کلمہ طیبہ کو اسلام کا بیج کہہ سکتے ہیں، جس طرح ہر درخت کا ایک بیج ہوتا ہے، اور ہر درخت ایک بیج ہی سے نکلتا ہے اسی طرح کلمہ طیبہ اسلامی درخت کا بیج ہے ، جس انسان کے دل میں کلمہ طیبہ کا بیج ڈال دیا جاتا ہے، اس کے دل میں ایک طرح سے اسلامی درخت کا بیج ڈال دیا گیاہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کلمہ طیبہ کی مثال ایک درخت ہی سے سمجھائی ہے ، چنانچہ فرمان باری تعالی ہے ، اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیَّبۃً کَشَجَرۃِ طَیَّبۃِ اَصْلُھَاثَابِتُ وَّ فَرْعُھَا فیِ السَّمَآئِ۔ تُوْتیِ اُکُلُھَا کُلَّ حِیْنِ م بِاذْنِ رَبّھَا وَ یَضْرِبُ اللہُ الْاَمَثَالَ لِلنّاسِ لَعلّھُمْ یَتَذَکَرُوْنَ ۔ (ابراہیم۲۴۔۲۵) ترجمہ : ’’کیا آپؐ نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے جیسے کہ ایک بہترین درخت ہو، اس کی جڑ مضبوط ہو، اور اس کی ٹہنیاں آسمان میں ہوں ،ہر وقت وہ اللہ کی اجازت سے پھل لاتا ہو، اور اللہ مثالیں بیان کرتا ہے ، لوگوں کے لئے تاکہ وہ سمجھیں‘‘۔
مذکورہ آیات میں کلمہ طیبہ سے مراد لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہی ہے، جو اسلام کی بنیاد ہے جس کو قبول کیے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا، اس کلمہ کی حیثیت دین میں اسلام کے بیج کی ہے جس سے انسانی زندگی میں اسلامی درخت نکلتا ہے ، مذکورہ دو آیات میںکلمہ طیبہ کو جس درخت کی مثال کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے، اس کی تین صفات بیان کی گئی ہیں پہلی صفت یہ ہے کہ اس کی جڑ مضبوط ہوتی ہے،دوسری صفت یہ کہ اس کی ٹہنیاں آسمان میں ہوتی ہیں،یعنی بہت بلند ہوتی ہیں، تیسری صفت یہ ہے کہ اسے ہر وقت پھل لگے ہوتے ہیں ، اب اگر ان تین صفات کو کلمہ طیبہ اور کلمہ پڑھنے والے کے تعلق پر منطبق کرکے دیکھا جائے تو جو صورت بنتی ہے وہ یہ کہ کلمہ طیبہ کا عقیدہ کلمہ گو ،کے دل میں مضبوط ہونا چاہیے دوسرے یہ کہ کلمہ گو ،کی زندگی میں نیک اعمال ہونے چاہیے جو در اصل کلمہ کے درخت کی ٹہنیاں اور شاخیں ہیں، اور تیسرے یہ کہ کلمہ گو ،کی زندگی میں مسلسل تعلیمی و دعوتی کوشش ہونی چاہیے، جو بطور پھل کے ہے، کیونکہ اسلام کی تعلیم و دعوت سے ہی اسلامی ثمرات پیدا ہوتے ہیں، جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے، اور اسلام کی تعلیم و دعوت ہی سے اسلامی نسل پروان چڑھتی ہے ، کیونکہ پھل کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ پھل میں اس درخت کا بیج ہوتا ہے جس درخت کو یہ پھل لگا ہے، اور یہ بیج اس درخت کی ایک طرح سے نسل اور اولاد ہے، کیونکہ اسی بیج سے دوسرا درخت نکلتا ہے اور دوسرا درخت ایک طرح سے پہلے درخت کی اولاد ہے، یہی وجہ ہے کہ درخت کا پھل اس وقت تک نہیں پکتا جب تک کہ پھل کے اندر کے بیج میں پودا نکلنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی، درخت کے پھل لگنے اور پکنے تک درخت ہی سے لگے رہنے کے نظام سے پتہ چلتا ہے کہ دراصل یہ اللہ کی طرف سے درخت کی نسل کے پروان چڑھنے کا ایک منظم نظم ہے۔ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے درختوں کے پھلوں کو انسانوں ، جانوروں اور پرندوں کے لیے غذا کا بھی ذریعہ بنا یا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر پھلوں کے بیج اور گھٹلیاں کھانے میں نہیں آتی، تاکہ درختوں کی نسل کے پروان چڑھنے میںکوئی رکاوٹ نہ آئے۔
مذکورہ دو آیات میں جب کلمہ طیبہ کو ایک بہترین درخت سے تشبیہ دی گئی ہے تو ضروری ہے کہ ایک اچھے اور بہترین درخت کی نشوونما کے عمل کو بھی سمجھا جائے، کسی بھی زمین میں ، کسی بھی اچھے درخت کے بیج کو ڈالنے کے لیے سب سے پہلے زمین کی نرمی اور صفائی لازمی چیز ہے، اور یہ بات کا شتکار اچھی طرح سمجھتے ہیں ، اگر زمین کو نرم اور صاف کیے بغیر سخت اور بنجر زمین میں اچھے سے اچھا بھی بیج ڈال دیا جائے تو اس میں پودا نہیں نکلے گا، اور اگر نکل بھی گیا تو وہ بڑھے گا نہیں ، بلکہ زمین کی سختی اور زمین کے دیگر جنگلی پودے اسے بہت جلد ختم کردیں گے، لہٰذا اس میں ٹہنیوں اور پھلوں کے لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح کلمہ طیبہ کو دل میں ڈالنے سے پہلے دل کی نرمی اور صفائی ضروری ہے ، اور دل میں نرمی خدا کے ڈر سے پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح اللہ کے علاوہ جتنے معبود ہیں ان کے انکار سے دل صاف ہوتا ہے، مطلب یہ کہ جس نے اپنے دل میں خدا کا خوف پید ا نہیں کیا، اور نہ ہی معبودانِ باطل کا انکار کیا تو اس کے دل کے اندر کلمہ کا عقیدہ مضبوط نہیں ہوسکتا، مضبوط ہونا تو درکنار اس کے دل کے اندر کلمئہ طیبہ داخل ہی نہیں ہو سکتا، یہی وجہ ہے کہ کلمہ طیبہ کی ترتیب میں پہلے اللہ کے علاوہ تمام معبودوں کا انکار ہے، اس کے بعد اللہ ہی کے ایک معبود ہونے کا اقرار ہے،جیسے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ یعنی نہیں کوئی معبودمگر اللہ ، کلمہ کی اس ترتیب میں ایک طرح سے پہلے دل کی صفائی ہے، اس کے بعد دل میں کلمہ طیبہ کا بیج ڈالنے کی بات ہے۔ چنانچہ کلمہ طیبہ کی اسی ترتیب کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک دوسرے انداز میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یُوْمِنْ بِاللہِ فَقَداسْتَمْسَکَ بِا لْعُرْوَۃِ الْوُ ثْقٰی لَا انفِصَامَ لَھَا وَاللہُ سَمِیعَ عَلِیمُ۔(سورئہ بقرہ ۲۵۶)ترجمہ ’’تحقیق کہ ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے ، پس جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو تحقیق کہ اس نے مضبوط رسی پکڑی ہے ، جو ٹوٹنے والی نہیں ہے، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔
مذکورہ آیت سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اللہ پر ایمان لانے سے پہلے طاغوت کا انکار ضروری ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے طاغوت کا انکا ر نہیں کیا تو اس کا اللہ پر ایمان لانے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، قرآن مجید کی تفسیر کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ قرآن مجید کو سب سے پہلے قرآن ہی سے سمجھاجائے، اس لیے کہ قرآن مجید کی بہت سی باتیں ایسی ہیں جو قرآن میں کسی مقام پر مختصر طور پر بیان ہوئی ہیں، اور قرآن ہی میں دوسرے مقام پر ذرا تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں، اس اصول کو (الْقُرآنُ یُفَسِّرُ بَعْضَہُ بَعْضاً )کہتے ہیں یعنی قرآن مجید کا بعض حصہ ، بعض حصہ کی تفسیر کرتا ہے، اس اصول کی روشنی میں اگر طاغوت کی تعریف سمجھی جائے تو خلاصہ کے طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ طاغوت کا لفظ قرآن میں غیر اسلامی اقتدار اور عدالت کے لیے استعمال ہوا ہے ، جیسے ایک مقام پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے کردار کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اَلَمْ تَرَاِلیَ الّذِینَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اِنْ یّتَحَاکَمُوْآ اِلٰی الطّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُْوْا اَنْ یَّکْفُروا بِہِ وَ یُرِیْدُ الشّیْطَانُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلاً بَعِیْداً(نسآء آیت ۶۰) ترجمہ ’’کیا آپؐ نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ آپؐ پر اور آپؐ سے پہلے نازل کردہ کتابوں پر ایمان لائے، جب کہ وہ اپنے معاملات طاغوت سے فیصل کرواتے ہیں، حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کرے، اور شیطان تو چاہتا ہی ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں ڈال دے‘‘۔
