نماز اور سورہ فاتحہ کا تعلق

(8)

دنیا کے مالی اور سیاسی فائدہ کی خاطر اللہ کے احکام و ہدایات کو نظر انداز کر دینا ،یا ان کا غلط مطلب بتانا یہ اللہ کی غضب یافتہ قوم بنی اسرائیل کا شیوہ ہے، اور امت مسلمہ کو حالت نماز میں اس شیوے سے بچنے کی تلقین کی جارہی ہے، بلکہ خود ہر نمازی نماز کی حالت میں اس غلط خصلت سے بچنے کا عہد و اقرار کر رہا ہے، لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے مسلمانوں اور بہت سے نمازیوں میں دنیا کے مالی و سیاسی فائدہ کی خاطر اللہ کی ہدایات و احکام کو مسترد کر دینے یا ان کا غلط مفہوم و مطلب نکالنے کا رواج عام ہو گیا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے باغیوں اور ظالموں و جابروں کی حکومت کی تائید و حمایت کے لئے بھی اللہ کے احکام و ہدایات سے دلیلیں نکالی جا رہی ہیں، جب کہ اللہ کے احکام و ہدایات میں اللہ کے باغیوں اور ظالموں و جابروں کی حکومت کی مخالفت کا واضح طور سے حکم ہے، اور حدیث میں اس کو سب سے بڑا جہاد کہا گیا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں صحابی رسول کے ایک سوال کے جواب میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا، صحابی رسولﷺ نے پوچھا تھا،  اَیُّ الْجِھَادُ اَعْظَمُ یعنی سب سے بڑا جہاد کونسا ہے تو اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کَلِمَۃُ حقّ عِندَ سُلطَانِ جَائرِ           یعنی ظالم اقتدار کے سامنے حق بات کہنا، واضح رہے کہ سلطان کا لفظ عربی میں اقتدار کے لئے استعمال ہوتا ہے، کچھ لوگوں نے ’سلطان ‘کے معنی بادشاہ کے کر دیئے ہیں ،تو یہ استعارہ اور مجازی طور پر کر دیئے ہیں ،جب کہ حقیقت میں عربی میں بادشاہ کے لئے مَلِکُ کا لفظ آتا ہے۔

اس لحاظ سے آج دنیا میں جو جمہوری نظام کی حکومتیں ہیں، جن میں لاکھوں انسان نا حق قتل کئے جا رہے ہیں، وہ سب کی سب’ سلطان‘ جائر یعنی ظالم اقتدار کی تعریف میں آتی ہے ،اس لئے آج اگر کوئی بغیرہتھیار کے، اعظم جہاد‘ کا فریضہ ادا کرنا چاہتا ہے، یا ’اعظم جہاد‘ کا ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ  خامیاں اور اس کے ظلم کے کارنامے خود حکمرانوں کے سامنے پیش کرے، اور ساتھ ہی عام لوگوں کے سامنے بھی جمہوری نظام کی ظلم کی تاریخ بھی پیش کرے، جو بڑی آسانی کے ساتھ نظام کے حکمرانوں کے فریب میں آگئے ہیں، اور اسی کے ساتھ جمہوری نظام کے حکمرانوں اور عوام کے سامنے اسلامی نظام کی خوبیاں اور اسلامی نظام کی عدل و انصاف کی تاریخ بھی پیش کرے ،اور یہ سب نماز میں پڑھی اور سنی جانے والی آیت غَیْرِ الْمغضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لاَ الضَّآلیِن   کا لازمی تقاضہ ہے۔

