تحریک اسلامی کا نصب العین اقامت دین ہے۔ یہ نصب العین قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کی آیت ہے: أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ (الشوری: ۱۳)۔ ”قائم کرو دین کو اور اس معاملہ میں تفرقہ میں نہ پڑو۔” اقامت دین کا مطلب ہے دین کو قائم کرنا۔ کہاں قائم کرنا ہے؟ قرآن کا خطاب انسانوں سے ہے اس لیے واضح ہے کہ دین کا قیام انسانوں پر ہونا ہے۔ انسانی زندگی کی ایک جہت انفرادی ہے، دوسری جہت اجتماعی ہے۔ اس بات میں تو دو رائیں نہیں ہیں کہ ہر شخص جو إِنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ (آل عمران: ۱۹)۔ ”اللہ کے نزدیک اصل دین اسلام ہے”کا قائل ہے، فردًا فردًا ذمہ دار ہے کہ وہ اسلام کی ہدایات و احکام کو اپنی زندگی میں قائم کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ اس بات سے بھی تمام مسلمان آگاہ ہیں کہ زندگی کے ان تمام پہلوؤں کے لیے، جن کا تعلق آخرت کی جواب دہی سے ہے، خواہ عقیدہ و عبادت ہو، اخلاق و کردار ہو یا معاملات و تعلقات ہوں، اسلام نے ضروری اور بنیادی نوعیت کی ہدایت و رہ نمائی بھی دی ہے اور متعین احکام و قوانین بھی دیے ہیں۔ اسلامی احکام و ہدایات کو جاننا، ماننا اور ان پر چلنے کی کوشش کرنا فردًا فردًا ہر مومن و مسلم کی ذمہ داری ہے۔
اقامت دین اور اجتماعی جد و جہد
بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ انفرادی حیثیت میں اسلام پر چلنا ایک بات ہے لیکن اس دین پر دوسروں کو چلنے کی تلقین کرنا، اور اس سے آگے بڑھ کر اجتماعی زندگی کو اسلامی ہدایات و احکام پر استوار کرنے کی کوشش کرنا اور یہ کوشش بھی منظم اجتماعیت کے ساتھ کرنا ہماری ذمہ داری میں شامل نہیں ہے۔ انفرادی پہلو سے دین کی اقامت کو سمجھنے میں اگر کوئی تردّد نہیں تو اجتماعی پہلو سے دین کی اقامت کو سمجھنے میں الجھن کی وجہ کیا ہے؟ شائد اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مذہب کے نجی (private) ہونے کا تصور یا تو گوشہ گیر اور عافیت پسند طبیعت سے میل کھاتا ہے یا دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق برتنے والوں کو راس آتا ہے۔ ایک وجہ یہ سوچ بھی ہو سکتی ہے کہ دین پر عمل آوری کی جتنی کچھ گنجائش پائی جاتی ہے بحیثیت فرد ہم اتنے کے ہی مکلف ہیں۔ لیکن اقامت دین کے لیے گنجائش کا دائرہ مطلوبہ حد تک پھیلانے کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری میں شامل نہیں ہے۔ لہذا! موجودہ حالات کو بدلنے کی سرگرمی میں ہم اپنی جان کیوں کھپائیں؟ یہ سوچ دراصل اجتماعی جد و جہد کے بکھیڑوں سے فرار کی سوچ ہے۔ اگر کوئی شخص انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں سے متعلق اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ زندگی کا انفرادی پہلو تو اسلام کے مطابق بنانے سنوارنے کی کوشش کرتا رہے لیکن اجتماعی پہلو کو نظر انداز کردے؟ اگر قرآن و سنت میں فرد اور معاشرہ، معیشت اور تجارت، حکم رانی اور ریاست سب کے لیے ہدایات و احکام موجود ہیں، خواہ اجمالی ہوں یا تفصیلی، تو ان پر عمل آوری کے لیے ماحول کو سازگار بنانے اور حالات کو بدلنے کی جدوجہد سے فرار کا راستہ تلاش کرنا کیوں کر معقول کہا جا سکتا ہے؟ رہی یہ بات کہ یہ جد و جہد انفرادی طور پر صرف وعظ و نصیحت اور تقریر و تحریر کی حد تک کی جائے یا اجتماعی طور پر سماجی تبدیلی کے ممکنہ ذرائع و وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے منظم انداز میں بھی انجام دی جائے، تو اس کا انحصار حالات، مواقع اور نتیجہ خیزی پر ہے۔ لیکن یہ بات تو معلوم و معروف ہے کہ سماجی تبدیلی کا عمل انفرادی کے بجائے منظم اجتماعی کوشش کا طالب ہے الا یہ کہ کسی جگہ اس کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو۔ لیکن ایسی صورت حال میں اس گنجائش کے لیے راہ ہم وار کرنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے کیوں کہ تبدیلی آئے یا نہ آئے، تبدیلی کی کوشش سے گریز کا رویہ کیسے معقول ہو سکتا ہے۔
سماجی تبدیلی کی حقیقت