مذکورہ آیت میں منافقین کے جس کردار کو بیان کیا گیا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید پر ایمان کے دعوے کے باوجود وہ اپنے معاملات اور مقدمات قرآن اور رسول اللہﷺ سے فیصل کروانے کی بجائے اپنے لیڈران سے کرواتے تھے، جب کہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ ان کی حاکمیت کا انکار کریں، ساتھ ہی مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ تمام غیر اسلامی لیڈران اور حکمران قرآن کی رو سے طاغوت کی تعریف میں آتے ہیں، اور ان کی حاکمیت اور سربراہی کا انکار کئے بغیر کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا، اگرچہ وہ اللہ کی کتاب پر ایمان کا دعویٰ کرے۔یوں تو بہت سے مفسرین نے طاغوت کی تشریح کی ہے لیکن بیسویں صدی عیسوی کے ایک مفسر قرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو جامع اور کافی و شافی تشریح کی ہے وہ تمام تفسیروں کااحاطہ کرلیتی ہے ، چنانچہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ رقم طراز ہے ۔ (یہاں صریح طور پر ، طاغوت سے مراد وہ حاکم ہے جو قانون الٰہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو، اور وہ نظام عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدار اعلیٰ کا مطیع ہو، اور نہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتا ہو، لہذایہ آیت اس معنی میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے، اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضاء یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے، قرآن کی رو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر، دونوں لازم و ملزوم ہیں، اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا عین منافقت ہے۔) (تفہیم القرآن جلد ۱صفحہ ۳۶۷ ، سورئہ نسآ حاشیہ ۹۱)
اس طرح سورئہ بقرہ کی آیت ۲۵۶ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ ویُومِنْ بِاللہِکی جو تشریح مولانا مودودیؒ نے کی ہے اس سے بھی طاغوت کی حقیقت پورے طور سے واضح ہو جاتی ہے، چنانچہ موصوف رقم طراز ہیں۔ (طاغوت = لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا، جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو۔) قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خود آقائی و خدا وندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے، خدا کے مقابلہ میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں، پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے، مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے، اس کا نام فسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری سے اصولاً منحرف ہو کر یاتو خود مختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے، یہ کفر ہے۔تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے ۔ اس آخری مرتبہ پر جو بندہ پہنچ جائے اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو۔) (تفہیم القرآن جلد ۱صفحہ ۱۹۶، سورئہ بقرہ آیت ۲۵۶حاشیہ۲۸۶)
سورئہ بقرہ ہی کی آیت ۲۵۷ میں اللہ تعالیٰ نے طاغوت کی کارستانی اور طاغوت کے بہکاوے میں آنے والوں کے کردار اور انجام کو بیان کیا ہے، ساتھ ہی اللہ کی دوستی میں آنے والوں کے کردار کو بھی بیان کیا ہے، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔ اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ یُخْرِجُھُمْ مّنَ الظُّلُمٰتِ اِلٰی النُّورِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْلِیٰٓھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوٓنَھُمْ مِنَ النُّورِ اِلٰی الظُلُمٰتِ اُوْلٰیکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھاَ خٰلِدُوْنَ (سورئہ بقرہ آیت ۲۵۷)ترجمہ ’’ اللہ دوست ہے ایمان والوں کا وہ انہیں کے دوست طاغوت ہیں، وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیرے کی طرف لے جاتے ہیں، یہی