اسلام کی دعوت میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کو رب یعنی فرمانروا کی حیثیت سے پیش کرنے کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمدﷺ کو بالکل ابتدائی دعوت میں وَ رَبَّکَ فَکَّبِّرکہہ کر اللہ کی فرمانروائی بیان کرنے کا حکم دیا، اسی طرح اہل کتاب کے سامنے دعوتی لحاظ سے جن تین باتوں کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی کسی کو رب نہ بنائے اللہ کے علاوہ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔ قُلْ یٰٓا ھْلَ الْکتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃِِ سَوَ آئِِ بَینَناَ وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلاَّ اللہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئاً وَلاَ یتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَا باً مِنْ دُونِ اللہِ فَانْ تَولّواْ فَقُولوُا اشْھَدوا بِاَنّا مُسْلِمُونَ۔(سورہ ال عمران آیت ۶۴) ترجمہ : اے محمد ﷺ کہہ دیجئے اے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ آئو ایسے کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ہم میں کاکوئی کسی کو رب یعنی فرمانروا نہ بنائے پس اگر وہ منہ موڑے تو کہہ دیجئے کہ تم گواہ رہو کہ ہم فرمانبردار ہیں۔
مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ یہودو نصاریٰ میں انسانوں ہی کو رب مان لینے کا مرض تھا جس سے انہیں باز آنے کی دعوت دی گئی ہے لیکن افسوس ہے کہ جس نبیﷺ اور قرآن نے یہود و نصاریٰ کو انسانوں کی فرمانروائی سے باز آنے کی دعوت دی تھی، آج اسی نبیﷺ اور قرآن کے ماننے والے بیشتر افراد انسانوں کی فرمانروائی کو قبول کئے ہوئے ہیں ۔ مذکورہ آیت میں کلمہ سواء کی جو تین بنیادیں بیان کی گئی ہیں یعنی اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرے، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، اور اللہ کے علاوہ کسی بھی انسان کو فرمانروا کی حیثیت سے نہ مانیں ،آج بھی یہ تین بنیادیں عالمی اتحاد کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں، اور یہی تین بنیادیں ہندوستان میں ملکی اتحاد کے طور پر بھی پیش کی جا سکتی ہیں، کیونکہ ہندوستان کی بیشتر قوموں میں خدا اور کتاب کا تصور پایا جاتا ہے۔ لیکن شرک اور انسانوں کی فرمانروائی کی وجہ سے وہ تصور دھندلا اور گدلا ہو گیا ہے، اسے قرآن اور محمدﷺ کی دعوت سے صاف کرنے کی ضرورت ہے اسلئے کہ یہ بات علم و یقین اور چیلنج کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ دنیا میں صرف قرآن ہی ایسی کتاب ہے جو انسانوں کی تحریف سے پاک و صاف ہے اور صرف حضرت محمدﷺ کی زندگی ہی ہے جو پورے طور پر محفوظ ہے لیکن دعوت کی یہ تین بنیادیں مسلمان دوسری قوموں کے سامنے اسی وقت پیش کر سکیں گے جب کہ انہوں نے یہ تین بنیادیں قبول کی ہوں گی، ابھی خود مسلمانوں کی پریشانی یہ ہے کہ بہت سے مسلمانوں کی زندگیوں میں اللہ کے ساتھ شرک پایا جاتاہے، اسی طرح اللہ کی بندگی سے انحراف پایا جاتا ہے، اور اللہ کی بندگی کا کچھ تصور ہے تو وہ صرف چند مخصوص اعمال کی حد تک پایا جاتا ہے، جیسے نماز،روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی کی حد تک جب کہ اسلام میں اللہ کی بندگی کا تصور بہت وسیع ہے جو انسان کی پوری زندگی پر چھایا ہوا ہے ،یہاں تک کہ پیشاب و پاخانہ تک بھی بلکہ بعض اوقات میں پیشاب و پاخانہ کی بندگی نماز کی بندگی پر مقدم ہے وہ یہ کہ شدید ضرورت ہوتو حکم ہے کہ پہلے پیشاب و پاخانہ کی ضرورت پوری کر لے، اس کے بعد نمازادا کرے،اسی طرح بہت سے مسلمانوںنے زندگی کے بہت سے معاملات میں رب کو چھوڑ کردوسروں کو فرمانروا مان لیا ہے، اس لئے مذکورہ آیت میں دین کی جو تین بنیادیں بیان کی گئی ہیں، انہیں مسلمانوں کے سامنے بھی پیش کرنے کی ضرورت ہے یہی بنیادیں مسلمانوں کے عالمی، ملکی، اور مقامی اتحاد کا ذریعہ بن سکتی ہیں ایک طرح سے مذکورہ آیت کے طرز پر مسلمانوں میں، یَآ ھَلْ الْقُرآنِ تَعَالٰوا اِلٰی کَلِمَۃِ سَوَآئِِ بیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ کی صدا لگانے کی ضرورت ہے۔
یعنی اے اہل قرآن آئو ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان میں برابر ہے،کیونکہ جس طرح اَہلْ کِتاب میںخرابیاں پیدا ہوگئی تھیں اسی طرح اِس وقت ،اہل قرآن یعنی مسلمانوں میں بھی وہی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں ،اور اللہ تعالیٰ نے اہل فرمانروا کتاب کی اصلاح کے جو عقائد و اعمال بیان کئے ہیں وہی عقائد و اعمال اھل قرآن یعنی مسلمانوں کی اصلاح کے بھی ہیں۔ مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت یعنی فرمانروائی کے ساتھ کسی انسان کی فرمانروائی کو ماننا اسلام کے بنیادی عقیدہ کے خلاف ہے، ساتھ ہی سورئہ فاتحہ کی پہلی آیت اور نماز کی بھی پہلی آیت الحمد للہ رب العالمین کی خلاف ورزی ہے اسلام میں صرف اللہ ہی کو رب ماننے کی اتنی اہمیت ہے کہ حدیث میں ہے کہ مرنے کے بعد قبر میںانسان سے جو سوالات کئے جائیں گے کہ اللہ ہی کو رب کی حیثیت سے مان کر زندگی گزارنا کتنا ضروری ہے اب اگر اللہ کے رب ہونے کی دعوت کے عموم و تکرار کے تعلق پر غور کیا جائے تو جو صورت بنتی ہے وہ یہ کہ انسان کی دنیا میں پیدائش سے پہلے اللہ ہی کے رب ہونے کا عہد ، قرآن مجید کی سب سے پہلی آیت اِقْرَا بِاْسْمِ رَبّکْ اللہ کے رب ہونے کا اعلان ، اور قرآن کی دوسری وحی میں و ربّکَ فَکبّر یعنی اپنے رب کی بڑائی بیان کرنے کاحکم ، اور سورئہ فاتحہ کی پہلی آیت میں الحمد للہ رب العالمین کا اعلان و اقرار اور نماز کے ہر رکوع میں تین مرتبہ سُبحان ربیّ العَظیم یعنی پاک ہے میرا رب جو سب سے بڑا ہے اور نماز کے ہر سجدہ میں تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبّی الاعلیٰ یعنی پاک ہے میرا رب جو سب سے اونچا ہے اور قبر میں کیا جانے والا مَنْ رَبُّکَ کا سوال ، یعنی تیرا رب کون ہے؟ کیا پھر بھی کوئی مسلمان زندگی میں اللہ کے علاوہ کسی اور کو اپنا رب یعنی فرمانرواں تسلیم کریگا اور اگر اس کے باوجود اس نے زندگی میں اللہ کے علاوہ کسی او ر کو اپنا فرمانرواں تسلیم کیا ہے تو کیا اس نے اپنے ضمیر کی آواز قرآن کی آواز، نماز کی آواز ،اور قبر کی آواز کا انکار نہیں کیا؟ لیکن افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان زندگی میں اسی طرز عمل میں مبتلاء ہیں اس کے اسباب میں سے بنیادی سبب رب کے معنی و مطلب کو نہیں سمجھنا ہے اس لئے اس تحریر کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ مسلمان رب کے معنی و مطلب کو سمجھے اور اللہ ہی کو فرمانروا کی حیثیت سے تسلیم کریں، اس سلسلہ میں نماز فہمی بڑا موثر کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ ہر نماز کی ہر رکعت میں دس مرتبہ اللہ ہی کے سب سے بڑا فرمانروا ہونے کی دعوت ہے اس لحاظ سے صرف ایک دن کی فرض نمازوں میں ایک سو ستر مرتبہ اللہ ہی کی فرمانروائی کی دعوت سامنے آجاتی ہے لیکن رب کے معنی و مطلب نہیں جاننے کی وجہ سے ایک نمازی میں اللہ ہی کو زندگی کے تمام معاملات میں سب سے بڑا فرمانرواں سمجھنے کی بات پیدا نہیں ہوسکی ، لیکن جیسے جیسے مسلم معاشرہ میں نماز فہمی کی تحریک چلے گی ویسے ویسے مسلمانوں میں زندگی کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ ہی کو سب سے بڑا فرمانروا ماننے کی بات عام ہوگی، کیونکہ بہر حال ایسے گئے گزرے دور میں بھی مسلمانوںمیں قرآن و نماز کی عظمت پائی جاتی ہے، لیکن قرآن و نماز کو نہیں سمجھنے کی وجہ سے ان سے قرآن و نماز کے خلاف کام سرزد ہو رہے ہیں۔
سورئہ فاتحہ کی دوسری آیت جو نماز کی بھی دوسری آیت ہے وہ الرحمن الرحیم ہے یعنی اللہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ،یہ دو صفات بھی اللہ تعالیٰ کے خصوصی تعارف میں شامل ہیں، اس کائنات پر اور انسان پر اللہ تعالیٰ کی جو خصوصی مہربانی ہے یہ دو صفات اسی کی وضاحت کرتی ہیں اور انسانوں سے تقاضہ کرتی ہیں کہ وہ اللہ ہی کو سب سے بڑا مہربان سمجھے، اور یہ بات کائنات کی ہرچیز سے واضح ہے ، چنانچہ آسمانوں اور زمین، چاند و سورج و ستارے و سیارے اور ہوا کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے، اور اسی نے ہمارے لئے ہوا اور زمین مسخر کی ہے، اور اسی نے ہمارے لئے چاند و سور ج کو خدمت میں لگا دیاہے ، اور اسی نے ہمارے لئے آسمان سے پانی برسایا اور اسی نے ہمارے لئے مختلف جانور ، اسی طرح پیٹر ،پودے پیدا کئے، اسی نے ہمارے دماغ کو بنایا، اسی نے ہم کو آنکھ، کان ،ناک،زبان،ہاتھ پیر دیئے، اس کے علاوہ بے شمار نعمتیں ہیں جنہیں ہم شمار نہیں کر سکتے۔
