حالتِ روزہ میں انجکشن لگوانا
سوال: کیا روزے کی حالت میں انجکشن لگوایا جاسکتا ہے؟
جواب:روزے کی حالت میں جس چیز سے منع کیاگیا ہے وہ کھانا پینا ہے، یعنی حلق کے راستے سے کوئی چیز معدے میں پہنچائی جائے۔ انجکشن کے ذریعے دوا بہ راہ راست معدے میں نہیں پہنچتی، بلکہ پہلے خون کی رگوں میں پہنچتی ہے، اس کے بعد پورے بدن میں پھیل جاتی ہے۔ یہی حکم گلوکوز کا بھی ہے کہ وہ سیال مادہ بہ راہ راست معدے میں نہیں جاتا، بلکہ رگوں کے ذریعے پورے بدن میں پہنچتا ہے۔اس بنا پر انجکشن لگوانے یا گلوکوز چڑھوانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
البتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس چیز کی اجازت علاج معالجہ کے مقصد سے دی گئی ہے۔ عام حالات میں آدمی کھانے پینے سے رک کر خود کو غذا سے محروم رکھتا ہے، اس وجہ سے جسمانی طور پر اسے کچھ کم زوری لاحق ہوسکتی ہے۔ محض کم زوری دور کرنے اور طاقت حاصل کرنے کے لیے انجکشن لگوانا اور گلوکوز چڑھوانا کراہت سے خالی نہیں۔
روزہ کشائی کی تقریب کا انعقاد
سوال: آج کل چھوٹے بچوں سے بھی روزہ رکھوا یا جاتا ہے۔ کوئی بچہ جب پہلی بار روزہ رکھتا ہے تو اس کے افطار کی تقریب بہت دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ بڑے پیمانے پر دوست احباب کو مدعو کیا جاتا ہے۔ کیا شرعی طور پر ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب: روزہ ایک عبادت ہے اور دوسری عبادتوں کی طرح وہ بھی بچوں پر فرض نہیں ہے، لیکن شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ بچوں میں ابتدا ہی سے نماز روزے کا شوق پیدا کرنا چاہیے اور انھیں ان کی ادائی کی ترغیب دینی چاہیے، تاکہ ان کی فرضیت کے بعد انہیں ان کی ادائی میں دشواری نہ ہو۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ بچے سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز پڑھنے کو کہا جائے اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھیں تو ان کی سرزنش کی جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
مُرُوا اَوْلَادَکُمْ بِالصَّلاَ ۃِ وَہُم اَبْنَاءُ سَبعِ سِنینَ وَاضْرِبُوْہُمْ عَلیہَا وَہُمْ اَبنَائُ عَشْرٍ۔ (ابوداؤد:۴۹۵)
’’اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں (پھر بھی نماز نہ پڑھیں) تو انھیں مارو‘‘۔
روزے کے بارے میں ایسی صراحت تو نہیں ملتی، لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبویؐ میں بچوں کو روزہ رکھوایا جاتا تھا۔ حضرت رُبیع بنت معوذؓ عاشوراء کے روزے کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی فضیلت بیان کی تو ہم یہ روزہ رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی رکھواتے تھے۔ ہم اپنے ساتھ بچوں کو مسجد لے جاتے تو ان کے لیے اون کے کھلونے بنالیتے تھے۔ جب کوئی بچہ بھوک کی وجہ سے رونے لگتا تو ہم اسے بہلانے کے لیے کھلونا دے دیتے تھے اور اسے مشغول رکھتے تھے، یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجائے۔
(بخاری: ۱۹۶۰، مسلم: ۱۱۳۶)
بچوں کے روزہ رکھنے پر خوشی کے اظہار اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی تقریب منعقد کرنے کا ثبوت حدیث سے نہیں ملتا، لیکن اگر فطری اور سادہ انداز میں ایسے موقع پر بعض قریبی رشتے داروں یا دوست احباب کو مدعو کرلیاجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں معلوم ہوتا۔ رہی یہ بات کہ اس کا جشن منایا جائے، اخبارات میں اس کا اشتہار دیا جائے، دعوت نامے چھپوائے اور تقسیم کیے جائیں ، تصویریں کھینچی جائیں، بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کیا جائے اور روزہ کشائی کی خوب پبلسٹی کی جائے تو یہ سارے کام روزہ جیسی پاکیزہ عبادت کی روح کے منافی ہیں۔ اس لیے ان سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
