غیر مسلموں سے تعلقات

قرآن مجید کی روشنی میں

بلا کسی شک و شبہ خدا ایک ہے ، وہ اکیلا سارے نظام عالم کو چلا رہا ہے ، ذات اور وصف کے اعتبار سے وہ واحد ہے اور وحدانیت کو پسند کرتا ہے ، اس کی ذات یا صفت میں کسی کو شریک کرنا قرآن کی اصطلاح میں ظلم عظیم ہے اور یہ جرأت خدا کے لیے ناقابل برداشت ہے ، قرآن کہتا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَائُ ۔ ﴿النساء  : ۱۱۶﴾

’اﷲ تعالیٰ شرک معاف نہیں کرے گا اور اس کے علاوہ تمام خطائیں جو چاہے گا درگذر کردے گا ۔‘

مومنین یعنی خدا کو ایک ماننے والے ، احکامِ الٰہیہ کے پیرو کار اﷲ کی نظر میں محبوب ہیں ، ان کو جنت اور آخرت کی کامیابی کی بشارت دی گئی ہے اور اﷲ کے ساتھ شریک کرنے والے خدا کی نظر میں مبغوض اور ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہیں ، آخرت میں ناکام اور نامراد ہوں گے ، اس لیے کہ انھوں نے اپنے حقیقی رب کو فراموش کردیا ، اس کے احسانات سے استفادہ کرتے ہیں، مگر احسان فراموشی کرکے اپنے رب سے آنکھیں موندلیتے ہیں ، دنیا کے اس زبردست نظام اور خود اپنی جسمانی ساخت اور مختلف نظام پر غور کرتے تو معبودانِ باطلہ کو چھوڑ کر حقیقی معبود تک رسائی ہوجاتی ، مگر غفلت سے کام لیتے ہوئے اپنے حقیقی فرائض کو چھوڑ بیٹھے اور شرک جیسے گناہ عظیم کے مرتکب ہوئے ، اسلام جو انسان کو ابدی راحت فراہم کرتا ہے اور جو محسن حقیقی کی پہچان کراتا ہے ، اس سے وہ دور رہے ، اس طرح بنی نوعِ انسانی کے دو گروہ ہو گئے ، ایک مسلم اور دوسرا غیر مسلم اسلام قبول کرنے والا گروہ مقدس اور پسندیدہ ہے اور غیر مسلم گروہ ناپسندیدہ اور مبغوض ہے ۔

قرآن مجید میں تفصیلی طورپر دونوں کے الگ الگ احکام بیان کیے گئے ہیں اورمسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ غیر مسلم اﷲ کے دشمن ہیں ، اس لیے ان سے دوستی ، قلبی محبت ، رازدارانہ تعلقات نہ رکھے جائیں ، اس سلسلے میں درج ذیل آیات نازل کی گئیں :

۱- لاَّ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِیْنَ أَوْلِیَائَ مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْیٍٔ ااَّ أَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقَاۃً۔﴿ آلِ عمران : ۲۸﴾

’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یار و مددگار ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اﷲ سے کوئی تعلق نہیں ، ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ ۔‘

۲- یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَائَ تُلْقُونَ اِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَائ کُم مِّنَ الْحَقِّ ۔﴿ الممتحنہ:۱﴾

’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ ، تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو ؛ حالاںکہ جوحق تمہارے پاس آیا ہے ، اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں ۔‘

۳- یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَائَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائَ بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَاِنَّہُ مِنْہُمْ۔ ﴿ المائدۃ : ۱۵﴾

’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر ان ہی میں ہے ۔‘

۴- لَا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَائ ہُمْ أَوْ أَبْنَائ ہُمْ أَوْ اِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیْرَتَہُمْ ۔  ﴿المجالۃ : ۸۵ ﴾

’تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں ، وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں ، جنھوں نے اﷲ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان ۔‘

۵- یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُواْ آبَائ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَائ اَنِ اسْتَحَبُّوْا الْکُفْرَ عَلَی الاِیْمَانِ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ مِّنکُمْ فَأُوْلٰٓ ئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ۔ ﴿التوبۃ : ۲۳ ﴾

’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ، تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے، وہی ظالم ہوں گے ۔‘

اس مضمون پر مشتمل اور بھی متعدد ایسی آیات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ کفر و شرک اختیار کرنے والوں سے کسی طرح کی دوستی نہیں کی جائے گی اور نہ ان سے کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا ، خواہ ان سے خونی رشتہ ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ یہ لوگ خدا کی نازل کردہ چیزوں کا انکار کرتے ہیں اور اﷲ اور اس کے رسولﷺ سے منھ موڑتے ہیں ، وہ اس لائق نہیں ہیں کہ ان سے محبت کا معاملہ کیا جائے اور ان سے قربت اختیار کی جائے … لیکن قرآن کی دوسری آیات ، احادیث مبارکہ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرامؒ کے تعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان خواہ کافر اور غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو، اس کو بعض بنیادی حقوق حاصل ہیں، ان کو زندہ رہنے معاشی جدو جہد کرنے، اپنا مال اور جائیداد رکھنے اور اس میں تصرف کرنے اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق سب سے نمایاں ہے ، اسلام ان کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ انسانیت کے اعتبار سے جوان کے حقوق ہیں ، ان کا مکمل احترام کیا جائے، اس لیے کہ غیر مسلم بھی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد اورانسان ہیں ، انسانیت کے لحاظ سے وہ بھی قابل تکریم ہیں ، علامہ شامیؒ  نے اس پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے : والآدمی مکرم شرعاً وان کان کافراً، ﴿شامی : ۷/۲۴۵﴾ ’آدمی شرعی اعتبار سے محترم ہے خواہ وہ کافر ہو . غیر مسلم عقیدے کے اعتبار سے ناپاک اور ناقابل التفات ہیں ، مگر دوسرا پہلو آدمیت کا ہے ، اس لحاظ سے وہ قابل احترام ہیں ۔

غیر مسلم کے ان دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اہل علم و تحقیق اور فقہاء کرام نے ان سے تعلقات کی درج ذیل تین قسمیں کی ہیں :

۱- موالات : اس سے مراد قلبی اور دلی محبت ہے ، یہ صرف ہم عقیدہ یعنی مسلمانوں کے ساتھ جائز ہے ، کفار و مشرکین سے رازدارانہ تعلق ، قلبی محبت ، ان کا حقیقی احترام کہ جس سے کفر کا احترام لازم آئے جائز نہیں ہے ۔

۲-  مواسات: اس کے معنی ہمدردی ، خیر خواہی اور نفع رسانی کے ہیں ، ایسے غیر مسلم جو برسرپیکار اور مسلمانوں سے جنگ کے درپے نہیں ہیں ، وہ ہماری ہمدردی ، خیر خواہی کے مستحق ہیں ، سورۂ ممتحنہ کی آٹھویں آیت میں اس کی وضاحت ملتی ہے :

لَا یَنْہَاکُمُ اللّٰ ہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوکُم مِّنْ دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْْہِمْ ۔  ﴿الممتحنۃ : ۸﴾

’اﷲ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو ، جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔‘

ایسے لوگوں سے حسن سلوک ، ہمدردی و غم خواری میں کوئی حرج نہیں ہے ؛ بلکہ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ اسلام سے قریب ہوں گے ، مسلمانوں کے حسن اخلاق سے متأثر ہوں گے اور آپسی فاصلہ کم ہوگا ۔

۳- مدارات : اس سے مراد ظاہری خوش خلقی اور ادب و احترام ہے ، یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے ، خاص طورپر جب اس سے مقصد دینی نفع رسانی ، اسلام کی دعوت ، اسلامی اخلاق و برتاؤ پیش کرنا ہو یا وہ ہمارے مہمان ہوں اور مہمانوں کا احترام بہر حال لازم ہے یا ان کے شر و ضرر رسانی سے حفاظت مقصود ہو ، علامہ سیوطیؒ  سورۂ نسائ آیت : ۹۳۱ کے ذیل میں لکھتے ہیں :

أی تخافوا مخافۃ فلکم موالاتہم باللسان دون القلب وہذا قبل عزۃ الاسلام ویجری فی من فی بلد لیس قویا فیہا ۔ ﴿جلالین : ۱/۴۹﴾

’تمہیں ان سے خوف و اندیشہ ہو تو زبان سے بظاہر دوستانہ رویہ ، رواداری درست ہے، قلبی دوستی جائز نہیں ، یہ حکم اسلام کے غلبہ سے قبل تھا ؛ لیکن آج بھی ایسے علاقے میں جہاں مسلمان کمزور ہیں ، یہ درست ہے ۔‘

بیسویں صدی کے مشہور محقق مولانا اشرف علی تھانویؒ  خلاصۂ بحث اس طرح تحریر فرماتے ہیں:

کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں:﴿۱﴾موالات:یعنی دوستی، ﴿۲﴾مدارات:یعنی ظاہری خوش خلقی ، ﴿۳﴾ مواسات : یعنی احسان و نفع رسانی ، ان معاملات میں تفصیل یہ ہے کہ موالات تو کسی حال میں جائز نہیں اور آیت لاَ تَتَّخِذُوْا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَائَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائَ بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَاِنَّہُ مِنْہُمْ اور لاَ تَتَّخِذُواْ آبَائ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَائ

میں یہی مراد ہے اور مدارات تین حالتوں میں درست ہے ، ایک دفعہ ضرر کے واسطے ، دوسرے اس کافر کی مصلحت دینی یعنی توقع ہدایت کے واسطے ، تیسرے اکرام ضیف کے لیے اور اپنی مصلحت و منفعت مال یا جاہ کے لیے درست نہیں اور بالخصوص جب کہ ضرر دینی کا بھی خوف ہوتو بدرجۂ اولیٰ یہ اختلاط حرام ہوگا ۔ ﴿بیان القرآن : ۱/۲۰۴﴾

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرامؒ کی رواداری

مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کے ساتھ ظاہری رواداری ، حسن اخلاق ، شیریں زبان وغیرہ درست ہے اور جب اسلام کی تعلیم اور مسلمانوں کے اخلاق پیش کرنا مقصد ہوتو بہتر اور مستحب ہے ، اس پر انھیں اجر بھی دیا جائے گا۔ سیرت نبوی سے اس بات کی تائید ہوتی ہے ؛ چنانچہ فتح مکہ کا وہ تاریخی دن بھی تاریخ میں محفوظ ہے ، جب مکہ فتح ہوچکا تھا ، دشمنانِ اسلام سہمے ہوئے تھے ، لاکھوں تلواریں اشارۂ نبویصلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھیں ، سارے مشرکین صحن کعبہ میں موجود ہیں ، آپ چاہتے تو ان کے ایک ایک جرم کا بدلہ لے سکتے تھے ، مگر ان جانی دشمنوں کو معافی کا پروانہ دے دیا گیا ، ارشاد فرمایا : اذہبوا فأنتم الطلقائ ’جاؤ ! تم سب کے سب آزاد ہو‘ اسی طرح مکہ سے مایوس ہوکر طائف کی وادی میں اسلام کی دعوت دینے پہنچے، اوباش لڑکوں نے پتھر مار مار کر لہو لہان کردیا، بظاہر ناکام اور مایوس ہوکر لوٹ رہے تھے ، راستے میں اﷲ کی طرف سے دو فرشتے آئے اور کہا کہ آپﷺ کا حکم ہوتو اس بستی والوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے ؛ لیکن آپﷺ نے فرمایا نہیں ، ایسا نہ کریں کیا پتہ ان کی آئندہ نسلیں دعوت ِحق کے اس پیغام کو قبول کرلیں ۔

غزوۂ خندق کے موقع پر ایک مشرک فوجی خندق عبور کرکے مسلمانوں کی طرف آگیا اور حضرت علیؓ کے ہاتھوں مارا گیا ، کفارِ مکہ نے لاش کی قیمت ادا کرکے لاش حاصل کرنی چاہی ؛ لیکن آپﷺ نے قیمت نہیں لی اور یوں ہی ان کی لاش ان کے حوالے کردی ، اس طرح کے بیشتر رواداری اور حسن اخلاق کے ایسے واقعات ہیں کہ تاریخ ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ، حیرت اس لیے بھی ہے کہ یہ رواداری اس صورتِ حال میں تھی جب کہ آپﷺ ان کفار سے برسرپیکار تھے اور ہر وقت ان سے ضرر رسانی کا خطرہ رہتا تھا ، ایسے وقت لوگ جذبات میں حسن سلوک اور ظاہری خوش خلقی سے عموماً متصف نہیں رہ سکتے ؛ بلکہ ایسے حالات میں انسانیت کا بھی احترام ختم ہوجاتا ہے ۔

یہ اسلام کی تعلیم ہے کہ حسن اخلاق اور رواداری بہر حال پیش نظر رکھنی چاہیے ، اس سے صرف ِنظر مسلمانوں کا وصف نہیں ہوسکتا ، اس لیے صحابۂ کرامؒ بھی اسی تعلیم پر عمل پیرا تھے ، حضرت عمر فاروقؒ جو کفار کے حق میں نسبتاً سخت سمجھے جاتے ہیں ، ایک روز مسجد سے نکل رہے تھے کہ ایک نصرانی فقیر کو دیکھا ، بھیک مانگ رہا ہے ، فاروق اعظم اس کے پاس گئے اور حال دریافت کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا کہ تیری جوانی اور قوت کے زمانہ میں ہم نے تجھ سے ٹیکس وصول کیا اور جب تو بوڑھا ہوگیا تو اب ہم تیری امداد نہ کریں ، اس وقت حکم دیا کہ بیت المال سے اس کو تاحیات گذارہ دے دیا جائے ۔ ﴿جواہر الفقہ : ۵/۷۰﴾

غیر مسلم پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک

اسلام اپنے متبعین کو بلند اخلاق اور اعلیٰ ظرفی کی تعلیم دیتا ہے ، اسلامی شریعت یہ نہیں چاہتی کہ بد اخلاقی اور نامناسب زبان استعمال کیا جائے ، یا کسی بھی معاملے میں تنگ ذہنی برتی جائے ؛ چنانچہ اسلام نے مسلمانوں کو باہمی اخلاقیات کی جو تعلیم اور ہدایات دی ہیں ، ان کا راست مصداق تو مسلمان ہیں ، تاہم غیر مسلم افراد بھی اس میں شامل ہیں ، جیسے اسلام میں پڑوسیوں کی بڑی اہمیت بتائی گئی ہے ، ان کے ساتھ حسن سلوک ، حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور ان کو اپنے شر سے حفاظت کی ہدایت دی ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من کان یؤمن باﷲ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہ ، ﴿ صحیح مسلم ﴾ ’’ جو شخص اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، اسے اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں پہنچانی چاہیے ‘‘ — ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اس وقت تک بندہ مؤمن نہیں ہوسکتا ، جب تک اپنے بھائی اورپڑوسی کے لیے وہی چیزیں پسند نہ کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے‘‘ ﴿ مسند احمد ﴾ آپﷺ نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ جب سالن پکایا جائے تو اس میں اتنا پانی بڑھادیا جائے کہ پڑوسیوں میں تقسیم کیا جاسکے ۔ ﴿ صحیح مسلم ﴾

پڑوسیوں سے متعلق اس طرح کے جو بھی احکام ہیں ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں داخل ہیں ، یعنی جس طرح مسلمان پڑوسی کو تکلیف سے محفوظ رکھا جائے گا اور اسے خوشی و راحت میں شامل کیا جائے گا ، اسی طرح غیر مسلم پڑوسی کا بھی حق ہے کہ اسے امن فراہم کیا جائے اور حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے ، صحابۂ کرامؓ نے اس پر سختی سے عمل کیا ، حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ نے ایک بار ایک بکری ذبح کرائی ، غلام کو ہدایت کی کہ وہ سب سے پہلے پڑوسی کو گوشت پہنچائے ، ایک شخص نے کہا حضور ! وہ تو یہودی ہے ، آپ نے فرمایا یہودی ہے تو کیا ہوا ، یہ کہہ کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیا کہ جبرئیل نے مجھے اس قدر اور مسلسل وصیت کی کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ دار بنادیںگے۔﴿ ابوداؤ ، کتاب الادب ﴾

اس حدیث کے حوالے سے علامہ رشید رضا مصری لکھتے ہیں :

ہذا دلیل علٰی أن ابن عمر فہم من الوصایا المطلقۃ فی الجار انہا تشمل المسلم وغیر المسلم ونا ہیک بفہمہ وعلمہ ۔ ﴿تفسیر المنار : ۵/۹۲﴾

’یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ نے پڑوس کے ساتھ حسن سلوک کے سلسلے میں جو مطلق تاکیدیں آئی ہیں ، ان سے یہ سمجھا کہ ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں ، عبد اﷲ بن عمرؒ کا علم و فہم تمہارے لیے کافی ہونا چاہیے۔‘

سورۂ نساء آیت : ۳۶ میں مختلف پڑوسیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ، اس میں ایک قسم ’ الجار الجنب‘ بھی ہے ، بعض لوگوں نے اس سے غیر مسلم پڑوسی مراد لیا ہے ، علامہ قرطبیؒ  لکھتے ہیں:

فالوصاۃ بالجار مامور بہا مندوب الیہا مسلماً کان اوکافراً۔  ﴿قرطبی : ۵/۴۸۱﴾

’پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ، یہ مندوب اور پسندیدہ ہے ، پڑوسی مسلم ہو یا کافر ۔‘

کچھ  صفحات کے بعد لکھتے ہیں :

قال العلماء  الاحادیث فی اکرام الجار ، جائ ت مطلقۃ غیر مقیدۃ حتی الکافر ۔ ﴿ قرطبی : ۵/۸۸۱﴾

’علماء نے کہا ہے کہ پڑوسی کے اکرام و احترام میں جواحادیث آئی ہیں وہ مطلق ہیں ، اس میں کوئی قید نہیں ہے ، کافر کی بھی قید نہیں ۔‘

ایک پڑوسی پہلو کے ساتھی کو بھی بتایا گیا ہے ، جس کو ’ الصاحب بالجنب‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اس سے مراد ہم نشیں دوست بھی ہے ، اور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہوجائے ، جیسے بازار جاتے آتے ہوئے کارخانہ یا دوکان اور فیکٹری میں کام کرتے ہوئے یاکسی اور طرح ایک دوسرے کی صحبت حاصل ہو وہاں بھی حکم دیا گیا ہے کہ نیک برتاؤ کرے اور تکلیف نہ دے ، اس میں بھی مسلم اور غیر مسلم کی کوئی قید نہیں ہے ، ایسے ہی پڑوسی کی جتنی بھی صورتیں ہوسکتی ہیں ، سب میں مسلمان کے ساتھ غیر مسلم بھی داخل ہیں ۔

غیر مسلموں سے تحائف کا تبادلہ

سماجی زندگی میں تحائف اور ہدایا کے لین دین کی بڑی اہمیت ہے ، اس سے دوستی بڑھتی ہے ، باہمی فاصلے کم ہوتے ہیں اور دلوں سے تکلیف و رنج کے آثار دور ہوتے ہیں ، اس راز کو بیان کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا : ’ تہادوا تحابوا‘﴿ہدایہ کا لین دین کرو محبت میں اضافہ ہوگا﴾۔

یہ حکم بھی عام ہے ، اس سے غیر مسلم خارج نہیں ؛ بلکہ ان سے بھی ہدایا کا تبادلہ کیا جانا چاہیے ، احادیث میں غیر مسلموں کو تحفے دینے اور ان کے تحفے قبول کرنے کا ثبوت موجود ہے ، حضرت علیؒ فرماتے ہیں:

ان کسریٰ اہدی لہ فقبل وان المکوک اہدوا الیہ فقبل منہم ۔ ﴿ ترمذی ، ابواب السیر﴾

’کسریٰ ﴿ شاہ ایران ﴾ نے آپ کو ہدیہ پیش کیا ، آپ نے قبول کیا ، دیگر بادشاہوں نے بھی آپ کو ہدیے دیئے ، آپﷺ نے قبول فرمائے۔‘

غیر مسلموں کی دعوت قبول کرنا

سماج میں خوشگوار زندگی گذارنے کے لیے مہمانوں کی آمد و رفت اور دعوت کھانے اور قبول کرنے کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دعوت دے تو اسے قبول کرنا پسندیدہ ہے ، بلا وجہ اسے رد کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے ، اسی طرح غیر مسلم کے ساتھ بھی جائز مقاصد کے لیے کھانا پینا مباح ہے ، وقت ضرورت اسے دعوت دی جاسکتی ہے اور اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے ، رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کی دعوت قبول فرمائی ہے ، حضرت انسؓ فرماتے ہیں:

ان یہودیا دعا النبی صلی اﷲ علیہ وسلم الی خبز شعیر واہالۃ سنخۃ فأجابہ ۔ ﴿ مسند احمد : ۳/۱۱۲﴾

’ایک یہودی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کی روٹی اور بدبو دار چربی کی دعوت دی ، آپﷺ نے قبول فرمائی ۔‘

غیر مسلم کی عیادت

اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت اور مزاج پرسی کی تعلیم دی گئی ہے ، اس سے ہمدردی کا اظہار اور مریض سے یگانگت ہوتی ہے ، اس کے بڑے فضائل آئے ہیں ، مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم کی عیادت کا بھی یہی حکم ہے ، حضرت انسؒ کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا ، وہ بیمار ہوا تو آپﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لیے گئے ﴿ صحیح بخاری ﴾ اسی طرح بنو نجار کے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جو غیر مسلم تھا ، ﴿ مسند احمد : ۳/۱۵۲ ﴾ ان ہی روایات کی روشنی میں صاحب ہدایہ نے لکھا ہے :

ولا بأس بعیادۃ الیہودی والنصرانی لانہ نوع برفی حقہم وما نہینا عن ذلک ۔ ﴿ ہدایہ : ۴/۲۷۴﴾

’یہودی اور نصرانی کی عیادت میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ ان کے حق میں ایک طرح کی بھلائی اور حسن سلوک ہے ، اس سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے ۔‘

غیر مسلم پر انفاق

ضرورت مندوں اور محتاجوں پر خرچ کرنا ، ان کی ضرورت پوری کرنا ، بڑے اجر و ثواب کا موجب ہے ، اس میں عقیدہ اور دین و مذہب کا فرق نہیں رکھا گیا ہے ، محتاج شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم ، مشرک ہو یا اہل کتاب ، رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار ، ہر ایک پر خرچ کرنے کا جذبہ نیک اورباعث اجر ہے ، ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’ تصدقوا علیٰ اہل الا دیان ، ﴿ ابن ابی شیبہ﴾ ’ تمام اہل مذاہب پر صدقہ و خیرات کرو‘ اس میں انسانیت کا احترام ہے ، اس لیے کہ بھک و پیاس ہر ایک کو لگتی ہے ، غیر مسلم بھی اﷲ کے بندے اور مخلوق ہیں ، ان کے ساتھ ہمدردی کی جانی چاہیے ، بحیثیت انسان وہ بھی ہمارے حسن اخلاق اور رحم دلی کے مستحق ہیں ۔

غیر مسلم قیدی کے ساتھ حسن سلوک

قیدیوں کے ساتھ ظلم و ستم کا عام رجحان ہے ، وہ چوںکہ کمزور اور ناتواں بن کر ماتحتی میں آتے ہیں ، اس لیے ان کے ساتھ نازیبا سلوک کیا جاتا ہے ، اسلام نے اسے سختی سے منع کیا ہے ، سورۂ دھر آیت : ۸ میں مسکینوں اور یتیموں کے ساتھ قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، عہد نبوی میں قیدی صرف غیر مسلم ہوا کرتے تھے ، اس لیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدی خواہ غیر مسلم ہو ، اس کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے گا ۔

صحابۂ کرامؒ نے اپنے قیدیوں کے ساتھ جو حسن سلوک کیا ، تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی ، جنگ بدر میں جب ستر قیدی ہاتھ میں آئے اور آپﷺ نے مختلف صحابۂ کرام کے درمیان ان کو دیکھ بھال کے لیے تقسیم کیا اور بہتر سلوک کی ہدایت دی تو صحابۂ کرامؓ نے ان کے ساتھ حیرت انگیز حسن سلوک کا معاملہ کیا ، خود بھوکے رہے یا روکھا سوکھا کھایا مگر انھیں اچھا کھلایا پلایا ، ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھا ، خود تکلیف اُٹھاکر اپنے قیدیوں کو راحت پہنچائی جب کہ وہ حالت جنگ تھی اور ان ہی کفار کے ہاتھوں یہ ستائے گئے تھے یہاں تک ان کے مظالم کے سبب صحابۂ کرا م کو اپنا وطن چھوڑ دینا پڑا ، ان سب کے باوجود غیر مسلموں کے ساتھ یہ رواداری اور بہتر سلوک سارے مسلمانوں کے لیے ایک آئیڈیل ہے ، جس کے نقش قدم پر چلنا ہمارا نصب العین ہونا چاہیے ۔

غیر مسلم کو دُعاء دینا

دوسروں کے لیے دُعائ قلبی سخاوت اور وسعت ذہنی کی مثال اور آئینہ ہے ، اس میں اظہار ہمدردی اور خیر خواہی بھی ہے کہ دوسروں کے لیے ایک شخص وہی چاہتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے ، دوسروں کی ترقی ، راحت اور خوشحالی کی تمنا کرنے اسلام کی ہدایت ہے ، یہ مسلمانوں کے لیے بھی ہے اور غیر مسلم کے لیے بھی ، حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے پینے کی کوئی چیز طلب کی اس نے وہ پیش کی تو آپﷺ نے اسے دُعائ دی کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں حسین و جمیل رکھے ؛ چنانچہ مرتے وقت تک اس کے بال سیاہ رہے ، ﴿مصنف عبد الرزاق : ۰۱/۳۹۲﴾

غیر مسلم کے ساتھ عدل و انصاف

عدل و انصاف کی شریعت نے بہت سخت تاکید کی ہے ؛ بلکہ یہ اسلام کا امتیازی وصف ہے کہ انسان کسی بھی حال میں ہو وہ عدل و انصاف کو ترک نہ کرے ، اسلام اپنے متبعین کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی فرد یا گروہ پر دست تعدی دراز کریں ، چاہے اس سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں اور اس نے کتنے ہی زیادتی کیوں نہ کی ہو ، ارشاد ربانی ہے :

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُونُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَائ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُوْا۔ ﴿ المائدۃ : ۸﴾

’اے ایمان والو! اﷲ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ ۔‘

عدل سے کام نہ لینا ظلم ہے اور ظلم کبھی اﷲ تعالیٰ کو برداشت نہیں ہے ، خواہ وہ کسی جانور کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو ، آپﷺ نے مظلوم کی بددُعاء سے بچنے کی تاکید کی ہے ، جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں داخل ہیں ۔حضرت عبید اﷲ بن فاروقؓ نے دو کافروں کو اس شبہ میں قتل کردیا کہ وہ قتل عمر میں شریک تھے ، حضرت عثمانؒ مسند خلافت پر پہنچے تو انھوں نے مہاجرین و انصار سے رائے لی ، حضرت علیؒ نے فتویٰ دیا گردن اڑا دی جائے ، مہاجرین نے بالاتفاق کہا ، عمر کے بیٹے کو قتل کردینا چاہیے ، حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے پاس سے خون بہا ادا کرکے معاملہ رفع دفع کردیا ۔ ﴿ اسلامی رواداری : ۲۴۱﴾

غیر مسلم کا مسجد میں قیام

مسجد ایک مقدس جگہ ہے ، اس کو پاک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، وہاں مسلمان عبادت کرتے ہیں ، اس لیے ہر طرح کی آلودگی ، بچوں کی آمد و رفت ، شور و شرابہ ، ناپاک لوگوں کے داخلے سے حفاظت ایمان کا حصہ ہے ، اس کے باوجود غیر مسلم اقوام کے مسجد میں داخلہ اور قیام کا ثبوت ملتا ہے ، وفد ثقیف جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؓ نے ان کے لیے مسجد میں خیمہ لگوایا ؛ تاکہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا ، اے اﷲ کے رسول ، آپ انھیں مسجد میں ٹھہرا رہے ہیں ، جب کہ وہ مشرک ہیں ، آپ نے فرمایا زمین نجس نہیں ہوتی ، نجس تو ابن آدم ہوتا ہے ، ﴿ نصب الرایہ : ۴/۰۷۲﴾ غیر مسلم کو عقیدے کے اعتبار سے قرآن نے ناپاک کہا ہے ؛ تاہم جسمانی اعتبار سے اگر وہ پاک صاف رہیں تو مسجد میں داخلے کی ممانعت نہیں ہوگی ، بالخصوص اس نیت سے کہ مسلمانوں کے طریقۂ عبادت ، ان کی اجتماعیت اور سیرت و اخلاق کو دیکھ کر ان کے دل نرم پڑیں اور اسلام کی طرف وہ مائل ہوں ؛ جیساکہ آپﷺ نے مختلف وفود اور اشخاص کو مسجد میں قیام کی اجازت اسی مقصد کے تحت دیا تھا ، علامہ خطابی لکھتے ہیں :

وفی ہذا الحدیث من العلم أن الکافر یجوز لہ دخول المسجد لحاجۃ لہ فیہ أو للمسلم الیہ ۔ ﴿ معالم السنن : ۲/۳۵﴾

’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کو اگر مسجد میں کوئی حاجت ہو یا مسلمان کی اس سے کوئی حاجت ہو تو وہ وہاں جاسکتا ہے ۔‘

غیر مسلم جنازہ کا احترام

خوشی اور غم خواہ غیر مسلم کو ہی کیوں حاصل نہ ہو ، وہ انسان ہیں ، اس لیے ان کی خوشی اور غم میں شمولیت حدود میں رہتے ہوئے جائز ہے ، جنازہ وہ تصور و خیال کو آخرت کی طرف لے جاتا ہے اور انسان کو چونکا دیتا ہے ، اس لیے کہیں سے کوئی جنازہ گزرے تو انسان کو کھڑا ہوجانا چاہیے ، اگر یہ جنازہ غیر مسلم کا بھی ہو تو بھی یہی حکم ہے ، ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے ، صحابہ نے عرض کیا یہ تو یہودی کا جنازہ ہے ، آپﷺ نے فرمایا ، آخر وہ بھی تو انسان تھا ’’ ان فیہ لنفساً‘‘﴿ صحیح بخاری ، بحوالہ مشکوٰۃ : ۷۴۱ ﴾ یعنی ہم نے انسانیت کا احترام کیا ہے اور انسان ہونے میں تمام نوع بنی آدم یکساں ہیں ۔

غیر مسلم کی تعزیت

موت ایک خوفناک حادثہ ہے ، یہ حادثہ مسلمانوں کو ہوتو وہ یقینا لمحۂ فکر ہے ؛ لیکن غیر مسلم کے گھر میں بھی یہ حادثہ پیش آئے تو اس کی بھی تعزیت کی جانی چاہیے اور انسانی ہمدردی کا اظہار کیاجانا چاہیے، یہ ایک سماجی تقاضا ہے اور عین اسلام کی تعلیم پر عمل ہے ، امام ابویوسفؒ  کا بیان ہے کہ حضرت حسن بصری کے پاس ایک نصرانی آتا اور آپ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا ، جب اس کا انتقال ہوا تو انھوں نے اس کے بھائی سے تعزیت کی اور فرمایا : تم پر جو مصیبت آئی ہے ، اﷲ تعالیٰ تمہیں اس کا وہ ثواب عطا کرے جو تمہارے ہم مذہب لوگوں کو عطا کرتا ہے ، موت کو ہم سب کے لیے برکت کا باعث بنائے اور وہ ایک خیر ہو جس کا ہم انتظار کریں ، جو مصیبت آئی ہے ، اس پر صبر کا دامن نہ چھوڑو ۔ ﴿ غیر مسلموں سے تعلقات : ۹۳﴾

غیر مسلم سے کاروباری تعلقات

کاروبار ، خرید و فروخت ، لین دین انسانی زندگی کا لازمی جز ہے ، یہ چیزیں جس طرح مسلمانوں کے ساتھ درست ہیں اسی طرح غیر مسلم افراد کے ساتھ بھی جائز ہیں ، غیر مسلم طبقے سے تجارتی تعلقات شرعی حدود میں رہتے ہوئے کیے جاسکتے ہیں ، حضرت عائشہؒ فرماتی ہیں :

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اشتری طعاما من یہودی الٰی اجل ورہنہ درعہ من حدید ۔ ﴿صحیح بخاری﴾

’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مدت کے لیے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنے لوہے کی ذرہ رہن رکھی ۔‘

علامہ دقیق العید فرماتے ہیں :

ہذا الحدیث دلیل علٰی جواز معاملۃ الکفار وعدم اعتبار الفساد فی معاملتہم ۔

’یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کفار سے معاملہ کرنا جائز ہے اور یہ کہ ان کے آپس کے معاملات کے فساد کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔‘﴿احکام الاحکام: ۳/۱۹۶﴾

خلاصۂ بحث

ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانیت میں ساری قوم شامل ہیں ، جہاں انسانیت کی بات آئے گی وہاں ان کے ساتھ ہمدردی ، خیر خواہی روا داری وغیرہ میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی ، اچھے اخلاق کے ذریعہ ہم ایک اچھا انسان ہونے کا ثبوت دیں گے ؛ تاکہ اسلام کی اچھی تصویر ان کے ذہن میں بیٹھے اور کم از کم اسلام اور مسلمانوں کے تئیں نرم گوشہ ان کے دل میں پیدا ہو ، تا ہم شریعت اسلامی کے ہم پابند ہیں ، اسلامی امتیاز ہر وقت باقی رہے ، عقائد یا مسائل میں اس کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہ ہوگی ، ایک مسلمان کو رواداری کے نام پر ذرہ برابر دین کے معاملے میں مداہنت یا کسی رد و بدل اور ترمیم کی اجازت نہیں ہے ، مخالفین کی خواہشات کے سامنے جھک جانا بڑے خسارے کا سودا ہوگا ، عہد نبوی میں بعض کفار کی خواہش تھی کہ آپﷺ ان کے مذہب کو قبول کرلیں ، بنی اسرائیل آیت ۳۷ – ۵۷ میں آپﷺ کو ہدایت دی گئی کہ رواداری یا اخلاق کی آڑ میں ان کے مذہب کی طرف جھکنا دنیا وآخرت دونوں کو تباہ کردے گی ، یہ دراصل اُمت کو سبق دینا ہے ورنہ آپﷺ کے بارے میں اس کا شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2011

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223