اللہ تعالیٰ کو الرحمن الرحیم ماننے کا لازمی تقاضہ ہے کہ اس کے رحم اور مہربانی میں کسی کو شریک نہ کیا جائے اگر کوئی اللہ کے علاوہ بھی کسی کو بڑا مہربان سمجھے تو اس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ آج زیادہ تر انسان اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو سب سے بڑا مہربان سمجھے ہوئے ہیں، جنہوں نے زمین کے ایک ذرہ تک کو پیدا نہیں کیا ،اور نہ کسی انسان کے ایک بال کو پیدا کیا، اور نہ ان کے اندر اس کی طاقت ہے ۔ سورئہ فاتحہ کی دوسری ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ صفات بیان کرکے ایک طرح سے تمام انسانوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ ہی کے احسان مند ہو کر زندگی گزارے، اور ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ سورت رکھ کر ہرنمازی کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ ہی کا احسان مند رہے، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے نمازی زندگی کے معاملات میں اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کے احسان مند ہوتے ہیں یہاں تک کہ اللہ کے دشمنوں کے احسان مند ہو جاتے ہیں۔
اللہ کی مہربانی اور رحمت کے متعلق یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو اللہ کی مہربانی اور رحمت کے مستحق مومن اور غیر مومن دونوں ہیں ، لیکن آخرت کی زندگی میں اللہ کی مہربانی اور رحمت کے مستحق صرف مومن ہوں گے، غیر مومن آخرت میں ہمیشہ جہنم کے عذاب میں رہیں گے،اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی ایک دعا کے جواب میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان فرمایاہے ۔ چنانچہ قرآن مجید کے سورئہ بقرہ میں حضرت ابراہیم ؑ کی دعا اور جواب دعا مذکور ہے۔ وَ اِذْ قَالَ اِبْرَھیمُ رَبَّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنَا وَّ رزُقْ اَھَلَہ مِنْ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِا للہِ وَالْیوْمِ الْا خِرِ قَالَ وَ مَنْ کَفَرْ فَاُ مَتّعُہ قَلِیلاً ثُمَّ اَضطَرَّہ اِلٰی عَذَابِ النَّارِ وَ بِئسَ الْمَصِیر(سورہ بقرہ آیت ۱۲۶) ترجمہ : اور جب ابراہیم ؑ نے کہا اے رب اس شہر یعنی مکہ کو امن والا بنا دیجئے اور اس کے رہنے والوں کو پھلوں سے رزق دیجئے جو ان میں سے اللہ اور آخرت پر ایمان لائے، اللہ نے فرمایا جو نافرمانی کرے گا، میں اسے دنیامیں تھوڑا فائدہ دوں گا، پھراسے آگ کے عذاب کی طرف پھیردوں گا اور وہ بہت بڑا ٹھکانہ ہے۔ مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ دنیوی زندگی میں اللہ کے نافرمان بھی اللہ کی رحمت اور نعمت سے فیضیاب ہوں گے، لیکن آخرت میں اللہ کی رحمت اور نعمت سے صرف مومن ہی فیضیات ہوں گے، اور کافر دوزخ کے دائمی عذاب میں رہیں گے، اللہ کی رحمت ہی کے متعلق بنی اسرائیل کے دعویٰ کے جواب میں خود اللہ تعالیٰ نے اپنا جو فرمان صادر فرمایااس سے اللہ کی رحمت کے متعلق حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے اور اس حقیقت کو واضح کرنا اسلئے ضروری ہے کہ آج بہت سے مسلمان اللہ کی رحمت کے متعلق خوش فہمی میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی میں ڈوبے ہوئے افراد کو بھی اللہ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا، اور وہ آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کے متعلق اطمینانی حالت میں ہیں جس طرح یہود و نصاریٰ آخرت کے عذاب سے متعلق اطمینانی حالت میں تھے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہود نصاریٰ کے غلط دعویٰ کو قرآن میں نقل کیا اور اس کا جواب دیا۔ وَ قَالَتْ الْیھُودُ وَ النَّصٰرٰی نَحنُ ابْنٰٓوُا اللہِ وَ اَحِبّآ ئوُہ قُلْ فَلمَِ یُعَذِ بُکُمْ بِذُنُوبِکُمْ۔(مائدہ ۱۸) ترجمہ : اور کہا یہود و نصاریٰ نے ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں، کہہ دیجئے (اے محمدﷺ) پھر اللہ تمہیں تمہارے گناہوں کے سبب کیوں عذاب دیتا ہے ، اسی طرح قرآن میں ایک اور مقام پر بنی اسرائیل کے غلط دعویٰ کو نقل کرکے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا وَ قَالوُا لَنْ تَمسّناَ النَّاراِلّآ اَیّا مَامّعدُ ودَۃً قُلْ اَتّخَذْ تُمْ عِندَ اللہِ عَھْداً فَلَنْ یُ یُّخلِفَ اللہُ عَھْدَہ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللہِ مَا لاَ تَعلَمُوْنَ۔ بَلیٰ مَنْ کَسَبَ سَیّۃً وَّ اَحَاطَتْ بِہِ خَطِٓیئْتہُ فَاُولٓئکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیھَا خٰلِدُونَ (سورہ بقرہ آیت۸۰۔۸۱) ترجمہ : اور کہا انہوں نے یعنی بنی اسرائیل نے ہرگز ہم کو آگ چند دنوں سے زیادہ نہیں چھوئیگی کہہ دیجئے کیا تم نے اللہ کے پاس سے کوئی عہد ٹھہرایا ہے کہ اللہ اس عہد کی خلاف ورزی نہیں کریگا،یا تم اللہ کے متعلق وہ کہتے ہو جو تم نہیں جانتے ،کیوں نہیں جو کوئی برائی کمائے اور اس کی خطائیں اس کو گھیر لیں، پس یہ لوگ دوزخ والے ہیںاور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
