اذان اور دعوت میں تعلق

(10)

کلمۂ شہادت  کے الفاظ اس طرح ہیں ۔  اَشْھدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّاللَّہُ وَ اَشْھَدُ اِنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَ رَسُولَہ۔’’یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور میں گواہی دیتا ہو کہ محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں‘‘۔

عبدْ کی حقیقت و تعریف سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دور نبوی اور دور نزول قرآن کے وقت عَبدْ کس معنیٰ و مفہوم میں استعمال ہوتا تھا ، اسے سمجھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئیگی کہ دور نبوی میں انسانوں کی دو قسمیں شمار ہوتی تھیں، ایک آزاد اور دوسرے غلام، جو غلام ہوتے تھے وہ اپنی مرضی کے مالک نہیں ہوتے تھے، بلکہ وہ اپنے آقا کی مرضی کے تابع ہوتے تھے، یہاں تک کہ غلام جو کچھ کماتے تھے وہ بھی ان کے آقا کا ہوتا تھا، عربی میں ان ہی غلاموں کو عَبدْ کہا جاتا تھا، اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عَبدْ کا لفظ اس مفہوم و معنیٰ میں بیان کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نکاح کے متعلق اہل ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا۔  وَلاَ تُنْکِحُ وَاْ الْمُشْرکٰتِ حَتَّی یُوْمِنَّ وَ لَاَ مَۃُ مُوْ مِنَۃُ خَیْرُ مِنْ مُّشْرِکَۃِ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَ لَا تُنْکِحُوْا الْمُشْرِکِینَ حَتَّی یُوْ مِنُوْا وَ لَعَبْدُ مُّوْمِنُ خَیْرُ مِنْ مُشْرِکِ وَّ لَوْاَعْجَبَکُمْ (سورئہ بقر آیت ۲۲۱) ترجمہ :’’  اور نکاح نہ کریں مشرکہ عورتوں سے جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں ، اور مومنہ باندی، مشرکہ سے بہتر ہے ، اگر چہ کہ تمہیں مشرکہ عورتیں اچھی لگتی ہوں، اور نہ عورتیں مشرک مردوں سے نکاح کریں جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں، اور تحقیق کہ مومن غلام، مشرک مرد سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمہیں اچھا لگے‘‘۔

مذکورہ آیت میں باندی کے لئے اَمَۃُ کا لفظ اور غلام کے لئے عبد کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ایک غلام اور آقا میں مقام و مرتبہ و اختیار کا جو فرق ہوتا ہے، وہی مقام و مرتبہ و اختیار کا فرق حضرت محمدﷺ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محمدﷺ اللہ کے سب سے افضل بندے اور رسول ہیں ۔ حضر ت محمدﷺ کو اللہ کا رسول ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے آپؐ کو دنیا میں مبعوث کیا ہے، اس مقصد کو پورا کیا جائے، اور آپؐ کے دنیا میں آنے کے مقصد کو اگر مختصر جملوں میں سمجھا جائے تو یہ ہے کہ انسانوں کو اللہ کی بندگی کی دعوت دی جائے، اور غیر اللہ کی بندگی سے منع کیا جائے، اور دین اسلام کو دنیا میں تمام دینوں پر غالب کرنے کی کوشش کی جائے، چنانچہ آنحضورﷺ کی تئیس(۲۳) سالہ نبوی زندگی اسی کام میں گزری، دعوت دین اور غلبہ دین کا کام ہر دور میں مشکل رہا ہے، لیکن کسی بھی نبی اور رسول نے اس کام میں کوتاہی نہیں کی، بلکہ ہر نبی اور رسول نے بڑی دلچسپی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا، حضرت محمدﷺ نے بھی اس کام کو بڑی دلی آمادگی اور کُڑھن کے ساتھ انجام دیا،  فرمان باری تعالیٰ ہے:  لَعَلّکَ بَاخِعُ نَّفْسَکَ اِلّاَ یَکُوْنُوا مُوْمِنِینَ(شعریٰ آیت ۳) ترجمہ : ’’ شاید آپؐ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے کہ وہ مومن نہیں ہوتے‘‘۔

