔‘ ﴿بخاری: ۳۱۸۳، مسلم:۶۳۵۶﴾

۵۱-         ایک مرتبہ حضرت ابوطلحہؓ  اور ان کی زوجہ محترمہ نے اپنے گھر ایک مہمان کو رکھا۔ اسے کھانا کھلایا اور خود بھوکے سو رہے۔ اگلے دن وہ خدمتِ نبویﷺ  میں حاضر ہوئے تو آپﷺ  نے فرمایا: ’اللہ کو تم دونوں کا عمل بہت پسند آیا۔‘ ﴿بخاری:۸۹۷۳﴾

۶۱-         ایک موقع پر آپﷺ  نے انصار کی کچھ عورتوں اور بچوں کودیکھا تو فرمایا: ’تم لوگ میرے نزدیک بہت محبوب ہو۔‘ ﴿بخاری:۳۸۱۵، مسلم:۳۷۵۶﴾

۷۱-         قبیلۂ عبدالقیس کا ایک وفد آپﷺ  سے ملنے آیا تو اس میں شامل ایک نوجوان سے، جس کا نام اشج تھا، آپﷺ  نے فرمایا: ’تمھارے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ کو بہت محبوب ہیں: بردباری اور سنجیدگی۔‘ ﴿مسلم:۶۲۱﴾

یہ تمام احادیث صحیح اور مشہور ہیں۔ اس طرح کی دیگر حدیثیں، جن میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کے منہ پر اس کی تعریف کی ہے، بہت ہیں۔ جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے جن سے معلوم ہوتاہے کہ صحابہ و تابعین اور بعد کے علمائ وائمہ نے دوسروں کے منہ پر ان کی تعریف کی ہیں، وہ تو اتنی زیادہ ہیںکہ ان کا شمار ممکن نہیں۔

امام غزالیؒ  نے احیاء علوم الدین کی کتاب الزکوٰۃ کے آخر میں لکھاہے: ’اگرکوئی شخص کسی کو صدقہ دے تو صدقہ لینے والے کو دیکھنا چاہیے۔ اگر صدقہ دینے والا ان لوگوں میں سے ہو جو پسند کرتے ہیں کہ ان کا شکریہ ادا کیاجائے اور دوسروں میں ان کا چرچا ہوتو صدقہ لینے والے کو چاہیے کہ اس صدقے کا کسی سے ذکر نہ کرے۔ اس لیے کہ اس پر اس کا حق ہے کہ ظلم کے معاملے میں اس کی مدد نہ کرے اور شکر گزاری چاہنا ظلم ہے۔ لیکن اگر اس کے حال سے ظاہر ہوکہ وہ شکروسپاس پسند نہیں کرتا اور اس کا خواہاں نہیں ہے تو صدقہ قبول کرنے والے کو چاہیے کہ اس کا شکریہ ادا کرے اور دوسروں میں بھی اس کا چرچا کرے۔ امام سفیان ثوریؒ  فرماتے ہیں: ’جس شخص کو اپنی ذات کی معرفت حاصل ہوگی، اگر دوسرے لوگ اس کی تعریف و توصیف کریںگے تو اسے کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔‘

کیا کوئی شخص اپنے منہ سے اپنی تعریف و مدح کرسکتا ہے اور اپنے محاسن گناسکتا ہے؟ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَلَا تُزَکُّوا أَنفُسَکُم﴿النجم:۲۳﴾ ’پس تم اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو۔‘

اپنے محاسن بیان کرنے کی دو صورتیں ہیں: ایک مذموم،دوسری پسندیدہ۔ مذموم صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے محاسن فخر ، گھمنڈ اور دوسروں پر برتری ظاہر کرنے کے لیے بیان کرے۔ اور پسندیدہ صورت یہ ہے کہ ان محاسن کے بیان کرنے میں کوئی دینی مصلحت ہو۔ مثلاً یہ کہ وہ کسی معروف کا حکم دے رہاہو، کسی منکر سے روک رہاہو، کوئی نصیحت کررہاہو، کسی اچھے کام کا مشورہ دے رہاہو، تعلیم، تربیت، وعظ یا تذکیر کررہاہو، لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرارہاہو، اپنی ذات سے کسی شر کو دفع کررہاہو وغیرہ۔ اس وقت وہ اپنے محاسن بیان کرسکتا ہے اگر اس کی نیت یہ ہو کہ ایسا کرنے سے اس کے مخاطبین اس کی بات کو آسانی سے قبول کرلیںگے یا وہ جو کچھ کہہ رہاہے اس پر اعتماد کریں گے، یا وہ کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہاہوں اسے میرے سوا کوئی دوسرا نہیں بیان کرسکتا، اس لیے اس بات کو مضبوطی سے پکڑلو۔ اس مضمون کی بے شمار نصوص مروی ہیں۔ چند مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:

۱-            غزوۂ حنین کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’میں پیغمبر ہوں، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘ ﴿بخاری: ۴۶۸۲، مسلم:۵۱۷۴﴾

۲-           ایک موقع پر آپﷺ  نے فرمایا: ’میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں۔‘ ﴿مسلم:۹۷۰۶﴾

۳-          ایک مرتبہ آپﷺ  نے فرمایا: ’قیامت برپاہوگی تو سب سے پہلے زمین سے مجھے نکالا جائے گا۔‘ ﴿بخاری:۲۱۴۲﴾

۴-          ایک موقع پر آپﷺ  نے صحابہ کرامؓ  کو مخاطب کرکے فرمایا: ’اللہ کی قسم، میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں۔‘ ﴿بخاری:۳۶۰۵﴾

۵-           ایک مرتبہ آپﷺ  نے فرمایا: ’میری راتیں تو اس طرح گزرتی ہیں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔‘ ﴿بخاری:۵۶۹۱، ۶۶۹۱﴾

۶-           قرآن کریم میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر سے فرمایاتھا:

اجْعَلْنِیْ عَلَی خَزَآئِنِ الأَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ   ﴿یوسف:۵۵﴾

’ملک کے خزانے میرے سپرد کردیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔‘

۷-          قرآن میں ہے کہ حضرت موسیٰؑ  علیہ السلام کے خسرنے ان سے اپنے بارے میں فرمایاتھا:

سَتَجِدُنِیْ اِن شَائ اللَّہُ مِنَ الصَّالِحِیْن﴿القصص:۷۲﴾

’تم ان شاء اللہ مجھے نیک آدمی پاؤگے۔‘

۸-          بلوائیوں نے جب حضرت عثمانؓ  کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو انھوں نے ان کے سامنے آکر فرمایا: ’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غزوۂ تبوک کے موقع پر ارشاد فرمایاتھا کہ ’جو شخص جیش العسرۃ کو سامانِ جنگ فراہم کرے گا اس کے لیے جنت ہے، تب میں نے لشکر اسلام کے لیے سامانِ جنگ فراہم کیے تھے؟ کیا تمھیںمعلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک موقع پر فرمایاتھا کہ ’جو شخص رومہ نامی کنویں کو خریدکر عام لوگوں کے لیے وقف کردے گا اس کے لیے جنت ہے۔‘ تب میں نے اسے خریدکر وقف کردیاتھا؟‘ لوگوں نے جواب دیا: ’ہاں‘ ﴿بخاری:۸۷۷۲﴾

۹-           اہلِ کوفہ نے جب حضرت عمرؓ  کی خدمت میں پہنچ کر حضرت سعد بن وقاصؓ  کی شکایت کی کہ وہ ٹھیک سے نماز نہیں پڑھاتے ہیں تو عمرؓ  نے تحقیقِ حال کے لیے انھیں طلب کیا۔ حضرت سعدؓ  نے اس موقع پر فرمایا: ’مسلمانوں میں وہ پہلا شخص میں ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایاتھا۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں بھی شرکت کرنے کا شرف حاصل رہا ہے۔‘ ﴿بخاری:۳۲۶۷﴾

۰۱-         حضرت علیؓ  نے ایک موقع پر فرمایا: اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار مجھ سے فرمایاتھا کہ مجھ سے وہی شخص محبت کرے گا جو مومن ہوگا اور وہی شخص نفرت کرے گا جو منافق ہوگا۔‘ ﴿مسلم:۹۴۲﴾

۱۱-          حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  نے ایک موقع پر فرمایا: ’اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر ستّر ﴿۰۷﴾ سے زائد سورتیںیاد کی ہیں۔ اصحابِ رسول جانتے ہیں کہ میں کتاب اللہ کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہوں، حالاں کہ میں ان میں بہتر نہیں ہوں۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کسی شخص کے پاس مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم ہے تو میں ضرور اس کی خدمت میں حاضر ہوتا۔‘ ﴿بخاری: ۰۰۰۵، مسلم:۲۶۴۲﴾

۲۱-         حضرت ابن عباسؓ  سے کسی نے ایک مسئلہ پوچھا تو انھوںنے فرمایا: ’تم ایک واقف شخص کے پاس آئے ہو۔‘ ﴿ان کی مراد اپنی ذات تھی﴾ ﴿مسلم:۰۸۲۳﴾

اس طرح کی احادیث و روایات بے شمار ہیں۔ انھیں اسی پرمحمول کیاجائے گا جس کا تذکرہ اوپر آچکا ہے۔

﴿الاذکارالنوویۃ، دارالفکر للطباعۃ والنشرو التوزیع، بیروت۴۹۹۱ئ، جلد۲، ص۹۸-۶۹﴾

مشمولہ: شمارہ فروری 2013

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223