رسائل و مسائل

طلاق حسن

سوال:  میں نے اپنی بیوی کو ایک ایک مہینے کے وقفے سے تین طلاقیں دیں۔ کیا میرا نکاح بالکل ختم ہو گیا ہے یا ابھی باقی ہے؟

جواب:  اسلامی شریعت میں شوہر کو زیادہ سے زیادہ تین طلاقیں دینے کا حق دیا گیا ہے۔ دو رجعی طلاق دینے تک رجوع کا حق رہتا ہے۔ تیسری طلاق دیتے ہی نکاح ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

الطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ(البقرۃ:  ۲۲۹)

’’طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے۔‘‘

طلاق کے دو طریقے بیان کیے گئے ہیں:   ایک طلاق ِ سنت،دوسرا طلاق ِ بدعت۔ طلاق ِ سنت کی دو ذیلی قسمیں ہیں:  طلاق ِ احسن اور طلاق حسن۔ طلاق احسن یہ ہے کہ شوہر عورت کو حالتِ طہر میں (جب وہ حیض سے پاک ہو) جب کہ اس نے ہم بستری نہ کی ہو، ایک طلاق رجعی دے اور عدت گزر جانے دے۔ عدت پوری ہوتے ہی ایک طلاق بائن پڑجائے گی اور علیٰحدگی ہو جائے گی۔ طلاق ِحسن یہ ہے کہ شوہر ایک طلاق حالتِ طہر میں دے، پھر حیض کے بعد جب عورت دوبارہ حالتِ طہر میں ہو تو دوسری طلاق دے، اسی طرح حالتِ طہر میں تیسری طلاق دے۔ اس میں بھی شرط ہے کہ اس مدت میں عورت کے ساتھ ہم بستری نہ کی ہو۔ طلاق ِ بدعت یہ ہے کہ شوہر یک بارگی دو یا تین طلاقیں دےیا حیض کی حالت میں طلاق دے یا اس پاکی کی حالت میں طلاق دے جس میں ہم بستری کر چکا ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ طلاق کا صحیح اور قرآن و سنت سے ثابت شدہ طریقہ صرف طلاق ِ احسن ہے، یعنی پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ اگر آدمی نے بیوی کو اپنی زندگی سے الگ کرنے کا تہیہ ہی کر لیا ہے تو جو کام ایک طلاق سے ہو جاتا ہو اسے انجام دینے کے لیے بہ یک وقت یا الگ الگ تین طلاقیں کیوں دی جائیں۔ طلاق احسن کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر دونوں دوبارہ ازدواجی زندگی گزارنا چاہیں تو اس کی گنجائش رہتی ہے۔

بہرحال اگر کسی نے ایک ایک ماہ کے وقفے سے تین طلاقیں دی ہوں تو نکاح بالکل ختم ہو جاتا ہے اور دوبارہ رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

بھائیوں کے درمیان زمین جائیداد کا بٹوارہ

سوال: تقسیمِ میراث کے ایک مسئلے میں آپ سے مشورہ درکار ہے۔ براہِ کرم شرعی رہ نمائی فرمائیں۔

جناب کمال احمد کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی میں ہی تمام بچوں کی شادیاں کر دی تھیں۔ تینوں بیٹے ساتھ رہتے تھے۔ اسی دوران میں انھوں نے دادا سے ملی جائیداد کے علاوہ ایک گھر اور ایک کھیت خریدا۔  پھر چھوٹا بھائی اخلاق احمد حصولِ تعلیم کی غرض سے باہر چلا گیا۔ وہ سال میں دو بار چھٹیوں میں گھر آتا تھا اور گھریلو کام کاج میں بڑے بھائیوں کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ اس دوران میں دونوں بڑے بھائیوں نے دو کھیت خریدے۔یہ چاروں جائیدادیں انھوں نے اپنے باپ کے نام سے لکھوائیں۔

اخلاق احمد نے اپنی تعلیم مکمل کی، جس کے اخراجات کچھ ٹیوشن پڑھا کر پورے کیے اور کچھ بڑے بھائیوں سے لیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعدوہ باہر ہی کرایہ پر رہنے لگا اور کرایے کی جگہ میں دکان کی۔ آج تک مکان اور دکان دونوں کا کرایہ ادا کر رہا ہے، جب کہ دونوں بڑے بھائیوں کی رہائش اور دکان دونوں اپنے آبائی گھروں پر ہیں، جس کا کوئی کرایہ انھیں نہیں دینا پڑتا۔

اخلاق احمد اپنی آمدنی میں سے اپنا خرچ نکالنے کے بعد باقی رقم اپنی ماں کے ہاتھ میں دے دیتا تھا۔اپنی شادی کے بعد اس نے ماں کو دی جانے والی رقم کم کر دی۔ اس نے ایک زمین خرید لی، جس میں دونوں بڑے بھائیوں نے کچھ بھی پیسہ نہیں دیا۔ اس زمین کی رجسٹری اس نے اپنے نام سے ہی کرا لی۔ ۲۰۱۵ء میں اس کی ماں کا اور دو برس کے بعد اس کے باپ کمال احمد صاحب کا بھی انتقال ہو گیا۔ ۲۰۱۷ء میں اخلاق احمد نے اپنی خریدی ہوئی زمین فروخت کر کے اس میں کچھ رقم اپنے پاس سے ملا کر اور کچھ قرض لے کر ایک دوسری زمین خریدی،جس کا قرض مکمل طور پر ابھی ادا نہیں ہوا ہے۔ اب وراثت کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے :

تینوں بہنوں (کمال احمد صاحب کی تینوں لڑکیوں) کو اس جائیداد میں حصہ دار سمجھا گیا جو کمال احمد صاحب کو اپنے والد سے ملی تھیں، بھائیوں کے ذریعے خریدی گئی جائیداد میں بہنوں کو کوئی حصہ نہیں دیا گیا۔ تینوں بھائیوں کے درمیان تقسیم جائیداد میں دو رائیں بنیں:

۱۔ جب تک تینوں بھائی ساتھ میں رہتے تھے، تب تک کی جائیداد میں تینوں کا برابر حصہ ہے۔ دونوں بھائیوں کے ذریعےخریدی گئی زمین میں اخلاق احمد کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اخلاق احمد کے ذریعے خریدی گئی زمین میں دونوں بھائیوں  کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

۲۔ اب تک کی ساری جائیدادمیں تینوں بھائیوں کا برابر حصہ ہے، چاہے جس نے خریدی ہو۔

اسی دوسری رائے کو مناسب سمجھ کر تینوں بھائیوں میں جائیداد تقسیم کی گئی، یعنی اب تک کی ساری جائیداد میں تینوں بھائیوں کو برابر کا حصہ دار سمجھا گیا۔

اس تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :

کیا میراث کی یہ تقسیم صحیح ہے؟ اگر نہیں تو صحیح طریقے کی رہ نمائی فرمائیں۔

اخلاق احمد کے اوپر زمین کا باقی قرض وہ تنہا ادا کرے گا یا تینوں بھائی برابر ادا کریں گے؟

اخلاق احمد کے ذریعے ادا کی گئی دس سال کی کرائے کی رقم میں کیا دونوں بڑے بھائیوں سے کچھ لیا جائے گا؟

مہربانی کر کے اس مسئلے میں رہ نمائی فرمائیں؟

جواب:  پورا کیس پڑھ کر درج ذیل باتیں سمجھ میں آتی ہیں:

۱۔ وراثت کا تعلق اصل مرنے والے کی ملکیت سے ہے۔ جو چیزیں بھی اس کی ملکیت میں ہیں، وہ خواہ کم ہوں یا زیادہ، اس کے مرنے کے بعد شریعت کی طرف سے مقرر کردہ  وارثوں  میں تقسیم ہوں گی۔

کمال صاحب کے تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔ کمال صاحب کی ملکیت میں جتنی چیزیں تھیں،خواہ وہ انھیں اپنے والد سے ملی ہوں یا انھوں نے خود کمایا ہو، سب میں ان کے لڑکوں اور لڑکیوں کا حصہ ہوگا۔ آپ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ کمال صاحب کی لڑکیوں کو صرف اس جائیداد میں حصہ دار سمجھا گیا جو کمال صاحب کو اپنے والد سے ملی تھیں۔بہ ظاہر یہ ممکن نہیں ہے کہ موروثہ جائیدادوں کے علاوہ کمال صاحب کی ملکیت میں کچھ نہ ہو۔ بہرحال لڑکیوں کو موروثہ جائیداد کے علاوہ کمال صاحب کی ملکیت کی دوسری چیزوں میں بھی حصے دار بنانا چاہیے۔ تمام مملوکہ چیزوں کے نو (۹)حصے کر کے ایک ایک حصہ لڑکی اور دو دو حصے ہر لڑکے کو دینا چاہیے۔

۲۔ باپ کی زندگی میں لڑکے جو کچھ کماتے ہیں اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں: (۱) وہ جو کچھ کمائیں باپ کے حوالے کر دیں۔(۲) تجارت یا دوسری مملوکہ چیزوں میں باپ کے ساتھ شرکت اختیار کریں۔(۳)اپنی کمائی کی ملکیت اپنے پاس علیٰحدہ رکھیں۔ شریعت میں مذکورہ بالا تینوں چیزوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کی اجازت ہے۔صورتِ مسؤلہ میں تینوں بیٹوں نے اپنی جتنی کمائی کا مالک اپنے باپ کو بنا دیا ہے، وہ باپ کی ملکیت تصور کی جائیں گی اور ان کی میراث میں تمام مستحقین کی درمیان تقسیم ہوں گے۔ چاروں جائیدادوں کو کمال صاحب کے نام لکھوایا گیا۔ اس سے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔

۳۔ مشترکہ خاندان کے افراد ایک دوسرے پر جو کچھ خرچ کریں گے، بعد میں اس کا حساب کرنا اور اسے وصول کرنا صحیح نہیں ہے۔ چناں چہ دو نوں بھائیوں نے تیسرے بھائی کی تعلیم پر جو کچھ خرچ کیا،یا تیسرے بھائی نے اپنی آمدنی میں سے جو کچھ ماں کو دیا،اس کا بعد میں حساب کر کے واپس مانگنا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح تیسرے بھائی اخلاق احمدکئی سال تک گھر سے باہر رہے اور انھوں نے رہائش اور دکان کرایے پر حاصل کی، جب کہ دو بھائی گھر پر رہے، جس کی وجہ سے انھیں رہائش اور دکان کا کرایہ ادا نہیں کرنا پڑا، اس بنا پر میراث تقسیم ہوتے وقت اخلاق احمد کا اپنے بھائیوں سے کرایے کی رقم کا مطالبہ کرنا درست نہیں معلوم ہوتا، اس لیے کہ اخلاق احمد کا باہر رہنا اپنے فیصلے اور مرضی پر ہوا ہوگا، بھائیوں کے کہنے پر یا ان کی مشورے سے نہیں ہوا ہوگا۔

۴۔ جائیدادوں کی تقسیم کی جو دو صورتیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے پہلی صورت زیادہ موزوں لگ رہی ہے کہ باپ کے ذریعے خریدی گئی  دونوں جائیدادوں میں تینوں بھائیوں کا برابر حصہ ہو، دونوں بھائیوں کے ذریعے خریدی گئی جائیداد ابرار احمد اور اشفاق احمد کے درمیان برابر تقسیم ہو جائے اور اخلاق احمد کے ذریعے خریدی گئی جائیداد میں ان کے دونوں بھائیوں کا کوئی حصہ نہ ہو۔ لیکن اگر دوسری صورت پر تینوں بھائیوں کا اتفاق ہو گیا ہے کہ کل جائیداد یں تینوں میں برابر تقسیم ہوں تو اخلاق احمد کے اوپر زمین کی خریداری میں جو قرض باقی ہے، اس کی ادائیگی میں بھی تینوں کو برابر کا شریک ہونا چاہیے۔

۵۔تقسیم میراث میں اگر تینوں بھائی کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں تو ان شاء اللہ آپس میں اختلاف نہیں ہوگا اور خوش اسلوبی سے تمام معاملات حل ہو جائیں گے۔

کیا وراثت میں بہو کا حصہ ہوتا ہے؟

سوال: میرے والدین کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس کے بعد بڑے بھائی کا بھی انتقال ہو گیا ہے۔ ہم تین بھائی،تین بہنیں تھیں۔ اب دو بھائی اور تین بہنیں حیات ہیں۔ بڑے بھائی کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ صرف بیوہ زندہ ہیں۔

برائے کرم واضح فرمائیں کہ مرحوم بھائی کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ ان کی کل پراپرٹی ان کی بیوہ کو ملے گی یا ان کے بھائیوں اور بہنوں کا بھی حصہ ہوگا؟ ان کی بیوہ اپنے سسر کی پراپرٹی میں بھی حصہ مانگ رہی ہیں۔کیا شریعت ِ اسلامی میں بہو مستحق ِوراثت ہے؟

جواب:  (1)            والدین کے انتقال کے وقت ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں زندہ تھیں۔ ان کے درمیان وراثت اس طرح تقسیم ہوگی کہ کل پراپرٹی کے نو(۹) حصے کیے جائیں گے۔ دو دو حصے ہر بیٹے اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو ملے گا۔بہ الفاظ دیگر ہر بیٹے کا حصہ 22.2% اور ہر بیٹی کا حصہ 11.1% ہوگا۔

(2)          بڑے بھائی کے ورثہ میں بیوہ، دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ اولاد نہ ہونے کی صورت میں بیوہ کو شوہر کے مالِ وراثت میں سے ایک چوتھائی ملے گا۔ باقی مال بھائیوں اور بہنوں کے درمیان 2.1 کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔ بھائی کو بہن کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔فی صد میں تقسیم کے اعتبار سے بیوی کا حصہ 25%، ہر بھائی کا حصہ 21.4% اور ہر بہن کا حصہ 10.7% ہوگا۔

(3)          بہو کو سسر کی وراثت میں براہ راست حصہ نہیں ملتا۔ البتہ اس کے شوہر کا اپنے باپ کی وراثت میں سے جو حصہ بنتا ہے اور اس کے علاوہ  شوہر نے خود  اپنا جو بھی مال ترکے میں چھوڑا ہو،  اس سب کو شوہر کا ترکہ مان کر اس   پورے  کا چوتھائی حصہ (% 25 )وہ پائے گی۔

(4)          بڑے بھائی کو اپنے باپ کی وراثت میں سے 22% ملا تھا،وہ ان کے ورثہ کے درمیان یوں تقسیم ہوگا:  بیوہ 5.6% ہر بھائی کو 4.8% ہر بہن کو% 2.4۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2024

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau