اللہ کے نزدیک سب سے بڑا منکر اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے ، اس لئے سب سے پہلے شرک سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ضروری ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کا تذکرہ کیا ہے، حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو دس نصیحتیںکی تھیں، جن کا تذکرہ سورئہ لقمان کے دوسرے رکوع میں ہے ان میں سے سب سے پہلی نصیحت اللہ کے ساتھ شرک سے بچنے کی نصیحت ہے، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے، وَاِذْقَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہ وَ ھُوَ یَعِظُہُ یٰبُنیَّ لَا تُشْرِک بِاﷲِ اِنَّ الشِرْکَ لَطُلْمَ عَظِیمُ۔(سورئہ لقمان آیت ۱۳) ترجمہ ’’اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا جبکہ وہ اسے نصیحت کر رہا تھا، ائے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک مت کر، یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا لازمی تقاضہ ہے کہ شرک سے خود بھی بچا جائے ، اور اپنے اہل و عیال اور تمام لوگوں کو شرک سے بچانے کی کوشش کی جائے۔
پاک چیزوں کو حلال کرنا
سورئہ اعراف کی آیت ۱۵۷ میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺکا تیسرا کام بیان کیا ہے ۔ وَیُحِلَّ لَھُمْ الطَّیبَّٰتِ ۔ (یعنی وہ حلال کرتا ہے ان کے لئے پاکیزہ چیزیں ) اس میں دو اور کام لازمی ہو گئے ، پاکیزہ چیزوں کو جاننا اور انہیں خود حلال سمجھنا ، اس لئے کہ جو پاکیزہ چیزوں کو نہ جانے اور اپنے لئے حلال نہ سمجھے، وہ دوسروں کے لئے پاکیزہ چیزیں کس طرح حلال کر سکتا ہے۔
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے، کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ نے پاکیزہ چیزیں اپنے اوپر حرام کرلی تھیں، جیسے اونٹ کا گوشت ، جب کہ اللہ نے پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال کیا تھا، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ کسی پاکیزہ اور اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام قرار دیناگناہ ہے، اس گناہ سے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا ایمان کا لازمی تقاضہ ہے، افسوس ہے کہ امت مسلمہ کے بعض افراد بھی اللہ کی حلال کردہ اور پاکیزہ چیزوں کو اپنے لئے حرام سمجھتے ہیں، جیسے بعض حلال جانوروں کا گوشت اور کچھ نا محرم مردوں اور عورتوں سے نکاح کچھ افراد بڑے جانوروں کے گوشت اور نا محرموں سے نکاح کو حرام تو نہیں سمجھتے ۔ لیکن انہیں ناپسند اس درجے میں کرتے ہیں جیسے کہ حرام چیزوں سے نفرت کی جاتی ہے، یہ رویہ بھی نا مناسب ہے۔
مذکورہ آیت میں نبی کریمﷺ کا چوتھا کام وَیُحَرِّم عَلَیْھِمُ الْخَبٰثَ۔بیان کیا گیا ہے، یعنی وہ ان پر گندی چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ نے اپنے لئے بعض گندی چیزوں کو حلال کر لیا تھا، جیسے شرک اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی قرآن مجید میں شرک اور اس کے قبیل کی چیزوں کو خبیث کہا گیا ہے، سورئہ ابراہیم آیت ۲۶ میں اللہ تعالیٰ نے کلمہ شرک کو کلمہ خبیثہ قرار دیا ہے، اس سے پہلے کی آیت میں کلمہ طیبہ کا تذکرہ ہے، اور کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ توحید ہے، اور کلمہ توحید کی ضد کلمہ شرک ہے، کہ کلمہ توحید ہر دور میں ایک رہا ہے ، مگر کلمہ شرک ہر دور میں بے شمار رہے ہیں، اور بدلتے رہے ہیں۔
