رسائل ومسائل

 جہری اور سرّی نمازوں کی حکمت

سوال :

ظہر اورعصر کی نمازوں میں قراء ت خاموشی سے کی جاتی ہے ، جب کہ فجر ، مغرب اورعشاء کی نمازوں میں بلند آواز سے ۔ اس کی کیا حکمت ہے ؟

جواب:

نماز ادا کرنے کا اجمالی حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تفصیلی احکام بیان کیے ہیں ۔ آپ ؐ نے نماز اد ا کرنے کا طریقہ بھی تفصیل سے بتایا ہے اورخودبھی نمازپڑھ کر دکھائی ہے ۔ حضرت مالک بن حویرث ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضـرہوا ۔ ہم لوگ بیس دن ٹھہرے اورآپ سے دین سیکھتے رہے۔ جب واپس اپنے گھروں کوجانے لگے تو آپ ؐ نے ہمیں مختلف ہدایات دیں، جن میں یہ بھی فرمایا :

صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِی اُصَلِّی (بخاری:۶۳۱)

’’ جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ، اسی طرح نماز پڑھنا‘‘

نماز فجر میں ، اسی طرح مغرب اورعشا ء کی ابتدائی دو رکعتوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے قراء ت کرتے تھے ۔ صحابہ کرام نے بھی اس پر عمل کیا اور اسی پر اب تک عمل چلا آرہا ہے ۔ اس کی کیا حکمت ہے؟ احادیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں چلتا۔ حضرت ابوہریرہؓ کے کسی شاگرد نے ان سے سوال کیا کہ کیا ہررکعت میں قرآن پڑھا جاتا ہے ؟ اگر ہاں توبعض رکعتوں میں بلند آواز سے اوربعض میں بغیر آواز کے کیوں تلاوت کی جاتی ہے ؟ انہوںنے جواب دیا :

فِیْ کُلِّ صَلاَۃٍ یُقْرَاُ ، فَمَا اَسْمَعَنَا رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَسْمَعْنَاکُمْ ، وَمَا اَخْفٰی عَنَّا اَخْفَیْنَا عَنْکُمْ (بخاری :۷۷۲ ، مسلم: ۳۹۶)

’’نماز (کی ہر رکعت) میں قراء ت کی جاتی ہے ۔ جن رکعتوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی بلند آواز سے قراء ت کی کہ لوگ سن لیں، ان میں ہم بھی بلند آواز سے قراء ت کرتے ہیں اورجن رکعتوں میں بغیر آواز کے قراء ت کی ہے ان میں ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں‘‘۔

بعـض علما ء نے ظہر وعصر کی نمازوں میں خاموشی سے قراء ت کرنے اوردیگر نمازوں میں جہری قراء ت کرنے کی حکمت بیان کی ہے ۔ شاہ ولی اللہ ؒنے لکھا ہے :

السرّ فی مخافتۃ الظہر والعصر أن النہار مظنّۃ الصخب واللغط فی الأسواق والدور، وأما غیرہما فوقت ہدوّ الأ صوات والجہر، والجہر أقرب الیٰ تذکر القوم واتعاظہم (حجۃ اللہ البالغۃ ، دار الجیل القاہرۃ ، ۲۰۰۵ء ۲/۱۵)

’’ظہر اور عصر میں خاموشی سے قراء ت کرنے کی حکمت یہ ہے کہ دن میں بازاروں اورگھروں میں شورو شغب رہتا ہے ، جب کہ دیگر نمازوں کے اوقات میں ماحول پر سکون رہتا ہے ۔ اس لیے ان میں جہری قراء ت کا حکم دیا گیا ۔ تاکہ قرآن سن کرلوگوں کی تذکیر ہواوروہ عبرت ونصیحت حاصل کریں ‘‘۔

بہر حال نماز کا اجمالی حکم تو قرآن کریم میںموجود ہے ، لیکن اس کے تفصیلی احکام اور طریقۂ ادا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ۔ اس لیے ہمیں ٹھیک اسی طرح نماز ادا کرنی ہے  جیسے آپ ادا کرتے تھے۔

مشکوک آمدنی پر قطع تعلقی

سوال :

مرکز قومی بحث میں رقم لگانا کیسا ہے ؟ طریق کار یہ ہے کہ لوگ اپنے پیسے جمع کراتے ہیں اورایک لاکھ پر ۱۰۰۰؍۱۱۰۰ روپے ماہانہ کے حساب سے منافع وصول کرتے ہیں اور رقم بھی محفوظ رہتی ہے ۔

میرے کئی جاننے والے ہیں جنہوں نے اپنی رقم قومی بچت کے مرکز میں رکھی ہے ۔ اکثر آسودہ حال ہیں ۔ذاتی مکان ہے ، ۵۰ ہزار روپے ماہانہ پنشن بھی ملتی ہے ۔ مکان کا ایک حصہ کرایے پر بھی دیا ہوا ہے ، خرچ برائے نام ہے ۔ میں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی ایسے شخص کے گھر سے جس کی رقم مرکز قومی بچت میں لگی ہو  اورمجھے پتا چل جائے تومیں اس کے گھر سے پانی پینا بھی اپنے لیے ناجائز سمجھتا ہوں ، البتہ گھروالوں کو اس بارے میں منع نہیں کیا ہے اورکہا ہے کہ جومہمان آئے اس کی مناسب خاطر تواضع کی جائے ، البتہ وہ میرے گھر میں کوئی چیز نہ لائے ۔

