آج امریکی ایماپر مدارس دینیہ کو بدنام کرنے کی سازش جاری ہے۔اسلام دشمن قوتوں کو دینی مدارس سے خطرہ لاحق ہے،کیونکہ مدارس دینیہ کا مشن پیغمبری ہے ۔ان کو صرف اس با ت کی سزا دی جا رہی ہے کہ انہوں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود طلبہ کو دینی شعور دیا ۔ان کا مشن اسلام کے پیغام کو عا م کرنا ہے۔
میڈیا اور کرپٹ عناصر عوام کی سادہ لوحی سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت سنی سنائی باتوں پر رائے قائم کر لیتی ہے۔اس لیے وہ اکثر اوقات عوامی رائے عامہ کو مدارس کے خلاف اکسانے میں مصروف رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں مدارس کے بارے میں ہمدردانہ غور و فکر نہیں کرتے۔
دینی مدارس کے خلاف منفی ماحول کی تشکیل میں میڈیا بھی حکومتوں کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ میڈیا پر چھائی ہوئی لابیاں حکومتی خفیہ اداروں کے اشاروں پر ایسے پروگرام اور فیچرز تیار کر تی ہیں جن سے اصل حقائق چھپ جاتے ہیں اور دینی مدارس پر بدنامی کا دھبہ لگ جاتا ہے۔ مثال کے طور پراسلامی ممالک میں ہونے والے دہشت گردی کے تمام تر واقعات کا تانا بانا بالآخر جہاد سے اور اُس کا تعلق دینی مدارس کے طلبہ سے جوڑا جاتا ہے۔ ہمارے بھولے بھالے لوگ ان ساری باتوں کو سچ سمجھتے لگتے ہیں ، حالاں کہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام پر واضح کرے کہ دہشت گردی کی وجہ کیا ہے ؟اور کون لوگ کس کے تحفظ کے لیے یہ تخریبی کام انجام دے رہے ہیں۔موجودہ زمانے میں بیش تر ممالک ایک خاص مہم کے تحت اسلام مخالف پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔چوں کہ آج پوری دنیا کے اندر نظریاتی جنگ چھڑ چکی ہے،دنیا نے ہر ازم اور ہر نظریہ کو آزماکر دیکھ لیا، لیکن سب میں انہیں ناکامی اور نامرادی ہی ہاتھ لگی، بلکہ اس سے نکلنے کے راستے بھی مسدود ہونے لگے ۔ ایسے حالات میں صرف ایک ہی نظریہ اسلام ہے جوزمانے کی ترقی کا ساتھ دے سکتاہے اوروہ بھی فطرت کے عین مطابق ،بس یہی بات دشمنانِ اسلام کو برداشت نہیں ہورہی ہے۔ جوں جوں انکشافات اور تجربات سامنے آرہے ہیں، اسلام پر یقین پختہ ہوتاجا رہا ہے۔
ہر گتھی کو سلجھانے میں دنیا کے ماہرین ناکام ہوتے ہیں تو وہ اسلام کی جانب رُخ کرتے ہیں ۔ یہاں ان کے تمام سوالوں کے جوابات مل جاتے ہیں۔گویا وہ ہر محاذ پر کام یابی کے دعووں کے باوجود ناکام ہیں۔ اس لیے اپنی ناکامی کوچھپانے کے لیے مدارس پر یلغار کررہے ہیں ۔ان کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ مدارس، جو اسلام کے قلعے ہیں،ان کو اتنا بدنام کر دیا جائے کہ دنیا کی نگاہ میں وہ انتہا پسند اور فرسودہ نظام تعلیم کا گہوارہ نظر آنے لگیں ۔ہمارے ملک میں بھی مدارس کو ناکام ثابت کرنے کی مہم چل رہی ہے ۔ہر ریاستی حکومت مدارس کو اپنے اختیار میں لینے کے لیے مختلف طرح کے حربے تلاش کررہی ہے ۔ متعدد بار حاسدین اسلام نے مدرسوں کے تقدس کو پامال کرنے اور میڈیا کے ذریعے مدارس کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے پیچھے یہودی اور عیسائی سوچ کارفرما ہے، کیونکہ ان کو پتا ہے کہ اگر یہ مدارس قائم و دائم رہے تو اسلام پوری دنیا پر غالب آکر رہے گااور یہ بات ان کو گوارا نہیں ہے ۔ دینی مدارس کی بقا سے تبلیغ دین کا سلسلہ آگے بڑھے گا۔ قوم کی دینی اور اخلاقی رہ نمائی کرنے والے اداروں کے ساتھ حکومت، پولیس اور میڈیا کا رویہ انتہائی دشمنی پر مبنی ہے ۔ جب بھی کوئی شرعی مسئلہ پیش آتا ہے تو میڈیا کسی نا واقف مسلم چہرہ کو ٹی وی پر بحث میں پیش کرتا ہے جو اسلام تو کیا خود اپنا دفاع بھی نہیں کر پاتا ۔ نتیجہ میں اسلام کی حقیقی اور انصاف پر مبنی تعلیمات پرخوب انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ دراصل میڈیا جان بوجھ کر یہود کے آلہ کار کا رول ادا کرتاہےاورمدارس کے بارے میں غلط باتیں پھیلا کراسلام کو خوں خوار مذہب قراردینے پر تلا ہوا ہے۔
میڈیا کی اہمیت
آج کے ترقی یافتہ دور میں میڈیا کی اہمیت مسلّم ہے۔ مختلف قسم کے ذرائع ابلاغ نے ٹیکنالوجی کے سہارے اس وسیع و عریض کرۂ ارض کو ایک’ گلوبل ولیج‘ میں بدل کو رکھ دیا ہے۔ میڈیا نے انسان کو ہر لمحے باخبر رکھنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ آج کے دور کا اہم ترین مسئلہ معلومات کی قلّت نہیں، بلکہ بے پناہ معلومات کے سمندر نے انسانوں کو فکری پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج کے میڈیا کا سب سے بڑا استعمال ذہن سازی اور مخصو ص مقاصد کے لیے کیا جا نے والاپروپیگنڈا ہے۔میڈیا کے شوروغل نے سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل بنا دی ہے۔ مباحثوں ، خبروں اور دلکش پروگراموں کے ذریعے فکر ، سوچ اور ذہن کو مسخر کیا جارہا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی یلغارکی وجہ سے آج معاشرے میں فحاشی و عریانی ، رقص و سروداور سب سے بڑھ کر لادینیت جیسی لعنتوں کا سامنا ہے۔ ہندوانہ رسوم عام ہو رہی ہیں، جب کہ ہماری ثقافتی روایات روٗبہ زوال ہیں۔ میڈیا کے منفی کردار نے آج نوجوانوں کو مغربی تہذیب کا دل دادہ بنادیا ہے۔ بوڑھوں کے نصیب سے مساجد اور عبادات کی لگن چھینی ہے۔ آج کے دور میں میڈیا سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہے۔ میڈیا سے آگاہی کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اگر ہم معاشرتی ترقی چاہتے ہیں تو میڈیا سے ہم قدم ہوتے ہوئے اس ’بے قابو جن‘ سے دوستی کرنی ہوگی۔ میڈیا کو اپنی معاشرت و روایات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ ذرائع ابلاغ کے کردار و عمل سے آگاہی کے لیے نصاب تعلیم میں اس کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ کس طرح میڈیا معاشروں کو بدلتا ہے ؟ پروپیگنڈا کے رائج طریقوں اور دوسرے اصول و ضوابط کا علم ہی لوگوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔میڈیا کو برائی کی جڑ قرار دینے کی باتیں تو بہت ہو چکیں ، اب ہمیں چاہیے کہ اس ٹیکنالوجی کو دعوتِ دین کے لیے استعمال کرنے کی تدبیر کریں۔ اگر مدارس کے طلبہ اور دینی شعور رکھنے والے افراد پیشہ ورانہ طریقے سے میڈیا کو اس کام کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیں تو یقینا فحاشی و عریانی اور کفر و الحاد کی یلغار کو کسی حد تک روکا جا سکتا ہے اور اس کو اسلامی ثقافت و روایات کا امین بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بتانا ہوگا کہ کیسے تفریح اور غیر جانب داری کی آڑ میں گم راہی پھیلا ئی جاتی ہے۔ انہیں ان غیر ملکی چینلز کے اصل کردار اور مقاصد سے آگاہ کرنا ہو گا جو اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں اور ہمارے معاشرے پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔
مدارس کی ذمہ داریاں
آخر کیا وجوہ ہیں کہ تحریک آزادی میں’الہلال‘و’ البلاغ‘کی اہمیت تسلیم کرنے والی امت وقت اورحالات کے ساتھ صحافتی میدان میں پیچھے چلی گئی؟حالاں کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں جتنے مدارس ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر میڈیا کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنےادارے سے کوئی نہ کوئی رسالہ ضرور نکالتے ہیں، لیکن اپنے نصاب تعلیم میں اسے نظر انداز کرتے ہیں۔بدلتے زمانے کے ساتھ میڈیا نے سب سے زیادہ مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ٹارگیٹ مدارس کو کیاگیا ہے۔مدارس کی شبیہ خراب کرنے کے لیے جس چیز کو سب سے زیادہ استعمال کیا گیا وہ پرنٹ میڈیا کا ہے ۔ بعد میںالیکٹرانک میڈیانے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔حالاں کہ میڈیا میں کام کرنے والے افراد بخوبی واقف ہیں کہ میڈیا کے دروازے تمام لوگوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ چوں کہ اہم عہدوں پراسلام دشمن طاقتوں کے ٹھیکے دار بیٹھے ہوئے ہیں لہٰذا وہ اسلام دشمنوں کے فکر و خیال کی تر ویج و اشاعت کا کام کرتے ہیں۔جن جگہوں پر سیکولر خیالات کے حاملین کا قبضہ ہے وہاں سے سیکولر خیالات کی ترویج ہوتی ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمیںجس بنیادی سوال پر غور کرنا ہے وہ یہ کہ مدارس اسلامیہ ان بدلتے ہوئے حالات میں کس طرح کا کردار ادا کریں؟
مدارس اسلامیہ اپنے اپنے اداروں میں ہمہ وقت مختلف طرح کے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ان دنوںبعض مدارس کے لوگ پروگرام کوریج کے لیے تو صحافیوں کو دعوت دیتے ہیں، لیکن پروگرام کے حصہ کے طور پر انہیں مدعو نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ جنہیں آپ نے مدعو کیا وہ منفی رپورٹنگ کرکے چلا جاتا ہے۔ نتیجتاً بلانے والا سبکی محسوس کرتا ہے اور بعد میں وہ اسے کبھی رپورٹنگ کے لیے دعوت نہیں دیتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ نے کبھی بہتر پروگرام بھی کیا تو اس سے عوام واقف نہیں ہو پاتے۔لہٰذا ضرورت ہے کہ مدرسوں کے پروگراموں میںمیڈیا سے جڑے افراد کوبھی مد عو کیا جائے ۔ تاکہ انہیں طلبۂ مدارس علمی کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے ۔ امید ہے کہ اس طرح آئندہ ممکن ہے کہ وہ کسی مقام پر آپ کے لئے مفید ثابت ہو۔
اگرچہ میڈیا کی موجودہ صورت حال مخدوش ہے.یہ اپنی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دینے میں کوتاہ نظرآتا ہے۔اس کے باوجود معاشرے کے لیےمیڈیا کے افراد کو دی جانے والی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔میڈیا کی اس حد تک اثر انگیزی کے بعد مدارس اور طلبہ کا اس میدان کو غیر اہم قرار دینا سمجھ سے بالا ہے۔
اس میدان میں طلبۂ مدارس کی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا کی روایتی پریکٹس اور تفریحی مواد کی زیادتی کے باعث اسے اسلام اور سماج مخالف سمجھ لیا گیا ہے۔ شاید دینی حلقوں میں یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے کہ میڈیا ہمارے معاشرے میں الحاد، فحاشی، غیر اسلامی روایات اور ایسی ہی دیگر منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تیار کردہ ایک سازش کا حصہ ہے۔مگر اس کا بنیادی سبب طلبہ مدارس میں’بطور پیشہ وارانہ تعلیم اس میدان میں قدم رکھنے‘کے رجحان کا کم پایا جانا ہے۔ مدارس کے طلبہ کسی نہ کسی زاویے سے صحافت سے وابستہ تو نظر آتے ہیں مگر بطور تعلیم اور فن کے اس پیشہ کوحاصل کرنا اوراس میدان میں خدمت انجام دینے کا رجحان ان میں نہیں پایا جاتااس کی وجہیں ہوسکتی ہیں:
(۱) عام طور پرمدارس کی زندگی میں اس موضوع پر کوئی گفت و شنید نہ ہونا۔
(۲) باضابطہ کورس کے لیے مطلوبہ ڈگریوں کا نہ پایا جانا۔
اس کے اور بھی اسباب ہوسکتے ہیں مگر سب کا خلاصہ یہ ہے کہ مدارس کی زندگی میں صحافت کی شدبد تو ہوجاتی ہے، مگر اس کا ماحول نہیں بنتا کہ طلبہ میں اس کی باضابطہ تعلیم کا شوق پیدا ہوسکے۔
عصر جدید کے تقاضے
جو مدارس عصر جدید کے تقاضوں سے چشم پوشی کرتے ہیں ان کے طلبہ کسی بھی علمی حلقے میں خصوصاً کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں کے سامنے اپنے آپ کو دینی طالب علم بتانے میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔اس طرح کے احساس کمتری میں مبتلا افراداپنی عملی زندگی میں قدم قدم پر مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔یہ افراد عموماً کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے خلاف کمر کس لیتے ہیں۔ ان کے مدارس میں جو بچہ بھی داخلہ لیتا ہے وہ جلد ہی محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کا علمی ارتقا رک گیا ہے۔ چنانچہ بہت سےطلبہ دینی تعلیم کو ادھوری چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں یاپھر ایسے مدارس کا رخ کرتے ہیں جہاں پر دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی ہو۔ جب کہ یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ بعض طلبہ کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لے کر دینی تعلیم کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
میڈیا سے بے توجہی کے سنگین نتائج
طلبۂ مدارس کی اس میدان سے بے توجہی اور عدم دلچسپی کے نتیجہ میں ملحدانہ اور دین بیزار افکار و نظریات کو سماج میں پنپنے کا موقع ملا۔روشن خیالی کی خوب سے خوب تر تشہیر ہوئی۔صحافت کےشہ سوا رو ں نے جانے اور انجانے میں اسلام کی بنیادوں میں سیندھ ڈالا۔ عام اخبارات میںکم ہی ایسے مضامین نظرسے گزرتے ہیں۔ جن میں اسلامیات کا رنگ پایاجاتاہو۔جو تھوڑے بہت ملتے ہیں وہ مناہج و عقا ئد کے بگاڑ سے خالی نہیں ہوتے۔یہ ارباب مدارس اور ان سے نمو پانے والے پودوں کی کوتاہیاں ہیں جنہوں نے سماج کو مغرب زدہ ہونے کی راہ پر ڈال دیا ہے۔اگر کتاب وسنت کے حامل علماء کرام نے ذرائع ابلاغ کی جانب تھوڑی بھی توجہ دی ہوتی تو شاید لادینی،اشتراکی ،سرمایہ داری اور اسلام مخالف کج فکری کے جملہ نظریات اپنی موت آپ مرچکے ہوتے۔
یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر میڈیا اور ٹیکنالوجی کو دین کا علم رکھنے والے افراد پیشہ ورانہ اصولوں کے ساتھ استعمال کریں تویہ پیشہ ہونے کے ساتھ تبلیغِ دین کا بھی مؤثر اور آسان وسیلہ ہو سکتا ہے۔میڈیا کا خود اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کو چلانے والے اس کے ذریعہ اپنے خیالات کی ترسیل کرتے ہیں۔ اگر دین کا علم رکھنے والے افراد ذرائع ابلاغ کو استعمال میں لاسکیں تو یقیناًاسے ہدایت کا سرچشمہ بنایا جا سکتا ہے۔
دینی مدارس میں باہمی رابطے کا فقدان