محمدﷺ کو اللہ کا رسول ماننے کا ایک لازمی تقاضہ یہ ہے کہ دعوت دین کا کام اللہ کے کلام یعنی قرآن کی ہدایت کے مطابق کیا جائے،  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں  فرمایا : وَ کَذٰلِکَ اَوْ حَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحاً مِنْ اَمْرنَا مَاکُنْتَ تَدْرِیْ مَا الکِتٰبُ وَلاَ الْاِیْمَا نُ وَ لٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْراً نَّھْدِیْ بِہِ مَنْ نَشَائُ مِنْ عِبَادِنَا(سورئہ شورٰی آیت ۵۲)ترجمہ: ’’ اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کی آپؐ کی طرف وحی کی، آپؐ نہ کتاب جانتے تھے اور نہ ایمان، لیکن ہم نے اس قرآن کو روشنی بنایا، ہم اس کے ذریعہ ہمارے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں‘‘۔

مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ محمدﷺ کا اصل دعوتی و ایمانی ہتھیار و نسخہ قرآن ہی تھا، اسی قرآن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ایمان سمجھایا ، اور اسی قرآن کے ذریعہ محمدﷺ نے صحابہ کرامؓ کو ایمان سمجھایا اور اسی قرآن کی تبلیغ کا آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم تھا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یَآیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبَکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ۔(مائدہ آیت۶۷) ترجمہ :’’ اے رسولؐ پہنچا دیجئے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ، اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اپنی رسالت کو نہیں پہنچایا ، اور اللہ لوگوں سے آپ کو بچانے والا ہے ، بیشک اللہ کا فرقوم کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔

مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ محمدﷺ کا بحیثیت رسولؐ کے اصل کام اللہ کے کلام کو لوگوں تک پہنچایا تھا، اس مناسبت سے جو بھی محمدﷺ کو اپنا رسول تسلیم کرتا ہے، اس کا بھی اصل کام اللہ کے کلام کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ نبی اور رسولؐ کا  اولین کام  یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر جو قرآن نازل ہو رہا تھا، اس کو سنا اور سمجھا ، پھر اس پر خود عمل کیا ، اور پھر لوگوں کے سامنے اسے پیش کیا ،اس لحاظ سے ہر مسلمان کا سب سے پہلا کام، قرآن مجید کو سننا اور سمجھنا ہونا چائیے۔

لیکن افسوس ہے کہ ابھی بہت سے مسلمانوں نے قرآن مجید کے سننے اور سمجھنے کو ابھی اپنا پہلا کام نہیں بنایا، یہاں تک کہ بہت سے وہ مسلمان جن کی عمریں پچاس ، ساٹھ سال ہو چکی ہیں، انہوںنے بھی اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی مکمل قرآن مجید کو سمجھ کر سنا نہیں، اور نہ ہی سمجھ کر پڑھا ، جبکہ ایمان لانے کے ساتھ ہی ایک مسلمان پر اولین طور پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی مرضی کو جاننے کی،اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی مرضی کو جاننے کا اولین ذریعہ قرآن ہے۔ کچھ دینی جماعتیں اور ادارے بھی دینی کام انجام دینے کے لئے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے اور سننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔

حضرت آدمؑ سے لے کرآخری نبی حضرت محمدﷺ تک اور حضرت محمدﷺ سے لیکر آج تک اور قیامت تک ایسی کوئی دینی و اسلامی جماعت نہیں بتائی جا سکتی ، جس کے تعلیمی و دعوتی منصوبہ میں اللہ کے کلام کو سمجھنے اور سمجھانے کو خصوصی اہمیت نہ ہو، اور جب بھی کسی دینی و اسلامی جماعت نے اللہ کے کلام کو سمجھنے اور سمجھانے کی طرف سے کوتاہی برتی وہ جماعت دنیوی اور غیر اسلامی بن گئی، ماضی میں اس کی مثال یہود و نصارٰی ہیں۔ جب یہود و نصارٰی نے توریت و انجیل کے سمجھنے اور سمجھانے کی طرف سے غفلت برتی، تو یہ دونوں ہی جماعتیں سیدھے راستہ سے بھٹک گئیں، حضرت محمدﷺ کو بھی اپنی امت سے متعلق یہ خدشہ تھا، اس لئے آپؐ نے اپنی امت کو تاکید کے ساتھ فرمایا کہ میں تم میںدو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان دو چیزوں کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہوگے، ہر گز تم گمراہ نہیں ہوں گے، اور وہ دو چیزیں قرآن اور سنت رسولؐ ہیں، اس تاکید میں ایک طرح سے یہ تنبیہ بھی ہے کہ اگر تم نے قرآن اور حدیث کو مضبوطی کے ساتھ نہیں پکڑا تو تم ضرورگمراہ ہو جائو گے ، واضح رہے کہ قرآن و حدیث کو مضبوط پکڑنے میں لازمی طور سےاس میں قرآن و حدیث کو سمجھنا بھی داخل ہے، کیونکہ قرآن و حدیث کو سمجھنے کے بعد ہی قرآن و حدیث پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

فرمان رسولؐ ہے ،   تَرَکْتَ فِیْکُمْ اَمَریْنَ لَنْ تَضَلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھمَا کِتَابُ اللہِ وَ سُنَّۃُ رَسُوْلِہ(رواہ فی الموطا و مشکٰوۃ شریف) ’’یعنی میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں، تم ان دو چیزوں کو جب تک مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو گے، ہرگز گمراہ نہیں ہوں گے، وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کا طریقہ ہے۔‘‘ محمدﷺ کو اللہ کو رسولؐ ماننے کا ایک لازمی تقاضہ یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں آپؐ کو نمونہ بنایا جائے اور زندگی کے کسی بھی معاملہ میں آپ کی رہنمائی کو نہ چھوڑا جائے ،  اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:  لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃُ حَسْنَۃُ لِمَنْ کَانَ یٰرْجُوا اﷲ وَ الْیوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللہَ کَثیراً۔(احزاب آیت ۲۱) ترجمہ :’’ تحقیق کہ تمہارے لئے رسول اللہﷺ میں بہترین نمونہ ہے اس شخص کے لئے جو اللہ اور آخرت کو چاہتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے‘‘۔

مذکورہ آیت میں جہاں رسول اللہﷺ کی زندگی کو بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے، وہیں یہ بھی بتلایا دیا گیا ہے کہ کون لوگ رسول اللہﷺ کی زندگی کو بہترین نمونہ سمجھیں گے وہ یہ کہ جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید رکھتے ہیں ، اور جن کا آخرت کی زندگی پر یقین ہوتا ہے، اور جو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کو کثرت سے یاد کرتے اور یاد رکھتے ہیں، مطلب یہ کہ دنیا کے ہر کام میں اللہ کی مرضی کو سب سے مقدم رکھتے ہیں، اور کسی بھی کام میں اللہ کی مرضیٰ کو نہیں بھولتے ۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ رسول اللہﷺ کی زندگی کو نمونہ بنانے کے لئے اللہ اور آخرت پر مضبوط ایمان چائیے، اور ساتھ ہی قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کا خیال رکھنا چائیے۔