سماج میں تبدیلی کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ بلکہ پوری کائنات ہی مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے: ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔ اس لیے اقامت دین کے فریضے کی ادائیگی کے لیے سماجی تبدیلی کے عمل کی سمجھ ضروری ہے۔ سماجی تبدیلی کیا ہے؟ ایسی تبدیلیاں جو سماجی رشتوں، سماجی قدروں اور سماجی اداروں کو نئے رخ اور نئی ڈگر پر ڈال دیں۔ یہ تبدیلی جزوی اور سطحی بھی ہو سکتی ہے اور بنیادی اور وسیع الاطراف بھی۔ ان تبدیلیوں کے اثرات اچھے بھی ہو سکتے ہیں اور برے بھی۔ اسلام اچھی اور بری تبدیلی کا اپنا مخصوص معیار رکھتا ہے۔ اسلامی معیار کے اعتبار سے تبدیلی کا وہ عمل مطلوب ہے جو انسانی سماج میں باہمی تعاون و خیرخواہی، عدل و احسان اور ہم آہنگی و رواداری کو مستحکم کرے۔
خاندان، سماج اور ریاست انسان کی انفرادی اور اجتماعی حاجت روائی کے بنیادی ادارے ہیں۔ خاندان کی بنیاد رحم و نکاح کے رشتوں پر قائم ہے، سماج کئی خاندانوں کے درمیان مستقل باہمی ربط و تعاون سے تشکیل پاتا ہے اور ریاست ایک ایسا اجتماعی ادارہ ہے جو قانون کی حکم رانی پر استوار ہوتا ہے۔ اگر کسی تبدیلی سے ان اداروں کی کارکردگی میں خلل واقع ہوتا ہے تو اس کے مضر اور بعض اوقات تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اجتماعی طور پر ان تبدیلیوں کو معمول بننے سے روکنے کی کوشش کریں۔ اگر ابتداء میں ہی کوشش نہیں کی جاتی تو بتدریج وہ تبدیلیاں رسوم، اقدار اور قانون کی صورت اختیار کرکے اجتماعی زندگی کو گھن کی طرح کھانے لگتی ہیں۔
سماجی تبدیلی کے عوامل
سماجی تبدیلی کے عوامل بے شمار ہیں: کچھ تبدیلیاں مختلف انسانی گروہوں کے درمیان ربط و تعامل کے نتیجے میں سرایت پذیر ہوتی ہیں۔ مختلف انسانی گروہ جب ایک دوسرے کے رابطے میں آتے ہیں تو صرف مادی اشیا کا ہی تبادلہ نہیں کرتے بلکہ سماجی قدروں، رسم و رواج اور سماجی رشتوں کی سطح پر بھی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس اثر پذیری کے عمل سے کچھ بہتر سماجی تبدیلیاں بھی آتی ہیں اور کچھ مضر انحرافات بھی جنم لیتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور مسلم حکم رانی کی توسیع کے نتیجے میں مختلف ادوار اور مختلف علاقوں میں جہاں ایک طرف مقامی سماج میں تبدیلیاں رونما ہوئیں، وہیں مسلم سماج نے بھی مقامی اثرات قبول کیے جس کا مشاہدہ مسلم سماج کے تنوع میں کیا جا سکتا ہے۔ سماجی تبدیلی کا یہ عمل صدیوں سے جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔
کچھ تبدیلیاں تمدنی تغیر، آبادیاتی اضافہ اور سائنسی ترقی کے نتیجے میں رونما ہوتی ہیں۔ مثلاً غاروں میں سکونت سے بستیاں بسانے اور بستیوں سے شہروں کی آبادکاری، کاشتکاری اور صنعت و حرفت کے طریقوں میں نئی ایجادات، سادہ لین دین سے پیچیدہ مالیاتی ادارہ سازی، اطلاعات کے سادہ طریقوں سے ڈیجیٹل انفارمیشن سائنس اور تکنیک کا رواج، وغیرہ جیسے تمدنی اور سائنسی عوامل نے سماج کو بے شمار نئی تبدیلیوں سے دوچار کیا جن کے دور رس اثرات سماجی قدروں، رشتوں اور اداروں پر بھی مرتب ہوئے۔ نئی ٹکنالوجی صرف تمدنی تبدیلیاں ہی نہیں لاتی بلکہ یہ تبدیلیاں انفرادی رویوں اور سماجی نظام (social system) پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ عام طور پر اس طرح کی تبدیلیوں سے سماج کو غیرہم آہنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگ روایتی قدروں کو تبدیل شدہ سماجی ڈھانچے میں نئے طور سے برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قدروں کو برتنے کی نئی صورتیں قدروں کی تبدیلی نہیں ہوتیں بلکہ ان کا اظہار و انداز (manifestation) نیا قالب اختیار کر لیتا ہے جس سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ تبدیلیاں بنیادی قدروں اور سماجی رشتوں کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں بعض قدریں متروک ہوتی چلی جاتی ہیں اور سماجی رشتوں میں دراڑ پڑنے لگتی ہے۔ اجنبیت (alienation)، سماجی لاتعلقی (social disenchantment)، خاندان اور کمیونٹی کے رشتوں میں انحطاط، جرائم کی شرح میں اضافہ، غربت اور عدم مساوات میں اضافہ، روایتی اقدار اور اخلاقیات میں گراوٹ، تشدد اور دہشت گردی میں اضافہ، شناخت (identity) اور ثقافتی ورثے کا نقصان، انسانی حقوق کی پامالی وغیرہ منفی تبدیلیاں سماجی تانے بانے کو کم زور کرنے لگتی ہیں۔