واضح رہے کہ بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ آنحضورﷺ کی نبوت سے پہلے کی مسلمان امت بلکہ افضل امت تھی لیکن آنحضورﷺ کی نبوت کا انکار کرکے وہ کافر امت قرار پائی تو اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب دو ر ماضی کی امت مسلمہ بنی اسرائیل کو اس کی نافرمانی اور سرکشی کے سبب قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دائمی عذاب کی تنبیہ سنائی تو کیا دور حاضر کی امت مسلمہ اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کے سبب اللہ کے عذاب کی مستحق نہیں قرار پائے گی؟ ضرور اللہ کے عذاب کی مستحق قرار پائے گی کیونکہ اللہ کو کسی قوم سے نہ ذاتی دشمنی ہے اور نہ ذاتی دوستی بلکہ ہر وہ شخص اللہ کا دوست ہے جو مومن و متقی ہو، اور ہر وہ شخص اللہ کا دشمن ہے جو اللہ کا نافرمان ہے چاہے پھر وہ نبی کا باپ ہو یا نبی کا بیٹا، جس طرح آزر، ابراہیم ؑ کا باپ ہونے کے باوجود اللہ کا دشمن قرار پایا اسی طرح حضرت نوح ؑ کا بیٹا ،نبی کا بیٹا ہونے کے باوجود اللہ کا دشمن قرار پایا، یہاں تک کہ خاتم الانبیاء والمرسلین و امام الانبیاء حضرت محمدﷺ کے حقیقی چچا ابو طالب جو محمدﷺ کے بچپن سے لے کر پچاس سال کی عمر تک آپؐ کے دلی ہمدرد اور خیر خواہ رہے، لیکن آپؐ کے دین کی اتباع نہیں کرنے کے باعث جہنم کے عذاب کے مستحق قرار دیئے گئے لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے مسلمان صرف اللہ اور اس کے ماننے کے دعوے کی بنیاد پر اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید لگائے ہوئے ہیں تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہود و نصاریٰ ان سے زیادہ اللہ اور رسولوں کو ماننے کے دعودیدار تھے، لیکن یہود و نصاریٰ اور منافقین کو قرآن میں جگہ جگہ اللہ کے عذاب کی تنبیہ سنائی گئی ہے اور منافقین کو تو سب سے زیادہ عذاب کی تنبیہ سنائی گئی ہے، چنانچہ ایک مقام پر اللہ کا فرمان ہے۔ اِنَّ الْمُنَافِقِینَ فیِ الدّرکِ الْا سْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ نَجدِ لَھُمْ نَصِیراً۔(النساء ۱۴۵) ترجمہ : بیشک منافقین جہنم کے سب سے نچلے حصہ میں ہوں گے اور ہرگز آپ ان کے لئے کوئی مدد گار نہیں پائیں گے۔
لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے دین سے دور مسلمان جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ان کا یہ گمان ہے کہ چونکہ ہم آنحضورﷺ کی امت میں ہیں اس لئے بخشے بخشا ئے ہوئے ہیں اور کچھ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ’’ ہم تو کیا ہمارا سایہ بھی دوزخ میں نہیں جائیگا‘‘’’ کیونکہ رسول پاکﷺ کو دیکھا نہ جائیگا‘‘ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دوزخ سے ایسی بے خوفی کی چیز نہیں ہے اور آخرت کی نجات سے متعلق ایسی بے خوفی اور اطمینانی کیفیت کا اظہار تو انبیاء ؑ نے بھی نہیں کیا ،جو حقیقت میں اللہ کے محبوب و دوست ہیں، بلکہ تمام انبیاء ؑ اللہ کے عذاب سے ڈرتے تھے ،اور روتے بھی تھے، خود آنحضورﷺ امام الانبیاء ہونے کے باوجود جہنم کے عذاب سے ڈرتے تھے اور روتے تھے، اور خود اللہ تعالیٰ نے سورئہ فرقان کے آخری رکوع میں اپنے خاص بندوں کی جو صفات بیان فرمائی ہے ان میں سے ایک اہم صفت یہ ہے کہ وہ جہنم کے عذاب سے بچنے کی اپنے رب سے دعا کرتے ہیں، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔ وَ الَّذِینَ یَقُوْلُونَ رَبَّناَ اصْدِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھنَّمَ اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَاماً۔ (سورہ فرقان آیت ۶۵) ترجمہ : اور جو کہتے ہیں ہمارے رب ہم سے جہنم کے عذاب کو پھیردے، بیشک اس کا عذاب بہت خطرناک ہے، مطلب یہ کہ رحمن کے خاص بندے جہنم کے عذاب سے بے خوف نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ جہنم کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ ائے ہمارے رب ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ جو اللہ کے نافرمان بندے ہیں انہیں دوزخ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا اور نہ وہ اللہ سے جہنم کے عذاب سے بچنے کی دعا کرتے ہیں بلکہ وہ دوزخ کے عذاب سے بے خوف ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔
لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمانوں میںزیادہ تر افراد ایسے ہی ہیں۔ اللہ کی رحمت و مغفرت کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیؑ کی ایک دعا کے جواب میں اپنا جو فیصلہ سنایا وہ قیامت تک سمجھنے کیلئے کافی ہے چنانچہ قرآن مجید کے سورئہ اعراف میں ایک مقام پر حضرت موسیٰؑ کی دعا اور اللہ کی طرف سے اس کا جواب مذکور ہے۔ اَنْتَ وَلِینُّا فَا غْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیرُ الْغٰفِرِینَ وَاکْتُبْ لَنَا فیِ ھٰذہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَ فیِ الاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنآَ اِلَیْکَ قَالَ عَذَابیِ اُصِیبُ بِہِ مَنْ اَشَآئُ وَرَحمَتیِ وَسِعتْ کُلّ شَیئِِ فَسَا کُتبُھَا لِلّذِینَ یَتّقُونَ وَ یُوتُونَ الزّکٰوۃَ وَالّذِینَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُومِنُونَ ۔ اَلَّذِینَ یَتّبِعونَ الرَّسُوْلَ النَّبیَّ الْاُمّیِ الّذِیْ یَجِدُوْنَہ مَکْتُوباً عِنْدَ ھُمْ فِی التَّوْرٰتہِ وَ الْاِنْجیلِ ۔(اعراف ۱۵۶) ترجمہ : حضرت موسیٰؑ نے کہا اے رب تو ہمارا سرپرست ہے پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہترین بخشے والا ہے اور لکھ دے ہمارے لئے اس دنیا میں بھلائی اور آخرت میں ، بیشک ہم نے تیری طرف ہدایت اختیار کی، اللہ نے کہا میرا عذاب میں جسے چاہوںگے پہنچائوں گا، اور میری رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے پس میں عنقریب اسے لکھ دوں گا صرف ان لوگوں کے لئے جو متقی ہوں گے اور جو زکوٰۃ دیں گے اور جو ہماری آیات پر ایمان لائیں گے جو اتباع کریں گے رسولﷺ نبی امی کا جسے پاتے ہیں وہ اپنے پاس لکھا ہوا توریت اور انجیل میں۔
حضرت موسیٰؑ کی مذکورہ دعا اور اس پر اللہ کے جواب سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس دنیا میں یقینا اللہ کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے لیکن آخرت میںاللہ کی رحمت کے مستحق صرف وہ لوگ رہیں گے جو اللہ سے ڈر کر زندگی گزاریں گے جو زکوٰۃ ادا کریں گے اور اللہ کی آیات پر ایمان لائیں گے اور حضرت محمدﷺ کی اتباع کریں گے اللہ کے مذکورہ فرمان سے اللہ کی رحمت کی حیثیت اچھی طرح واضح ہوجا تی ہے ،کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دنیا میں آمد سے دو ہزار سال پہلے ہی حضرت موسیٰؑ کی دعا کے جواب میں بنی اسرائیل سے کہدیاتھاکہ آخرت میںاللہ کی رحمت کے حصول کے لئے حضرت محمدﷺ کی اتباع کرنی ہوگی، لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ جب حضرت محمدﷺ دنیا میں تشریف لائے تو بنی اسرائیل کی اکثریت نے آپؐ کی نبوت کا انکار کردیا، اور آپؐ کی اتباع سے منہ موڑ لیا، جبکہ وہ توریت و انجیل میں آپؐ کا تذکرہ پاتے تھے، لیکن محض حسد و جلن اور ہٹ دھرمی سے آپ پر ایمان لانے سے انکار کردیا، اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسانوں میں کا ایک گروہ ہر وقت جانتے بوجھتے حق کا انکار کرتا رہے گا، اور حق کی مخالفت کرتا رہے گا ،لیکن اہل حق کا گروہ مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا کام کرتا رہے گا، اللہ کی رحمت کے متعلق خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ کی رحمت و نعمت کے مستحق مومن اور کافر دونوں قرار پاتے ہیں، البتہ اگر کوئی فرد اور کوئی قوم مسلسل اللہ کی نافرمانی کرے تو اسی دنیا میں اس فرد اور قوم پر اللہ کا عذاب بھی آتا ہے لیکن آخرت میں اللہ کی رحمت و نعمت کے مستحق صرف مومن ہی قرار پائیں گے کوئی کافر مشرک ، منافق آخرت میں اللہ کی رحمت و نعمت کا مستحق قرار نہیں پائیگا چاہے اس نے اہل حق کی حمایت اور نصرت کی ہو، جس طرح آنحضورﷺ کے چچا ابو طالب نے زندگی بھر آنحضورﷺکی حمایت و مدد کی، لیکن حدیث میں آتا ہے کہ وہ دوزخ میں ہوں گے کیونکہ انہوں نے دین اسلام کو قبول نہیں کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مشرکوں کی مغفرت کی دعا کرنے سے بھی منع کردیا۔