پانی پینے کا ادب
سوال: کیا صحیح احادیث میں بیٹھ کر پانی پینے کا حکم دیا گیا ہے؟ آج کل بعضـ لوگ اس کا انکار کر تے ہیں ۔ براہ کرم احادیث کی روشنی میں اظہار خیال فرمائیں۔
جواب : احادیث میں پانی پینے کا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی شخص برتن میں سانس نہ لے ، بلکہ سانس لیتے وقت اُسےمنہ سے ہٹادے ، ایک سانس میں نہ پیے، بلکہ دو یا اس سے زائد گھونٹ میں پیے اورکھڑے ہوکر نہ پیے، بلکہ پیتے وقت بیٹھ جائے۔ پانی بیٹھ کر پیا جائے یا کھڑے ہوکر بھی پیا جاسکتا ہے؟ اس سلسلے میں دونوں طرح کی احادیث مروی ہیں۔
حضرت انسؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے (مسلم:۲۰۲۴) حضرت ابوہریرہؓ توآپؐ کے حوالے سے یہاں تک بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بھول سےکھڑے ہوکر پی لے تو اسے قے کر دینی چاہیے ۔ (مسلم:)
حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ وضو کیا ، پھر بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پیا اور فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کواس طرح پانی پیتے دیکھا ہے۔(بخاری:۵۶۱۶)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر زمزم کھڑے ہوکر پیا ( بخاری : ۱۶۳۷،مسلم:۲۰۲۷)
حضرت عمر وبن شعیب ؓ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’میں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کوکھڑے ہوکر اوربیٹھ کر دونوں حالتوں میں پانی پیتے دیکھا ہے ۔‘‘ (ترمذی:۱۸۸۳)
صحابہ کرام میں سے حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبداللہ بن عمرؓ ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، اورحضرت عائشہؓ سے کھڑے ہوکر پانی پینا ثابت ہے ۔ (موطا امام مالکؓ:۳۹۳۴تا ۳۹۳۸)
مذکورہ بالا احادیث میں جواختلاف پایا جاتا ہے اسے علماء نے تین طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کھڑے ہوکر پینے کے جواز پر دلالت کرنے والی احادیث راجح ہیں ۔ بعض کے نزدیک ممانعت والی احادیث منسوخ ہیں۔ تیسرا طریقہ تطبیق کا ہے ، یعنی ممانعت والی احاد یث میں کراہتِ تنزیہی کا بیان ہے ، یعنی کھڑے ہوکر پینا پسندیدہ نہیں ہے ، اس کے برعکس مضمون کی احادیث جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ علامہ نوویؒ نے لکھا ہے :
’’ممانعت اور جواز دونوں طرح کی روایتیں صحیح ہیں ۔ ان میں تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ جن احادیث سے ممانعت کا ثبوت ملتا ہے ، انہیں مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے اوریہ سمجھا جائے کہ آپؐ کا کھڑے ہوکر پانی پینا اثباتِ جواز کے لیے ہے ۔‘‘ (شرح صحیح مسلم ، جلد ،۵جزء ۱۳، ص ۱۹۵، دارالر یا ن للتراث قاہرہ ،۱۴۰۷ھ۔ حافظ ابن حجرؒ نےبھی اسی رائے کوترجیح دی ہے ۔ فتح الباری بشرح صحیح البخاری ، دارالمعرفۃ ، بیروت، لبنان ، ۱۰؍۸۲۔۸۵)