بے جا بوجھ اتارنا
مذکورہ آیت میں نبیﷺ کا پانچواں کام، وَیَضْعُ عَنْھُمُ اِصْرھُمْ بیان کیا گیا ہے، یعنی وہ ہٹاتا ہے ان سے ان کا بوجھ ، اس سے مراد وہ بے جا عقائد و اعمال و رسومات کا بوجھ ہے، جو یہود و نصاریٰ نے اپنے اوپر عائد کر لیا تھا،جیسے رہبا نیت یعنی دنیا کی جائز چیزوں سے بھی تعلق منقطع کر نا،جنگلوں اور غاروں میں بیٹھ جانا اور اسے اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھنا ، اسی طرح مشرکین مکہ نے بھی نیکی کے نام پر بہت سے غلط عقائد و اعمال اپنے اوپر عائد کرلئے تھے۔
افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کے بھی بعض افراد نے اپنے اوپر بہت سے بے جا اور غلط عقائد و اعمال عائد کر لئے ہیں جن کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں، جیسے محمدﷺ کو مطلق عالم الغیب کہنا، حاضر و ناظر سمجھنا نیک لوگوں کی قبروں پر سجدہ کرنا ، ان سے منتیں مراد یں مانگنا ، ان کی قبروں پر عرس کرنا ، صندل نکالنا ، قوالیوں کی محفلیں لگانا، عید میلاد النبیؐ منانا اور اس دن جلوس نکالنا وغیرہ ۔
مذکورہ آیت میں ، وَالْاغَلاَلَ الّتیِ کَانَتْ عَلَیْھِمْ تذکرہ کیا گیا ہے، یعنی نبیﷺ ان کی گردنوں کے طوق ہٹاتے ہیں، مطلب یہ کہ یہود و نصاریٰ نے قومی و خاندانی روایات کی پیروی میں جو بے جا رسومات اپنے اوپرعائد کرلی تھیں، آپؐ نے ان رسومات سے انہیں نجات دلائی، اس میں باپ دادا کی اندھی تقلید بھی داخل ہے ، اور کسی شخص کی اندھی عقیدت و محبت بھی داخل ہے اور کسی شخص کی اندھی مخالفت و عداوت بھی داخل ہے ۔
افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کے بھی بعض افراد اس مرض کا شکار ہیں، چنانچہ آج مسلم معاشرہ میں بہت سی بے جا رسومات محض قوم و خاندان اور باپ دادا کی تقلید میں انجام دی جاتی ہیں، جن کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں ۔ در اصل بات یہ ہے کہ جب قرآن و حدیث کی اتباع کمزور پڑ جاتی ہے تو قوم و خاندان کی بے جا اتباع مضبوط ہو جاتی ہے ، سورئہ اعراف کی آیت ۱۵۷ کے اخیر کے حصہ میں نبیﷺ سے تعلق و محبت کے چار تقاضے بیان ہوئے ہیں ، نبیﷺ کے یہ چارحقوق ہیں جو انسانوں اور اہل ایمان پر عائد ہوتے ہیں، ان میں سے پہلا حق، اَمَنُوْابِہ ہے یعنی ان پر ایمان لایا جائے، مطلب یہ کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول سمجھا جائے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا، دوسرا حق وَعَزَّرُوْہُ ہے یعنی آپؐ کی عزت کی جائے، اور عزت میں یہ داخل ہے کہ آپؐ کے ہر قول و عمل کو دل و جان سے مانا جائے، جب تک نبیﷺ دنیا میں حیات تھے، تب تک آپؐ سے سلوک و برتائو میں بھی عزت سے پیش آنا ضروری تھا، اب آپ تو عزت کا مطلب آپؐ کی تعلیمات کی عزت کرتا ہے ، مگر افسوس ہے کہ آج بعض مسلمان آپؐ کی تعلیمات کو ٹھکراکر زندگی گزاررہے ہیں ، ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نبیؐ کی اطاعت کرے۔
نبی کی مدد