لیکن افسوس ہے کہ آج زیادہ تر مسلمان محمدﷺ کو صر ف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں ہی بہترین نمونہ سمجھتے ہیں، اور زندگی کے دیگر شعبوں میں خصوصاً سیاست کے شعبہ میں رسول اللہﷺ کی زندگی کو بہترین نمونہ نہیں سمجھتے، آج دنیا میں اسلامی تحریکات و ادارے نبی کریمﷺ کو میدان سیاست میں بہترین نمونہ بنانے کی تحریک چلا رہے ہیں تو خود مسلم حکمراں اور عوام ان تحریکات و اداروں کو طاقت و قوت سے کچل رہے ہیں ، چاہے وہ عرب کی اسلامی تحریک اخوان المسلمون ہو، یا فلسطین کی اسلامی تنظیم حماس ہو ، یا بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی ہو، یا افغانستان کی طالبان تحریک ہو۔ غرض یہ کہ محمدﷺ کو مکمل زندگی میں کامل و مکمل نمونہ ماننا آپؐ کو اللہ کے رسولؐ ماننے کا لازمی تقاضہ ہے۔ محمدﷺ کو اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ ماننے کا ایک لازمی تقاضہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسولؐ جس چیز کا حکم دیں اسے اختیار کر لیا جائے، اور جس چیز سے اللہ کے رسولﷺ منع کردیں اس سے رک جائیں ، اور یہ حق و اختیار آپؐ کو خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:  وَمَآ اٰتَٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا وَ اتَّقُوْا اﷲَ اِنَّ اﷲَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(حشر آیدے) ترجمہ :  ’’اور جو تمہیں رسولﷺ دیںپس اسے لے لو، اور جس سے وہ تمہیں روک دیں ، پس اس سے رک جائو، اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔

مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جس طرح حلال و حرام جائز و ناجائز کے متعلق اللہ کی اطاعت بغیر شرط کے ضروری ہے اسی طرح حلال و حرام جائز و ناجائز کے متعلق اللہ کے رسولؐ  محمد ﷺکی اطاعت بھی بغیر شرط کے ضروری ہے، اور اسلام میں صرف یہی دو اطاعتیں ہیں، جو بغیر شرط کے ہیں ، باقی جتنی اطاعتیں ہیں وہ سب مشروط ہیں، اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ ، یہاں تک کہ صحابہؓ اور امیر المومنین کی اطاعت بھی مشروط ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ، یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہؓ زندگی کے تمام معاملات میں صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے تھے اور کسی بھی صحابیؓ نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے آزاد اور بے نیاز نہیں سمجھا، یہاں تک چاروں خلفائے راشدین میں سے کسی بھی خلیفہ راشد نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے آزاد اور بے نیاز نہیں سمجھا ، اور نہ ہی انہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے دائرے سے نکل کر کوئی حکم دیا۔

در اصل اللہ کے رسولؐ حضرت محمدﷺ نے اپنے صحابہؓ کی تربیت ہی ایسے انداز میں کی تھی کہ کوئی صحابی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے دائرہ سے نکلنا ہی پسند نہیں کرتا تھا، اور اگر کسی صحابیؓ سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے متعلق کوئی کمزوری صادر ہو جائے تو دوسرے صحابہؓ  فوراً ٹوک دیتے ، اور وہ فوراً اپنی غلطی سے باز آجاتے۔ چنانچہ روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورخلافت میں ، جمعہ کے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کچھ لوگ اپنی بیویوں کے مہر بہت زیادہ رکھ رہے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ مہر کی کوئی مقدار متعین کردوں، اس پر ایک عورت نے کہا کہ ائے عمر جب اللہ اور اس کے رسولؐ نے مہر کی کوئی مقدار متعین نہیں کی تو تجھے یہ حق کیسے پہنچ سکتا ہے کہ تو مہر کی مقدار متعین کرے، حضرت عمرؓ نے جب عورت کی بات سنی تو اس کا بُرا نہیں مانا بلکہ بڑے کشادہ دل سے حضرت عمرؓ نے اسی خطبہ میں فرمایا کہ عمر بہک رہا تھا، اسے ایک عورت نے بہکنے سے بچالیا۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے متعلق صحابہ کرامؓ اور خلفاء راشدین کا یہی طرز عمل تھا، جس کی بنا پر معاشرہ میں کئی صدیوں تک دین اسلام مجموعی لحاظ سے بغیر ملاوٹ کے غالب تھا۔