حِجامۃ کے ذریعے علاج
سوال: ہمارے یہاں ایک مسلم ڈاکٹر ایم بی بی ایس ہیں۔ وہ حِجامۃ کے طریقۂ علاج کو اندھی تقلید کہتے ہیں۔ جب کہ اس علاج کے تعلق سے طب نبویؐ میں کافی احادیث مذکور ہیں۔ آج کے دور میں ہر بیماری کے لیے کئی طریقہ ہائے علاج موجود ہیں۔ اس کے باوجود حِجامۃ کے ذریعے علاج کرانا کیا جائزہے؟
جواب: حِجامۃ ایک مخصوص طریقۂ علاج ہے،جس میں بعض امراض میں ایک مخصوص تکنیک سے جسم کے بعض حصوں سے فاسد خون نکالا جاتا ہے۔ اسے اردو میں ’پچھنا لگانا‘ اور انگریزی میں Cupping کہتے ہیں۔ حجامہ کا شمار طب نبوی میں کیا جاتا ہے،اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ عمل ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:
اِحْتَجَمَ النَّبیُّ ﷺ وَہُوَ مُحرِمٌ وَ احْتَجَمَ النَّبِیُّ وَہُوَ صَائِمٌ۔
(بخاریؒ: ۵۶۹۴، ۵۶۹۵، مسلم: ۱۲۰۲)
نبی کریم ﷺ نے احرام کی حالت میں اور روزہ کی حالت میں بھی پچھنا لگوایا ‘‘۔
آج کل حِجامۃ کا طریقۂ علاج کافی ترقی یافتہ ہوگیا ہے اور اس کی بڑی ایڈوانس تکنیک ایجاد کرلی گئی ہے۔ یہ طریقہ مختلف امراض کے علاج کے لیے اختیار کیاجاتا ہے اور اس کے ذریعے ان امراض میں فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا انکار کرنا، اسے بے فائدہ، بلکہ نقصاندہ قرار دینا اور اسے اندھی تقلید کہنا درست نہیں ہے، البتہ اس عمل میں مہارت مطلوب ہے۔ اناڑی پن سے اس کی انجام دہی میں خطرات ہیں۔ اس لیے اس میں احتیاط کی ضرورت ہے۔
تعزیت اور ایصال ثواب
سوال: (۱) ہمارے علاقے میں جب کسی کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کے دور ونزدیک کے اقارب مرد وخواتین کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور میت کی تدفین کے بعد انھیں کھانا کھلانے کا اہتمام کیاجاتا ہے، جس کی وجہ سے بعض افراد زیر بار ہوجاتے ہیں۔
(۲) میت کے اردگرد بیٹھ کر تلاوتِ قرآن بھی کی جاتی ہے۔
(۳) انتقال کے بعد میت کے گھر چالیس دن تک محلے پڑوس کی خواتین روزانہ جمع ہوکر قرآن مجید کی تلاوت کرتی ہیں، یا کسی آیتِ قرآنی، دعا یاتسبیح وغیرہ کا اجتماعی طور پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تلاوتِ قرآن کے واسطے مدرسہ کے طلبہ کو بھی بلوالیاجاتا ہے۔
براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مندرجہ بالا امور کی حیثیت واضح فرمائیں۔
جواب: کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کا حق ہے کہ اس کی تعزیت کی جائے، اس کے متعلقین سے مل کر انھیں تسلی دی جائے اور ان کی غم گساری کی جائے۔ ایک صحابی رسول آپؐ کی مجلس میں پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ ان کے ایک بچے کا، جو انھیں بہت محبوب تھا، انتقال ہوگیا تو وہ کئی دن آپؐ کی مجلس میں شریک نہ ہوسکے۔ آپؐ نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ان کے بچے کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپؐ نے ان سے ملاقات کی، انھیں تسلی دی اور فرمایا کہ جن بچوں کا کم عمری میں انتقال ہوجاتا ہے وہ جنت کے دروازوں پر اپنے والدین کا استقبال کرتے ہیں۔ (نسائی، کتاب الجنائز، باب فی التعزیۃ: ۲۰۸۸۔ یہ حدیث صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں بھی مروی ہے)
آں حضرت ﷺ کو اپنی صاحب زادی کے ایک بچے کے جان کنی کے عالم میں ہونے کی خبر پہنچی۔ آپؐ اپنے متعدد اصحاب کے ساتھ ان کے گھر تشریف لے گئے اور ان کو دلاسا دیا۔ (بخاری: ۱۲۸۴، مسلم: ۹۲۳۔ یہ حدیث ابودائود، نسائی، ابن ماجہ ، بیہقی اور احمد سے بھی مروی ہے)
آپؐ کو ایک انصاری عورت کے بچے کے انتقال کی خبر ملی۔ اس کا کوئی سرپرست نہیں تھا۔ آپؐ نےبعض صحابہ کرامؓ کے ساتھ اس کے گھر جاکر اس کی تعزیت کی۔(اسے حاکم، ہیثمی اوربزار نے روایت کیا ہے) حضرت ابوسلمہؓ کے انتقال کی خبر ملی تو آپؐ تشریف لے گئے اور ان کے گھر والوں کو تسلی دی ۔ (مسلم: ۹۲۰) حضرت جعفر بن ابی طالبؓ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے تو آپؐ ان کے گھر تشریف لے گئے، ان کے بچوں کو پیار کیا اور ان سے تعلقِ خاطر کا اظہار کیا ۔ (مسند احمد: ۱۷۵۰، مستدرک حاکم، ابودائود: ۴۱۹۴)
رسول اللہ ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو صحابہ کرامؓ آپؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اور آپؐ کی تعزیت کی۔ ان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ بھی شامل تھے۔ (ابن ماجہ: ۱۵۸۹)
مشہور تابعی قاسم بن محمدؒ کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو محمد بن کعب قرظیؒ ان کے گھر گئے اور بنی اسرائیل کا ایک واقعہ سناکر ان کی غم گساری کی۔ (مؤطا امام مالک: ۱۰۰۲)
اس طرح کے واقعات کا تذکرہ احادیث میں کثرت سے ملتا ہے۔ میت کے متعلقین کی تعزیت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل میت کے لیے رشتے داروں اور پڑوسیوں کی جانب سے کھانے کا انتظام کرناچاہیے، اس لیے کہ وہ غم سے اتنے نڈھال ہوتے ہیں کہ کھانا پکانے کی طرف ان کی طبیعت مائل نہیں ہوتی۔ حضرت جعفرؓ کے انتقال کی خبر پہنچی تو آپؐ نے فرمایا:
اِصْنَعُوا لآلِ جَعفرطعاماً فقد اتاہم امرٌ یُّشغلُہُمْ۔
(ابودائود: ۳۱۳۲، ترمذی: ۹۹۸، ابن ماجہ: ۱۶۱۰)
’’آل جعفر کے لیے کھانا بناؤ، اس لیے کہ انھیں ایسی خبر پہنچی ہے جس نے انھیں بدحال کردیا ہے‘‘۔
البتہ یہ صورت کہ کسی شخص کے انتقال کی خبر پاکر دور و نزدیک کے رشتے دار اکٹھا ہوں اور میت کی تدفین کے بعد اہل میت ہی ان کے کھانے کا نظم کریں، یہ بات دین اور مروت دونوں کے خلاف ہے۔ صحابی رسول ؐ حضرت جریر بن عبداللہ البجلیؓ فرماتے ہیں:
کنّا نعد الاجتماع الی اھل المیت وصنیعۃ الطّعام بعد دفنہ من النیاحۃ۔ (ابن ماجہ: ۱۶۱۲، احمد: ۶۹۰۵)
’’ہم میت کو دفن کرنے کے بعد اس کے گھر والوں کے پاس اکٹھا ہونے اور ان (اکٹھا ہونے والوں ) کے لیے کھانا پکائے جانے کو ’نوحہ‘ میں سے شمار کرتے تھے (جس کی ممانعت کی گئی ہے)‘‘
جہاں تک میت کے گرد بیٹھ کر یا اس کی تدفین کے بعد ایک دن یا کئی دن اجتماعی طور پر تلاوتِ قرآن کرنے یا دعا اور تسبیح پڑھنے کا معاملہ ہے تو صدرِاول میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایصال ثواب کا یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ اور سلفِ صالحین سے ثابت نہیں ہے ۔ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے نامۂ اعمال میں اجر کا اضافہ کن صورتوں میں ہوسکتا ہے؟ اس کا بیان درج ذیل حدیث میں ہوا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ‘ الا من ثلاثۃ: الامن صدقۃ جاریۃ اوعلم ینتفع بہ او ولد صالح یدعولہ‘۔
(مسلم: ۱۶۳۱، ابودائود:۲۸۸۰)
’’جب کسی شخص کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ البتہ تینوں کاموں کی صورت میں اسے برابر اجر ملتا رہتا ہے: (۱) اس نے کوئی صدقہ کیا ہو جس کا فیض جاری ہو (۲) اس نے ایسا علم چھوڑا ہو جس سے برابر فائدہ اٹھایا جارہا ہو۔ (۳) اس کی نیک اولاد ہو، جو اس کے لیے دعا کر رہی ہو‘‘۔
اجتماعی قرآن خوانی کے لیے کسی مدرسہ کے بچوں کو استعمال کرنا درحقیقت انھیں ذلیل کرنا ہے۔ امت کی غیرت کا تقاضا ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔
ہم زلف کی بیٹی سے نکاح