نمازی کا اگر اپنی نماز کے پیغام کے مطابق عمل نہیں ہے، اور نماز کے پیغام میںخصوصیت کے ساتھ سورئہ فاتحہ کا پیغام ہے تو نمازی کا یہ طرز عمل سورئہ صف میں بیان کئے ہوئے اللہ کے تنبیہ یافتہ ایمان والوں میںشمار ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔  یَا یُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لاَ تَفْعَلُونَ کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللہِ اَنْ تَقُولوُا مَا لاَ تَفْعَلُونَ۔ترجمہ : ائے ایمان والوں وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں اللہ کے نزدیک بہت برا ہے کہ جو تم کہو،وہ نہ کرو۔ مطلب یہ کہ یہ ایمان کا تقاضہ ہے کہ جو کہا جائے اس کے مطابق عمل کیا جائے، اور اگر کہنے کے مطابق عمل نہیں ہے تو یہ منافقین کا طرز عمل ہے اور منافقین کے لئے قرآن میں سخت ترین عذاب کی تنبیہ ہے ، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔  اِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرکَِ  الْاَسْفَلِ مِنْ النَّار۔(نساء ۱۴۵) یعنی منافقین دوزخ کے سب سے نچلے حصہ میں ہوں گے۔

لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے نمازیوں کا طرز عمل سورئہ صف میں بیان کئے ہوئے بُرے طرز عمل میں آجاتا ہے ،اس لئے کہ ہر نمازی ، نماز کی حالت میں صرف اللہ ہی کی بندگی کا عہد کر رہا ہے، اور صرف اسی سے مدد مانگنے کا عہد کر رہا ہے، اور سیدھے راستہ پر چلنے کی دعا اوراقرار کر رہا ہے، اور اللہ کے غضب یافتہ اور گمراہ لوگوں کے راستہ سے بچنے کا اقرار کر رہا ہے ،لیکن اس کے باوجود وہ اللہ ہی کی بندگی پر قائم نہیں ہے، اسی طرح سیدھے راستے سے ہٹا ہوا ہے، اور غلط راستہ پر چل رہا ہے، تو ظاہر ہے نمازی کا یہ عمل کھلے طور پر اپنی نماز کے خلاف ہے، اور نمازیوں کا یہ طرز عمل ان سیاسی لیڈران اور افسران سے بھی بُرا ہے، جو گرام پنچایت، نگر پریشد، کارپوریشن، اسمبلی ہائوس اور پارلیمنٹ ہائوس میں بیٹھ کر عوام سے اچھے کاموں کے وعدے کرتے ہیں، لیکن باہر آنے کے بعد ان وعدوں کو بھو ل جاتے ہیں، اور عوام کو دھوکہ دیتے ہیں، اس لحاظ سے پنجوقتہ نمازی روزانہ پانچ وقت اللہ کے ہائوس ،یعنی مسجد میں آکر حالت نماز میں اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اللہ ہی کی بندگی کا عہد کرتے ہیں، اسی طرح اسلام ہی کے راستہ پر چلنے کا عہد کرتے ہیں، اور ہر باطل راستہ سے دور رہنے کا عہد کرتے ہیں، لیکن نماز کے بعد اس عہد کو بھلا دیتے ہیں، تو ظاہر ہے ان کا یہ طرز عمل سیاسی لیڈران اور افسران کے طرز عمل سے بُرا شمار ہوگا، کیونکہ نمازیوں نے یہ عہد و اقرار اللہ کے مقدس گھرمسجد میں کیا ہے ،جو کہ سیاسی لیڈران اور افسران نے نہیں کیا ہے، ویسے ہر عہد و اقرار کو پورا کرنا ضروری ہے، چاہے کسی بھی جگہ کیا جائے بشرطیکہ وہ عہد و اقرار صحیح ہو، لیکن حالت نماز اور مسجد میں کئے ہوئے عہد و اقرار کی اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے ،لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ جس جگہ کے عہد و اقرار کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، آج نمازی سب سے زیادہ اسی عہد و اقرار کو بھولے ہوئے او ر چھوڑے ہوئے ہیں، اس کا ایک بنیادی سبب نماز میں کئے ہوئے عہد و اقرار کو نہیں سمجھنا ہے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں اور خاص طور سے نمازیوں میں نماز فہمی کی تحریک چلائی جائے ،اور نماز فہمی کی تحریک میں خصوصیت کے ساتھ سورئہ فاتحہ کے سمجھنے پر زور دیا جائے، کیونکہ سورئہ فاتحہ نماز کی اصل روح ہے۔