مندرجہ بالا تمدنی اور تکنیکی تبدیلیاں جبری عوامل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن ان کی اہمیت اور دور رس اثرات کے باوجود، تبدیلی کا سب سے اہم عامل عقیدہ و نظریہ ہے جو محض سماجی تبدیلی (social change) کا ہی نقیب نہیں بنتا بلکہ بعض اوقات تبدیلی سماج (societal change) کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ چناں چہ مختلف مذاہب اور افکار و نظریات نے انسان کے انفرادی رویوں، سماجی رشتوں اور اجتماعی طور طریقوں کو بدلنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح کی تبدیلیاں سماج کو نئے رخ پر ڈالنے والی اور سماجی تشکیل نو کی اساس ہوتی ہیں۔ اصلاحی تحریکیں ہوں یا انقلابی تحریکیں، ان سب کے پیچھے عقیدہ و نظریہ اور انسانی ارادہ و عمل کی کارفرمائی رہی ہے۔ سماجی تبدیلیاں جس طرح کی بھی ہوں اور جس پیمانے پر بھی رونما ہوتی ہوں ان سب کا انحصار انسان کے اختیار و شعور پر رہا ہے۔
بگاڑ کی صورت حال کو بدلنے اور بنیادی انسانی رشتوں، قدروں اور اداروں کے تحفظ کے لیے عوامی احساس و ضمیر کو جگانے، اجتماعی ارادہ (collective will) کو متحرک کرنے اور تبدیل شدہ حالات میں نئی راہیں دکھانے کی پہل کرنی پڑتی ہے۔ سماجی تبدیلی کے اس وسیع الاطراف چیلنج سے نبرد آزمائی کے لیے منظم جدوجہد ضروری ہوتی ہے۔ انحرافات کے بالمقابل لوگ خاموش تماشائی بنے رہیں، اللہ تعالی کے نزدیک یہ روش ناپسندیدہ ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام اسی خاموشی کو توڑتے ہیں اور صالح تبدیلی کا صور پھونکتے ہیں۔
سماجی تبدیلیوں کی نوعیت
سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ارتقائی (evolutionary)، انحرافی (perversive) اور معکوسی (retrogressive) تینوں نوعیت کی ہوتی ہیں۔ بدلتے حالات و نظریات سماج میں اچھی قدروں کو مزید نکھارتے بھی ہیں اور اسی کے ساتھ بعض اوقات اچھی روایات و اقدار سے انحراف و زوال کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔ مثلاً انسانی شرف (human dignity) کی بنیادی قدر کو دور جدید کی سیاسی تبدیلیوں اور نظریاتی بیانیوں نے مزید نکھرنے کا ماحول فراہم کیا اور حقوق انسانی، حقوق نسواں، عوامی خود اختیاری، غلامی کے خاتمے، مزدوروں کے حقوق اور اسی طرح تکریم انسانی کے دیگر پہلوؤں کو زیادہ نکھارا اور متعین کیا اور انھیں قانونی بنیادیں بھی فراہم کیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ریاستی قوت کی سماجی زندگی میں بڑھتی مداخلت، سرمایہ دارانہ استحصال، آزادی نسواں کے نام پر خواتین کی بے توقیری جیسے انحرافات بھی انھیں تبدیلیوں کے ساتھ رونما ہوئے ہیں۔ ان انحرافات میں سے بعض نے سماج کو تبدیلی معکوس (retrogressive change) سے بھی دوچار کیا جس کی اصلاح کے لیے اجتماعی جدوجہد کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔
سماجی اصلاح کا ایک اہم اصول تدریجی اصلاح (gradual reform) کا اصول ہے۔ بعض خرابیاں وہ ہوتی ہیں جن کا یکلخت خاتمہ ضروری بھی ہے اور ممکن العمل بھی۔ یہ ایسی خرابیاں ہوتی ہیں جنھیں سماج برا سمجھتا ہے اور ان کا فوری خاتمہ سماجی دباؤ اور ریاستی قوت سے ممکن ہوتا ہے۔ بعض خرابیاں ایسی ہوتی ہیں جو سماجی چلن (social norm) بن کر سماجی ڈھانچے (social structure) میں پیوست ہو جاتی ہیں اور ان کے برے ہونے کا احساس کند ہو جاتا ہے۔ مثلاً غلامی کا نظام، ذات پات پر مبنی درجہ بندی، وغیرہ۔ ایسے بگاڑ بتدریج تمدنی ضرورت کی شکل بھی اختیار کر لیتے ہیں جن کے خاتمہ کا فوری ٹائم فریم متعین کرنا آسان نہیں ہوتا۔اگرچہ انسانیت کا مفاد اسی میں ہوتا ہے کہ فورًا سے پیشتر اس برائی سے اسے نجات مل جائے اس لیے خواہش و کوشش یہی ہونی چاہیے۔ بہرصورت یہ تو ضروری ہوتا ہے کہ ایسی تدابیر اختیار کی جائیں جو اس بگاڑ کے برے اثرات کو کم ترین سطح پر لانے، سماجی نظام میں اس بگاڑ کے لیے ناموافق حالات پیدا کرنے اور بالآخر تمدنی تبدیلی کے نتیجے میں اس بگاڑ کے خاتمہ کا وسیلہ ثابت ہوں۔ بعض سماجی خرابیاں کچھ عام سماجی معمولات کی بگڑی ہوئی شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہیں اور بتدریج سماجی چلن بن جاتی ہیں۔ مثلاً شادی بیاہ کی سادہ تقریب کا مسرفانہ طور طریقوں میں بدل جانا، شادی کے موقع پر دیے جانے والے معمول کے تحائف کا جہیز جیسی قبیح صورت اختیار کر لینا، چادر اور چاردیواری کے تقدس کو عورتوں کی سماجی نا برابری، غیرفعالیت اور ان کی حق تلفی میں بدل دینا، وغیرہ۔ ان سماجی خرابیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے ایسی اصلاحی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے جسے مقبول عام قیادت حاصل ہو۔ ایسے سماجی قائدین اپنی ذاتی ساکھ کی بنا پر سماجی تبدیلی کی مہم میں مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ورنہ سماج سب کچھ سننے سمجھنے کے باوجود اپنی ڈگر پر چلتا رہتا ہے۔ ایسی قیادت کی کمی کے باوجود تحریک اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ وہ از خود ابھرنے والی سماجی قیادت کا انتظار کرنے کے بجائے عوامی ذہن سازی کی مسلسل کوشش بھی کرے اور سماج میں اس محاذ پر کی جانے والی چھوٹی بڑی کوششوں کی حوصلہ افزائی بھی کرے۔ بعض سماجی خرابیاں معاشی حرص اور جواب دہی سے بے خوفی کی بناء پر پنپتی چلی جاتی ہیں۔ جیسے بردہ فروشی، رشوت ستانی، چور بازاری، احتکار، وغیرہ۔ ان خرابیوں کی سماجی ناپسندیدگی کے باوجود ان کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک جواب دہی کا نظام چوکس و مستحکم نہ ہو۔ اور ظاہر ہے اس کام کے لیے صرف قانون سازی ہی کافی نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان خرابیوں کے خلاف اجتماعی اخلاقیات کی نشو و نما کی کوششیں تو کی جا سکتی ہیں لیکن ان کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ریاستی ادارے قانون کے نفاذ میں چوکس نہ ہوں۔ صحیح بات یہ ہے کہ انفرادی صالحیت بھی اکثر اوقات سماجی بگاڑ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک طرف حساس اور فعال رائے عامہ بنانے کی مسلسل کوشش کی جائے اور اسی کے ساتھ رائے عامہ کی پشت پناہی کے لیے ریاستی اداروں کو حساس بنانے اور متحرک رکھنے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔
سماجی تبدیلی اور ہدایت الہی
تحریک اسلامی کے نزدیک سماجی تبدیلی کے لیے کی جانے والی کوشش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمدنی ترقی کی وجہ سے سماج میں ظاہری طور پر جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں انھیں بدل کر سماج کو سابقہ تمدنی حالت پر واپس لے جایا جائے۔ تحریک اسلامی کے نزدیک سماجی تبدیلی کے وہ پہلو قابل توجہ ہیں جو تمدنی یا نظریاتی عوامل کی وجہ سے سماجی رشتوں کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔
سماجی تبدیلیوں کے اثرات انسانی زندگی پر خوشگوار اور ناخوشگوار دونوں طرح کے ہو سکتے ہیں۔ نا خوشگوار تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے فکری اور عملی سطح پر کوشش کرنی پڑتی ہے۔ انسانی زندگی کو با معنی اور باکمال بنانے کے لیے اجتماعی فکر و عمل کی سطح پر ایسی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن سے انسانی قدروں، سماجی رشتوں اور اجتماعی اداروں کو نقصان نہ پہنچے اور زندگی اجیرن نہ بن جائے۔ سماج جن نئی تبدیلیوں سے دوچار ہوتا ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ سماجی چلن (social norm) بن جاتی ہیں جن سے انحراف کرنا افراد کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ تبدیلی کا مسلسل عمل بعض روایتی طور طریقوں کو متروک اور بعض نئے طور طریقوں کو مقبول بناتا چلا جاتا ہے۔
بدلتے حالات میں انسانی فکر و ارادہ روایتی طور طریقوں، اجتماعی رویوں اور سماجی رشتوں کی تشکیل نو میں مصروف رہتا ہے۔ انسانی فکر و طرز عمل کو افراط و تفریط سے بچانے اور سماجی زندگی کو اعتدال و توازن پر قائم رکھنے کے لیے حقیقت شناسی ضروری ہے۔ حقیقت شناسی صرف ظاہری حقیقت (manifestation) سے واقفیت کا نام نہیں ہے بلکہ ظاہر کے پیچھے کارفرما حقائق کی آگہی کا نام ہے۔ ظاہری اور مخفی حقائق سے باخبری کے لیے انسان اس علم و ہدایت کا محتاج ہے جو زمان و مکان کی محدودیت سے ماوراء بھی ہے اور جو ہر زمان و مکان کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہے۔ ظاہر ہے اس علم و ہدایت کا سرچشمہ صرف ذات الہی ہے۔ وہی تو ہے جو انسانی فطرت و ضرورت سے باخبر بھی ہے اور یہ اسی کی رحمت ہے جس پر نظام عالم قائم ہے۔ اسی کی ہدایت تبدیلیوں کے ہر مرحلے میں انسانی عقل کو صراط مستقیم دکھا سکتی ہے اور مسائل حیات کو سلجھانے میں انسانی عقل کی رہ نمائی کر سکتی ہے۔
سماجی بگاڑ کی حرکیات
اب ذرا ٹھہر کر غور کرنا چاہیے کہ تغیر پذیر سماج میں نامطلوب عنصر داخل کیسے ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں سابقہ اقوام کا تذکرہ کرتے ہوئے نشان دہی کی گئی ہے کہ ”اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلۂ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں”(الاسراء: ۱۶)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سماج کا سربرآوردہ طبقہ جس روش کو اختیار کرتا ہے وہ پورے سماج کو متاثر کرتی ہے اور بتدریج اس کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ ترک کہاوت ہے کہ: پہلے مچھلی کا سر سڑتا ہے، تب اس کا جسم سڑتا ہے۔
قرآن نے مزید بتایا کہ: ”اور بیشک ہم نے تم سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر دیا جب انھوں نے ظلم کیا، اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے ہی نہ تھے، اسی طرح ہم مجرم قوم کو ان کے عمل کی سزا دیتے ہیں”(یونس: ۱۳)۔ یعنی سماجی انحراف اپنی انتہا میں ظلم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ سماج کا بالا دست طبقہ اپنے حق سے زیادہ حاصل کرنے اور لوگوں کو اپنی خواہشات کا اسیر بنانے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے اپناتا ہے۔ دولت اور طاقت کی بنا پر وہ سماج میں ایسی روش کی طرح ڈالتا ہے جو سماجی انصاف اور تکریم انسانیت کو مجروح کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی بالادستی سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے سماج کو عدل و قسط سے ہٹا کر ظلم و فساد کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ عدل سے رو گردانی اور ظلم کی روش کے خلاف جدوجہد انبیائی مشن ہے کیوں کہ یہ انحرافی روش سماج کو جس تبدیلی کی طرف گامزن کرتی ہے اس کا آخری انجام تباہ کن ہوتا ہے۔
سماجی تبدیلی اور اقامت دین
انفرادی اور اجتماعی تبدیلی کے عمل میں ہدایت الہی کی پیروی ایک ارادی کوشش کا نام ہے جس کا مقصد نفس انسانی کا تزکیہ، سماجی ادارے کی اصلاح اور ریاستی قوت کو عدل پر استوار کرنا ہے۔ چناں چہ اقامت دین کوئی وقتی کام نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے جو تبدیلی کے مختلف مرحلوں اور گونا گوں تقاضوں کو محیط ہے۔ اقامت دین کا تعلق فکر و احساس سے بھی ہے، انفرادی رویہ و عمل سے بھی ہے اور اجتماعی اصلاح و تبدیلی سے بھی ہے۔ انفرادی معاملہ میں اقامت دین کی وہ جہت نمایاں ہوتی ہے جسے تزکیہ کہتے ہیں۔ معاملہ سماجی اصلاح کا ہو تو اقامت دین کا عمل معروف و منکر کے تئیں سماجی حساسیت بیدار کرنے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور جب بات نظم ریاست کی ہو تو اقامت دین کا عمل حاکمیت جمہور (popular sovereignty) کو ہدایت الہی کے مطابق برتنے کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ گویا اقامت دین کا یہ عمل ریاستی سطح پر حاکمیت الہ (divine sovereignty) کی بالارادہ عوامی قبولیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس طرح اقامت دین ایک ہمہ جہت عمل کا نام ہے جس میں ایمان و یقین، تسلیم و رضا، ذکر وعبادت، شکر و صبر، تعلیم و تذکیر، اصلاح و تزکیہ، شہادت حق، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، ہجرت و جہاد، قیام عدل و قسط، قانون و شریعت کی بالادستی، وغیرہ جیسے انسانی زندگی کے تمام روحانی، جذباتی، عقلی، اور عملی پہلو شامل ہیں۔ اقامت دین ایسا وظیفۂ حیات ہے جو ہماری انفرادی اور اجتماعی سرگرمیوں کو رضائے الہی کا آئینہ دار بناتا ہے۔ لہذا! کار گہ حیات میں جہاں خوب و نا خوب اور پسندیدہ و ناپسندیدہ تبدیلیوں کا عمل مسلسل جاری ہے، اگر کوئی شخص ہدایت الہی کو معیار حق مانتا ہے، تو وہ فرد، سماج اور ریاست کو ہدایت الہی کے مطابق سدھارنے اور سنوارے کی جدوجہد سے گریز کی راہ کیسے اختیار کر سکتا ہے۔ فراری پسندی یا رہبانیت پسندی کی ذہنیت ایک الگ بات ہے، لیکن اسے معقول بھی ٹھہرانے کی کوشش کی جائے تو اس سے زیادہ نامعقول بات کیا ہو سکتی ہے۔ جہاں تک سماجی تبدیلی کے عمل میں طرز حکم رانی کی اصلاح کو شامل رکھنے کی بات ہے تو اس کے لیے سرگرداں لوگوں کو اقتدار کا طالب سمجھنا بھی قابل اصلاح ہے اور اگر واقعی کسی کا مقصود اصلی یہی ہو تو یہ رویہ بھی قابل اصلاح ہے۔
سماجی تبدیلی کے بنیادی اہداف
اب ہم اس سوال پر غور کریں کہ تحریک اسلامی کے نزدیک سماجی تبدیلی کے بنیادی اہداف کیا ہیں۔ انسان فطری طور پر اجتماعیت پسند ہے کیوں کہ اجتماعیت کے بغیر وہ اس دنیا میں زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اجتماعیت کی ضرورت تین اعتبار سے ناگزیر ہے: اول، انسان پیدائش سے آخری ایام تک دوسروں کی امداد و تعاون کا محتاج ہے، اس کے بغیر وہ جی نہیں سکتا۔ امداد و تعاون کی اولین ادارہ جاتی شکل کا نام خاندان ہے۔ نسل انسانی کا تسلسل بھی اسی ادارہ کا مرہون منت ہے۔ دوم، انسان کی اجتماعی ضروریات کی تکمیل تقسیم کار (work distribution) کے بغیر ممکن نہیں۔ تقسیم کار کی بنا پر سماجی طبقے وجود میں آتے ہیں۔ مختلف سماجی طبقات کے درمیان ہم آہنگی، باہمی تعاون اور عادلانہ برتاؤ کے لیے طور طریقوں اور رسوم و رواج کا تانا بانا سماجی روایت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ان سماجی روایتوں میں انسانی تکریم و مساوات، ہمدردی و تعاون اور عدل و احسان کی قدروں کی نشو و نما اور ان کی پاسداری انسان کی اجتماعی زندگی کو مستحکم بناتی ہے۔ سوم انسانوں کے درمیان امن و انصاف کو یقینی بنانے اور ظلم و زیادتی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ریاستی ادارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریاستی ادارہ قانون کی حکم رانی اور قوت قاہرہ کا مظہر ہوتا ہے۔ اس طرح انسانی نسل کی بقا و تسلسل، حاجات و ضروریات کی تکمیل اور تحفظ و داد رسی کے لیے خاندان، سماج اور ریاست جیسے اجتماعی ادارے فطری طور پر وجود میں آتے ہیں۔
ایک خوشگوارانسانی زندگی کا انحصار پرورش و خبر گیری، ہمدردی و تعاون، عدل و احسان، امن و تحفظ اور قانون کی حکم رانی پر ہے۔ اگر یہ اصول و اقدار مضمحل ہونے لگیں تو سماج شکست و ریخت سے دوچار ہوتا ہے۔ عدم تحفظ، ظلم و زیادتی اور لاقانونیت کی وجہ سے سماجی زندگی کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ لہذا! سماجی تبدیلی کا بنیادی ہدف سماج میں مطلوبہ اصول و اقدار، ان پر استوار رشتہ و تعلق اور ان تعلقات پر مبنی سماجی اداروں کی اصلاح، تحفظ اور استحکام ہے تاکہ انسانی سماج خیر کا گہوارہ بنا رہے۔ ان بنیادی اصول و اقدار کے سلسلے میں بلا تفریق نسل و مذہب تمام انسانوں کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود انحرافات جنم لیتے رہتے ہیں۔ کبھی نظریاتی اختلاف کی بنا پر، کبھی گروہی تعصبات کی وجہ سے، اور کبھی نفسانی اغراض و مفادات کے سبب۔ انسانی سماج بہت سارے تضادات کے ساتھ جیتا ہے اور انھیں تضادات سے بگاڑ کی مختلف صورتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ان انحرافات کی وجہ سے سماج مفاد پرستانہ کشمکش، استحصال اور ظلم و زیادتی کی آماجگاہ بنتا چلا جاتا ہے۔ اور بالآخر ایک عمومی فساد کی صورت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اقامت دین اس فساد کو دور کرنے اور پرامن سماج بنانے کی کوشش کا نام ہے۔ اس کوشش کی بنیاد ہدایت الہی ہے جو تمام انسانوں کو نسلی طور پر ایک اور اخلاقی طور پر یکساں جواب دہ قرار دیتی ہے۔
سماجی تبدیلی : ترجیحات اور تدریج
کوئی بھی سماجی بگاڑ اچانک اور یکلخت رونما نہیں ہوتا بلکہ بگاڑ کی مختلف صورتیں دھیرے دھیرے سرایت کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ سماجی قدروں، رشتوں اور اداروں کو گھن لگاتی چلی جاتی ہیں۔ چناں چہ تدریجی بگاڑ کی پیش گوئی سے متعلق حدیث نبوی میں بتایا گیا کہ: ”اس وقت تمھارا کیا حال ہوگا۔ جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کروگے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی، جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو برائی سمجھنے لگوگے۔”(کتاب الرقائق، ابن مبارک)۔
