اذان اور دعوت میں تعلق

(17)

اسلامی  نظام میں مامورین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں امیر کی اتباع بھی کریںاور ضرورت پڑنے پر امیر کو ٹوکیں بھی یہ سب اسلامی اجتماعیت کے لازمی تقاضے ہیں ، ادائیگی نماز کے سلسلہ میں اما م کی بھول اور غلطی پر لقمہ دینے کا پیغام یہ ہے کہ معاشرہ میں دین کو قائم کرنے کے متعلق امام و امیر سے بھول اور غلطی ہو جائے تو جماعت کے دوسرے افراداُنھیں ٹوکیں یہی طریقہ حضرت ابوبکرؓ صدیق حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمانؓ غنی  حضرت علیؓ کی امارت کا تھا،  ان کی امارت خلافت راشدہ کا حصہ تھی اور جب سے اسلامی اجتماعیت سے یہ طریقہ نکلا خلافت بادشاہت میں تبدیل ہوگئی۔

مشاورت:

یقیناً دورِ بادشاہت میں بہت سے اچھے کام میں ہوئے لیکن برے بھی ہوئے ، لیکن  طریقہ بادشاہت صحیح نہیں ، یہی وجہ ہے کہ آنحضورﷺ  نے اپنے کو بادشاہ کہلوانا پسند نہیں کیا  اور نہ آپؐ نے نبوت کے کاموں کو انجام دینے کے لئے بادشاہت کے طریقہ کو اختیار کیا بلکہ آپؐ نے مشاورت کے طریقہ کو اختیار کیا اور اللہ کی طرف سے بھی آپ کو اسی کا حکم تھا۔ اس سے یہ  بات واضح ہوئی کہ اسلامی اجتماعیت میں نہ تو مطلق العنان بادشاہت ہے اور نہ مطلق العنان جمہوریت ہے بلکہ قرآن و حدیث کی اتباع سے جڑی ہوئی امارت و مشاورت ہے لیکن افسوس ہے کہ آج دنیا میں زیادہ تر اجتماعیتیں یا تو بے لگام بادشاہت سے جڑی ہیں یا بے لگام جمہوریت سے ان  کے غلط اثرات مسلمانوں کی دینی جماعتوں پر پڑے ۔ چنانچہ اس وقت کم جماعتیں اسلامی امارت و  مشاورت کے طرز پر کام کر رہی ہیں۔

ادائیگی نماز میں کسی واجب کے بھول کر چھوٹنے کی صورت میں سجدہ سہو کے ذریعہ تلافی کی بھی صورت رکھی گئی ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ قعدہ اخیر ہ میں التحیات پڑھنے کے بعد دو سجدے کئے جائیں۔ سجدہ سہو کی یہی حقیقت و حکمت معلوم ہوتی ہے کہ زندگی میں دین کو قائم کرنے کے سلسلے میں کوئی بھول ہو جائے تو اس کی تلافی کے لئے اللہ کے سامنے زیادہ جھکا جائے جس طرح سجدہ سہو کے دو زائد سجدے رکھے گئے ہیں۔ نماز کی ادائیگی کیلئے وضو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے ، وضو میں بہت سی جسمانی بیماریوں سے بچائو بھی  ہے ، وضو کی افادیت و حکمت وہ افراد زیادہ سمجھیں گےجن کا ڈاکٹری سے تعلق ہے  وضو نماز کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے  زندگی کا ایک اہم مسئلہ جسمانی پاکی صفائی اور جسمانی صحت و تندرستی بھی ہے ۔

جو شخص دن میں پانچ مرتبہ چہرہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک اور دونوں پیر ٹخنوں تک پانی سے دھوئیگا اور سرو گردن کا مسح کرے گا اسے بہت سی بیماریوں سے خود بخود نجات مل جائیگی  نماز کے ارکان کی ادائیگی کا طریقہ کچھ اس طرح  ہے کہ ایک انسان کو جسمانی لحاظ سے تندرست رہنے کے لئے روزانہ جتنی و رزش کی ضرورت ہے وہ نماز کی ادائیگی کے عمل میں خود بخود شامل ہے بشرطیکہ نمازی سنتوں اور آداب کی رعایت رکھتے ہوئے نماز ادا کرے۔