کیا میرا یہ فیصلہ درست ہے ؟ دین اسلام کی روشنی میں ایسا کرنا کیسا ہے؟ کئی علماء جوازکا بھی فتویٰ دیتے ہیں اورکچھ کہتے ہیں کہ جب حکومت دیتی ہے تو ہم کیوںنہ لیں؟ بڑے بڑےپڑھے لکھے لوگ ایسا کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں ۔ میری اُلجھن دور فرمادیں۔

جواب:

کسی جمع شدہ رقم پر متعین مقدار میں منافع حاصل کرنا ’ربا‘ (سود ) ہے، جسے اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن کریم میں سودی لین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان کیا گیا ہے ۔(البقرۃ: ۲۷۸۔۲۷۹) اورحدیث میں ہے کہ سودی کاروبار کرنے والوں اوراس میں معاونت کرنے والوں ، دونوں پراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ۔ (مسلم:۱۵۹۷، ۱۵۹۸) اس لیے اصولی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ سودی کاروبار اور اس میں ملوّ ث افراد کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

البتہ سوال یہ ہے کہ  اگر کوئی شخص سود خوری کا ارتکاب کررہا ہوتو کیا اس سے سماجی تعلقات  رکھے جاسکتے ہیں ؟ اس کی تقریبات میں شریک ہوا جاسکتا ہے ؟ اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے ؟ اور اگروہ کوئی تحفہ دے تواسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟

اس کا فیصلہ کرتے وقت دین کی مجموعی تعلیمات اور شرعی مصلحت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ ایک طرف اہل خاندان اورسماج میں رہنےوالے دیگر افراد سے تعلقات رکھنے کاحکم دیا گیا ہے اوران سے قطع تعلق سے روکا گیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے ۔ آپؐ نے نہ صرف اپنے خاندان والوں، اوردیگر اہل ایمان سے خوش گوار تعلقات رکھے، بلکہ سماج کے دیگر غیر مسلم افراد اور غیر مسلم حکم رانوں سے بھی روابط رکھے اور ان کے ساتھ تعلقات میں خوش گواری کے لیے انہیں ہدایا بھیجے اوران کے ہدایا قبول کیے ۔ دوسری طرف حرام مال اورحرام کولات ومشروبات سے احتراز کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس لیے فقہا ء نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اگر کسی شخص کی کل آمدنی یا اس کا زیادہ تر حصہ سود پر مبنی ہوتو اس کی دعوت یا اس سے کوئی تحفہ قبول کرنا جائزنہیں ، لیکن اگرایسا نہ ہو اوراس کی زیادہ تر آمدنی حلال ذرائع سے ہوتو اس کی دعوت یا اس کا تحفہ قبول کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں ہے ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) نے فتاوی عالم گیری کے حوالے سے لکھا ہے:

’’اگر معلوم ہوکہ دعوت سودی پیسے سے کی جارہی ہے تب تو  دعوت میں شریک ہونا قطعاً جائز نہیں ہے اوراگر دعوت کا حلال پیسےسے ہونا معلوم ہوتو دعوت میں شرکت جائزہےاور متعین طورپر اس کا علم نہ ہو تو پھر اس بات کا اعتبار ہوگا کہ اس کی آمدنی کا غالب ذریعہ کیا ہے ؟ اگر غالب حصہ حرام ہے تو دعوت میں شرکت درست نہیں اورغالب حصہ حلال ہے تو دعوت میںشرکت جائز ہے‘‘ ۔

(کتاب الفتاویٰ ، زمزم پبلشرز ، کراچی : ۶؍۲۰۱،بہ حوالہ الفتاویٰ الہندیۃ: ۵؍۳۴۳)

علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ جولوگ سودی کاروبار اور لین دین میں ملوّث ہوں ان کی دعوتوں میں شرکت کرنے سے سماج کے سربر آوردہ لوگوں اورخاص طور پر علماء کو احتراز کرنا چاہیے ، تاکہ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہواور دو سروں تک درست پیغام جائے ۔

بہر حال اس معاملے میں دینی مصلحت اور شرعی تقاضے کو پیش نظر رکھنا چاہیے اوراس کے مطابق جوبات مناسب لگے اس پرعمل کرنا چاہیے۔

وراثت کا مسئلہ

سوال :

ہمارے ایک عزیز کا ابھی انتقال ہوا ہے ۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے ۔ صرف بیوی ہے ۔ اس کے علاوہ حقیقی بھائیوں کی اولاد میں سے دو بھتیجے اورنوبھتیجیاں ہیں۔ اورباپ شریک سوتیلے بھائیوں کی اولاد میں سے آٹھ بھتیجے اورچار بھتیجیاں ہیں ۔ ان کے درمیان میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟

جواب:

اولاد نہ ہو نے کی صورت میں بیوی کا حصہ چوتھائی (۴؍۱) ۔ (النساء: )

بقیہ حقیقی بھتیجوں کے درمیان تقسیم ہوگا ۔ بھتیجیوں کو کچھ نہ ملے گا ۔ اسی طرح حقیقی بھتیجوں کی موجودگی میں سوتیلے بھتیجوں کوبھی کچھ نہ ملےگا۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2017

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223