لہذا! مطلوبہ سماجی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کا تعین کریں اور تبدیلی کے عمل میں جن تدریجی مراحل سے گزرنا ہے اسے پیش نظر رکھ کر اپنا کام کریں۔ ظاہر ہے اس سلسلے میں تحریک اسلامی کی رہ نمائی کا بنیادی سرچشمہ اللہ کی کتاب اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ لیکن ہر سماج اور ہر دور اپنی مخصوص انفرادیت رکھتا ہے جس پر کسی دوسرے دور کے سماجی احوال کو کلی طور پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ اس انطباق کے لیے ضروری ہے کہ مقاصد و مدارج پر ہماری نگاہ ہو اور اسی کے ساتھ اسوۂ رسول اکرم سے جو آفاقی اصول اخذ ہوتے ہیں ان کا استحضار رہے۔
اقامت دین اور اسوۂ رسول
قرآن مجید میں جو دین پیش کیا گیا ہے اسے اسلام کہتے ہیں جو ایمانی اعتبار سے رب کے سامنے دماغ، قلب اور روح کی تسلیم و رضا کا نام ہے اور عملی اعتبار سے ہدایت الہی کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر برتنے کا نام ہے۔ قرآن مجید سے یہ بھی واضح ہے کہ اللہ کی ہدایت بنیادی طور پر انسانی زندگی کا تین پہلوؤں سے احاطہ کرتی ہے: اوّل ذہن و قلب کا تزکیہ، دوم اخلاق و عبادت کی تحسین اور سوم اجتماعی معاملات کی درستی۔ یہ بھی واضح ہے کہ جس طرح انسانی زندگی کے تمام پہلو باہم دگر منسلک ہیں اسی طرح دین کے تمام پہلو بھی ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ لہذا یہ تو نہیں ہو سکتا کہ زندگی کا ایک پہلو دین کا تابع ہو اور دوسرا دین سے باہر۔ چناں چہ اللہ تعالی نے ہدایت فرمائی کہ ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ كَافَّةً (داخل ہو جاؤ دین میں پورے طور پر)۔ اس لیے نظریاتی طور پر اقامت دین کا مطلب یہی ہے کہ فرد، معاشرہ اور ریاست سب کی نشو و نما اللہ کی ہدایت کے مطابق ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام ہمہ جہت تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے۔
اب ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ آپ نے اس ہمہ جہت تبدیلی کے عمل کو کس طرح سر انجام دیا۔ سیرت پاک کا نمونہ روشن چراغ کی طرح دنیا کے سامنے ہے۔ آپ کی نبوی زندگی کے شب و روز پر اک نگاہ ڈالئے۔ واضح ہے کہ آپ نے لوگوں کے فکر و عقیدہ کو درست کرنے اور اخلاق و کردار کو سنوارنے کی کوشش کی، خاندانی زندگی کے در و بست درست فرمائے، اجتماعی زندگی کے ہر تار و پود کو مرتب کیا — سماج اور ریاست کو ہدایت الہی پر استوار کیا۔ اور یہ سب تدریج و تسلسل کے ساتھ کیا اور اپنے ساتھ شامل افرادی قوت کو اس کے لیے متحرک رکھا۔ دوسرا سوال کیسے کیا؟ سرسری نظر میں ہی دکھائی دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی ہدایت کے مطابق مرحلہ بہ مرحلہ دین کو پیش فرمایا اور اس کی بنیاد پر فرد کا تزکیہ، معاشرہ کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کا کام ۲۳ سال کی شب و روز جد و جہد سے سر انجام دیا۔ گویا قرآن مجید میں جسے اقامت دین کہا گیا ہے اس کی عملی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے۔ چناں چہ آپ کی زندگی کے آخری ایام میں جب کام پورا ہو گیا تو اللہ تعالی نے مژدہ سنایا کہ الْیوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیكُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا (المائدہ: ۳)۔ آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔
اقامت دین کی جدوجہد میں حالات و مراحل کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ جس قدر ہم حالات و مراحل کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کریں گے، اسی درجہ میں اقامت دین کے تقاضے ہم پر واضح ہوں گے۔ ہندوستان کے تناظر میں اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو دو باتیں واضح ہیں: اوّل ہندوستان میں اسلام کو زبانی طور پر ماننے والوں کی تعداد صرف پندرہ تا بیس فیصد ہے۔ دوم یہاں کی عظیم ترین اکثریت نام کو ہی سہی ،مذہبی ہے۔ مزید برآں اگر مختلف مذہبی گروہوں کا جائزہ لیا جائے تو درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:
اوّل ، مسلمان—جن پر اقامت دین کی ذمہ داری ہے— عموماً اقامت دین تو کجا خود دین سے ہی سرسری آگاہی اور محض جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
دوم ، مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر خاندانی رسوم، علاقائی روایات اور مذہبی وعظ ومناظرہ سے حاصل شدہ تصور اسلام کا اثر زیادہ ہے اور قرآن و سنت سے اسلام کی سمجھداری کے اثرات کم دکھائی دیتے ہیں۔
سوم ، ہندوستان کی عظیم ترین اکثریت مسلمانوں کے ساتھ مسلسل سماجی رابطے میں رہنے کے باوجود اسلام سے ناواقف ہی نہیں غلط فہمی میں بھی مبتلا ہے۔
چہارم ، ہندوستان میں ایک طبقہ مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں بدگمانی اور نفرت پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ان حالات میں ہمیں اقامت دین کے لیے منظم طور پر سماج میں ایسی تبدیلیوں کے لیے کوشش کرنی ہے جو موجود خوبیوں کو برقرار اور مستحکم کرے اور ناپسندیدہ تبدیلیوں کا تدارک کرے۔ ظاہر ہے مندرجہ بالا صورت حال کو بدلنے کی کوشش ہماری جد و جہد میں ترجیحی حیثیت رکھتی ہے۔ موجودہ حالات کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلامی اصول و اقدار کی روشنی میں سماجی تبدیلی کے حوالے سے دو کام بنیادی اہمیت کے حامل ہیں:
اوّل ، اقامت دین کی اہمیت اور تقاضوں کے پہلو سے مسلمانوں کی ذہن سازی، ان کے اجتماعی رویوں اور خاندانی معاملات کی اصلاح، اور ان کی عمومی پسماندگی کے ازالہ کی کوشش۔
دوم ، اسلام سے متعلق سماج میں پھیلائی جانے والی بد گمانیوں کا ازالہ اور ہندوستانی سماج کے تناظر میں ہدایت الہی کی معنویت و صداقت کی وضاحت و اشاعت۔
بظاہر تو یہ دو نکاتی کام ہیں لیکن ان کے تقاضے بے شمار ہیں۔ ہدایت الہی کی اہمیت و معنویت کے بارے میں ذہن سازی کی کوششیں اس صورت میں زیادہ مؤثر ہوں گی جب ان کے عملی نمونے بھی ہندوستانی سماج کو نمایاں طور پر نظر آئیں گے۔ اس لیے عوامی ذہن سازی کے ساتھ ساتھ سماجی تبدیلی کے عمل میں اثباتی (positive)اور عملی شرکت بھی ضروری ہے۔ ہدایت الہی کے وہ پہلو جن کے عملی اظہار کے مواقع موجود ہیں ان کے سلسلے میں مثالی نمونوں کو روبعمل لانا سماج کو مطلوبہ رخ دینے کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ سماجی تبدیلی کے ایسے کئی اہم محاذ ہیں جن کے لیے موجودہ نظام میں ادارہ جاتی اقدام ممکن العمل ہے۔ خاندان کو درپیش مسائل کا حل، سماجی کفالت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، غریب و محروم خاندانوں کی دستگیری، اخلاقی قدروں کا فروغ، سماج کو درپیش مسائل کے سلسلے میں اسلامی حل کی پیش کش، امداد باہمی پر مبنی ادارہ جاتی کوششیں، معروفات کے فروغ اور منکرات کے ازالہ کے لیے مشترکہ جدوجہد اور اسلامی موقف کی اشاعت، نئی نسل میں اچھی روایات اور اخلاقی قدروں کا فروغ، سماج کے مختلف گروہوں کے درمیان باہمی تعاون اور خوشگوار تعلقات کا استحکام، اور ان جیسے کئی کام ہیں جو موجودہ سماج کو تیز رفتار تبدیلیوں میں لڑکھڑانے سے بچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور سماج کو ان تبدیلیوں سے آشنا کر سکتے ہیں جو ہدایت الہی کی روشنی میں مطلوب ہیں۔ ظاہر ہے یہ وسیع الاطراف کام سماجی شرکت (social engagement)، حالات و مواقع کا جائزہ، ترجیحات کا تعین اور منصوبہ بندی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ تحریک اسلامی اپنے افراد کار کی تعداد و استعداد کو نگاہ میں رکھ کر ہی سماجی تبدیلی کے لیے پروگرام سازی اور اس پر عمل آوری کر سکتی ہے۔ مزید برآں وسیع تر سماج سے کمک کا حصول بھی اتنے بڑے کام کے لیے ناگزیر ہے۔ بہر صورت، اہم نکتہ یہ ہے کہ لوگوں کا ذہن و قلب اس بات پر مطمئن رہے کہ سماجی تبدیلی اقامت دین کا جز اور اہم ترین ہدف ہے۔ ہم نہ تو سماج میں ہونے والی تبدیلیوں سے اغماض برت سکتے ہیں اور نہ ہی مطلوبہ تبدیلی کے لیے سماجی کمک کی اہمیت کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2023