اسی طرح سورئہ فاتحہ پورے دین اور پورے قرآن کا نچوڑ اور خلاصہ ہے، جس نے سورئہ فاتحہ کو سمجھ لیا ایک طرح سے اس نے پوری نماز،پورے دین، اور پورے قرآن کو سمجھ لیا، اور جو سورئہ فاتحہ سے لا علم ہے، وہ پوری نماز سے لا علم ہے، پورے دین، اور پورے قرآن سے لا علم ہے ، اور سورئہ فاتحہ جو ہر نماز کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایک مسلمان کے سامنے روزانہ پانچ مرتبہ، وقفہ وقفہ سے پورے دین اور قرآن کا پیغام آتے رہے ، تاکہ اس پیغام کی روشنی میں ایک مسلمان اور نمازی اسلامی زندگی گزار سکے، کیونکہ اسلامی زندگی گزارنے کے لئے اسلامی علم کی ضرورت ہے، اور اسلامی علم پر عمل کرنے کیلئے ایک احساس وعہد کی ضرورت ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے نماز میں اسلامی زندگی کے لئے جتنے علم کی ضرورت تھی اتنا علم سورئہ فاتحہ اور دیگر آیات و اذکار کے ذریعہ رکھ دیا۔اور جتنے عہد و احساس کی ضرور ت تھی و عہد و احساس بھی رکھ دیا، صرف نمازی اپنی نماز کے ذریعہ وہ علم و احساس اپنے اندر پیدا کرے۔ بنی اسرائیل کا پانچواں بڑا جرم اور گناہ ، حق و باطل کو ایک دوسرے میں ملا دینے اور جانتے بوجھتے حق کو چھپا دینے کا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ کے پانچویں رکوع میں بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمایا۔  وَ لاَ تَلْسبوُا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُموْا الْحَقّ و اَنْتُمْ تَعلَمُوْنَ۔یعنی اے بنی اسرئیل تم حق کو مت چھپائو باطل سے ،اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپائو۔

مطلب یہ کہ حق کے ساتھ باطل مت ملائو، اسی طرح جانتے بوجھتے  حق کو مت چھپائو، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ حق بات کو غلط باتوں کے ساتھ گڈ مڈ کرکے پیش کرنا اور حق بات کو چھپانا بنی اسرائیل کا شیوہ ہے، جو اللہ کی غضب یا فتہ اور گمراہ قوم ہے ،اسلئے امت مسلمہ کو حالت نماز میں بنی اسرائیل کے اس طرز عمل سے منع کیا جا رہا ہے، لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے مسلمانوں او ر بہت سے نمازیوں میں حق و باطل کو گڈ مڈ کرنے اور حق کو جانتے بوجھتے چھپانے کا جرم اور گناہ پایا جاتا ہے ، چنانچہ آج مسلمانوں میں بہت سے ایسے مصنفین و مقررین ہیں جو اپنی تصنیف و تقریر میں اسلام کی صاف ستھری تعلیمات میں کچھ باطل خیالات و باتیں ملاکر انہیں مشتبہ بنا دیتے ہیں، اور بہت سے واعظین تو، دین حق کو من گھڑت واقعات اور من گھڑت باتوں سے بد نام بھی کرتے ہیں ۔ ایک مفسر قرآن مفتی شفیع صاحبؒ نےایک واقعہ نقل کیا ہے ،جس میں علماء کے لئے حکمرانوں سے بے نیازی، اور حق کے اظہار کے لئے ہمت و جرات کا پیغام ہے ، چنانچہ وہ واقعہ من و عن یہاں نقل کیا جارہا ہے، تاکہ موجودہ دورکے علماء و دانشوران کو اس واقعہ سے نصیحت حاصل ہو۔(مسند دارمی میں سند کے ساتھ مذکور ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان بن عبد الملک مدینہ پہنچے، اور چند روز قیام کیا تو لوگوں سے دریافت کیا کہ مدینہ طیبہ میں اب کوئی ایسا آدمی ہے جس نے کسی صحابی کی صحبت پائی ہو؟ لوگوں نے بتلایا ، ہاں ابو حازم ایسے شخص ہیں، سلیمان نے اپنے آدمی بھیج کر ان کو بلوایا، جب و ہ تشریف لائے تو سلیمان نے کہا اے ابو حازم یہ کیا بے مروتی اور بے وفائی ہے؟ سلیمان نے کہا مدینہ کے سب مشہور لوگ مجھ سے ملنے آئے آپ نہیں آئے، ابو حازم نے کہا، امیر المومنین میں آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، اس سے کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں، جو واقعہ کے خلاف ہے، آج سے پہلے نہ آپ مجھ سے واقف تھے، اور نہ میں نے کبھی آپ کو دیکھا تھا، ایسے حالات میں خود ملاقات کے لئے آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بیوفائی کیسی ؟ سلیمان نے جواب سن کر ابن شہاب زہریؒ اور حاضرین مجلس کی طرف التفات کیاتو امام زہریؒ نے فرمایا کہ ابو جازم نے صحیح فرمایا، آپ نے غلطی کی۔