دینی مدارس کے لیے ایک بڑی مشکل ان کے درمیان باہمی رابطے کا فقدان ہے ۔ ہمارے ہاں دینی مدارس، اسلام کی ترجمانی کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ بنیادوں پرشیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی اور بریلوی وغیرہ میں تقسیم ہیں۔ ایک فرقے کا مدرسہ دو سر ے فرقے کے مدرسے سے خطرہ محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سازشی عناصر جب کسی ایک مدر سے کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہیں تو دیگر مدارس خاموش رہتےہیںاور اپنی مخصوص تنگ نظری اور فرقہ وارنہ سوچ کی بنیاد پر ان سازشی عناصر کے خلاف کچھ بول نہیں سکتے۔
مدارس میں طلبہ تنظیموں کی عدم فعّالیت
مدارس کی ایک داخلی مشکل یہ بھی ہے کہ ان کے طلبہ کو کسی تنظیمی لڑی میں پرویا نہیں جاتا، جس سے ان کی اجتماعی،علمی اور سیاسی شخصیت میں نکھار نہیں آتا۔ زیادہ تر مدارس میںا سکولوں کی بزم ادب کمیٹیوں کے طرز پر چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنا دی جاتی ہیں ۔ ان میں کام کرنے والے طلبہ آئندہ اپنی عملی زندگی میں بھی اسی اندازمیں کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یعنی کچھ مقدار میں چندہ اکٹھا کر لیا،مٹھائی لے لی،کچھ سنانے [حمد، نعت، قصیدہ،تقریر،دعا،قرآن خوانی،ترانہ] کے بہانے کچھ لوگوں کواپنے پاس جمع کرلیا اور یہ سمجھ لیا کہ ہم نے دین کی خدمت کا حق اداکردیاہے۔ ضرورت ہے کہ طلبہ میںتنظیمی شعور پیدا کیا جائے اورانہیں اجتماعی طور پر کام کرنے کے آداب سکھائے جائیں۔ موجودہ دور میں سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ [شیعہ، سنی ، وہابی، دیوبندی وغیرہ]کے بجائے اسلامی و علمی شناخت کی طرف قدم بڑھائیںاور دینی و دنیاوی تعلیم کی تقسیم ختم کر کے دونوں کے درمیان ایک حسین امتزاج قائم کرنے کی کوشش کریں۔
طلبۂ مدارس کے لیے مواقع
الیکٹرانک میڈیا کی جب ایجاد ہوئی تو یہ تصورکیا جانے لگا کہ اب پرنٹ میڈیا کی حیثیت باقی نہیں رہے گی، لیکن آج بھی پرنٹ میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ باقی ہے۔ مدارس کے طلبہ اس میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دے سکتے ہیں۔خاص طور پر آج کل ریڈیو،ڈی ڈی اردو چینل کے علاوہ بہت سے مذہبی ٹی وی چینل بھی ہیں، جن میں مدارس کے فارین کے لیے خوش آئند مواقع ہیں۔مثلاً:
۱۔نیوز میکنگ ۲۔ایڈیٹنگ۳۔پروف ریڈینگ ۴۔کمپوزنگ وغیرہ ۔۵۔اسکرپٹنگ۶۔ فقہی مسائل کی افہام وتفہیم۷۔تفسیر قرآن۸ ۔ تفہیم و تشریح حدیث۹۔ عام کمرشیل چینل بھی ناظرین کے لیے سوال وجواب کے پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں۔۱۰۔مکالمہ نویسی /ڈرامہ نگاری وغیرہ۔
موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء کرام اور ارباب مدارس اس ضمن میں پیش رفت کریں۔مدارس میں کم از کم جرنلزم کی’ بنیادی تعلیم‘کی اساس رکھی جائےاور باضابطہ’اسلامک جر نلز م‘کے لیے افراد تیار کئے جائیں۔اس میدان میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کی مکمل رہ نمائی ہو۔طلبہ اور اساتذہ دونوں کو چاہئے کہ مختلف موجودہ مسائل پر تحریری مقابلہ کرایا جائے اور ان سب کو مختلف زبانوں کے اخبارات میں اشاعت کے لیے بھیجیں اور یہ بھی نوٹ کریں کہ کن کن زبان کے اخباروں میں کس کے کتنے مضامین شائع ہوئے اور حتی الامکان ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2015