 تن آسانی سے پرہیز:

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر نماز فرض قرار دے کر جس طرح ان کی ایمانی صحت و تندرستی کا انتظام کر دیا اسی طرح ان کی جسمانی صحت و تندرستی کا بھی انتظام کر دیا، آج کل ہندوستان میں ’’یوگا ‘‘کے نام پر غیر اسلامی طریقہ رائج ہے۔ اسکولوں ، کالجوں کی سطح پراسے عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مسلمانوں کو اس کی کوئی ضرورت نہیں  ۔

یہ بات واضح ہے کہ ’’یوگا‘‘ صرف ورزش نہیں بلکہ وہ ہندو مذہب کا ایک طریقئہ عبادت ہے ایک مسلمان کیلئے کسی بھی دوسرے مذہب کے طریقۂ عبادت کی پیروی جائز نہیں ، شرک سے   بچنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے ۔

نماز کی ادائیگی کے عمل سے جسمانی ورزش کا فائدہ اسی وقت حاصل ہوگا ۔جب کہ نماز بہت  نرم چٹائی اور نرم مصلے پر ادانہ ہو،بلکہ ذرا سخت یا کم نرم چٹائی اور مصلے پر ادا ہو،  فقہاء کرام نے نماز میں نرم جگہ پر سجدہ کو مکروہ قرار دیا ۔ نماز کی ادائیگی کے عمل میں صرف پیشانی ہی سجدہ کاحصہ نہیں ہے بلکہ حالت نماز میں جسم کاجو حصہ بھی زمین پرٹکتا ہے وہ سجدہ کا حصہ ہے ، مثلاً دونوں پیر ، دونوں ہاتھ ، دونوں گھٹنے ، اور ناک، لیکن افسوس  ہے کہ آج کل مسجدوں میںبہت زیادہ نرم چٹائیوں اور مصلّوں کو بچھانے کا رواج  بڑھ گیا ہے،   پہلے مسجدوں میں سخت گھانس کے تنوں اور سوت کے موٹے تاگوں کی جو چٹائیاں اور دریاں ہوا کرتی تھیں وہ ناپَید ہو تی جارہی ہیں،   نمازیوں کا ایک بڑا طبقہ تو نماز کی آیات اور سورتوں کو نہیں سمجھنے کی وجہ سے  نماز کے بہت سے ایمانی و روحانی فائدوں سے محروم ہو چکا ،لیکن اب نماز کے جسمانی فائدوں سے بھی محروم ہو رہا ہے، اسلام تن آسانی کی زندگی کو کسی بھی شعبہ میں پسند نہیں کرتا  ۔فجر کی نماز ایسے وقت رکھی گئی ہے جب کہ گہر ی اور میٹھی نیند کا وقت ہوتا ہے اور نیند سے بیدار ہونا نفس کیلئے ذرا مشکل ہوتا ہے، ظہر کی نماز ایسے وقت ہے، جب کہ دھوپ کی شدت بڑھ جاتی ہے، اور کام کا وقت بھی شباب پر ہوتا ہے، اور اس وقت  نماز کے لئے وقت نکالنا نفس پر ذرا گراں گزرتا ہے، اسی طرح عصر کا وقت بھی کاروبار اور کام کی مصروفیت کا  ہوتا ہے، مغرب اور عشاء کا وقت کھانے پینے اور سونے کا  ہے،  نماز ہی نہیں اسلام کی دوسری عبادتوں پر بھی نظر ڈالی جائے تو یہ مسلمانوں کو  تن آسانی کی زندگی سے نکا لنے کا ذریعہ ہیں۔ تن آسانی کی زندگی سے نکالنے والا ہے۔  اسی طرح زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی کا عمل ہے۔

سیرت کا نمونہ:

حج کی ادائیگی کے عمل میں تن آسانی کی زندگی کے بجائے  اعلیٰ صفات کی تربیت دی گئی ہے ، مثلاً اپنے مال کی ایک بڑی مقدار کا خرچ، احرام جیسے سادہ لباس میں اپنے آپ کو  ملبوس رکھنا ، حالت احرام میں بعض حلال چیزوں سے بھی پرہیز ، میدان عرفات اور منیٰ میں بغیر مکان کے قیام ، سفر کی مشکلات و پریشانیوں کو برداشت کرنا، مذکورہ اسلامی عبادات کے طریقوں سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کس طرح کا نظام زندگی دینا چاہتا ہے  افسوس ہے کہ دین کے بہت سے نام لیوا عیش و آرام کی زندگی کے عادی ہو گئے ہیں۔ اس طرز کو بدلنے کی ضرور ت  ہے۔ آنحضورﷺ نے ہمیشہ سادہ زندگی گزاری اور عیش و آرام کی زندگی کو  اپنے لئے پسند نہیں کیا۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ کا بستر چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی  حضرت حفصہؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے یہاں نبیﷺ کا بستر کیسا تھا؟ فرمایا ایک ٹاٹ تھا جس کو دہرا کر کے ہم نبیﷺ کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے ایک روز مجھے خیال آیا کہ اگر اس کو چوہرا کرکے بچھا دیاجائے تو زیادہ نرم ہو جائے گا، چنانچہ میںنے اس کو چوہرا کرکے بچھا دیا، صبح کو آپؐ نے پوچھا رات میں میرے نیچے کیا چیز بچھائی تھی، میں نے کہا وہی ٹاٹ کا بستر تھا، البتہ آج رات میں نے اس کوچوہرا کرکے بچھا دیا تھا کہ کچھ نرم ہو جائے ، نبی ﷺ نے فرمایا اس کو دہرا ہی رہنے دیا کرو، رات بستر کی نرمی تہجد کے لئے اٹھنے میں رکاوٹ بنی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک انصاری خاتون ہمارے گھر آئی اور اس نے نبی ﷺ کا بستر دیکھا، گھر جاکر اس خاتون نے اُون سے بھر کر ایک بستر تیار کیا اور نبیﷺ کے لئے بھیجا، جب آپؐ گھر تشریف لائے اورنرم بستر دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ ایک انصاری خاتون نے آپؐ کے لئے بھیجا ہے آپؐ نے فرمایا کہ اسے واپس کردو، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ وہ بستر مجھے  پسند تھا لیکن آپؐ نے واپس کرنے پر  اصرار کیا کہ مجھے واپس کرنا پڑا ۔  مذکورہ روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ ؐ  عیش و آرام کی  زندگی  سے پرہیز کرتے تھے ۔ علامہ اقبالؒ نے بھی امت مسلمہ کو اور خصوصاً نوجوانوں کو اسلام کی اسی سادہ زندگی اختیار کرنے کی تلقین کی ہے ۔

ترے صوفے ہیں افرنگی تیری قالین ہیں ایرانی

لہو مجھ کو رُلاتی ہے جو انوں کی تن آسانی

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی

خلاصہ کلام یہ ہے کہ معاشرہ میں فہم نماز کی تحریک  چلائی جائے تاکہ نمازیوں کا اپنی نمازوں سے علمی و عملی تعلق قائم ہو۔ اس کے لئے مسجدوں میں جگہ جگہ نماز فہمی اور قرآن فہمی کے حلقے قائم کئے جائیں۔

اذان کاپانچواں کلمہ ، حَیَّ عَلَی الْفَلاَح

اذان کا پانچواں کلمہ حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ ہے، ترجمہ :( یعنی آئو کامیابی کی طرف)  اس سے پہلے اذان کے جو چار کلمات ہیں، ان کلمات کے پیغام کی طرف آنے میں کامیابی ہے، یعنی  اَللّہُ اَکْبَرْ ، اَشْھَدُ اَنْ لاَ اِلٰہ اِلَّااﷲ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللّہِ ، اور حَیَّ عَلیَ الصَّلٰوۃ کو قبول کرنے میں کامیابی ہے، مطلب یہ کہ اللہ کو اور اللہ کے حکم کو سب سے بڑا سمجھا جائے، اللہ کے اکیلے معبود ہونے کی گواہی دی جائے، اور اس کے علاوہ تمام معبودوں کا انکار کیا جائے، اور محمدﷺ کے اللہ کے رسولؐ ہونے کی گواہی دی جائے، اور نماز کو قائم کیا جائے، گویا کہ اذان کے پانچویں کلمہ میں جس کامیابی کی دعوت دی گئی ہے ، وہ مشروط ہے، اذان کے مذکورہ چار کلمات کے پیغام کو قبول کرنے کے ساتھ ۔

فجر کی اذان کے علاوہ بقیہ تمام نمازوں کی اذان میں حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِکا کلمہ کلمات اذان کی ترتیب میں سب سے اخیر کا کلمہ ہے، اگرچہ اذان میں حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ  کے بعد بھی  اَللَّہُ اَکْبَرْ ، اور لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲ  کے کلمات مزید دُہرائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں کلمے اذان کے کلمات کی ترتیب میں اذان کے پہلے اور دوسرے کلمہ میں آچکے ہیں، اسلام میں کامیابی کا تصور یہ ہے کہ اللہ کو سب سے بڑا مانیں ، اللہ کو ایک معبود ما نا جائے اور اس کے علاوہ تمام معبودوں کا انکار ہو ، محمدﷺ کو اللہ کا رسول مانا جائے ۔ ایمان کی نشو ونما کی  ایک زمین ہے، اور وہ دل ہے ،  اس کا  ایک بیج ہے، اور وہ کلمہ طیبہ ہے، ا س کا  درخت اور ٹہنیاں و پھل ہیں، اور وہ ایمان و اعمال صالحہ ہیں، اسلام کے تقاضوں میں بھلائی کا حکم دینا بھی ہے، اور برائی سے روکنا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ ابراہیم میں کلمہ طیبہ کی مثال ایسے درخت سے بیان فرمائی ہے، جس کی جڑ زمین میں مضبوط ہو، اور اس کی ٹہنیاں آسمان میں ہو ں، یعنی بہت بلند ہوں، اور وہ ہر وقت پھل دے ۔اذان میں حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ  کا کلمہ دو مرتبہ دہرایا جاتا ہے ، گویا کہ اللہ تعالیٰ ایک دن ورات میں دس مرتبہ ہمیں فلاح کی طرف بُلارہا ہے تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں فلاح کے مطلب کو سمجھیں۔

سورئہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔اُولٰئِکَ عَلیٰ ھُدی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ اُولٓئکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ (بقرہ۵) ترجمہ : ’’وہی (اہل ایمان) اپنے رب کی جانب سے ہدایت پر ہیں، اور وہی فلاح پانے والے یعنی کامیاب ہونے والے ہیں‘‘۔

مذکورہ آیت میں جن لوگوں کو ہدایت اور کامیابی کی خوشخبری سنائی گئی ہے، اس خوشخبری سے پہلے ان کی چھ صفات بیان کی گئی ہیں، مطلب یہ کہ ہدایت و کامیابی کی خوشخبری مشروط ہے، ان چھ صفات کے ساتھ جو اس سے پہلے بیان ہوئی ہیں، وہ یہ ہیں ، جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، اور جو نمازوں کو قائم کرتے ہیں، اور جو اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے اللہ کے لئے خرچ کرتے ہیں، اور جو قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، اور جو قرآن سے پہلے اللہ کی کتابیں ہیں ان پر ایمان رکھتے ہیں، اور جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ اب جب کہ اذان میں حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ  کی دعوت ہے تو گویا کہ یہ دعوت مذکورہ چھ صفات کو بھی شامل ہے، کیونکہ ان ہی چھ صفات کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور کامیابی کی بشارت دی ہے، اس لحاظ سے اگر کوئی شخص مذکورہ چھ صفات کو اختیار کئے ہوئے نہیں ہے تو گویا کہ اس نے  حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحِ  کی دعوت کو مسترد کردیا ہے۔

(جاری)

مشمولہ: شمارہ اپریل 2019

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223