اس کے بعد سلیمان نے روئے سخن بدل کر کچھ سوالات شروع کئے اور کہا ائے ابو حازم یہ کیا بات ہے، کہ ہم موت سے گھبراتے ہیں؟ آپ نے فرمایا وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی آخرت کو و یران اور دنیا کو آباد کیا ہے، اس لئے آبادی سے ویرانہ میں جانا پسند نہیں، سلیمان نے تسلیم کیا اور پوچھا کہ کل اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کیسے ہوگی؟ فرمایا کہ نیک عمل کرنے والا تو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس طرح جائے گا جیسا کوئی مسافر سفر سے واپس اپنے گھر والوں کے پاس جاتا ہے اور بُرے عمل کرنے والا اس طرح پیش ہوگا، جیسا کوئی بھاگا غلام پکڑ کر آقا کے پاس حاضر کیا جائے، سلیمان یہ سن کر رو پڑے، اور کہنے لگے کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کیا صورت تجویز کر رکھی ہے، ابو جازم نے فرمایا کہ اپنے اعمال کو اللہ کی کتاب پر پیش کر وتو پتہ لگ جائیگا ،سلیمان نے دریافت کیاکہ قرآن کی کس آیت پر پتہ لگے گا؟ فرمایا اس آیت سے  اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفیِ نَعیِمْ وَّ لَفیِ جَحیَم،یعنی بلاشبہ نیک عمل کرنے والے جنت کی نعمتوں میں ہیں، اور نافرمان  دوزخ میں، سلیمان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو بڑی ہے، وہ بدکاروں پر بھی حاوی ہے فرمایا،   اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَریْبُ مِنَ الْمُحسِنِینَ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک عمل کرنے والوں سے قریب ہے۔ سلیمان نے پوچھا ائے ابو حازم اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ کون عزت والا ہے؟ فرمایا وہ لوگ جو مروت اور عقل سلیم رکھنے والے ہیں ،پھر پوچھا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ فرمایا کہ فرائض و واجبات کی ادائیگی، حرام چیزوں سے بچنے کے ساتھ، پھر دریافت کیا کہ کونسی دعا زیادہ قابل قبول ہے؟  تو فرمایا کہ جس شخص پر احسان کیا گیا ہو، اس کی دعا اپنے محسن کے لئے اقرب الیٰ القبول ہے۔