اس موضوع پر مولانا سید جلال الدین عمری نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے ۔ انہوںنے ممانعت اورجواز دونوں پر دلالت کرنے والی احادیث نقل کی ہیں ، ان کی توجیہ کے سلسلے میں علماء کی آراءذکر کی ہیں۔ آخر میں لکھا ہے : ’’اصل بات یہ ہے کہ کھڑے ہوکر کھانے پینے میں جلد بازی اورعجلت کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ یہ طریقہ متانت اورشائستگی سے ہٹا ہوا ہے ۔ اس میں بعض اوقات دوسروں کا حق مارنے کا جذبہ بھی کام کرتا ہے ۔ یہ سب باتیں ناپسندیدہ ہیں ۔ کھڑے کھڑے کھانا پینا طبی نقطۂ نظر سے بھی اچھا نہیں کہا جاسکتا ۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات اس کی ضرورت پیش آتی ہے ، جیسے مشک یا چھاگل اوپر ٹنکی ہوتی ہو، یا نل کسی اونچی جگہ نصب ہواوران سے براہِ راست پانی پینا پڑے ۔ اسی طرح کبھی جگہ کی کمی ہوتی ہے یا بیٹھنے کا معقول انتظام نہیں ہوتا۔ کبھی وقت کی کمی ہوتی ہے اورآدمی کھڑے کھڑے کھاپی کر جلد فارغ ہوناچاہتا ہے اوربھی اسباب اس کے ہوسکتے ہیں ۔ اسلام نے ان سب باتوں کی رعایت کرتے ہوئے اس معاملے میں سختی نہیں کی ہے ، گنجائش رکھی ہے ۔‘‘(صحت ومرض اوراسلامی تعلیمات ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی ،۲۰۱۵، ص ۱۰۷)
حج پر قادر شخص کا دوسرے کوحج کرانا
سوال: زید ہرلحاظ سے صاحبِ استطاعت ہے ۔ اس پر حج فرض ہے اوروہ سفرِ حج پر قادر بھی ہے، لیکن وہ اپنے عوض اپنی بیوی کو، جس پر حج فرض نہیں ہے، اپنے پیسے سے محرم کے ذریعے حج کروانا چاہتا ہے ۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب: ہر مسلمان پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جوچیزیں فرض کی گئی ہیں ان میں سے ایک حج ہے ۔ حج ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض ہے ۔ صاحبِ استطاعت کا مطلب یہ ہے کہ وہ مصارفِ سفر برداشت کرسکے اوراتنا مال چھوڑ کر جائے جواس کی واپسی تک اس کے زیر کفالتِ افراد کی ضرور یا ت کے لیے کافی ہو ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا (آل عمران:۹۷)
’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جواس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے ۔‘‘
اگر کسی شخص نے حج پر قدرت کے باوجود حج نہیں کیا ، یہاں تک کہ وہ سفر سے معذور ہوگیا ، یا اس کا انتقال ہوگیا توحج بدل کے طور پر دوسرا شخص اس کی طرف سے حج کرسکتا ہے ۔
ایک عورت خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئی اوراس نے سوال کیا : میری ماں نے حج کرنے نذر مانی تھی ، لیکن وہ حج نہ کرسکی ،یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوگیا ، کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا :ہاں اس کی طرف سے حج کرلو۔ ( بخاری: ۱۸۵۲، مسلم :۱۱۴۹)
لیکن اگر کسی شخص پر حج فرض ہو اوروہ اس کی ادائیگی پر قادر بھی ہو ، اس کے باوجود وہ خود حج نہ کرے ، بلکہ اپنی جگہ کسی اور کوبھیج دے تواس صاحبِ استطاعت شخص کا حج ادا نہ ہوگا اوروہ گنہ گار ہوگا۔
میراث کاایک مسئلہ
سوال: ایک خاتون کا انتقال ہوا ۔ وہ لاولد تھیں ۔ ان کے شوہر حیات ہیں ۔دیگر رشتے داروں میں ان کے چار بھائی اورایک بہن ہیں ۔ براہ کرام مطلع فرمائیں ۔ ان کی میراث کیسے تقسیم ہوگی؟
جواب: قرآن کریم میں صراحت ہے کہ کسی خاتون کا انتقال ہو، وہ لاولد ہو اوراس کا شوہر زندہ ہوتو شوہر کونصف میراث ملے گی (النساء:۱۲) بقیہ نصف میراث بھائیوں بہنوں کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر بھائی کوبہن کے مقابلے میں دوگنا ملے گا ۔ صورت مسئولہ میں بقیہ میراث کے نوحصے کی جائیں گے ۔ ہر بھائی کو دو دو حصے دیے جائیں گے اوربہن کوایک حصہ۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2016