نبی ﷺکا تیسرا حق وَنَصَرُوْہُ ہے یعنی آپؐ کی مدد کرنا، اور اس سے مراد دین کے کاموں میں آپؐ کی مدد کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کرکے کہا ، یَاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْآ انْصَارَ اللہِ (سورئہ صف آیت ۱۴) ترجمہ : (ائے ایمان والواللہ کے مدد گار ہو جائو) ظاہر ہے اس سے مراد اللہ کے دین کی مدد ہے، یَایُّھَا الَّذِینَ اٰمنُوْآ اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبّتِ اَقْدَامَکُمْ(سورئہ محمد آیت ۷) ترجمہ ( ائے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کروتو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدموں کو جمادے گا) اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لئے اللہ کے دین کی مدد کرنا ضروری ہے، اللہ کے دین کی مدد سے مراد دین پرعمل کرنا دوسروں کو اس کی دعوت دینا، اور اس کی سر بلندی کے لئے جان و مال سے جدوجہد کرنا ہے، لیکن افسوس ہے کہ آج بعض مسلمان اللہ کے دین کی مدد سے منہ موڑ کر اللہ کی مدد کی امید لگائے ہوئے ہیں۔
نبیﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں، اس لئے اللہ کے دین کی مدد نبیﷺ کی بعثت کے مقصد میں مدد ہے، آپؐ کی بعثت کا مقصد قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا۔ ھُوَ الَّذِیٓ اَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْھُدیٰ وَ دِیْنِ الْحَقّ لِیُظْھِرَہ عَلیَ الْدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (سورئہ صف آیت ۹)ترجمہ : ’’وہی اللہ ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ، تاکہ وہ اسے غالب کردے ، تمام دینوں پر اگرچہ مشرکین کو ناگوار ہو‘‘۔
غلبہ دین
اس آیت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نبیﷺ کی رسالت کا مقصد ، اس دنیا میں تمام دینوں پر دین اسلام کا غلبہ ہے، اس لحاظ سے نبیؐ کی مدد کا مطلب دین اسلام کے غلبہ کی کوشش ہے، اسلام کے غلبہ میں سب سے پہلے نظریاتی غلبہ ہے اس کے بعد دعوتی ، تعلیمی و سیاسی غلبہ ہے، ساتھ ہی مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ مشرکین کو اسلام کا غلبہ پسند نہیں آئے گا، چنانچہ دور نبوی کی تاریخ اور اس کے بعد کی تاریخ اس پر گواہ ہے ، لیکن افسوس ہے کہ بعض مسلمان مشرکین کو راضی اور خوش کرنا چاہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ مشرکین کو اسلام کا غلبہ ناگوار لگے گا، اور اللہ کافرمان کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔
سورئہ اعراف کی آیت ۱۵۷ میں اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کا چوتھا حق وَ اَتَّبعُوا النُّورَ الّذِیْ اُنْزِلُ مَعَہ بیان کیاہے، یعنی اس نور کی اتباع کی جائے جو نبی پر نازل کیا گیا ، اس سے مراد قرآن مجید ہے، جس کا ایک صفاتی نام نور ہے ، چونکہ قرآن سے روشنی حاصل ہوتی ہے، اس لئے اسے نور قرار دیا گیا ہے۔ اتباع نور کا مطلب اتباع قرآن ہے، اس لحاظ سے نبیؐ اور اہل ایمان کا مقصد وجود ایک ہی ٹھہرتا ہے اور وہ ہے اتباع قرآن ، قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اور اسی سے اللہ کی مرضی اور نامرضی کا علم حاصل ہوتا ہے، جو اتباع قرآن سے منہ موڑے ہوئے ہے وہ در اصل اللہ اور اس کے رسولؐ سے منہ موڑے ہوئے ہے۔