پھر دریافت کیا کہ صدقہ کونسا افضل ہے؟ تو فرمایا کہ مصیبت زدہ سائل کے لئے ،باوجود اپنے  افلاس کے جو کچھ ہو سکے، اس طرح خرچ کرنا کہ نہ اس سے پہلے احسان جتائے اور نہ ٹال مٹول کرکے ایذا پہونچائے، پھر دریافت کیا کہ کلام کونسا افضل ہے ؟ فرمایا کہ جس شخص سے تم کو  خوف ہو، یا جس سے تمہاری کوئی حاجت ہو، اور امید وابستہ ، اس کے سامنے بغیر کسی رورعایت کے حق بات کہہ دینا، پھر دریافت کیا کہ کونسا مسلمان سب سے زیادہ ہو شیار ہے؟ فرمایا وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے تحت کام کیا ہو، اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دی ہو، پھر پوچھا کہ مسلمانوں میں کون شخص احمق ہے ؟ فرمایا وہ آدمی جو اپنے کسی بھائی کی اس کے ظلم میں امدادکرے، جس کا حاصل یہ ہوگا ،کہ اس نے دوسرے کی دنیا درست کرنے کے لئے اپنا دین بیج دیا، سلیمان نے کہا ،کہ صحیح فرمایا، اس کے بعد سلیمان نے اور واضح الفاظ میں دریافت کیا کہ ہمارے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ابو حازم نے کہا آپ مجھے اس سوال سے معاف رکھے تو بہتر ہے ، سلیمان نے کہا کہ نہیں آپ ضرور کوئی نصیحت کریں۔

ابو حازم نے فرمایا ائے  امیر المومنین تمہارے آباء و اجداد نے بہ زورِ شمشیر لوگوں پر تسلط کیا، اور زبردستی ان کی مرضی کے خلاف ان پر حکومت قائم کی، اور بہت سے لوگوں کو قتل کیا ،اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، کاش آپ کو معلوم ہوتا کہ اب وہ مرنے کے بعد کیا کہتے ہیں، اور ان کو کیا کہا جاتا ہے، حاشیہ نشینوں میں سے ایک شخص نے بادشاہ کے مزاج کے خلاف ابو حازم کی اس صاف گوئی کو سن کر کہا کہ ابو حازم تم نے یہ بہت بری بات کہی ہے، ابو حازم نے فرمایا تم غلط کہتے ہو بری بات نہیں کہی، بلکہ وہ بات کہی ،جس کا ہم کو حکم ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علماء سے اس کا عہد لیا ہے کہ حق بات لوگوں کو بتلائیں گے، چھپائیں گے نہیں،  لَتُبییّنُہُ لِلنّاسِ وَلاَ تَکْتُمونَہ یہی وہ بات ہے جس کے لئے یہ طویل حکایت امام قرطبیؒ نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں درج فرمائی ہے۔

