محرمات سے علاج
سوال: کتابوں میں ایک روایت ملتی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص مرض میں مبتلا کچھ افراد کو ہدایت فرمائی تھی کہ فلاں مقام پر جاکر رہو اور وہاں کے اونٹوں کا دودھ بہ طور غذا اور ان کا پیشاب بہ طور دوا پیو تو شفایاب ہوجاؤ گے‘‘
اس ضمن میں چند امور وضاحت طلب ہیں:
﴿۱﴾ کیا یہ روایت درست ہے؟ اگر ہاں تو اس واقعہ کی تفصیل کیا ہے؟
﴿۲﴾ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور بیماری کے لیے کبھی اس طرح کا نسخہ تجویز فرمایا تھا؟
﴿۳﴾ کچھ دواؤں کا تذکرہ ’طب نبوی‘ کے ذیل میں کیاجاتا ہے۔ کیا اونٹ کے پیشاب سے علاج کی یہ ہدایت بھی طب نبوی کے زمرہ میں شامل ہے؟ کیا آج بھی دواء ً ا ایسا طریق علاج اختیار کیا جاسکتا ہے؟
﴿۴﴾ کیا کوئی روایت ایسی ملتی ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ ایک عارضی حکم تھا اور بعد میں آں حضرتﷺ نے اس طریقِ علاج کو منسوخ کردیا تھا؟
﴿۵﴾ ہندوستان کے کچھ علاقوں میں گدھی کا دودھ بہ طور غذا و دوا مستعمل ہے۔ کیا کسی مسلمان کے لیے گدھی کے دودھ کا استعمال جائز ہے؟
ڈاکٹر رشدیٰ صدیقی،پورا منوہر داس، اکبر پور، الٰہ آباد
جواب: یہ روایت حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے ۔اس کا متعلقہ ٹکڑا یہ ہے:
اِنَّ نَاساً مِنْ عُرَیْنَہَ قَدِمُوْا عَلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ المَدِیْنَۃَ فَاجْتَوَوْھَا فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’اِنْ شِئْتُمْ اَنْ تَخْرُجُوْا اِلیٰ اِبِلِ الصَّدَقَۃِ فَتَشْرَبُوْا مِنْ الْبَانِھَا وَاَبْوَالِھَا، فَفَعَلُوْا فَصَحُّوْا۔ ﴿مسلم:۱۶۷۱﴾
’’قبیلہ عُرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ آئے۔ وہ ایک مرض میں مبتلا ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’چاہو تو صدقہ کے اونٹوں کے درمیان چلے جاؤ اور وہاں رہ کر ان کا دودھ اور پیشاپ پیو۔ انھوں نے اس پر عمل کیا تو وہ صحت یاب ہوگئے۔‘‘
یہ حدیث امام بخاری نے اپنی صحیح میں مختلف سندوں سے چودہ مقامات پر روایت کی ہے ﴿۵۶۸۵، ۵۶۸۶ وغیرہ﴾ صحیحین کے علاوہ یہ حدیث سنن ابی داؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، سنن دارقطنی، صحیح ابن حبان، مصنف عبدالرزاق، سنن بیہقی ، معجم اوسط طبرانی اور دیگر کتب حدیث میں بھی مروی ہے۔ اس بنا پر اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں کیاجاسکتا۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ قبیلۂ عُکُل وعُرَیْنہ کے کچھ لوگ ، جن کی تعداد آٹھ بیان کی گئی ہے، مدینہ خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوئے۔ انھیں صفۂ مسجد نبوی میں ٹھہرایاگیا۔ مدینہ کی آب وہوا انھیں راس نہیں آئی۔ وہ بیمار پڑگئے۔ بعض روایات میں ہے کہ ان کے بدن پہلے سے لاغر تھے اور وہ بیماری کا شکار تھے۔ مدینہ میں کچھ دن قیام کرنے سے ان کی بیماری میں اضافہ ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آبادی سے باہر اس جگہ بھیج دیا جہاں بیت المال کے اونٹ رکھے جاتے تھے۔ آپﷺ نے انھیں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چند دنوں میں وہ صحت یاب ہوگئے اور ان کا مرض دور ہوگیا۔
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ﴿المائدۃ:۳، الانعام:۱۴۵، النحل:۱۱۵﴾ مردار، خون اور خنزیر کے گوشت وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اضطرار کی حالت میں ان کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر مباح چیزوں کے ذریعے کسی بیماری کا علاج نہیں ہوسکے تو اسے بھی بعض فقہاء نے اضطرار مانا ہے اور علاج کے لیے بہ طور دوا کسی حرام چیز کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ احادیث میں اس کی بعض مثالیں موجود ہیں۔ حضرت عرفجہ بن اسعدؓ کی ناک ایک غزوہ میں کٹ گئی تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے سونے کی ناک بنوائی۔ ﴿ابوداؤد: ۴۲۳۲﴾ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت زبیرؓ کو خارش ہوگئی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ریشم کی قمیص پہننے کی اجازت دے دی ۔﴿بخاری: ۵۸۳۹، مسلم: ۲۰۷۶﴾ حالاںکہ سونے اور ریشم کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہے۔
حرام چیزوں کے ذریعے علاج کے سلسلے میں فقہاء نے اس حدیث کو بھی دلیل بنایا ہے۔ بلکہ امام مالکؒ اور امام احمدؒ تو اس حدیث کی بنا پر کہتے ہیں کہ اونٹ کا پیشاب پاک ہے۔ انھوں نے اونٹ ہی پر دیگر ان جانوروں کو قیاس کیا ہے، جن کا گوشت کھایا جاتاہے اور ان کا پیشاب پاک قرار دیا ہے۔ فقہائے احناف میں امام احمدؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ امام شافعیؒ اور فقہائے احناف میں امام ابویوسفؒ کے نزدیک جانوروں کاپیشاب ناپاک ہے، البتہ دوا کے طور پر اس کا استعمال جائز ہے۔ امام ابوحنیفہؒ دیگر احادیث کی بنا پر اسے ناپاک قرار دیتے ہیں اور بہ طور دوا بھی اس کااستعمال جائز نہیں سمجھتے۔ البتہ متاخرین حنفیہ نے محرمات کا بہ طور دوا استعمال ، ان کا بدل نہ ہونے کی صورت میں جائز قرار دیا ہے۔
﴿محرمات کے ذریعے علاج کے موضوع پر مولاناسید جلال الدین عمری نے اپنی کتاب ’صحت ومرض اور اسلامی تعلیمات‘ میں تفصیل سے بحث کی ہے اور فقہاء کے اختلافات نقل کرتے ہوئے ان کا عمدہ تجزیہ بھی کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے مذکورہ کتاب کے صفحات :۲۸۵-۳۲۲، ناشر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، طبع ۲۰۰۷ء﴾
طب نبوی سے مراد وہ معالجاتی تدابیر لی جاتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں اور ان دواؤں پر اس کااطلاق کیاجاتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمائی ہیں۔ ظاہر ہے، اونٹ کے پیشاب سے علاج کی یہ ہدایت بھی طب نبوی میں شامل ہے اور وقتِ ضرورت آج بھی بہ طور دوا اس طریق علاج کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ چند سال قبل عربی زبان میں اس موضوع پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کا نام ہے: التداوی بالبان الابل وابوالہا: سنۃ نبویۃ ومعجزۃ طبیبۃ ﴿اونٹ کے دودھ اور پیشاب سے علاج: ایک نبوی سنت ، ایک طبی معجزہ﴾
ذخیرۂ احادیث میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی ہے، جس سے معلوم ہو کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عارضی حکم تھا، جسے بعد میں آپﷺ نے منسوخ کردیا ہو۔ علامہ ابن القیمؒ نے واقعہ کی تمام تفصیلات بیان کرنے کے بعد لکھا ہے:
وقد ظہر بھذا ان القصۃ محکمۃ لیست منسوخۃ۔ ﴿زاد المعاد،۳/۶۸۲﴾
’’اس تفصیل سے واضح ہوا کہ یہ واقعہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے۔‘‘
یہ بیان بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جن لوگوں کے علاج کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کا دودھ اور پیشاب تجویز کیا تھا، انھیں کیا مرض تھا؟ اور اس میں بہ طور دوااونٹ کا دودھ اور پیشاب کس حد تک کارگر ہے؟
احادیث میں ان لوگوں کے مرض کی صراحت موجود نہیں ہے، لیکن ان کی کچھ ایسی علامات مذکور ہیں، جن سے مرض کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔ حدیث میں اِجتَووھَا کالفظ ہے۔ جویٰ پیٹ کے مرض کو کہتے ہیں۔ نسائی کی روایت میں صراحت ہے کہ ان کے پیٹ بڑھ گئے تھے۔ نسائی اور ابن سعد کی روایت میں یہ بھی مذکورہے کہ ان کی رنگت زرد پڑگئی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے بدن گھل گئے تھے۔ ان علامتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً انھیں استسقاء (ASCITES) کا مرض تھا۔ یہ مرض جگر کی خرابی سے لاحق ہوتا ہے۔ اس میں پیٹ میں پانی جمع ہوجاتا ہے، بدن کم زور ہوجاتا ہے اور رنگت زرد پڑجاتی ہے۔ بعض روایات میں علاج کے بعد ان لوگوں کی صحت مندی کی تفصیل بھی مذکور ہے۔ ان میں ہے کہ ان کے بدن فربہ ہوگئے تھے اور بدن کی اصل رنگت لوٹ آئی تھی۔
اطبا ء قدیم نے استسقاء اور امراض جگر میں اونٹ کے دودھ اور پیشاب کے فائدہ مند ہونے کی صراحت کی ہے۔ طب کی ایک مشہور کتاب اندلسی طبیب اور ماہر ادویہ ابن بیطار ﴿م۱۲۴۸﴾ کی الجامع لمفردات الادویۃ و الاغذیۃ ہے۔ اس میں ہے:
’’اونٹ کاپیشاب استسقاء اور صلابت طحال میں مفید ہے، خاص طور پر اس وقت، جب اسے اونٹنی کے دودھ کے ساتھ استعمال کیا جائے۔‘‘
ایک طبیب ﴿شریف﴾ کے حوالے سے ابن بیطار نے لکھا ہے:
’’اونٹ کا پیشاب اور ام جِگر میں مفید ہے﴿۱/۳۴۴﴾
ایک اور طبیب ﴿الیہودی﴾ کے حوالے سے اس نے بیان کیا ہے:
’’اونٹنی کا دودھ یرقان، دمہ اور ضیق النفس میں مفید ہے، سدّوں کو کھولتا ہے، جگر کو تروتازہ رکھتا ہے، جسم کو قوی بناتا ہے۔ بہتر ہے کہ استسقاء کے مریض کو اس کا دودھ اور پیشاب ایک ساتھ پلایا جائے۔ اسے عورتوں کی رنگت صاف کرنے کے لیے بھی پلاناچاہئے۔‘‘ ﴿۳/۲۴۱﴾
اس موضوع پر موجودہ دور میں بھی متعدد تحقیقات ہوئی ہیں۔ ایک خاتون ڈاکٹر احلام العوض، معلمہ کلیۃ التربیۃ ، جامعۃ اُم القریٰ سعودی عرب نے التداوی بلبن وبول الناقۃ ﴿اونٹنی کے دودھ اور پیشاب سے علاج﴾ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ ایک تحقیقی مقالہ مجلۃ المجلس العلمی للاختصاصات الطبیۃ، ربیع الثانی ا۱۱۴۲ھ ﴿۲۰۰۰﴾ میں شائع ہوا ہے، جس کا عنوان ہے: Clinical Trials for the Treatment of Ascites with Camel Urine ۔ایک کتاب ۲۰۰۳ء میں جناب شہاب البدری یٰسٓ نے عربی زبان میں التداوی بالبان الابل وابوالہا کے نام سے مرتب کی ہے۔ ان تحریروں میں دودھ اور پیشاب کا کیمیاوی تجزیہ کرکے ان کے مشتملات مع تناسب کی نشان دہی کی گئی ہے اور استسقائ، امراض جگر اور بعض دیگر امراض میں ان کے اثرات کا جائزہ لیاگیا ہے۔ ان میں اس موضوع پر بعض مغربی تحقیقات کا بھی حوالہ موجود ہے۔