جنہوں نے اس دنیا میں قرآن کی روشنی میں زندگی گزاری ہوگی قیامت کے دن وہ طرح کامیاب و کامران ہوں گے، اور جنہوں نے قرآن کی روشنی سے منہ موڑ کر زندگی گزاری ہوگی، وہ ناکام و نامراد ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے سورئہ حدید میں بیان فرمایا ہے: یَوْمَ تَرَی الْمُوْمِنِینَ وَ الْمُوْمِنَتِ یَسْعیٰ نُورُھُمْ بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ بِاَیْمَانِھِمْ بُشْرٰلَکُمُ الْیَوْمَ جَنَّتُ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھَا الْاَ نْھَارُ خٰلِدیْنَ فِیْھَا ذٰلِکَ الْفورُ الْعَظِیمْ۔ یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِینَ اٰمَنُوا انْظُرُ وْنَانَقْتَبِسْ مِنْ نُّوِرِکُمْ قِیلَ ارْجعُوْا وَرَآء کُمْ فَالْتَمسُوْا نُوراً فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ بِسُوْرِ لَّہ بَابُ باطِنُہ فِیہُ الرَّ حْمَۃُ وَظَاھِرُہ مِنْ قِبَلہِ الْعذابُ۔ یُنَا دُونَھُمْ اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ قَالُوا بَلیٰ وَ لٰکِنَّکُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَکُمْ وَ تَرَ بَّصْتُمْ وَ ارْتْبتُمْ وَ غَرَّ تْکُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّیَ جَآء اَمْرُ اﷲ وَ غَرَّکُمْ بِاﷲِ الْغَرُ وْرُ۔ (سورئہ حدید آیات ۱۲،۱۳،۱۴) ترجمہ :’’تو قیامت کے دن دیکھے گا کہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کانور ان کے آگے اور دائیں دوڑ رہا ہوگا، ان سے کہا جائے گا کہ تمہارے لئے آج خوشخبری ہے ایسے باغات کی جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، اس میں تم ہمیشہ رہو گے ، اور یہی بڑی کامیابی ہے، اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے، تم ذرا ہمارا بھی خیال کرو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں، ان سے کہا جائے گا تم پیچھے واپس پلٹو اور اپنا نور تلاش کرو، پس اسی اثنا میں ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی، اس میں ایک دروازہ ہوگا، اس کے اندر کے حصہ میں رحمت ہوگی، اور اس کے باہر کے حصہ میں عذاب ہوگا، وہ منافقین ایمان والوں کو آواز دیکر کہیں گے،کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے وہ کہیں گے کیوں نہیں تھے لیکن تم اپنے نفسوں کے فتنہ میں پڑ گئے اور’’ہمارے حق میں پریشانی کےمنتظر رہے اور اسلام میں شک کیا اور لمبی آرزئوں نے تمہیں دھوکہ دیا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا، اور اللہ کے بارے میں تم کو شیطان نے دھوکہ دے دیا ‘‘۔
عظمت قرآن
مذکورہ آیات میں جس نور کا تذکرہ ہے اس سے مراد یہی قرآن ہے جن اہل ایمان نے قرآن کی روشنی میں زندگی گزاری ہوگی، قیامت کے دن یہی روشنی انہیں جنت کا راستہ طے کرائیگی، کیونکہ آخرت دنیا کا بدلہ ہے، حضورﷺ نے فرمایا، اَلْقُرآنُ حَجَّۃُ لَّکَ اَوْ عَلَیْکَ (یعنی قرآن تیرے حق میں حجت ہوگا، یا تیرے خلاف حجت ہوگا) ساتھ ہی مذکورہ آیات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگر دنیا کی زندگی قرآن کی روشنی میں نہیں گزاری ، تو قیامت کے دن قرآن کی روشنی حاصل نہیں ہوگی، منافق سچے ایمان والوں کو آواز دیکر کہیں گے کہ ذرا ہمارا بھی خیال کیجئے اور ہمیں بھی نور سے فائدہ اٹھانے دیجئے، لیکن انہیں واپس کر دیا جائے گا۔