سلیمان نے پھر سوال کیا کہ اچھا اب ہمارے درست ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ فرمایا کہ تکبر چھوڑو ،مروت اختیار کرو، اور حقوق والوں کو ان کے حقوق انصاف کے ساتھ تقسیم کرو، سلیمان نے کہا کہ ابو حازم کیا ہو سکتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں، فرمایا خدا کی پناہ سلیمان نے پوچھا یہ کیوں؟ فرمایا کہ اس لئے کہ مجھے خطرہ یہ ہے کہ میں تمہارے مال و دولت اور عزت و جاہ کی طرف کچھ مائل ہو جائوں ،جس کے نتیجہ میںمجھے عذاب بھگتنا پڑے، پھر سلیمان نے کہا کہ اچھا آپ کی کوئی حاجت ہو تو بتلائیے کہ ہم اس کو پورا کریں، فرمایا ہاں ایک حاجت ہے، کہ جہنم سے نجات دلادو، اور جنت میں داخل کردو، سلیمان نے کہا کہ یہ تو میرے اختیار میں نہیں ، فرمایا کہ پھر مجھے آپ سے اور کوئی حاجت مطلوب نہیں، آخر میں سلیمان نے کہا اچھا میرے لئے دعا کیجئے، تو ابو حازمؒ نے یہ دعا کی، یا اللہ اگر سلیمان آپ کا پسندیدہ ہے، تو اس کے لئے دنیا و آخرت کی بہتری کو آسان بنادے، اور اگر وہ آپ کا دشمن ہے ،تو اس کے بال پکڑ کر اپنی مرضی اور محبوب کاموں کی طرف لے آ، سلیمان نے کہا کہ مجھے وصیت فرما دیں، ارشاد فرمایا کہ مختصر یہ ہے کہ اپنے رب کی عظمت و جلال اس درجہ میں رکھوکہ وہ تمہیں اس مقام پر نہ دیکھے جس سے منع کیا گیا ہے، اور اس مقام سے غیر حاصر نہ پائے ،جس کی طرف آنے کا اس نے حکم دیا ہے، سلیمان نے اس مجلس سے فارغ ہونے کے بعد سو دینار بطور ہدیہ کے ابو حازم کے پاس بھیجیں، ابو حازم نے ایک خط کے ساتھ ان کو واپس کر دیا، خط میں لکھا تھا کہ اگر یہ سو دینار میرے کلمات کامعاوضہ ہے، تو یہ میرے نزدیک خون اور خنز یرکا گوشت اس سے بہتر ہے، اور اگر اس لئے بھیجا ہے کہ بیت المال میں میرا حق ہے، تو مجھ جیسے ہزاروں علماء اور دین کی خدمت کرنے والے ہیں، اگر سب کو آپ نے اتنا ہی دیا ہے، تو میں بھی لے سکتا ہوں ،ورنہ مجھے اس کی ضرورت نہیں(منقول معارف القرآن جلد۱ صفحہ ۲۱۱)

مذکورہ واقعہ میں جس سلیمان کا تذکرہ ہے، اس سے مراد سلیمان بن عبد الملک ہیں،جو خلافت بنوا میہ کے مشہور معروف خلیفہ ہیں، اور جس ابو حازمؒ کا تذکرہ ہے وہ ایک مشہور و معروف تابعی ہے، اور تابعی اس کو کہتے ہیں، جس نے براہ راست کسی صحابی سے علم حاصل کیا ہو، مذکورہ واقعہ میںجہاں ابو حازمؒ کی حق گوئی کا تذکرہ ہے وہیں سلیمان بن عبد الملک کے قبولِ حق کا تذکرہ بھی ہے ۔ مولانا مودودیؒ تحریر فرماتے ہیں۔  اہل عرب با لعموم نا خواندہ  لوگ تھے، اور ان کے مقابلہ میں یہودیوں کے اندر ویسے بھی تعلیم کا چرچا زیادہ تھا، اور انفرادی طور پر ان میں ایسے ایسے جلیل القدر عالم پائے جاتے تھے، جن کی شہرت عرب کے باہر تک پہنچی ہوئی تھی، اسی وجہ سے عربوں پر یہود یو ںکا علمی رعب بہت زیادہ تھا ،پھر ان کے علماء اور مشائخ نے اپنے مذہبی درباروں کی ظاہر شان جما کر، اور اپنی جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار چلاکر اس رعب کو اور بھی زیادہ گہرا اور وسیع کر دیا تھا، خصوصیت کے ساتھ اہل مدینہ، ان سے بے حد مرعوب تھے کیونکہ ان کے آس پاس بڑے بڑے یہودی قبائل آباد تھے، رات دن کا ان سے میل جول تھا اور اس میل جول میں وہ ان سے اسی طرح شدت کے ساتھ متاثر تھے جس طرح ایک ان پڑھ آبادی زیادہ تعلیم یافتہ زیادہ متمدن اور زیادہ نمایاں مذہبی شخص رکھنے والے ہمسایوں سے متاثر ہوا کرتی ہے ، ان حالات میںجب نبیﷺ نے اپنے آپ کو نبی ؐ کی حیثیت سے پیش کیا، اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینی شروع کی تو قدرتی بات تھی ،کہ اَن پڑھ عرب اہل کتاب یہودیوں سے جاکر پوچھتے کہ آپ لوگ بھی ایک نبی کے پیرو ہیں، اور ایک کتاب کو مانتے ہیں، آپ ہمیں بتائیں کہ یہ صاحب جو ہمارے اند ر نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں۔

ان کے متعلق اور ان کی تعلیم کے متعلق آ پ کی کیا رائے ہے، چنانچہ یہ سوال مکہ کے لوگوں نے بھی یہودیوں سے بارہا کیا، اور جب نبیﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی بکثرت لوگ یہودی علماء کے پاس جا جا کر یہی بات پوچھتے تھے، مگر ان علماء نے کبھی لوگوں کو صحیح بات نہ بتائی ان کے لئے یہ کہنا تو مشکل تھا کہ وہ توحید جو محمدﷺ پیش کر رہے ہیں غلط ہے، یا انبیاء اور کتب آسمانی اور ملائکہ اور آخرت کے بارے میں جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں، اس میں کوئی غلطی ہے، یا وہ اخلاقی اصول جن کی آپ تعلیم دے رہے ہیں ان میں سے کوئی چیز غلط ہے، لیکن وہ صاف صاف اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لئے بھی تیار نہ تھے کہ جو کچھ آپؐ پیش کر رہے ہیں وہ صحیح ہے ،وہ نہ سچائی مان لینے پر آمادہ تھے۔ ان دونوں راستوں کے درمیان انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ ہرسائل کے دل میں نبیﷺ کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتے تھے، کوئی الزام آپ پر چسپاں کر دیتے تھے، کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے تھے، جس سے لوگ شکوک و شبہات میں پڑ جائیں، اور طرح طرح کے الجھن میں ڈالنے والے سوالات چھیڑ دیتے تھے، تاکہ لوگ ان میں خود بھی اُلجھیں اور نبیﷺ اور آپ کے پیروئوں کو بھی اُلجھانے کی کوشش کریں، ان کا یہی رویہ تھا جس کی بناپر ان سے فرمایا جارہا ہے کہ حق پر باطل کے پردے نہ ڈالو، اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اور شریرانہ شبہات و اعترفات سے حق کو دبا نے اور چھپانے کی کوشش نہ کرو، اور حق و باطل کو خلط ملط کرکے دنیا کو دھوکہ نہ دو۔ (منقول تفہیم القرآن جلد اول صفحہ ۷۲ حاشیہ ۵۹)

مولانا مودودیؒ کے مذکورہ تفسیری کلمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حق کو باطل کے ذریعہ چھپانا یہود کا بہت پرانا مرض ہے، اور اسی مرض کے اثرات بعد میں نصاریٰ پر بھی پڑے، اور کہیں امت مسلمہ اس مرض میں مبتلا نہ ہو جائے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر نماز کی ہر رکعت میں یہود و نصاریٰ کے راستہ سے بچنے کی امت مسلمہ کو تلقین کی ہے، لیکن افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کے بہت سے علماء بھی حق کو باطل کے ذریعہ چھپانے کے مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں ،اور اسی کے اثرات عوام پر بھی پڑے ہیں۔  چونکہ مسلمانوں کا قرآن و حدیث کی تعلیمات سے رشتہ کمزور ہو گیا ہے،اس لئے بہت سے مسلمانوں پر بھی برہمن سوچ کے اثرات پائے جاتے ہیں، علامہ اقبالؒ نے اسی بات کو اپنے چند اشعار میں پیش کیا ہے۔

سطوتِ توحید قائم ،جن نمازوں سے ہوئی

وہ نمازیں ہند میں، نذرِ برہمن ہو گئیں

 تیری نماز بے سرور، تیرا امام بے حضور

ایسی نماز سے گزر ، ایسے امام سے گذر

رگوں میں، وہ لہو باقی نہیں ہے

وہ دل، وہ آرزو ،باقی نہیں ہے

نماز، و، روزہ ،و قربانی و حج

یہ سب باقی ہیں ،تو باقی نہیں ہے

جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی ،تو زمیں سے آنے لگی صدا

تیرا دل تو ہے، صنم آشنا ،تجھے کیا ملے گا نماز میں

مسلمانوں کے لئے یہ کتنا افسوس کامقام ہے کہ اپنا اثر ڈالنے کے بجائے ان کا اثر قبول کر لیا ہے،  چنانچہ آج مسلمانوں میں بہت سے مشرکانہ عقائد و اعمال ایسے ہیں، جنہیں مسلمان دینی عقائد و اعمال کے طور پر قبول کئے ہوئے ہیں، جیسے قبروں کو سجدہ کرنا، اور ان پر پھول چادر چڑھانا، یہ کبھی بھی اسلام کا حصہ نہیںر ہے ہیں، اور نہ قیامت تک اسلام کا حصہ ہو سکتے ہیں، بلکہ اسلام میں تو پکی قبر بنانے کی بھی ممانعت ہے ،جیسا کہ آنحضور ﷺ کا بخاری شریف میں ارشاد ہے،  لَعَنَ اللہُ الْیھُوْدَ وَ النَّصَارٰی اِ تّخَذُ وْاقُبُورَ اَنْبِیَآ ئِ ھِمْ مَسَاجِدَ۔ (بخاری عن  عائشہ کتاب الجنائز مسلم کتاب االمساجد) ۔ یعنی یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو ، انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کی سجدہ گاہ بنالیا۔اسی طرح ایک دوسری حدیث میں فرمانِ رسول ہے ، اَلاَ وَ اِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلکُمْ کَانُوْ ایَتّخِذُ وْنَ قُبُوْرَ اَنْبِیَائِ ھِمْ وَصَا لِحِیْھمْ مَسَاجِدَ اَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُ وَ الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ اِنّیِْ اَنْھَا کُمْ عَنْ ذالِکَ (مسلم شریف)  ترجمہ :  نبیﷺ نے فرمایا۔آگاہ رہو ،گذشتہ دور کی امتوں نے اپنے بزرگوں اور پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیاتھا، میں تمہیں اس سے روکتا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم قبروں کو سجدہ گاہ بنالو۔ اسی طرح مسلم شریف میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے ،  نَھیٰ رَسُوْلُ اللہِﷺ اَنْ یُّجصَّصَ الْقَبْرُ وَ اَنْ یُّقْعَدَ عَلَیْہِ وَ اَنْ یُبْنیَ عَلَیْہِ (مسلم ،ابو دائود،ترمذی) ترجمہ :  حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے قبرکو پختہ کرنے اور اس پر بیٹھنے ،اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے روکا ہے ۔

افسوس ہے کہ آج پورے بر صغیر میں لاکھوں کروڑوں مسلمان ان غیر اسلامی عقائد و اعمال کواسلامی عقائد و اعمال کے طور پر انجام دیتے ہیں، ایسا لگتا ہے یہود و نصاریٰ نے مسلمانوں میں مزار پرستی کے عقیدہ و عمل کو داخل کرکے امتِ مسلمہ سے فرمانِ رسول کا انتقام لیا ہے،اس کا بھی بنیادی سبب یہی ہے کہ مسلمانوں نے اپنی نماز کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، ورنہ نماز کی صرف ایک رکعت ہی قبر پرستی اور مزار پرستی سے نکالنے کے لئے کافی ہے،اسی طرح مسلمانوں کو تمام برائیوں سے واقف کرنے اور روکنے کے لئے کافی ہے، اس لئے کہ  غَیر الْمغضُوبِ عَلَیْھِمْ وَ لاَ الضَّآلّیِنَ میںہرقسم کی برائی سے واقف ہونے اور بچنے کی تعلیم آگئی ہے۔غرض یہ کہ جس طرح ہر نمازی سورئہ فاتحہ کے الفاظ سے واقف ہے، اسی طرح اس کے معانی سے بھی واقف ہو، اور سورئہ فاتحہ جس کا حکم دیتی ہے اسے اختیار کرے، اور جس سے روک دیتی ہے ،اس سے رک جائے ۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2017

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau