اسلام دین حق کے ساتھ دین فطرت بھی ہے۔ وہ ہر جگہ اور ہر مقام پر عدل و انصاف کا علمبردار بھی رہا ہے۔ زندگی کے ہرشعبہ ٔ حیات میں حق و صداقت اور سچائی کی طرف رہنمائی بھی کی ہے اور معاشی، معاشرتی کے ساتھ سیاسی، تمدنی اور پھر اس سے آگے بڑھ کر میدان جنگ میں بھی حق وصادقت اور انصاف ہی کا پیامبر ہے۔اسلام نے جنگ کو بھی خاص مقصد و اصول کو ہی سامنے رکھ کر اس کی اجازت دی ہے اور اپنے فوج کو حرصِ و طمع، لالچ، لوٹ کھسوٹ اور ظلم و زیادتی سے ہمیشہ دور رکھا۔
بعث نبوی سے پہلے اور اس کے بعد تک دنیا پر ظالموں اور شہ زوروں کی حکمرانی تھی۔غریب، پس ماندہ اور کچلے ہوئے افراد کو ستانا اور ان پر ظلم و بربریت کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ کسی انسان کی ہمت نہ تھی کہ وہ ظالموں کے خلاف آواز اٹھائے۔آپ ؑ کی نبوت کے بعد بھی ابتداء میں مظلوموں اور محروموں کو صبر کی تلقین کرتے تھے اور انھیں تسلی دیتے تھے کہ یہ مصیبت عارضی ہے۔ابھی ہمارے صبر کے امتحان کا سلسلہ جاری ہے اور مکّہ کے تیرہ سال (13 سال ) اسی کرب میں گزر جاتے ہیں۔مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی ظلم پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں اور دیار غیر میں بھی سکون کی سانس لینا بھی گورا نہیں۔ ایسی صور ت اور حالات میں جہاد کی پہلی آیت نازل ہوئی:
’’اُن لوگوں کو جہاد کی اجازت دی گئی جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر قادر ہے وہ لوگ محض اس بات پر اپنے گھروں سے نکالے گئے کہ وہ کہتے تھے ہمارا رَب اللہ ہے‘‘۔(سورۃ الحج،آیت39)
قتال فی سبیل اللہ کے تعلق سے یہ اولین آیات تھی جو نازل ہوئی۔ مدینہ میں چھوٹی سی ریاست بننے کے بعد ہی یہ حکم آیا کیوں کہ کفار و مشرکین کی شرارتیں ،اذیتیں حد سے بڑھ کر ظلم و ستم، داروسن تک پہنچ گئی۔حکم دیا جارہا ہے کہ جو لوگ دین حق کے مقابلے میں مصلح مزاحمت کرتے ہیں ان کے تلوار کا جواب تلوار سے دو، اس کے بعد ہی جنگ بدر پیش آئی اور پھر جنگ کا مقصد کیا ہے؟مادی اغراض کے لیے ہے اور نا ہی مادی مفاد کے لیے، نہ ظلم وستم کرنے کے لیے، مال و دولت لوٹنے کے لیے بلکہ عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے ہے اور جہاد کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کفار و مشرکین ایمان لے آئیں اور دین حق کے پیرو بن جائیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ دین اسلام خود مختار ہو، اس کی بالا دستی قائم رہے اور زمین پر نظام زندگی کی باگیں و اختیارات صالح افراد کے ہاتھوں میں رہے۔
اسلامی حکومت کا نصب العین قرآن اس طرح بیان کرتا ہے کہ:
’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے ‘‘۔(سورۃ الحج،آیت41)
اور پھر جہاد کی اجازت دینے کے بعد ایک اورجگہ بے بسوں، مظلوموں کی مدد کرنے اللہ کے راستے میںجہاد پر ابھارا گیا:
’’تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے؟جب کہ بے بس مرد عورتیں اور بچے یہ فریاد کرتے ہیں ہمارے پروردگار ! ہم کو اس بستی سے نکال دیجیے جس کے بادشندے ظالم ہیں اور آپ اپنی طرف سے کوئی حامی مدد گار بنا دیجیے‘‘۔(سورۃالنّسا،آیت75)
ان آیتوں سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جہاد کا مقصد خون خرابا نہیں بلکہ کمزور طبقہ پر ظلم و زیادتی اور خون خرابا کو روکنا ہے۔ اللہ کے رسولؑ جو اس دنیا میں فیضانِ رحمت عام کرنے آئے تھے مگر کچھ لوگ اس راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان افراد کو راستے سے ہٹانے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ چناں چہ اللہ کے رسولؑ کو مخاطب کرکے ارشاد ہوتا ہے:
’’آپ ؐاللہ کی راہ میں جہاد کیجیے آپؑ اپنی ذات کے سوا کسی کے ذمہ دارنہیں، البتہ مومنوں کو اس پر آمادہ کیجیے۔ بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے، اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے‘‘۔(سورۃالنّسا،آیت8)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ پر جہاد کی تمام تر ذمہ داری سونپ دی اور آپ ؑ کو گویا سپہ سالار ِ اعظم مقرر فرمایا۔ اللہ کے رسولؑ نے اس فریضے کی ذمہ داری بہ حسن خوبی نبھائی۔ آپؑ نے نہ کسی فوجی درسگاہ میں تربیت پائی تھی اور نہ ہی زمانے جاہلیت کے کسی لڑائی میں زور آزمائی کی تھی لیکن آپؑ نے احساس ذمہ داری ، خدا داد تربیت کی بدولت عظیم کمانڈر کی حیثیت سے دفاعی نظام کو بہت بہتر اور مستحکم انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچایا جو قابل حیرت ہی نہیں بلکہ قابل رشک بھی ہے۔ عہدِ نبویؑ کی جنگیں تاریخ انسانی میں غیر معمولی طور سے ممتاز ہیں۔ا کثر دگنی ، تگنی اور بعض اوقات دس گناہ زیادہ سے مقابلہ ہوا اور قریب قریب ہمیشہ ہی فتح حاصل ہوئی اور چند محلوں پر مشتمل ایک شہری مملکت سے جوآغاز ہوا وہ روزآنہ دو سو چو ہتر(274)مربع میل کی اوسط سے وسعت اختیار کر تی ہے اور دس سال بعد جب نبیؐ انتقال کرگئے تو دس لاکھ سے بھی زیادہ مربع میل کا رقبہ آپؑ کی زیر اقتدار آچکا تھا اور یہ بر عظیم ہند و پاک کے برابر وسیع علاقہ کی فتح ہے۔ اس عظیم الشان فتح کے دوران دشمن کے بمشکل ڈیڑھ سو(150) افراد قتل ہوئے اور اسلامی فوج کا مشکل سے ان دس سال میں ماہانہ ایک سپاہی شہید ہوتا ہے۔
انسانی خون کی یہ عزت تاریخ عالم میں بلا خوف تردید بے نظیر ہے اور دوسرا پہلو جو نظر آتا ہے وہ افواج اور حکام میں اخلاقی تغیر پیدا کرنے کے ساتھ ان میں اسلامی روح دل و دماغ میں اس طرح پیوست کردی کہ ان اثرات سے مفتوحہ علاقہ کے عوام النّاس کی سوچ و فکر اور ذہنیت کو بدل کر رکھ دیا۔ اسلام اس تیزی سے پھیلا کہ آپ ؐ کےوفات کے پندرہ سال (15سال ) بعد ہی تین بر اعظم ایشیاء، آفریقہ اور یورپ تک مدینہ کی حکومت قائم ہوگئی ۔ یہ تمام اور دیگر اُمور آپؐ کی عظمت و حکمت کا مطالعہ کرنے والوں کے دل و دماغ میںانمنٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں اور اہلِ ایمان کے لیے ایمانی روح کی تر وتازگی کا باعث بنتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ مدینہ آنے کے بعد بھی صحابہ ؓ میں خوف کا عالم رہتا تھا ۔ اضطراب اور ایک بے چینی رہتی تھی۔ اللہ کے رسولؐ اور صحابہؓراتوں کو جاگ کر پہرا دیا کرتے تھے ۔ دن میں صحابہ جب کھیتوں کو جاتے تو اپنے ساتھ ہتھیار لے کر جاتے۔
غزوۂ بدر سے پہلے آپؐ نے صحابہؓ کوتربیت اور آس پاس کے جغرافیائی حالات معلوم کرنے کے لیے کئی مہمات میں روانہ کیں اور کئی ایک مہم میں آپؐ بھی شامل تھے۔ صحابہؓ کی فوجی تربیت اس لیے ضروری تھی کہ انھیں حیات نبویؐ اور اس کے بعد کہ بہت سے معرکے طے کرنے تھے۔ فن ِ سپہ گری سے بہت سے صحابہ ؓ نا واقف تھے ۔ آپؐ نے نماز کی صف بندی کی بنیاد پر عسکری صف بندی کی تعلیم دی۔ تیر اندازی اور دوڑوں کے مقابلے کرائے ۔چھوٹے چھوٹے عسکری دستے بنا کر ان کمانڈروں کے تحت سرحدی گشت کے لیے روانہ کیے۔ مختلف افراد کو رات کے وقت پہرے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ سپاہیوں کے لیے شناختی اور اشارات مقررہوئے۔حضورؐ سپاہیوں کو سرحد کے اطراف باربار روانہ کیا تاکہ دشمنوں کی نقل و حرکت معلوم ہوتی رہے اور دوسری بات سپاہی اِرد گرد کے علاقوں کی نشیب و فراز کو جنگی نقطہ ٔ نظر سے اچھی طرح سمجھ لیں۔
مدینہ آنے کے بعد مسلمانوں کے تین دشمن سر ابھارنے لگے۔ یہود ، منافقینِ مدینہ اور مشرکین ِ مکّہ ۔ آپؐ کو ان تینوں سے لڑنا تھا اور پھر ساتھ ہی انصا ر کے بڑے دو قبیلوں اور مہاجرین کی جماعت کے درمیان رشتۂ اخوت استوار کیا۔ آپؐ نے ایسی سیاسی عسکری حکمت عملی اختیار کی کہ دشمن کے نا پاک عزائم کبھی کا میاب نہ ہو سکے۔ آپؐ نے کمال حکمت، سیاسی دانشمندی ، دوراندیشی ، بصیرت اور اندازِ گفتگو کی بدولت پہلے ہی سال ایک دستوری معاہدے پر متفق کرلیا۔ آپؐ نے دفاع کے لیے جو اقدامات کیے ان میں تین پہلو نمایاں ہیں۔ مدینہ کو تحریری آئین عطا کیاجس پر اطراف کے قبائل نے اتفاق کیا۔ اسے’ ’’میشاقِ مدینہ‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ یہ غالباً کسی ریاست کا پہلا دستوری آئین ہے۔اس میثاق کی صرف ان شقوںکا یہاں ذکر کیا جاتا ہے جو دفاع سے خاص تعلق رکھتی ہیں:
٭ مدینہ میں جو نیا معاشرہ آپؐ نے منظم فرمایا اس کے لیے خدا کی حاکمیت اور شریعت کے قانون کو اساسی یعنی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
٭ سیاسی ، قانونی اور عدالتی لحاظ سے آخری اختیارات آپؐ کے ہاتھ میں ہوںگے۔ اختلافات کی صورت میں معاملہ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
٭ مدینہ ایک متحد ہ طاقت بن گئی ۔ آپؐ کی اجازت کے بغیر کوئی فریق جنگ کا اعلان نہیں کرے گا ۔ قریش اور ان کے خلیفوں کی مدد نہ کی جائے گی ۔
٭ جب مسلمان جہاد میں مصروف ہوں تو دوسرا فریق کسی سے علٰحدہ صلح یا معاہدہ نہیں کرے گا۔
٭ اس دستاویز میں شامل فریق یثرب یعنی مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
حیرت انگیز تدبر ہے کہ مخالفانہ رجحانات کے موجود ہونے کے باوجود اور مسلمان اقلیت میں ہونے پر بھی آپؐ نے غیر مسلم اکثریت سے ایسی دستاویزمنوائی۔
دوسرا پہلو امور خانہ سے متعلق ہے جو آپؐ نے اپنے ہاتھ میں لیا اور سفارتی تعلقات کے ذریعے اطراف کے علاقوں میں مدینہ کا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کیا۔
تیسرا پہلو سپاہ کی عسکری ، تربیت اور مختلف عہدوں کے نئے کمانڈروں اور افسروں کو تیار کرنا تھا۔ معرکۂ بد ر سے پہلے سرحدی گشت اور اس کی حفاظت کے لیے سات آٹھ نمایاں مہمات روانہ کیں۔ اہل مکہ نے منافقوں کے سردار عبدا للہ بن ابی کو خط لکھا کہ تم نے مسلمانوں کو قتل نہ کیا۔ مدینہ سے نہ نکالا تو ہم مدینہ پر چڑھائی کریں گے۔ یہ دراصل کافروں کی طرف سے پہلا اعلان جنگ تھا جس کا سلسلہ قیامت تک ختم ہونے والا نہیں۔ اہل مکہ کا خط ملنے کے بعد رئیس المنافین نے مسلمانوں کے خلاف جنگ پر غور کرنا شروع کیا۔
آپؐ کو اطلاع ہوئی تو آپؐ نے سمجھا یا کہ تمہارے اپنے قبیلے کے لوگ اسلام لا چکے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے صف میں کھڑے ہوں گے۔ کیا تم اپنے عزیز و اقارب کو نقصان پہنچاؤ گے؟آپؐ کے سمجھانے سے یہ فتنہ دب گیا۔مدینہ کے فتنوں کا سدباب کرکے تمام اہل مدینہ کو جوڑ کر معاہدے کا پابند بنایا۔ در حقیقت آپؐ نے مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کو بالکل واضح کر دیا۔
جنگوں میں صفوں کی ترتیب کی بڑی اہمیت ہے۔ پہلے عربوں میںلڑائی کے دوران صف بندی کا رواج نہیں تھا اور ہجوم کی شکل میں حملہ کرتے تھے لیکن آپؐ نے دفاعی جنگ کے مطابق لشکروں کو ترتیب دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھتے تھے کہ جو ابی حملہ کی جوں ہی ضرورت محسوس ہو اس وقت پورا لشکر حملہ کرسکے۔ اس میں کوئی الجھن یا تاخیر ہونے نہ پائے۔ تیر سے صفوں کو سیدھی کرتے۔ ڈسپلن کے سختی کے ساتھ پابند تھے۔ سپہ سالار کی اجازت کے بغیر کسی کو حرکت کی اجازت نہیں ہوتی ۔ امیر کے حکم سے پہلے تیر پھینکنے یا قدم بڑھانے یا تیر کو سامنے کی طرف تان لینے کو سختی سے منع فرماتے:
’’اللہ نے مسلمانوں کی تعریف فرمائی ہے کہ وہ لوگ اللہ کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں‘‘۔(سورۃ الصف،آیت4)
آپؐ نے میدان ِ جنگ اور دوران جنگ میں ایسے اصول و قوانین بنائے کہ جس کی مثال دنیا کے کسی بھی دور میں نہیں ملے گی اور نہ ہی آج کے ترقی پسند جدید تہذیب میں مل سکتی ہے۔آپؐ کا ارشاد گرامی ہے میں اخلاقی تعلیمات کو مکمل کرنے آیا ہوں۔ اس کا مکمل جیتا جاگتا ثبوت حالت جنگ میں الفت کا درس دینا ہے جو اسلامی تعلیمات کی عکاسی اس اخلاق کی شفافیت کا ایک عملی ثبوت فراہم کرتی ہے۔دشمن کے علاقہ میں داخل ہونا تو کسی بچے پر ہاتھ نہ اٹھانا، کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھنا، کسی بوڑھے پر ہاتھ نہ اٹھانا، کسی مریض یا زخمی پر ہاتھ نہ اٹھانا،کوئی پھلدار درخت نہ کاٹنا، کوئی دودھ دینے والے جانور کو نہ ذبح کرنا، کسی آبادی کو کھنڈر نہ بنانا، پس ان ہی لوگوں سے جنگ کرنا جو تم سے جنگ کریں اور جو جنگ میں حصہ نہ لیں ان سے نہ لڑنا۔ راستے میں کوئی عبادت گاہ ملے تو اس کو مت چھیڑنا۔ بوڑھوں ، معذوروں، تارک دنیا، رہبانوں اور مجاوروںکو قتل سے منع کردیا۔ کسی کی زبا ن پر کلمہ ’’لَا اِلٰہ اِ اللہ‘‘ آئے تو قتل سے بعض رہنا۔ دشمن کے مقتولین کے لاشوں کی بے حرمتی نہ کی جائے۔ ان کی ناک اور کان کاٹ کر چہروں کو نہ بگاڑا جائے۔ یہ وہ اخلاقی تعلیمات ہیں جو آج کہ جدید ترین دور کے ترقی پذیر ممالک کے ہاں بھی اس کا تصور نہیں ۔
جنگ بدر
حق کی حمایت میں دین اسلام کی خاطر رضائے الٰہی کے لیے لڑی جانے والی پہلی جنگ غزوۂ بد ر میں آپؐ نے اگلی صف میں شمشیر چلانے والے اور نیزہ باز افراد کو رکھا تھا۔ تیر انداز پچھلی صف میں تھے۔ دونوں پہلوں کو ترچھی ترتیب دی گئی تاکہ دشمن برتری عددی طاقت سے فائدہ اٹھا کر اسلامی لشکر کو لپیٹ میں نہ لے سکے۔ ایک راستہ لشکر کے عقب میں تھا ۔ اس راستے سے فوج کے اونٹوں پر حملے کے امکانات حفاظت کے لیے متعین کردئیے۔ رفقاء سے فرمایا ’’مکّے نے اپنے جگر پارے تمہارے سامنے لاڈالے ہیں۔‘‘ تین سو (300)سے کچھ زیادہ بے سروسامان توکل اللہ ان کی قوت ، ان کا ایمان ، ان کا صبر و تقویٰ اور اخلاق ان کی تنظیم کی وجہ سے تھی۔ آپؐ کے سامنے معاملہ محض ایک جنگ جیتنے کا نہ تھا بلکہ تحریک اسلامی کا حال، ماضی اور ان کا مستقبل سب کچھ میدان بدر میں سمٹ آیا تھا اور اللہ کے حضور آپؐ نے تاریخی دعا کی تھی جو تمام مادی وسائل کو اختیار کرکے ہر نقطۂ نظر سے تدبر اور حکمت کے بعد اللہ سے مدد مانگی گئی۔ اس کے بعد ہی اللہ نے اپنی نصرت سے سر فراز فرمایا ، کامیابی سے ہمکنار کیا۔
غزوۂ احد
غزوۂ احد میں آپؐ نے سارا معاملہ مشورے کے لیے صحابہؓ کے سامنے رکھا۔ آپؐ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر جنگ کی جائے مگر بہت سے جلیل القدر صحابہؓ نے اختلاف کیا اور وہ چند صحابہؓ جو جنگ بدر میں شرکت نہ کرسکے جہاد کے لیے بیتاب تھے اکثریتی رائے پر آپؐ بھی متفق ہوگئے۔ جا ں نثار صحابہؓ کو کھٹک ہوئی کہ کہیں ان کا یہ اصرار آپؑ کو نا گوار نہ گذرے۔ انھوں نے اپنی رائے واپس لینے کی پیش کش کی ۔ تب تک آپؐ مسلح ہو کر باہر آئے۔آپؐ نے فرمایا ’’نبی جب ہتھیار اُٹھائے تو جائز نہیں کہ دشمن سے فیصلہ کیے بغیرانھیں اتارے‘‘اور تمام تیاری کے ساتھ میدان جنگ میں صف بندی کی اور ایک درّے کی نگرانی(جو پشت پر تھا) کے لیے پچاس تیر اندازوں کو مقرر کیا جن کی کمان حضرت عبد اللہ بن خبیرؓ کے سپرد تھی۔ آپؐ نے امیر دستہ کو حکم دیا ہم کسی بھی صورتحال سے دو چار ہو جائیں تم لوگ اس درّے کو کسی حال میں نہ چھوڑنا۔ تاریخ کتب میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ ہم مشرکین پر غالب آجائیں یا وہ ہم پرغلبہ پالیں تب بھی مددکے لیے نہ آنا۔ اگر تم دیکھو کہ ہماری بوٹیاں پرندے کے ذریعے نوچے جارہے ہیں تو بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹنا۔
اتنی زبردست سخت وارننگ دی گئی جس سے درّے کی اہمیت اس کی حفاظت جنگی الفاظ نظرسے کس قدر اہم تھا اس سے اندازہ ہوتا ہے۔ آپؐ کی دور اندیشی ، جنگی بصیرت کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ آپؐ کو شاید اس بات کا قوی اندازہ تھا کہ قریش پیچھے سے حملہ نہ کرسکے لیکن اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اسلامی لشکر کو شدیدنقصان اٹھانا پڑا۔ اسی درّے کی طرف سے خالد بن ولید، عکرمہ بن ابو جہل کے نا گہانی حملہ سے لشکر اسلامی میں اضطراب اور بھگدڑمچ گئی۔
لشکر اسلامی کے بہت سے جانباز شہید ہوگئے۔ ایسے وقت میں بھی آپؐ میدان جنگ میں ڈٹے رہے۔ آپؐ کے پائے ثبات اور قدم استقلال میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ آپؐ کا قدم ایک بالشت بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹا۔ آپؐ بنفس نفیس دشمن پر مسلسل تیر انداز سنگ باری فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ دشمن آپؐ کے پاس سے ہٹ گئے۔ دشمن کو آپؐ کے سامنے آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اس عالم اضطراب میں چودہ(14)ا صحاب آپؐ کو اپنی حفاظت میں لے لیا جن میں سات مہاجرین اور سات انصار تھے اور زیاد بن سَکَنؓہی کا قصہ ہے کہ آپؐ کی حفاظت میں شہید ہوتے وقت انھوں نے اپنے رخسار قدم مبارک سے لگا دئیے۔
آپؐ کا نچلا دانت شہید ہوا اور نچلا ہونٹ شدید زخمی، زرہ پہننے کی وجہ سے تکلیف بڑھ گئی ۔ا س کے بوجھ کی وجہ سے گڑھے میں گر گئے۔ حضرت علیؓ نے ہاتھ اور طلحہ ؓ نے کمر سے سہارا دیا۔ جب پہاڑ پر چڑھنے میں خاصی مشکل پیش آئی تو طلحہؓ نے بیٹھ کر پشت کو زینہ بنا دیا۔ آپؐ ان کے کندھوں پر پاؤں رکھ کر پہاڑ پر چڑھے۔ طلحہؓ کی انگلیاں کٹ گئیں۔ ابودجانہ ؓنے بڑی سر فروشی دکھائی۔ ایک مرتبہ تو آپؐ کے سامنے دشمنوں کی طرف بیٹھ کرکے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے اور جتنے تیر آئے انھیں اپنے بدن پر روکا۔
غزوۂ احد کا دن مسلمانوں کے لیے سخت غم و رنج اور مصیبتوں اور آزمائشوںکا دن ثابت ہوا۔ بہت سے جلیل القدر صحابہ شہادت پا گئے۔ اس معرکے میں چالیس مسلمان زخمی اور ستّر(70) شہید ہوئے۔ دشمن کے تیس آدمی مارے گئے۔ دشمن واپس جا چکا تھا مگر پھر بھی آپؐ کو خدشہ تھا کہ دشمن پلٹ کر حملہ نہ کرے اور یہ اندیشہ غلط بھی نہیں تھا۔ دشمن کے واپس آنے کی خبر مخبروںنے بھی دی۔ ایسی حالت میں بھی بچے ہوئے لشکر کے ساتھ دشمن کے تعاقب میں کھڑے ہوگئے۔ دشمن کو جب اس کی اطلاع ملی تو واپس مکہ چل پڑے۔ آپؐ نے تین دن تک اسی مقام پر ٹہرے جو اُحد سے آٹھ میل دور تھا۔ اس کے بعد مدینہ واپس آگئے۔ آپؐ کی قائدانہ اور عسکری حکمت عملی کا یہ شاندار نمونہ ہے ۔ اسی موقع پر صحابہؓ کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی:
’’وہ لوگ جنھوں نے زخم رسیدگی کے بعد خدا اور اس کے رسولؐ کے حکم پر لبیک کہی، سو جو لوگ بھی ان میں سے خوش کردار اور اہل تقویٰ ہیں ان کے لیے اجر عظیم ہے‘‘۔(سورۃ ال عمران،آیت172)
غزوۂ بنو احد کہ بعد دشمن اسلام کے حوصلے بلند ہو چکے تھے۔ اطراف کے قبائل جرائم پیشہ شر پسند عناصر میں سرکشی آنے لگی۔ مگر اب مدینہ میں ایک مضبوط قیادت موجود تھی۔مشکل حالات میں بھی آپؐ نے ایسا اقدام کیا کہ شر پسند سر اٹھانا سکے ایک سال تک چھوٹے بڑے اقدام میں نبر آزماہوتے رہے۔ اس دوران ایک جنگجو قبیلہ تھا جس کی ہمت بڑھتی جارہی تھی۔ آپؐ نے تحقیقات کروائی ۔ خبر کی تصدیق ہونے پر آپؐ خود فوج لے کر تیزرفتاری کے ساتھ دشمن تک پہنچ گئے۔ دشمن تو جنگ کے لیے تیار تھا مگر اچانک آپہنچنے سے بکھر گیا اور تمام قبیلہ ایک ہی حملے میں شکست کھا کر ہتھیار ڈالدیا۔ سردار کی بیٹی’’جویریہ‘‘ نے قبول اسلام کیا اور حرم میں داخل ہوئی۔
جنگ خندق، احزاب
قریش ، یہود اور اطراف کے قبائل نے مل کر ایک منصوبے کے تحت مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے دس ہزار کا لشکر تیار کیا۔ آپؐ دشمن کی ہر حرکت سے با خبر رہتے تھے۔ اس بات کی اطلاع مل چکی تھی۔ مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ مدینے میں رہ کر ہی مدافعت کی جائے۔ یہ مشہورو معروف ہے کہ سلمان فارسی ؓکا مشورہ قبول کر لیا گیالیکن اس کے برخلاف بریگیڈیر گلزار احمد نے اس بات سے اختلاف کیا وہ لکھتے ہیں کہ ’’آپؐ چوں کہ احد کے موقع پر بھی شہر کے اندررہ کر دفاع کرنا چاہتے تھے اس لیے آپؐ کے ذہن میںشہر کا اس طرح دفاع پہلے سے موجود تھا۔ آپؐ چوں کہ دفاعی امور کو ہمیشہ صیغۂ راز میں دیکھتے تھے اس لیے آپؐ نے کسی سے ذکر نہیں کیا ہوگا۔ ممکن ہے سلمان فارسیؓنے بھی کہیںخندق کا لفظ استعمال کر لیا ہو، البتہ تاریخی طور پر یہ درست نہیں تھا کہ دفاعی منصوبوں میں ایران کے اندر خندق کا عمل دخل رہا تھا۔ قلعے کے گِرد خندق ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ البتہ پورے شہر کا دفاع خندق مکانات با غات کو باہم منسلک کرکے اگر تاریخی جنگ میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا ہے تو وہ مدینہ کی دفاع کے لیے ’’غزوۂ احزاب‘‘میں آیا ہے۔ اس سے قبل طریقہ ٔ دفاع راقم الحروف کی نظروں سے نہیں گذرا‘‘(نقوش رسول، لاہور)۔
اس بات کی تصدیق ڈاکٹر محمد حمید اللہ پیرس اپنی کتاب عہد نبویؐ کے میدان جنگ،ص63میں لکھتے ہیں :
’’مکتوبات نبویؐ میں سے ایک میں جو مغازی الواقدی اور مقریزی کی ’’التخا صم بین بنی ہاشم و بنی اُمیہ‘‘ میں ملتا ہے ابو سفیان نے طعنہ زنی کی کہ مقابلے کی جگہ قلعوں میں گھس بیٹھے اور حیرت ظاہر کی کہ یہ نیا داؤکس سے سیکھا۔ اس کے جواب میں آپؐ نے لکھا کہ خدا نے آپ کو یہ چیز الہام کی۔‘‘
(ابن ہشام،ص558)
دراصل خندق لڑائی کا ایک اہم فن ہے۔ اس کے لیے سپہ سالار کو خندق جنگ کہ تمام پہلوؤں سے واقفیت ضروری ہے ورنہ خندق الٹا نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ آپؐ نے پورے منصوبے بند طریقے سے خندق کی کھدائی کا کام شروع کیا۔ تین ہزار مسلم سپاہی خندق کھودنے میں مصروف ہوگئے۔ دس دس آدمیوں کی ٹولی بنائی گئی۔ ہرٹولی کو تقریباً بیس گز لمباطول ساڑھے تین میل اور اندازاً چوڑائی اور گہرائی۵،۵ گز بھی ہو تو تقریباً تیرہ لاکھ چھاسی ہزار(13,86000)مکعب فٹ مٹی کو کھودنا اور منتقل کرنا تھا اور فی کس 462 مکعب فٹ سے کچھ زیادہ مٹی آتی تھی۔ ٹوکریاں کم تھیں لہٰذا ابو بکرؓ و عمرؓ جیسی ہستیاں دامنوں میں بھر بھرمٹی اٹھاتے رہے۔
شہر کے اطراف خاص کر جنوب میں باغوں کا جال بچھا ہوا تھا ۔ ان کے درمیان جو تنگ راستے تھے اس میں گذر نے کے لیے دشمن کو صف کی جگہ قطار بنانے پر مجبور کرتی تھی ۔ا یسے راستوں کو چھوٹی چوکیاں بھی بڑی فوج کو روک دینے کے لیے کافی تھیں۔ مشرق میں بنوقریظہ وغیرہ وغیرہ یہودیوں کے سینکڑوں مکان و باغ تھے۔ ان قبیلوں سے اچھے تعلقات تھے۔ اسی لیے آپؐ کی ابتدائی تجویز کے مطابق شمال سے ایک خندق کھودی گئی جو نیم دائرہ بتاتی ہوئی جبل سَلَع کے مغربی کنارے سے آملی۔ خندق کی کھدائی کے زمانے میں آپؐ اپنا مکان چھوڑ کر خندق سے متصل ایک پہاڑی پر خیمہ لگا کر مقیم ہو گئے۔ آج اس جگہ مسجد ذُباب موجود ہے۔ سپہ سالار اعظمؐ کی یہ مستعدی ظاہر ہے کہ رائیگاں نہیں جاسکتی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ آپؐ خود سب کے ساتھ کام میں مصروف تھے۔ یہ کھدائی بعض بیانوں کے مطابق کوئی تین ہفتے تک جاری رہی۔خندق کی تکمیل ہوئی ادھر شوال5ھ میں متحدہ دشمن پہنچ گیا۔ آپؐ تما م فوج کے ساتھ جبل سَلَع پر پڑاؤ لگا کر مقیم ہوگئے۔ آپؐ کا خیمہ بھی لگا یا گیااور آج مسجد فتح بطور یادگار ہے۔
دشمنوں نے خندق کو عبور کرنے کی کوشش کی اور اس کی سزا بھی ملی۔ اسی میں گر کر مر گئے۔ قریش ادھر آنے میں کامیاب رہامگر حضرت علیؓ نے اس کا کام تمام کر دیا۔ محاصرہ طویل ہوتا جا رہا تھا ساتھ ہی مدینے کے یہودیوں کا رنگ بھی بدلنے لگا، افواہوں کی توثیق کے لیے آپؐ نے جاسوس روانہ کیے جب بنو قریظہ کے غدارکی تصدیق ہوگئی مگر معلوم نہ ہو سکا کہ کب حملہ کرنے والے ہیں۔ اب صورت حال بہت خطر ناک ہو چکی تھی۔ قرآن نے ان کا نقشہ پُر زور الفاظ میں کھینچا:
’’جب وہ تمہاری طرف آئیں تو تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے اور نظر میںخیرہ ہو گئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم خدا سے متعلق عجیب بد گمانیاں کرنے لگے اس موقع پر ایمان والوں کی آزمائش ہوئی اور ان میں ایک شدید زلزلہ مچ گیا‘‘۔
آپؐ نے ایک تہائی پر معاہدہ کرنا چا ہا تو صحابہؓ نے صاف انکار کر دیا۔ دو تین ہفتے گذر چکے تھے دشمن کی رسدبھی ختم ہوگئی تھی۔ مسلمان چاروں طرف سے دشمنوں کے نرغے میں تھے۔ اس کے باوجود آپؐ کے پایہ استقلال میں ذرا سی جنبش نہیں آئی بلکہ ہر طرح سے جنگی تدابیر کرتے رہے۔ یہ محاصرہ ایک ماہ طویل رہا۔ ایک رات موسم نا ساز گار رہا۔ سخت آندھی چلی ، خیمے اکھڑ گئے ، جانور بھاگنے لگے۔ ابو سفیان اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ روانہ ہو گیا۔ شوال کا مہینہ ختم ہو چلا اور ذیعقدہ سر پر آگیا جو اشہر حرم کا آغاز تھا جس میں قریش مذہباً جنگ نہیں کرتے۔ ڈاکٹر حمید صاحب لکھتے ہیں کہ ’’میرے رائے میں محاصرے کی بر خواستگی کی بڑی اور اصل وجہ یہی ہوگی۔‘‘(عہد نبوی کے میدان جنگ،ص88)
اس جنگ کے خاتمے پر دنیا کے سب سےبڑے سپہ سالار نے فرمایا کہ اب قریش مدینے آکر کبھی نہیں لڑیں گے ۔ اب وقت آرہا ہے کہ ہم ان پرچڑھائی کریں گے اور یہ بات سو آنے سچ ثابت ہوئی۔
صلح حدیبیہ
آپؐ خواب کی تعبیر کے لیے اپنے چودہ سو صحابہؓ کو ساتھ لے کر عمرہ کی نیت سے مکّے کی راہ پر قدم رکھا۔ یہ ذیعقدہ ۶ ہجری کا واقعہ ہے۔ آپؐ نے قربانی کے اونٹ ساتھ لیے ذو الحلیفہ پہنچ کر عرب کے دستور کے مطابق ان کے کانوں کو خفیف زخمی کرکے خون الودہ کیا گیا اور ان کے گلے میں قلادے ڈالے گئے۔ اہل عرب قربانی کے جانوروں کے ساتھ کوئی تعرض نہیں کرتے تھے اور تمام صحابہؓ نے احرام باندھے، صرف حفاظتی ہتھیار لے گئے تھے۔
جب اہل مکہ کفار قریش کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے اپنا لشکر جمع کر لیا اور عہد کیا کہ آپؐ کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیں گے ۔ خالد بن ولید دو سو (200)سواروں کو لے کرمکہ سے باہر نکل گئے ۔ا ٓپؐ کو اس کی اطلاع ملی تو اپنا راستہ تبدیل کر لیا اور مکہ کے قریب حدیبیہ پہنچ کراونٹنی بیٹھ گئی۔ آپؐ نے سمجھ لیا یہ اونٹنی اللہ کے حکم سے بیٹھی ۔ اسی مقام پر پڑاؤ کیا۔ یہاں ایک کنوا ں تھا جو خشک ہو چکا تھا۔ آپ ؐ نے ایک تیر وسط میں نصب کرنے کو کہا۔ بطور معجزہ اللہ نے پانی سے لبریز کر دیا اور پھر اس غزوہ کا نتیجہ یہ نکالا کہ یہ ایک معاہدہ پر ختم ہوا جو فتح مکہ کا پیش خیمہ تھا اور پھر سورۃ فتح نے اس کی تصدیق کر دی۔
فتح مکہ
فتح مکہ کا پس منظر یہ تھا کہ قریش نے بنو خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی، قتل عام کیا اور وہ لوگ جو حرم میں پناہ لی تھی ان کو بھی نہیں بخشا کیوں کہ بنو خزاعہ آپؐ کے حلیف تھے اس لیے بنو خزاعہ نے عمر بن سالم آپؐ کی خدمت میں جاکر فریاد کی آپؐ نے قاصد کے ذریعے قریش کے سامنے تین صورتیں رکھی۔ بنو بکر کی حمایت سے الگ ہوجاؤ، مقتولین کا خون بہا اداکرو۔ معاہدہ حدیبیہ کے خاتمے کا اعلان کرو۔ قریش کی شامت اعمال کے انھوں نے تیسری شرط منظو ر کرلی۔ بعد میں بہت پچھتائے۔صحابہ جیسے آپؐ کے حکم کے منتظر تھے۔آپؐ کا اشارہ پاتے ہی حق فروش صحابہؓ تیاری میں مصروف ہو گئے اور کسی کو نہ بتا یا کہ کیاتیاری ہے۔ جب کہ حضرت عائشہ ؓ کو بھی علم نہ ہو سکا کہ یہ آپؐ کی حکمت عملی اور راز داری کا ایسا کار نامہ ہے کہ دشمن کو اس وقت اطلاع ملی جب کہ آپؐ ان کے سروں پر پہنچ گئے اور مکہ کے پہاڑوں کے نیچے پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔ قریش یک و تنہا ہو گئے ۔ خود ان کا سردار ابو سفیان مسلمانوں کی قید میں تھا۔مرعوبیت ، بے بسی، لاچاری ہی میںسہی اسلام قبول کیا۔لیکن آپؐ نے اس کو نگرانی میں رکھا جب تک اسلامی فوج مکہ میں داخل نہ ہوگئی ہو۔ اس کے بعد ابو سفیان اہل مکہ کو یہ یقین دلا یا کہ مقابلے بے سود ہے۔
عجیب بات ہے کہ حق و باطل کا ابتدائی معرکہ بھی رمضان کے مہینے میں ہوا اور اب تکمیل معرکہ بھی رمضان ہی میں پیش آیا۔ آپؐ نے یہ اعلان فرمایا کہ جو شخص مسجد حرام میں داخل ہو جائے ابو سفیان کے گھر چلا جائے گھر بیٹھا رہے ہتھیار نہ اٹھائے ان سب کو امان ہے۔ /20رمضان المبارک فاتحانہ داخلے نہ شوروغل، نہ دڈھول نہ کوئی متکبرانہ نعرہ بازی چشم فلک نے بڑے بڑے فاتح دیکھے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ حیرت ہے دس ہزار کا لشکر فاتح مکہ بن کر شہر میں داخل ہوا اور آپؐ کا یہ عالم کے سواری پر بیٹھے سربہ سجدہ تھے ۔ رب کائنات کا شکر بجا لا رہے تھے اور زبان سورۃ فاتح کی تلاوت میں مشغول تھی۔ تمام اہل مکہ جمع ہوگئے لوگوں کی بے بسی، خوف ڈر نے ان کو پریشان کر رکھا تھا۔ مگر پیکر رحمت ﷺ نے کہا:
’’میں آج تمہیں وہی بات کہتا ہوں جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی آج تم پر کوئی پکڑ نہیں جاؤ کہ میں نے تم کو معاف کر دیا۔‘‘
کیا قریش کی ظلم و زبردستی کو دیکھ کر کسی کو اس جواب کی توقع تھی ۔ پھر یہ کہ اس عمل کو بھی یوسفؑ کی طرف منصوب کیا۔ اس سے بڑھ کر انکساری کیا زمین و آسمان نے کبھی دیکھا ہے۔ سب سے بڑی بات جو اس فتح کے متعلق کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کی کسی اور قوت نے پچھلی چودہ صدیوں کے دوران ایسی فتح کی مثال پیش نہ کر سکی۔ نہ کسی کی تذلیل کی گئی نہ کسی کے مال پر ہاتھ ڈالا گیا نہ موت کی ناموس کو تاراج کیا گیا ۔ نہ ہی بچوں بوڑھوں کو ستایا اور رلا یا گیا بلکہ اس مقابل میں لوگوں کی حقیقی جرائم تک کا کوئی انتقام تو دور کی بات اس تعلق سے پوچھا بھی نہ گیا۔ ایسی مثال تو وہی ہستی پیش کر سکتی ہے جس کے حسن اخلاق کی خوشبو چودہ صدیاں گذارنے کے بعد بھی تر و تازہ ہے جو تمام انسانیت کے محسن ہیں۔
حنین
فتح مکہ دراصل ایک اعلیٰ درجے کی عسکری حکمت عملی کا ایک نادر نمونہ تھا۔ آپؐ نے قریش مکہ کو اس قدر اچانک آپکڑا کہ ان کو اپنے خلیفو ں سے کوئی مدد نہ مل سکی ادھر قبیلہ ہوا زن کے لیڈروںکو معاہدہ حدیبیہ جس سلسلہ واقعات کے تحت ٹوٹا تھا اس کے پیش نظر ہی انھوں نے پہلے ہی سے جنگی قوت اکٹھی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اطراف کے قبائل کو بھی اشتعال دلا کر جنگ میں شامل کر لیا اور فتح مکہ کے بعد تو اپنی ساری قوت حنین اوراوطاس نامی وادی میں لاکر جمع کی یعنی وہ خود پیش قدمی کرتے ہوئے مسلم قوت پر حملہ کر نا چاہتے تھے۔ ادھرآپؐ کو اس کی اطلاع ملی تو تحقیق کے لیے ایک صحابیؓ کو روانہ فرمایا۔ انھوں نے واپس آکر تفصیلات آپؐ کے سامنے رکھ دیں۔
مسلم فوج کے کمانڈر آپؐ نے مدینے سے زیادہ اسلحہ ورسدلے کر نہیں نکلے تھے کیوں کہ قریش کی قوت اور فتح مکہ کے پیش نظر جو منصوبہ تھا وہ ایک مختصر معرکہ تھا۔ مگر اب جب کہ بنو ہوا زن کا معاملہ پیش آنے پر آپؐ نے فوری انتظام یہ کیا کہ عبد اللہ بن دبیعہ سے تیس ہزار درہم اور مکے کے رئیس صفوان ابن امیہ سے سو در ہم اور دیگر اسلحہ مستعار لیے۔ شوال ۸ھ کو مکے سے بارہ ہزار کی تعداد میں ایک بڑا لشکر روانہ ہوا۔ بنو ہوزان کے تیر اندازوں نے سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت وادی حُنین میں پہلے سے مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔ (حنین و اوطاس کی تفصیل ملاحظہ فرمائے ڈاکٹر عبد الحمید پیرس عہد نبوی کے میدان جنگ،ص88تا90) صحابہؓ بھی انسان ہی تھے اور بعض صحابہ ؓکو اپنی تعداد کے متعلق فخر کا احساس ہوا اور یہ الفاظ بھی زبان پر آگئے کہ آج کون ہم پر غالب آسکتا ہے؟ خدا کو یہ بات نا پسند ہوئی اور اس کا کفارہ میدان جنگ میں دینا پڑا۔تعداد تو بڑی تھی مگر کمزور پہلو یہ تھا کہ بہت سے نو مسلم نوجوان جو شیلے پن میں پوری طرح مسلح ہونے سے بھی غفلت کی ، دوسری طرف ایک زبردست جنگجو تیر چلانے میں ماہر قوم تھی اور اہم چیز کہ میدان جنگ میں اپنے لیے بہترین جگہ حاصل کرلی۔
غزوۂ تبوک
۹ھ کو یہ اطلاع پہنچی کہ قیصر کی فوجیں مدینہ میں حملہ کرنے کے لیے شام میں تیار ہو رہی ہیں۔ قیصر ہر قل ایک بڑی سلطنت کا فرماں رواں تھا۔ اس نے ایران جیسی حکومت کو شکست دی تھی۔ فیصلہ یہ تھا کہ قیصر کی فوج کو عرب میں گھسنے نہ دیا جائے۔ فوراً جنگ کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ سخت گرمی کا موسم ، قحط اور عسرت کا عالم تھا۔ آپؐ نے جنگی ضرورت سے چندے کی اپیل کی اور پھر اس کا قابل عمدہ جواب صحابہؓ نے دیا کہ جس کے تصور سے ہی انسانیت کی روح ترو تازہ ہوجاتی ہے۔ا یمان کو جلا ملتی ہے۔ اقوام عالم کے تمام معتبر لیڈروںکے اپیل پر نہیں بلکہ حکم پر بھی ان کے حواریو ں نے اس کا عشر عشیر بھی نہ دیا ہوگا۔ نہ ہی تاریخ دنیا میں ایسی بے مثال نظیر مل سکتی ہے۔ ایسی ایثار و قربانی ایسی ہی قوم میں مل سکتی ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے رسولؐ کی اطاعت میں ہمیشہ تیار ہو اور یہ جذبہ یہ ایثار بہ درجہ اتم اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب تک کہ اس میں خالص ایمان کی آبکاری نہ کی جائے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو انسانوں کو اوپر کی طرف لے جاتا ہے۔ عام لوگوں سے بلندی کی طرف بڑھتا ہے۔ امیر غریب ہر ایک نے اپنی استطاعت کے مطابق بھر پور تعاون کیا اور عالم تاریخ میں ایسی تاریخ رقم کی جو قیامت تک بھی کوئی قائم نہیں کر سکا۔ حالاں کہ یہ جنگ نہیں ہوئی۔آپؐ تیس ہزار سپاہی، دس ہزار گھوڑوں کے ساتھ روانہ ہوئے۔تبوک پہنچنے پر معلوم ہوا کہ دشمن عرب پر حملہ کرنے کا اردہ ترک کردیا ۔تاہم آپؐ نے بتوک میں ایک ماہ تک قیام کیا۔
الغرض آپؐ وہ واحد سپہ سالار ہیں جو ہمیشہ لشکر کے کم سے کم تعداد استعمال کرتے اور کم سے کم طاقت کے اصول کو پیش نظر رکھا ۔ آپؐ سے بہترکوئی سپہ سالار نہیں،آپؐ نے میدان جنگ میں اپنی پوری جنگی مہارت جنگی تدابیر ، ذہانت و ذکاوت اور مومنانہ فراست کا مظاہر کیا ہے۔ آلات حرب، جنگی سازو سامان لاؤ لشکر کی کمی کے باوجود بڑے بڑے معرکے طے کیے۔ غزوہ خندق میں عرب کی متحدہ طاقت کو بھاگنے پر مجبور کیا۔ مدینہ کے یہودیوں کا صفایاکیا۔ خیبر کے مضبوط قلعوں کو فتح کیا۔غزوۂ بتوک کے ذریعے غیر ملکی فتوحات کا سلسلہ شروع کیا۔ آپؐ کے بعد آپؐ کی تربیت یافتہ لشکروں نے دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو اسلام کے زیر رنگیںکیا۔ آپؐ نے جنگ میں ہونے والے بے ظابطگی اور خرا بیوں کو دور کیا۔ ان کی اصلاح کی جنگ کے آداب و ضوابط اور قانون کو عملاً نافذ کیا۔دشمن کے علاقے میں داخل ہو تو کسی بچے پر ہاتھ نہ اٹھانا، کسی عورت کی طرف نظر نہ اٹھانا، نہ کسی بوڑھے ، مریض ، زخمی پر ہاتھ اٹھانا۔ کسی پھلدار درخت کو نہ کاٹنا۔ دودھ دینے والے جانورکو ذبح نہ کرنا۔ ان ہی سے جنگ کرنا جو تم سے جنگ کریں۔
جنگی قیدیوں کے ساتھ کسی قسم کی انتقامی کاروائی نہیں کی نہ ہی غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ اس کے برعکس زخمیوں کی مرہم پٹی کی گئی۔ ان کا علاج کیا۔ خود بھوکے رہ کر ان کو کھانا کھلا یا۔ خودروکھا سوکھا کھا لیامگر انھیں اچھا کھانا کھلایا۔ کتنے ملکوں اور شہروں کو فتح کیا مگرکبھی وہاں کے شہریوں پر ظلم نہیں کیا۔ ہر ایک کو عزت، محبت اور شفقت دی ۔ اس طرح جسموں سے بڑھ کر ان کے دلوں پر حکومت کی: ؎
جو دلوں کو فتح کرلےوہی فتح زمانہ
استفادہ کی گئی کتابیں
سید انسانیت از نعیم صدیقی
عہد نبوی کے میدان جنگ از ڈاکٹر عبد الحمیدپیرس
مولانا اسرار الحق سبیلی کا میلاد نبی ؑ نمبر(روزنامہ منصف،جون1999ء)
محمد شاہد حمید از پیکر جمیل
تشریحات از تفہیم القرآن
مہر و محبت جس کی شانؐ خصوصی نمبر دعوت
مشمولہ: شمارہ مئی 2018