مجھے ساحل سمندر یا دریا کنارے لے چلو۔ حلق تر نہ ہوتو نہ سہی، کم ازکم پانی کا دیدار ہی کچھ تسکین دے جائے۔
تصور فرمائیے، ایک صحت مندجسم میں جڑے دوننھے گردوں نے اچانک کام کرنا بند کردیا اور ڈاکٹروں نے یہ فیصلہ سنادیا کہ اب یہ جسم پانی کا’بوجھ‘ سہنے کا متحمل نہیں اس لیے دن میں چند ملی لیٹر سے زیادہ پانی کا استعمال مہلک ہوسکتا ہے۔
بھائی عرفان اپنے ایک عزیز کی بپتا سنارہے تھے کہ کس طرح وہ التجائیں کیاکرتے کہ حلق خشک سہی، کم ازکم دیدار کی ٹھنڈک سے ہی کچھ سکون نصیب ہو جائے۔ اس کرب اور قدرت کے ان انمول تحفوں (گردوں) کی قدروقیمت کا اندازہ کسی ڈائلیسس یونٹ میں ہوتا ہے۔
آغازعمل
ایچ بی ایس ایک مکمل ملٹی اسپیشالیٹی ہاسپٹل ضرور ہے لیکن اس کے ڈائلیسس یونٹ نے سالانہ تیس ہزار سیشنوں کی بے لوث خدمت کے ساتھ جنوبی ہند کے وسیع علاقے میں جو نیک نامی پائی وہ بے نظیر ہے۔
۱۹۹۲ ء کا پرآشوب دور تھا۔فرقہ واریت اور فساد و خون نے بنگلور شہر کے اس مرکزی علاقے کو بھی نہ چھوڑا جہاں قریب ہی ودھان سودھا (اسمبلی) واقع ہے۔ متاثرین سرکاری اسپتالوں سے نالاں تھے۔ تعصب کی شکایت عام تھی۔ لیکن ڈاکٹر طہٰ متین کہتے ہیں کہ یہ شکایت بے بنیاد ہے۔ سرکاری اسپتالوں کا ورک کلچر حقیقت میں انتہائی سیکولر اور ڈیموکریٹک ہوتا ہے۔ یہاں بلالحاظ مذہب و ملت سب کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا ہے۔ بے لوث اور بلاتفریق جذبہ خدمت ہی اس نکمے پن کا علاج ہے۔ اسی نیک جذبے کے ساتھ کچھ دردمند لوگ اٹھے۔ انجمن خدام المسلمین کی بنیاد رکھی۔ نامور برٹش بیوروکریٹ بسم اللہ شاہ نے قلب شہر میں وسیع زمین وقف کررکھی تھی جس پر ایک کشادہ مسجد قائم ہے۔ مسجد سے متصل زمین کے بڑے حصے کو اس کارخیر کے لیے مسجد کمیٹی نے انجمن کے حوالے کیا اور یوں قائم ہوا حضرت بسم اللہ شاہ ملٹی اسپیشالٹی ہاسپٹل۔
گلوبلائزیشن اور لبرلائزیشن کی انقلابی اتھل پتھل کے ساتھ ۱۹۹۵ ء کا آغاز ہوا۔ چند ہی سالوںمیں بنگلور نے مادی ترقی کی حیران کن تاریخ رقم کی۔رئیل اسٹیٹ نے لمبی جست لگائی جس میں مسلمانوں نے بھی خوب حصہ لیا اور دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ اسی عرصے میں جہاں دیگر منصوبوں نے آگے قدم بڑھایا وہیں ایچ بی ایس بھی عمارت اور بنیادی سہولیات سے آراستہ ہوگیا۔انجمن نہایت مخلص، خدمت گزار، اور محنتی لوگوں کی ٹیم تھی۔ انھوں نے خون پسینہ ایک کیا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ صرف محنت، مہارت کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ کچھ ہی سالوں میں انتظامی اور طبی صلاحیتوں کے چیلنج قطار در قطار کھڑے ہوگئے۔سوئے قسمت کہ وہ وقت بھی آیا جب وسیع زمین پر کھڑا شاندار اسپتال روز کسی محاذ پر لڑکھڑاجاتا اور اپنے منتظمین کی فکروں میںنت نئے اضافے کرتا۔ وقف فکرمند، منتظمین پریشان، اور عوام بھی بے چین!
بالآخر یہ تجویز پیش ہوئی کہ شہر کے معروف ڈاکٹر طہٰ متین اور ڈاکٹر سعد بیلگامی اور ان کی ٹیم یہ کام سلیقے سے انجام دے سکتی ہے۔انجمن نے اپنی متفقہ تجویز ان ماہرین کے سامنے رکھی۔ ان خادمین تحریک نے اس تجویز کو جماعت اسلامی ہند کے میٹرو نظم کے سامنے پیش کیا۔ اور شہری نظم نے یہ، فیصلہ کیا کہ شمع ٹرسٹ کے تحت ڈاکٹر طہٰ متین، ڈاکٹرسعد بیلگامی، جناب سید تنویراحمد کے ساتھ جناب علی شریف صاحب، جناب مصطفی کمال صاحب، اور ڈاکٹر معین الدین صاحب پر مشتمل ٹیم اس چیلنج کو قبول کرے۔ انجمن کی ٹیم اطمینان کے ساتھ انتظامی امور سے مکمل طور پر دست بردار ہوگئی اور یوں ۲۰۱۲ ء میں ایچ بی ایس کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
منفرد کوشش
۱۷۵ ملازمین، ۲۵ ماہر ڈاکٹر اور کئی شعبوں کے ساتھ ایچ بی ایس شہر کا معر وف ملٹی اسپیشالیٹی اسپتال ضرور ہے، لیکن اسکی ڈائلیسس یونٹ کی خدمات بڑی منفرد اور مقبول ہیں۔ میں نے اس خصوصی توجہ کا سبب جاننا چاہا۔
دیگر امراض اور سرجری کیسوں کا اسپتال سے ناطہ وقتی ہوتا ہے۔بالعموم مریض صحتمند ہوکر لوٹ جاتا ہے اور کبھی کبھارحسب ضرورت فالواپ مشورے کے لیے دوبارہ اسپتال کا رخ کرتا ہے۔ لیکن ڈائلاسیس وہ تکلیف دہ آزمائش ہے جو گھِر کرجائے تو اسپتال دوسرا گھر بن جاتا ہے۔ ہر دوسرے دن نفع خوراسپتالوں میں کئی گھنٹوں پر مشتمل کربناک وقت گزارنے کی نوبت آجائے تو اس شخص اور اس کے پورے خاندان کی اذیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ معاشی استحصال، ذہنی کرب، اور نفسیاتی الجھنیں الگ۔ یہی سبب ہے کہ ایسی بے بسی اوردکھوں کا مداوا ایچ بی ایس اسپتال کی ترجیح قرار پائی۔
عام ملٹی اسپیشلٹی اسپتال کے آغاز کے لیے مارکیٹ کوٹیشن لیا جائے تو کروڑہا روپیوں کے ہوش اڑانے والے اور عزائم پست کرنے والے پروپوزل سے پالا پڑتا ہے۔ لیکن اس قابل ٹیم نے اس بات کو پوری مہارت سے یقینی بنایا کہ بس چند لاکھ کے انتہائی ضروری آلات کے ساتھ ملٹی اسپیشالیٹی اسپتال کو فنکشنل بنادیا جائے۔
ڈاکٹر ظفر الحق جس اپنائیت کے ساتھ پریشان و مجبور مریضوں کا حوصلہ انھیں کے لب ولہجے میں بڑھاتے ہیں بے مثل ہے۔ میں گفتگو کی نیت سے پہنچا تھا، لیکن ان کے کونسلنگ سیشن کا خاموش سامع بنا رہا۔سچ یہ ہے کہ ان کونسلنگ سیشنوں کی خاموش سماعت نے ہی میرے کئی سوالوں کا جواب فراہم کردیا۔
ڈاکٹر ظفرالحق کی زبانی علم ہوا کہ یہاں فی ڈائلیسس سیشن ۶۵۰ روپیے چارج کیے جاتے ہیں لیکن ۵۰ فیصد مستحق لوگوں کے لیے مفت خدمت کا در کھلاہے۔ یوںجملہ اوسط نصف ہوجاتا ہے۔ اس طرح مانا جاتا ہے کہ یہ جنوبی ہند کا سب سے سستا ڈائلیسس سینٹر ہے۔اوسطاً ہرماہ ۳۲۰۰ سیشنوں کے ساتھ اس کی خدمات کا گراف کسی بھی اسپتال کے مقابلے میں بہت اونچا ہے۔ کم فیس کے بوجھ نے اسپتال کے معیار کو کبھی پست نہیں کیا۔رفیع شریف صاحب ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ انھوں نے اسپتال کے ہر ڈپارٹمنٹ کا تفصیلی مشاہدہ کرایا۔محسوس ہوا کہ ایچ بی ایس اپنے معیار کے حوالے سے شاید کارپوریٹ اسپتالوں کو بھی شرمندہ کردے۔ میری دلچسپی یہاں کے ڈائلیسس سینٹر میں تھی۔یہاں ڈاکٹر عاصم ہمارے منتظر تھے۔ ڈاکٹر عاصم آئی سی یو ہیڈ ہیں۔ ڈائلیسس سینٹرکے ڈاکٹروں کی ٹیم کی شب وروز خدمات بے مثل ہیں۔ یہاں مرض کی پیچیدگی کے لحاظ سے ڈائلیسس سیکشن بنے ہیں۔ کئی مشینیں مریضوں سے جڑی مسلسل چل رہی تھیں، اور ڈاکٹروں کی ٹیم بھی انھیں مشینوں کی مانند پیہم خدمت میں جٹی تھی۔ ڈائلیسس مشینوں کی فنکشننگ کوماہرین کی زبانی تفصیلاً سمجھنے کا موقع خدا کے حضوربے پناہ جذبہ تشکر کا سبب بنا۔کئی کلو گرام کی بھاری بھرکم قیمتی برانڈیڈ مشینوں اور چند گرام کے قدرتی کرشمے (گردوں) کا موازنہ کرلیجیے۔
قیمتی برانڈیڈ مشینیں جس کام کو ماہرین کی مستقل نگرانی میں وقتی طور پرمشکل سے انجام دے سکتی ہیں، وہی خدمتکئی گنا بہتر انداز میں دو ننھے گردے شب وروز ازخود(آٹومیٹک) رب کے حکم پر بالکل مفت انجام دیے چلے جاتے ہیں۔ الحمدللہ!
ان قیمتی مشینوں کے سروس انجینیروں کا ماننا ہے کہ ڈائلیسس مشینوں کا اتنا موثر اور پیہم استعمال کسی اور اسپتال میں نہیں ہوتا۔
بنگلور جیسے شہر میں لاکھوں روپیوں کی برانڈیڈ مشینیں، نفیس اور شاندار وارڈ، اور قابل ڈاکٹروں کی ٹیم لیکن فیس ناقابل یقین حد تک کم! میں نے جاننا چاہا کہ منتظمین یہ کمال کیسےکر دکھاتے ہیں۔
ڈاکٹر طہٰ متین اس’ کمال ‘ کی بڑی دلچسپ وضاحت کرتے ہیں۔
صحت عامہ (ہیلتھ کئیر) ایک بڑی خرچ طلب ضرورت ہے جس کا بے تحاشا خرچ ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو ہر سال کنگال کیے دیتا ہے۔ مریض کے نام جو بل بنتا ہے اندازاً اس کا ۲۵ فیصد حصہ رئیل اسٹیٹ (زمین اور بلڈنگ کی قیمت) کے نام ہوتا ہے۔ تقریباً ۲۰ فیصد مارکیٹنگ کی دنیا کا حق ہوتا ہے۔ ایڈورٹائزمنٹ، درمیانی کمیشن اور ریفرنس کی صور ت میں ’حق بہ حقدار‘ رسید ہوتا رہتا ہے۔ مزید ۲۵ فیصد خالص نفع ہوتا ہے۔جس میں ایک بڑا حصہ سود اور لون سروسنگ کا بھی شامل ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ ایک مختصر حصہ تنخواہوں، ضروری سہولیات اورکنزیوم ہونے والی چیزوں پر خرچ ہوتا ہے۔کمال بس یہ ہے کہ ایچ بی ایس ابتدائی تین حصوں سے مکمل لاتعلق اور بے فکرہے۔اب اگر اصل قیمت کم ہوکر مختصر رہ جائے تو آپ شوق سے کمال کہیے۔
شفافیت (ٹرانسپیرنسی)اورتحقیق پر مبنی علاج (ایویڈنس بیسڈ پریکٹیس) بھی اس ’کمال‘کی جڑیں ہیں۔ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص عام مرض کے ساتھ یہاں آئے اور ڈائلیسس مشین کا اسیر بن جائے۔ کارپوریٹ اسپتالوں کی اس عمومی بدچلنی سے ایچ بی ایس کوسوں دور ہے۔
اہل شہر بھی اس خلوص کی قدر کرنا خوب جانتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ایچ بی ایس فارن فنڈ، گورنمنٹ فنڈ، اور کارپوریٹ فنڈ کا کبھی محتاج نہ رہا۔۹۹ فیصدتعاون بنگلور والوں کے خلوص و وابستگی کی روشن علامت ہے۔
ڈائلیسس سے قبل اور فوری بعد ایک بہت متوازن غذا ضروری ہوتی ہے۔ غریب مریض یہ اہتمام کیا کرسکیں گے۔یہاں ایسے تمام مریضوں کے لیے نہ صرف خصوصی غذا کا شفاف انتظام ہے، بلکہ اگلے کچھ دنوں کا راشن بھی ساتھ کردیا جاتا ہے۔
محسوس یہ بھی ہوا کہ یہاں عام اسپتالوں سا مردم بیزار ماحول بھی نہیں، جہاں مریض کو قید تنہائی اور رشتے داروں کو ایک موہوم خوف اور دبدبے کے زیر اثر رکھا جاتا ہے۔یہ اسپتال ہے اور اسی اسپتال کے باغ میں کچھ بچے کھیل رہے ہیں۔لوگ بھی عمومی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے عیادت کے لیے چلے آرہے ہیں۔نہ ہٹو بھاگو کا دھڑکا اور نہ ہی کسی ڈاکٹر کی ڈانٹ ڈپٹ۔ ایچ بی ایس کے ماہرین کا احساس ہے کہ اسپتالوں کامردم بیزار کلچر کوئی طبی ضرورت نہیں بلکہ خالص انا پرستی (ایگو سروس) کا اظہارہوتا ہے۔ طبی نفاست اور ضروری نگہداشت سے ہم نہ مفاہمت کرتے ہیں، اور نہ ہی میل جول کے اس کلچر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اپنوں کے درمیان مریض نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہتا ہے۔ اپنائیت بھرے اس ماحول میں کچھ علاج ڈاکٹر کرتے ہیں اور کچھ اس کے اپنے عزیز!
ہزاروں مریضوں کی شب وروز خدمت کے باوجود آج بھی کئی لوگ ویٹ لسٹ میں اپنی باری کے منتظر نظر آئے۔ کئی مریض مایوس ہوکر دیگر اسپتالوں کا رخ بھی کرتے ہیں۔ اسی بڑھتی ضرورت کے پیش نظر اسپتال نے مزید دو فلور کی توسیع کی۔ امیدہے خدمات بھی جلد ہی دوچند ہوجائیں گی۔
یہ تلخ تلخ راحتیں
مینیجنگ ٹرسٹی ڈاکٹر طہٰ متین سے میں نے کہا کہ ماشاء اللہ آپ کی ٹیم کے سفر کی یہ راہ خوش رنگ گلوں سے آراستہ ہے، مبارکباد! لیکن کیا کبھی کانٹوں کی چبھن بھی سر راہ کہیں محسوس ہوئی؟
ہاں، سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ پروفیشنلوں میں جذبہ خدمت کی شدید کمی ہمیشہ کھٹکتی ہے۔ہر قسم کی قربانی بس اوسط طبقات کاحصہ اور امتیاز ہے۔خدا کا شکر ہے کہ یہاں ہمیں کچھ ہیرے نصیب ہیں۔لیکن ایسے دمکتے ہیرے ہر میدان میں درکار ہیں۔ یہ بات واقعی ہوجائے تبھی عروج وترقی کے بڑے فیصلے آسمانوں سے نازل ہوتے ہیں۔
پھر یہ بھی کہ ہم سماجی تفاوت (سوشل ڈسپیرٹی) کا لاکھ رونا روئیں پر المیہ یہ ہے کہ اس تفاوت کی آبیاری میں ہمارا کردار کم نہیں۔ غریب کی عزت نفس، کسی کروڑ پتی کی عزت سے کیوں کر کمتر ہوگی۔ پھر ان کے دلوں کوچیریٹی کے طعنوں سے چھلنی کرنا کیسے زیب دے سکتا ہے۔ ہم نے یہاں ایسے غیر انسانی رویوں کو پیر پھیلانے سے پہلے الٹے پاؤں بھگا دیا ہے۔
پیغام عمل
۱) حکومتی وقف بورڈ کے زیر انتظام ایک مسجد کی وقف شدہ زمین پر،
ایک مخلص ٹیم (انجمن خدام المسلمین) کی تعمیر کردہ بلڈنگ میں،
تمام اہم مکاتب فکر کی کئی مساجد اور این جی اوز کے مالی تعاون کے ساتھ،
امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند کرناٹک (ڈاکٹر سعد بیلگامی) کے بشمول شہر کے قابل ڈاکٹروں اور مینیجروں کی صلاحیتوں کے بل پرکامیابی سے چل رہا ایک پروجیکٹ!
مسلکی عصبیت کی گھٹن میں ایک خوش گوار تنوع کا حسین نمونہ ہے ایچ بی ایس!
ایچ بی ایس امت کے باہمی تعاون کی غیر معمولی مثال پیش کرتا ہے۔ اہل حدیث مرکز، میمن برادری کی مسجد، دیوبندی اورکئی سنی مساجد اس پروجیکٹ کے لیے رضاکارانہ تعاون ہرماہ بلاناغہ پیش کرتی ہیں۔ یہ وہ تعاون ہے جس کے لیے نہ کبھی کوئی گزارش کی گئی، نہ یاددہانی اور نہ ہی فالواپ۔ خلوص، محنت اور نتائج کے آگے گروہی بندشیں لازماًدم توڑسکتی ہیں۔
۲)عبداللہ ایچ بی ایس کے اسٹاف میں شامل ہیں۔ان سے مل کر خوشی ہوئی۔ بڑے خوش مزاج اور فعال۔ ڈائلیسس یونٹ کی مینیجر سنیتا بھی بڑی باصلاحیت اور فعال خاتون ہیں۔ لفٹ میں مسکراتے رحمت چاچا(لفٹ آپریٹر) سے ملاقات ہوئی وہ بھی اپنا کام خوش اسلوبی اور مستعدی سے نبھارہے ہیں۔
جانتے ہیں ان میں مشترک بات کیا ہے؟ تینوں ہی ڈائلیسس کے مریض ہیں!
عبداللہ ایک کامیاب سافٹ وئیر انجینیر ہیں۔آج ڈائلیسس مقدرسہی، وہ رب کے فیصلے پر راضی ہیں۔ اس آزمائش کے ساتھ وہ کیسے کارپوریٹ جاب کے متحمل ہوسکتے؟چنانچہ انھوں نے ۱یچ بی ایس کواپنا مسکن بنالیا اوراپنی تکنیکی خدمات سونپ دیں۔ ایچ بی ایس تنخواہ کے ساتھ ساتھ اپنی خدمات بھی انھیں پیش کرتا ہے۔ یہی معاملہ دیگر ۱۲ ملازمین کا ہے۔ جب دیگر مریض دیکھتے ہیں کہ اسی صبر آزما آزمائش سے دوچار لوگ یہاں فعال خدمات بھی انجام دے رہے ہیں تو ان کی ہمت اور قوت ارادی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ خدمت اور ہمہ گیر خدمت کا فرق بھی عملاً سمجھاتا ہے ایچ بی ایس!
۳) مقامی عوام کا احساس ہے کہ اسپتال کا سالانہ جلسہ خدام المسلمین کے بانیان اور وابستگان کے نام ہوتا ہے۔ اسپتال کے نمایاں ترین چہرے یعنی شمع ٹرسٹ سے وابستہ ہائی پروفائیل ڈاکٹر اور منتظمین اسٹیج سے پرے کہیں بیٹھے ہوتے ہیں۔عام ذہن یہ سوچ سکتا ہے کہ سال بھر انتھک خدمت کے بعد آخر اس سالانہ جلسے میں یہ گم شدگی کیوں؟ واقعہ یہ ہے کہ انجمن کے وابستگان وہ مخلص خدام ہیں جنھوں نے بیج بویا اور جب انھیں محسوس ہوا کہ بیج بونا اور بات ہے اور کونپل پھوٹنے کے بعد آبیاری و پرورش ایک الگ مرحلہ ہے، تب انھوں نے انا کے قیدی بننے کے بجائے خون جگر سے سینچے پروجیکٹ کو اصل صلاحیتوں کے حوالے کردیا۔ ادھر نئی انتظامی ٹیم نے بھی نہ اسپتال کا نام بدلا اور نہ پروفیشنلزم سے ناطہ توڑا۔انا سے آزاد باہمی احترام اور اعتماد بھی بڑی نعمت ہوتی ہے۔
۴)منتظمین کہتے ہیں کہ ایچ بی ایس چیریٹی کے اصل مفہوم کی عملاً تشریح کرتا ہے۔
کسی مغرور دولتیے سے ڈونیشن کی اپیل! جو خیر سے کرپشن اور سود جیسی لعنتوں میں بھی ملوث ہو۔ یا وہ تعاون جس کے پیچھے حرام مال کی پردہ پوشی کی مذموم خواہش چھپی ہو۔یہ بیماریاں عام سہی لیکن ہم ایسی چیریٹی سے پناہ مانگتے ہیں۔ محض اس لیے کہ ایک عوامی ادار ے کی سانس چلتی رہے، چیریٹی کا یہ مکروہ چہرہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔ عامر عثمانی کے بقول :
نوٹ وہ بخشش زردار، الٰہی توبہ
جیسے بھٹی کا دہکتا ہوا انگارہ ہو
بھیک، احسان و کرم، داد و دہش لطف و عطا
جیسے محتاج و گدا عامر بیچارہ ہو
ایسے انداز نوازش پہ ہزاروں لعنت
جس سے خود داری مفلس کا جگر پارہ ہو
ایچ بی ایس اوسطاًماہانہ ۲۰ لاکھ روپیے کا مخلصانہ تعاون کسی کوشش کے بغیر پاتاہے۔نہ فنڈ ریزنگ مہم، نہ تشہیر، نہ سالیٹیشن نہ پبلک اپیل، نہ رمائنڈرس اور نہ گزارشات۔ مشروط عطیات کا ہم نے ہمیشہ انکار کیا۔ دینے والا بس یہ سمجھ کر دے کہ وہ ایک صحیح جگہ دے کر خود پر احسان کررہا ہے۔
۵) ایچ بی ایس پیرامیڈیکل کورسوں کا ایکریڈیٹیڈ سنٹر بھی ہے، جو بالخصوص ڈائلیسس اور لیبارٹری ریڈیالوجی کی ٹریننگ فراہم کرتا ہے۔ جذبہ خدمت کے متعلق قبل ازیں تحریر کردہ الفاظ دہراتا چلوں کہ اسپتال سے منسلک ایڈوانسڈ ٹریننگ سینٹر اس بات کا وژنری اظہارہوتا ہے کہ پروجیکٹ خواہ کسی نوعیت کا ہو سیمنٹ کانکریٹ سے بڑھ کر ہیومن رسورس کی فراہمی میں ان کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ جہاں نظر چوک گئی انھیں گودام یا مقبروں میں ڈھلتے دیر نہیں لگتی۔
۶) ڈاکٹر سعد بیلگامی (امیرحلقہ) کرناٹک کے معروف یورولوجسٹ ہیں۔ ڈاکٹر طہٰ متین نے امریکہ میں تعلیم پائی اور شہر کے نامور فزیشین ہیں۔ جناب شریف کوتھا پورتھ، سن مائکرو سسٹم کے سی ٹی او رہیں۔ جناب ایس امین الحسن معروف دانش ور ماہر نفسیات اور نائب امیر جماعت ہیں۔ یہی نہیں بیشتر ٹرسٹیز نے آئی آئی ایم، آئی آئی ٹی، بِٹس کے بشمول ملک کے انتہائی معیاری اداروں سے تعلیم پائی۔ ٹرسٹیز کا انتخاب ان کے تعلیمی ریکارڈ، سیاسی ناوابستگی، اور اخلاق و تقویٰ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔دیگر عصری اداروں کے منتظمین کا انتخاب اسی طرح سخت معیاری پیمانوں پر ہو تو کامیابی کے امکانات روشن کیوں نہ ہوں؟
مشمولہ: شمارہ جون 2020