دوزخی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایمان والوں کا دوست اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایمان والے زندگی کے تمام معاملات میں اللہ ہی کو اپنا دوست سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ گمراہی سے بچے رہتے ہیں اس لیے کہ یہ اللہ کا اصول ہے کہ جو اللہ کو اپنا دوست سمجھتا ہے ، اللہ اسی کو اپنا دوست سمجھتا ہے، اور جو اللہ کو اپنا دوست نہیں سمجھتا اللہ بھی اسے اپنا دوست نہیں سمجھتا ، ساتھ ہی مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کافروں کے دوست طاغوت ہیں۔ مذکورہ آیت میں کافروں کی یہ پہچان بیان کی گئی ہے کہ وہ طاغوت کے دوست ہیں اور ایمان والوں کی یہ پہچان بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے دوست ہیں، اور اللہ کے دوست ہونے کا مطلب زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ ہی کو اپنا سر پرست اور کارساز سمجھنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بندگی رب کی دعوت کے ساتھ ہی اجتناب طاغوت کی دعوت کو جو ڑ دیا تاکہ کسی بھی مومن کی زندگی میں ایمان کے ساتھ طاغوت کی حمایت باقی نہ رہے، چنانچہ تمام رسولوں کی بعثت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک اہم ضابطہ کو بیان فرمایا۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃِِ رَسُولاً اَنْ اعْبُدُوْا اللہَ وَاجْنننبِوا الطَّاغُوتَ۔(سورئہ نحل آیت ۳۶) (یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ وہ اللہ کی بندگی کی دعوت دے اور طاغوت سے اجتناب کرے۔ ) یہی وجہ ہے کہ تمام نبیوں اور رسولوں کی دعوت کی زد سب سے پہلے وقت کے حکمرانوں پر پڑی ، اور سب سے پہلے وہی نبیوں اور رسولوں کی مخالفت اور دشمنی میں پیش پیش رہیں، اور اقتدار کی طاقت و قوت کے بل بوتے پر انہوں نے نبیوں اور رسولوں کی دعوت کو دبانے کی کوشش کی)۔
مذکورہ آیت کی تفسیر میں بر صغیر کے ایک مفسر قرآن علامہ شبیر احمد عثمانی فاضل دیوبند نے حضرت شاہ صاحبؒ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ’’طاغوت سے مراد وہ ہے جو ناحق سرداری کا دعویٰ کرے، کچھ سند نہ رکھے ایسے کو طاغوت کہتے ہیں، بت شیطان اور زبردست ظالم سب اس میں داخل ہے۔‘‘ (مترجم شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ) کچھ مترجمین اور مفسرین نے طاغوت کا ترجمہ شیطان کے لفظ سے کیا ہیں، تو یہ مجازی اور صفاتی طور پر کیا ہیں کیونکہ قرآن کی رو سے ہر وہ انسان شیطان کی تعریف میں آتا ہے جو اللہ کا نافرمان اور باغی ہو، جیسے سورئہ بقرہ کے دوسرے رکوع میں منافقین کے کردار کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شیٰطِینْھِمْ قَالُوآ اِنَّا مَعَکُمْ(یعنی جب وہ اپنے شیاطین کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں) ظاہر ہے یہ منافقین انسانوں ہی میں سے اپنے سرداروں کے پاس جاتے تھے، نہ کہ ابلیس اور جنوں میں سے اس کے ساتھیوں کے پاس ویسے بھی ابلیس اور جنوں میں سے اس کے ساتھی عام حالتوں میں کسی کو نظر بھی نہیں آتے، ہاں انسانوں میں سے اس کے ساتھی زمین کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں، جو ابلیس کے نظام کو دنیا میں پھیلاتے ہیں اور انسانوں سے بات چیت بھی کرتے ہیں، البتہ انہیں اہل حق سے شدید دشمنی ہے۔
لَآ اِلٰہَ اِلّاَ اللہُ کا پہلا جز ہی تمام معبودان باطل کا انکار لیے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جتنے نبیوں اور رسولوں کا تذکرہ ہے، اس میں خصوصیت کے ساتھ یہ بات مذکور ہے کہ ہر نبی کی دعوت کی مخالفت کا آغاز قوم کے سرداروں کی طرف سے ہوا ہے۔ دعوت و تحریک نبیوں اور رسولوں کی دعوت و تحریک سے جتنی زیادہ قریب ہوگی، وہ باطل حکمرانوں کے نزدیک اتنی ہی مبغوض ہوگی ، اور وہ دعوت و تحریک نبیوں اور رسولوں کی دعوت و تحریک سے جتنی زیادہ دور ہوگی وہ باطل حکمرانوں کے نزدیک اتنی ہی محبوب ہوگی۔
چنانچہ دنیا کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جو بھی جماعت انبیائی دعوت کو لیکر اٹھی ہے تو وقت کے باطل اقتدار نے ان کا جینا دوبھر کر دیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، اور دور حال میں بھی جو جماعتیں انبیائی دعوت کو لیکر اٹھی ہوئی ہیں تو موجودہ دور کے باطل حکمرانوں اور حکومتوں نے ان کا جینا دو بھر کر دیا ہیں، اور ان پر طر ح طرح کے الزامات لگاکر انہیں جیلوں میں ڈالا جارہا ہے، اور بہتوں کو قتل کیا جا رہا ہے ،لیکن اس سلسلہ میں ان جماعتوں اور ان کے افراد کو ڈرنے اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
انسانی اور اسلامی تاریخ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ جب تک دنیا میں اہل حق مغلوب رہتے ہیں تو اہل باطل ان پر طرح طرح کے الزامات لگا کر ان پر ظلم و ستم کرتے ہیں، اور جب اہل حق دنیا میں غالب آتے ہیں تو اہل باطل اپنا طریقہ تبدیل کرکے اندر اندر ہی اہل حق کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں، چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ؑ کو بنی اسرائیل پر غلبہ عطا کر دیا تو، سامری نام کے شخص نے ایک سازش کرکے بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعداد کو بچھڑے کی پرستش میں مبتلا کردیا، اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو مدینہ میں غلبہ عطا کیا تو، اہل باطل نے عبد اللہ بن ابی کی قیادت میں آنحضورﷺ اور اہل ایمان کے خلاف نت نئی سازشوں کادروازہ کھول دیا، یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کے رسولﷺ کو دھوکہ سے قتل کرنے کی بھی سازش کی ، کبھی زہر دے کر مارنے کی سازش کی، اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر نعوذ باللہ زنا کی تہمت لگانے کی سازش کی، مختلف موقعوں پر اہل ایمان کو آپس میں لڑانے کی سازش کی، یہاں تک کہ جب پورے عرب میں اسلام سیاسی لحاظ سے غالب آگیا، اور اسلامی فوج قیصر روم کی فوج سے لڑنے کی تیاری کر رہی تھی تو اسلامی حکومت کے دارا لخلافہ ، مدینہ شہر میں اس سازشی گروہ نے ایک مسجد بنائی، اوراسلامی حکومت کے سب سے بڑے سربراہ حضرت محمدﷺ سے افتتاح کی درخواست کی، آپؐ نے فرمایا، چونکہ میں جنگ تبوک کی تیاری کر چکا ہوں ، اور ابھی لشکر کی روانگی کا جنگ تبوک سے واپسی پر مسجد کا افتتاح کردیں گے، لیکن واپسی سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کی وحی نازل فرمادی ، جس میں اس مسجد کی حقیقت اور اس کی غرض و غایت بتادی، چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے جنگ تبوک سے واپسی پر اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا، اور چند صحابہؓنے اسے گرادیا، قرآن کی اصطلاح میں اسے مسجد ضرار کہتے ہیں، یعنی نقصان پہچانے والی مسجد، اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اہل حق کے خلاف اہل باطل کی کس طرح کی سازشیں ہوتی ہیں، اور کہاں کہاں ہوتی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ جب تک قرآن نازل ہو رہا تھا، وحی کے ذریعہ اہل باطل کی سازشوں کا پتہ چل جاتا تھا، جس سے اہل حق واقف بھی ہو جاتے تھے، اور محفوظ بھی ہو جاتے تھے، لیکن قرآن مجید کے نزول کے بعد اب یہ اہل حق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کی روشنی میں اپنے دور کے سازشی گروہ کا پتہ لگائے، اور ان کی سازشوں سے خود بھی بچیں، اور دوسروں کو بھی بچائیں۔
دور حاضر میں جن اسلامی شخصیات نے موجودہ دور کے باطل کے سازشی گروہ کا پتہ لگایاہیں، اور ان کی سازشوں سے مسلمانوں کو واقف کرایا، ان میں عرب دنیا میں سید قطب شہیدؒ اور حسن البنّا شہیدؒ نمایاں طور پر ہیں،اور بر صغیر ہندو پاک میں نمایاں طور پر علامہ اقبالؒ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔
)جاری(
مشمولہ: شمارہ جنوری 2018