جب سے معاشرہ میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کمزور ہوگئی ہے تو بے دین حکمراں اور بدعت پسند علماء کی اطاعت مضبوط ہو گئی ہے ۔ چنانچہ اس وقت بہت سے مسلمان  بے دین حکمرانوں اور بدعت پسند علماء کی اطاعت کررہے ہیں ، اوراللہ اوراس کے رسول ؐ کی اطاعت کو چھوڑ رکھا ہے ۔ جب مسلم معاشرہ میں اذان فہمی کی تحریک چلے گی جس میں اسلام کی مکمل دعوت ہے تو کم از کم مسلم معاشرہ پر حقیقی علماء کا غلبہ رہے گا، اور جہاں تک مسلم معاشرہ میں کم علمی اور سازشی دینداری کی بات ہے تو وہ خود دور نبوی میں بھی نفاق اور کم علمی کی صورت میں موجود تھی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دور نبوی اور دور صحابہ میں مسلم معاشرہ پر کم علموں اور منافقین کا غلبہ نہیں تھا، بلکہ حقیقی علماء اور مخلصین کا غلبہ تھا، اور کم علم اور منافقین مغلوب تھے۔ لیکن مسلم معاشرہ پر حقیقی علماء اور مخلصین کا غلبہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ مسلم معاشرہ میں حقیقی علم اور اخلاص کی مسلسل تحریک چلے۔

حضرت محمدؐ کو رسول اللہ ماننے کا ایک لازمی تقاضہ یہ ہے کہ آپؐ نے دعوت دین ، تعلیم دین اور غلبہ دین کا کام جس طریقہ سے کیا اسی طریقہ سے کیا جائے، اس تقاضہ کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نبی کریمﷺ کی جو تئیس(۲۳) سالہ نبوی زندگی ہے، اس پر اجمالی نظر ڈال لی جائے۔ نبی کریمﷺ کی سیرت کے متعلق یہ تذکرہ دلچسپی اور اہمیت سے خالی نہیں ہوگا، کہ جب تک آپؐ پر       اللہ کا کلام قرآن مجید نازل ہونا شروع نہیں ہوا تھا، اور جب تک آپؐ نے مکہ والوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش نہیں کی تھی، تب تک تمام مکہ والے آپؐ کی عزت کرتے تھے، اور آپ ؐ کو صادق اورامین کہتے تھے، لیکن جیسے ہی آپؐ نے انہیں بتوں کی بندگی سے منع کیا اور اللہ کی بندگی کی دعوت دی تو مکہ کے اکثر لوگ خصوصاً سرداران مکہ آپؐ کے مخالف اور دشمن ہوگئے، اور آپؐ پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے، کبھی آپؐ کو کذاب کہا گیا، کبھی شاعر، کاہن، مجنون کہا گیا، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دعوت دین کا کام تمام لوگوں کی ہر دل عزیزی کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ زیادہ تر لوگ دعوت دین کے مخالف اور دشمن ہی رہیں گے خاص طور سے معاشرہ میں جو سردار اور لیڈر قسم کے لوگ ہیں وہ دعوت دین کے مخالف اور دشمن ہی رہتے ہیں اور وہ دعوت دینے والوں اور دعوت قبول کرنے والوں پر طرح طرح کے بے جا الزامات لگاتے ہیں اور ان پر ظلم و ستم کرتے ہیں، آج بھی معاشرہ میں جو لوگ دین کی مکمل دعوت دینے والے اور قبول کرنے والے ہیں، موجودہ دور کے سیاسی لیڈران اور حکمران، ان پر طرح طرح کے بے جا الزامات لگا رہے ہیں، اور ان پر طرح طرح کا ظلم وستم کر رہے ہیں، لیکن  محمدﷺ نے اور ان پر ایمان لانے والے صحابہؓ نے  الزامات اور ظلم و ستم کی پروا نہیں کی۔

(جاری)

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223