میں آپ کو یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ آپ اپنی اصلاح کے ساتھ آپس میں بھی ایک دوسرے کی اصلاح کریں۔ جو لوگ خدا کی خاطر کلمہ حق کی سربلندی کے لیے ایک جماعت بنیں انہیں ایک دوسرے کا ہم درد و مددگار اور غم خوار ہونا چاہیے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے مقصد عظیم میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ ان کی جماعت بحیثیت مجموعی اخلاق اور نظم کے لحاظ سے مضبوط نہ ہو۔ اور اس احساس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بنیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کو سہارا دے کر خدا کی راہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ اسلام میں اجتماعی تزکیے کا طریقہ یہی ہے۔ میں گرتا نظر آؤں تو آپ دوڑ کر مجھے سنبھالیں اور آپ لغزش کھا رہے ہوں تو میں بڑھ کر آپ کا ہاتھ تھام لوں۔مادی دنیا میں جب لوگ ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں تو مجموعی طور پر سب کی خوش حالی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اخلاق و روحانیت کی دنیا میں بھی جب یہ امداد باہمی اور داد و ستد کا طریقہ چل پڑتا ہے تو پوری جماعت کا سرمایہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
باہمی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ جس شخص کی کوئی بات آپ کو کھٹکے، یا جس سے کوئی شکایت آپ کو ہو، اس کے معاملہ میں آپ جلدی نہ کریں، بلکہ پہلے اسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اولین فرصت میں خود اس شخص سے مل کر تخلیہ میں اس سے بات کریں۔ اس پر اگر اصلاح نہ ہو تو معاملہ آپ کی نگاہ میں کچھ اہمیت رکھتا ہو تو اسے اپنے علاقے کے امیر جماعت کے نوٹس میں لائیں۔ وہ پہلے خود اصلاح کی کوشش کرے، اور پھر ضرورت ہو تو جماعت کے اجتماع میں اسے پیش کرے۔ اس پوری مدت میں اس معاملہ کا ذکر غیرمتعلق لوگوں سے کرنا اور شخص متعلق کی غیرموجودگی میں اس کا چرچا کرنا صریحاً غیبت ہے، جس سے قطعی اجتناب کرنا چاہیے۔
)ہدایات، از سید مودودیؒ، ۱۹۵۱ میں اجتماع عام کے اختتامی اجلاس میں دیے گئے خطبے سے مقتبس(
مشمولہ: شمارہ جون 2020