گدھی کے دودھ کے بارے میں حدیث میں کوئی صراحت نہیں ملتی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ابن شہاب زہریؒ نے اپنے شیخ ابوادریس خولانیؒ سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا: ’’ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھوں کا گوشت کھانے سے صاف الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ جہاں تک ان کے دودھ کا معاملہ ہے، اس سلسلے میں آپﷺ سے نہ اجازت منقول ہے نہ ممانعت‘‘۔ ﴿بخاری:۵۷۸۱﴾ اس روایت کی شرح میں علامہ ابن حجر نے لکھاہے کہ گدھی کا دودھ جمہور فقہاء کے نزدیک حرام ہے۔ ﴿فتح الباری بشرح صحیح البخاری، المکتبۃ السلفیہ، مصر، ۱۰/۲۴۹﴾ لیکن الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے: ’’پالتو گدھی کا دودھ مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک نجس وحرام اور حنفیہ کے نزدیک مکروہ ہے۔ البتہ عطا، طاؤس اور زہری نے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے۔‘‘ ﴿الموسوعۃ الفقہیۃ، ناشر: وزارۃ الاوقات والشئون الاسلامیۃ، کویت، ۳۵/۱۹۷﴾
اسمائ حسنیٰ
سوال: ایک حدیث میں ہے کہ ’’اللہ کے ننانوے نام ہیں۔ وہ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔‘‘اس کی روشنی میں دوسوالات پیدا ہوتے ہیں:
﴿۱﴾ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ناموں کی تعیین کی ہے؟ اگر ہاں تو وہ کیا ہیں؟
﴿۲﴾ ترمذی، ابن ماجہ اور عسقلانی نے جو نام بیان کیے ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان میں سے کس کی فہرست مستند ہے؟بعض حضرات کاکہناہے کہ ایک شخص قرآن سے اللہ کے ننانوے سے زائد نام نکال سکتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے سے زائد نام ہیں۔بہ راہ ِ کرم ان سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں۔
ڈاکٹر سید حسن الدین احمد،۹۰۵، ڈبلو، جنیوا روڈ، پیوریا، امریکہ
جواب: قرآن کریم میں ہے:
وَلِلّٰہِ الْاَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا۔ ﴿الاعراف:۱۸۰﴾
’’اللہ کے اچھے نام ہیں۔اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو۔‘‘
ایک حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَّتِسْعُوْنَ اِسْمًا، مَنْ حَفِظَھَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ، وَاِنَّ اللّٰہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ۔﴿بخاری: ۲۷۶۳، ۶۴۱۰، ۷۳۹۲، مسلم:۲۶۷۷﴾
’’اللہ کے ننانوے نام ہیں۔ جوشخص ان کو یاد کرلے گا وہ جنت میں جائے گا۔ اللہ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتاہے۔‘‘
دوسری روایت میں ’’مَنْ اَحْصَاھَا‘‘ ﴿جو ان کو شمار کرلے گا…﴾ کے الفاظ ہیں۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ متعین طور پر اللہ تعالیٰ کے صرف ننانوے نام ہیں۔ اس لیے کہ بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے بے شمار نام ہیں، ان کا احاطہ کرنا کسی شخص کے بس میں نہیں ہے۔ مسند احمد میں ایک دُعا سکھائی گئی ہے، جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے:
اَسْأَلُکَ بِکُلِّ اِسْمٍ ھُوَلَکَ، سَمَّیْتَ بِہ نَفْسَکَ اَوْ اَنْزَلْتَہ، فِیْ کِتَابِکَ اَوْعَلَّمْتَہ، اَحَداً مِّنْ خَلْقِکَ اَوْاِسْتَاْثَرْتَ بِہٰ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ۔ ﴿مسند احمد، ۱/۳۱۹، مسند عبداللہ بن مسعود﴾
’’اے اللہ میں تیرے سامنے دستِ سوال دراز کرتا ہوں، تیرے ہر اس نام کے واسطے سے، جس سے تو نے خود کو موسوم کیا ہے، یا اسے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے، یا اسے اپنی کسی مخلوق کو سکھایا ہے، یا تو نے اسے اپنے پاس محفوظ رکھاہے اور کسی کو نہیں بتایا ہے…‘‘
اسی طرح ایک دوسری دُعا کا ایک ٹکڑایہ ہے:
لَااُحْصِیْ ثَنَائً ا عَلَیْکَ، اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ۔ ﴿مسلم:۴۸۶﴾
’’اے اللہ! تیری ثنا کا شمار کرنا میرے بس میں نہیں۔ تو ویسا ہی ہے جیسا تو نے خود اپنی ثنا کی ہے۔‘‘
اللہ کی کامل ثنا اسی وقت کی جاسکتی ہے، جب اس کے تمام اسماء وصفات کا احاطہ ممکن ہو۔ اور اس پر کوئی انسان قادر نہیں ہے۔
بخاری ومسلم کی مذکورہ بالاحدیث ﴿جس میں اللہ کے ننانوے نام قرار دیے گئے ہیں﴾ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جو شخص اللہ کے ننانوے ناموں کو یاد رکھے گا اسے جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں:
’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث میں حصر نہیں ہے اور اس میں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے صرف ننانوے نام ہیں۔ بلکہ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے ننانوے ناموں کااحاطہ کرلے گا وہ جنت میں جائے گا۔ دوسری حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اسی لیے حافظ ابن العربی مالکیؒ نے بعض اہل علم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ کے ایک ہزار نام ہیں۔ ابن العربیؒ فرماتے ہیں: یہ تعداد بھی کم ہے۔‘‘ ﴿شرح صحیح مسلم،۱۷/۵﴾
یہی بات شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے بھی اپنی متعدد تصانیف میں ارشاد فرمائی ہے۔ ﴿ملاحظہ کیجئے درئ تعارض العقل والنقل، ۳/۳۳۲-۳۳۳، مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام، ۲۲/۴۸۲﴾
حافظ ابن حجرؒ، علامہ خطابیؒ، امام قرطبیؒ، حافظ ابن کثیرؒ اورامام فخرالدین رازیؒ کا رجحان بھی اسی طرف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائ وصفات غیر محصور ہیں۔ ننانوے کا ذکر محض کثرتِ تعداد بیان کرنے کے لیے ہے اور طاق عدد رمزِ توحید ہے۔ یعنی رب العزت واحد ہے، حتی کہ اس کے اسمائ سے بھی اس کی وحدت کا ہی اشارہ ملنا چاہئے، جوڑے کا نہیں ﴿ڈاکٹر محمد مشتاق تجاروی، مقالہ’اسمائ حسنیٰ‘ ،شائع شدہ درمجلہ ’نقوش‘ لاہور قرآن نمبر جلددوم ﴿شمارہ نمبر ۱۴۴،۱۹۹۸ئ﴾ ص۵۰۲، بہ حوالہ لوامع البیّنات، ص۵۳﴾
اسماء حسنیٰ سے متعلق بعض روایات میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام بھی گنائے گئے ہیں۔ ان میں سے تین روایات قابل ذکر ہیں۔ ایک امام حاکم کی کتاب المستدرک علی الصحیحین ﴿۱/۷۱﴾ میں ہے، دوسری جامع ترمذی ﴿۳۵۰۷﴾ میں اور تیسری سنن ابن ماجہ ﴿۳۸۶۱﴾ میں ۔ لیکن یہ تمام روایات ضعیف ہیں۔ محدثین نے ان کے ضعف کی صراحت کی ہے۔ ﴿تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: عبدالرزاق بن عبدالمحسن البدر، فقہ الاسماء الحسنی، دارالتوحید للنشر الریاض، ۲۰۰۸ء﴾
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے:
’’علم حدیث سے واقف اصحاب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ دونوں روایتیں ﴿یعنی ترمذی اور ابن ماجہ کی﴾ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہیں، بلکہ اصلاً یہ بعض علمائے سلف کے کلام پر مشتمل ہیں۔ اس لیے دونوں روایتوں میں جو اسمائے الٰہی مذکور ہیں، ان میں فرق پایاجاتاہے۔ اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے، بلکہ حدیث نبوی میں یہ نام داخل کردیے گئے ہیں، اسی وجہ سے بعض دیگر حضرات مثلاً سفیان بن عیینہؒ اور امام احمدؒ وغیرہ نے اللہ تعالیٰ کے کچھ دیگر نام جمع کیے ہیں اور ان کا قرآن سے استخراج کیا ہے۔‘‘
﴿مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام، ۶/۳۷۹، ۳۸۰، ۲۲/۴۸۳﴾
ترمذی ، ابن ماجہ اور مستدرک حاکم کی روایات میں اسمائ حسنیٰ کی جو فہرستیں ہیں ان میں باہم فرق ہے۔ ان سب کو جمع کرنے سے اسمائ حسنیٰ کی تعداد ایک سو بیالیس ﴿۱۴۲﴾ تک پہنچ جاتی ہے۔ ان کے علاوہ قرآن کریم سے کچھ اور بھی اسمائ الٰہی کا استخراج کیا جاسکتا ہے۔
ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ حدیث صحیح میں اسماء حسنیٰ کو یاد کرنے یاان کا شمار کرنے پر استحقاق جنت کی جو بشارت دی گئی ہے، اس کا مطلب ان کو محض رَٹ لینا اور ان کا ورد کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ان کے معانی کو سمجھنا، ان میں تدبر کرنا اور ان کے تقاضوں پر عمل کرنا ہے۔ علامہ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب ’بدائع الفوائد‘ میں اس کے تین درجے قرار دیے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ ان اسماء الٰہی کو یاد کیا جائے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کے معانی کو سمجھا جائے اور ان کا استحضار ہو اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ ان کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی جائے، اس کی عبادت کی جائے اور اس کے سامنے دستِ سوال دراز کیاجائے۔‘‘ ﴿بدائع الفوائد،۱/۱۶۴﴾
اُردو خطبہ منبر سے دیا جائے یا نیچے سے؟
سوال:ہمارے محلے میں خطبۂ جمعہ کے حوالے سے تحت المنبر اور فوق المنبر کا مسئلہ کھڑا کردیاگیا ہے۔ بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں کہ صحیح طریقہ کیا ہے؟
افضل حنیف، شموگہ﴿ کرناٹک﴾
جواب: جمعہ کے دوخطبے مسنون ہیں۔ اب بعض جگہوں پر خطبہ کے ساتھ اُردو میں تقریر کرنے کا بھی رواج ہورہا ہے۔ کہیں امام صاحب خطبۂ اولی کے ساتھ اُردو میں تقریر کرتے ہیں اور کہیں خطبہ شروع کرنے سے پہلے اُردو میں تقریر کرتے ہیں، پھر موذن خطبہ کی اذان دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں خطبے پڑھتے ہیں۔
اگر خطبۂ اولیٰ کے ساتھ ہی اُردو میں تقریر کی جارہی ہو تو ظاہر ہے کہ خطبہ کے ساتھ وہ بھی منبر کے ساتھ کی جائے گی۔ لیکن اگر خطبہ سے الگ اُردو تقریر کی جاتی ہے تو مناسب ہے کہ منبر سے الگ کھڑے ہوکر کی جائے، تاکہ مسجد میں آنے والے نمازیوں کو اشتباہ نہ ہو کہ خطبہ شروع ہوگیا ہے۔ جہاں تک خطبۂ جمعہ کا معاملہ ہے اس کے بارے میں احادیث میں صراحت ہے کہ وہ منبر سے ہونا چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منبر بنایاگیا۔ اس کے بعد سے آپ اس پر کھڑے ہوکر خطبہ دیا کرتے تھے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر خطبہ دیا۔ امام بخاری نے اس مضمون کی کئی احادیث نقل کی ہیں اور ان پر یہ ترجمۃ الباب قائم کیا ہے: باب الخطبۃ علی المنبر﴿کتاب الجمعۃ، باب نمبر۲۶﴾
ایک حدیث کی تحقیق
سوال: میں جس مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھتا ہوں اس میں خطبہ میں یہ حدیث پڑھی جاتی ہے: السُّلْطَانُ ظِلُّ اللّٰہِ فِی اَرْضِہ، مَنْ نَصَحہ ھَدَی وَمَنْ غَشَّہ ضَلَّ۔ ﴿حکم راں اللہ کی زمین میں اس کا سایہ ہے۔ جس نے اس سے خیر خواہی کی وہ راہ یاب ہوا اور جس نے اس کی بدخواہی کی وہ گم راہ ہوا﴾۔ جس مسجد میں یہ حدیث پڑھی جاتی ہے وہ ایک معروف مدرسے کی بڑی مسجد ہے۔
براہ کرم اس حدیث کے متعلق تفصیل سے تحریر فرمائیں۔ جواب پاکر ممنوں ہوںگا۔
ڈاکٹر پاشالطیف Email:[email protected],
جواب:یہ روایت علامہ جلال الدین سیوطی﴿م ۹۱۱ھ﴾ کی کتاب الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر میں موجود ہے ﴿روایت نمبر۴۸۱۸﴾ اس مضمون کی اور بھی کئی روایتیں مذکورہ کتاب میں ہیں۔ یہ روایتیں اس کے علاوہ بیہقی کی کتابوں السنن الکبریٰ اور شعب الایمان، دیلمی کی مسند الفردوس اور دیگر کتابوں میں بھی مروی ہیں، لیکن یہ سب ضعیف ہیں۔ آپ نے جو روایت درج کی ہے ا س کی سند میں ایک راوی محمد بن یونس القرشی ہے۔ اس کے بارے میں ناقد حدیث ابن عدیؒ نے لکھا ہے کہ وہ حدیثیں گھڑ کر پیش کیا کرتا تھا۔ ابن حبانؒ کہتے ہیں: وہ حدیثیں گھڑ کر ثقہ لوگوں کی جانب منسوب کردیتا تھا۔ علامہ ذہبی نے اس کا تذکرہ اپنی کتاب الضعفائ میں کیا ہے ۔ ﴿محمدعبدالرؤف،فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۱۹۹۴ء ﴾ علامہ البانیؒ نے الجامع الصغیر کی صحیح اور غیر صحیح ﴿ضعیف وموضوع وغیرہ﴾ احادیث کو الگ الگ چھانٹ دیا ہے۔ انھوں نے اس روایت کو ضعیف الجامع الصغیر میں جگہ دی ہے اور اسے موضوع قرار دیا ہے۔
میراث کا ایک مسئلہ
سوال:میری پھوپھی کا ابھی حال میں انتقال ہواہے۔ ان کے ذاتی اکاونٹ میں کچھ رقم تھی۔ اس کی تقسیم کیسے عمل میں لائی جائے؟ واضح رہے کہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ان کے شوہر اور دو بہنیں حیات ہیں۔ بھائیوں کاانتقال ہوچکا ہے، البتہ بھتیجے اور بھانجے ہیں۔
شاہد فریدی، سرسیدنگر، علی گڑھ
جواب: قرآن میں ہے کہ ’’اگر کسی عورت کا انتقال ہوجائے تو اس کے شوہر کو اولاد ہونے کی صورت میں ایک چوتھائی اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں نصف میراث ملے گی۔‘‘ ﴿النساء:۱۲﴾ اسی طرح قرآن میں یہ بھی مذکور ہے کہ اگر ورثاء میں دو بہنیں ہوں تو وہ دوتہائی میراث کی حق دار ہوں گی ۔ ﴿النساء: ۱۷۶﴾ بھتیجے عصبہ ہیں۔ میراث اصحاب الفرائض میں تقسیم ہونے کے بعد اگر کچھ بچے گی تو پائیں گے، ورنہ محروم رہیں گے۔
مذکور بالا صورت میں میراث برابر تقسیم نہیں ہوپارہی ہے، اس لیے کہ شوہر کا حصہ نصف اور بہنوں کا حصہ دوتہائی ہے۔ اسے فقہ کی اصطلاح میں ’عول‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں حسابی قاعدہ کے مطابق تقسیم کا خلاصہ یہ ہے کہ کل میراث کے سات حصے کیے جائیں گے۔ ان میں سے تین حصے شوہر کو اوردو دو حصے بہنوں کوملیں گے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2013