چنانچہ قرآن میں صاف طور سے اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ اور اہل ایمان کو مشرکوں کے حق میں مغفرت کی دعا سے روک دیا، چاہے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، فرمان باری تعالیٰ ہے ۔ مَا کَانَ لِلنَّبِیّ والّذِینَ اَمَنُوآ اَنْ یَّستَغْفِرُوا لِلمُشْرکِینَ وَلَو کَانُوآ اُوْلیِ قُرْبیٰ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحیمْ۔(سورہ توبہ آیت ۱۱۳) ترجمہ : نبی ﷺ اور ایمان والوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کرے اگرچہ رشتہ دار کیوںنہ ہوں، بعد اس کے کہ یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ دوزخ والے ہیں ۔ مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آخرت میںمشرک اللہ کی رحمت و مغفرت سے کس قدر محروم ہوں گے کہ ان کے حق میں مغفرت کی دعا کرنے سے بھی نبیﷺ اور اہل ایمان کو منع کردیا گیاہے ،مذکورہ آیت کے شان نزول میں بہت سے مفسرین نے ابو طالب کی وفات کے موقع کو قرار دیا ہے، اور لکھا ہے کہ جب آنحضورﷺ کے چچا ابو طالب کا انتقال بغیر ایمان کی حالت کے شرک میں ہوا تو آنحضورﷺ نے ارادہ کیا کہ ان کے مغفرت کی دعا کی جائے تو اللہ نے آپؐ کو اور اہل ایمان کو تمام مشرکوں کے متعلق مغفرت کی دعا سے منع کردیا ، چنانچہ اللہ کا یہ فرمان قیامت تک کے لئے ہے۔اسلئے قیامت تک کے لئے کسی بھی مسلمان کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مشرک کی مغفرت کی دعا کرے، چاہے وہ اسلام اور مسلمانوں کا کتنا ہی بڑا حامی ومدد گار کیوں نہ ہو، اس لئے کہ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آنحضورﷺ کے چچا ابوطالب نے دین کے سلسلہ میں آنحضورﷺ اور اہل ایمان کی جتنی حمایت و مدد کی تھی، شاید کوئی بھی مشرک قیامت تک حق اور اہل حق کی ایسی حمایت و مدد نہ کرسکے، لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے مسلمان بہت سے مشرکوں کے انتقال کے موقع پر ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں انہیںمعلوم ہونا چاہئے کہ اس گناہ کے مرتکب ہوکر وہ خود اپنی مغفرت کو داو پر لگا رہے ہیں ایک مسلمان کیلئے یہ کتنے خسارہ کی بات ہے کہ وہ محض جھوٹی شہرت اور مشرکوں کی چاپلوسی کی خاطر اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے لیں، اور اپنی مغفرت کو خطرہ میں ڈال دیں۔
جس کو نماز کی بھی تیسری آیت کہہ سکتے ہیں وہ مٰلِکِ یَوْم الْدِّیْنِ ہے ،یعنی اللہ بدلہ کے دن کا مالک ہے ، مطلب یہ کہ اللہ قیامت کے دن کا مالک ہے جس میں تمام انسانوں کا حساب ہوگا، جو اللہ کے فرمانبردار ہوں گے، وہ جنت میں جائیں گے اور جو اللہ کے نافرمان ہوں گے وہ جہنم میں جائیں گے ایک طرح سے اس آیت میں عقیدہ آخرت کے تصور کو پیش کیا گیا ہے جو اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے اس لحاظ سے سورئہ فاتحہ کی پہلی اور دوسری آیت سے اس تیسری آیت کا ایک دعوتی، تعلیمی و تربیتی تعلق بھی قائم ہو جاتاہے ،اس لئے کہ سورئہ فاتحہ کی پہلی اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت رب اور صفت رحمن و رحیم بیان ہوئی ہے جو اسلام کے بنیادی عقیدہ ، عقیدہ توحید کو واضح کرنے والی آیات ہیں، اور عقیدہ توحید اور عقیدہ آخرت میں بہت گہر ا تعلق ہے، اور اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن و رحیم کے متصل صفت مٰلِکَ یَومِ الدّین اسلئے بھی لائی گئی ہے کہ کوئی شخص اللہ کی صفت، رحمن و رحیم ،کو پڑھ کر اور سن کر آخرت کی طرف سے غافل نہ ہوجائے کہ اللہ تو رحمن و رحیم ہے جو چاہو کرو، اسلئے ہر پڑھنے اور سننے والے کو فوراً یہ پیغام دیا گیا کہ جو اللہ رحمن و رحیم ہے وہ مٰلِکَ یَومِ الدّین بھی ہے یعنی انصاف کے دن کا مالک اور انصاف یہی ہے کہ گناہ گار کو اس کے کئے کی سزا دی جائے اور نیکو کار کو اس کی نیکی کا انعام دیا جائے ، چنانچہ اللہ کا یہی انصاف انسانوں کے حق میں جنت و جہنم کی شکل میں ظاہرہوگا اور انصاف کے دن کے ساتھ اللہ کی صفت مالک اسلئے لائی گئی ہے کہ اس دن اللہ کے انصاف میں کوئی شریک نہیں ہوگا، اکیلا اللہ انصاف فرمائے گا، اور کوئی بھی شخص انصاف سے بچ نہیں سکے گا اور نہ کوئی انصاف سے بھاگ سکے گا، اب گویا کہ ہر نمازی کو ہر رکعت میں آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچنے کی تلقین اور اللہ کے انعام کو حاصل کرنے کی نصیحت کردی گئی ہے، ظاہر ہے جو شخص بھی دن میں سے پانچ مرتبہ نماز کی حالت میں پوری زندگی کے حساب و کتاب کے دن کو پڑھے اور سنے کیا ایسا شخص قیامت کے دن کو بھلا کر زندگی گزار سکتا ہے ؟ اور پھر بھی اگر وہ آخرت کے دن کو بھلا کر زندگی گزار رہا ہے تو کیا اس نے نماز کی حالت میں پڑھے ہوئے اور سنے ہوئے اللہ کے کلام کی خلاف ورزی نہیں کی؟ لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے پنجوقتہ نمازی آخرت کو فراموش کرکے زندگی گزارتے ہیں اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ جو کچھ وہ نماز میں اللہ کا کلام پڑھتے اور سنتے ہیں انہوں نے اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
ورنہ اللہ کا کلام قرآن اتنا بے وقعت نہیں ہے کہ کوئی اس کو دن میں سے پانچ مرتبہ محبت و عقیدت سے پڑھے اور سنے لیکن پھر بھی اس کی زندگی پر اثر نہ کرے، جب کہ یہی قرآن ہے جس نے لاکھوں کروڑوں غیر مسلموں کو مسلمان بنا دیا جب انہوں نے قرآن کو سنا اور پڑھا ، چنانچہ دورنبوی میںبھی بڑے بڑے کافر اور مشرک ایک ایک مرتبہ قرآن سن کر اسلام میں داخل ہوگئے تو کیا جس قرآن میں بڑے بڑے کافروں کو اسلام میں داخل کروانے کی صلاحیت ہے تو کیا اس قرآن میں ان مسلمانوں کو پورے طور پر اسلام میں داخل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے جو اسے حالت نماز میں دن میں سے پانچ مرتبہ سنتے اور پڑھتے ہیں؟ یقینا قرآن میں آج بھی وہی تاثیر ہے اور قیامت تک وہی تاثیر رہے گی، بشرطیکہ اسے سمجھ کر پڑھا او ر سنا جائے لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ صرف قرآن ہی وہ کتاب ہے جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ پڑھی اور سنی جانے کے باوجود سمجھی نہیں جاتی، گویا کہ مسلمان قرآن کے متعلق جتنا بے سمجھی کا رویہ رکھے ہوئے ہیں اتنا بے سمجھی کا رویہ کسی اور کتاب کے متعلق رکھے ہوئے نہیں ہیں، یہاں تک کہ ایک ساٹھ ستر سالہ پنجوقتہ نمازی روزانہ دسیوں مرتبہ سورئہ فاتحہ پڑھنے اور سننے کے باوجود اس کا مطلب جاننے کیلئے تیار نہیں ہے تو کیا یہ نمازوں سے حد درجہ غفلت اور لا علمی نہیں ہے؟ مگر افسوس ہے کہ نمازیوں کو اس غفلت اور لاعلمی کا احساس بھی نہیں ہے اور نمازیوں کا یہ طرز عمل علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے مصداق ٹھہرتا ہے جس میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز کی اصل روح قرآن ہی ہے اگر نماز پڑھنے کے باوجود قرآن سے علمی اور عملی تعلق قائم نہیں ہوا تو نماز کی اصل روح سے نمازی کا تعلق قائم نہیں ہوا ، اور ظاہر ہے بے روح نماز نہ ہمیں دنیا میں اللہ کی ہدایت پر چلا سکتی ہے اور نہ آخرت میں ہمیں نجات دلا سکتی ہے بلکہ الٹا ہمیں اللہ کے عذاب میں گرفتار کر اسکتی ہے ،یہ کہہ کر کہ نمازی نے مجھے سمجھنے کی کوشش نہیں کی اورمجھ سے غفلت برت کر زندگی گزاری، بہرحال سورئہ فاتحہ کی تیسری آیت مٰلِکَ یَومِ الدّین نمازی کو عقیدہ آخرت کے تصور سے باندھے رکھتی ہے، اگر نمازی کے اندر آخرت کی فکر پیدا نہیں ہوئی تو ایک طرح سے نمازی نے ابھی اپنی نماز کی پہلی رکعت کی دعوت کو ہی قبول نہیں کیا، آخرت کی زندگی یقینا مرنے کے بعد پیش آنے والی ہے ،لیکن اس کی کامیابی و ناکامی کا دارو مدار اسی دنیوی زندگی پر ہے ایک طرح سے دنیوی زندگی ، آخرت کی کھیتی ہے ، چنانچہ مشہور و معروف مقولہ ہے، اَلدُّنیاَ مَزعَۃُ الآخِرۃِ یعنی دنیا آخرت کی کھیتی ہے ، مطلب یہ کہ اس دنیا میں اپنے عمل کے ذریعہ جس نے جس قسم کا بیج ڈالا تھا آخرت میں اسی بیج کا پھل اس کو ملے گا، اگر اس نے اپنی زندگی میں اللہ کی بندگی کا بیج یویاتھا تو آخر ت میں اسی کا پھل اس کو جنت کی شکل میں ملے گا،اور اگر اس نے اپنی زندگی میں اللہ کی نافرمانی کا بیج بویا تھا تو آخرت میں اسی کا پھل اس کو جہنم کی شکل میں ملے گا۔
لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسلمان اپنی زندگی میں اللہ کی نافرمانی کا بیج ڈال کر اور اس کی نشو ونما کرکے جنت کا پھل حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ناممکن ہے۔ بہر حال اس دنیا میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کیلئے، اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی سے بچنے کے لئے ہر وقت آخرت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ فاتحہ میں آخرت کا تذکرہ رکھ دیا ہے ،جو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی اور سنی جانے والی سورت ہے، اب ہر نمازی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آخرت کی زندگی کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھے اور دنیا کی زندگی کو اس کے لئے بہ طور راستہ سمجھے مطلب یہ کہ دنیوی زندگی کا راستہ اگر آخرت کی زندگی کی طرف سے غافل کر رہا ہے یا جنت کی طرف لے جانے کی بجائے جہنم کی طرف لے جا رہا ہے تو ایسے راستہ کو لات ماد دے، چاہے وہ راستہ عارضی طور پر دنیوی زندگی کی خوشحالی ، عیش و عشرت و عزت و سر بلندی کا ذریعہ بن رہا ہو، اسی طرح جنت کی زندگی کا راستہ اگر عارضی طور پر دنیوی زندگی کی تنگی ، بدحالی ،اور اپنے اوپر ظلم و زیادتی کا ذریعہ بن رہا ہوتو تب بھی وہ راستہ نہ چھوڑے،لیکن افسوس ہے کہ بہت سے نمازی دنیوی زندگی کی خوشحالی ،عیش و عشرت اور سربلندی کی خاطر جنت کا راستہ چھوڑ کر دوزخ کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں، اسی طرح بہت سے نمازی دنیوی مصیبت و پریشانی سے بچنے کی خاطر جنت کا راستہ چھوڑ کر جہنم کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں، اس کا بھی نبیادی سبب یہی ہے کہ بہت سے نمازی ،نماز میں پڑھی اور سنی جانے والی بات کو سمجھتے نہیں ورنہ یہ نا ممکن ہے کہ کوئی نمازی حالت نماز میں اور وہ بھی اللہ کے پاک گھر مسجد میں برسوں بڑی عقیدت و محبت سے اللہ کے کلام کی بات پڑھے اور سنے اور پھر بھی اس کے خلاف عمل کرے، اسلئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہر نمازی ، نماز کی ہر بات کو سمجھے تاکہ نماز کے خلاف کوئی عمل اس سے سرزد نہ ہو، اور اگر غلطی سے سرزد ہو جائے تو فوراً اسے احساس ہو جائے اور وہ اس سے فوراً توبہ کرلے، کیونکہ کسی بھی چیز کے احساس کے لئے اس چیز کا علم ضروری ہے ، ابھی نمازیوں میں نماز کے متعلق صرف اتنا احساس پیدا ہوا ہے کہ نماز پڑھنا فرض ہے چنانچہ وہ نماز کی ادائیگی کا طریقہ سیکھنے کے لئے اور ادا کرنے کیلئے اپنا وقت فارغ کرتے ہیں اورایک نماز بھی چھوٹ جائے تو انہیں اس کا بہت احساس و غم ہوتا ہے، اور اس کی فضاء پڑھتے ہیں ،اور توبہ و استغفار کرتے ہیں ،لیکن ان نمازیوں کو ابھی یہ احساس نہیں ہیں کہ برسوں کی نماز کے خلاف ان سے اعمال سرزد ہو رہے ہیں ۔
لہٰذا انہیں اس سے باز آنا چاہئے، یہ بات کتنی تعجب خیز ہے کہ ان نمازیوں کو اپنی سینکڑوں،ہزاروں ، لاکھوں نمازوں کی بے علمی اور بے عملی کا احساس نہیں ہے کیونکہ صرف ایک ماہ کی نمازیں ہی دیڑھ سو ہو جاتی ہیں، اور صرف ایک سال کی نما زیں ہی اٹھارہ سو ہو جاتی ہیں اس لحاظ سے پچاس ساٹھ سالوں میں نمازوں کی یہ تعداد ایک لاکھ سے زائد ہو جاتی ہیں، اور یہ تو صرف فرض نمازوں کی تعداد کی بات ہوئی جب کہ ہر فرض نماز کے ساتھ کچھ سنت اور نفل نمازیں بھی ادا کی جاتی ہیں، اس تعداد کو اگر شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد کئی لاکھ ہوجاتی ہے، اب اتنی نمازوں کی طرف سے ناواقف رہنا نمازیوں کیلئے کتنے خسارہ اور نقصان کی بات ہے اور اللہ کے یہاں کتنی سخت ترین جواب دہی کی بات ہے کہ نمازیوں نے نماز کی ہزاروں اور لاکھوں مرتبہ کی بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی،اور جب سمجھنے کی کوشش نہیں کی تو عمل کی کوشش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، واضح رہے کہ آخرت میں سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہوگا، اور نماز کے حساب میں صرف نماز کی ادائیگی کا ہی حساب نہیں ہوگا، بلکہ نماز میں جو اللہ کا کلام پڑھا اور سنا جاتاتھا اس پر عمل سے متعلق بھی سوال ہوگا، اور ظاہر ہے نمازی تب ہی نماز میں پڑھے اور سنے جانے والے کلام پر عمل کریگا، جب کہ اسے اس کا علم ہوگا، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے نمازیوں نے نماز کے حساب کے متعلق صرف اتنا سمجھ رکھا ہے کہ نماز کا ادا کر لینا کافی ہے، چاہے نماز کے پیغام کا علم ہویا نہ ہو اور اس کے متعلق عمل ہو یا نہ ہو۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ فروری 2017