دنیا میں سچے ایمان والے منافقین کوقرآن کی طرف بلاتے ہیں، لیکن یہ منافقین ان کی آواز کو ٹھکرا دیتے ہیں، گویا کہ دنیا میں منافقین ، سچے ایمان والوں کی توہین کرتے ہیں، تو آخرت میں اس توہین کا بدلہ ان کے سامنے آئے گا، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ آج مومنین عزت و احترام کے مقام پر ہیں ، اور منافقین ذلت و رسوائی کے مقام پر مذکورہ آیات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ محمدﷺ کو اللہ کا رسولؐ ماننے کے بعد آپؐ پر نازل ہونے والے قرآن کی اتباع ضروری ہے۔
دستور جماعت اسلامی ہند کی دفعہ ۳ کے تحت کلمے کی تشریح کی گئی ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ محمدﷺ کو اللہ کارسول ماننے کے بعد کچھ چیزوں کو کرنا ضروری ہے ، اور کچھ کو چھوڑنا ضروری ہے، اس تشریح کے الفاظ ہیں۔ ’’ اس عقیدے کے دوسرے جز محمدﷺ کے رسول اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معبود برحق اور سلطان کائنات کی طرف سے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو جس آخری نبی کے ذریعہ قیامت تک کے لئے مستند ہدایت نامہ اور مکمل ضابطہ حیات بھیجا گیا ، اور جسے اس ہدایت اور ضابط کے مطابق عمل کرکے ایک مکمل نمونہ قائم کرنے پر مامور کیا گیا ، وہ حضرت محمدﷺ ہیں‘‘۔
اس امر واقعی کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ انسان
۱) ہر اس تعلیم اور ہر اس ہدایت کو بے چوں و چرا قبول کرے جو محمدﷺ سے ثابت ہو۔
۲) اس کو کسی بات پر آمادہ کردینے اور کسی چیز سے روک دینے کے لئے صرف اتنی بات کافی ہو کہ اس بات کا حکم یا اس چیز کی ممانعت رسول خداﷺ سے ثابت ہے اس کے سوا کسی دوسری دلیل پر اس کی اطاعت موقوف نہ ہو۔
۳) رسول خداؐ کے سوا کسی کی مستقل بالذات پیشوائی و رہنمائی تسلیم نہ کرے دوسرے انسانوں کی پیروی کتاب اللہ و سنت رسول اللہؐ کے تحت ہو، نہ کہ ان سے آزاد ۔
۴) اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت ہی کو اصل حجت ، سند اور مرجع قرار دے۔ جو خیال یا عقیدہ یا طریقہ کتاب و سنت کے مطابق ہو، اسے اختیار کرے اور جو ان کے خلاف ہو اسے ترک کر دے۔
۵) تمام جاہلی عصبیتیں اپنے دل سے نکال دے ، خواہ وہ شخصی و خاندانی ہوں خواہ قبائلی ، نسلی اور وطنی یا فرقی و جماعتی، کسی کی محبت و عقیدت میں ایسا گرفتار نہ ہو کہ وہ رسول خداؐ اور آپؐ کے لائے ہوئے حق کی محبت و عقیدت پر غالب آجائے، یا اس کے مد مقابل بن جائے۔
۶) رسول خداؐ کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو، ہر ایک کو خدا کے بنائے ہوئے اسی معیار کا مل پر جانچے اور پرکھے اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجہ میں ہو، اس کو اسی درجہ میں رکھے۔ (منقول دستور جماعت اسلامی ہند،صفحہ۶) محمدؐ کے متعلق جماعت اسلامی کے دستور میں مذکورہ چھ نکات کے تحت جو باتیں لکھی گئی ہیں، ایک طرح سے وہ امت مسلمہ کا متفق علیہ عقیدہ ہے، لیکن اس کے باوجود خوامخواہ کچھ لوگوں نے کچھ باتوں کو لے کر جماعت اسلامی پر بے جا الزام و اختلاف کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2018