سوال: کیا کسی شخص کی بیٹی سے اس کے ہم زلف کا نکاح ہوسکتا ہے؟
جواب: دو یا دو سے زائد سگی بہنیں جن افراد کے نکاح میں ہوں وہ آپس میں ہم زلف کہلاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی بیوی کا رشتہ دوسرے کی اولاد سے خالہ کا ہوگااور حدیث میں صراحت سے منع کیاگیا ہے کہ آدمی دو ایسی عورتوں کو نکاح میں جمع کرے جن کے درمیان خالہ بھانجی کا رشتہ ہو۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
نھیٰ رسول اللہ ﷺ ان تنکح المراۃ علی عمتہا والمراۃ علی خالتہا۔
’’رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کسی عورت کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح کرنے کے بعد اس سے نکاح کیا جائے‘‘۔
دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں:
نھیٰ رسول اللہ ﷺ ان یجمع الرجل بین المراۃ وعمتہا وبین المراۃ وخالتہا۔
’’رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ آدمی عورت اور اس کی پھوپھی یا عورت اور اس کی خالہ کو اپنے نکاح میں جمع کرے‘‘۔
(یہ حدیث صحاح ستہ کے علاوہ مؤطا امام مالک اور دیگرکتب حدیث میں مروی ہے)
لیکن اگر کسی شخص کی بیوی کا انتقال ہوجائے یا وہ اسے طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کی بھانجی سے نکاح کرسکتا ہے ، جبکہ ان کے درمیان کوئی ایسا رشتہ نہ ہو جو حرمت کے دائرے میں آتا ہو۔
وراثت کا ایک مسئلہ
سوال:ایک صاحب کے دو بچے تھے: ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ ان کے پاس ایک مکان تھا۔ اسے انھوں نے پندرہ لاکھ روپے میں فروخت کرکے ایک دوسرا مکان خریدا، جس کی مالیت پچیس لاکھ روپے تھی۔ دس لاکھ روپے ان کے لڑکے نے لون لے کر شامل کیے، جسے بعد میں اس نے ادا کردیا۔ ابتدا میں مکان کی رجسٹری ان صاحب کے نام سے ہوئی، مگر چند سال کے بعد ان کی زندگی ہی میں ان کے لڑنے نے اسے اپنے نام کرالیا۔
کیا ان صاحب کے انتقال کے بعد اُس مکان میں ان کی لڑکی کا کچھ حق بنتا ہے ؟ واضح رہے کہ دوسرا مکان خریدنے میں ان صاحب کے پندرہ لاکھ اور ان کے لڑکے کے دس لاکھ روپے لگے ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں بیٹے سے وراثت دینے کی بات بھی کرتے تھے، مگر ان کے بیٹے نے کسی طرح ان کی زندگی ہی میں مکان اپنے نام کرالیا تھا۔
جواب:وراثت کا تعلق کسی شخص کی وفات کے بعد اس کی مملوکہ جائداد کی تقسیم سے ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں اپنا کچھ مال یا زمین جائداد کسی کو دے دے، اسے ہبہ کہتے ہیں۔ شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی پراپرٹی اپنے بچوں میں تقسیم کر رہا ہے تو وہ ان کے درمیان کچھ تفریق کرے ،نہ کسی کو محروم کرے ، لیکن بہ ہرحال اسے قانونی طور پر اختیار ہے کہ وہ اپنے مال کا جتنا حصہ چاہے، کسی کو ہبہ کرسکتا ہے۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کی زندگی میں اس کے لڑکے نے مکان اپنے نام سے رجسٹری کرالیا۔ ان صاحب کی خاموشی ان کی رضامندی کی دلیل ہے۔ اب جب کہ وہ مکان ان کی ملکیت میں رہا ہی نہیں تو ان کے انتقال کے بعد اس کی بہ طور مالِ وراثت تقسیم کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اس بنا پر اُس میں لڑکی کا کچھ حصہ نہیں بنتا۔ ان صاحب کا اپنی زندگی میں بیٹے سے اپنی بہن کو بھی وراثت دینے کی بات کہنا بے موقع ہے۔ جب وہ اپنی زندگی میں ، جب کہ ان کی پراپرٹی ان کے نام سے تھی، اپنی بیٹی کو کچھ نہیں دے سکے تو ان کا یہ امید رکھنا فضول تھا کہ ان کا بیٹا ان کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی یعنی اپنی بہن کا خیال رکھے گا اور اس کا بھی حصہ لگائے گا۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2015